HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۲۴-۲۲۷ (۴۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


وَلاَ تَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِّاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ، وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ {۲۲۴} لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْ ٓ اَیْمَانِکُمْ، وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ{۲۲۵} لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْھُرٍ ، فَاِنْ فَآئُ وْ ، فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۲۲۶} وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ ، فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ {۲۲۷}  

(عورتوں سے متعلق بعض دوسرے معاملات بھی ہیں ، اِنھیں بھی سمجھ لو) اور اپنی ۵۹۵ قسموں کے لیے اللہ کے نام کو دوسروں سے حسن سلوک کرنے اور حدود الہٰی کی رعایت کرنے اور لوگوں کے مابین صلح کرانے میں رکاوٹ نہ بناؤ اور (متنبہ رہو کہ) اللہ سمیع و علیم ہے ۔ اللہ تمھاری اُن قسموں پر تو تمھیں نہیں پکڑے گا جو تم بے ارادہ کھا لیتے ہو، لیکن وہ قسمیں جو دل کے ارادے سے کھاتے ہو ، اُن پر لازماً مواخذہ کرے گا اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ بخشنے والا ہے ، وہ بڑا بردبار ہے ۔ ۵۹۶ (اِس لیے) جو لوگ اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھا بیٹھیں، ۵۹۷  اُن کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ۔ پھر وہ رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے ۔ ۵۹۸ اور اگر طلاق کا فیصلہ کر لیں تو (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ سمیع و علیم ہے ۵۹۹ ۔ ۲۲۴۔ ۲۲۷ 

۵۹۵؎ عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھا لینے کا جو حکم آگے بیان ہوا ہے ، یہ اس کی تمہید ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی قسم کھانا چونکہ اسے گواہ ٹھیرانا ہے ، لہٰذا اول تو کوئی ایسی قسم کھانی نہیں چاہیے جس سے اللہ یا اس کے بندوں کے حقوق تلف ہوتے ہوں، لیکن اس طرح کی قسم اگر اتفاق سے کوئی شخص کھا بیٹھے تو اسے توڑ دینا چاہیے ۔ قسم کے حیلے سے دوسروں کی حق تلفی اور نیکی اور تقویٰ اور نصح و خیر خواہی کے کاموں سے گریز کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے ۔ اس مضمون کے لیے ’ان تبروا و تتقوا وتصلحوا بین الناس‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں ، ان کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اس طرح کی ہے :

’’بر ، تقویٰ اور اصلاح کے تینوں لفظوں نے یہاں خیر اور نیکی کی تمام اقسام کو جمع کر لیا ہے ۔ ’ بر‘ ان تمام نیکیوں پر حاوی ہے جن کا تعلق والدین ، رشتہ داروں ، مسکینوں ، یتیموں اور دوسرے حقوق العباد سے ہے ۔ ’تقویٰ‘ ان نیکیوں پر حاوی ہے جو حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور ’اصلاح‘ سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو معاشرے سے تعلق رکھنے والی ہیں ۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۵۲۹)   

۵۹۶؎ یعنی اس طرح کی قسم تو ہرحال میں توڑ دینی چاہیے ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس پر مواخذہ نہ ہو گا ۔ اللہ ان قسموں پر تو بے شک ، نہیں پکڑیں گے جن کا تعلق دل سے نہیں ہوتا اور وہ بغیر کسی ارادے کے محض تکیۂ کلام کے طور پر زبان سے ٹپک پڑتی ہیں ، مگر ایسی قسم جو پختہ عزم کے ساتھ اور دل کے ارادے سے کھائی گئی ہے ، جس کے ذریعے سے کوئی عہد و پیمان باندھا گیا ہے ، جس سے حقوق و فرائض پر کوئی اثر مترتب ہوتا ہے یا وہ خدا کی کسی تحلیل و تحریم پر اثر انداز ہو سکتی ہے ، اس پر لازماً پکڑیں گے ۔ عام قاعدے کے مطابق اس پکڑ سے بچنے کے لیے آدمی کو توبہ و استغفار کرنی چاہیے ، لیکن قرآن نے آگے سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۸۹ میں بتایا ہے کہ توبہ کے ساتھ اس کے لیے کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔

۵۹۷؎ اس کے لیے اصل میں ’ایلاء‘ کا لفظ آیا ہے ۔ یہ عرب جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم بیوی سے زن و شو کا تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا لینا ہے ۔ اس طرح کی قسم اگر کھا لی جائے تو اس سے بیوی چونکہ معلق ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ چیز عدل و انصاف اور برو تقویٰ کے منافی ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے چار مہینے کی مدت مقرر کر دی ہے ۔ شوہر پابند ہے کہ اس کے اندر یا تو بیوی سے ازدواجی تعلقات بحال کر لے یا طلاق دینے کا فیصلہ ہے تو اس کو طلاق دے دے ۔

              اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عذر معقول کے بغیر بیوی سے ازدواجی تعلق منقطع کر لینا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے لیے اگر قسم بھی کھا لی گئی ہے تو اسے توڑ دینا ضروری ہے ۔ یہ عورت کا حق ہے اور اسے ادا نہ کرنے پر دنیا اور آخرت ، دونوں میں شوہر کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہی معاملہ، ظاہر ہے کہ بیوی کا بھی ہو گا۔ وہ بھی کسی معقول وجہ کے بغیر شوہر کے ساتھ یہ تعلق قائم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی ۔

۵۹۸؎ یعنی اگرچہ یہ قسم حق تلفی کے لیے کھا ئی گئی تھی اور اس طرح کی قسم کھانا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے ، لیکن اصلاح کر لی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیں گے ۔

۵۹۹؎ یعنی اگر طلاق کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس میں اللہ کا قانون اور اس کے حدودو قیود ہرحال میں پیش نظر رہنے چاہییں۔ اللہ ہر چیز کو سنتا اور جانتا ہے ۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو گی تو وہ ہرگز اس سے چھپی نہ رہے گی ۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــ

B