(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۱۰۴۔۱۰۵)
عن علی رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : لایؤمن عبد حتی یؤمن بأربع: یشہد أن لا إلہ إلا اﷲ وأنی رسول اﷲ بعثنی بالحق، ویؤمن بالموت، والبعث بعد الموت، ویؤمن بالقدر۔
ٌٌ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ (پوری طرح) ایمان نہیں لاتا جب تک وہ اس بات کا برملا اقرار نہ کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ وہ موت اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لائے۔اور وہ تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘
لا یؤمن عبد حتی یؤمن بأربع: کوئی بندۂ مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ چار پر ایمان نہ لے آئے۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایمان میں اصل اہمیت کس چیز کو حاصل ہے ۔ان میں سے کوئی جز بھی اگر رہ گیا تو ایمان درست نہیں رہا۔
یشہد: یہ اور اس کے بعد دوبار ’یؤمن‘ آیا ہے ۔یہ دونوں فعل ’یؤمن بأربع‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔
بعثنی بالحق: اس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ یعنی میں اس کا سچا پیغمبر ہوں۔یہ جملے میں دوسری خبر واقع ہوا ہے۔
یہ روایت تمام کتب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سند ہی سے نقل ہوئی ہے۔ اس روایت کے متون میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے ۔ چند لفظی اختلافات حسب ذیل ہیں: بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جملہ ’ثم‘ سے شروع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات کسی طویل گفتگو کا حصہ تھی۔ایک روایت میں ’لا یؤمن‘ کی جگہ ’لن یؤمن‘ آیا ہے۔عام طور پر اس روایت کے متون میں ’عبد‘ کا لفظ نکرہ ہی استعمال ہوا ہے، لیکن ابن حبان کی ایک روایت میں لام تعریف کے ساتھ معرفہ آیا ہے۔ ایمانیات کا پہلا جز اس روایت کے متون میں چار مختلف اسالیب میں بیان ہوا ہے۔ مثلاً کسی میں محض ’یؤمن باللّٰہ‘ کسی میں ’حتی یشہد أن لا الہ الا اﷲ‘یا ’یشہد أن لا إلہ إلا اﷲ‘ اور کسی میں ’باللّٰہ وحدہ لا شریک لہ‘ کے الفاظ سے یہ حقیقت بیان ہوئی ہے۔ ایمان بالرسالت کا جز بھی دو اسالیب میں نقل ہوا ہے۔ کسی روایت میں ’أن اللّٰہ بعثنی بالحق‘ اور کسی روایت میں ’أنی محمد رسول اﷲ بعثنی بالحق‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ زیر نظر روایت میں موت اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا الگ الگ ذکر ہوا ہے۔ بعض روایات میں موت کا ذکر نہیں ہے ۔ صرف بعث بعد الموت کا ذکر ہے۔ تقدیر پر ایمان کا ذکر بھی بعض روایات میں ’خیرہ و شرہ‘ کے اضافے کے ساتھ ہوا ہے اور بعض میں یہ اضافہ مذکور نہیں ہے۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ اس روایت کے متون میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔
دین میں ایمان کو اصل اور جڑ کی حیثیت حاصل ہے۔ دین اسلام میں ایمانیات کے بنیادی اجزا تین ہیں۔ ایک ’لا إلہ إلا اﷲ‘ کا دل اور زبان سے اقرار ، دوسرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت پر ایمان اور تیسرے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقین۔ اس روایت میں اس پر تقدیر کا اضافہ بیان ہوا ہے اور اس مضمون کی حامل دوسری روایات میں فرشتوں اور کتابوں پر ایمان کو بھی ایمانیات کے حصے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔واضح ہے کہ تقدیر پر ایمان ، ایمان باللہ کا جز ہے اور فرشتوں اور کتابوں پر ایمان کا تعلق بنیادی طور پر نبوت و رسالت پر ایمان سے ہے۔ اسی طرح کی کچھ اور جزئی چیزیں بھی اس فہرست میں شامل کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم موقع کلام کی رعایت سے کبھی کچھ اجزا کا ذکر کرتے اور کبھی کچھ دوسرے اجزا کا ذکر کرتے ہیں۔ اس نوع کی روایات میں تقدیر کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ ایمان باللہ کی نسبت سے یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ انسانوں کو کائنات کے محکم اور علت و معلول پر مبنی نظام کو دیکھ کر یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ وجود میں آیا ہے یا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ ہی نے اسے تخلیق کیا ہے تو اب وہ اس میں کوئی مداخلت نہیں کرتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ بات اس لیے فرمائی ہے کہ اہل اسلام اس نوع کی کسی غلطی کا شکا ر نہ ہوں۔
اس روایت میں موت کا ذکر الگ سے بھی ہوا ہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کیا موت کے ساتھ انسان ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی اور معاملہ شروع ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ یہاں موت کا لفظ محض تمہیداً آیا ہے۔ اصل بات وہی ہے جو آگے بیان ہوئی ہے۔
ترمذی ،رقم ۲۰۷۱۔ ابن ماجہ، رقم ۷۸۔مسند احمد ،رقم۷۱۹،۱۰۵۷۔ ابن حبان، رقم ۱۷۸۔ المستدرک علی الصحین،رقم ۹۰۔ الأحادیث المختارہ، رقم ۴۴۰، ۴۴۱، ۴۴۳، مواردالظمآن ، رقم ۲۳۔مسند البزار، رقم ۹۰۴۔ مسند الطیالسی، رقم ۱۰۶۔مسند ابویعلیٰ ۳۵۲، ۵۸۳۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۷۵۔
_______
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: صنفان من أمتی لیس لہما فی الإسلام نصیب: المرجءۃ والقدریۃ ۔
ٌٌ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہ ہیں جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں: ایک مرجۂ اور دوسرے قدریہ۔‘‘
المرجئة : اہل اسلام میں نمایاں ہونے والا وہ گروہ جو جبر کا قائل تھا۔ان کے نزدیک بندوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ ایمان کو معصیت کوئی نقصان نہیں پہنچاتی جس طرح کفر کو اطاعت کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ان کے نزدیک انسانوں سے اعمال کی نسبت اسی نوع کی ہے جس نوع کی نسبت اعمال کی جمادات سے ہے۔’مرجئة‘ اسم فاعل ہے اور اس کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’أرجأ‘ سے بنایا گیا ہے اور یہ بھی کہ یہ ’ارجی‘ سے ماخوذ ہے۔ دونوں فعل کام کو موخر کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔
القدریۃ : یہ لوگ تقدیر کے منکر تھے ۔ یعنی جو کچھ دنیا میں ظاہر ہو رہا ہے ، وہ نیا ہوتا ہے ۔ پہلے سے مقرر کردہ نہیں ہے۔انسان اپنی قدرت اور صلاحیت سے امور سر انجام دیتے ہیں ۔ انسان کے اعمال کا کوئی تعلق اللہ تعالیٰ کے ارادہ و اختیار سے نہیں ہوتا۔ یہ لوگ چونکہ تقدیر کو زیر بحث لاتے رہتے تھے ، اس لیے ان کا نام قدریہ پڑ گیا۔
اس روایت کے متون میں بھی کوئی اہم فرق روایت نہیں ہوا۔ کچھ لفظی فرق حسب ذیل ہیں۔ کچھ روایات میں ’من أمتی‘ کی جگہ ’من ہذہ الأمۃ‘ روایت ہوا ہے۔ مرجۂ اور قدریہ کا انجام بیان کرنے کے لیے کچھ روایات میں ’لیس لہما فی الإسلام نصیب ‘ کے بجائے ’لا تنالہما شفاعتی‘ اور کچھ روایات میں ’لا یردان علی الحوض و لا یدخلان الجنۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ زیر مطالعہ روایت کے آخر میں ان گروہوں کے نام ایک ایک لفظ ’المرجعة‘ اور ’القدریۃ‘ کی صورت میں آئے ہیں ۔ایک روایت میں اس کے بجائے ’أہل الإرجاء‘ اور ’أہل القدر‘ کی ترکیب اختیار کی گئی ہے۔اس روایت کے متون میں ایک متن کافی مفصل ہے ۔ ہم اسے یہاں مکمل نقل کر رہے ہیں:
صنفان من أمتی، لا تنالہم شفاعتی یوم القیامۃ، لعنہم اﷲ علی لسان سبعین نبیا قبلی۔ قیل: فمن ہم، یا رسول اﷲ؟ قال: القدریۃ و المرجءۃ۔ قیل: فمن المرجءۃ؟ قال: الذین یقولوں الایمان قول بلا عمل۔ والقدریۃ الذین یعملون بالمعاصی ویقولون ہی من اﷲ إجبار أما ولو شاء اللّٰہ ما أشرکنا و ما عصینا۔ (مسند الربیع ، رقم ۸۰۶)
’’ میری امت کے دو گروہ ہیں ، قیامت کے دن انھیں میری شفاعت نہیں پہنچے گی۔اللہ تعالیٰ نے ان پرمجھ سے پہلے کے ستر نبیوں کی زبان سے لعنت کی ہے۔پوچھا گیا: یہ کون ہیں،یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: یہ قدریہ اور مرجۂ ہیں۔ پوچھا گیا: یہ مرجۂ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو یہ کہتے ہیں : ایمان عمل کے بغیر صرف قول ہے۔ اور قدریہ وہ ہیں جو گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبر ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہم گناہ کرتے۔ ‘‘
اس روایت کے بارے میں سب سے پہلا سوال اس کی حیثیت کے بارے میں ہے۔ یہ روایت اپنے الفاظ ہی سے واضح ہے کہ ایک موضوع روایت ہے۔ اس روایت میں جس طرح بعد میں پیدا ہونے والے کلامی گروہوں کا نام لیا گیا ہے ، وہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح روایات میں بعد کے زمانوں میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں کا ذکر ہواہے۔ لیکن ان میں اس طرح نامزد کرنے کا اسلوب کہیں بھی اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ روایات یقیناًان گروہوں کے پیدا ہونے کے بعد ان کے ابطال کے لیے وضع کی گئی ہیں۔ متن پر مبنی اس تجزیے کی تائید البانی مرحوم کے اس روایت پر تبصرے سے بھی ہوتی ہے۔ جو فن رجال میں ہمارے دور میں ایک بڑے آدمی ہیں۔ یہ تبصرہ انھوں نے مشکوٰۃ کے حاشیے پر کیا ہے:
۔۔۔ولکنہا ثابتۃ فی سنن ترمذی۰ وہو عندہ من طریقین ضعیفین: عن عکرمۃ، عن ابن عباس۔ وقد رویت لہ شواہد، ولکنہا واہیہ کلہا۔ حتی عدہ بعضہم من الموضوعات۔ قال العلانی: والحق أنہ ضعیف لا موضوع ۔
’’۔۔۔مگر یہ سنن ترمذی میں ثابت ہے ۔ ان کی رائے میں یہ دو ضعیف سندوں سے ملتی ہے: ایک عکرمہ سے اور ایک ابن عباس سے ۔ اس کے شواہد بھی روایت کیے گئے ہیں ۔ لیکن یہ سب کے سب واہی ہیں ۔ حتیٰ کہ انھیں بعض نے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ علانی کے نزدیک: درست بات یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے ، موضوع نہیں ہے۔‘‘
اپنی اس حیثیت میں یہ روایت یہ حق نہیں رکھتی کہ اس کی شرح کی جائے۔لیکن قارئین کی اطلاع کے لیے صرف ان بحثوں کا ایک خلاصہ بیان کر نا کافی ہوگا جو شارحین نے اس روایت کے تحت کی ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ’لیس لہما فی الاسلام نصیب‘ سے کیا مراد ہے۔ متون کی بحث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ جملے اس سے بھی سخت روایت کیے گئے ہیں۔ لیکن بالعموم شارحین کا خیال یہ ہے کہ یہ ان کے کفر پر دلالت کے لیے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان گروہوں کی غلطی اجتہادی ہے۔بس اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ لوگ اسلام کے خیر کے بڑے حصے سے محروم ہیں۔دوسرا سوال اس روایت کے ضمن میں یہ زیر بحث آیا ہے کہ آیا گمراہ فرقوں کی تکفیر جائز ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد وہ علما کے طرز عمل سے استدلال کرتے ہوئے اسی رائے کو ظاہر کرتے ہیں کہ تکفیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ کسی زمانے میں بھی علما نے ان گروہوں کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلق کو منقطع نہیں کیا۔
یہ نکات محض معلومات کے لیے بیان کیے گئے ہیں ۔ورنہ کوئی واہی روایت کسی استدلال کے لیے ہرگز موزوں نہیں۔
ترمذی، رقم ۲۰۷۵۔ابن ماجہ، رقم ۶۱،۷۲۔مجمع الزواید، ۷/ ۲۰۶۔ مسند الربیع ، رقم ۸۰۶۔ المعجم الاوسط، رقم ۵۸۱۷ ۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۵۷۹۔
____________