[ان روایات کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں زاویۂ فراہی کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے۔]
روی ۱انہ نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الدباء والحنتم والنقیر والمزفت ، ۲ لا یکون زیتا او خلا، ۳ وان یخلط البلح بالزھو ۴ وان یخلط التمر بالزبیب والزھو بالتمر۔ ۵ وکل مسکر حرام ۔ ۶
وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا لم یجد شیئا ینتبذ لہ فیہ نبذ لہ فی تورمن حجارۃ۔ ۷
روایت ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دبا، حنتم ، نقیر اور مزفت ۱ ( جیسے شراب تیارکرنے والے برتنوں میں مشروب بنانے) سے منع فرمایا سوائے اس کے کہ ( ان کا استعمال) روغن زیتون یا سرکہ (بنانے کے لیے ) ہو۔ ۲ اور اس سے بھی کہ (شراب تیار کرنے کے لیے ان برتنوں میں کچی کھجور) بلح کو (زرد یا سرخ کچی کھجور) زہومیں ملایا جائے یا (پکی ہوئی خشک کھجور) تمرکو(خشک انگور) زبیب میں اور زہو کو تمر میں ملایا جائے ۔ ۳ (اس لیے کہ ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ ۴
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے ان برتنوں سے گریزکا عالم یہ تھا کہ آپ) کواگر نبیذ بنانے کے لیے بھی کوئی اوربرتن میسر نہ ہوتا تو (پھر بھی آپ انھیں استعمال نہ فرماتے، بلکہ) پتھر کے برتن میں نبیذ تیار کر لیتے۔ ۵
[۱] یہ ان خاص برتنوں کے نام ہیں جن میں اہل عرب عام طور پر شراب تیار کرتے تھے۔
[۲] ان برتنوں کی ممانعت اصل میں ان میں تیار ہونے والی شراب کی ممانعت ہے۔ان میں روغن زیتون اور سرکہ بنانے کی اجازت سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا استعمال اصلاً ممنوع نہیں ہے ۔یہاں معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص موقع پر سد ذریعہ کے اصول کے تحت یہ حکم دیا ہے اور اس کا مقصد شراب کے خبث کو نہایت درجہ واضح کرنا اور مسلمانوں کو اس کی ادنیٰ آلایش سے بھی محفوظ رکھنا ہے ۔چنانچہ بعد میں جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں پر شراب کی خرابی پوری طرح واضح ہو گئی ہے اور برتنوں کی کمی کی وجہ سے انھیں کچھ مشکل بھی پیش آ رہی ہے تو آپ نے ان کے عام استعمال کی اجازت دے دی۔ ذیل کی روایات سے یہی بات واضح ہوتی ہے:
انتبذوا فیما رایتم، واجتنبوا کل مسکر ۔(نسائی ، رقم۲۰۰۶)
’’تم جس(برتن)میں چاہو نبیذ بنا سکتے ہو۔البتہ ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرتے رہو۔‘‘
وامرتکم بظروف وان الوعاء لا یحل شیاء ولا یحرمہ فاجتنبوا کل مسکر۔ (احمد، رقم ۲۱۹۶۰)
’’میں نے تمھیں بعض برتن استعمال کرنے سے روکا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی برتن کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں بناتا۔چنانچہ اصل بات یہ ہے کہ( ان برتنوں سے نہیں، بلکہ ان میں تیار ہونے والی) ہرنشہ آور چیز سے اجتناب کرو۔‘‘
فقال اعرابی : انہ لا ظروف لنا فقال اشربوا ما حل واجتنبوا ما اسکر۔(ابوداؤد، رقم۳۲۱۴)
’’ایک بدو نے کہا کہ (ان برتنوں کے علاوہ) ہمارے پاس کوئی اور برتن نہیں ہیں تو آپ نے فرمایا کہ جو حلال ہے اسے پیو اور جو نشہ آور ہے ، اس سے اجتناب کرو۔‘‘
[۳] عرب شراب بنانے کے لیے عام طور پر یہی طریقے اختیار کرتے تھے۔
’البلح‘ بالکل ابتدائی مرحلے کی سبز کچی کھجور کا نام ہے اور ’الزھو‘ پکنے کی طرف مائل زرد یا سرخ کچی کھجور کو کہتے ہیں۔ عربی لغت ’’مختار الصحاح‘‘ میں کھجور کے مختلف مراحل کے یہ نام درج ہیں: ’الطلع‘، ’الخلال‘، ’البلح‘، ’البسر‘، ’الرطب‘، ’التمر‘۔ ’التمر‘ کا لفظ پکی ہوئی خشک کھجور کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ’الزبیب‘ خشک انگور کو کہا جاتا ہے۔
[۴] قرآن مجید نے شراب نوشی کو نجس شیطانی عمل قرار دیا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے۔ بعض دوسرے شیطانی افعال کے ساتھ اس کا ذکر اس طرح کیا ہے:
’’ ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر ، سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘( المائدہ ۵: ۹۰)
[۵] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ ان اشیا سے دور رہنا چاہیے جو عرف عام میں برے کاموں سے وابستہ ہوں۔
۱۔اپنی اصل کے اعتبارسے یہ مسلم کی روایت ، رقم ۱۹۹۵ہے۔ کچھ فرق کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
نسائی ، رقم ۵۱۷۰، ۵۱۷۱، ۵۵۴۸، ۵۵۴۹، ۵۵۵۷، ۵۵۸۹، ۵۵۹۰، ۵۶۲۳، ۵۶۳۱، ۵۶۳۲، ۵۶۳۳، ۵۶۳۴، ۵۶۳۶، ۵۶۳۷، ۵۶۳۸، ۵۶۴۰، ۵۶۴۳، ۵۶۴۴، ۵۶۴۵، ۵۶۴۷، ۵۶۴۸، ۵۶۴۹، ۵۶۷۸۔ ابو داؤد، رقم ۳۶۹۰، ۳۶۹۷۔ ابن ماجہ ، رقم ۳۴۰۱، ۳۴۰۲، ۳۴۰۳، ۳۴۰۴۔ احمد ابن حنبل ، رقم ۱۸۵، ۳۶۰، ۹۶۳، ۱۱۶۲، ۱۱۶۳، ۲۴۹۹، ۲۶۰۷، ۲۶۵۰، ۲۷۶۹، ۲۷۷۲، ۳۰۸۶، ۳۱۵۷، ۳۱۶۶، ۳۳۰۰، ۴۹۱۴، ۵۰۱۵، ۵۲۲۴، ۵۴۹۴، ۶۰۱۲، ۷۷۳۸، ۹۳۴۳، ۱۰۵۱۷، ۱۱۸۶۷، ۱۱۸۶۸، ۱۱۸۶۹، ۱۱۸۷۰، ۱۰۲۹۲، ۱۴۸۸۶، ۱۵۱۰۲، ۱۵۱۶۲، ۱۵۱۸۲، ۱۶۸۴۱، ۱۶۸۵۳، ۱۷۸۹۳، ۱۷۸۹۵، ۱۷۸۹۷، ۱۹۸۵۱، ۱۹۹۹۴، ۲۰۵۹۶، ۲۰۶۵۷، ۲۰۶۶۴، ۲۴۰۷۰، ۲۴۲۴۷، ۲۴۵۵۱، ۲۴۷۰۰، ۲۴۷۱۵، ۲۴۸۵۸، ۲۴۹۶۶، ۲۵۰۴۴، ۲۵۴۲۹، ۲۵۴۳۶، ۲۶۰۹۹، ۲۶۱۱۴، ۲۶۷۱۵، ۲۶۸۶۶، ۲۶۸۶۷۔ دارمی ، رقم ۲۱۱۲۔ ابن حبان ، رقم ۵۳۷۹، ۵۳۹۷، ۵۴۰۱، ۵۴۰۳، ۵۴۰۵، ۵۴۰۶، ۵۴۰۷، ۵۴۰۸، ۵۴۱۱۔ بیہقی ، رقم ۱۷۱۴۶، ۱۷۲۴۵، ۱۷۲۴۶، ۱۷۲۵۲، ۱۷۲۵۳، ۱۷۲۵۴، ۱۷۲۵۵، ۱۷۲۵۶۔ عبد الرزاق ، رقم ۱۶۹۲۶، ۱۶۹۲۷، ۱۶۹۳۳، ۱۶۹۳۴، ۱۶۹۳۵ ، ۱۶۹۳۷، ۱۶۹۶۰، ۱۶۹۶۲، ۱۶۹۶۳، ۱۶۹۶۴، ۱۶۹۶۵، ۱۶۹۶۶، ۱۶۹۶۸۔ ابن ابی شیبہ ، رقم ۲۳۷۷۹، ۲۳۷۸۰، ۲۳۷۸۱، ۲۳۷۸۲، ۲۳۷۸۵، ۲۳۷۸۶، ۲۳۷۸۷، ۲۳۷۸۸، ۲۳۷۸۹، ۲۳۷۹۰، ۲۳۷۹۲، ۲۳۷۹۳، ۲۳۷۹۴، ۲۳۷۹۵، ۲۳۷۹۶، ۲۳۷۹۸، ۲۳۸۰۲، ۲۳۸۰۴، ۲۳۸۰۵، ۲۳۸۰۷، ۲۳۸۰۸، ۲۳۸۰۹، ۲۳۸۱۰، ۲۳۸۱۱، ۲۳۸۲۰، ۲۳۸۲۱، ۲۳۸۶۹، ۲۳۸۷۰، ۲۳۸۷۱، ۲۳۸۷۲، ۲۴۶۶۱۔ ابو یعلیٰ، رقم ۱۳۲۲، ۱۳۲۳، ۴۴۵۰، ۶۰۷۷، ۶۱۲۸۔
۲۔ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۵۶۳۱ میں ’دبا‘، ’حنتم‘، ’نقیر‘ اور ’مزفت‘ کے بعد ’القرع‘ کالفظ آیا ہے۔ نسائی ہی کی ایک روایت ، رقم۵۶۴۵ کے مطابق یہ لفظ ’الدبا‘ کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔یہاں ’والنقیر‘ کا اضافہ نسائی ، رقم ۵۵۹۰ کی بنا پر ہے۔ ابن حبان، رقم۵۴۰۳ کے مطابق ’نبیذ الجر‘ کے الفاظ بھی ممنوعہ اشیا کے طور پر آئے ہیں۔
۳۔ ’لا یکون زیتا او خلا‘ (سوائے اس کے کہ ان کا استعمال روغن زیتون یا سرکہ بنانے کے لیے ہو۔) کے الفاظ نسائی ، رقم ۵۶۳۶ سے لیے گئے ہیں۔
۴۔ ’و ان یخلط البلح بالزھو‘ (اور اس سے بھی کہ بلح کو زہو میں ملایا جائے) کے الفاظ مسلم، رقم ۱۷ سے لیے گئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۵۵۴۹ میں یہی بات ’و ان یخلط التمر بالزبیب والزھو بالتمر‘ (اور اس سے بھی کہ تمر کو زبیب میں اور زہو کو تمر میں ملایا جائے) کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے، جبکہ بعض روایات مثلاً نسائی ، رقم ۵۵۵۷ میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’و عن البسر والتمر ان یخلطا و عن الزبیب والتمر ان یخلطا وکتب الی اہل حجر ان لا تخلطوا الزبیب والتمر جمیعا۔‘ (آپ نے منع فرمایا کہ بسر یعنی گدر کھجور کو تمر میں اور زبیب کو تمر میں ملایا جائے۔ آپ نے اہل حجر کو لکھا کہ وہ زبیب اور تمر کو آپس میں نہ ملائیں)۔
۵۔ ’و ان یخلط التمر بالزبیب والزھو بالتمر‘ (اور اس سے بھی کہ تمر کو زبیب میں اور زہو کو تمر میں ملایا جائے) کے الفاظ نسائی، رقم ۵۵۴۹ سے لیے گئے ہیں۔
۶۔ ’وکل مسکر حرام‘ (ہر نشہ آور چیز حرام ہے) کا جملہ نسائی، رقم۵۵۹۰ سے لیا گیا ہے۔
۷۔ متن کے آخر میں درج یہ حصہ : ’و کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا لم یجد شیاء ینتبذ لہ فیہ ، نبذ لہ فی تور من حجارۃ‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر نبیذ بنانے کے لیے بھی کوئی اور برتن میسر نہ ہوتا تو پتھر کے برتن میں نبیذ تیار کر لیتے) مسلم، رقم ۱۹۹۸ سے لیا گیا ہے۔
_______
روی ۱ انہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنی کنت نھیتکم ان لا تنتبذوا فی الظروف : الدباء والمزفت والنقیر والحنتم ۔ انتبذوا فیما رأیتم ، واجتنبوا کل مسکر۔ ۲
روایت ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں دبا، مزفت، نقیر اور حنتم جیسے (شراب تیار کرنے والے) برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔ ۱ (لیکن اب اجازت دیتا ہوں کہ) تم جس برتن میں چاہو ، نبیذ بنا سکتے ہو۔ ۲ ہر نشہ آور چیز سے ، البتہ پرہیز کرتے رہو۔
۱۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دبا، حنتم ، مزفت اور نقیرمیں نبیذ تیار کرنے سے منع فرمایا تھا۔یہ ان خاص برتنوں کے نام ہیں جن میں اہل عرب عام طور پر شراب تیار کرتے تھے۔ قرآن مجید اور بعض دوسری روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسے برتنوں سے ممانعت اصل میں ان میں تیار ہونے والی شراب سے ممانعت تھی۔ اس موضوع کی تمام روایات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے کسی خاص موقع پر سد ذریعہ کے اصول کے تحت یہ اسلوب اختیار فرمایا تھا اور ا س کا مقصد شراب کے خبث کو نہایت درجہ واضح کرنا اور مسلمانوں کو اس کی ادنی آلایش سے بھی محفوظ رکھنا تھا۔
۲۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد ازاں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں پر شراب کی شناعت پوری طرح واضح ہو گئی ہے اور وہ یہ برتن میسر نہ ہونے کی وجہ سے بعض مسائل سے بھی دوچار ہیں تو آپ نے ان کے استعمال کی اجازت دے دی۔ نسائی، رقم ۵۶۵۶اور بیہقی، رقم۱۷۲۰۵، ۱۷۲۰۶ میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے ۔ اسی ضمن کی ایک روایت یہ ہے:
روی انہ بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی القوم ۔ فدعاھم فقال : فی ای شی ء تنتبذون ۔ قالوا : ننتبذ فی النقیر والدباء ولیس لنا ظروف ۔ فقال : لا تشربوا الا فیما اوکیتم علیہ ۔ قال : فلبث بذلک ما شاء اللّٰہ ان یلبث ثم رجع علیھم فاذا ھم قد اصابھم وباء واصفروا۔ قال : ما لی اراکم قد ھلکتم؟ قالوا : یا نبی اللّٰہ ، ارضنا وبیءۃ وحرمت علینا الا ما اوکینا علیہ ۔ قال : اشربوا وکل مسکر حرام ۔ (نسائی،رقم ۵۶۵۵)
’’روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قوم کے لوگوں کو بلوایا۔ جب وہ پہنچے تو آپ نے ان سے پوچھا: تم نبیذ بنانے کے لیے کون سے برتن استعمال کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا : ہم نقیر اور دبا میں نبیذ تیار کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور برتن نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: خمیر اٹھایا ہوا مشروب مت پیو، سوائے اس مشروب کے جسے تم نے برتن کا منہ بند کر کے تیار کیا ہو۔ کچھ عرصہ بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو دوبارہ دیکھاتوآپ نے انھیں کسی متعدی مرض میں مبتلا پایا۔ آپ نے ان سے پوچھا:کیا وجہ ہے کہ مجھے تم کچھ بیمار لگ رہے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا: اے اللہ کے نبی، ہماری سرزمین وبائی امراض کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے ، (پہلے ہم خمیر اٹھائے ہوئے مشروبات کوان امراض سے بچاؤ کے لیے استعمال کر لیا کرتے تھے،) مگر آپ نے بند منہ والے برتن میں بنے ہوئے مشروب کے علاوہ ہر طرح کا مشروب حرام قرار دے دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم مشروب پیو، مگر یہ بات یاد رکھو کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘
بعض روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزفت کے استثنا کے ساتھ ان برتنوں کے عام استعمال کی اجازت دی۔ بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
لما نھی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الاسقیۃ قیل للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس کل الناس یجد سقاء فرخص لھم فی الجر غیر المزفت ۔ (رقم۵۲۷۱ )
’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (ان) برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا (جو عام طور پر شراب تیار کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے) تو لوگوں نے آپ کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ سب لوگوں کے پاس پینے کے (متبادل)برتن نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ نے مزفت کے علاوہ تمام برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی۔‘‘
یہ روایت کچھ فرق کے ساتھ ان مقامات پر نقل ہوئی ہے:
مسلم، رقم ۲۰۰۰ ۔ نسائی، رقم ۵۶۵۰ ۔ ابوداؤد، رقم ۳۷۰۰ ۔ احمد ابن حنبل ، رقم ۶۴۹۷۔ نسائی سنن الکبریٰ ، رقم ۵۱۶۰، ۶۸۴۱۔ بیہقی، رقم ۱۷۲۵۷، ۱۷۲۵۸۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۱۱۸۱۳، ۲۳۷۵۲، ۲۳۷۸۰ اورمسند الحمیدی، رقم۵۸۲ ۔
اس میں مزفت کے استثنا کے بارے میں دوباتیں قیاس کی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ راویوں سے سہو ہوا ہے اوردوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ برتنوں کی حرمت ختم کرنے کے لیے تدریجی طریقہ اختیار کیا ہے۔ دوسری رائے اختیار کرنے کی صورت میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی طور پر شراب تیار کرنے والے برتنوں کے ہر طرح کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہو گی۔ پھر آپ نے کچھ برتنوں کے عام استعما ل پر پابندی اٹھا لی اور کچھ پر قائم رکھی۔ مزفت کا شمار بھی انھی برتنوں میں ہوتاہوگا جن پر دوسرے مرحلے میں بھی پابندی عائد رہی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ شراب کی تیاری کے لیے مزفت کا استعمال سب سے بڑھ کر ہو گا۔
بالآخر آپ نے تمام برتنوں کے عام استعمال کی اجازت دے دی اور یہ بات واضح کر دی کہ ممانعت کا اصل تعلق کسی خاص ساخت کے برتن سے نہیں، بلکہ شراب سے ہے جو عام طور پر ان برتنوں میں تیار ہوتی تھی۔
۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ نسائی کی روایت رقم ۲۰۳۳ ہے۔ کچھ فرق کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
نسائی ، رقم ۴۴۲۹، ۵۶۵۱، ۵۶۵۳۔ ابو داؤد ، رقم ۳۷۰۰، ۳۷۰۱۔ احمد ابن حنبل ، رقم ۱۲۳۵، ۴۳۱۹، ۶۹۷۹، ۱۳۵۱۲، ۱۳۶۴۰، ۲۳۰۵۳، ۲۳۰۵۵، ۲۳۰۶۵، ۲۳۰۶۶، ۲۳۰۶۷، ۲۳۰۸۸۔ ابن حبان ، رقم ۳۱۶۸، ۵۴۰۰، ۵۴۰۹۔ نسائی سنن الکبریٰ، رقم ۲۱۶۰، ۴۵۱۹، ۵۱۶۱، ۵۱۶۲۔ بیہقی، رقم ۶۹۸۸، ۶۹۸۹، ۱۷۱۸۷، ۱۷۲۶۱، ۱۷۲۶۵۔ دارقطنی ، رقم ۶۶، ۶۷، ۶۸، ۶۹ ابن ابی شیبہ ، رقم ۱۱۸۱۳، ۲۳۹۴۱، ابو یعلیٰ، رقم ۳۷۰۵، ۵۲۹۹، عبد الرزاق ، رقم ۱۱۸۱۳، ۲۳۷۵۲، ۲۳۷۸۰، ۲۳۷۸۱، ۲۳۷۸۲، ۲۳۷۸۳، ۲۳۷۸۴، ۲۳۷۸۵، ۲۳۷۸۶، ۲۳۷۸۷، ۲۳۷۸۸، ۲۳۷۸۹، ۲۳۷۹۰، ۲۳۷۹۲، ۲۳۷۹۴، ۲۳۷۹۵، ۲۳۷۹۸، ۲۳۸۰۲، ۲۳۸۰۴، ۲۳۸۰۶، ۲۳۸۷۰، ۲۳۸۷۱، ۲۳۹۴۲، ۲۳۹۴۳، ۲۳۹۴۴، ۲۳۹۴۵، ۲۳۹۴۶، ۲۳۹۴۷، ۲۳۹۴۸۔
۲۔ بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۲۳۰۸۸ میں ’انتبذوا فیما رایتم واجتنبوا کل مسکر‘ (تم جس میں چاہو نبیذ بنا سکتے ہو۔البتہ ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرتے رہو۔) کی جگہ ’وامرتکم بظروف وان الوعاء لا یحل شیاء ولا یحرمہ فاجتنبوا کل مسکر‘ ( میں نے تمھیں بعض برتن استعمال کرنے سے روکا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی برتن کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں بناتا۔ چنانچہ اصل بات یہ ہے کہ ہر نشہ آور چیز سے اجتناب کرو) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہی بات ابوداؤد، رقم ۳۷۰۰ اور ۳۷۰۱ میں ان الفاظ میں آئی ہے: ’فقال اعرابی انہ لا ظروف لنا فقال اشربوا ما حل واجتنبوا ما اسکر‘۔ (ایک بدو نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی اور برتن نہیں ہیں تو آپ نے فرمایا کہ جو حلال ہے ، اسے پیو اور جو نشہ آور ہے ، اس سے اجتناب کرو)۔
____________