انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے ساتھ کسی قسم کا اخلاقی وجود لے کرنہیں آتا۔ اس کے اخلاقی وجود کی تشکیل ان افعال و اعمال سے ہوتی ہے جن کا ظہور دنیا میں آنے کے بعد اس کی ذات سے ہوتا ہے۔ چنانچہ اخلاقی وجود پر کسی قسم کی گفتگو کرنے سے پہلے یہ بہتر ہوگا کہ ہم اس کی تشکیل میں کارفرما عوامل کو اچھی طرح سمجھ لیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اسباب و محرکات کو معلوم کریں جو انسانی افعال و اعمال کے پس پشت کام کرتے ہیں۔ان بنیادوں کو متعین کریں جن کے اوپر وہ اپنی عملی زندگی کے گھروندے کی تعمیر کرتا ہے۔انسانی عمل کے یہ محرکات مندرجہ ذیل ہیں۔
انسان کے عمل کا پہلا اور سب سے قوی محرک ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کے ساتھ کچھ لازمی ضروریات لگی ہوئی ہیں جن کو پورا کیے بغیر وہ جی نہیں سکتا۔ انسان کو بھوک لگتی ہے۔ وہ پیاس محسوس کرتاہے۔ اسے ایک چھت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنے وجود کے تسلسل کے لیے وہ اولاد کا محتاج ہے۔یہ اور اس جیسی دیگر کئی ضروریات ہیں جن کی عدم تکمیل اس کی بقا کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ چنانچہ انسان ان کی تکمیل کے لیے تگ ودو شروع کردیتا ہے۔ اور اسی تگ و دو سے حیات انسانی کا سب سے ضخیم باب تشکیل پاتا ہے۔ بھوک کو ہی لے لیجیے ۔زمانہ قبل از تاریخ میں شکار کے پیچھے بھاگنے سے لے کر آج دفتروں میں بیٹھ کر فائلوں کی ورق گردانی کرنے تک انسان نے جو کچھ کیا ہے ، اس کے پیچھے یہی ضرورت کارفرما رہی ہے جس کی تسکین اس کے وجود کی بقا کے لیے نا گزیر ہے۔ بلکہ کارل مارکس نے تو معاش کوبنیاد بناکر انسانی تاریخ کو متعین کرنے کی کوشش تک کرڈالی ہے۔
انسان کی سعی و کاوش کا یہ سلسلہ ضروریات کی تکمیل پر ختم نہیں ہوجاتا ، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان میں خواہشات کا ایک ایسا تلاطم بھی برپا رہتا ہے جو اسے خوب سے خوب تر کی جستجو پر مجبور رکھتا ہے۔ وہ صرف اپنی ضرورت پوری ہونے پر ہی قانع نہیں رہتا ، بلکہ خواہش کرتا ہے کہ بہتر سے بہترطریقے پر اسے اپنی مراد حاصل ہو۔یہی خواہشات کی وہ زنجیر ہے جو اس حیوان ناطق کو کشاں کشاں جھونپڑی سے محل اور گھر کے سکون سے تخت شاہی کے ہنگاہوں تک ہنکاتی ہوئی لے جاتی ہے اور دال سبزی سے پیٹ کی آگ بجھانے والا انسان لذت کام و دہن کا ایک ایسا خوان نعمت سجاتا ہے جس کی وسعت سات سمندر سے زیادہ ہے۔
ضروریات و خواہشات کے یہ محرکات اس کے میدان عمل کی حد بندی کا آخری نشان نہیں ، بلکہ جذبات و احساسات کی رنگین اور جادوئی دنیا بھی انسان کی توانائیوں کو دعوت عمل دیتی ہے۔ انسان کو غصہ آتا ہے۔ بالکل ایسے ہی اسے پیار بھی آتا ہے۔وہ عہدووفا کی پاس داری کرتا ہے اور دوستی اور محبت کے تقاضوں کو بھی نبھاتا ہے۔ وہ بغض و حسد کی آگ میں جلتا ہے اور نفرت و عداوت کے صحرا میں بھی جھلستا ہے۔ وہ عقیدت کی شمع جلاتا ہے اور اطاعت کے پھول بھی نچھاور کرتا ہے۔ وہ سرکشی کا لاوہ اگلتا ہے اور بغاوت کی آندھی بھی اٹھاتا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کے جذبات اسے اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں وہ اپنی جان دے دیتا ہے اور دوسروں کی جا ن لے بھی لیتا ہے۔
اصولی طور پر انسانی عمل کو مہمیز لگانے والے عناصر کی کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہیے ، مگر انسانی جذبوں میں ہی ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو اپنی اہمیت، انسانی شخصیت میں اپنی گہری اساسات اور عملی زندگی میں اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے بالکل منفردحیثیت کا حامل ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا ذکر الگ کیا جائے۔یہ جذبۂ شہوت یا جنس کا جذبہ ہے۔ جنس کا جذبہ انسانی اعمال اور رویوں پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے، اگر اسے دیکھنا ہے تومثال کے طور پر کسی مخلوط تعلیمی ادارے میں چلے جایئے۔ یہی جذبہ اشتہار کی صنعت میں خواتین کے بے جا استعمال کی واحد توجیہ ہے ۔انسان آج ہی ایسا نہیں ہوا ۔ انسان کی مجموعی تاریخ میں اس کے اثرات دیکھنے ہوں تو ادب اور آرٹ کی تاریخ ملاحظہ کرلیجیے ۔ فنون لطیفہ کی داستان پڑھ لیجیے۔ مصوری و مجسمہ سازی، شعرو شاعری، فلم و موسیقی غرض کسی بھی شعبے میں ہونے والے کام کو دیکھ لیجیے ۔ آپ جان لیں گے کہ انسان کے اعصاب پر کس طرح یہ جذبہ سوار رہا ہے۔ فرائڈ نے جو کچھ کہا اس سے کلی ا تفاق تو نہیں کیا جاسکتا ، مگر اس کی کلی تردید بھی ممکن نہیں۔
ضروریات، خواہشات، جذبات اور شہوات کے یہ چار بنیادی محرکات ہیں جو انسانی عمل کی اساس ہیں اور جن کی بنیاد پر انسان اپنی دنیا آباد کرتا ہے۔تاہم اس مرحلے پر ایک اور اہم سوال کا جواب دینا ضروری ہے ۔ وہ سوال یہ ہے کہ خود یہ محرکات کہاں سے آتے ہیں؟ ان کا منبع اور سرچشمہ کہاں ہے؟اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسانی شخصیت کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیں اور ان عناصر کو دریافت کریں جن سے مل کر ایک انسانی وجود تشکیل پاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم قرآن مجید سے مدد لیتے ہیں ۔ سورۂ سجدہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے عمل کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’وہی ہے جس نے جو چیز بھی بنائی خوب بنائی اور انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی ۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے ست سے چلایا ۔ پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمھارے کان ، آنکھ اور دل بنائے ۔ تم کم ہی شکر کرتے ہو۔‘‘ ( ۳۲: ۷۔۹)
یہ اور اس موضوع سے متعلق دیگرآیات بتاتی ہیں کہ انسانی وجود کی تخلیق میں تین عناصر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک اس کا حیوانی وجود، دوسرا روحانی اور تیسرا اس کا عقلی وجود۔ اس کا حیوانی وجود دیگر جان داروں کی طرح مادی عناصر کی آمیزش سے تشکیل پاتا ہے ۔ تمام حیوانی جبلتیں اور نظام اس کے وجود کا اسی طرح حصہ ہیں جس طرح دوسرے حیوانات کا حصہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تخلیق آدم سے لے کر آج تک ہر انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا کل سرمایہ صرف ایک حیوانی وجود نہیں ہوتا ، بلکہ وہ خدا کی طرف سے پھونکی گئی ایک اور شے بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔اس پھونک کی حقیقت کو تو ہم متعین نہیں کرسکتے ، البتہ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ اس پھونک کے باعث انسان اپنے اندرایک روحانی شعور اور شخصیت محسوس کرتا ہے جس کا ادراک حیوانی جسم رکھنے والا کوئی دوسرا جانور نہیں کرسکتا۔ حیوانی اور روحانی وجود ، دونوں مل کر انسان کی بنیادی شخصیت کی صورت گری کرتے ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ جو تیسری چیز انسان کو عطا کی گئی ہے ، وہ سوچنے سمجھنے، غور وفکر اور عقل و بصیرت کی وہ استعداد ہے ،جسے قرآن اکثر کان، آنکھ اور دل کے اسلوب سے تعبیر کرتا ہے۔ یہی انسان کا عقلی وجود ہے۔
انسانی شخصیت انھی تین رنگوں سے مرکب ہے۔اور اس دنیا میں جب کبھی وہ اپنی ذات کا اظہار کرتا ہے تو انھی تین پہلووں میں سے کسی ایک یا ان تینوں کے مجموعے کا کوئی عکس صفحۂ ہستی پر نمودارہوتا ہے۔ انسان کی شخصیت کے یہی پہلو ہیں جن سے وہ محرکات پھوٹتے ہیں جن کاکچھ تذکرہ ہم اوپر کرچکے ہیں۔چنانچہ بھوک اس لیے ہے کہ انسان کے حیوانی وجود کا یہ تقاضا ہے ۔ اسے اپنی بقا کے لیے خوراک چاہیے۔ پھر انسان اس کے لیے معاش کی جدوجہد کرتا ہے۔ اس کا روحانی وجود مادی تقاضوں سے بلند ہوکر کچھ دوسری حقیقتوں کا متلاشی رہتا ہے۔ یہ تلاش اس کے روحانی وجود کا لازمی تقاضا ہے۔ جس کے نتیجے میں مذہبیت کا پورا کارخانہ وجود میں آتا ہے۔ انسان کو قلب و نظر دیے گئے ہیں جن کی مدد سے وہ چیزوں پر غور وفکر کرتا ہے۔ ان کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے۔چنانچہ علم، فکر اور فن کی دنیا وجود پاتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں ، وہ اصلاً انسان کی اس سہ جہتی شخصیت کے اثرات ہیں جو زمین کے ہر اس خطے پر نقش ہیں جہاں اس کا قدم پہنچا۔
انسان کی تخلیق کردہ یہی سہ رنگی دنیا جو مذکورہ بالا محرکات کی چار دیواری میں قائم ہے ، انسان کے اخلاقی وجود کی دنیا ہے۔ یہی وہ دنیا ہے جہاں انسان اپنا اظہار کرتا ہے اور یہی وہ دنیا ہے جس کی نوعیت کل قیامت کے دن یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ انسان خدا کی رحمت کا مستحق ہے یا غضب کا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی حیوانی، روحانی اور عقلی شخصیت کو اپنے ہاتھوں سے وجود دینے کے بعد رب کائنات کیا اس کی اخلاقی دنیا سے بالکل بے نیاز ہوگیا ہے؟ حالانکہ یہی وہ دنیا ہے جہاں وہ انسان کا امتحان لیتا ہے۔ کیا اس معاملے میں انسان کو کوئی رہنمائی دی گئی ہے جس کی بنیاد پر انسان کا امتحان ہوگا یا اسے ضروریات، خواہشات، جذبات اور شہوات کے اندھے کنوئیں میں با لکل تنہا چھوڑ دیا گیاہے؟کیا حیوانی اور روحانی وجود میں توازن کی کوئی راہ نہیں دکھائی گئی ہے؟ کیاانسان کے قواے عقلیہ کو کوئی رہنما اصول نہیں دیے گئے ہیں؟کیا انسان کو بے آسرا کرکے اس کے ماحول کے حوالے کردیا گیا ہے ؟ کیا اس کی باگ وراثت کے ہاتھ میں چھوڑ دی گئی ہے کہ جہاں چاہے بگٹٹ اسے دوڑاتی پھرے؟کیا انسان کو معلوم ہے کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ کیا نیکی ہے اور کیا بدی؟ کیا خیر ہے اور کیا شر؟ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟
قرآن اس سوال کا جواب بڑے واضح انداز میں یہ دیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو بھیجتے وقت جس طرح اسے ایک مکمل حیوانی اور روحانی وجود دیا گیا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں زاد راہ کے طور پر اس کے ہم رکاب کی گئی ہیں ، اسی طرح انسان اس دنیا میں خیر و شر کے مکمل شعورکے ساتھ بھیجا جاتاہے۔ وہ اس مادی دنیا میں اجنبی ضرور ہوتا ہے ، مگر اخلاقیات کی دنیا کا کوئی گلی کوچہ اس کے لیے اجنبی نہیں ہوتا۔ یہ شعور اس درجہ کا ہوتا ہے کہ کسی پیغمبر کی رہنمائی نہ ہو تب بھی اسی کی بنیاد پر قیامت کے دن انسان کی فلاح یا ہلاکت کا فیصلہ ہوجائے گا۔قرآن صراحت کے ساتھ کہتا ہے:
’’قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کیا، کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے گھٹیا بنایا۔‘‘ ( سورۂ شمس۹۱: ۷۔۱۰)
اسی طرح سورۂ بلد(۹۰) کی آیت ۱۰ میں باصراحت کہا گیا ہے کہ ہم نے انسان کو (خیر و شر) دونوں راہیں دکھادیں۔ انسانی فطرت میں یہ اساسات اتنی واضح اور راسخ ہیں کہ انسانی تاریخ میں کبھی یہ حادثہ نہیں ہوا کہ خیر شر بن گیا اور شر خیر قرار پایاہو۔انسان انفرادی طور پر فطرت کی اس پکار پر کان دھرے نہ دھرے ، لیکن انسانیت کے اجتماعی ضمیر نے افراد کے عملی انحراف کو کبھی معیار نہیں بنایا۔جھوٹ اور سچ میں سے کون سی راہ درست ہے، مرد کے لیے انتخاب ایک عورت ہے یا ایک دوسرا مرد، انسانی جان کا احترام لازمی ہے یا نہیں، کمزور اور ضعیف رحم کے مستحق ہیں یا نہیں، بول برازکی نجاست اور درندوں کا گوشت وغیرہ دستر خوان پرسجانے کی چیزیں ہیں یا نہیں؟ یہ اور ان جیسے کتنے ہی امور ہیں جن میں انسان عملی طور پرٹھوکر کھاجاتا ہے ،مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ کیا راستہ درست ہے اور کیا غلط ایسا کبھی نہیں ہوتا۔یہ بہرحال ہوا ہے کہ وقتی طور پر بعض معاشروں میں انسانی فطرت مسخ ہوئی اور فطرت سے انحراف معاشرے کا عرف بن گیا ، مگر جیسا کہ ہم آگے چل کر دکھائیں گے کہ خدا نے فوراََ مداخلت کی اور ایسی قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا اور پوری انسانیت فطرت کی پگ ڈنڈی پر پہلے کی طرح چلتی رہی۔ اور آج کے دن تک ان قوموں کے رویے کو بگاڑ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
چنانچہ یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ خیر و شر انسانی فطرت کے وہ بدیہیات ہیں جن کے تعین میں انسان کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا۔ حتیٰ کہ ہم وحی کی جس ہدایت سے واقف ہیں ، اس کی اپنی اساس یہی دین فطرت ہے۔ نبی اور رسول بھی جب آتے ہیں تو اپنی دعوت کی اساس اسی کو بناتے ہیں۔ وہ خود بھی اسی اساس پر کھڑے ہوتے ہیں۔ نبی ہونے کی کوئی علمی شرط ہمارے علم میں نہیں ، لیکن ہم یہ بات باوثوق طریقے سے جانتے ہیں کہ وہ نخل فطرت کا اعلیٰ ترین ثمر ہوتے ہیں۔ ان کے دشمن بھی ان کی اخلاقی حیثیت کو چیلنج نہیں کرسکتے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب میں بندوں کے معاملے میں جھوٹ نہیں بولتا تو خدا کے معاملے میں جھوٹ کیوں بولوں گا؟میں جب انسانوں کے معاملے میں امین ہوں تو خدا کے معاملے میں خیانت کیوں کروں گا؟وہ جب دعوت حق پیش کرتے ہیں تو انسانی فطرت کے ان بدیہیات کو اپنی دعوت کی اساس بناتے ہیں۔ وہ ایمان و اخلاق کی درستی سے آغاز کرتے ہیں۔وہ لوگوں کو اسی کی یاددہانی کراتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر کوئی انحراف ہوتا ہے تو اس کو درست کرتے ہیں، کوئی اختلاف ہوتا ہے تو اسے دور کرتے ہیں، کوئی چیز کم ہوجاتی ہے تو اسے بحال کرتے ہیں اور کچھ زیادتی ہو تو اسے حرف غلط کی طرح مٹادیتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی شریعت پیش کرتے ہیں ، وہ اس کے بعد آتی ہے۔آپ دیکھ لیں کہ قرآن جب نازل ہوا تو ابتدا میں کون سی سورتیں نازل ہوئیں۔ ان تمام سورتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاً ان میں فطرت میں موجود اخلاق وایمان کے تصور کودعوت کی بنیاد بنایا گیا ہے۔
یہاں دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔اول یہ کہ دین فطرت سے جو کچھ رہنمائی انسان کو ملتی ہے ، تمام مسلمہ اخلاقی اقدار اس میں شامل تو ہیں ، لیکن اخلاقیات کے علاوہ بھی دین فطرت سے انسانوں کو بہت کچھ رہنمائی ملتی ہے۔ مگر وہ ہمارے موضوع سے خارج ہے ۔ اس لیے ہم ان کی تفصیل میں نہیں جارہے۔دوسرے یہ کہ ایمانیات میں سے توحید اصلاً اسی اخلاقی رہنمائی کا حصہ ہے جو ہمیں دین فطرت سے ملتی ہے۔قرآن میں جہاں کہیں اخلاقیات کا تذکرہ ہے ، اس کے ساتھ اکثر توحید کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال سورۂ بنی اسرائیل( ۱۷) کی آیات ۲۲ تا ۳۹ ہیں ۔ اس کے علاوہ البقرہ(۲)کی آیت ۸۳ اور النساء (۴)کی آیت ۳۶ اور قرآن کے کئی دیگر مقامات بھی اس حوالے سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔
ان آیات میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ توحید اخلاقیات کا رکن اول ہے۔ یہ تمام خیر کا سرچشمہ اور دوسری اخلاقیات کی طرح فطرت انسانی میں پیوست علم ہے۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیات ۱۷۲۔۱۷۴ میں عہد الست کے حوالے سے باصراحت اس بات کا ذکر ہے کہ توحید کا علم انسانیت کے لیے اجنبی چیز نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خدا کے وجود کے بارے میں کبھی انسانیت کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور نہ ہی خدا اپنے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ البتہ چونکہ شیطان کو آزادی ہے کہ وہ لوگوں کو بہکائے ، اس لیے وہ انہیں شرک کے بگاڑمیں مبتلا کرتا رہا ہے ۔اور انبیاے اکرام اسی بگاڑ کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کا اخلاقی وجود محض علمی نوعیت کی کوئی چیز نہیں جس پر فلسفیانہ انداز میں بحث و تمحیص کے بعد یہ معاملہ ختم ہوجائے۔ یہ وہ پرچۂ امتحان ہے جس کی بنیاد پر کل خداوند دوعالم انسانوں کے اعمال کو جانچے گا اور ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ اور جن قوموں میں نبیوں کی دعوت محفوظ نہیں رہی ، وہاں تو نجات کی واحد کسوٹی یہی ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ اس پرچہ کے صحیح جوابات کی حفاظت کا اہتمام کیا جائے۔جیسا کہ اوپر ہم نے بتایا ہے کہ اس سلسلے کا ایک بندوبست تو یہ کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت خوشبو اور بدبو کی طرح خیر و شر کے امتیاز میں کبھی دھوکا نہیں کھاتی۔دوسری طرف انبیا کے ذریعے سے انسانی فطرت میں پیدا ہونے والے انحرافات کی بار بار تصیح کی جاتی رہی ہے اور تیسری طرف جب کبھی شیاطین جن و انس کی دراندازی کے نتیجے میں کسی انسانی معاشرے میں فطرت کے معیارات ہی بدلنے لگے تو ایسی صورت میں اس پورے معاشرے کو ایک ناسور کی طرح انسانی وجود سے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ تاریخ انسانی میں یہ واقعہ اتنا معروف ہے کہ فلسفۂ تاریخ کے بانی ابن خلدون نے اس بات کو قوموں کے عروج و زوال کے ایک مسلمہ اصول کے طور پر بیان کیا ہے کہ اخلاق حمیدہ کے زوال کے ساتھ قوم کا زوال لازمی ہے۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجا نی چاہیے کہ جب کوئی قوم اخلاقی انحطاط کا شکار ہونے لگے تواصلاح احوال کی کوشش کرنے والے ہر شخص کو اپنی ترجیحات میں اسے سب سے اوپر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس بات کا براہ راست تعلق قوم کی بقا سے ہوتا ہے۔اخلاقی بحران کا شکار قوم اگر مسلمان ہے تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ حامل کتاب ہونے کی بناپر ان کے پاس اس انحراف کا کوئی عذر نہیں ہوتا۔ بنی اسرائیل اور مسلمان ، دونوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب کبھی انھوں نے انحراف کی روش اختیار کی قدرت نے غیر معمولی مستعدی کے ساتھ ان کی سرزنش کی۔بنی اسرائیل پر بخت نصر کی یورش سے لے کر مسلمانوں پر موجودہ مغربی غلبہ تک ، ہر واقعہ گو عالم اسباب میں پیش آیا ، مگر اس کی جڑیں اس اخلاقی انحطاط تک جاتی ہیں جس میں مبتلا ہونے کے بعدوہ حامل کتاب ہونے کی ذمہ داری ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
آج بحیثیت ایک پاکستانی مسلمان کے ہمارے لیے کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اپنے اخلاقی وجود کی اہمیت کو محسوس کریں اور اخلاقی اقدار کو اپنی ذاتی زندگی اور معاشرے میں بحال کرنے کے لیے پوری قوت سے کوشش کریں ۔وہ اقدار جودین فطرت اور دین وحی ، دونوں کی بنیاد پر ہمیں ملی ہیں ، مگر بدقسمتی سے ہم نے انھیں پس پشت ڈال دیا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ڈر ہے کہ کہیں قدرت ہماری بھی سرزنش پر اسی طرح آمادہ نہ ہوجائے جو اس سے پہلے مسلمان قوموں کے ساتھ اس کا دستور رہا ہے ۔
ریحان احمد یوسفی
_______
ہمارے ہاں اکثرلوگ تمام غیر مسلموں کو کافر کہتے ہیں اور انھیں جہنمی قرار دیتے ہیں۔ اگرکسی جنگ یا لڑائی میں مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم مارے جائیں تووہ بلا توقف کہہ دیتے ہیں کہ اتنے ’’ ۔۔۔ ‘‘ جہنم واصل۔
پچھلے دنوں ایک رسالے میں تین ’’کافروں‘‘ اور ایک مسلمان حکمران کے بارے میں فیچر شائع ہوا۔ ان میں دو مرد اور دو عورتیں شامل ہیں۔ رسالے کے مطابق ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے سے ان لوگوں کی زندگی غیر معمولی طورپر متاثر ہوئی۔ ہم نے یہ فیچر اس پہلو سے دیکھا کہ یہ چاروں افراد اپنی زندگی کے اہم معاملات کے لیے رہنمائی کہا ں سے لیتے ہیں۔
اس فیچر میں ایک ’’کافر‘‘ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ میں بہت زیادہ مذہبی آدمی نہیں ہوں ،البتہ میں دو چیزوں کے حصول کے لیے دعا کرتا ہوں :ایک وہ بصیرت جو مجھے سیدھی راہ دکھائے اور دوسرے وہ جرأت جو مجھے اس راہ پر چلائے۔
دوسری ’’کافرہ‘‘ نے کہا کہ میں ہر رات دو زانو ہو کر دعائیں مانگتی ہوں ۔ میں ہر وقت چھوٹی چھوٹی دعائیں کرتی رہتی ہوں۔ میری دعائیں خصوصی نہیں، عمومی ہوتی ہیں۔میری ایک پسندیدہ دعا یہ ہے :(اے خدا،) میں تیرے پسندیدہ راستے پر چلوں ،نہ کہ اپنے پسندیدہ راستے پر۔
تیسری ’’کافرہ‘‘ کا شوہر ۱۱ ستمبر کو جنگل میں گر کر تباہ ہونے والے جہاز میں سوار تھا۔ خبروں کے مطابق اس کے شوہر نے مسافروں کو اس بات پر ابھارا تھا کہ جہاز اغوا کرنے والوں کے ساتھ لڑا جائے۔اسے یہ معلوم تھا کہ اس طرح اس سمیت سب مسافروں کی موت واقع ہوسکتی ہے ، لیکن وہ اس عمارت میں موجود لوگوں کو بچانا چاہتا تھا،جہاں یہ جہاز ٹکرایا جانے والا تھا۔ چنانچہ جہاز میں لڑائی شروع ہوئی،جس کانتیجہ یہ تھا کہ جہازاپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی گر کر تباہ ہوگیااور اس میں سوار تمام افراد جاں بحق ہوگئے۔
اس ’’کافرہ ‘‘کے تین بچے یتیم ہو گئے ۔وہ جوانی میں بیوہ ہوگئی۔اس کا والد بھی اس وقت فوت ہو گیا تھا جب وہ صرف ۱۵ سال کی تھی۔اس نے سخت اضطراب میں وہ حادثہ یہ سمجھ کر قبول کرلیا تھا کہ خدا نے کسی حکمت کی خاطر ہی انھیں موت دی ہوگی۔ اس نے کہا کہ والد کی موت نے مجھے اب یہ بات سمجھنے میں مدد دی ہے کہ میر ے شوہر کی بے وقت موت کے پیچھے بھی خدا کی کوئی حکمت کارفرما ہوگی ، جو خد ا ہی کے علم میں ہے ۔۔۔ جو ابھی تک میرے اوپر واضح نہیں ہوسکی۔
اس فیچر میں مسلمان حکمران کے حوالے سے بتایا گیاکہ اس کی زندگی سخت خطرے میں ہے ۔اس پر ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے ۔اس سے پہلے بھی وہ موت کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہے ۔وہ نپولین اورنیکسن کی قائدانہ صلاحیتوں سے بہت متاثر ہے۔ وہ نیکسن کی ایک کتاب کوبہت پسند کرتا ہے۔ اپنے اس انٹرویو میں وہ نیکسن کے اقوال کا حوالہ بار بار دیتا ہے ۔اس نے اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے نپولین کا ایک نقطۂ نظر سامنے رکھا تھا۔
ان ’’کافروں‘‘ کی دعائیں پڑھنے کے بعد ہمیں اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی بہترین دعا یاد آگئی ،وہ دعاجوسارے دین کی حامل ہے،وہ دعا جوصحیح دین داری کی غماز ہے ،وہ دعا جو قرآن کا دیباچہ ہے،وہ دعا جو انسانی فطرت کی آواز ہے، وہ دعاجوانسان کے عجز کااقرار ہے ، وہ دعا جوبندگی کا اظہار ہے ، وہ دعاجو سب سے بڑی حقیقت کا اعتراف ہے ۔اور اس دعا کے الفاظ گواہی دیتے ہیں کہ انھیں ادا کرنے والا مذہبی جذبے سے سرشار ہے،وہ خدا کا سچا شکر گزارہے اور وہ خدا کے سامنے کامل سپردگی کا طلب گار ہے :
سورۂ فاتحہ میں ہے:
اِھْدِ ناَالصِّرَ اطَ المُسْتَقِیمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۔ (۱: ۵۔۶)
’’ہم کو سیدھی راہ کی ہدایت بخش دے۔ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے عنایت فرمائی ہے ۔ ‘‘
یہ صراط مستقیم کیاہے ؟ صراط مستقیم پر چلنے والے کون لوگ ہیں؟
سورۂ نساء کی آیت ۶۹ سے بالکل واضح ہے کہ ان سے مراد انبیاو صدیقین اور شہدا و صالحین کی مقدس جماعت ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس مقدس جماعت کا تاریخی ریکارڈ کس کے پاس ہے ؟
یہ ریکارڈہم مسلمانوں کے پاس ہے ۔جی ہاں،صرف ہم مسلمانوں کے پاس ،جزئیات کی حد تک اورمحفوظ ترین۔
لہٰذا ہمیں غور کرنا چاہیے کہ جب ’’کافروں‘‘ کے ہاں صراط مستقیم کی خواہش پائی جاتی ہے، جب ’’کافروں‘‘ کے ہاں رضاے الٰہی کی سعی پائی جاتی ہے ،جب ’’کافروں‘‘ کے ہاں راضی برضا کی روش پائی جاتی ہے تو پھر کیوں نہ ہم انھیں نفرت سے دیکھنے کے بجائے ،انھیں قتل کرنے کے بجائے، انھیں ’’جہنم واصل ‘‘ کرنے کے بجائے دین کی تعلیم دیں، صحیح زندگی کاشعور دیں ، انھیں جنتی بنائیں ۔ جو یقینابہتر کام ہے ، بلکہ بہترین کام ہے ۔
محمد بلال
_______
عقل نگاہ سے کام لے کر مشاہدہ کرتی ہے۔ اس مشاہدے کو ترتیب دے کر سلسلۂ خیالات بتاتی ہے۔ موضوع و محمول، صغریٰ و کبریٰ اور فرع و اصل کے تانے بانے سے ایک نتیجے کو پا لیتی ہے۔ اگر نگاہ بیدار ہو، عقل حاضر ہو تو یہ سلسلہ اپنی کڑیاں مکمل کرکے صحیح نتیجے تک پہنچتا ہے اور اگر نگاہ کوتاہ ہو، عقل خفتہ ہو تو کیسی منطق اور کیسی رسائی؟ آدمی وہم و تردد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک بات سوچتا ہے اور اسے اس پر یقین نہیں ہوتا۔ دوسری بات سوچتا ہے تو بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچتا۔اس بدلتی کیفیت کو انسان کی دوسری صلاحیتوں (Faculties) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دل کبھی نشاط سے لبریز ہوتا ہے اور کبھی پژمردہ۔ جسم کسل مند ہوتا ہے اور چست بھی۔ کان تیز ہوتے ہیں اور ثقیل بھی۔ یہ کمزوری اور فترت جو گاہے گاہے ہوتی ہے، عمر گزارنے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک دانا و بینا انسان جو اپنے زمانۂ کمال میں کئی کارنامے دکھا چکا ہوتا ہے، زوال پزیر ہو جاتا ہے۔ اس کی بینائی اور سماعت کام نہیں کرتیں، اعضا سست پڑ جاتے ہیں اور اس کی کارکردگی اور استعداد ماند پڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، اس کی ساخت ہی کو ہم الٹ دیتے ہیں۔ کیا یہ حالت دیکھ کر بھی انھیں عقل نہیں آتی؟ اور تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو ناکارہ عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ جان لینے کے بعد کچھ نہ جانتا ہو۔
جسمانی عمر بڑھنے کے ساتھ اعضاے جسم کا زوال پزیر ہونا ہی اس دنیا کے فانی ہونے کی نشانی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انسان بلوغت ، عقل کی پختگی اور نت نئے تجربات حاصل کر لینے کے بعد کچھ عرصہ جی لیتا۔ لیکن افسوس ، اسے طرح طرح کے عوارض لاحق ہو جاتے ہیں۔ عقل مضمحل ہو جاتی ہے ۔ قویٰ کمزور پڑ جاتے ہیں۔ موت سامنے نظر آنے لگتی ہے اور وہ اگلے جہاں کو کوچ کر جاتا ہے۔
اسے دنیا کا بڑا المیہ کہا جا سکتا تھا، اگر دنیوی زندگی کے بعد حیات اخروی نہ ہوتی۔ وہ حیات، جہاں عارضوں اور نارسائیوں کا دخل نہ ہو گا۔ کمزوریوں اورکوتاہیوں کو درآنے کی اجازت نہ ہو گی۔ لیکن اس زندگی کو حاصل کرنے والے کون ہوں گے؟ وہ جنھوں نے اس زوال آمادہ زندگی میں کچھ کیا ہو گا۔ دیے کی ٹمٹماہٹ اور ستاروں کی جھلملاہٹ کو غنیمت جان کر روشنی حاصل کی ہو گی۔
ضعف اور کسل مندی کے باوجود اس رنج دہ زندگی میں کچھ کر لینا چاہیے ، کیونکہ بعد میں یہ موقع نہ مل پائے گا۔ یہ بدلتی کیفیات اور یہ اتار چڑھاؤ جاری رہیں گے۔ اگر ہم نے تھوڑا سا عمل بھی کر لیا تو گویا اپنا حصہ وصول کر لیا۔ وہ حصہ جو ہمارا توشہ بنے گا۔ اگر کم تر سطح پر جیے تو ہمیشہ کا زوال یقینی ہے اور اگر ذرا اوپر والی سطح پر رہنے کی کوشش کی تو کمال ملنے کا کافی امکان ہے۔
ڈاکٹر وسیم اختر مفتی
____________