پاکستان کی مغربی اور شمالی سرحدپر واقع غیور افغانوں کی سرزمین افغانستان کا کل رقبہ ۶ لاکھ ۴۷ ہزار ۵ سو مربع کلومیٹر ہے۔ بلندوبالا کہساروں ، حسین باغات اور لق و دق صحراؤں پر مشتمل افغانستان قدیم دور سے لے کر اب تک وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان پل کا کام دے رہا ہے ۔ اس نے ہر دور میں وسطی اور جنوبی ایشیا کی سیاست و معاشرت پر غیرمعمولی اثرات مرتب کیے ہیں ، جبکہ خود افغانستان بھی ان دونوں اطراف سے بے انتہااثر قبول کرتا رہا ہے ، تاہم اس حوالے سے وسطی ایشیا کا پلڑا جنوبی ایشیا پر بھاری ہے ۔ بلکہ کچھ حوالوں سے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ افغانستان وسطی ایشیا سے اثر لیتااورجنوبی ایشیا کو متاثر کرتا رہا ہے ۔ ساحل سمندر سے محرومی نے اگرچہ افغانستان کو بہت ساری چیزوں سے محروم بھی کررکھا ہے ، لیکن یہ محرومی اسے پڑوسی ممالک کے ساتھ اور پڑوسی ممالک کو اس کے ساتھ تجارتی روابط پر مجبور کردیتی ہے ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اس کی ایشیا کا دل ہونے کی حیثیت برقرار رہی ہے ۔ افغانستان کی خطے کے اہم ملک چین کے ساتھ ۷۶ کلومیٹر، ایران کے ساتھ ۹۳۶ کلومیٹر ، پاکستان کے ساتھ ۲۴۳۰ کلومیٹر، تاجکستان کے ساتھ ۱۲۰۶ کلومیٹر ، ترکمانستان کے ساتھ ۷۴۴ کلومیٹر اور ازبکستان کے ساتھ ۱۳۷ کلومیٹر سرحد مشترک ہے ۔ جس طرح افغان عوام بے پناہ ذہنی اورجسمانی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی جنگوں کی وجہ سے کسی بھی مثبت رخ میں اپنی ان صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرسکے ، اسی طرح بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال ہو کر بھی افغان سرزمین ،اپنے سینے پر ہونے والی مسلسل جنگوں کی وجہ سے افغان عوام کو خوش حالی دینے میں ناکام رہی ہے۔ افغانستان کے کہساروں میں قدرتی گیس، پٹرولیم، کوئلے ، تانبے ، کرومائٹ اور قیمتی پتھروں سمیت ،کئی دیگر معدنیات کے بے پناہ ذخائر بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ افغانستان کے میوہ جات بالخصوص انگور، انار اور خربوزے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ اسی طرح جنوب کے صحرائی علاقے کو چھوڑ کر باقی افغانستان کی زمین انتہائی زرخیز ہے ۔ مجاہدرہنما گلبدین حکمت یار ، جب وہ کابل پر قبضے کے لیے احمد شاہ مسعود کی فوجوں سے برسرپیکا رتھے ، سے ایک روز کسی نے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے تو افغانستان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ اب اگر آپ افغانستان پر قابض ہوبھی جائیں تو اس کا کیا کریں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے گلبدین حکمت یار نے کہا تھا ’’افغانستان کی زمین ایک سونا نہیں اگلتی باقی یہاں ہر نعمت اگتی ہے ۔ اللہ نے ہمیں جو زمین اور جو آب و ہوا دے رکھی ہے ، اس کی وجہ سے ہم اپنی معیشت کو چاند لگا سکتے ہیں اور اگر دس سال بھی یہاں امن قائم رہے تو افغانستان کی معیشت جاپان کی معیشت سے آگے نکل جائے گی۔‘‘ حکمت یار کا یہ جواب بڑی حد تک مبالغہ آمیز ضرور ہے، لیکن اس سے افغان سرزمین کی زرخیزی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
کابل افغانستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے ۔ اس کی آبادی ۱۹۹۴ء میں اقوام متحدہ کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق آٹھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ ماضی میں احمد شاہ ابدالی اور حال میں طالبان کی وجہ سے شہرت پانے والا قندھار دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی دو لاکھ چھبیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔ جنوب مغرب میں واقع ، ایران کی سرحد سے متصل ہرات (آبادی پونے دولاکھ ) کو تیسرے اور شمال میں واقع مزار شریف (آبادی ایک لاکھ اکتیس ہزار) کو چوتھے بڑے شہر کی حیثیت حاصل ہے ۔ پاکستانی سرحد کے قریب واقع مشرقی شہر جلال آباد اور تاجکستان کی سرحد سے متصل کندوز بھی افغانستان کے بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ انتظامی لحاظ سے افغانستان صوبوں (ولایت) اور نچلی سطح پر ضلعوں (اولسوالی) میں منقسم ہے ۔مجموعی رقبے کے لحاظ سے اگرچہ افغانستان امریکی ریاست ٹکساس سے چھوٹا ہے ، لیکن صوبوں کی تعداد بتیس ہے ۔ بدخشان، بادغیس، بغلان، بلخ ، بامیان، فرح ، فاریاب، غزنی، غور، ہلمند، ہرات، جوزجان، کابل ، قندھار، کاپیسا، کونڑ، کندوز، لغمان، لوگر ، ننگرہار ، نیمروز، اورزگان، پکتیا، پکتیکا، پروان، سمنگان، سرائے پل، تخار، وردگ اور زابل پہلے سے افغانستان کے صوبے چلے آرہے تھے جب کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور حکومت میں نورستان اور خوست کے نام سے دو مزید صوبے بھی بنادیے گئے ۔
افغانستان دنیا کا وہ بدقسمت ترین ملک ہے جس کے مکین اپنے وسائل اور آبادی کا اندازہ لگانے کے لیے بھی غیروں کے مرتب کردہ اعدادوشمار پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں ۔ گزشتہ تین عشروں کی مسلسل لڑائیوں کی وجہ سے افغانستان مرکزی نظام اور منظم اداروں سے یک سر محروم ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود رائے شماری کرسکا نہ اپنے وسائل کے بارے میں اعدادوشمار اکٹھا کر سکا اور آج افغانستان کی مختلف قومیتیں اپنی آبادی کے بارے میں مختلف دعوے کررہی ہیں ۔ اسی طرح بیرون ملک ذرائع کے مرتب کردہ اعداد وشمار میں بھی بسا اوقات زمین وآسمان کا فرق واقع ہوجاتا ہے ۔اقوام متحدہ اورامریکی سی آئی اے کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۱ء میں افغانستان کی کل آبادی ۲ کروڑ ۶۸ لاکھ تھی، تاہم اسے ایک اندازہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ سوویت یونین نے اپنے تسلط کے دنوں میں جو مردم شماری کرائی ، اس کی رو سے افغانستان میں پختونوں کی آبادی کا تناسب ۶۲ فی صد ہے ۔ چند سال قبل اقوام متحدہ کے اداروں نے جو سروے کیا ، اس کے مطابق ان کا تناسب ۳۸ فی صد بتایاجاتا ہے ۔ امریکی حکومت سمیت بیشتر مغربی ممالک اور میڈیا کے ادارے اقوام متحدہ کے اس دعوے پر یقین کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے پختونوں کی آبادی کے تناسب کے بارے میں ۳۸ فی صد کا تصور عالمی سطح پر عام ہوگیا ہے ، تاہم چند سال قبل واک فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم نے جو مردم شماری کرائی اس کی رو سے افغانستان میں پختونوں کا تناسب ۵۲ فی صد ہے ۔ ممتاز صحافی اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی نے ۶۲ فی صد کے دعوے کو حقیقت سے قریب تر قرار دیا جب کہ ’’طالبان‘‘ کتاب کے مصنف احمد رشید کے مطابق پختونوں کی آبادی کی شرح چالیس فی صد ہے ۔ بہرحال ایک بات جس پر ہر طبقے اور ہر ادارے کا اتفاق ہے ، یہ ہے کہ افغانستان میں پختونوں کوو اضح اکثریت حاصل ہے ۔ پختونوں کی غالب اکثریت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی معلوم تاریخ میں بیشتر اوقات تخت کابل پختونوں کے پاس ہی رہا ۔ بچہ ثقاؤ کے بعد برہان الدین ربانی کی صورت میں دوسری مرتبہ یہ حکومت تاجکوں کے حصے میںآئی ، لیکن بون کانفرنس کے نتیجے میں ایک بار پھر افغان حکومت کی قیادت حامد کرزئی کی صورت میں افغانستان کے فطری حکمرانوںیعنی پختونوں کے حصے میں آگئی۔ پختونوں کے بعد تاجک قوم کو دوسری ، ہزارہ کو تیسری ، ایمق کو چوتھی ، ازبک کو پانچویں اور ترکمن کو چھٹی قومیت کا درجہ حاصل ہے ۔ اسی طرح نورستانی اور قزلباش قومیتوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد افغانستان میں موجود ہیں ۔ پشتونوں کی اکثریت دو بڑے قبیلوں یعنی درانی اور غلزئی پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح صافی ، شینواری اور متعدد دیگر پختون قبیلوں کے لوگ بھی افغانستان کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان کو خالصتاً پشتونوں کا علاقہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح کابل کے جنوب مغرب میں واقع علاقے بھی روایتی طور پر پختونوں کا ہی خطہ تصور کیے جاتے ہیں ، لیکن شمالی اور وسطی افغانستان کے بہت سارے علاقوں تک بھی پختون بڑی تعداد میں پھیل گئے ہیں ۔ مثلاً کندوز تاجکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کا انتہائی شمالی صوبہ ہے ، لیکن یہاں پر پختونوں کی بڑی تعداد مقیم ہے حتیٰ کہ گلبدین حکمت یار، جن کی تنظیم حزب اسلامی کو جہادی تنظیموں میں پختونوں کا نمائندہ تصور کیا جاتا تھا بھی اسی صوبے کے ایک علاقے امام صیب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسری بڑی قومیت یعنی تاجک زیادہ تر کابل شہر ، بدخشان اور کاپیسا کے صوبوں میں مقیم ہیں ، لیکن دوسری طرف انتہائی جنوبی صوبے یعنی ہرات میں بھی تاجکوں کی ایک بڑی تعداد نے سکونت اختیار کررکھی ہے ۔ اسی طرح بعض دیگر صوبوں میں بھی جگہ جگہ ان کے پاکٹس پائے جاتے ہیں ۔ منگولوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہزارہ نسل کے لوگ وسطی افغانستان میں مقیم ہیں ۔ ان کے اس علاقے کو ہزارہ جات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بامیان صوبے کو اس کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے ۔ ایمق جنھیں بیشتر مورخین ترک قرار دے رہے ہیں ، افغانستان کے وسطی پہاڑی سلسلے کے مغربی علاقوں میں بس گئے ہیں ۔ کوہ ہندوکش کے شمال کا علاقہ ازبک قوم کا علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور مزار شریف کو ان کے مرکز اور اہم شہر کا درجہ حاصل ہے ۔ جنوب مشرقی افغانستان میں بلوچ اقلیت کے کچھ قبیلے بھی آباد ہیں ۔
افغانستان کی ننانوے فی صد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں تقریباً اسی فیصد سنی ہیں۔ ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے افراد تقریباً سو فی صد شیعہ ہیں ۔ اسی طرح قزلباش اور اسماعیلی برادری کے لوگوں کو بھی شیعہ تصور کیا جاتا ہے ۔ جلال آباد ، کابل اور بعض دیگر علاقوں میں سکھوں اور ہندووں کی ایک محدود تعداد بھی آباد ہے ۔ سنی افغان زیادہ تر حنفی مسلک پر عمل پیرا ہیں ۔ افغانیوں کے دین کا وہی تصور ہے ، جو عام دیوبند مولویوں کے ہاں رائج ہے ۔ ایران کی طرح اگرچہ افغانستان میں ملا کو فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ، لیکن پاکستان کے مقابلے میں افغانستان میں ملا کو اہمیت اور احترام حاصل ہے ۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے چونکہ لوگ دیگر ذرائع سے دینی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اس لیے تقریباً تمام تر انحصار مسجد کے مولوی پر کیا جاتا ہے ۔ افغانستان کے پختون علاقوں میں کسی حد تک پیری مریدی بھی رواج پاگئی ہے ، لیکن وہاں بریلویت اس طرح مستحکم نہیں ہوئی ، جیسا کہ پاکستان میں ہو گئی ہے ۔ افغانستان کے بعض علاقوں بالخصوص شمال مشرقی صوبوں یعنی کونڑ اور نورستان وغیرہ میں اہل حدیث مسلک کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے ۔ جب کہ ان علاقوں میں صوبۂ سرحد کے نام ور عالم مولانا محمد طاہر کے پیروکار بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ مجاہد رہنما استاد سیاف جن کا تعلق کابل کے مغرب میں واقع پغمان سے ہے ، کی تنظیم کے وابستگان بھی اہل حدیث مسلک کے پیرو ہیں اور انھیں افغانستان میں وہابی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ شیعہ آبادی کے لوگ یعنی ہزارہ ایران کے زیراثر ہیں اور عملی زندگی میں وہ اپنے مسلک پر سختی سے کاربند نظر آتے ہیں ۔ نورستان صوبہ جو کسی زمانے میں کافرستان کہلاتا تھا کے باشندوں نے آج سے تقریباً سو سال قبل اسلام قبول کیا ۔ اسی طرح افغانستان کے اندر اسماعیلی فرقے کے لوگ بھی وسطی اور شمالی افغانستان میں پائے جاتے ہیں ۔
افغانستان کی زمینی ، مذہبی اور لسانی ساخت میں موجود تنوع کی طرح معاشرتی لحاظ سے بھی یہاں بے انتہا تنوع پایا جاتا ہے ۔ پختون پٹی کے لوگ قبائلی مزاج کے حامل اور شدت کی حد تک روایت پسند ہیں ۔ طالبان سے قبل یہاں تقریباً ہر حکومت کا ریاستی کنٹرول نہایت ڈھیلا رہا اور حکومتی قوانین کے مقابلے میں لوگ جرگے اور رسم و رواج کے زیادہ تابع رہے ۔ ان علاقوں کے لوگ مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں اوران کے ہاں اسلامی اقدار یعنی نماز ، روزے ، داڑھی اور پردے کو غیرمعمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ قبائلی دشمنیاں اور تنازعات بھی یہاں کی معاشرت کا لازمی حصہ ہیں ۔ وسطی افغانستان کی شیعہ آبادی کو بھی قدامت پسند تصور کیا جاتا ہے ، لیکن یہاں کی آبادی میں قبائلی خصائص کچھ کم ہیں ۔ ازبک لوگ نسبتاً زیادہ آزاد خیال اور جدت پسند ہیں ۔ شمال میں واقع شہر مزار شریف پر نہ صرف وسط ایشیائی ممالک کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں ، بلکہ یہاں کا ماحول بھی بہت حد تک شہری بن گیا ہے ۔ اسی طرح تاجک آبادی کو بھی لبرل اور جدت پسند تصور کیا جاتا ہے ۔ یہاں قبائلی اور مذہبی روایات اس قدر پختہ نہیں جس طرح کہ پختون پٹی میں ہیں۔ دارالحکومت کابل ماضی قریب میں کئی مراحل سے گزرا ہے۔یہ شہر ظاہر شاہ اور ان کے بعد کمیونسٹوں کے دور میں انتہائی جدت کا حامل رہا ۔ کسی زمانے میں یہاں یورپ کی طرح گلیوں میں اسکرٹ پہنے لڑکیاں بھی دیکھنے کو ملتی تھیں۔ اس شہر نے روشن خیالی اور آزاد روی کا بے انتہا اثر قبول کیا۔ مجاہدین کے قبضے کے بعد سوشلزم اور جدت پسندی کے علم بردار، زیادہ تر لوگ پڑوسی ممالک اور امریکا و یورپ کا رخ کرگئے تاہم اس دور میں بھی یہ شہر بڑی حد تک افغانستان کے دیگر شہروں سے یکسر مختلف رہااور آزاد خیالی کے اثرات بدستور واضح دکھائی دے رہے تھے ، البتہ طالبان کے قبضے کے بعد ایک اور انتہا نے اس خوبصورت شہر کو اپنی آغوش میں لے لیا ۔ تب آزاد خیال اور لبرل لوگ ایک ایک کرکے اس شہر سے کوچ کرنے لگے، جو باقی رہ گئے انھوں نے طالبان کے ٹھیٹھ نظام کے تحت زندگی گزارنی شروع کی۔ عمارتیں مختلف ضرور تھیں، لیکن عملاً کابل دوسرا قندھار بن گیا تھا۔ طالبان حکومت کے خاتمے اور کرزئی حکومت کے قیام کے بعد کابل شہر نے ایک بار پھر جدت پسندی کی طرف سفر کا آغاز کردیا ہے ۔ ابتدائی چند دنوں میں ٹی وی ، وی سی آر ، ڈش انٹینا اور آڈیو کیسٹ فروخت کرنے والی درجنوں دکانیں کھل گئیں۔ لبرل اور آزاد خیال لوگ کابل میں واپس آنے لگے ہیں اور شراب و کباب کی محفلیں ایک بار پھر سجتی دکھائی دے رہی ہیں ۔
گزشتہ تیس سال کے واقعات نے افغان معاشرے پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ پاکستان ہجرت کرنے والے افغانیوں نے پاکستانی معاشرے ، ایران جانے والوں نے ایران کے معاشرے اور یورپ و امریکا جانے والوں نے وہاں کے معاشروں سے غیرمعمولی اثر لیا ہے ۔ ہجرت سے قبل افغانستان میں کبڈی ، والی بال اور بزکشی جیسے کھیل مقبول تھے اور کرکٹ کا نام بھی سننے کو نہیں ملتا تھا ، لیکن اب پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی کرکٹ ایک مقبول کھیل بن گیا ہے ۔ پڑوسی ممالک سے اثر لینے کا یہ عمل اس قدر زیادہ ہے کہ افغانستان کا جو شہر جس ملک کے قریب واقع ہے ، بسا اوقات اس شہر پر اسی ملک کے کسی شہر کا گمان ہوتا ہے ۔ اب ہرات ایران کے کسی شہر کا ، جلال آباد پشاور کا ، تخار تاجکستان کا اور مزار شریف وسط ایشیائی ملک کے شہر کا منظر پیش کرنے لگے ہیں ۔
خصائص کے لحاظ سے افغان قوم نہ صرف دنیا بھر میں منفرد ، بلکہ بسا اوقات اس کی مختلف خصلتیں ایک دوسرے سے بہت متضاد نظرآتی ہیں ۔بنیادی طور پر افغان انتہاؤں کے بیچ جینے والی قوم ہے ۔ مثلاً انفرادی طور پر افغان دوستی میں انتہائی پکے واقع ہوتے ہیں ۔ مہمان نواز اس قدر ہیں کہ مہمان کی خاطر سب کچھ لٹانے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔ یاری دوستی اور روایات کی خاطر جان تک کی قربانی دینا افغانوں کا وطیرہ رہا ہے ، لیکن دوسری طرف بحیثیت قوم افغانوں کی دوستیاں اور دشمنیاں چنداں مستقل نہیں رہتیں۔ سیاسی گروہوں کو دیکھ لیں ۔ آج ایک گروہ کسی ملک کا ساتھی ہے تو کل وہی گروہ اسی ملک کا دشمن اور اس کے دشمن ملک کا ساتھی بن جاتا ہے۔ بے شک اس میں کچھ سیاسی مجبوریوں کا بھی دخل ہے ، لیکن بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی زمانے میں گلبدین حکمت یار ، ایران کے شدیدترین مخالف تھے اور چند سال بعد انھوں نے اسی ایران کو اپنا مستقر بنا لیا۔ پروفیسر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود نے تقریباً دو عشروں تک سوویت یونین کے خلاف جدوجہد کی ، لیکن گزشتہ چند سالوں سے وہ روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کی امداد کے سہارے لڑتے رہے ۔ خود طالبان نے ابتدائی دنوں میں امریکی اداروں سے امداد وصول کی ۔ پروفیسر ربانی اور رشید دوستم بھی ان کو سپورٹ کرتے رہے ، لیکن پھریہی طالبان امریکا ، ربانی اور دوستم کے شدید دشمن بن گئے ۔ یہی معاملہ دیگر سیاسی گروہوں کا بھی ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو افغانوں کو انتہائی ناقابل اعتبار قوم تصور کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کے قبائلی پختونوں اور افغانوں کے بارے میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ وہ توپوں کے آگے تو ٹھیر جاتے ہیں لیکن نوٹوں کے آگے نہیں ٹھیر سکتے ۔ قبائلیوں اور افغانوں کی اس کمزوری پر غور کرنے سے جو وجوہات سامنے آتی ہیں ، ان میں سرفہرست تو غربت اور پس ماندگی ہے ، لیکن قبائلیوں کے اس مزاج کو بنانے میں انگریزوں نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ برصغیر پر قبضے کے بعد جب انگریز پختون قبائلیوں اور افغانوں کو زیر نہ کرسکا تو اس نے انھیں مالی رشوتیں دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افغانوں اور پاکستان میں رہنے والے پختون قبائلیوں کی صفوں میں پیسے کے آگے جھکنے کی بیماری عام ہونے لگی ، تاہم افغانوں کے اس مزاج کو مہمیز گزشتہ تیس سالوں کی لڑائیوں نے کیا ۔ ایک طرف سوویت یونین نے اپنے حامیوں کے آگے روبلوں کے انبار لگا دیے تو دوسری طرف مجاہدین امریکی ڈالروں ، سعودی ریالوں اور پاکستانی روپوں کی بوریوں سے آشنا ہوگئے ۔ ڈالر ، ریال اور روپے نے سوویت یونین کی شکست ، طالبان کے عروج اور زوال میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ طالبان کے بعد جو حکومت برسراقتدار آئی ہے ،اس کے قائم ہونے میں بھی نہ صرف مذکورہ عامل نے بنیادی کردار ادا کیا ، بلکہ اس کے ثبات و استحکام میں بھی اسی عامل کو بنیادی اہمیت حاصل رہے گی۔ ننگرہار صوبے کے سابق گورنر اور سابق نائب صدر حاجی عبدالقدیر ، جنھیں جولائی ۲۰۰۲ء کے اوائل میں کابل کے اندر قتل کردیا گیا ، کے بارے میں تو یہ بات اب ایک کھلا راز ہے کہ انھوں نے طالبان کے زوال کے بعد جلال آباد پر قابض ہونے والے کمانڈروں سے ننگرہار صوبے کی گورنرشپ رقم دے کر خریدی تھی ۔
افغان مزاج کی ان انتہاؤں اور تضاد کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ مثلاً وہ اپنی مٹی اور ملک سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ۔ دنیا کی پس ماندہ ترین اور مظلوم ترین قوم ہونے کے باوجود جس قدر افغان ، اپنے افغان ہونے پہ فخر کرتا ہے ، دیگر نسلوں کے لوگ شاید اس احساس تفاخر کا صرف تصور ہی کرسکتے ہیں۔ افغانستان موسیقی کے حوالے سے بہت مالامال ہے۔ اس کی موسیقی کے سر، تال اور آہنگ کا کوئی ثانی نہیں۔افغان جس قدر فن موسیقی کے رموز سے آشنا ہیں، دوسری قوموں کو بجا طور پر ان پر رشک کرنا چاہیے ۔ شاعری میں افغان، پاکستان میں رہنے والے پختونوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ان کے ہاں کبھی بھی رحمن بابا، خوشحال خان خٹک، غنی خان ، حمزہ شینواری یا رحمت شاہ سائل جیسا مستند شاعر پیدا نہیں ہوا ، تاہم افغانوں کی اپنی جتنی شاعری موجود ہے ، وہ وطن اور مٹی کی محبت سے بھری ہے۔ غزل ہو یا نظم ، ٹپہ ہو یا چاربیتہ ہر صنف کی شاعری پر وطن کی محبت کی چھاپ نمایاں ہے ۔ شاعری کے لحاظ سے پاکستان میں واقع پختون پٹی بہت زرخیز ہے ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وطن کی محبت، افغانیت اور پشتونولی کے حوالوں سے جو نظمیں ، سرحد کے اس پار کے شاعروں نے تخلیق کی ہیں ، وہ زیادہ تر افغانستان میں گائی اور سنی جاتی ہیں ۔اس سے بھی اپنی مٹی کے ساتھ افغانوں کی غیرمعمولی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ افغانی شاید گالی سننے پر اس قدر آپے سے باہر نہیں ہوتے ، جس قدر وہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے خلاف بات سن کر ہوجاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایک انتہا ہے ، لیکن دوسری طرف غیروں کے اشارے پر اپنے وطن اور اپنے اثاثوں کو برباد کرنے کی حماقت کے بھی افغان سب سے زیادہ مرتکب ہورہے ہیں ۔ اپنی معمولی انا اور خواہش کی خاطر افغان لیڈروں نے نہ صرف اپنے شہروں کو کھنڈر بنا دیا ، بلکہ اپنے ہزاروں ہم وطنوں کو لقمۂ اجل بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا ۔ مجاہدین کے قبضے کے بعد ، افغان رہنماؤں نے وطن کی ہر چیز حتیٰ کہ بجلی کے کھمبوں تک کو اکھاڑ کر سکریپ کی صورت میں فروخت کیا۔ میں نے خود افغان مجاہدین کو ٹینکوں میں جانوروں کے لیے چارہ لاتے اور کلاشنکوف کی گولیاں فائر کرکے مچھلیوں کا شکار کرتے دیکھا ہے ۔ مجاہدین لیڈر ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کو اس طرح استعمال کرتے رہے ، جیسے وہ جہاز اور ہیلی کاپٹر نہیں ، بلکہ کھلونے ہوں۔ ایک اور حوالے سے دیکھا جائے تو افغانستان کی مٹی اگرایک طرف ملا محمد عمر جیسے لوگوں کو جنم دے رہی ہے ، جن کی افغانیت ، مذہبیت اور مسلکیت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے تو دوسری طرف افغانوں ہی کی صفوں سے زلمے خلیل زاد جیسے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں ، جو محض تیس سال تک امریکا میں قیام کی وجہ سے ، ان کے رنگ میں اس قدر رنگ گئے کہ آج اپنے ہی باپ دادا کی زمین کے لیے امریکی صدر بش کے خصوصی نمائندے بن کرامریکی مہمان کی حیثیت سے کابل لوٹے ہیں ۔
افغان بحیثیت مجموعی مذہبی لوگ ہیں۔ نماز، روزے اور دیگر اسلامی شعائر کی پابندی کا جو مظاہرہ افغانستان میں دیکھنے کو ملتا ہے ، شاید ہی وہ سعادت دنیا میں کہیں اور مسلمان قوم کو نصیب ہو۔ دنیا کی دیگر اقوام کے لوگ جب طالبان کے ہاتھوں جبراً داڑھیاں رکھوانے کا تصو رکرتے ہیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر افغانوں نے اپنی مرضی سے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں بحیثیت مجموعی خواتین پردے کا اہتمام کرتی ہیں ۔ ۱۹۹۹ء میں طالبان کے علاقوں سے ہوتا ہوا میں کونڑ صوبے میں احمد شاہ مسعود کے اتحادی کمانڈر کشمیر خاں ، جو ماضی میں گلبدین حکمت یار کے قریبی ساتھی تھے ، کے زیرقبضہ علاقے شیگل میں دس پندرہ روز مقیم رہا ۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگوں کا طرز زندگی بعینہٖ ویسے تھا جیسا کہ کونڑ اور ننگرہار صوبوں میں طالبان کے زیرقبضہ علاقوں میں تھا ۔ کشمیر خان نے اپنے علاقے میں داڑھی کی پابندی لگارکھی تھی نہ خواتین کے پردے کے لیے کوئی قانون موجود تھا ۔ میں ان دس پندرہ دنوں میں ضلع شیگل کے تقریباً ہر گاؤں میں گیا ، لیکن مجھے کوئی ایک آدمی بھی داڑھی کے بغیر دکھائی نہیں دیا۔ اسی طرح ایک خاتون بھی برقعہ اوڑھے بغیر دیکھنے کو نہیں ملی ۔ وہاں کے تقریباً تمام لوگ پانچ وقتہ نمازی تھے اور بیشتر مساجد میں درس قرآن دیے جاتے تھے ۔ تنازعات کے تصفیے اور حدود و تعزیرات پر عمل درآمد کے لیے علما پر مشتمل ایک جرگہ تشکیل دیا گیا تھا ، جو شرعی قوانین کے مطابق فیصلے کررہا تھا ۔ اس صورت حال سے ، مذہب کے ساتھ افغانوں کے لگاؤ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ گروہی ، جماعتی اور قبائلی لڑائیوں کے چھڑ جانے کے بعد افغان مذہبی احکامات بھی پامال کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ مثلاً طالبان ۱۹۹۶ء سے لے کر ۲۰۰۱ء تک مذکورہ حاجی کشمیر خان کے ساتھ بھی مسلسل لڑائیوں میں مصروف رہے اور اس دوران میں شیگل پر قبضے کے لیے انھوں نے متعدد بڑے حملے کیے تھے ۔ تورہ بورہ اور شاہی کوٹ میں ہلاک ہونے والے القاعدہ کے لوگوں کو اسلامی طریقے کے مطابق دفنانے کی خاطر ان علاقوں کے عوام نے امریکیوں سے ٹکر لے کر ، اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگایا ، لیکن یہ اندوہ ناک واقعات بھی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کہ ایک طرف اگرجنرل مالک نے مزار شریف کے قریب ہزاروں طالبان کو اجتماعی قبر میں دفن کیا تو دوسری طرف بامیان، شین ڈنڈ اور ہرات میں طالبان کے دور کی بھی متدد اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں ۔ ایک طرف یہ انتہا دیکھ لیجیے کہ القاعدہ کے غیرملکی مجاہدین کو دفن کرنے کے لیے افغان عوام ، دینی جذبے کے تحت ، اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگارہے ہیں اور دوسری طرف ا س انتہا کا نظارہ کرلیجیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کو سیاسی لڑائی کی وجہ سے اجتماعی قبروں میں دفن کیاجاتارہا ۔
اپنی فطرت کے لحاظ سے افغان حریت پسند واقع ہوئے ہیں ۔ آزادی ان کی سب سے محبوب چیز ہے۔ اپنی نسل، اپنے قبیلے اور اپنے بزرگوں کے سوا کسی اور کی حکمرانی اور احترام کو وہ گوارا نہیں کرسکتے ۔ میں نے افغانوں اور پاکستان کے پختون قبائلیوں کی اس خاصیت کو خصوصی طور پر نوٹ کیا ہے کہ وہ مرنے مارنے پر تو بڑی آسانی سے تل جاتے ہیں ، لیکن قیدی بن کر جیل جانے سے بہت گھبراتے ہیں ۔ اسی طرح جنگی محاذوں پر میں نے ان کی اس روش کا بھی کئی بارنظارہ کیا کہ وہ توپ اور جہاز کا سامنا کرنے سے تو نہیں گھبراتے تھے ، لیکن جس راستے میں بارودی سرنگیں بچھی ہوتی تھیں ،وہ بڑی مشکل سے اس راستے پر سے گزرنے کے لیے تیار ہوتے ۔ میں نے کئی افغانوں سے اس بارے میں استفسار کیا تو ان کی طرف سے عموماً یہی جواب سامنے آیا کہ توپ اور جہاز سے گرنے والا بم تو زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے ، لیکن بارودی سرنگ مارنے کے بجائے اپاہج بنا دیتی ہے جس کے بعد انسان کو محتاجی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔ گویا وہ محتاجی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں ۔افغان اپنی آزادی کی خاطر ہر وقت ، ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ رہتا ہے ۔ اسی لیے افغانوں نے وقت کی ہر سپرطاقت سے ٹکر لی ۔ بے انتہا قربانیاں دیں اور ہر حالت میں اپنی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنایا ۔ لیکن اس معاملے میں بھی افغانوں کو ایک مصیبت لاحق ہے اور وہ یہ کہ دوست بنا کر اور لالچ دے کر انھیں بڑی آسانی سے غلام بنایا جاسکتا ہے ۔ سوویت یونین دوست کے روپ میں افغانستان میں داخل ہوا تھا ۔ وہ لالچ دے کر افغانوں کو ساتھ ملا رہا تھا ۔ پھر جو اس کے دوست بنے ، وہ ازخود ان کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالتے رہے ۔ یہی معاملہ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کرنے والے مجاہد گروپوں کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے دنوں میں اور اس کے بعد ، وہ سب کے سب عملاً امریکا اور پڑوسی ممالک کی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرتے رہے ، لیکن چونکہ نام دوستی کا تھا اس لیے انھیں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی غلامی کا احساس نہیں ہوا ۔ مجاہد گروپوں کی گزشتہ دس سالہ اندرونی لڑائیوں پہ نظر ڈال لیجیے تو بھی بڑی دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے ۔ ملک کے اندر ان میں سے ایک بھی گروہ دوسرے کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھا ، لیکن عملاً وہ کسی نہ کسی بیرونی ملک کا دست نگر اور کٹھ پتلی تھا۔ یہاں اب موقع نہیں ورنہ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اگر دسمبر ۱۹۷۹ء سے لے کر اپریل ۱۹۹۲ء تک افغانوں نے اپنے سروں کی قیمت پر سوویت یونین اور امریکا کی جنگ لڑی تو اس کے بعد سے لے کر گیارہ ستمبر۲۰۰۱ء تک افغان اپنی سرزمین پر پڑوسی ممالک کی لڑائی لڑتے رہے ۔ گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر جو جنگ جاری ہے ، وہ بھی بنیادی طورپر غیرافغانوں یعنی القاعدہ اور امریکا کی جنگ ہے ، جبکہ اس کے بعد حکومتوں کی تشکیل اور مستقبل کے نقشے کی ترتیب کی کشمکش کی ڈور بھی افغانستان کی سرحدوں کے باہر سے ہلائی جارہی ہے۔
۳۲۸ قبل مسیح میں جب افغانستان سلطنت پارس کا حصہ تھا، سکندر اعظم نے اپنی فوجوں سمیت یہاں قدم رکھا ۔ موجودہ صوبۂ بلخ ان کا پہلا نشانہ تھا ۔ وہ یہاں سے ہرات ، ہرات سے بلوچستان، بلوچستان سے غزنی ، غزنی سے غوربند، غوربند سے پنج شیراور پنج شیر سے دریائے آمو عبور کرتا ہوا مرکندا (ثمرقند) تک جاپہنچا ۔سکندر اعظم کے بعد چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں ساسانی اور ترک افغانستان پر قابض ہوگئے ، لیکن ان کا قبضہ زیادہ دیر باقی نہ رہا اور اسی صدی کے اواخر میں عرب اسلام کے پیغام کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ افغان واحد قوم ہے جس نے بحیثیت قوم اسلام کو قبول کیا۔ دسویں صدی کے آخری عشرے (۹۹۸ء) میں ترکوں نے قابض ہوکر یہاں غزنوی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ محمود غزنوی نے اپنی سلطنت کا دائرہ بتیس سال کے عرصے میں جنوب مغربی ہندوستان اور پنجاب تک اور دوسری طرف جنوب میں ایران تک وسیع کردیا ۔ ۱۰۳۱ء میں یامین محمد کے انتقال کے بعد غزنوی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور ۱۲۱۹ء میں چنگیز خان کی آمد تک افغانستان مختلف ریاستوں میں بٹا رہا ۔ چنگیز خان کی قیادت میں منگولوں نے ہرات ، غزنی اور بلخ سمیت متعدد شہروں کو تاراج کیا۔ چودھویں صدی میں چنگیز خان کے انتقال کے بعد اس کے ایک جانشین تیمورلنگ نے افغانستان کو اپنا مستقر بنا کر ترکی سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی اپنی سلطنت قائم کی ۔ تیمور کے جانشینوں کا دور ۱۵۰۶ء تک رہا جس کے بعد افغانستان مغل اور صفوی حکومتوں میں تقسیم ہوا۔ ہندوستان پر مغل حکمرانی کے طویل دور کا بانی بابر ، تیمورلنگ کی نسل سے تھا ۔ اس نے کابل کو اپنا دارالحکومت بنا لیا ۔ اٹھارویں صدی میں نادرشاہ نے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر اپنا تسلط مضبوط کرکے مغلوں کو دہلی پر قبضہ برقرار رکھنے کی اجازت دے دی ۔ نادرشاہ کے بعد افغانستان کے سیاسی افق پر احمد شاہ درانی نمودار ہوئے ، جنھیں ۱۷۴۷ء میں افغان قبیلے کا سردار منتخب کرلیا گیا ۔ انھیں جدید افغانستان کا بانی تصور کیا جاتا ہے ۔ انھوں نے مشہد سے دریائے آمو تک اور ہرات سے لے کر پنجاب و کشمیر تک اپنی سلطنت کو وسعت دی ۔ احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد قندھار کے مقامی پختونوں کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے ان کے بیٹے نے کابل کو دارالحکومت بنایا ۔ اگلے پانچ سالوں میں وہ کشمیر ، سندھ، اور خراسان وغیرہ کے علاقے کھوبیٹھا ۔ برصغیر پر انگریز کے قبضے کے بعد ، افغانستان روسیوں اور انگریزوں کی کشمکش کا مرکز بن گیا۔وسط ایشیا کی طرف روس کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ کر انگریز بھی افغانستان میں قدم جمانے کے منصوبے بنانے لگے۔ افغانستان کو اپنے زیراثر لانے کی خاطر انگریزوں اور فرانسیسیوں نے ۱۸۰۹ء میں افغان حکمران شاہ شجاع کے ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدے پر دستخط کیے۔ روسی تسلط کے خطرے اور اپنے توسیعی عزائم کے پیش نظر ۱۸۳۹ء میں انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا اور ابتدائی طور پر وہ غزنی ، قندھار اور کابل سمیت بیشتر علاقوں پر قابض ہوگئے ، لیکن آخری نتیجے کے طور پر انگریزوں کو ایسی عبرت ناک شکست ہوئی اور ان کی فوج اتنی بڑی تباہی سے دوچار ہوئی کہ یہ شکست آج تک نہ صرف انگریزوں کے لیے طعنہ بنی ہوئی ہے ، بلکہ اسے افغانوں کی قوت مزاحمت کو ثابت کرنے کے لیے بطور مثال بھی پیش کیا جاتا ہے ۔ ۱۸۷۲ء میں روس اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے معاہدے میں دریائے آمو کو افغانستان کی شمالی سرحد تسلیم کرلیا گیا ۔ افغان حکمران امیرشیرعلی کی طرف سے کابل میں برطانوی مشن قائم کرنے کی اجازت نہ دینے کی بنا پر انگریزوں نے ۱۸۷۸ء میں ایک بار پھر افغانستان پر حملہ کیا ۔ امیرشیرعلی زار روس سے مدد لینے کے لیے روس روانہ ہوئے تاہم انھیں دریائے آمو سے مایوس لوٹنا پڑا اور واپسی پر بلخ میں انتقال کرگئے ۔ امیرشیرعلی شاہ کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا انگریز کے مقابلے کے قابل تھا نہ اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے۔ چنانچہ شاہ کا بھتیجا عبدالرحمان جو ۱۲ سال سے ثمرقند میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا ، دریائے آمو کے راستے افغانستان میں داخل ہوا اور انگریزوں کے تعاون سے امیرافغانستان قرار پایا۔ اس کے دور میں انگریز اور روسی افغانستان کی موجودہ سرحدوں کو تسلیم کرنے کے معاہدے پر متفق ہوئے ۔ ۱۸۹۳ء میں امیرعبدالرحمان نے انگریزوں کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں پختون دوحصوں میں بٹ گئے ۔ ۱۹۰۱ ء میں امیرعبدالرحمان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا حبیب اللہ خان تخت نشین ہوا۔ حبیب اللہ خان نے برطانیہ اور روس ، دونوں کو افغانستان سے ایک فاصلے پر رکھنے کی کوشش کی اور اپنی غیرجانب داری ثابت کرنے کی خاطر جرمنی کی مسلسل پیشکش کے باوجود پہلی جنگ عظیم میں افغانستان کو ملوث نہیں ہونے دیا۔ حبیب اللہ خان ۱۹۱۹ ء میں انگریز مخالف لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوا جس کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان حکمران بنا ۔ جنگ عظیم کے نتیجے میں انگریزوں کے کمزور ہوجانے سے فائدہ اٹھا کر انھوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کرکے کسی حد تک دوسری افغان انگریز جنگ میں اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔ اگست ۱۹۱۹ء میں معاہدۂ راولپنڈی کے نتیجے میں انگریز افغانستان کی خارجہ پالیسی پر کنٹرول ، جو انھوں نے دوسری افغان جنگ کے بعد حاصل کیا تھا،سے دستبردار ہوگئے ۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں آزادی مل جانے کے فوراً بعد امان اللہ خان نے اقوام عالم بالخصوص روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنا شروع کیے اور ۱۹۲۱ء میں دونوں ملکوں کے مابین معاہدۂ دوستی پر دستخط ہوئے ۔ امان اللہ خان کو ایک طرف روس سے خاطر خواہ فوجی اور مالی امداد ملی تو دوسری طرف انھوں نے افغانستان کو تیزی کے ساتھ جدیدیت کی راہ پر گامزن کیا جس کے خلاف انھیں قدامت پسند پختونوں کی مزاحمت کا سامنا تھا۔ یورپ سے واپسی پر جب انھوں نے مخلوط تعلیمی نظام کے نفاذ کے علاوہ تیزی کے ساتھ جدیدیت کی طرف قدم اٹھانے شروع کیے تو ان کے خلاف بغاوت پھیلنے لگی ۔ بغاوت کو کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے وہ ملک سے باہر چلا گئے اور باغیوں کا ایک رہنما بچہ ثقاؤ افغانستان کا حکمران بن گیا ۔ نوماہ بعد امان اللہ کے ایک سابق کمانڈر محمد مالک خان نے بچہ ثقاؤ کو حکومت سے علیحدہ کر دیا اور امان اللہ خان کے چچازاد بھائی نادر خان کی حکمرانی کی راہ ہموار کی ۔ ۱۹۳۰ء میں لویہ جرگہ کے فیصلے کے نتیجے میں نادر خان کو بادشاہ مقرر کردیا گیا۔ صرف تین سال بعد نادرشاہ کو قتل کردیا گیا اور ان کی جگہ ان کا انیس سالہ بیٹا ظاہر شاہ حکمران بنا ۔ اگست ۴۷ء میں قیام پاکستان کے فوراً بعد قبائلی شورش کو دبانے کے لیے حکومت پاکستان کی کارروائی کو جواز بنا کر ، افغان حکومت برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان سرحدوں کا تعین کرنے والے تمام معاہدوں سے منحرف ہوگئی۔ پختونستان کا مسئلہ کھڑا کرکے اس نے پاکستان کے اندر پختون قوم پرستوں کو سپورٹ کرنا شروع کردیا ۔ تعلقات میں پیدا ہونے والی اس کشیدگی کی وجہ سے حکومت پاکستان نے افغانستان کو پٹرولیم مصنوعات کے لیے دی جانے والی راہ داری کی سہولت ختم کردی ۔ چنانچہ کابل حکومت جولائی ۱۹۵۰ء میں متبادل کے طور پر سوویت یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے پر مجبور ہوئی۔ وقت کے ساتھ دفاعی اور معاشی لحاظ سے افغانستان کا سوویت یونین پر انحصار بڑھنے لگا۔ ۱۹۶۴ء میں افغان آئین میں اصلاحات کرکے ظاہر شاہ نے اسے عملاً ایک سیکولر آئین میں بدل دیا ۔ اس آئین کی رو سے ۱۹۶۵ء میں منتخب پارلیمنٹ اور صوبائی کونسل کے انتخابات ہوئے جن میں ایک تہائی حصہ بادشاہ کے نامزد کردہ افراد پر مشتمل تھا ۔ ظاہر شاہ کے ہاتھوں افغانستان کے اندر جمہوریت کے اس تجربے نے بائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں کو حکومت میں دخیل ہونے اور جواب میں دائیں بازو کی جماعتوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ ۱۹۶۷ء میں کمیونسٹ پارٹی یعنی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ خلق کے نام سے بننے والے دھڑے کی قیادت نورمحمد ترکئی اور پرچم دھڑے کی قیادت ببرک کارمل کے حصے میں آئی ۔ خلق دھڑے کو افغان فوج کی سرپرستی حاصل تھی۔ ۱۹۷۳ء میں جب کہ شاہ ظاہر شاہ علاج کے لیے اٹلی گئے ہوئے تھے ، ان کے سابق وزیراعظم اور چچازاد بھائی سردار محمد داؤد خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے بادشاہت کے خاتمے کا اعلان کرکے افغانستان کو جمہوریہ قرار دیا اور خود اس کے صدر اور وزیراعظم بن گئے ۔ سوویت یونین کی کوششوں سے پی ڈی پی اے کے دونوں دھڑوں یعنی خلق اور پرچم کے اتحاد کے بعد ۲۸ اپریل ۱۹۷۸ء کو کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کرکے سردار داؤد اور ان کے اہل خانہ کو قتل کیا۔ کمیونسٹوں کے برسراقتدار آنے اور ان کی سوشلسٹ پالیسیوں کے جواب میں اسلامی ذہن رکھنے والی قوتیں بھی متحرک اور منظم ہونے لگیں ۔ انقلاب مخالف افغان پاکستان ، یورپ اور امریکا کا رخ کرکے اپنے آپ کو مزاحمت کے لیے تیار کرنے لگے ۔ دوسری طرف کمیونسٹوں نے افغان عوام کے مزاج سے غیرموافق ، غیراسلامی اور آزادخیال پالیسیوں کو اپنائے رکھا جن کی وجہ سے عوام کی صفوں سے بھی حکومت کے خلاف اور مجاہدین کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ پی ڈی پی اے کی صورت میں اپنے ہم خیالوں کے اقتدار سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سوویت یونین نے افغانستان کے اقتصادی، سیاسی اور فوجی معاملات میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ملوث کرنے کی کوشش جاری رکھی ۔ دسمبر ۷۸ء میں افغانستان اور سوویت یونین کے مابین ایک اور معاہدہ طے پایا جس میں قرارپایا کہ کابل حکومت بوقت ضرورت ماسکو سے فوج بلا سکتی ہے ۔ ستمبر ۱۹۷۹ء میں وزیراعظم اور وزیردفاع حفیظ اللہ امین نے نورمحمد ترکئی کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ حفیظ اللہ امین افغانستان پر اپنی گرفت کو مضبوط نہ کرسکے اوران کی حکومت کے عدم استحکام کو بہانہ بنا کر کمیونسٹ حکومت کی بقا کے لیے ، دسمبر ۱۹۷۹ء میں سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ حفیظ اللہ امین کو قتل کر دیا گیا اور ان کی جگہ ماسکو میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے پرچم دھڑے کے سربراہ ببرک کارمل کو واپس بلا کر تخت کابل پر بٹھا دیا گیا۔ سوویت فوجوں کی آمد کے ساتھ پاکستان ، امریکا ، سوویت یونین مخالف بلاک اور عرب ممالک کے تعاون سے مجاہدین نے باقاعدہ مزاحمت کا آغاز کیا ۔ لاکھوں لوگ پاکستان اور ایران کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور افغانستان میں تباہی وبربادی کی ایک طویل تاریخ رقم ہونے لگی۔ مجاہد تنظیموں کی قیادت سنبھالنے والے بیشتر رہنما (پروفیسر ربانی ، احمد شاہ مسعود ، گلبدین حکمت یار وغیرہ) سردار داؤد کے دور میں پاکستان آئے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں پشاور میں دفاتر کے قیام کی اجازت دے کر مکمل سرپرستی کا یقین دلایا تھا ۔سوویت افواج کی افغانستان آمد سے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں جنرل محمد ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہو چکے تھے ۔ انھوں نے کمیونسٹوں کے خلاف اسلامی ذہن رکھنے والے مجاہدین کی مزاحمت کو پاکستان کے دفاع کی جنگ قرار دے کر ، علانیہ طور پر اس کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ پاکستان کے اندر امریکی تعاون سے مجاہدین کی تربیت کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی بھی مجاہدین کی مدد کے لیے آگے بڑھیں ۔ پاکستانی صدر ضیا الحق نے افغانستان میں مجاہدین کی تحریک مزاحمت کو پاکستان کے دفاع کی جنگ قرار دیا تو امریکا کی زیرقیادت مغرب نے بھی افغانستان کو کمیونزم کے راستے میں آخری بند کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ مغربی میڈیا افغان گوریلوں کو مجاہدین کا خطاب دے کر ، ان کے حق میں پروپیگنڈا کرنے لگا ۔ امریکا کی شہ پر مجاہدین کی مدد کے لیے عرب ممالک اور شیوخ بھی آگے بڑھے اور یہی وہ وقت تھا جب اسامہ بن لادن اور ان جیسے دیگر عرب مجاہدین افغان جہاد میں شرکت کی غرض سے پشاور چلے آئے ۔ دوسری طرف سوویت یونین نے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے تمام وسائل افغانستان میں جھونک دیے ۔ افغان تحریک مزاحمت جو شروع میں پروفیسر برہان الدین ربانی کی زیر قیادت ایک جمعیت اسلامی کی صورت میں شروع ہوئی ، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتی رہی ۔ شخصی اختلافات کی وجہ سے یا پھر زیادہ سے زیادہ بیرونی امداد کے حصول کی خاطر مجاہد لیڈر ایک دوسرے سے الگ ہوکر ، الگ تنظیمیں قائم کرتے رہے ۔ ’’جمعیت اسلامی‘‘ جو ۱۹۷۲ء میں قائم ہوئی تھی ، سے پہلا دھڑا گلبدین حکمت یار کی زیر قیادت ۱۹۷۹ء میں الگ ہوا اور انھوں نے ’’حزب اسلامی‘‘ کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کرلی ۔ مختصر عرصے میں اس تنظیم کو مجاہدین کی سب سے موثر اور بڑی تنظیم کی حیثیت حاصل ہوگئی جو نہ صرف پاکستانی اور امریکی ا مداد کی سب سے زیادہ مستحق قرار پائی ، بلکہ اسی تنظیم نے سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت میں بھی سب سے موثر کردار ادا کیا۔ پکتیا سے تعلق رکھنے والے مولوی یونس خالص نے بھی اسی سال ’’حزب اسلامی‘‘ (خالص ) کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کرلی ۔روانی سے عربی بولنے والے پروفیسر عبدالرب رسول سیاف ۱۹۸۰ء میں جیل سے رہائی کے بعد پاکستان آئے اور یہاں اتحاد اسلامی کے نام سے اپنی جماعت قائم کی ۔ سعودی عرب کی طرف سے بھرپور مالی امداد ملنے کی وجہ سے اس تنظیم نے مختصر عرصے میں موثر جہادی تنظیم کی حیثیت حاصل کرلی ۔ جنوبی افغانستان کے صوفی سلسلۂ نقشبندی کے رہنما پیر صبغت اللہ مجددی نے ۱۹۸۰ ء میں جبہ نجات ملی (دی افغانستان نیشنل لبریشن فرنٹ) کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی ۔ جہادی میدان میں یہ تنظیم کوئی قابل ذکر کردار ادا نہ کرسکی ، تاہم عوامی سطح پر اسے بڑی حدتک سپورٹ حاصل رہی ۔ جنوبی افغانستان ہی سے تعلق رکھنے والے مولوی محمد نبی محمدی نے بھی ۱۹۸۰ء میں ’’حرکت انقلاب اسلامی ‘‘کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کرلی ۔ اس تنظیم میں زیادہ تر علما اور ائمۂ مساجد شامل تھے ۔ اس تنظیم نے بھی جہادی میدان میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا ، تاہم قندھار ،ہلمند، اور پکتیا جیسے علاقوں میں اسے خاطر خواہ عوامی حمایت حاصل رہی ۔ طالبان تحریک کے زیادہ تر رہنما بھی اسی تنظیم سے وابستہ رہے تھے ۔ پیر سید احمد گیلانی ، جن کے خاندان کو موروثی روحانی رتبے کاحامل قرار دیا جاتا ہے ، نے بھی ’’محاذ ملی افغانستان ‘‘کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ ان کی تنظیم سابق شاہ ظاہر شاہ کی حامی تصور کی جاتی ہے اور وہ کمیونسٹوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ظاہر شاہ کی واپسی کے لیے سرگرم عمل رہی ۔ مزار شریف سے تعلق رکھنے والے شیعہ رہنما عبدالعلی مزاری نے ’’حزب وحدت‘‘ کے نام سے شیعہ کمیونٹی کی تنظیم قائم کی تھی ۔ جہاد کے دنوں میں اسے ایران کی بھرپورسپورٹ حاصل رہی ۔ بعدازاں یہ تنظیم دو حصوں یعنی حزب وحدت (خلیلی گروپ) اور حزب وحدت (کریمی گروپ) میں بٹ گئی ۔ اسی طرح ایک اور شیعہ رہنما آصف محسنی نے حرکت اسلامی کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی تھی اور آخری وقت تک یہ تنظیم بھی تحریک مزاحمت کا حصہ رہی ۔ حکومت پاکستان کی کوششوں سے ۱۹۸۵ء میں سات مجاہد تنظیموں کا اتحاد عمل میں لایا گیا ، لیکن یہ اتحاد بھی مجاہد تنظیموں کے اختلافات اور باہمی رقابتوں کو ختم نہ کرسکا۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ سوویت فوجوں کی موجودگی کے دنوں میں مجاہد تنظیمیں بیک وقت ایک ساتھ مل کر سوویت فوجوں کے خلاف لڑتی رہیں اور ساتھ ہی ساتھ گاہے بگاہے آپس میں بھی برسرپیکار رہییں ۔ جب تک برزنیف سوویت یونین کا صدر رہا ، افغانستان میں سوویت افواج کا انداز بھی بڑا جارحانہ تھا ، تاہم اس دوران میں جہاں ایک طرف امریکا کی طرف سے سٹنگر میزائلوں کی فراہمی نے مجاہدین کی قوت مزاحمت کو راتوں رات کئی گنا بڑھا دیا ، وہاں دوسری طرف کریملن میں برزنیف کی جگہ میخائل گورباچوف براجمان ہوا ، جو شروع دن سے افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کی راہ ڈھونڈنے لگا ۔ ۱۹۸۶ء میں ببرک کارمل کی جگہ ڈاکٹر نجیب اللہ افغانستان کے حکمران بنے ۔ ماضی میں خاد تنظیم کے سربراہ رہنے کی وجہ سے اگرچہ ڈاکٹر نجیب اللہ ایک انتہاپسند کی شہرت رکھتے تھے ، لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد سوویت یونین کے بدلتے تیور اور مجاہدین کی کامیابیاں دیکھ کر انھوں نے نسبتاً مصالحانہ پالیسی اختیار کی اور اپنی حکومت کی حمایت کو وسیع کرنے کے لیے مختلف قبائلی گروہوں کو راضی کرنے کی کوششوں میں مگن رہے ۔ ۱۹۸۸ء میں پاکستان اور افغانستان کے مابین جینوا معاہدے پر دستخط ہوئے ، جس میں امریکا اور سوویت یونین نے بطور گارنٹر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کی رو سے سوویت یونین اور امریکا نے متحارب فریقوں کی مدد نہ کرنے کا وعدہ کیا ۔ مذکورہ معاہدے کی رو سے فروری ۱۹۸۹ء تک سوویت فوجیں افغانستان سے نکل گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تک افغان جنگ میں چودہ ہزار پانچ سو سوویت فوجی اور دس لاکھ افغانی ہلاک ہوئے تھے ۔ مجاہد تنظیمیں جینیوا معاہدے کی فریق تھیں نہ وہ اس معاہدے کو تسلیم کررہی تھیں ۔ چنانچہ انھوں نے نجیب حکومت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور سوویت فوجوں کے نکلنے کے بعد جنگ کا سلسلہ رکنے کے بجائے مزید تیز ہوگیا ۔ پاکستان کے اس وقت کے سربراہ جنرل محمد ضیا الحق سیاسی تصفیے کے بجائے مجاہدین کو فاتح کے روپ میں کابل میں داخل کرانے کے خواہش مند تھے ، چنانچہ آئی ایس آئی کے ذریعے سے انھوں نے نہ صرف مجاہدین کی سپورٹ جاری رکھی ، بلکہ اس دوران میں مجاہدین نے افغانستان کے اہم شہروں پر قبضے کے لیے اپنی کوششیں بھی تیز کردیں۔ دوسری طرف اپنی مصالحانہ پالیسیوں کی بدولت ڈاکٹر نجیب اللہ کابل ، مزار شریف ، ہرات اور جلال آباد جیسے شہروں پر وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کنٹرول کو مزید مضبوط کرتے رہے ۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کے اوائل میں جنرل حمیدگل کی خواہش پر مجاہدین نے افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد پر بھرپور حملہ کیا ۔ اس دوران میں ہونے والی لڑائی میں دونوں طرف سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے۔ ابتدا میں مجاہدین ثمرخیل چھاؤنی کو عبور کرکے جلال آباد کے نواح میں پہنچ گئے تھے ، لیکن بالآخر انھیں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مجاہدین اور نجیب حکومت کی لڑائیوں کی یہ صورت حال مارچ ۲۹۹۱ء تک جاری رہی اور اسی سال شمال سے تعلق رکھنے والے ازبک جنرل رشید دوستم ، جو کابل کے دفاع پر مامور تھے ، کی بغاوت نے نجیب حکومت کے خاتمے کو ممکن بنا دیا۔ مجاہد کمانڈر احمد شاہ مسعود سے ساز باز کرکے رشید دوستم نے کابل شہر میں مجاہدین کے داخلے کی راہ ہموار کی ۔ ڈاکٹر نجیب اللہ اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ پاکستان کے اندر جماعت اسلامی اور مجاہدین کی حامی دیگر تنظیمیں فتح کے جشن منانے لگیں ، لیکن درحقیقت مجاہدین کی یہ کامیابی ایک اور خون ریز دور کا آغاز ثابت ہوئی۔ کابل پر قبضے کے لیے شمال کی سمت سے احمد شاہ مسعود کی فوجیں داخل ہوئیں تو جنوب اور مشرق کی جانب سے گلبدین حکمت یار کے مجاہدین گھس آئے۔ کابل شہر کئی روز تک مجاہدین کی آپس کی لڑائیوں کا میدان بنا رہا۔ ۵۱ اپریل کو پاکستان کی بھرپور کوششوں کے بعد افغانستان کا انتظام چلانے کے لیے ،پشاور میں مجاہد تنظیموں کے سربراہ ۱۵ رکنی عبوری جہاد کونسل کے قیام پر متفق ہوگئے ۔ صبغت اللہ مجددی اس کونسل کے سربراہ بن کر کابل کے بے اختیار اور عارضی حکمران بن گئے ۔ معاہدۂ پشاور کی رو سے جون ۲۹۹۱ء میں صبغت اللہ مجددی نے اقتدار پروفیسر ربانی کی زیر قیادت دس رکنی سپریم کونسل کے حوالے کیا۔ اسی ماہ کابل کے نواح میں پروفیسر سیاف کی اتحاد اسلامی اور شیعہ حزب وحدت میں لڑائی چھڑ گئی جس میں نہ صرف سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ، بلکہ خواتین اور بچوں پر جو مظالم ڈھائے گئے، انھیں جان کر آدمیت شرم محسوس کرنے لگتی ہے ۔ ان لڑائیوں کے نتیجے میں کابل شہر کا مغربی حصہ کھنڈر بن گیا ۔ ۰۳ دسمبر ۲۹۹۱ء کو برہان الدین ربانی نے تقریبا ً چودہ سو عمائدین کا جرگہ طلب کرکے اس کے ذریعے سے اپنے آپ کو مزید دو سال تک کے لیے صدر منتخب کرایا ۔ گلبدین حکمت یار سمیت متعدد دیگر جہادی رہنمائوں نے جرگے کا بائیکاٹ کیا تھا اور اگلے دو سال کے لیے ربانی کے صدر بننے کا فیصلہ ہوتے ہی حکمت یار نے کابل کے قریبی پہاڑوں پر مورچے سنبھالنے شروع کیے ۔ جنوری ۳۹۹۱ء میں کابل کے جنوب میں گلبدین حکمت یار اور ربانی کے وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کی فوجوں میں شدید لڑائی کاآغاز ہوا۔ دو ماہ تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں سیکڑوں افغان قتل ہوئے اور نتیجتاً کابل شہر کا جنوبی حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ۔ مارچ ۳۹۹۱ء میں پاکستان کی کوششوں سے مجاہد تنظیموں کے مابین ایک اور معاہد ہ عمل میں لایا گیا جس کی رو سے گلبدین حکمت یار وزیر اعظم اورپروفیسر ربانی صدر نامزد ہوئے ۔ بدقسمتی سے اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ گلبدین حکمت یار ایک روز کے لیے بھی کابل میں داخل نہیں ہوئے ، جبکہ چند روز بعد انھوں نے اپنے نامزد وزیردفاع استاد فرید کو کابل سے نکال دیا اور ایک بار پھر حکمت یار اور ربانی کے حامیوں میں شدید لڑائیوں کاآغاز ہوا۔ اس جنگ میں شیعہ حزب وحدت گلبدین حکمت یار کا ساتھ دے رہی تھی جبکہ استاد سیاف اور رشید دوستم ربانی کے ساتھ کھڑے تھے ۔ حکمت یار نے اس دوران میں کابل کے جنوب مشرق میں واقع چہارسیاب کی پہاڑیوں کو اپنا ٹھکانہ بنا رکھا تھا اور وقتاً فوقتاً وہ کابل شہر کی طرف میزائل فائر کرتے رہے۔ یکم جنوری ۴۹۹۱ کو رشید دوستم ، پروفیسر ربانی اور احمد شاہ مسعود سے ناراض ہوکر حکمت یار سے آن ملے ۔ ان کی فوجیں نہ صرف کابل شہر کے اندر احمد شاہ مسعود کی فوجوں سے الجھ گئیں ، بلکہ شمالی صوبوں میں بھی دونوں کے حامیوں میں شدید جنگوں کا آغاز ہوا۔ ان لڑائیوں میں ہزاروں افغان لقمۂ اجل بن گئے ۔ برہان الدین ربانی اور حکمت یار کے مابین یہ صورت حال تقریبا ً طالبان کی آمد تک برقرار رہی۔ جنوبی افغانستان کے بیشتر علاقوں پر طالبان کے کنٹرول سے حکمت یار اور ربانی دونوں بیک وقت ایک نئے خطرے سے دوچار ہوئے اور شاید اس مشترکہ خطرے کا نتیجہ تھا کہ کابل پر طالبان کے قبضے سے چند ماہ قبل قاضی حسین احمد کی کوششوں سے دونوں رہنمائوں کے مابین معاہدہ طے پایا اور گلبدین حکمت یار وزیراعظم کی حیثیت سے کابل میں داخل ہوگئے ، تاہم ایک مختصر عرصے کے بعد انھیں ربانی اور مسعود سمیت طالبان کے ہاتھوں کابل سے نکلنا پڑا۔
۲۹۹۱ء سے لے کر ۶۹۹۱ء تک اگر کابل شہر پر قبضے کے لیے حکمت یار اور ربانی کی کشمکش جاری رہی تو باقی ماندہ افغانستان بھی شہرناپرسان کا منظر پیش کررہا تھا۔ ربانی حکومت عملاً کابل اور احمد شاہ مسعود کے ماتحت کاپیسا اور بدخشاں صوبوں تک محدود رہی ۔ نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد الگ الگ کمانڈروں نے مختلف صوبوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ مرکزی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر صوبے پر قابض کمانڈر اپنی طرز کی حکومت چلا رہا تھا ۔ مشرقی صوبوں یعنی ننگرہار، کونڑ اور لغمان کا انتظام حاجی عبدالقدیر کی زیرقیادت مشرقی شوریٰ کے پاس تھا جس میں مختلف کمانڈر شامل رہے ۔ ان کمانڈروں نے جگہ جگہ پھاٹک بنارکھے تھے اور گزرنے والے لوگوں سے بھاری ٹیکس وصول کیے جاتے تھے ۔ منظم فوج اورپولیس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان علاقوں میں امن وامان کی صورت حال انتہائی ابتر تھی ۔ ایرانی سرحد سے متصل شہر ہرات پر ربانی کے حامی ، مگر خودمختار کمانڈر اسماعیل خان نے قبضہ کررکھا تھا ۔ انھوں نے ہرات کے مشرق میں فراہ ، شمال میں غور اور مغرب میں بادغیس کے صوبوں تک اپنے دائرۂ اختیار کو وسیع کررکھا تھا۔ بلخ صوبے پر ازبک جنرل رشید دوستم کا قبضہ تھا اور انھوں نے بھی نواحی صوبوں جوزجان اور فاریاب تک اپنی حکومت کو وسعت دے رکھی تھی ۔ وسطی افغانستان یعنی بامیان وغیرہ شیعوں کے ماتحت تھے ۔ اس سے متصل کچھ علاقے اسماعیلی فرقے کے اسماعیل نادرے کے قبضے میں تھے ۔ قندھار کا کنٹرول گل آغا اور اسی نوع کے دیگر کمانڈروں نے سنبھال رکھا تھا ۔ الغرض پورا ملک انارکی کی کیفیت کا شکار تھا اور ہر جگہ کمانڈروں نے الگ الگ حکومتیں قائم کررکھی تھیں جو کسی مرکزی اتھارٹی کے پابند نہیں تھے۔ صوبوں کے حوالے سے مرکز کی بے اختیاری کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف ہرات کے گورنر اسماعیل خان ایران کے ساتھ اقتصادی معاہدے کررہے تھے تو دوسری طرف ننگرہار کے گورنر حاجی قدیر نے براہ راست دوبئی سے تجارتی پروازوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ بنیادی طور پر یہی انارکی تھی جس نے طالبان جیسی قوت کے عروج کی راہ ہموار کی ۔
[باقی]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ