HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

سیرت النبی (۱)

محمد اسلم نجمی


[علامہ ابن کثیر کی کتاب ’’سیرت النبی‘‘ سے ماخوذ]


واقعات عرب کا بیان

بیان کیا جاتا ہے کہ تمام عرب ۱؂ قبا ئل حضرت اسمعٰیل ۲؂ علیہ السلام سے اپنی نسبت قائم کرتے اور انھیں اپنا جد امجد اور مورث اعلیٰ مانتے ہیں۔

صحیح اور مشہور قول یہ ہے کہ عرب دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ان میں سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے قبل کے عرب باشندے عرب عاربہ کہلاتے ہیں ۔ عاد ، ثمود ، طسم ، امیم ، جرھم اور عمالیق اور اسی طرح کی بعض دوسری اقوم انھی کی قبیل سے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد سے بھی پہلے عرب میں آباد تھے اور ان کی نسل میں سے لوگوں کی کچھ تعداد ان کے زمانے میں بھی موجود تھی ۔

ان کی دوسری قسم عرب مستعربہ کہلاتی ہے ۔ اس نسل کے لوگ عرب کے علاقے حجاز کے باشندے ہیں اور ان کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہے۔

یمن میں آباد عرب حمیر کہلاتے ہیں ۔ابن ماکول کی روایت کے مطابق وہ قحطان نام کے ایک شخص کی اولاد میں سے ہیں جس کا اصل نام مہزم تھا۔ مورخین کے بیان کے مطابق وہ چار بھائی تھے ۔قحطا ن کے علاوہ باقی بھائیوں کے نام قاحط ، مقحط اور فالغ ہیں۔

قحطان کون تھا ؟ اس کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے۔ان میں سے بعض روایات کے مطابق :

۱۔قحطان حضرت ہود علیہ السلام کا بیٹا تھا۔

۲۔قحطان ہود علیہ السلام ہی کا دوسرا نام ہے۔

۳۔قحطان ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا ۔

۴۔قحطان حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل سے تھا ۔

بعض علماے انساب نے ان کا سلسلۂ نسب یہ بیان کیا ہے:

قحطان بن ہمیسع بن تیمن بن قیذر بن نبت بن اسمٰعیل علیہ السلام۔

ان کے سلسلۂ نسب کے بارے میں اور اقوال بھی ہیں ۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’باب نسبۃ الیمن الی اسمٰعیل علیہ السلام‘ کے تحت حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کے لوگوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ وہ شمشیر زنی کی مشق کر رہے ہیں۔اس پر آپ نے فرمایا :اے بنی اسمٰعیل !تیر اندازی کرو اوراس معاملے میں میں فریقین میں سے فلاں فریق کے ساتھ ہوں۔اس پر انھوں نے اپنے ہاتھ روک لیے۔آپ نے پوچھا :تمھیں کیا ہوا؟ تم تیر اندازی سے کیوں رک گئے ؟ انھوں نے کہا : ہم تیر اندازی کی یہ مشق کیسے جاری رکھ سکتے ہیں جبکہ آپ فلاں یعنی مد مقابل فریق کے ساتھ شامل ہیں ۔ایسی صورت میں آپ کو گزند پہنچنے کا خطرہ ہے۔یہ سن کر آپ نے کسی ایک فریق کے ساتھ مل کر تیر اندازی کی مشق میں حصہ لینے کا ارادہ ترک کردیا اور فرمایا :تیر اندازی کی مشق جاری رکھو ،میں تم سب کے ساتھ ہوں۔

امام بخاری اس روایت کے بیان کرنے میں منفرد ہیں۔

ایک دوسری روایت میں انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ ایک مرتبہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر قبیلہ اسلم کے ایسے لوگوں کے قریب سے ہوا جو تیر اندازی کے طریق پر شمشیر زنی کر رہے تھے۔یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا:تیر اندازی کرو اے بنی اسمٰعیل ،میں بھی تم دونوں فریقوں میں سے بنی فلاں شامل ہو جاتا ہوں۔یہ سن کروہ رک گئے۔اس پر آپ نے پوچھا :تمھیں کیا ہوا؟تم نے نشانہ بازی روک دی ؟انھوں نے عرض کی:ہم کیسے تیر اندازی کر سکتے ہیں جب کہ آپ بنی فلاں کے ساتھ شامل ہیں اور ایسی صورت میں آپ کو گزند پہنچ سکتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: تم تیر اندازی کرو ،میں کسی ایک گروہ کے ساتھ شامل ہونے کے بجائے تم سب کے ساتھ ہوں۔

امام بخاری یہ روایت بیان کرنے میں بھی منفرد ہیں ۔

بعض روایات میں ان سے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں کہ بنی اسمٰعیل شمشیر زنی کے بجائے تیر اندازی کرو، کیونکہ تمھارے جد امجد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بہت بڑے تیر انداز تھے،تم تیر اندازی ہی کرو اور میں ابن الادرع کی طرف سے تمھارے ساتھ شریک ہوتا ہوں۔اس گروہ نے تیر اندازی سے ہاتھ کھینچ لیا، مبادا آپ کو کوئی گزند پہنچے ۔ تب آپ نے فرمایا : تم تیر اندازی جاری رکھو ،میں تم سب کے ساتھ ہوں یعنی میں کسی ایک گروہ کی طرف سے شامل ہو کر فریق نہیں بنتا۔

امام بخاری فرماتے ہیں:اسلم بن افضی بن حارثہ بن عمر بن عامر بنو خزاعہ میں سے تھا ۔اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ بنو خزاعہ ۳؂ سبا ۴؂ کے قبائل کی ایک شاخ ہے۔ یہ ان سے اس وقت جدا ہو گئے جب اللہ تعالیٰ نے ان پر عرم ۵ ؂ کا سیلاب بھیجا ۔ اوس اور خزرج ۶؂ بھی انھی قبائل سبا کی شاخیں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی مخاطب کرکے فرمایاتھا:تیر اندازی کرو ، اے بنی اسمٰعیل ۔آپ کا یہ فرمانااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اوس و خزرج بھی بنی اسمٰعیل کی اولاد میں سے تھے۔

بعض لوگوں نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ انھیں بنی اسمٰعیل میں سے قرار دینے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ وہ جنس عرب سے ہیں ،مگر امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ تاویل بعید،ظاہر کلام کے خلاف اور بلا دلیل بات ہے۔

ان تمام آرا کے علی الرغم جمہور کا فیصلہ یہی ہے کہ قحطانی عرب یمن اور دوسرے علاقوں کے رہنے والے ہیں ۔ یہ اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے نہیں ہیں۔اور ان کے نزدیک تمام عرب قحطانی اور عدنانی ،دو ہی قبائل میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتے ہیں۔قحطانی عرب دو شاخوں سبا اور حضرموت میں منقسم ہو گئے ہیں۔اسی طرح عدنانیوں کی بھی دو شاخیں ربیعہ اور مضر ہیں۔یہ دونوں گروہ نزار بن معد بن عدنان کی اولاد میں سے ہیں۔

عربوں کے پانچویں قبیلے کا نام قضاعہ ہے ۔اس کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے۔ابن عبد البر اور اکثر مورخین کی رائے میں یہ دراصل عدنانی ہی ہیں ۔ابن عباس ،ابن عمر اور جبیر بن مطعم سے بھی یہی قول نقل ہوا ہے۔زبیر بن بکار اور ان کے چچا مصعب زبیری اور ابن ہشام بھی اسی نقطۂ نظر کے حامی ہیں۔اس نسبت کے بارے میں ایک حدیث بھی ملتی ہے ، مگر ابن عبدالبر اور بعض دوسرے اہل علم کی رائے میں وہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

بعض اہل تحقیق کی رائے ہے کہ یہ لوگ دور جاہلیت اور اسلام کی ابتدا میں اپنی نسبت عدنان کی طرف کرتے تھے ، البتہ یہ لوگ خالد بن یزید بن معاویہ کے ننھیالی رشتہ دار تھے ۔ لہٰذا جب ان کا دور آیاتو یہ قحطانی کہلانے لگے۔عرب کا مشہور شاعر اعشیٰ بن ثعلبہ اپنے ایک قصیدے میں ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’بنو قضاعہ کو یہ بات لکھ کر پہنچا دو کہ وہ اگر اللہ والوں کی اولاد نہ ہوتے (یعنی ان کاتعلق بنو عدنان سے نہ ہوتا )تو وہ کبھی صاحب عزت قرار نہ پاتے۔‘‘
’’قضاعہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اہل یمن میں سے ہیں اور قحطانی ہیں،مگر اللہ جانتا ہے کہ نہ انھوں نے خیر کی بات کہی اور نہ انھوں نے سچ بولا۔‘‘
’’انھوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا والد قرار دیا ہے جو کبھی ان کی ماں سے نہیں ملا۔ وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں ، مگر(ان میں اور ہم میں ) فرق یہی ہے کہ ہم حقیقت کا اقرار کرتے ہیں ، وہ جانتے بوجھتے نہیں مانتے۔‘‘

ابو عمرو السہیلی نے اپنی کتا ب ’’روض الانف‘‘ میں عربوں کے کچھ اشعار پیش کیے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو قضاعہ کی اہل یمن کی طرف نسبت یعنی ان کے قحطانی ہونے کا دعویٰ ان کی اپنی ایجاد و اختراع ہے۔

اس نقطۂ نظر کے علی الرغم ابن اسحق،کلبی اور بعض دوسرے علماے انساب کی رائے ہے کہ بنو قضاعہ قحطانی ہی ہیں۔ابن اسحق نے ان کا سلسلہ نسب یو ں بیان کیا ہے:

قضاعہ بن مالک بن حمیر بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان۔

ان کے بعض شعرا نے بھی اپنے اشعار میں قحطانیہ کی جانب اپنی نسبت کاذکر کیا ہے۔ان میں سے ایک عمرو بن مرہ جو کہ صحابی بھی ہیں اور اس بارے میں ان سے دو حدیثیں بھی مروی ہیں۔وہ کہتے ہیں:

’’اے پکارنے والے تو ہمیں پکار اور خوش ہو اور بنو قضاعہ کی طرف ہمیں بلا تکلف منسوب کراور تو ہمیں حقیر نہ سمجھ ہم گورے چٹے شیخ قضاعہ بن مالک بن حمیر کی اولاد ہیں۔‘‘
’’ہمارا یہ نسب نہایت معروف ہے ،اس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ توگویا ایسی حقیقت ہے جو پتھر پر نقش ہے اور یہ پتھرمسجد کے ممبر کے نیچے محفوظ ہے۔‘‘

بعض علماے انساب کے مطابق قضاعہ کا شجرۂ نسب یہ ہے:

قضاعہ بن مالک بن عمرو بن مرۃ بن زیدبن حمیر ۔

ابن لہیہ عقبہ بن عامر سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:کیا ہم بنو معد میں سے ہیں ؟ آپ نے ارشادفرمایا :نہیں ۔عقبہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : تو پھر ہمارا شجرۂ نسب کیا ہے؟آپ نے فرمایا : تم قضاعہ بن مالک بن حمیر کی اولاد ہو۔

ابو عمر بن عبدالبر کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جہینہ بن زید بن اسلم بن عمران بن الحاف بن قضاعہ ہی عقبہ بن عامر الجہنی کا قبیلہ تھا ۔اگر اسے درست مان لیا جائے تو قضاعہ اہل یمن اور حمیر بن سبا کی اولاد قرار پاتے ہیں۔

ابن زبیر بن بکار اور بعض دوسرے علمائے انساب نے بنو قضاعۃ کے عدنانی یا قحطانی ہونے کے بارے میں دونوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مالک بن حمیر نے قبیلہ جرہم کی ایک عورت سے شادی کی ۔اس کے شکم سے قضاعہ پیدا ہوا۔پھرقضاعہ کا والد فوت ہوگیا اوراس کی والدہ معد بن عدنان کی زوجیت میں آگئی ۔ بعضوں کا خیال ہے کہ جب وہ معد کے گھر میں آئی تووہ حاملہ تھی ،اس لیے اس دور کے رواج کے مطابق وہ،پیدایش کے بعد اپنی ماں کے شوہر کی طرف منسوب ہو گیا۔

محمد بن سلام بصری کی تحقیق کے مطابق عرب تین قبائل، قحطانی ،عدنانی اور بنو قضاعہ پر مشتمل ہیں۔ ان سے پوچھا گیاکہ قحطانیوں اور عدنانیوں میں سے کس کی اکثریت ہے؟اس نے کہا کہ اس کا انحصار بنو قضاعہ کے الحاق پر ہے ۔انھیں اگر یمنی عربوں میں شمار کیاجائے تو قحطانیوں کی اکثریت ہوگی اور اگر ان کا سلسلۂ نسب بنو معد سے قائم کیا جائے تو عدنانی زیادہ ہوں گے۔

اس بحث سے واضح ہے کہ علماے انساب کا بنو قضاعہ کی نسبت میں اختلاف ہے۔اور اگر ابن لہیۃ کی مذکورہ روایت کو صحیح مان لیا جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قحطانی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اے لوگو!ہم نے تم کو ایک ہی نر اور ناری سے پیدا کیا ہے اور تم کو کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے کہ تم باہم دگر تعارف حاصل کرو۔اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ اشرف وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘(الحجرات ۴۹: ۱۳) ۷ ؂

اللہ تعالیٰ نے شعوب و قبائل کا اس طرح ذکر نسلی ،خاندانی اور گروہی غرور کے خاتمے کے لیے کیا ہے ، مگرعلماے انساب نے اسے انسانوں کی عمومی تقسیم خیال کرتے ہوئے کہاہے کہ آیت مذکور میں شعوب کا لفظ استعمال ہوا ہے ، مگر اس کے مفہوم میں اور معانی بھی شامل ہیں،اور وہ اس طرح کہ نسب کا انتہائی بالائی حصہ شعب کہلاتا ہے ، لہٰذاپہلے شعوب کا ذکر ہوتا ہے ،پھر قبائل پھرعمائر پھر بطون پھر افخاذ پھر فصائل اور پھر عشائر آتے ہیں۔اور عشائر عشیرہ کی جمع ہے یہ لفظ عربی میں رشتہ دار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔اس سے مراد کسی شخص کے سب سے قریبی اعزا ہوتے ہیں۔ان کے بعدشعوب کی قبیل سے کوئی رشتہ باقی نہیں بچتا۔

اب اس تفصیل کے بعد خدا کی تائید و نصرت سے پہلے ہم قحطانیہ کے ذکر سے اپنی بحث کی ابتدا کریں گے اور پھر حجازی عربوں ،جو کہ عدنانی ہیں ،اور دور جاہلیت کے واقعات کا ذکر کریں گے تاکہ یہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمہید بن جائیں۔ کیونکہ ثقاۃ جامعین سیرت نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔

امام بخاری اپنی صحیح میں ’باب ذکر قحطان‘ کے تحت حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت لائے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت برپا نہیں ہوگی ۔ یہاں تک کہ قحطان میں سے ایک شخص اٹھے گا اور وہ لوگوں کو اپنے عصا سے ہانکے گا( یعنی وہ بادشاہ بنے گا)۔یہی روایت مسلم میں ثور بن زید سے روایت ہوئی ہے۔

سہیلی کی تحقیق کے مطابق قحطان وہ پہلا شخص تھا جسے ’ابیت اللعن‘ کا خطاب دیا گیا،اور وہ پہلا شخص تھا جسے ’انعم صباحاً‘ کہا گیا۔

امام احمد ذی فجر کے حوالے سے ایک روایت بیان کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکمرانی پہلے حمیر کے پاس تھی ،پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ اعزاز چھین کر قریش کو دے دیا۔امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد کی کتا ب میں و س ی ع و د ا ل ی ہ م کی صورت میں مقطعات موجود تھے اور انھیں ہم اگر رواں صورت میں پڑھیں تو یہ ’وسیعود الیھم‘ بنتا ہے۔ گویا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سیادت وبادشاہت قریش سے دوبارہ حمیر کو منتقل ہو جائے گی۔

[باقی]

_______

حواشی

۱؂ یہ قبائل عرب کے جس خطے میں آباد ہوئے وہ جزیرہ نما ہے۔ یہ تین اطراف سے پانی میں گھرا ہوا ہے۔اس کے مشرق میں خلیج فارس ہے ۔قدما اسے بحر جنوبی ،بحر اسفل ، بحر تحتانی اور بحر شروق وغیرہ جیسے ناموں سے جانتے تھے۔اسی طرح اس کے جنوب میں بحر ہنداور مغرب میں بحر احمر ہے ۔ یونانی ،لاطینی اور جدید خریطوں میں بحر احمرکا نام خلیج عربی بیان ہو ا ہے ، جبکہ عربی کتب میں اسے بحر قلزم کا نام دیا گیا ہے۔یہی وہ دریا تھا جسے بنی اسرائیل نے فرعونیوں کی غلامی سے نجات پانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رفاقت میں موجودہ سویز اور اسماعیلیہ کے درمیان سے عبور کیا تھا۔گویا اسی دریا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا مارنے پرراستہ بنا جہاں سے بنی اسرائیل پار ہو کر وادی سینا میں داخل ہوئے اور اسی جگہ فرعون غرق ہوا۔اس کی شمالی حدود خلیج عقبہ سے لے کر شط العرب (خلیج عربی) تک پھیلی ہوئی ہے۔ HASTINGS کی ‘DICTIONARY OF THE BIBLE’, VOL., 1 COL., 585 کے مطابق بعض علمائے یہودکی رائے میں بلا د عرب کے جن علاقوں کا ذکر تورات میں ہے ، وہ جزیرہ نماے عرب ہی کے علاقے ہیں، اور اسماعیلی اور قطوری قبائل قدیم سے یہاں آباد ہیں۔

معروف کے مطابق جزیرہ نماے عرب پانچ حصوں میں منقسم ہے ۔ان حصوں کے نام یہ ہیں:۔

۱۔حجاز ۲۔تہامہ ۳۔یمن ۴۔عروض ۵۔نجد ۔

۲؂ ان کا سلسلۂ نسب اسماعیل بن ابراہیم الخلیل بن آزر ہے۔ یہ سام بن نوح کی نسل سے تھے۔ علماے انساب عرب باشندوں کی تین اقسام بیان کرتے ہیں :بائدہ عاد ،ثمود اور جرہم اولیٰ پر مشتمل ہیں،عاربہ یمنی ہیں اور قحطان کی اولادمیں سے ہیں اورعرب مستعربہ حضرت اسماعیل کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابن الوردی کی ایک رائے کے مطابق حضرت اسماعیل اپنی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ۲۷۹۳ سال قبل حجاز کے علاقے میں آباد ہوئے ۔قرآن مجید (۱۴: ۳۷) میں اس کا ذکر آیا ہے۔یہیں انھوں نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد جرہم اولیٰ ،جو کہ قحطانی النسل تھے ،ان کی ایک عورت سے شادی کی ۔ اس خاتون سے ان کے بارہ بیٹے ہوئے۔ان میں سے ایک کا نام قیدار تھا جو بنی عدنان کا مورث اعلیٰ تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھی کی اولاد سے ہیں۔

یہاں آباد ہونے کے بعد انھوں نے اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مل کر کعبۃ اللہ کی تعمیر میں حصہ لیا (۲: ۱۲۷)۔

آپ کی وفات مکہ ہی میں ہوئی اور آپ اپنی والدہ کے پہلو میں مقام حجر پر دفن ہوئے۔

۳؂ خزاعہ عمرو بن لحی کی اولاد سے ہیں،جو کہ قحطانی النسل تھا ۔بعض علماے انساب نے انھیں مضری ہونے کے ناتے عدنانی قرار دیا ہے۔لیکن اہل تحقیق کی اکثریت انھیں قحطانی ہی قرار دیتی ہے۔یہ ابتدا میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ابوا میں آکر آباد ہوئے تھے،مگر بعد میں ان کی بعض شاخوں نے غزال ،دوران اور عسفان کی وادیوں اور تہامۃ الحجاز کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔اور ان کے بعض قبیلے شام اور عمان کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔

انھیں تین سو سال تک بیت الحرام کی ولایت کا شرف حاصل رہا۔

۴؂ سبا کے بارے میں سید ابو الاعلی صاحب مودودی لکھتے ہیں:

’’سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارالحکومت مآرب تھاجوموجودہ یمن کے دارالسلطنت صنعاء سے ۵۵ میل بجانب شمال مشرق واقع ہے ۔ اس کا زمانۂ عروج معین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریباُ ۱۱۰۰ ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی ۔ پھر ۱۱۵ ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی ۔ عرب میں یمن اور حضرموت ،اور افریقہ میں حبش کے علاقے پر اس کا قبضہ تھا ۔ مشرقی افریقہ ،ہندوستان ،مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر و شام اور یونان و روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انھی سبائیوں کے ہاتھ میں تھی۔اسی وجہ سے یہ قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی ۔ بلکہ یونانی مؤرخین تو اسے دنیا کی سب سے زیادہ مال دار قوم کہتے ہیں۔تجارت کے علاوہ ان کی خوش حالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ نھوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظام آب پاشی قائم کر رکھا تھا ۔جس سے ان کا پورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا۔ان کے ملک میں اس غیر معمولی سرسبزی و شادابی کا ذکر یونانی مورخین نے بھی کیا ہے۔اور سورۂ سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳/ ۵۶۸۔۵۶۹)

یہ قوم بحر احمر کے شمالی کنارے پر یمن کی سرزمین پر آباد تھی ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت فلسطین و شام سے لے کر بحر احمر کے شمالی کناروں تک پھیلی ہوئی تھی ،لہٰذا یہ بدیہی امر ہے کہ وہ اس سلطنت اوراس کے حکمرانوں سے ضرور واقف ہوں گے۔ان کے والد ماجد حضر ت داؤد علیہ السلام کی اس قوم سے واقفیت کی گواہی تو خود زبور میں موجود ہے:

’’اے خدا، بادشاہ ،(یعنی حضرت داؤد کو) اپنے احکام اور شاہزادے (یعنی حضرت سلیمان) کواپنی صداقت عطا فرما ۔۔۔ ترسیس اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گزرانیں گے ۔سبا اور شیبا (یعنی سبا کی یمنی اور حبشی شاخوں )کے بادشاہ ہدیے لائیں گے۔‘‘ (۷۲: ۱، ۲ ،۱۰، ۱۱)

قرآن مجید میں سورۂ نمل میں ہدہد نے حضرت سلیمان کے سامنے اپنی غیر حاضری کی وجہ بیان کرتے ہوئے قوم سبا کے جو حالات بیان کیے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے لوگوں کا مذہب آفتاب پرستی تھا ۔ابن اسحق کی تحقیق کے مطابق ان کے مورث اعلیٰ کا نام اپنے اسی مذہب کی رعایت سے عبد شمس تھا۔

۵؂ عرم کالفظ عربی زبان میں زور دار بارش کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ یہ لفظ (اگر اسے عرمہ کی جمع قرار دیا جائے تو ) ان پتھروں کے لیے آتا ہے جو تہ بہ تہ اکٹھے کیے گیے ہوں۔اقرب الموارد میں اس لفظ کا مطلب ’سد یعترض بہ الوادی‘ بیان ہوا ہے جس کے معنی اس بند کے ہیں جو کسی وادی کے بیچ میں بنایا جائے۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سبا نے اپنے علاقے میں دو پہاڑوں کے درمیان میں ایک بہت بڑا بند تعمیر کیا تھا ۔ یہ بند انھیں ایک جانب سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھتا تھا اور دوسری طرف یہاں سے نہریں نکال کر انھوں نے اپنے ہاں آب پاشی کا شان دار نظام قائم کر رکھا تھا ۔اسی نظام آب پاشی پر ان کی زمینوں کی سر سبزی اور شادابی اور ان کی خوش حالی کا دارومدار تھا ۔گویا ہمارے منگلا اور تربیلا ڈیم کی طرح یہ کئی میل لمبا اور کئی میل چوڑا ایک بند تھا ۔تاریخوں میں اس کا ذکر سد مأرب کے نام سے آتا ہے۔

سورۂ نحل کی آیت ۱۳ ۱سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جانب رسول بھیجا۔قوم کے لوگوں نے اپنے رسول کے انذار کو پس پشت ڈال کر سرکشی اختیار کیے رکھی ۔اس کے نتیجے میں ان پر اللہ کا عذاب آیا ۔اور اس عذاب کی صورت یہ ہوئی کہ سد مأرب ٹوٹ گیا۔ اس کا بے پناہ پانی تباہی پھیلاتا ہوا چاروں طرف بہ نکلااور اس وقت کی آباد دنیاکازرخیز ترین خطہ تاراج ہو کر رہ گیا۔

۶؂ اوس و خزرج دونوں حارثہ بن تعلبہ کے بیٹے تھے ۔یہ ازدی اور قحطانی النسل تھے ۔یہ یمن سے ہجرت کر کے یثرب میں آباد ہوئے تھے۔دور جاہلیت کا مشہور بت منات انھی قبیلوں میں پوجاجاتا تھا۔

جب اسلام کا ظہور ہوا تو اوس کے سر دار سعد بن معاذ بن نعمان بن أمریء القیس تھے اور خزرجیوں کی سیادت سعد بن عبادہ بن دلیم بن حارثہ کے پاس تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیاتو دونوں ایمان لے آئے ۔اس کے نتیجے میں ان کے قبیلوں نے بھی اسلام قبول کر لیا ۔اور ہجرت کے وقت انھیں انصاری ہونے کاشرف حاصل ہوا۔

۷؂ قرآن مجید کی یہ آیت سورۂ حجرات کے دوسرے پیرے کی آخری آیت ہے ۔یہ پیرا تین آیات پر مشتمل ہے اور آیت ۱۱ سے شروع ہوتا ہے۔اس پیرے میں اہل ایمان کو ان باتوں سے روکا گیا ہے جودلوں میں بدی کی ایسی تخم ریزی کا باعث بنتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں پورے معاشرے کے مسموم ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔اور اگر بر وقت اس کا سد باب نہ کیا جائے تو رحماء بینھم کی صفت کے اعداء بینھم میں بدل جانے کا شدیدخطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

اس آیت میں بتایا گیاہے کہ لوگوں کی شکلوں ،رنگوں اور ان کے قد وقامت کی طرح نسلو ں قبیلوں اورخاندانوں کا فرق بھی محض اس لیے ہے کہ انھیں بس اپنی پہچان کا ذریعہ سمجھا جائے۔دینی اعتبار سے ایسی چیزوں کے ساتھ کبھی بھی کسی قسم کا شرف و تفوق وابستہ نہیں ہوتا۔

____________

B