تصنیف : سید امیر بادشاہ بخاری،
صفحات : ۱۳۹،
قیمت : ۴۰ روپے،
پتا : تاج کتب خانہ ، محلہ جنگی قصہ خوانی پشاور۔
سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین ہندوستان میں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا ایک درخشندہ باب ہے۔ بعد کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمانوں کی انگریزوں کے خلاف چلائی گئی ہر تحریک اس تحریک سے متاثر نظر آتی ہے ۔ سید احمد شہید کی تحریک پر علما اور دانش وروں نے بہت کچھ لکھا ہے جن میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور مولانا غلام رسول مہر جیسے بلند پایہ اہل قلم شامل ہیں۔ اسی سلسلے میں سید ابو الاعلیٰ مودودی اور اشتیاق حسین قریشی کے تبصرے بھی سامنے آچکے ہیں ۔مگر ۱۸۳۱ء میں سید احمد شہید کی شہادت کے بعد اس تحریک کے ساتھ کیا ہوا؟ اس سوال کے جواب کے لیے جتنا کام ہونا چاہیے تھا ، وہ نہیں ہو سکا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سید احمد شہید کے بعد یہ تحریک قیام پاکستان تک کسی نا کسی صورت میں جاری رہی ،بلکہ اس تحریک کے مجاہدین نے پاکستان بننے کے بعد کشمیر کے محاذ پر بھی جنگ لڑ کر قربانیاں دی ہیں ۔
زیر نظر کتاب تحریک مجاہدین کے اس دور سے متعلق ہے جب سید صاحب شہید ہوئے تھے اور بچ جانے والے ساتھی مجاہدین نے ہندوستان میں اپنے گھروں کو جانے کے بجائے سرحدی قبائلی علاقوں میں مورچہ بندی کر کے پہلے سکھوں کے خلاف جدوجہد کی اور پھر ۱۸۴۹ء میں انگریزوں کے صوبۂ سرحد پرقا بض ہونے کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھی ۔ بقول مصنف وہ انگریزوں کی خفیہ دستاویزات ایک اور موضوع—- انگریزوں کی طرف سے صوابی کے علاقے کے خوانین کو جائداد یں کیسے دے دی گئی تھیں ؟—- کے لیے دیکھ رہے تھے کہ اس دوران میں بعض ایسی دستاویزات ان کی نظر سے گزریں جو نہایت اہم تھیں۔ اس کے علاوہ مولانا غلام رسول مہر کی کتابیں دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے سید احمد شہید کی تحریک کی نا کامی میں سب سے بڑا ہاتھ پختونوں کی غداری کا ہے ، جبکہ مصنف کے نزدیک صحیح صورت حال یہ ہے کہ اگر ایک طرف پختونوں میں ہنڈ کا خادی خان، پشاور میں سلطان محمد خان اور یارمحمد خان درانی جیسے غدار تھے تو دوسری جانب زیدہ کے فتح خان، پشاور کے ارباب بہرام خان اور دوسرے ہزارہا جان باز پختون شامل تھے۔ ارباب بہرام خان نے تو سید صاحب کے ساتھ بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا۔ اسی طرح صوابی کے سید امیر مشہوربہ کوٹھا باباجی، ستھانہ اورملکا کے سادات خاندان بھی صوبۂ سرحد میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑے۔ مصنف سوال اٹھاتا ہے کہ اگر صوبہ سرحد کے لوگ مجاہدین کا ساتھ نہ دیتے تو کیا وہ اپنی تحریک ۱۹۴۸ء تک جاری رکھ سکتے تھے۔
کتاب کے مصنف پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں ، لیکن وکالت کے ساتھ وہ علمی ذوق بھی رکھتے ہیں ۔ اس کا اظہار صوابی کے ایک گاؤں میں ان کی ذا تی لائبریری سے ہوتا ہے جس میں اسلام، تاریخ اور سیاسیات کے علاہ رسائل و جرائد کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عملی سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ انتخابات میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طرف سے میدان میں اتر چکے ہیں۔ مصنف نے کتاب کا انتساب ان وکیل بھائیوں کے نام کیا ہے جو پیشے کے ساتھ ساتھ ’’فریضۂ اقامت دین‘ ‘ کا حق بھی ادا کرتے ہیں اور تحقیق کا کام بھی کرتے ہیں ۔کتاب پیش لفظ اور ضمیمہ جات کے علاوہ سات موضوعات پر مشتمل ہے ۔
کتاب کے پہلے حصے میں انھوں نے جہاد کے موضوع پر بات کی ہے اور بعد میں ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال اور انگریزوں کی آمد اور پھر اس کے بعد دین کے احیا کے لیے تحریکوں کا ذکر ہے جس میں زیادہ زور سید احمد شہید کے کام پر دیا گیا ہے۔ کتاب کے باقی موضوعات یہ ہیں: مجاہدین اور کالا ڈھاکہ، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور مجاہدین ،جنگ نارنجی اور مجاہدین، مجاہدین منگل تھانے میں،جنگ امبیلہ اور مجاہدین اور جنگ امبیلہ کے بعد ۔
مصنف نے اپنی رائے کو مدلل بنانے کے لیے ان لڑائیوں کا ذکر کیا ہے جو ان مجاہدین نے مقامی لوگو ں کے تعاون سے انگریزوں کے خلاف لڑی ہیں۔ جن میں کالا ڈھاکہ کی مہم کو انگریزوں نے اپنی فوجی تاریخ میں ریکارڈ کیاہوا ہے ۔ اسی طرح ۱۸۶۳ء کی امبیلہ جنگ تو برطانوی ہندوستان کی تاریخ میں ایک یادگار واقعہ ہے ۔ اس جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگریز کمانڈر انچیف خود اس جنگ کی کمان کرنے کے لیے سرحد آنا چاہتا تھا ، مگر بوجوہ نہ آسکا اور وہ لاہور سے اس مہم کی نگرانی کرتا رہا۔ مزید یہ کہ اس جنگ میں انگریزوں کی نو ہزار فوج نے حصہ لیا۔ جنگ کے اختتام پر دو انگریز افسروں کو تاج برطانیہ کی طرف سے سب سے بڑا فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس دیا گیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ نے انگریزوں کو مالی، عسکری اور نفسیاتی طور پر بہت نقصان پہنچایا جس کا اعتراف انھوں نے خود ان الفاظ میں کیا ہے:
“.. It is true that, in spite of all opposition, we accomplished our original object, but the anxiety, the expense, and the losses incurred, were out of all proportion to the end achieved, and our long detention , perhaps rather injured our prestige. In this retrospect, therefore, the Compaign is not altogether staisfactory”.(p. 89)
یہی وجہ ہے کہ جنگ کے اختتام پر انھوں نے ہندوستان بھر سے مجاہدین کے لیڈروں جیسے مولانا عبدالرحیم، قاضی میاں جان، میاں عبد الجعفر، عبدالکریم انبالوی، عبدالغفور، حسین ابن محمد بخش، حسین ابن میغو ، الہٰی بخش ابن کریم بخش اور میاں عبدالغفار کو گرفتارکیا ، جبکہ مولانا محمد جعفر تھانیسری، شیخ محمد شفیع ، مولانا یحییٰ علی کو گرفتار کر کے پہلے موت کی سزاسنا دی گئی بعد میں ان کو جزائر ا نڈیمان جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی طرح ۱۸۶۸ء میں صوبۂ سرحد کی تا ریخ میں پندرہ ہزار پر مشتمل انگریزی فوج نے کالا ڈھاکہ مہم میں حصہ لیا۔
مصنف نے تفصیلاً بیان کیا ہے کہ ان مہمات میں مجاہدین کی مدد کرنے پر مقامی لوگوں کو کس کس طرح نقصان پہنچایا گیا ، جس میں لوگوں کا معاشرتی مقاطعہ، ملک بدری، مکانات کا جلا نا، فصلوں کو تباہ کرنا اور اس کے علاوہ قید و بند کی صعوبتیں دینا شامل ہیں۔
مصنف نے مختلف واقعات کے لیے برطانوی دور کی دستاویزات سے استفادہ کیا ہے اور جگہ جگہ اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ البتہ حوالہ جات میں وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو عموماً تحقیقی نوعیت کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ شاید مصنف کا ا ن طریقوں سے ناواقف ہونا ہے ، اسی لیے اکثر حوالے نامکمل ہیں۔ مصنف نے مجاہدین کے رہنماؤں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی معلومات امیرالمجاہدین مولوی نعمت اللہ کے بارے میں بہت ناقص ہیں۔ ان کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں :
’’ان کو ۱۹۲۲ء میں بعض گم کردہ راہ اشخاص کی سازش سے شہید کیا گیا۔‘‘
ان کی شہادت کا واقعہ اپنی جگہ درست ہے ، کیونکہ کسی بھی شخص کو انتہائی خطرناک حالات کے علاوہ عدالت کے فیصلے کے بغیر قتل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولوی نعمت اللہ کا اخلاق اور کردار دوسرے مجاہدین رہنماؤں سے بہت مختلف تھا۔ بلکہ ان کی امارت تحریک مجاہدین کے لیے قابل فخر نہیں ہے۔ مولوی محمد علی قصوری کی اپنی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’’مشاہدات کابل و یاغستان‘‘ میں ان کی خامیوں اور کردار کی کمزوریوں کو تفصیلاً بیان کیا ہے ۔
مولوی نعمت اللہ کا قتل مولوی محمد یوسف نامی شخص نے کیا تھا اور یہ ان پندرہ طالب علموں میں شامل تھا جنھوں نے ۱۹۱۵ء میں لاہور کے مختلف کالجوں سے تعلیم چھوڑ کر افغانستان اور قبائلی علاقہ جات کا سفر کر کے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا۔ محمد یوسف نے امیر صاحب کے غلط رویوں اور انگریزوں کے ساتھ معاہدہ سے دل برداشتہ ہو کر ان کے قتل کا فیصلہ کیا اور خود بھی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
کتاب کے سرورق سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ تحریک مجاہدین کے جنگ بالا کوٹ کے بعد کے تمام واقعات پر مشتمل ہوگی۔ بلاشبہ ، اس میں جنگ بالاکوٹ کے بعد کے واقعات شامل ہیں ، لیکن یہ صرف ۱۸۹۱ء تک ہیں ۔اس کے بعد اہم واقعات جیسے ۱۸۹۷ء میں پختونوں کی انگریزوں کے خلاف بغاوت اور اس میں مجاہدین کا کردار، ۱۹۱۵ء میں بونیر کے مقام پر لڑائی ، مہمند ایجنسی میں چمرکنڈ کے مقام پر مجاہدین کے ایک بہت اہم کیمپ کا قیام اور اس کے دو بڑے اہم رہنماؤ ں مولوی فضل الہٰی اور مولوی محمد بشیر کا تذکرہ ، وزیرستان کے مقام مکین میں مجاہدین کی آمد اور لڑائیوں میں کردار، حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ تعاون و امداد ، ۱۹۱۹ء میں انگر یزوں کے خلاف جنگ میں افغانستان کی حمایت جیسے اہم موضوعات پر مصنف نے تبصرہ نہیں کیا ۔ اس لیے یہ صرف ۱۸۴۹ء سے ۱۸۹۱ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔
کتاب کی ترتیب و تدوین میں بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔ عنوانات مناسب انداز سے نہیں دیے گئے ہیں۔ اسی طرح اگرچہ ایک مختصر فہرست کتابیات کی بھی ہے ، لیکن یہ کتاب کے آخر میں نہیں ہے۔ بحیثیت مجموعی مصنف کی جانب سے یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ خصو صاً دیہاتی ماحول میں بیٹھ کر تحقیقی کتاب لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مزید یہ کہ مصنف اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں کہ اس غلط فہمی کو دور کریں کہ تحریک مجاہدین میں پختونوں کا کردار منفی رہا ہے۔ تحریک آزادی ہند اور اسلامی تحریکوں میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب مفید ہے۔
____________