HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۲۲-۲۲۳ (۴۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ ، قُلْ : ھُوَ اَذًی ، فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِی الْمَحِیْضِ ، وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ، فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ{۲۲۲} نِسَآؤُکُمْ  حَرْثٌ  لَّکُمْ ، فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ ، وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ، وَاتَّقُوا  اللّٰہَ ، وَاعْلَمُوْآ  اَنَّکُمْ  مُّلٰقُوْھُ ، وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ{۲۲۳}
اور (نکاح کا ذکر ہوا ہے تو) وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ (عورتوں کے) حیض کا کیا حکم ہے ؟ ۵۸۷  کہہ دو : یہ ایک طرح کی نجاست ہے ۔ چنانچہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ خون سے پاک نہ ہو جائیں ، اُن کے قریب نہ جاؤ۔ پھر جب وہ نہا کر پاکیزگی حاصل کر لیں تو اُن سے ملاقات کرو ، ۵۸۸ جہاں سے اللہ نے تمھیں (اِس کا) حکم دیا ہے ۔ ۵۸۹ یقینا اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو توبہ کرنے والے ہوں اور اُن کو جو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہوں ۔ ۵۹۰  تمھاری یہ عورتیں تمھارے لیے کھیتی ہیں ، ۵۹۱  لہٰذاتم اپنی اِس کھیتی میں جس طرح چاہو ، آؤ ۵۹۲ اور (اِس کے ذریعے سے دنیا اور آخرت ، دونوں کے لیے) آگے کی تدبیر کرو ۵۹۳ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان لو کہ تمھیں (ایک دن) لازماً اُس سے ملنا ہے ۔ ۵۹۴ 
اور ایمان والوں کو (اے پیغمبر، اِس ملاقات کے موقع پر فلاح و سعادت کی ) خوش خبری سنا دو ۔ ۲۲۲ ۔ ۲۲۳

۵۸۷؎ دین کا مقصد ہی چونکہ تزکیہ ہے ، اس لیے حیض و نفاس کے دنوں میں عورتوں سے جنسی تعلق کو تمام الہامی مذاہب نے ممنوع ٹھیرایا ہے ۔ دین ابراہیمی کے زیر اثر عرب جاہلیت بھی اسے ناجائز ہی سمجھتے تھے ۔ ان کی شاعری میں اس کا ذکر کئی پہلوؤں سے ہوا ہے ۔ اس معاملے میں کوئی اختلاف نہ تھا، لیکن عورت ان ایام سے گزر رہی ہو تو اس سے اجتناب کے حدود کیا ہیں ، اس میں البتہ ، بہت کچھ افراط و تفریط پائی جاتی تھی ۔ قرآن کے جواب سے واضح ہے کہ یہ سوال انھی حدود کے بارے میں تھا۔

۵۸۸؎ مدعا یہ ہے کہ اس زمانے میں عورت سے علیحدگی کا تقاضا صرف زن و شو کے خاص تعلق ہی کے حد تک ہے ۔ یہ نہیں کہ عورت کو بالکل اچھوت بنا کر رکھ دیا جائے ، جیسا کہ یہودو ہنود اور بعض دوسری قوموں کا طریقہ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی یہی بات واضح فرمائی ہے کہ ان ایام میں صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے ، باقی تمام تعلقات بغیر کسی تردد کے قائم رکھے جا سکتے ہیں ۔

              اس کے بعد قربت کب جائز ہو گی ؟ اس کے لیے ’ طہر‘ ا ور ’ تطھر‘ دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ان سے حکم کی جو صورت متعین ہوتی ہے ، وہ استاذ امام کے الفاظ میں یہ ہے :

’’طہر کے معنی تو یہ ہیں کہ عورت کی ناپاکی کی حالت ختم ہو جائے اور خون کا آنا بند ہو جائے اور تطہر کے معنی یہ ہیں کہ عورت نہا دھو کر پاکیزگی کی حالت میں آ جائے ۔ آیت میں عورت سے قربت کے لیے طہر کو شرط قرار دیا ہے اور ساتھ ہی فرما دیا ہے کہ جب وہ پاکیزگی حاصل کرلیں ، تب ان کے پاس آؤ جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ چونکہ قربت کی ممانعت کی اصلی علت خون ہے ، اس وجہ سے اس کے انقطاع کے بعد یہ پابندی تو اٹھ جاتی ہے ، لیکن صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب عورت نہا دھو کر پاکیزگی حاصل کر لے ، تب اس سے ملاقات کرو۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۲۶)

۵۸۹؎ یعنی نہا دھو کرپاکیزگی حاصل کر لینے کے بعد عورت سے ملاقات لاز ماً اسی راستے سے ہونی چاہیے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر رکھا ہے ۔ یہ چیز بدیہیات فطرت میں سے ہے اور اس پہلو سے لاریب خدا ہی کا حکم ہے ۔ اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ درحقیقت خدا کے ایک واضح ، بلکہ واضح تر حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے ، اور اس پر یقینا اس کے ہاں سزا کا مستحق ہو گا ۔

۵۹۰؎ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان ہدایات کی کیا اہمیت ہے، یہ اسے بیان فرمایا ہے ۔ استاذ اما م لکھتے ہیں :

’’توبہ اور تطہر کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ توبہ اپنے باطن کو گناہوںسے پاک کرنے کا نام ہے اور تطہر اپنے ظاہر کو نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے ۔ اس اعتبار سے ان دونوں کی حقیقت ایک ہوئی اور مومن کی یہ دونوں خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں ۔ اس کے برعکس جو لوگ ان سے محروم ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں ۔ یہاں جس سیاق میں یہ بات آئی ہے ، اس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جو لوگ عورت کی ناپاکی کے زمانے میں قربت سے اجتناب نہیں کرتے یا قضاے شہوت کے معاملے میں فطرت کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں ، وہ اللہ کے نزدیک نہایت مبغوض ہیں ۔ ‘‘ ( تدبر قرآن ۱/ ۵۲۶)               

۵۹۱؎ اس سے اوپر جو باتیں بیان ہوئی ہیں ، یہ اب ان کو کھیتی کے استعارے سے واضح فرمایا ہے ۔ استاذ امام نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے :

’’عورتوں کے لیے کھیتی کے استعارے میں ایک سیدھا سادہ پہلو تو یہ ہے کہ جس طرح کھیتی کے لیے قدرت کا بنایا ہوا یہ ضابطہ ہے کہ تخم ریزی ٹھیک موسم میں اور مناسب وقت پر کی جاتی ہے ، نیز بیج کھیت ہی میں ڈالے جاتے ہیں ، کھیت سے باہر نہیں پھینکے جاتے ۔ کوئی کسان اس ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، اسی طرح عورت کے لیے فطرت کا یہ ضابطہ ہے کہ ایام ماہواری کے زمانے میں یا کسی غیر محل میں اس سے قضاے شہوت نہ کی جائے ، اس لیے کہ حیض کا زمانہ عورت کے جمام اور غیرآمادگی کا زمانہ ہوتا ہے ، اور غیر محل میں مباشرت باعث اذیت و اضاعت ہے ۔ اس وجہ سے کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے اس کا ارتکاب جائز نہیں ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۲۷)

۵۹۲؎ اس ہدایت سے کیا مقصود ہے ؟ استاذ امام نے لکھا ہے :

’’(اِس) میں بہ یک وقت دو باتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک تو اس آزادی ، بے تکلفی ، خود مختاری کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی کے مالک کو اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں حاصل ہوتی ہے ، اور دوسری اس پابندی ، ذمہ داری اور احتیاط کی طرف جو ایک باغ یا کھیتی والا اپنے باغ یا کھیتی کے معاملے میں ملحوظ رکھتا ہے ۔ اس دوسری چیز کی طرف ’حرث‘ کا لفظ اشارہ کر رہا ہے اور پہلی چیز کی طرف ’انی شئتم‘ کے الفاظ ۔ وہ آزادی اور یہ پا بندی ، یہ دونوں چیزیں مل کر اس رویے کو متعین کرتی ہیں جو ایک شوہر کو بیوی کے معاملہ میں اختیار کرنا چاہیے ۔
ہر شخص جانتا ہے کہ ازدواجی زندگی کا سارا سکون و سرور فریقین کے اس اطمینان میں ہے کہ ان کی خلوت کی آزادیوں پر فطرت کے چند موٹے موٹے قیود کے سوا کوئی قید ، کوئی پابندی اور کوئی نگرانی نہیں ہے ۔ آزادی کے اس احساس میں بڑا کیف اور بڑا نشہ ہے ۔ انسان جب اپنے عیش و سرور کے اس باغ میں داخل ہوتا ہے تو قدرت چاہتی ہے کہ وہ اپنے اس نشہ سے سرشار ہو ،لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اس کے سامنے قدرت نے رکھ دی ہے کہ یہ کوئی جنگل نہیں ، بلکہ اس کا اپنا باغ ہے اور یہ کوئی ویرانہ نہیں ، بلکہ اس کی اپنی کھیتی ہے ۔ اس وجہ سے وہ اس میں آنے کو تو سو بار آئے اور جس شان ، جس آن ، جس سمت اور جس پہلو سے چاہے آئے ، لیکن اس باغ کا باغ ہونا اور کھیتی کا کھیتی ہونایاد رکھے ۔ اس کے کسی آنے میں بھی اس حقیقت سے غفلت نہ ہو ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۲۷)

۵۹۳؎ یعنی ایسی اولاد پیدا کرو جو دنیا اور آخرت ، دونوں میں تمھارے لیے سرمایہ بنے ۔ اس ہدایت کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ لوگ بچوں کی پیدایش کے معاملے میں اپنے اقدام کی ذمہ داری سمجھیں او رجو کچھ کریں ، اس ذمہ داری کو پوری طرح سمجھ کر کریں ۔

۵۹۴؎ مطلب یہ ہے کہ اس وقت تو اللہ تعالیٰ نے تمھیں مہلت دے رکھی ہے ، اس لیے خلوت و جلوت میں جو چاہے ، کر سکتے ہو ، لیکن یاد رکھو کہ ایک دن خدا کے حضور میں پیشی کے لیے کھڑا ہونا ہے ۔ لہٰذا جو کچھ کرنا ہے ، یہ سوچ کر کرو کہ اس کی پکڑ سے اس دن کوئی تمھیں بچا نہ سکے گا ۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــ

B