HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث: ۱۰۲۔۱۰۳)


عن أنس رضی اﷲ عنہ قال: کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یکثر أن یقول: یا مقلب القلوب، ثبت قلبی علی دینک ۔ فقلت: یانبی اﷲ، آمنا بک وبما جئت بہ۔ فہل تخاف علینا؟ قال: نعم، إن القلوب بین أصبعین من أصابع اﷲ۰ یقلبہا کیف یشاء۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم یہ فرمایا کرتے تھے: اے دلوں کے پھیرنے والے، میرا دل اپنے دین پر جما دے۔(ایک دن میں نے یہ سنا تو) پوچھا: یا نبی اللہ، ہم آپ پر اور آپ جو (ہدایت) لائے ہیں ، اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا آپ ہمارے بارے میں کوئی اندیشہ محسوس کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں، (ہمارے) دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں۔ وہ انھیں جیسے چاہتا ہے ، پھیر دیتا ہے۔‘‘
لغوی مباحث

ثبت قلبی: میرے دل کو جما دے۔دل کو جمانے سے تلون اور عدم اعتماد کی کیفیت کا خاتمہ مرادہے۔

ہل تخاف علینا: کیا آپ ہمارے بارے میں اندیشہ رکھتے ہیں؟ یہ جملہ روایت میں بے محل ہے۔ اصلاً سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کیا آپ اپنے بارے میں اندیشہ رکھتے ہیں؟اس لیے کہ دعا کے الفاظ سے واضح تھا کہ آپ نے اپنے لیے دعا کی ہے۔ لیکن صحابی رضی اللہ عنہ نے دعا کے الفاظ کو تعلیم کے لیے بولے گئے الفاظ سمجھا ہے اور اسی کے مطابق یہ سوال کیا ہے۔ خوف کا لفظ امکانی خطرے کے لیے بھی آتا ہے۔

إن القلوب بین الأصبعین من أصابع اﷲ: بے شک دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں۔ یہ دل پر اللہ تعالیٰ کی گرفت کی لفظی تصویر ہے ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے انگلیاں ثابت کرنا محض سوے فہم ہو گا۔

متون

صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت ترمذی سے لی ہے۔ اس میں ایک دعا بیان ہوئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر کیا کرتے تھے۔ زیر بحث متن حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ لیکن اپنے اپنے مشاہدے کی روشنی میںیہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور بعض دوسرے صحابہ کے حوالے سے بھی کتب حدیث میں درج ہے ۔ان روایات میں موقع اور سوال وجواب کی تفصیل ظاہر ہے مختلف ہے ۔ یہاں ان کی تفصیل بیان کرنا بے محل ہے۔ چنانچہ ہم نے متون کی یہ بحث صرف حضرت انس کی روایت کے طرق تک محدود کر دی ہے۔ اس روایت کے طرق میں کوئی قابل لحاظ فرق نہیں ہے۔ چند لفظی فرق ہیں۔ مثلاً اس روایت میں سوال کی نسبت متکلم کے صیغے میں ایک شخص یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی طرف ہے۔ لیکن ایک دوسری روایت میں ’فقلت‘ کے بجائے ’فقلنا‘ آیا ہے اور ابن ماجہ کی روایت میں ’فقال رجل‘ہے۔ ابن ماجہ کا فرق کافی حیران کن ہے ۔ اس لیے کہ زیر بحث متن اور ابن ماجہ کی روایت میں صحابی راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن دونوں میں سائل کی نسبت سے واضح تضاد ہے۔مسند احمد کی ایک روایت میں صورت حال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ راوی نے سائل کی نسبت اس طرح کے تمام واقعات کو جمع کر کے خود سے صحابہ اور اہل بیت نبی کی طرف کر دی ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ’فقال لہ أصحابہ وأہلہ‘۔ یہ نسبت ایک واقعے کی صورت میں درست نہیں ہو سکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دعا سے متعلق تمام روایات سے صحابہ اور امہات المومنین کے ایک ہی جگہ جمع ہونے کا امکان بھی سامنے نہیں آتا۔ سوال کے جملے میں زیر بحث متن میں آپ کی نبوت اور قرآن پر ایمان کا ذکر ہوا ہے ۔ ایک روایت میں اس پر زور دینے کے لیے ’صدقناک‘ کا اضافہ ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے جملے میں بھی کچھ معمولی اختلافات روایت ہوئے ہیں۔ ایک روایت میں ’بین أصبعین من أصابع اﷲ‘ کی جگہ ’بید اﷲ‘ آیا ہے۔اسی طرح زیر بحث متن میں ’یقلبہا‘کے بعد ’کیف یشاء‘ کا اضافہ ہے۔ اس روایت کے دوسرے متون میں بالعموم یہ اضافہ نہیں ہے۔اس روایت کے ایک متن میں صرف دعا کا ذکر ہے ، باقی مکالمہ بیان نہیں ہوا۔

معنی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اللہ تعالیٰ کے تخاطب کے لیے ’مقلب القلوب‘ کی ترکیب اختیار کی ہے۔ شارحین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ دل پر طاری ہونے والی اطاعت ، معصیت ، حضوری اور غفلت کے غلبے کی حالتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ سے دین پر ثبات کی قلبی حالت کی دعا کی ہے۔ اس روایت میں اللہ تعالیٰ کی طرف جس عمل کی نسبت کی گئی ہے، ان الفاظ سے اس کے اسباب ووجوہ اور نوعیت واضح نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں اس حوالے سے دو مقامات محل غور ہیں۔ ایک سورۂ بقرہ میں ’ختم اﷲ علی قلوبہم‘ والی آیت اور دوسرے سورۂ آل عمران میں تعلیم کی گئی: ’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا‘ کی دعا ہے۔ ختم قلوب کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حق سے مسلسل روگردانی کی سزا کے طور پر آدمی سے حق کی قبولیت کی صلاحیت ہی چھین لیتے ہیں۔ چنانچہ آخرت کے معاملے میں اندیشہ رکھنے والے لوگ کبھی اس ڈھٹائی میں مبتلا نہیں ہو سکتے کہ انھیں اتنی بڑی سزا دے دی جائے۔ لیکن بہرحال اس دعا سے دل کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی ایک تبدیلی کی نوعیت واضح ہوتی ہے۔ سورۂ آل عمران میں سکھائی گئی دعا ایک خاص محل میں آئی ہے ۔ محولہ آیت سے متصل پہلے متشابہ آیات کی تاویل میں الجھنے کی آفات پر تنبیہ کی گئی ہے ۔ اس کے بعد صحیح رویے کو واضح کیا گیا ہے۔ اور اسی ضمن میں صحیح رویہ اختیار کرنے والوں کی اس دعا کا ذکر ہوا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اس دعا کی حقیقت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’یہ راسخین فی العلم کی دعا ہے جس سے اس امر کا اظہار ہو رہا ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں اتنے بے پروا نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ شکوک اور شبہات کو بلاوے بھیج کر بلائیں اور اپنے ایمان اور اسلام کو خطرے میں ڈالیں۔ بلکہ وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے برابر اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ دین میں ان کے جمے ہوئے قدم اکھڑنے نہ پائیں اور جب فتنوں کی یورش ہو تو خدائے وہاب اپنے پاس سے ان کے لیے وہ روحانی کمک بھیجے جو ان کے لیے ثبات قدم کا ذریعہ بنے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۳۴)

خطرے دو ہیں ۔ ایک یہ کہ خود ہمارے دل کی ٹیڑھ پوری طرح دور نہ ہوئی ہو اور یہ بات کسی آزمایش کے موقع پر ہمیں گمراہی کی راہ پر لے جائے اور ہم نے جو سمجھا ، سیکھا اور کیا ہے سب اکارت چلا جائے۔ دوسرے یہ کہ جن و انس کے شیاطین ہماری ایمانیات اور ہمارے دینی امورکے بارے میں ہمارے قلبی اورعملی ثبات کو متزلزل کرنے کے لیے شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خدا کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس دعا میں اسی مدد کے لیے درخواست کی گئی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے لیے یہ دعا کرنا اس صورت حال کی خطرناکی کو واضح کرتا ہے۔

تقدیر کے باب میں یہ روایت ایک مختلف پہلو سے آئی ہے۔تقدیر کے لفظ سے عام طور پر پہلے سے طے شدہ معاملات مراد ہوتے ہیں۔ یہ روایت اس پہلو سے اس باب میں درج نہیں کی گئی ہے ۔ تقدیر کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روز مرہ کے معاملات میں نئے فیصلوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ فیصلے نعمت و نقمت ، دونوں پہلووں سے ہوتے ہیں اور یہ روایت اسی پہلو سے اس باب کا حصہ بنی ہے۔

کتابیات

ترمذی ، رقم ۲۱۲۴۔ ۳۵۲۲۔۳۵۸۷۔ ابن ماجہ ، رقم ۳۸۳۴۔ احمد ، رقم۱۱۶۹۷۔ ۱۳۲۸۴۔ ۱۷۱۷۸۔ ۲۴۰۸۳۔ ۲۵۶۰۲۔ ۲۵۹۸۰۔ ۲۶۱۳۹۔ ابن حبان ، رقم ۹۴۳۔ مستدرک ، رقم ۱۹۲۶۔ ۱۹۲۷۔ ۳۱۴۰۔ ۳۱۴۱۔۷۹۰۷۔ سنن الکبریٰ، رقم۷۷۳۷۔ مصنف ابن شیبہ ، رقم ۲۹۱۹۶۔۳۰۴۰۵۔ مصنف عبد الرزاق ، رقم ۳۱۹۸۔مسند ابو یعلی ، رقم ۲۳۱۸۔

_______

 

دل کا اضطراب

عن أبی موسی رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : مثل القلب کریشۃ بأرض فلاۃ یقلبہا الریاح ظہرا لبطن۔
’’حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دل کی مثال وسیع میدان میں پڑے ہوئے پر کی ہے جسے ہوائیں اوپر نیچے پلٹاتی رہتی ہیں ۔‘‘
لغوی مباحث

ریشۃ: پر، پرندوں کے ٹوٹے ہوئے پر وں کا ہوا کے دوش پر اڑتے پھرنا ہمارا عام مشاہدہ ہے ۔ یہاں یہی پر مراد ہے۔

أرض فلاۃ: اس میں ’أرض‘ کا لفظ تنوین کے ساتھ بھی روایت ہو ا ہے اور بغیر تنوین کے بھی ۔ تنوین کی صورت میں ’فلاۃ‘ صفت ہوگا اور ’أرض‘ موصوف اور بغیر تنوین کی صورت میں یہ ترکیب اضافت کی ہو گی۔ ’فلاۃ‘ کے معنی ایسا کھلا میدان ہے جس میں روئیدگی نہ ہویعنی ایک چٹیل میدان۔ یہاں ’أرض‘ کے ساتھ ’فلاۃ‘ کے اضافے سے تیزی کے ساتھ الٹتے پلٹتے پر کے تصور کو نمایاں کرنا ہے۔

ظہرا لبطن: کمر سے پیٹ کے بل۔ یہاں بربنائے قرینہ ’بطنا لظہر‘ (پیٹ سے کمر کے بل )حذف ہے۔ یعنی ہوا کبھی پر کو سیدھا کر دیتی ہے اور کبھی الٹا۔رہا یہ سوال کہ ’ظہرا‘ کا نصب کس بنا پر ہے تو اس کے تین جواب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ ضمیر مفعول ’ہا‘ کا بدل بعض ہے۔دوسرا یہ کہ یہ مفعول مطلق محذوف کی صفت ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ حال ہے۔ ہمارے نزدیک بدل کی توجیہ سادہ بھی ہے اور عبارت کے مدعا کے قریب بھی۔

متون

یہ روایت ایک مختصر جملے پر مبنی ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کے تلون کو دو مثالوں سے بیان کیا ہے۔ ایک مثال تو زیر بحث متن میں ہے۔دوسرے متن کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إنما سمی القلب من تقلبہ إنما مثل القلب کمثل ریشۃمعلقۃ فی اصل شجرۃ یقلبہا الریح ظہرا لبطن۔ (احمد،رقم ۲۷۸۵۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قلب کو نام ہی اس کے(رنگ) بدلنے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ دل کی مثال تو بس اس پر کی ہے جو شاخ کی جڑ سے بندھاہوا ہو اور اسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہو۔‘‘

زیر بحث متن کی مختلف روایات میں اختلافات محض لفظی ہیں۔ مثلا ، ایک روایت میں ’مثل القلب‘ کے بجائے ’إن ہذا القلب‘ آیا ہے۔بعض روایات میں ’کریشۃ‘ کی جگہ ’مثل ریشۃ‘ اور ’کمثل ریشۃ‘ کی تراکیب آئی ہیں۔اسی طرح کچھ مرویات میں ’یقلبہا‘ کے بدلے میں ’یقیمہا‘ کا فعل آیا ہے۔ایک روایت میں صرف ’أرض‘ہے یعنی اس کے ساتھ کا ’فلاۃ‘ لفظ نہیں ہے ۔ ایک روایت میں یہ جملہ انتہائی اختصار کے ساتھ ’مثل القلب مثل الریشۃ یقلبہا الریح‘ کے الفاظ میں نقل ہوا ہے۔اسی طرح بعض راوی اس روایت کے آغاز میں بھی ’إنما سمی القلب قلبا لتقلبہ‘ کا جملہ روایت کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس روایت کے متون میں کوئی اہم فرق نہیں ہے۔

معنی

یہ روایت اوپر والی روایت کے تکملے کی حیثیت سے اس باب کا حصہ بنائی گئی ہے۔ اصلاً اس روایت کے معنی تقدیر کی بحث سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس روایت میں دل کے بارے میں یہ بتا رہے ہیں کہ اس پر مختلف حالتیں آتی رہتی ہیں اور اس تبدیلی کی صورت بسا اوقات وہی ہوتی ہے جو ہمیں میدان میں ہوا کے باعث تیزی سے کبھی الٹتے اور کبھی سیدھا ہوتے پر کی نظرآتی ہے۔ دل بھی اسی طرح کبھی خیر اور خوبی اور کبھی شراور برائی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ کبھی اظہار بندگی و اطاعت کے احساسات سے سرشار ہوتا اور کبھی گریز و انحراف کے میلانات سے مملو ہوتا ہے۔ اس مثال میں ہواؤں کی تعبیر بھی بڑی بر محل ہے۔ دنیا کے مسائل ، شیاطین جن وانس کے پھیلائے ہوئے جال ، جذبات ،خواہشات اور ضروریات کی افراط وتفریط یہ تمام عناصر دل کی دنیا کو زیروزبر کرتے رہتے ہیں۔دل ان آندھیوں کے مقابلے میں بعض اوقات اسی طرح بے بس ہوجاتا ہے جس طرح ہواؤں کے زور سے پلٹنیاں کھاتا ہوا پتا بے بس ہوتا ہے۔

دل یہاں ہماری شخصیت کے اس پہلو کی تعبیر کرتا ہے جس کے لیے طبیعت یا جذبات کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ ہماری شخصیت کے اس پہلو کی بنیادی خصوصیت انفعال ہے۔ یعنی متأثر ہونااور اسی تأثر کے تحت ردعمل ظاہر کرنا۔ یہ اپنے محل پر ایک خوبی ہے۔یہی چیز ہے جس کے باعث ہم اللہ تعالیٰ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، دین اور دین سے وابستہ مظاہر کے ساتھ ایک گہری وابستگی پیدا کر لیتے ہیں اور یہی چیز ہمارے دینی اعمال میں ایک حسن پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ متاثر ہونے کا عمل صرف خیر کے پہلو ہی سے نہیں ہوتا ، بلکہ شر کے محرکات اور داعیات بھی ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ اسی طرح یہی تأثر بعض اوقات غلواور شدت کی طرف راغب کرتا اور بدعات کے تصنیف کرنے کا باعث بنتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس روایت میں انھی مضرتوں پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں۔

کتابیات

سنن ابن ماجہ ، رقم ۸۸۔ احمد رقم ، ۲۷۸۵۹۔۱۹۲۵۸۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، رقم ۳۴۸۱۹۔ مسندالبزار ، رقم ۳۰۳۷۔ مسند الحارث ، رقم ۲۰۔ مسند ابن الجعد ، رقم ۱۴۵۰۔مسند الشہاب ، رقم۱۳۶۹۔السنہ ابن ابی عاصم ، رقم ۲۲۷۔

____________

B