HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

وفد عبد القیس کے سوالات

[اس روایت کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں زاویۂ فراہی کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے ۔]


روی ۱ ان وفد عبد القیس اتوا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال : من القوم ؟ قالوا: ربیعۃ ۔ فقال : مرحبا بالقوم غیر خزایا ولا ندامی ۔ قالوا : انا ناتیک من شقۃ بعیدۃ و بیننا و بینک ھذا الحی من کفار مضر ولا نستطیع ان ناتیک الا فی شھر حرام فمرنا بشئ ناخذہ عنک و ندعو الیہ من ورائنا ۲ ندخل بہ الجنۃ و سالوہ عن الاشربۃ۔ ۳ فامرھم باربع ۴ ونھاھم عن اربع، امرھم بالایمان باللّٰہ عزوجل وحدھ۔ ۵ قال : ھل تدرون ما الایمان باللّٰہ وحدہ ؟ قالوا : اللّٰہ و رسولہ اعلم ۔ قال : شھادۃ ان لا الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ ۶ وان محمدا رسول اللّٰہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصوم رمضان ۷ وحج البیت ۸ و تعطوا الخمس من المغنم ۔ ونھاھم عن اربع : عن الحنتم والدباء والنقیر والمزفت ۹ وربما قال المقیر ۱۰ وقال : وانتبذوا فی الاسقیۃ ۱۱ ۔ قالوا : یا رسول اللّٰہ ، فان اشتد فی الاسقیۃ ؟ قال: فصبوا علیہ الماء ۔ قالوا : یا رسول اللّٰہ فقال لھم الثلاثۃ او الرابعۃ: اھریقوہ ۔ ثم قال : ان اللّٰہ حرم علی او حرم الخمر وکل مسکر حرام ۱۲۔ قال: احفظوہ و اخبروہ من واراء کم۔
قالوا : یا نبی اللّٰہ ، ما علمک بالنقیر ؟ قال : بلی ، جذع تنقرونہ فتقذفون فیہ من التمر ۱۳ ثم تصبون فیہ من الماء حتی اذا سکن غلیانہ شربتموہ حتی ان احدکم لیضرب ابن عمہ بالسیف۔ قال : و فی القوم رجل اصابتہ جراحۃ کذلک قال و کنت اخبوھا حیاء من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت : ففیم نشرب یا رسول اللّٰہ؟ قال : فی اسقیۃ الادم التی یلاث علی افواھھا۔ قالوا : یا رسول اللّٰہ ، ان ارضنا کثیرۃ الجرذان ولا تبقی بھا اسقیۃ الادم ۔ فقال نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : وان اکلتھا الجزذان و ان اکلتھا الجرذان وان اکلتھا الجرذان۔
قال : وقال نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاشج عبد القیس : ان فیک لخصلتین یحبھما اللّٰہ الحلم والاناۃ۔ ۱۴
روایت ہے کہ عبدالقیس قبیلے کے کچھ لوگ ایک وفد کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے۔آپ نے پوچھا :یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا : یہ بنو ربیعہ ہیں۔ آپ نے انھیں خوش آمدید کہا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم بہت دور کے علاقے سے حاضر ہوئے ہیں۔ (ہماری خواہش ہے کہ دین سیکھنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ) ہمارے اور آپ کے مابین کفار مضر کا قبیلہ آباد ہے۔ (اس و جہ سے ) ہم صرف حرام مہینوں ۱ ہی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ہماری درخواست ہے کہ آپ ہمیں ایسی بات ارشاد فرمائیں جس پر ہم خود بھی عمل پیرا ہوں اور اپنے پیچھے والوں کو بھی آگاہ کریں اور اس طرح جنت میں داخل ہو جائیں۔ ۲ اس کے علاوہ انھوں نے بعض مشروبات کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ ۳ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چار ۴ باتوں کی ہدایت کی اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔
آپ نے ہدایت فرمائی کہ (الہٰ کی حیثیت سے) صرف اللہ بزرگ و برتر ہی کو مانیں ۔ (پھر) آپ نے ان سے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ خدائے واحد پر ایمان سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ۵ آپ نے فرمایا:( ایمان سے مراد ) اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں؛ اور نماز قائم کرنا ہے؛ اور زکوٰۃ ادا کرنا ہے؛ اور رمضان کے روزے رکھنا ہے؛ اور بیت اللہ کا حج کرنا ہے؛ اور مال غنیمت میں سے خمس ادا کرناہے۔ ۶
اس کے بعد (آپ نے شراب بنانے والے) ان چار (برتنوں کے استعمال ) سے منع فرمایا: حنتم ، دبا ، نقیر اور مزفت۔ (ان کے علاوہ) غالباً آپ نے مقیر کا ذکر بھی فرمایا۔۷ آپ نے فرمایا: نبیذ (بنانا چاہو تو ان برتنوں کے بجائے) عام پینے کے برتنوں میں بنا لیا کرو ۔ ان لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول اگرنبیذ عام برتنوں میں بنانے سے بھی کچھ تیز ہو جائے ( اور اس میں نشہ پیدا ہو جائے تو اس صورت میں کیا کیا جائے)؟آپ نے فرمایا:اس پر پانی انڈیل دو۔انھوں نے( اسی طرح تین چار بار)پوچھا: اے اللہ کے رسول (نبیذ تیز ہو جائے تو کیا کیا جائے)؟تیسری یا چوتھی مرتبہ پوچھنے پرآپ نے فرمایا: اسے گرا دو۔۸ پھر آپ نے فرمایا: اللہ نے شراب اور ہر نشہ آور چیز حرام ٹھیرائی ہے۔۹
آپ نے فرمایا: اس (گفتگو) کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو اور اپنے پیچھے والوں کو بھی اس سے آگاہ کرو۔
ان لوگوں نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول، کیا آپ نقیر کے بارے میں جانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں کیوں نہیں! تم کسی درخت کے تنے میں سوراخ کرتے ہو ، پھر اس میں کچھ کھجوریں بھر دیتے ہو، پھر ان پر پانی ڈالتے ہو، یہاں تک کہ ان میں خمیر پیدا ہو جاتا ہے(اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ان میں نشے کی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے)۔ پھر تم اسے پی لیتے ہو اور پھریہ نوبت بھی آ جاتی ہے کہ (نشے میں بدمست ہو کر ) تم میں سے کوئی تلوار سونت کر اپنے عم زاد ہی پر حملہ کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔
ان لوگوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو اسی طریقے سے زخمی ہوا تھا۔ وہ شرم سے اپنا زخم چھپا رہا تھا۔اس کا بیان ہے: میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (اگر حنتم، دبا، نقیر اور مزفت جیسے برتنوں کے علاوہ ہمیں کوئی اور برتن میسر نہ ہوں تو) پھر ہم کس چیز میں پیا کریں؟ آپ نے فرمایا: چمڑے کے ایسے مشکیزوں میں جن کے منہ اچھی طرح سے بندھے ہوئے ہوں ۔ (یہ سن کر وفد کے) لوگوں نے کہا : ہمارے علاقے میں بہت زیادہ چوہے پائے جاتے ہیں۔ یہ چمڑے کے مشکیزوں کو سلامت نہیں رہنے دیتے۔ آپ نے فرمایا: (تم ، بہرحال ایسا ہی کرو)اگرچہ چوہے انھیں کتر ڈالیں، اگرچہ چوہے انھیں کتر ڈالیں، اگرچہ چوہے انھیں کتر ڈالیں۔۱۰
راوی کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر (وفد کے سربراہ) ،عبدالقیس کو ، جسے اشج کے لقب سے پکارا جاتا تھا، فرمایا: تمھارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتے ہیں، ایک حلم اور دوسرے تحمل۔ ۱۱

ترجمے کے حواشی

[۱] حرام مہینوں سے مراد ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں۔ اہل عرب دین ابراہیمی کی روایت کے طور پر ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ نہایت جنگ جو مزاج رکھنے کے باوجود وہ ان میں ہر طرح کے لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کو ممنوع سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں اسے ایک متفقہ قانون کی حیثیت حاصل تھی اور اس کی خلاف ورزی کو وہ بہت بڑا جرم قرار دیتے تھے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے یہ امن کے مہینے سمجھے جاتے تھے۔ نقل وحمل اور تجارت زیادہ ترانھی مہینوں میں ہوتی تھی۔ اسلام نے دین ابراہیمی کی اس روایت کو قائم رکھا۔

[۲] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی جستجو کو لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا تھا۔روایات میں کثرت سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست پیش کرتے تھے کہ آپ انھیں ایسی بات بتائیں جسے اختیار کر کے وہ جنت میں داخل ہو جائیں۔

[۳] یعنی ان کی حلت و حرمت کے بارے میں دریافت کیا۔

[۴] احکام کے حوالے سے یہاں چار کا عدد استعمال ہوا ہے۔ مگرجب ہم احکام کو شمار کرنا چاہیں تو ان پراس عدد کا اطلاق مشکل نظر آتا ہے۔ اسلوب بیان کے پہلو سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اصل میں ’’اللہ پر ایمان ‘‘ ہی کا ایک حکم بیان ہوا ہے اور توحید و رسالت کی شہادت،نماز، زکوٰۃ، روزہ اور خمس اس کی فرع کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ گویااس صورت میں یہ ایک ہی حکم شمار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اصل اور اس کے فروع کی تخصیص کیے بغیر انھیں الگ الگ شمار کریں تو یہ چار کے بجائے چھ قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں یہ باتیں ہی قیاس کی جا سکتی ہیں:ایک یہ کہ راوی سے سہو ہوا ہے اور انھوں نے احکام شمار کیے بغیر ۴ کا عدد استعمال کر دیا ہے۔دوسرے یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ عدد اصل میں ایک ہی مرتبہ ، یعنی ممنوعات کے لیے استعمال کیا ہو گا، مگر نقل کرنے والوں نے اسے غلطی سے احکام کے ساتھ بھی نقل کر دیا۔تیسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی اساسات بیان کرنے کے بعد اظہار اسلام کے حوالے سے چارعملی باتوں کا حکم دیا ہے: اول نماز کا قیام، دوم زکوٰۃ کی ادائیگی، سوم روزہ رکھنا اور چہارم حج کرنا۔ خمس، درحقیقت زکوٰۃ ہی کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔بہرحال، ان میں سے کوئی ایک یا ان کے علاوہ کوئی دوسری رائے اختیار کرنے سے روایت کے مدعا پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

[۵] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عام طریقہ تھا کہ جب کوئی بات اپنے صحابہ کو سمجھانا چاہتے تواس کے بارے میں سوال کرتے۔ اس کے بعد صحابہ پوری طرح آپ کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ صحابہ کا طرز عمل یہ ہوتا کہ وہ دین کے معاملے میں رائے زنی کرنے کے بجائے یہی کہتے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔

[۶] ایمان انسان کی باطنی کیفیت ہے۔ دین کا تقاضا ہے کہ عمل میں اس کا اظہارحسب ذیل صورتوں میں ہونا چاہیے:

اولاً، اس بات کی علانیہ شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔

ثانیاً،اللہ کے پیغمبروں کو اس حیثیت سے مانا جائے کہ یہ انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے نمائندے ہیں اور ان کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے۔

ثالثاً،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لایا جائے اور ان کی شریعت کی پیروی کی جائے۔ اس ضمن میں نماز، زکوٰۃ ، روزہ ، حج اور خمس سے متعلق احکام پر عمل کیا جائے۔

[۷] یہ ان خاص برتنوں کے نام ہیں جن میں اہل عرب عام طور پر شراب تیار کرتے تھے۔ قرآن مجید اور بعض دوسری روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے برتنوں سے ممانعت اصل میں ان میں تیار ہونے والی شراب سے ممانعت ہے۔یہاں معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص موقع پر سد ذریعہ کے اصول کے تحت یہ حکم ارشاد فرمایا ہو گا اور اس کا مقصد شراب کے خبث کو نہایت درجہ واضح کرنا اور مسلمانوں کو اس کی ادنیٰ آلایش سے بھی محفوظ رکھنا ہو گا ۔ بعد ازاں جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ لوگوں پر ان کی شناعت پوری طرح واضح ہو گئی ہے اور برتنوں کی کمی کی وجہ سے انھیں کچھ مشکل بھی پیش آ رہی ہے تو آپ نے دیگر مشروبات بنانے کے لیے ان کے استعمال کی اجازت دے دی۔

[۸] یعنی اگر پانی انڈیلنے کے باوجود نشہ برقرار رہے تو پھر کیا کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہو گا کہ اس پر مزید پانی انڈیلو۔ تاہم جب انھوں نے تیسری یا چوتھی مرتبہ یہ سوال دہرایا تو آپ نے فرمایاکہ پھر اسے گرا دیا جائے۔

اسی پہلو سے ابوداؤد میں حسب ذیل الفاظ نقل ہوئے ہیں:

واشربوا فی الجلد الموکی علیہ ، فإن اشتد فاکسروا بالماء ۔ فان اعیاکم فأھریقوہ۔(رقم ۳۲۰۹)
’’(نبیذ) چمڑے کے ان مشکیزوں میں پیا کرو جن کے منہ اچھی طرح بندھے ہوئے ہوں۔ اگر یہ تیز ہو تو اس میں پانی شامل کر کے ہلکا کر لو۔ لیکن اگر تم اس کے نشے کو ختم نہ کر سکو تو پھر اسے پھینک دو۔‘‘

یہی بات مختلف اسلوب میں مسلم ، رقم ۲۰۰۴اور بیہقی ،رقم ۱۷۱۹۷ میں نقل ہوئی ہے۔ مسلم کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

سال قوم ابن عباس عن بیع الخمر و شراءھا و التجارۃ فیھا فقال : أمسلمون انتم ؟ قالوا : نعم ۔ قال : فانہ لا یصلح بیعھا ولا شراؤھا ولا التجارۃ فیھا ۔ قال: فسالوہ عن النبیذ ۔ فقال : خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی سفر ثم رجح ، و قد نبذ ناس من اصحابہ فی حناتم و نقیر و دباء ، فامر بہ فاھریق ، ثم امر بسقاء فجعل فیہ زبیب وماء ، فجعل من اللیل فاصبح فشرب منہ یومہ ذلک ولیلتہ المستقبلۃ و من الغد حتی امسی فشرب وسقی ، فلما اصبح امر بما بقی منہ فاھریق۔
’’ لوگوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شراب کی خرید و فروخت اور تجارت کے بارے میں سوال کیا ۔ انھوں نے پوچھا : کیا تم مسلمان ہو؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ سیدنا ابن عباس نے کہا کہ پھر تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کی خرید و فروخت اور تجارت کرو۔ پھر لوگوں نے نبیذ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آئے تو ان کے اصحاب نے حنتم، نقیر اور دبا کے برتنوں میں نبیذ تیار کر رکھی تھی۔ آپ نے اسے گرانے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے پینے کا عام برتن منگوا کر اس میں کھجور اور پانی کو ملایا اور اسے رات بھر نبیذ بننے کے لیے رکھ دیا۔ اگلے دن شام تک آپ تیار ہونے والی نبیذ نوش فرماتے رہے۔ اگلی صبح آپ نے برتن میں بچی ہوئی نبیذ کو پھینک دینے کا حکم دیا۔‘‘

[۹] قرآن مجید نے شراب نوشی کو نجس شیطانی عمل قرار دیا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے۔ بعض دوسرے شیطانی افعال کے ساتھ اس کا ذکر اس طرح کیا ہے:

’’ ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر ، سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘( المائدہ ۵: ۹۰)

[۱۰] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دینے کے لیے بات کو تین مرتبہ ارشاد فرمایا ہے ۔

[۱۱] احمد بن حنبل ، رقم ۱۵۵۹۷، ۱۷۸۶۵ میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیلات نقل ہوئی ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے :

وفد کے سربراہ کا نام منذر ابن عزیز رضی اللہ عنہ تھا اور انھیں ’الاشج‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کا بہت اکرام کیا اوراس کے سربراہ کو اپنے پلنگ پر دائیں جانب بٹھایا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد سے ان کے علاقے کے مختلف مقامات کے بارے میں گفتگو فرمائی ۔ لوگ آپ کی معلومات پر بہت متعجب ہوئے۔ آپ نے بتایا کہ آپ نے اس علاقے میں سفر کیا تھا اوراس علاقے کو پسند فرمایا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو ہدایت کی کہ وہ وفد کے لوگوں کا اکرام کریں اوران کی مہمان نوازی کی ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیں۔آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ کئی پہلوؤں سے اہل مدینہ سے مشابہ ہیں۔ خاص طور پر اس پہلو سے کہ انھوں نے اہل مدینہ کی طرح اس موقع پر آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا ،جبکہ اکثر عرب قبائل اسلام کی مخالفت پر جمے ہوئے تھے۔

وفد کے لوگوں نے رات مدینہ ہی میں بسر کی۔ صبح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معلوم کیا کہ کیا انھوں نے رات آرام سے گزاری تو انھوں نے اہل مدینہ کی مہمان نوازی کی تعریف کی اور آپ کو بتایا کہ ان کے بھائیوں نے انھیں قرآن مجید اور سنت رسول کی تعلیمات سے بھی آگاہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر خوشی کا اظہار فرمایا ۔

پھر وفد کے ہر شخص کواسلام کی بنیادی تعلیمات سے رو شناس کرانے کے لیے الگ الگ صحابہ کے سپرد کر دیا گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاقے کی کھجوروں کی خصوصیات کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ اس موقع پر وفد کے سربراہ نے کھجوروں سے تیار ہونے والے مختلف مشروبات کے بارے میں دریافت کیا اور اس کے جواب میں آپ نے مخصوص برتنوں میں مشروب بنانے سے منع فرمایا۔

متن کے حواشی

۱۔ اپنی اصل کے اعتبارسے یہ بخاری کی روایت ، رقم۸۷ ہے۔ معمولی فرق کے ساتھ یہ درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:

بخاری، رقم۵۳، ۸۷، ۵۰۰، ۱۳۳۴، ۲۹۲۸، ۳۳۰۳، ۳۳۱۹، ۴۱۱۰،۵۸۲۲، ۶۸۳۸، ۷۱۱۷ ۔ مسلم ، رقم ۱۷، ۱۸، ۱۹۹۳، ۱۹۹۵، ۱۹۹۶، ۱۹۹۷، ۱۹۹۸۔ ترمذی ، رقم ۱۸۶۸، ۲۶۱۱۔ نسائی ، رقم ۵۰۳۱، ۵۶۳۷، ۵۶۴۶،۵۶۹۲۔ ابوداؤد، رقم ۳۶۹۲، ۳۶۹۳، ۳۶۹۴، ۳۶۹۵، ۴۶۷۷۔احمدبن حنبل،رقم۲۰۲۰، ۳۴۰۶، ۴۹۹۵۴۶۲۹، ۸۶۴۱، ۱۰۳۷۸،۱۱۱۹۱، ۱۱۵۶۱، ۱۱۸۷۰، ۱۵۵۷۹، ۱۷۸۶۳، ۱۷۸۶۵، ۲۳۸۰۵۔ ابن خزیمہ ، رقم ۳۰۷، ۱۸۷۹، ۲۲۴۵، ۲۲۴۶۔ ابن حبان ، رقم ۱۵۷، ۱۷۲، ۴۵۴۱، ۵۴۰۱، ۷۲۹۵۔ بیہقی ، رقم ۷۶۸۲، ۱۲۵۰۰،۱۲۵۲۸، ۱۷۲۰۵، ۱۷۲۰۷، ۱۷۲۰۸، ۱۷۲۰۹، ۱۷۲۵۱۔ ابن ابی شبیہ ، رقم۲۳۷۹۱، ۳۰۳۱۰۔ ابویعلی، رقم۲۵۴۳، ۶۸۵۱۔

۲۔ ’فمرنا بشی ناخذہ عنک و ندعو الیہ من وراء نا‘کے الفاظ بخاری ، رقم ۵۰۰ سے لیے گئے ہیں ۔ بخاری ، رقم ۸۷ میں ان کے بجائے ’فمرنا بامر نخبربہ من وراء نا‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۳۔ ’و سالوہ عن الاشربہ‘ کے الفاظ ہم نے بخاری، رقم۵۱ سے لیے ہیں۔

۴۔ نسائی ، رقم ۵۶۹۲ میں ’باربع‘ کی جگہ ’بثلاث‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔

۵۔ بعض طرق مثلاً بخاری ، رقم ۵۸۲۲ میں اللہ پر ایمان اور اس کا وضاحتی جملہ حذف ہو گیا ہے، جبکہ بعض طرق مثلاً مسلم ، رقم ۱۸ میں اس کے بجائے ’اعبدوا اللّٰہ ولا تشرکوا بہ شیاء‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۶۔ ’وحدہ لا شریک لہ‘ کے الفاظ بخاری ، رقم ۶۹۳۸سے لیے گئے ہیں۔

۷۔ ’و ان محمدا رسول اللّٰہ‘ اور ’و صوم رمضان‘ کے الفاظ بعض دوسرے طرق مثلاً بخاری ، رقم ۱۳۳۴ میں نقل نہیں ہوئے۔

۸۔ ’و حج البیت‘ کے الفاظ احمد بن حنبل ، رقم ۳۴۰۶ سے متن میں شامل کیے گئے ہیں۔

۹۔ حنتم، دبا ، نقیر اور مزفت ان برتنوں کے نام ہیں جن میں عام طور پر شراب تیار کی جاتی تھی۔ ان برتنوں کے استعمال سے ممانعت درحقیقت اس شراب سے ممانعت ہے جو ان برتنوں میں تیار کی جاتی تھی۔ بخاری ، رقم ۴۱۱۰ کے الفاظ ’ما انتبذ فی‘ سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ مختلف روایات میں اس نوعیت کے برتنوں کے ناموں میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر نسائی ، رقم ۵۶۴۶ میں ’والمزاد المجبوبۃ‘ کے الفاظ اضافی طور پر موجود ہیں، اس کے برعکس بعض روایات میں صرف ’الدبا‘ اور ’المزفت‘ ہی کے نام نقل ہوئے ہیں۔ اس کی مثالیں درج ذیل طرق میں دیکھی جا سکتی ہیں:

بخاری ، رقم ۵۲۶۵، ۵۲۷۲ ، ۵۲۷۳۔ مسلم ، رقم ۱۹۹۲، ۱۹۹۴، ۱۹۹۵۔ نسائی، رقم ۵۶۲۶، ۵۶۲۷ ، ۵۶۲۸، ۵۶۲۹ ، ۵۶۳۰ ۔ احمد بن حنبل ، رقم ۶۳۴، ۲۰۱۹۸، ۲۴۸۸۴۔ ۲۵۰۵۵، ۲۵۷۱۰۔ بیہقی، رقم۱۷۲۴۳، ۱۷۲۴۴، ۱۷۲۴۷، ۱۷۲۴۸، ۱۷۲۴۹، ۱۷۲۵۰۔ ابن ابی شیبہ ، رقم ۲۳۷۸۲،۲۳۸۰۶ ۔ الحمیدی ، رقم ۱۰۸۱ ۔ ابویعلی ، رقم۴۳۴۴۔

۱۰۔ ’و ربما قال المقیر‘ کے الفاظ بخاری، رقم ۵۳ سے لیے گئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً بخاری ، رقم ۷۱۱۷ میں ان کے بجائے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’لا تشربوا فی الدباء والنقیر والظروف المزفتۃ والحنتمۃ‘۔

۱۱۔ ’وانتبذوا فی الاسقیۃ‘ کا مفہوم دوسرے اسلوب میں ابو یعلیٰ، رقم ۲۵۴۳ میں اس طرح بیان ہوا ہے:

جاء نا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسقیناہ من ھذا النبیذ یعنی نبیذ السقایۃ فشرب ثم قال احسنتم ھکذا فاصنعوہ۔
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے انھیں نوش فرمانے کے لیے نبیذ پیش کی۔ اسے ہم نے پینے کے عام برتنوں میں تیار کیا تھا۔ آپ نے اسے پیا اور فرمایا : تم نے اسے اچھے طریقے سے تیار کیا ہے ، ایسا ہی کیا کرو۔‘‘

۱۲۔ ’وانتبذو فی الاسقیۃ‘ سے شروع ہو کر ’و کل مسکر حرام‘ پر ختم ہونے والا حصہ اس روایت میں نقل نہیں ہوا۔ اسے ابو داؤ د، رقم ۳۶۹۶ سے لیا گیا ہے۔

۱۳۔’فتقذفون فیہ من التمر‘ کے الفاظ مسلم ، رقم ۱۸ سے لیے گئے ہیں۔ یہاں راوی واضح نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ’التمر‘ استعمال کیا تھا یا ’القیطاء‘۔

۱۴۔ متن کا آخری حصہ جو ’قالوا یا نبی اللّٰہ ما علمک بالنقیر‘ سے شروع ہو کر ’الحلم والاناۃ‘ پر ختم ہوتا ہے، مسلم ، رقم ۱۸ سے لیا گیا ہے۔

____________

B