HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

روز جزا اللہ کی رحمت کا تقاضا ہے

انسان جب خدا کی پروردگاری کے اہتمام کو دیکھتا ہے تو یہیں سے اس پر علم و معرفت کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے ۔ یہ دروازہ ایک روز جزا و سزا کی آمد کا دروازہ ہے ۔ جس دن تنہا وہی ، پورے اختیار کے ساتھ انصاف کی کرسی پر بیٹھے گا اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانیوں کی انصاف کے ساتھ سزا دے گا اور نیکوں کو ان کی نیکیوں کا فضل و رحمت کے ساتھ صلہ دے گا۔

خدا کی پروردگاری اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی نشانیاں ایک روزِ جزا و سزا کی آمد کو کس طرح لازم کرتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب تھوڑی سی وضاحت کا طالب ہے ۔

خدا کی پروردگاری سے روزِ جزا پر استدلال قرآنِ مجید نے جگہ جگہ اس طرح کیا ہے کہ جس خدا نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور آسمان کا شامیانہ تانا ، جس نے تمھارے لیے سورج اور چاند چمکائے ، جس نے ابرو ہوا جیسی چیزوں کو تمھاری خدمت میں لگایا ، جس نے تمھارے تمام ظاہری اور باطنی ، روحانی اور مادی مطالبات کا بہتر سے بہتر جواب مہیاکیا ، کیا اس خدا کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ بس اس نے تمھیں یوں ہی پیدا کر دیا ہے اور پیدا کر کے بس یوں ہی چھوڑ دے گا ؟ یہ تمام کارخانہ محض کسی کھلنڈرے کا ایک کھیل ہے جس کے پیچھے کوئی غایت و مقصد نہیں ہے ؟ تم ایک شتر بے مہار کی طرح اس سر سبز و شاداب چراگاہ میں بس چرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہو ، نہ تم پر کوئی ذمہ داری ہے اور نہ تم سے کوئی پرسش ہو گی ؟ اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ہے تو نہایت غلط سمجھ رکھا ہے ۔ پرورش کا یہ سارا اہتمام پکار پکار کر شہادت دے رہا ہے کہ یہ اہتمام کسی اہم غایت و مقصد کے لیے ہے اور یہ ان لوگوں پر نہایت بھاری ذمہ داریاں عاید کرتا ہے جو بغیر کسی استحقاق کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک دن ان ذمہ داریوں کی بابت ایک ایک شخص سے پرسش ہو گی اور وہی دن فیصلہ کا ہو گا ۔ جنھوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوں گی ،وہ سرخ رو اور فائز المرام ہوں گے اور جنھوں نے ان کو نظر انداز کیا ہو گا ،وہ ذلیل اور نامراد ہوں گے ۔ یہ مضمون قرآنِ مجید میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے ،لیکن اختصار کے خیال سے صرف ایک مثال نقل کرتے ہیں :

’’کیا ہم نے زمین کو تمھارے لیے گہوارا نہیں بنایا اور اس میں پہاڑوں کی میخیں نہیں ٹھونکیں؟ اور ہم نے تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ۔ اور تمھاری نیند کو دافعِ کلفت بنایا ۔ رات کو تمھارے لیے پردہ پوش بنایا اور دن کو حصولِ معاش کا وقت ٹھیرایا اور ہم نے تمھارے اوپر سات مضبوط آسمان بلند کیے اور روشن چراغ بنایا اور ہم نے بدلیوں سے دھڑا دھڑ پانی برسایا تاکہ اس سے ہم غلے اور بناتات اگائیں اور گھنے باغ پیداکریں ۔ بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہے۔‘‘ (الانبا ۷۸: ۶۔۷)

’’بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہے ۔‘‘ یعنی یہ چیزیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ جس نے یہ اہتمام انسان کے لیے کیا ہے ،وہ انسانوں کو یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑے نہیں رکھے گا ، بلکہ اس کی نیکی یا بدی کے فیصلے کے لیے فیصلہ کا ایک دن بھی لائے گا ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ قرار دیا ہے کہ ایک ایسا دن بھی وہ لائے جس میں اچھوں اور بروں کے درمیان انصاف کرے ، نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں کا صلہ دے ، اور بدکاروں کو ان کی برائیوں کی سزا دے۔ ایک رحمان اور رحیم ہستی کے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم ، نیکو کار اور بد ،باغی اور وفادار ، دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ کرے ، ان کے درمیان ان کے اعمال کی بنا پر کوئی فرق نہ کرے ۔ نہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے نہ مظلوم کی مظلومیت کا ظالم سے انتقام لے ۔ اگر زندگی کا یہ کارخانہ اسی طرح ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد جزا و سزا اور انعام و انتقام کا کوئی دن آتا نہیں ہے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ العیاذ باللہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی نگاہوں میں متقی اور مجرم ، دونوں برابر ہیں ، بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو جرم کرنے اور فساد برپا کرنے کے لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے ۔ یہ چیز بداہتہً غلط اور اس کے رحمان اور رحیم ہونے کے بالکل منافی ہے ۔ چنانچہ اس نے نہایت واضح الفاظ میں اس کی تردید فرمائی۔ مثلاً:

’’کیا ہم اطاعت کرنے والوں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے ،تمھیں کیا ہو گیا ہے ، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟‘‘(القلم ۶۷: ۳۶)

اور اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ بتایا ہے کہ ایک دن وہ سب کو جمع کر کے انصاف کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا ۔ چنانچہ فرمایا ہے :

’’اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر لی ہے ،وہ قیامت تک ، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے ، تم کو ضرور جمع کر کے رہے گا ۔ ‘‘ (الانعام ۶: ۱۲)

اس سے صاف واضح ہے کہ قیامت دراصل خدا کی رحمت کا مظہر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ اس وجہ سے وہ فیصلے کا ایک دن ضرور لائے گا جس میں وہ سب کو اکٹھا کر کے ان کے درمیان انصاف فرمائے گا ۔ اور یہ بھی عین اس کی اس رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ اس دن کسی کو مجال نہ ہو گی کہ اس کے فیصلوں میں کوئی مداخلت کر سکے اور اپنی سفارشوں سے حق کو باطل یا باطل کو حق بنا سکے ، بلکہ ہر ایک کے لیے بالکل بے لاگ اور پورا پورا انصاف ہو گا۔

اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوا کہ عدل اور رحمت میں کوئی تضاد نہیں ہے ، بلکہ عدل عین رحمت ہی کا تقاضا ہے ۔

مولانا امین احسن اصلاحی

_______


اولاد کی تربیت کا صحیح راستہ

 [مدیرِ ’’اشراق‘‘ کے افادات سے مرتب کیا گیا]


ہمارے معاشرے میں اکثر والدین اپنی اولاد کی دینی اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں۔ جب بچے بلوغ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو والدین کی پریشانی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے دین کی باتوں پر عمل کریں،باقاعدگی سے نماز پڑھیں، روزے رکھیں ، قرآن کی تلاوت کریں۔ اسی طرح ان کی تمناہوتی ہے کہ ان کی اولاد پاکیزہ عادتیں اپنائے، برے طور طریقوں سے گریز کرے اور اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں سنجیدگی اختیار کرے۔ ان چیزوں کو اپنے بچوں میں پیدا کرنے کے لیے وہ بالعموم سختی اور زبردستی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ تربیت و اصلاح کا واحد راستہ جبرہے۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ اصلاح کے اس طریقے کو اختیار کرنے کے بعد، بچوں کی مختلف طبیعتوں اور مختلف حالات کے لحاظ سے تین ہی طرح کے نتائج نکلتے ہیں۔

اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض دھیمے مزاج والے بچے اپنی شخصیت کو ختم کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے عمل میں ان چیزوں کو اختیار کر لیتے ہیں جو نہ ان کے شعور کا حصہ بنی ہوتی ہیں اور نہ ان کے ذوق و شوق سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وہ والدین کے حکم پر نماز، روزہ اور دوسرے دینی احکام پر باقاعدگی سے عمل کر رہے ہوتے ہیں، مگر ان اعمال کے پیچھے شعور اور ارادے کی کوئی قوت نہیں ہوتی۔وہ چہرے پر داڑھی بھی سجا لیتے ہیں اور خاص طرح کا لباس بھی پہن لیتے ہیں ،مگران چیزوں کے لیے ان پربے دلی اور بے رغبتی ہی کی کیفیت طاری رہتی ہے۔اس صورتِ حال میں،ان کے اندر زندگی کا جوش و جذبہ اور کچھ کر گزرنے کی امنگ، کم و بیش ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔

اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض تیز مزاج والے بچے باغیانہ طرزِ عمل اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ باتیں جنھیں ان کے دل و دماغ نے قبول نہیں کیا ہوتا، وہ ان پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ دین و اخلاق کی باتیں محض دقیا نوسی تقریریں ہیں، ہم اپنی زندگی کو اس کے مطابق نہیں ڈھال سکتے۔ والدین کی طرف سے سختی کے جواب میں وہ ردعمل کی ایسی نفسیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ضد اور سرکشی کے رویے ان کی طبیعت کا حصہ بن جاتے ہیں اور وہ بعض اوقات ان باتوں کو بھی ماننے سے انکار کر دیتے ہیں جنھیں ان کی عقل بالکل ٹھیک قرار دے رہی ہوتی ہے۔

اس کا تیسرا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بعض معتدل مزاج والے بچے منافقت کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ والدین کے سامنے ان کی مرضی کا اور ان کی عدم موجودگی میں اپنی مرضی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔والدین یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے بچے ایک خاص دینی اور اخلاقی زندگی گزار رہے ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

ان تینوں میں سے کوئی نتیجہ بھی مثبت اثرات کا حامل نہیں ہے۔ ان میں سے ہرنتیجہ بچوں کی تہذیبِ نفس میں رکاوٹ بننے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اس میں اولاد کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اصل غلطی والدین کے تربیت کے طریقے میں پائی جاتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس ساخت پر پیدا کیا ہے کہ پہلے وہ کسی بات کو اپنے ذہن و فکر اور شعور و ارادے کا حصہ بناتا ہے اور اس کے بعد اپنے عمل کو اس کے مطابق کرتا ہے۔ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے صرف جانور کے لیے رکھا ہے کہ اس کو جس طرف ہانکا جائے وہ اسی طرف مڑ جائے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دو ہی راستوں سے کوئی بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے۔ ایک عقل کے راستے سے اور دوسرے جذبات کے راستے سے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں نے ہمیشہ انسان کے ذہن کو مخاطب بنایاہے اور اس کے درِ دل پر دستک دی ہے۔

والدین اگر اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت کرنا چاہتے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے پرانے طریق کار کو یکسربدل دیں۔ اس مقصد کے لیے انھیں چاہیے کہ وہ دینی و اخلاقی تربیت کے حوالے سے جو بات بھی اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ، پہلے اسے ان کے شعور کا حصہ بنائیں۔ سختی، دھونس، دباؤ، زبردستی اور جبر کے تمام طریقے ترک کر دیں۔ ان کے علم کو اور ان کے فہم کو بہتر کریں۔ اور سقراط کی اس بات کو پلے باندھ لیں کہ صحیح علم ہی سے صحیح عمل تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کابھی اہتمام کریں کہ بچے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اچھی صحبت میں گزاریں۔ وہ انھیں ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کریں کہ بچے غیر محسوس طریقے سے پاکیزگی کو اپناتے چلے جائیں۔ اولاد کی تربیت و اصلاح کا واحد راستہ یہی ہے ۔ اس کے علاوہ جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا، وہ گھر کی فضا میں گھٹن یا سرکشی یا منافقت کے سوا کوئی اور چیز پیدا نہیں کر سکے گا۔

منظور الحسن

_______

 

سننا اور سمجھنا

ایک دفعہ ہمارے ایک دوست پاکستان کے سیاست دانوں پر تبصرہ کر رہے تھے ۔ دورانِ گفتگو میں انھوں نے ایک بڑا ہی بامعنی جملہ استعمال کیا ، وہ کہنے لگے : ’’ہمارے دو بڑے سیاست دانوں کا حال یہ ہے کہ ایک سنتی نہیں دوسرا سمجھتا نہیں ۔‘‘

واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں پانے یا کھو دینے کی بنیاد یہی دو چیزیں ہیں ۔ پوری کی پوری زندگی سننے اور سمجھنے کا نام ہے۔

انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ کان رکھتے ہوئے بہرہ بن جاتا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں بینائی موجود ہوتی ہے اور وہ دنیا میں اندھا بن کر جی رہا ہوتا ہے ۔

قرآنِ مجید کی ان آیات میں ایسے ہی عاقبت سے غافل لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:

’’اور ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ یہ چوپایوں کی مانند ہیں ، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔‘‘ (الاعراف ۷: ۱۷۹)

قرآنِ مجید ہی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں کو اصل روشنی دل کے نور سے ملتی ہے۔دل کا نور اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی عطا کر دیتے ہیں ۔ یہ چراغ اس کے سینے میں روزِ اول سے روشن ہے ۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے خود غرضی ، لالچ اور ہوس کی آندھیوں سے بچائے رکھے اور بجھنے نہ دے ۔ یہ چراغ اگر بجھ جائے تو بصارت موجود ہونے کے باوجود انسان بصیرت سے محروم ہو جاتا ہے ۔

انسان اپنے چاروں جانب بے شمار نشانیوں کو دیکھتا ہے جو اس دنیا میں غلط کار لوگوں کے انجام اور آخرت کے سچ ہونے کی گواہی دیتی ہیں ،مگر وہ اپنی اغراض اور اس دنیا کے منافع کے لیے انھیں نظر انداز کر دیتا ہے ۔ وہ ان سے آنکھیں بند کر کے ایسی راہ پر چل نکلتا ہے جو اسے آخرت سے دور لے جاتی ہے حتیٰ کہ قدرت کی گرفت میں آنے والے بدنصیبوں کا عبرت ناک انجام بھی اسے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔ آخرت میں جواب دہی کے احساس سے بے پروا ہو کر اپنا دن گزارنے والے رات کو جب بستر پر لیٹتے ہیں تو اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ :

’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے خداوند ہی کی طرف جا رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے ۔‘‘ (الانشقاق ۸۴: ۶ )

وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ جو دن گزرتا ہے ، وہ انھیں خدا کی عدالت کے اور قریب کر دیتا ہے ۔ وقت اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے ، حتیٰ کہ زندگی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے اور مہلت حیات ختم ہو جاتی ہے ۔ اور پھر جب موت سر پر آ کھڑی ہوتی ہے تو :

’’اللہ ہرگزکسی جان کو ڈھیل دینے والا نہیں ، جب کہ اس کی مقررہ مدت آ پہنچے گی۔‘‘ (المنافقون ۶۳: ۱۱)

فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور ایسے لوگوں کے مونہوں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انھیں برزخ میں قید کر دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ جب قیامت میں دوزخ کے دروازے پر پہنچیں گے تو جہنم کا داروغہ ان سے سوال کرے گا:

’’کیا تمھارے پاس کوئی اس دن سے خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا۔‘‘ (الدھر ۶۷: ۸ )

وہ جواب دیں گے کہ بے شک ہمیں اس برے انجام سے آگاہ کر کے ڈرانے والا تو آیا تھا ، مگر ہم نے اس کی بات کو دیوانے کی بڑ سمجھا ورنہ :

’’ہم (اگر) سننے والے اور سمجھنے والے ہوتے تو ہم دوزخ والوں میں سے نہ بنتے ۔‘‘ (الملک ۶۷ : ۱۰)

محمد اسلم نجمی

_______


خدا کو دھوکا دینا: ایک مہلک مرض

خدا کو دھوکا دینا مذہبی اقوام کا ایک مشترکہ مرض ہے ، یہود کی یہ داستان قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ وہ کس طرح قرآن کے نزول سے پہلے خود اپنے ہاتھ سے شریعت لکھتے اور کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس سے وہ حیلے تحریر کرتے اور خدا کی شریعت کے ساتھ کھیلتے ۔ صدیوں کے تعامل سے خدا کو دھوکا دینے کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ جب قرآنِ مجید نازل ہوا ، تو یہود نے اس موقع پر بھی خدا کو (نعوذ باللہ) جل دینے کی کوشش کی ۔

اس کا بیان قرآنِ مجید میں آیا ہے :

’’وہ اللہ اور اہلِ ایمان ، دونوں کو فریب دینا چاہتے ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ اپنے آپ ہی کو فریب دے رہے ہیں، لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے ۔ ‘‘ (البقرہ ۲: ۹)

دھوکا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے طریقے سے جرم کیاجائے کہ شریعت یا فقہ کے ظاہری ڈھانچے کی پیروی بھی ہو جائے اور وہ کام بھی ہو جائے جو شریعت کے منشا کے خلاف تھا۔ اس کی ایک مشہور مثال یہود کا سبت کے دن کا حیلہ ہے ، جس میں وہ سبت کے دن بظاہر شکار بھی نہ کرتے اور اس حیلے کے ذریعے سے مچھلیاں بھی پکڑ لیتے۔

امت مسلمہ میں بھی دھوکے کا یہ مرض عام ہے ۔ اسی مرض کی وجہ سے ہم نے کئی حرام اشیا اپنے اوپر حلال کر لی ہیں اور کئی ممنوع کاموں کے لیے راستے نکال لیے ہیں ۔ سود کی کئی شکلیں ہم نے اپنے لیے اسی طریقے سے حلال کر رکھی ہیں ۔ خدا کو دھوکا دینے کا ایک سادہ راستہ ہم نے یہ نکالا ہوا ہے کہ اپنے حالات مولوی صاحب کو بتا کر مجبوری ثابت کر کے ان سے فتویٰ لے لیا اور پھر خواہ وہ مجبوری ہو یا نہ ہو ، اس پر عمل کرتے رہے اور اپنی تسلی کے لیے اسی فتوے کو کافی سمجھا ۔ اس کی سادہ مثال زکوٰۃ دینے میں ہے ۔ لوگوں کو فقہا کا یہ فتویٰ معلوم ہے کہ جس پر قرض ہو ، وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے ۔ چنانچہ اب لوگ اس موقع پر زکوٰۃ نہیں دیتے کہ جب ان پر قرض ہو ، خواہ قرض کی مقدار معمولی ہو ۔ مثلاً ، بعض اوقات زکوٰۃ پچاس ہزار روپے بن رہی ہو گی اور قرض اس سے کہیں تھوڑا سا ہو گا ، مگر اس بہانے سے زکوٰۃ روک لی جائے گی ۔

اس طرح کے اور بھی کئی حیلے ہیں، مثلاً عربوں کو زکوٰۃ دیتے وقت دیکھا گیا ہے کہ جب وہ زکوٰۃ دیتے ہیں تو ان کی زکوٰۃ سیروں کے حساب سے زیورات کی صورت میں نکلتی ہے ۔ زکوٰۃ کا حساب وہ پوری دیانت داری سے کرتے ہیں ۔ ان زیورات کو وہ ایک بالٹی میں ڈالتے ہیں اور ان زیورات کے اوپر چار پانچ سیر گندم ڈال کر اسے ڈھانپ دیتے ہیں ۔ پھر وہ بالٹی کسی فقیر کو دے دی جاتی ہے جو زکوٰۃ لینے کے لیے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔ جب فقیروہ بالٹی لے کر چل پڑتا ہے تو گھر کا کوئی فرد اس کے پیچھے جا کر اس سے پوچھتا ہے کہ آیا یہ گندم بیچنے کے لیے ہے ؟ تو وہ اس فقیر سے یہ چار پانچ کلو گندم دو ڈھائی سو روپے میں خرید کر گھر لے آتا ہے۔ جس کے نیچے لاکھوں روپے کی مالیت کے زیورات چھپے ہوتے ہیں۔ بظاہر تو اس میں انھوں نے زکوٰۃ پوری دیانت داری سے نکالی اور فقیر کو دے دی اور اس کے علم میں آنے سے پہلے اس سے وہ چند سو روپوں میں خرید لی گئی۔

اس کے بعد حیلہ باز ذہن یہ سمجھتا ہے کہ اس نے خدا کے قانون کے مطابق پوری زکوٰۃ ادا کی ، اب وہ فقیر سے بالٹی بھر گندم اس کی مرضی سے خرید کر لایا ہے ۔ حالانکہ وہ خدا کو دھوکا دے رہاہے ۔ اس نے حقیقت میں بس وہی رقم زکوٰۃ میں نکالی ہے جو اس نے بالٹی بھر گندم کو خریدنے میں صرف کی ہے ۔

ہم کاروبار میں ، لین دین میں اور اس طرح کے بے شمار مواقع پر ایسا ناجائز قانونی اور شرعی راستہ نکالتے ہیں کہ بظاہر اسے ہم شرعی طریقے پر کر رہے ہوتے ہیں ، مگر حقیقت میں وہ ویسا نہیں ہوتا ۔

واضح رہنا چاہیے کہ انسان کے اعمال کا اجرو ثواب اس کی نیت کے مطابق ملے گا نہ کہ اس کے ظاہر کے مطابق ۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرے ، اور جماعت صحابہ میں شریک رہے ، مگر اس کی نیت خدا کی رضا نہ ہو تو اسے اس کا ثواب نہیں ملے گا ، بلکہ اگر اس نے ایسا منافقت یا ریاکاری کی وجہ سے کیا ہے تو اسے اس کی سزا بھی ملے گی ، اس لیے کہ یہ مومنین اور خدا کو دھوکا دینا ہے ۔

یہ تقویٰ کے لیے ایک مہلک مرض ہے ۔ ایسا شخص کبھی تقویٰ کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ تقویٰ کا مسکن دل کا نگر ہے ۔ اگر اس نگر میں فریب اور دھوکا رہنے لگ جائے تو پھر تقویٰ یہاں نہ پیدا ہو سکتا ہے اور نہ یہاں ٹک ہی سکتا ہے ۔ چنانچہ جو لوگ تقویٰ کے طالب ہیں ، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سے اس طرح کے تمام افکار و اعمال کو کرید کرید کر نکالیں ، جن کی بنیاد اسی دھوکے پر ہے ۔

ہم علیٰ وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ اس فریب اور اس دھوکے کے ایک ایک جز کے نکلنے پر دل کی اس زمین میں تقویٰ و نیکی کا ایک ایک پودا اگتا چلا جائے گا ، جو رفتہ رفتہ شجرِ طیبہ کی شکل اختیار کرے گا ۔ جس کے بارے میں قرآنِ مجید میں آیا ہے کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں کہ اسے اکھاڑنا ممکن نہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک بلند ہیں کہ جنھیں خزاں کی بادِسموم سے کوئی اندیشہ نہیں ۔

اللہ ہمیں اس مرض کے دل سے کریدنے میں مدد فرمائے ، اور اس شجرِ طیبہ کی نشوونما کی توفیق عطا فرمائے ۔

ساجد حمید

_______


جھوٹ اور دانائی

بچپن میں جھوٹ بولنا میرے لیے ایک مشکل کام تھا ۔ بعد میں بھی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولا۔ بے اختیاری میں منہ سے جھوٹ نکل جاتا اور میں خاموش رہتا ۔ سوچ سمجھ کر جھوٹ بولنے کی ابتدا اس وقت ہوئی ، جب دستاویزات سے واسطہ پڑا ۔ شروع شروع میں بڑی الجھن ہوتی ، لیکن جب اپنے ان دوستوں سے مشورہ کیا جو دین دار بھی تھے اور سرکاری ملازم بھی تو ان کا کہنا تھا : جھوٹ بولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اگر تم سچ بولو گے تو یہ تمھارا جرم تصور کیا جائے گا ۔ لہٰذا سال میں ایک دو بار جھوٹ لکھنا میرا طریقہ بن گیا ، مگر ذہنی خلجان پھر بھی باقی رہا ۔

ایمان و تصدیق کی بنیاد اخلاص اور سچ پر ہے ۔ آدمی سچے دل سے اللہ کو حاضر جان کر اس کی بندگی کا اقرار کرتا ہے تو اس کا ایمان معتبر ہوتا ہے ۔سورۂ بقرہ کی آیت ۱۷۷ آیۂ بر کے نام سے مشہور ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایمانِ مفصل ، مال کی محبت کے علی الرغم اس کے انفاق، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی ، عہد کی پاس داری اور سختیوں اور جنگ میں ثابت قدمی کو نیکیوں میں شمار کیا ہے اور ان اعمال صالحہ پر کاربند لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے : ’’یہی لوگ ہیں جو سچے اور پرہیز گار ہیں ۔‘‘ گویا یہ اعمال سچ اور تقویٰ کے ثمرات ہیں اور ان کی افزایش انھی دو چیزوں سے ہوتی ہے ۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے:

’’یقیناً سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت تک لے جاتی ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الادب)

اس جہاںِ رنگ و بو میں انسان کو دی گئی دسترس یہ جانچنے کے لیے ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ؟

’’اللہ ضرور چھانٹ کر رہے گا کہ کون ایمان میں سچے ہیں اور وہ جھوٹوں کو بھی ممیز کر دکھائے گا۔ ‘‘ (العنکبوت ۲۹: ۳)
’’یہ سچے ایمان والے ہی ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی تائید کی ، اپنے گھروں سے نکالے گئے ، ہجرت کی اور فقر کو اختیار کیا ۔ ‘‘ (الحشر ۵۹: ۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا فرمایا کرتے تھے :

’’اے اللہ ، میں تجھ سے نفسانی بیماریوں سے محفوظ دل اور سچی زبان مانگتا ہوں ۔‘‘ (سنن نسائی)

پھر ایسا کیوں ہے کہ جھوٹ اس دنیا میں جاری و ساری ہے ۔ ہر طرف اس کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے ۔ اکثر لوگوں کو چار وناچار جھوٹ بولنا پڑتا ہے ۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو جھوٹ کے زور پر دانا اور سمجھ دار بنے ہوئے ہیں ۔ معاشرہ انھیں اہم مقام دیتا ہے ۔ دنیا میں کامیاب لوگوں کو دیکھیں ، وہ حسب ضرورت جھوٹ بول لیتے ہیں ، اور اسے عیب نہیں سمجھتے ۔ دانش ور صبح سے شام تک جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں ۔ بڑے بڑے واعظین وہ نصیحتیں کرتے ہیں جن پر خود عمل پیرا نہیں ہوتے ۔ سچ بولنے والوں کو کئی موقعوں پر کنارہ کشی کرنا پڑتی ہے ، کیونکہ وہ جھوٹ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے اور جھوٹ بولنے والے پیش قدمی کر جاتے ہیں ۔ یوں جھوٹوں کی اکثریت ہو گئی ہے اور سچے اقلیت میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

کیا ایسا ہی رہے گا اور سچ کا بول بالا نہ ہوگا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں شیطان کو چھوٹ ملی ہوئی ہے اور انسان بھی اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہے ۔ جھوٹ بول کر اسے فوراً نفع ملتا ہے تو وہ پا لیتا ہے اور سچ کہہ کر سولی پر نہیں چڑھتا ۔ سچ اور جھوٹ کی اس کشمکش ہی میں ہماری آزمایش ہے کہ ہم دنیا کے اندر ملنے والی فانی منفعت کو اہمیت دیتے ہیں یا آخرت میں غیر فانی نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ سچ کو غالب کرنے کے لیے سچوں کی اکثریت ہونی چاہیے اور ایسا دین کی تبلیغ و تفہیم ہی کے ذریعے سے ممکن ہے ۔ معاشرے میں ایمان راسخ ہو گا تو جھوٹ کے قدم اکھڑ جائیں گے اور سچ کہنے والوں کی راہیں آسان ہو جائیں گی ۔ سردست ایسے لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے ، جو دنیوی طور پر بھی سمجھ دار مانے جاتے ہوں اور جھوٹ سے گریز بھی کرتے ہوں ۔ یہ جنس واقعی بہت کم یاب ہے ۔ یہاں تو دروغ گوئی کا نام دانائی رکھ دیا گیا ہے ۔

بعض اوقات محض وقتی فائدے کا مسئلہ نہیں ہوتا ، بلکہ زندگی اور موت میں سے ، ایک کو اختیار کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر اگرچہ جھوٹ بول کر جان بچانے کی اجازت ہے ،لیکن صریح جھوٹ سے پھر بھی بچا جا سکتا ہے اور ذومعنی جملہ بول کر حقیقت چھپائی جا سکتی ہے ۔ پھر ایسے صاحبِ عزیمت بھی گزرے ہیں جنھوں نے سخت دشوار حالات میں بھی سچ کا دامن نہیں چھوڑا ، سختیاں جھیلی ہیں اور جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ہمیں بھی اللہ سے قلب سلیم اور سچی زبان کی دعا مانگنی چاہیے ۔ اللّٰہ تسالک قلباً سلیماً ولساناً صادقاً۔

محمد وسیم اختر مفتی

____________

B