HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

اہل جاہلیت کے دینی شعائر

[ڈاکٹر جواد علی کی کتاب’ ’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ کے باب ۷۱ سے ماخوذ]


ہر دین کے کچھ شعائر ہوتے ہیں ۔ یہ شعائراس کے لیے ایسی نشانی اور علامت ہوتے ہیں جو اسے دوسرے ادیان سے ممیزکرتے ہیں۔ اسلام سے پہلے کے عرب یعنی اہل جاہلیت کئی قبیلوں اور قوموں میں منقسم تھے۔انھیں نہ کسی وحدت فکر نے جمع کیا ہوا تھا اور نہ کسی ایک حکومت یا ایک متفق علیہ عقیدے ہی نے باندھ رکھا تھا ۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے کے دور یعنی زمانۂ جاہلیت کے تمام عربوں کے شعائر ایک ہی قسم کے ہوں۔

اہل جاہلیت کے مذاہب کے بارے میں جو معلومات ابھی بیا ن کی جائیں گی، وہ یا ان جاہلی عبارات سے حاصل شدہ ہیں جو زیادہ تر مغربی اور جنوبی عرب سے متعلق ہیںیا ان اسلامی ذرائع معلومات سے حاصل کی گئی ہیں جو ظہور اسلام سے کچھ عرصہ پہلے کے اہل حجاز اورنجد کے بعض علاقوں سے متعلق ہیں۔ اسسب کچھ کا ذکر قرآن کریم،حدیث نبوی اور کتب تفاسیرو سیرت میں آیا ہے یا پھر تاریخ کی ان کتابوں میں آیا ہے جن کا تعلق ظہور اسلام یااس سے متصل جاہلی دورسے ہے۔

اہل جاہلیت کے دینی شعائر میں جو چیزیں سر فہرست ہیں ، وہ بت اور ان کے معبد ہیں اور نماز و سجود، طواف، نذروں، اوقاف اور قسموں کے ذریعے سے بتوں کا قرب حاصل کرنا ہے ۔ حصول تقرب کا مقصد یہ تھاکہ وہ بت اپنے پجاریوں پر احسان کریں اور صحت ، عافیت ، مال اور اولاد میں سے جس جس چیز کی انھیں خواہش ہو ، عطا کریں ۔ اب تک حاصل ہونے والی جاہلی تحریریں بھی کم و بیش انھی معلومات تک محدود ہیں اور اہل جاہلیت کے مذہب کے حوالے سے ان امور کے بارے میں جو کچھ تاریخی روایات میں آیا ہے ، وہ بھی کم و بیش یہی ہے ۔

نماز

جاہلی عبارات میں بتوں کے لیے اسلامی طریقۂ عبادت کے مطابق نماز پڑھنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور مورخین کی روایات میں بھی نمازکی کوئی واضح اور صحیح شکل نہیں مل سکی ہے ، البتہ یہود و نصاریٰ اورا ہل عرب کی نمازوں سے متعلق کچھ معلومات ضرور موجود ہیں ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں مقررہ اوقات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان کے اس معمول سے بعض اہل جاہلیت بھی با خبر تھے ۔ چنانچہ انھوں نے ا پنے اشعار میں اور اہل کتاب سے متعلق اپنی گفتگووں میں ا سے بیان بھی کیا ہے۔

سورج کی پوجا کرنے والوں نے ا س کا ایک بت بنا رکھا تھا جس کے ہاتھ میں آ گ کے رنگ کا ایک نگینہ تھا۔اس بت کا ایک خاص گھر تھا جو انھوں نے اسی کے نام پر تعمیرکیا ہوا تھا ۔ اس بت کے لیے بہت سی بستیاں اور زرعی زمینیں وقف تھیں۔اس کے بہت سے خدام ،منتظمین اور دربان تھے۔وہ دن میں تین بار اس گھر میں آتے اور سورج کی نماز پڑھتے ۔ وہاں مصیبت زدہ لوگ آتے اور اس بت کے لیے روزہ رکھتے ،نماز پڑھتے ،اسے پکارتے اور اس کی شفاعت کے طالب ہوتے۔یہ سب کے سب سورج کواس وقت سجدہ کرتے جب وہ طلوع ہوتا،غروب ہوتا اورآسمان کے درمیان میں ہوتا۔ اسی لیے ان تینوں اوقات میں شیطان بھی سورج کے ساتھ ہو جاتا ،تاکہ ان کی عبادت اور سجدے اس کے لیے ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کفارکی ظاہری مشابہت سے بچنے اور شرک وبت پرستی کا راستہ بند کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے قطعی طور پر منع کیا ہے ۱؂ ۔ مشہور مورخ یعقوبی نے بھی بیان کیا ہے کہ عرب جب خانۂ کعبہ کے حج کا ارادہ کرتے تو ہر قبیلہ اپنے بت کے پاس کھڑا ہوتا اور اس کے پاس نماز پڑھتا پھرتلبیہ کہتا ۔ ۲؂ بہر حال درج بالا دونوں خبروں میں اہل جاہلیت کے ہاں نمازکے وجود کا ثبوت موجود ہے۔ سورج کے پجاریوں کے بارے میں جو معلومات بیان ہوئی ہیں ، ان سے خاص طور پر ان کے ہاں نماز کا وجودثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ دن میں تین بار ا س کی نماز پڑھا کر تے تھے۔

نماز اور ذکر کے مفہوم میں تسبیح کے لفظ کا استعمال بھی موجود ہے ۔ یہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ان دو آدمیوں کوکوڑے مارے جنھوں نے عصر کے بعد تسبیح کی یعنی نماز پڑھی ۔ اور اعشی کا قول ہے :

وسبّح علیٰ حین العشیّات و الضّحیٰ
و لا تعبد الشیطان واﷲ فاعبدا
’’صبح و شام کے اوقات میں تسبیح کرواور شیطان کی عبادت مت کرو ،بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو۔‘‘

یہاں تسبیح سے مراد صبح و شام کی نماز ہے ۔ چنانچہ اسی پر اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’فَسُبْحَانَ اﷲِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ‘‘ کی یہ تفسیرکی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان دو وقتوں یعنی صبح اور شام کی نماز کا حکم دیا ہے ۔ ۳ ؂

اہل جاہلیت اپنے مردوں پر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ۔ اس کا طریقہ یہ تھاکہ میت کو چارپائی پر ڈالا جاتا،پھراس کا ولی کھڑاہوتا اور اس کے سارے محاسن بیان کرتا،اس کی تعریف کرتا اور پھر کہتا:تجھ پر اللہ کی رحمت ہو ۔ اس کے بعد اسے دفن کیا جاتا ۔۴؂

لوگوں کے سورج اور چاند کو سجدہ کرنے کابیان قرآن کریم میں بھی موجود ہے :

وَ مِنْ آیاتِہِ اللِّیْلُ وَ النَّہَارُ ، وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ ۔ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَالِلْقَمَرِ، وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الََّذِیْ خَلَقَھُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ۔ فَإِنِ اسْتَکْبَرُوْا ، فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوْنَ لَہ‘ بِاللِّیْلِ وَالنَّہَارِ وَ ھُمْ لَا یَسْأَمُوْنَ۔(حم السجدہ۴۱: ۳۷۔۳۸)
’’اوراسی کی نشانیوں میں سے رات اور دن ، سورج اور چاند بھی ہیں ۔ نہ سجدہ کروسورج کو اور نہ چاند کو، بلکہ سجدہ کرو اس اللہ کوجس نے ا ن ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے ، اگر تم اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔پھر اگر وہ تکبر کریں تو (وہ جان لیں کہ)جو لوگ تیرے رب کے پاس ہیں ، وہ اس کی دن رات تسبیح کرتے ہیں اور اکتاتے نہیں ہیں۔‘‘

ان آیات کی تفسیر میں امام طبری لکھتے ہیں :

’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر قریش کے یہ مشرکین ،جن کے مابین آپ موجود ہیں، تکبر کریں اور اس بات کو گراں سمجھیں کہ وہ اس اللہ کو سجدہ کریں جس نے ان کو اور شمس و قمرکو پیدا کیا ہے تو وہ جان لیں کہ ملائکہ جوآپ کے رب کے پاس ہیں، وہ اس بات پرنہ تکبر کرتے ہیں اور نہ اسے گراں سمجھتے ہیں ‘‘ (۲۴ /۷۷)

اہل سبا کے سورج کی عبادت کرنے اور اس کو سجدہ کرنے کا بیان درج ذیل آیات میں موجود ہے:

وَجِءْتُکَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَّقِیْنٍ ۔ إِنِّیْ وَجَدتُّ امْرَأَ ۃً تَمْلِکُھُمْ وَ أُوْتِےَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ ‘ وَلَھَا عَرْشٌ عَظِےْمٌ ۔ وَجَدتُّھَا وَقَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ‘ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ، فَھُمْ لَا یَھْتَدُوْنَ۔ ( النمل۲۷: ۲۲۔۲۴)
’’اور میں ملک سبا سے ایک سچی خبر لایا ہوں۔میں نے دیکھا کہ ایک عورت اس پر حکمرانی کر رہی ہے اور اس کو سب کچھ حاصل ہے اور اس کا تخت بہت بڑاہے۔میں نے اس کواور اس کی قوم کو دیکھاکہ وہ اللہ کے سواسورج کوپوجتے ہیں اورشیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہوں میں کھبا دیے ہیں، پس ان کو صحیح راہ سے روک دیا ہے،پس وہ راہ یاب نہیں ہو رہے ہیں۔‘‘

مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ ملکۂ سبا کی ایک کھڑکی تھی جو طلوع آفتاب کے رخ پر تھی ۔ جب سورج نکلتا تھا تو وہ اس میں نمودار ہوتی تھی اوراسے سجد ہ کرتی تھی ۔ ۵؂

چنانچہ اس قوم کا سجدہ سورج کے لیے ہوا کرتا تھا اوریہ اس کی عبادت اور اس کی تعظیم کی خاطر ہوتا تھا۔

روزہ

جاہلی تحریروں میں روزے کی وہ شکل نہیں ملتی جو اہل کتاب یا مسلمانوں کے ہاں موجود ہے ۔ لغت میں ’صوم‘ سے مراد کسی چیز سے رکنا یا اسے چھوڑنا ہے۔روزہ دار کو کھانے ،پینے اور شہوت سے رکنے ، جبکہ خاموش شخص کو گفتگو سے باز رہنے کی وجہ سے صائم کہا جاتا ہے۔سورۂ مریم میں ہے :

فَإِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِیْ : إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا ، فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا ۔ ( ۱۹ :۲۶ )
’’ اور اگر کوئی آدمی معترض ہو تو اس سے اشارے سے کہہ دیجیوکہ میں نے خداے رحمن کے لیے روزے کی منت ما ن رکھی ہے ،تو آج میں کسی انسان سے کوئی بات نہیں کرسکتی‘‘ ۔

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ یہاں ’صوم‘ سے مراد ’صمت‘ یعنی خاموشی ہے ، کیونکہ آیت کا آخری حصہ ’فلن اکلم الیوم انسیا‘ اسی معنی کو تقویت دے رہا ہے ۔ اسی طرح ’صوم‘ کا معنی صبر بھی ہے۔

اسلام میں روزے کے اصول مدنی سورتوں نے مقرر کیے ہیں ، کیونکہ روزے کا زیادہ تر بیان مدنی سورتوں میں ہوا ہے۔مکی سورتوں میں روزے کا بیان صرف ایک جگہ سورۂ مریم کی اسی آیت میں ہوا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوئی ہے۔

یہود و نصاریٰ کاروزہ ان اہل جاہلیت کے ہاں معروف تھا جن کا اہل کتاب کے ساتھ میل ملاپ تھا۔ مثال کے طور پر اہل یثرب کو یہود کے روزوں کا علم تھا ، کیونکہ وہ ان کے درمیان موجود تھے ۔ عراق اور شام کے عربوں کو نصاریٰ کے روزوں کا علم تھا، کیونکہ ان میں ایسے عرب قبائل موجود تھے جو عیسائی ہو گئے تھے ،جبکہ اہل مکہ بالخصوص احناف(دین حنیف پرقائم لوگوں) اور تاجر حضرات کو اہل کتاب کے روزوں کا علم تھا ۔ ان کو راہبوں کے روزوں کابھی علم تھا جس کی شکل یہ تھی کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت پر غور و فکر کرنے کے لیے خاموش رہا جائے، سوچ بچار کی جائے اور خلوت میں بیٹھا جائے ۔ تاریخی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل جاہلیت میں سے ان کے مسلک کو اختیار کرنے والے لوگ خاموشی ،سوچ بچار،گفتگو سے پرہیز اور غار حرا یا مکہ کے دوسرے پہاڑوں کی گھاٹیوں میں خلوت اختیار کرنے کا روزہ رکھا کرتے تھے۔

مورخین یہ بیان کرتے ہیں کہ قریش یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ۔ چنانچہ وہ اس دن جشن کرتے، عید مناتے اورکعبہ کو غلاف پہناتے۔انھوں نے اس روزے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قریش نے دور جاہلیت میں کوئی گناہ کیا تھا جس کا ان کے دلوں پر بڑا بوجھ تھا ۔ چنانچہ انھوں نے اس کے کفارہ کے لیے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔پھر انھوں نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ جاری رکھا۔ ۶؂ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم دور جاہلیت سے عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ۔ جب آپ مدینہ آئے توآ پ نے اس پر عمل جاری رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا ، یہاں تک کہ رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہو گیا ۔

علما نے یہ احتمال بیان کیا ہے کہ قریش نے دورجاہلیت میں اس دن کا روزہ سابقہ شریعت کی پیروی میں رکھا تھا اور وہ بیت الحرام کو غلاف پہنا کراس دن کی تعظیم کیاکرتے تھے۔ ۷ ؂ بعض علما کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲ہجری کے شروع میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا ۔ پھر جب رمضان کا حکم نازل ہو گیا تو جو چاہتا یہ روزہ رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔ وہ قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ایک بڑا قحط آیا تھا ۔پھر جب وہ ان سے ہٹا دیا گیا تو انھوں نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا ۔ ۸؂

صاحب ’’زاد المعاد‘‘ لکھتے ہیں :

’’قریش اس دن کی تعظیم کیا کرتے تھے اور اسی دن کعبے کو غلاف پہناتے تھے ، جبکہ روزہ آخری درجے میں اس دن کی تعظیم تھی ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یوم عاشورہ کے روزے کو باقی تمام دنوں پر فوقیت دیتے تھے ، چنانچہ آپ رمضان کی فرضیت سے قبل یہ روزہ رکھتے رہے۔ پھر جب رمضان فرض ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ جو چاہے اس کا روزہ رکھے اورجو چاہے اس کو چھوڑ دے ۔ لیکن جب آپ خود بطور نفل یہ روزہ باقاعدگی سے رکھتے رہے تو آپ سے کہا گیا : اے اﷲ کے رسول! یہ تو وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودونصاریٰ کرتے ہیں۔ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا : ان شااﷲ اگلے سال ہم ۹ذی الحج کو بھی روزہ رکھیں گے۔ لیکن اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اﷲ رحلت فرما گئے۔‘‘(۱/ ۱۷۴)

قریش کا یہ معمول بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب ان کے ہاں قحط پڑتا تھا تو اس کے ختم ہونے پر وہ اﷲ کا شکر ادا کرنے کے لیے اور اپنی دعا کی قبولیت پر اس کی حمدوثناکرنے کے لیے روزہ رکھتے تھے ۔ ۹؂

محدثین نے بھی یوم عاشورہ کا روزہ بیان کیا ہے۔ان میں سے بعض نے اسے وہ روزہ قرار دیا ہے جو اسلام میں ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے تھا ، جبکہ بعض کی رائے ہے کہ یہ ہجرت کے دوسرے سال تک فرض تھا ، پھر رمضان کے روزوں سے منسوخ ہو گیا۔

قرآن کریم میں مکی و مدنی ، دونوں طرح کی سورتوں میں روزے کا ذکر موجود ہے ۔ دونوں جگہ اس کے متعلق وحی کا ناز ل ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ روزہ قدیم دینی شعائر میں سے ہے اور قریش کو اس کا علم تھا ۔سورۂ مریم کی مذکورہ آیت سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’صوم‘ سے مراد محض کھانے اورپینے ہی سے رکنا نہیں تھا ، بلکہ نبوت کے ابتدائی زمانے میں گفتگو سے باز رہنا بھی تھا۔

قریش کے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی یہ روایت ان دوسری روایات سے مطابقت نہیں رکھتی جو ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی کیفیت بیان کرتی ہیں ۔ ان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ آے تو انھوں نے یہود کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا ۔ وجہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ وہی دن ہے جس میں اﷲتعالیٰ نے آل فرعون کو غرق کیا تھااور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں ہم ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھااور لوگوں کو بھی حکم دیا ۔ لیکن جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہ یوم عاشورہ کے روزے کا حکم دیا اور نہ اس سے منع کیا ۔ ۱۰ ؂ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ خیبر اور مدینہ کے یہودی عاشورہ کے روزے کی بڑی قدر کیا کرتے تھے اور اس دن کو عید کے طور پر منایا کرتے تھے ۔ ۱۱؂

یہود کے ہاں عاشورہ کا دن جسے کفارے کا دن بھی کہا جاتا ہے رکنے اور کٹنے کا دن ہے ۔ یہ عیدالمظال سے پانچ دن قبل واقع ہوتا ہے یعنی ۱۰ تشری کے دن اور یہی دن یوم الکبور(Kipur)بھی ہے ۔اس دن کا روزہ غروب آفتاب سے لے کر اگلے دن کے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔اس دن کی حرمت ’’سبت‘‘ کی حرمت کے مانند ہے ۔ اور اسی دن سب سے بڑا یہودی عالم ( کاہن اعظم ) ’قدس الاقداس‘ (یہودی عبادت خانہ ’’قُبّۃ الہیکل‘‘کی سب سے زیادہ مقدس جگہ) میں اس دن کے خاص دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے داخل ہوتا ہے ۔ ۱۲؂

علماے تفسیر و حدیث نے روزے کی فرضیت اور اس سے قبل کے معاملے میں بہت زیادہ اختلاف کیا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ مسلمان انھی کی طرح کے پچاس روزے رکھتے رہے ، یہاں تک کہ ابو قیس بن صرمہ اور عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہما کے معاملے کے بعد مسلمانوں کے لیے طلوع سحر تک کھانا ،پینا اور جماع کرنا حلال کر دیا گیا ۔ ۱۳ ؂ بعض کی رائے یہ ہے کہ رمضان کی فرضیت سے قبل لوگ ہر ماہ تین دن روزہ رکھتے تھے اور یہ روزے بھی فرض نہیں ، بلکہ نفل تھے ۔ ۱۴ ؂ بہر حال نہ اہل اسلام پر ماہ رمضان کے روزوں کے علاوہ کوئی روزہ فرض کیے جانے کے ثبوت کے لیے کوئی روایت موجود ہے اور نہ کوئی ایسی فیصلہ کن روایت ہی موجود ہے جو یہ بتائے کہ مسلمان مدینہ ہجرت کرنے سے قبل مکہ میں بھی روزے رکھتے تھے۔

ابوصرمہ انصاری اور عمربن خطاب رضی اﷲ عنہما کے قصے کا عاشورے کے روزے یا روزوں کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس قصے کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے ، وہ تفسیر طبری ۱۵؂ کے مطابق یہ ہے کہ ابتدا میں مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا تھا کہ رمضان میں روزہ افطار کر لینے کے بعد جب تک وہ نہ سوئیں ، ان کے لیے کھانا، پینا اور بیویوں کے پاس جانا حلال ہے۔مگر جب وہ سو جائیں تو یہ سب کام پہلے کی طرح حرام ہیں۔مسلمان اسی حکم پر قائم رہے ، یہاں تک کہ ایک دن ابو قیس بن صرمہ رضی اﷲ عنہ افطار کے فوراً بعد سو گئے۔ان دنوں وہ مدینہ کے باغات میں مزدوری کیا کرتے تھے ۔ جب وہ اٹھے تو انھوں نے کچھ کھانے پینے سے انکار کر دیااورروزہ رکھ لیا ۔ اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات اپنی ایک لونڈی سے مباشرت کر لی ۔ چنانچہ درج ذیل آیت کے نزول سے یہ حکم ان سے منسوخ ہو گیا :

أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلیٰ نِسَاءِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ أَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ۔عَلِمُ اﷲُأَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ أَنْفُسَکُمْ ۔۔۔۔( البقرہ ۲ : ۱۸۷ )
’’ تمھارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جاناجائز کیاگیا ہے۔وہ تمھارے لیے بمنزلۂ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلۂ لباس ہو ۔ اﷲ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے ۔۔۔۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ عاشورے کے دن قریش کے روزے کی روایت بعد میں آنے والی روایت ہے ۔ کیونکہ نہ اس کی تائید کرنے والی کوئی سند ہے اور نہ اس دن قریش کا روزہ رکھنا ہی سمجھ میں آتا ہے ، اس لیے کہ وہ ایک مشرک قوم تھے ۔ عاشورہ کا روزہ یہودکے روزوں میں سے ہے اور یہ ان کے ہاں کفارے اور استغفار کا روزہ ہے۔ آخر قریش اس دن کیوں استغفار کریں گے اور کیوں روزہ رکھیں گے ؟ اور انھوں نے وہ کون ساگناہ کیا تھا جس کی اپنے معبودوں سے معافی مانگیں گے ؟چنانچہ اگر اہل جاہلیت کے ہاں کوئی روزہ تھا تو زیادہ قرین قیاس ہے کہ’ ’احناف‘ ‘ہی وہ روزہ رکھتے ہوں گے ۔ تاریخی روایات میں ان کے عاشورہ یا غیر عاشورہ میں روزہ رکھنے کاکوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ دوسری طرف تفسیر ، حدیث اور تاریخ سب کے علما یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ مدینہ آ کر رکھنا شروع کیا اور رمضان کے روزے فرض ہونے تک رکھتے رہے ۔ چنانچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ راویوں نے بلا تحقیق عاشورہ کے روزے میں قریش کا نام ڈال دیا ہے تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ روزہ بھی ان قدیم عربی سنن میں سے ہے جواسلام سے قبل تھیں اور یہ کہ قریش اسلام سے قبل روزہ رکھتے تھے۔

مورخین کی روایات کے مطابق اہل جاہلیت کا روزہ کھانے،پینے اور عورتوں کے پاس جانے سے رکنے کا روزہ بھی تھا اور یہی اسلام کا روزہ ہے اور گفتگو سے باز رہنے اور زبان کو روکنے کا بھی ۔ یہ روزہ کم مدت کے لیے بھی ہو سکتا تھا جیسے ایک دن یا ایک ہفتہ اور زیادہ مدت کے لیے بھی ۔ سورۂ مریم میں اسی روزے کابیان ہے ۔ ۱۶؂ روایت کیا گیا ہے کہ اہل جاہلیت میں سے ’’زہاد‘ ‘یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔

خاموشی کا روزہ بطور نذربھی رکھا جاتا تھا ۔ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ قبیلۂ احمس کی ایک عورت زینب سے ملے تو آپ نے دیکھا کہ وہ بولتی نہیں تھی ۔ وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس نے خاموشی کا روزہ رکھا ہوا تھا ۔ آپ نے اس سے کہا: بات چیت کرو ، کیونکہ ایسا روزہ جائز نہیں ہے ، بلکہ یہ جاہلی اعمال میں سے ہے ۔چنانچہ اس نے بات چیت شروع کر دی اور پھر آپ کے ساتھ ایک طویل گفتگو کی ۔ ۱۷ ؂

گزشتہ ساری بحث سے واضح طور پر یہ معلوم ہو تا ہے کہ ’تصمیت‘ یعنی خاموشی کا روزہ اہل جاہلیت کے افعال میں سے تھا، ان کے ہاں معروف و معلوم تھا اور شاید یہ ان کی اہل کتاب سے اثر پزیری کا نتیجہ تھا ۔

تحنث

اہل جاہلیت کے عبادت کے طریقوں میں سے تحنث بھی ہے۔اس سے مراد بتوں کی عباد ت کرنا اور ان کا قرب حاصل کرناہے ۔ اسی سے متعلق حکیم بن حزام کایہ قول ہے :

’’تم نے ان امور کے بارے میں غور کیا جن کے ذریعے سے میں دور جاہلیت میں عبادت کیا کرتا تھا جیسے صلۂ رحمی کرنا اور صدقہ کرنا اور میں انھی اعمال کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا کرتا تھا۔‘‘ (تاج العروس ۱/ ۶۱۶)

تحنث کے معنی تنہائی اختیار کرنابھی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال غار حرا میں ایک خاص ماہ اعتکاف کیا کرتے تھے ۔ یہ قریش کے ان طریقوں میں سے تھاجو وہ دور جاہلیت میں عبادت کے لیے اختیار کیا کرتے تھے ۔ اس دوران میں آپ کے پاس جو مسکین آتا آپ اسے کھانا کھلاتے تھے ۔ اعتکاف پورا کر نے کے بعد جب آپ واپس آتے تو سب سے پہلے کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرتے تھے اور پھر اپنے گھر کو لوٹتے تھے ۔ بیان کیا گیا ہے کہ وہ خاص مہینا رمضان کا ہوتا تھا۔ ۱۸ ؂

ختنہ

اہل جاہلیت کے دینی شعائرمیں سے ختنہ کرنابھی ہے ۔ اور یہ ان شعائر میں سے ہے جو بہت عام تھے ۔ وہ ’ اغرل ‘ یعنی غیر مختون شخص کو برا سمجھتے تھے ۔ ان میں سے بعض بالخصوص اہل مکہ لڑکیوں کا بھی ختنہ کراتے تھے ۔ ختنہ کرنے کے اس عمل پر خواتین مقرر تھیں ۔ چنانچہ وہ اس شخص کو بھی برا سمجھتے تھے جس کی ماں عورتوں کے ختنے کرتی ہو ، لہٰذا جب وہ کسی کی مذمت کرنا چاہتے تو اسے ’’ عورتوں کاختنہ کرنے والی کا بیٹا‘‘ کہہ کربلاتے ، اگرچہ اس کی ماں ختنہ کرنے والی نہ ہو ۔ ۱۹ ؂

غسل جنابت اور میت کا غسل

جہاں تک جنابت کے بعد غسل کرنے اور مردوں کو غسل دینے کا تعلق ہے تویہ ان سنن میں سے ہیں جنھیں اسلام میں برقرار رکھا گیا ہے ۔غسل میت کا بیان جاہلی شاعر افوہ اودی کے ایک شعر میں ہوا ہے ، جبکہ مردوں کی تکفین اور نماز جنازہ کا بیان اعشی اور بعض دوسرے جاہلی شعرا سے منسوب اشعار میں موجود ہے ۔ بیان کیا گیا ہے کہ قریش اپنے مردوں کو غسل دیا کرتے تھے اور ان کو خوشبو لگایا کرتے تھے۔ لیکن جیساکہ ہم آغاز میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ اہل عرب دینی امور میں مختلف تھے ۔ لہٰذا نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ باتیں تمام عربوں میں رائج تھیں اور نہ یہ دعویٰ ہی کیا جا سکتا ہے کہ یہ امور ان کے ہاں دینی شعائر تھے۔ البتہ ، مشرکین کے غسل جنابت نہ کرنے کا بیان موجود ہے ۔ چنانچہ مفسرین نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ سورۂ توبہ کی درج ذیل آیت میں لفظ ’نجس‘ سے مراد مشرکین کا جنبی ہونا ہے:

یآ أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ، فَلَا یقْرَبُواالْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا۔ وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً ، فَسَوْفَ یُغْنِیکُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ إِنْ شَآءَ۔(۹: ۲۸)
’’ ایمان والو،یہ مشرکین بالکل نجس ہیں تو یہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ پھٹکنے پائیں اور اگر تمھیں معاشی بد حالی کا اندیشہ ہو تو اﷲ اگر چاہے گا تو اپنے فضل سے تم کو مستغنی کر دے گا۔‘‘

تفسیر طبری میں ہے :

’’ ا ﷲتعالیٰ نے ان کو یہ نام اس لیے دیا ہے کہ وہ حالت جنابت میں غسل نہ کرتے تھے ۔ چنانچہ فرمایا کہ وہ ناپاک ہیں ، لہٰذا وہ مسجد حرام کے قریب نہ جائیں،اس لیے کہ جنبی کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ مشرکین اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لاتے تھے اور اس کی تجارت کیا کرتے تھے۔جب ان کے مکہ میں داخلے کی ممانعت کا یہ حکم نازل ہوا تو مسلمانوں نے کہا کہ اب ہمارے کھانے پینے کے سامان کا کیا ہو گا؟ تو آیت کا یہ حصہ ’وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً ، فَسَوْفَ یُغْنِیکُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ إِنْ شَآءَ‘ نازل ہو گیا ۔‘‘(۱۰/ ۷۴۔۷۵)
قربانی اور حج

قربانیاں،نذریں،عبادت گاہوں کی زیارتیں اور حج جاہلی عربوں کی عظیم اکثریت کے ہاں نمایاں ترین دینی شعائر ہی نہیں ، بلکہ کم و بیش کل دین کا مترادف تھے ۔ ان کی زندگی کے معاملات اور مفادات سے ان شعائر کا گہرا تعلق تھا۔ وہ یہ سب کام اپنے معبودوں کا قرب حاصل کرنے کے لیے کرتے تھے تاکہ وہ ان کو وافر غلہ اور مال عطاکریں ۔ چنانچہ دعا کرنے کے ہر موقع پر وہ دنیوی مال و متاع ہی مانگا کرتے تھے ۔ تفسیر طبری میں ہے کہ حج میں وقوف عرفات کے وقت ان کی یہ دعا ہوا کرتی تھی : ’’اے اﷲ ہمیں بکریوں کا ریوڑ عطا کر، اے اﷲ ہمیں اونٹوں کا گلہ عطا کر۔ ‘‘ ۲۰؂ درج ذیل آیت میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے :

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ: رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا،وَ مَا لَہ‘ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۔(البقرہ ۲: ۲۰۰)
’’لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں کامیابی عطا کر،حالانکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘

وہ مجبور تھے ۔ اپنی غربت اور بھوک کو مٹانے کے لیے نذروں، قربانیوں اور حج کے ذریعے سے اپنے معبودوں کا قرب حاصل کریں ۔اس امید پر کہ وہ ان پر مہربانی کریں گے اور انھیں مال ، کشائش، برکت اور صحت عطا کریں گے ۔ وہ ان سے وابستہ رہتے تھے ۔ وہ لاٹری(قسمت کی پرچیاں)یا گھوڑوں کی دوڑ کی ٹکٹیں بیچنے والے غریبوں اور محتاجوں کو منافع اور انعام کا لالچ دیا کرتے تھے ۔

اسی مادی نظر یے نے ان کے عام لوگوں کو ابھارا کہ وہ اپنے معبودوں کو یہ دھمکی دیں کہ اگر انھوں نے ان کی دعائیں نہ سنیں تو وہ نذریں پیش کرنے اور زیارت کرنے سے باز رہیں گے ، لہٰذا وہ ان کی فرمایشیں اور مطالبات پورے کریں ۔ مگر بعد میں اسینظریے نے ان کو مجبور کیاکہ وہ اپنی ان دھمکیوں سے رجوع کریں، معافی مانگیں ،اظہار ندامت کریں اور اپنے معبودوں کو نئے سرے سے راضی کریں ۔

حلال و حرام

’’ التاریخ الکبیر‘‘ میں ابن عساکر قبیلۂ خثعم کے ایک فردسے منسوب روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’ عرب کسی حلال کو حرام اور کسی حرام کو حلال نہ کرتے تھے ۔ اور وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے اور انھی سے فیصلے کراتے تھے۔‘‘ (۱/ ۳۱۷)

اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ حلال و حرام کا خیال رکھتے تھے ۔ اور کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار ان کے مذہبی رہنماؤں کے پاس تھا ۔یعقوبی نے بھی عربوں کے ادیان اور شعائر پر بات کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ مختلف قوموں سے میل جول رکھنا ، دوسرے شہروں کی طرف آنا جانا اور چارے اور غلے کی تلاش میں پھرنا ، وہ اسباب تھے جن کی بنا پر عرب مختلف مذاہب رکھتے تھے۔چنانچہ قریش اور معد بن عدنان کی اکثر اولاد دین ابراہیم کے کچھ حصے کو اختیار کیے ہوئے تھی ۔ وہ خانۂ کعبہ کا حج کرتے ،مناسک ادا کرتے ، مہمانوں کو ٹھیراتے ،حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے اور فحش کاموں ،قطع رحمی اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے روکتے اور جرائم پر سزا دیتے تھے ۔‘‘( الیعقوبی ۱/ ۲۲۴)

گویا انھوں نے لفظ’ ’دین‘ ‘ کے مفہوم میں وہ امور داخل کیے ہیں جن کا شمار آج معروفات اور قواعداخلاق و کردار میں کیا جاتا ہے ۔ نیز وہ انھیں سنت ابراہیمی میں شمار کرتے ہیں یعنی عربوں کا وہ قدیم دین جو بتوں کی پرستش کی خرابی سے قبل تھا۔

اسی موضوع پرادب و لغت کے ماہر سکری لکھتے ہیں :

’’عرب دوسری امتوں سے مختلف تھے۔وہ دس اعمال بجا لاتے تھے ۔ ان میں سے پانچ چہرے سے متعلق تھے یعنی کلی کرنا ، ناک میں پانی ڈالنا ،مسواک ( دانتوں کی صفائی ) کرنا ،بالوں میں مانگ نکالنا اور مونچھیں تراشنا ۔ جبکہ پانچ جسم سے متعلق تھے یعنی ختنہ کرنا ،زیر ناف بال مونڈنا، بغلوں کے بال نوچنا ،ناخن تراشنا اور استنجا کرنا ۔ یہ اعمال عربوں کے ساتھ مخصوص تھے اور دوسری قوموں میں نہ پائے جاتے تھے ۔‘‘ ( المحبر ۳۲۹ )

گویا ان کی رائے میں یہی دس امور عرب کے شعائر ہیں ۔ بہرحال یہ شعائر سارے عرب میں رائج تھے اور یہ دوسری امتوں کے بجائے صرف انھی میں خاص تھے ۔ البتہ ایسے بہت سے امور ہیں جن میں سکری کی رائے کو بعینہٖ تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ بلکہ بہت سے مواقع پر تو اپنی بات کی تردید وہ خود ہی کر دیتے ہیں ۔ مثلاً ایک جگہ انھوں نے ایک گروہ کے بارے میں لکھا ہے : ’’وہ حساب کتاب پر یقین رکھتے تھے‘‘اور ’’وہ مردار نہیں کھاتے تھے‘‘۔پھر انھوں نے اپنی رائے کو سارے عرب پر عام کر دیا ، حالانکہ یہ اہل جاہلیت کے صرف ایک گروہ کی رائے تھی ، کیونکہ قرآن کریم نے ان کو حساب کتاب کے انکار کا مجرم گردانا ہے اور مسلمانوں پر مردار کا گوشت کھانا حرام کیا ہے ۔ ۲۱؂

عرب جاہلیت میں مردار کھایا کرتے تھے ۔ حارثہ بن اوس کلبی ان میں سے ہیں جنھوں نے اپنے لیے مردار کھانا حرام ٹھیرایا ہوا تھا اور وہ جاہلی شاعر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :

لا آکل المیتۃ ما عمرت
نفسی وإن أبرح املاقی
والعقد لا أنقض منہ القوی
حتی یواری القبر أطباقی
’’جب تک میں زندہ ہوں مردار نہ کھاؤں گا ، اگرچہ میری مفلسی برقرار رہے ۔ اور جب تک میں زندہ ہوں اور قبر میرے جوڑ بند نہیں ڈھانپ لیتی ، میں اپنے پختہ وعدوں میں سے کوئی نہ توڑوں گا۔‘‘ (المحبر ۳۲۹)

_______

۱؂ بلوغ الارب ۲/ ۲۱۵۔

۲؂ الیعقوبی ۱/ ۲۲۵۔

۳؂ اللسان ۲/ ۴۷۳۔

۴؂ المحبر۳۲۰ ۔

۵؂ تفسیر طبری ۱۹/ ۹۴ ۔تفسیر قرطبی ۱۳/ ۱۹۰۔

۶؂ بلوغ الارب ۲/ ۲۸۸۔

۷؂ ارشاد الساری ۳/ ۴۲۱۔

۸ ؂ ارشاد الساری ۶/ ۱۷۴۔

۹ ؂ ارشاد الساری ۶/ ۱۷۴۔

۱۰؂ تفسیر طبری ۲/ ۲۶۵۔

۱۱؂ ارشاد الساری ۳/ ۴۲۳۔

۱۲؂ قاموس الکتاب المقدس ۲/ ۲۶۰۔

۱۳؂ تفسیر طبری ۲/ ۷۵۔

۱۴؂ تفسیر طبری ۳/ ۷۶۔

۱۵؂ ۲/ ۹۴۔

۱۶؂ تفسیر طبری ۲/ ۹۴۔

۱۷؂ ارشاد الساری ۶/ ۱۷۵۔

۱۸؂ تفسیر طبری ۲/ ۳۰۰۔

۱۹؂ تاج العروس ۳/ ۵۲۔

۲۰؂ ۲/ ۱۷۴۔

۲۱؂ بحوالہ روح المعانی ۶/ ۵۱ ۔

____________

B