عبد الرؤف
مرتبہ: محمد اسحاق ملتانی،
صفحات: ۳۴۴،
ناشر: ادارہ تالیفات اشرفیہ، بیرون بوہڑ گیٹ ملتان۔
اسلام نے انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کے بارے میں بھی انسان کی رہنمائی کی ہے ۔ یہ رہنمائی اصولوں کی حد تک ہے ، اس کی تفصیلات طے کرنے سے بوجوہ احتراز کیا گیاہے ۔ا جتماعی زندگی میں سیاست کا شعبہ سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے ، اس لیے کہ باقی شعبہ ہائے زندگی پر اس کے اثرات غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ اسلام نے سیاست کے بارے میں کیا رہنمائی دی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ہمارے ہاں مختلف نقطہ ہاے نظر موجود ہیں ۔ کچھ لوگ سرے سے اسلام اور سیاست کے تعلق کے قائل ہی نہیں ہیں ۔ کچھ لوگوں کے ہاں اسلام میں سیاست کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اسی بنا پر کہا جانے لگا ہے کہ انھوں نے ترجیحات کی ترتیب الٹ دی ہے ۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہے اور اسلام کے دور اول یعنی خلافت راشدہ کو بنیاد بنا کر اصول وضع کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مذکورہ بالا تینوں نقطہ ہاے نظر کے حاملین پاکستانی معاشرے میں موجود ہیں ۔ بیان کیے گئے پہلے دو نقطہ ہاے نظر کی نمائندگی کے لیے تحریریں موجود تھیں ، مگر تیسرے نقطۂ نظر یعنی دیو بند کے نقطۂ نظر کی تفہیم کے لیے ایک طالب علم کو مواد کی کمی محسوس ہوتی تھی ۔ زیر تبصرہ کتاب دراصل اسی نقطۂ نظر کے حامل علماے کرام کی تحریروں کا مجموعہ ہے ۔ فاضل مرتب نے اس کتاب میں مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا محمد تقی عثمانی ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی ،مولانا محمد متین الخطیب اور مفتی عتیق الرحمن کی ان تحریروں کو جمع کیا ہے جو کسی نہ کسی طرح موضوع سے متعلق ہیں ۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی کوئی باقاعدہ تحریر تو اس موضوع پر موجود نہیں تھی ، اس لیے ان کے خیالات اور نظریات ان کی دیگر کتابوں سے جمع کر دیے گئے ہیں ۔
کتاب کو ان عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے : حکیم الامت کے سیاسی افکار، ووٹر کی شرعی حیثیت ، مروجہ سیاست کے شرعی احکام ، مذہب اور سیاست ، شریعت و سیاست ، ووٹ کی اسلامی حیثیت ، اسلام میں جمہوریت کا تصور، غیر اسلامی حکومت کے شرعی احکام ، عورت کی سربراہی ، اسلامی مملکت میں حکومت الہٰیہ اور اسلامی حکومت کا بنیادی اصول شوریٰ۔
کتاب کا پہلا باب مولانا تقی عثمانی صاحب کا مقالہ ہے جس میں انھوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے سیاسی افکار پر گفتگو کی ہے ۔ یہی گفتگو کتاب کا سب سے اہم حصہ ہے ۔ مقالہ نگار نے عہد حاضر کے ان مفکرین اور مصنفین پر تنقید کی ہے جنھوں نے سیاست اور حکومت کو اسلام کا مقصود اصلی قرار دیا ہے ۔ اور ساتھ ہی ان نتائج کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس مقدمے سے نکلتے ہیں ۔ مقالہ نگار کے نزدیک مولانا اشرف علی تھانوی پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے اس باریک غلطی کو واضح کیا۔ قرآن کی آیت ’الذین ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوٰۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر‘ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ سیاست مقصود اصلی نہیں ہے ، بلکہ دیانت مقصود اصلی ہے ۔ مقالہ نگار کے نزدیک موجودہ زمانے میں جمہوریت کی شہرت کی وجہ اس کا پروپیگنڈہ ہے ۔ ان کے الفاظ میں :
’’اگر کوئی صاحب جمہوری حکومت کی بجائے شخصی حکومت کی حمایت کرے تو ایسا شخص آج کی سیاسی فضا میں تقریباً کلمۂ کفر کہنے کا مرتکب سمجھا جانے لگا ہے ۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانوی جمہوریت کے مقابلے میں شخصی حکومت کے قائل تھے اور تقی عثمانی صاحب نے جمہوریت کے خلاف مختلف دلائل اکٹھے کیے ہیں ۔ مثال کے طور پر غزوۂ احد میں پہاڑی پر متعین صحابۂ کرام کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ مال غنیمت کو حاصل کرنے کے لیے جگہ چھوڑ دی جائے ۔ حضرت صدیق اکبر کا مانعین زکوٰۃ سے معاملہ ، جبکہ صحابۂ کرام نے حضرت ابوبکر کو ان کے خلاف اقدام کرنے سے روکے رکھا۔
تقی عثمانی صاحب نے جمہوریت کے خلاف کارلائل اور بعض دیگر مغربی مصنفین کے حوالے بھی دیے ہیں ۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی سیاست میں صرف مقصد کا نیک اور شریعت کا موافق ہونا کافی نہیں ہے ، بلکہ اس کے طریقۂ کار اور اس کی تدبیروں کا بھی شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی علما اور حکومت کے درمیان تقسیم کار کے قائل نظر آتے ہیں ۔ حکومت کو ہر اقدام سے پہلے علما سے پوچھنا چاہیے ۔ مزید براں حکومت کو نصیحت علانیہ نہیں ، بلکہ خلوت میں کرنی چاہیے ۔ حکومت سے اختلاف میں ان کی رائے یہ ہے کہ جو اختلاف حکمت، مصلحت ، دین اور خیر خواہی پر مبنی ہو ، وہ مذموم نہیں ، مگر اس کی بھی ایک حد ہے ۔ یہ اختلاف اسی وقت تک جائز ہے ، جب تک کہ مشورہ کا درجہ رہے ، مگر بعد از نفاذ اختلاف کرنا مذموم ہے ، نفاذ کے بعد اطاعت ہی واجب ہے ۔ مولانا تھانوی بلاضرورت حکام کے خلاف بولنے کو نہ صرف خلاف شریعت سمجھتے ہیں ، بلکہ ان کے نزدیک اس سے حکام کے بارے میں دلوں سے ہیبت اٹھ جاتی ہے جو ان کے خیال میں امن امان اور مجرموں کی سرکوبی کے لیے ضروری ہے ۔ البتہ ، اگر حکومت کفر بواح کا ارتکاب کرے تو پھر خروج یعنی بغاوت بالکل برحق ہے ۔
کتاب کے متعدد ابواب کا موضوع انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت ہے ۔ یہ مولانا مفتی محمد شفیع کی تحریر ہے جس میں انھوں نے ووٹ کی تین حیثیتوں ، یعنی شہادت ، سفارش اور وکالت پر بحث کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال جس طرح موجب ثواب ہے ، اسی طرح نااہل شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے ، بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن اثرات نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے ۔
کتاب کے تیسرے ، چوتھے ، پانچویں ، ساتویں اور آٹھویں باب میں مولانا اشرف علی تھانوی کی تحریروں سے ان حصوں کا انتخاب کیا گیا ہے جن کا تعلق سیاست اور حکومت سے ہے ۔ ان تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر کا تعلق ہندوستان کے برطانوی دور سے ہے جن میں سے بعض تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے تناظر میں لکھی گئیں ۔ ان حصوں میں علما، دینی طلبہ اور سیاست اور اسلام میں سیاست کی اہمیت ، جماعت سازی ، سیاسی اختلافات ، بھوک ہڑتال ، جیل بھرو تحریک ، مسئلۂ امامت و امارت اوراس کے شرائط ، مسلمانوں کے مغلوب ہونے کی وجہ ، انجمنوں کی ناکامی کے اسباب ، غیرمسلموں کے حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ ، ’’کافروں‘‘ سے معاملات ، دارالحرب اور دارالسلام، غیر مسلم حکومت میں رعایا بن کررہنے کا حکم ، ہجرت اور اس کے احکام ، حکومت کے قانون کی خلاف ورزی جیسے موضوعات پر بحث کی ہے ۔ اکثر جگہوں پر تکرار دکھائی دیتی ہے۔
ان میں سے اہم موضوعات پر مولانا تقی عثمانی نے پہلے ہی حصے میں تفصیلی بحث کی ہے ۔ اسی طرح ان تمام حصوں میں کوئی موضوعاتی یا زمانی ترتیب نہیں ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ سارا مواد مولانا تھانوی کے متفرق فرمودات اور فتاویٰ سے لیا گیا ہے ۔ ایک اور کمی جو یہاں محسوس کی گئی ہے ، وہ یہ کہ ان فتاویٰ میں تاریخ درج نہیں کی گئی ہے جس سے قاری بحث کو اس کے تاریخی تناظر میں نہیں دیکھ سکتا ۔
کتاب کا چھٹا باب مولانا تقی عثمانی کا ووٹ کی اسلامی حیثیت کے بارے میں ایک مضمون ہے جو انھوں نے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے دنوں میں لکھا تھا۔ اس تحریک میں اس وقت کے نازک حالات کے پیش نظر عوام سے ووٹ کے صحیح استعمال کی اپیل کی گئی ہے ۔ اور ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ ووٹ صرف ایک دنیوی معاملہ نہیں ہے ، بلکہ دراصل یہ شہادت ہے جس طرح کہ مولانا مفتی محمد شفیع نے کہا تھا کہ انتخاب میں نااہل لوگوں کو ووٹ دینا ایک طرف گناہ ہے تو دوسری طرف گناہ کے اس درجے میں ہے جن کے نتائج پوری قوم کو بھگتنے ہوں گے جس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے ۔
کتاب کا نواں باب مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب کی ’’عورت کی سربراہی‘‘ کے موضوع پر ایک تحریر ہے جو انھوں نے ایک سائل کے جواب میں لکھی تھی۔ ۱۹۸۸ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں یہ بحث پورے زور وشور سے چلی تھی کہ عورت سربراہ حکومت نہیں ہو سکتی ۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا کہ عورت سربراہ حکومت ہو سکتی ہے ۔ اس کے لیے وہ رضیہ سلطانہ اور چاند بی بی وغیرہ کی مثالیں پیش کرتے تھے اور مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک فتویٰ کا سہارا بھی لیتے تھے جو انھوں نے انگریزوں کے دور میں والیان ریاست کے بارے میں دیا تھا۔ مولانا لدھیانوی نے اس مضمون میں اپنے موقف سے مولانا تھانوی کے فتویٰ کے بارے میں غلط فہمی کو دو رکرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور مختلف دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورت سربراہ مملکت نہیں ہوسکتی ۔ مولانا یوسف کا یہ مضمون ایک اور لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں انھوں نے علماے دیو بند کے رائے قائم کرنے کے بارے میں اصول بیان کیے ہیں ۔ جن میں سلف صالحین کی تشریحات سے لے کر اجماع امت تک کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
کتاب کا آخری حصہ مفتی عتیق الرحمن صاحب کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے اسلامی حکومت میں شوریٰ کی حیثیت پر بہت اہم بحث کی ہے ۔ یہ حصہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس حصے کو اس کتاب میں کیسے شامل کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ اس کے مندرجات کتاب میں بیان کیے گئے سابقہ موقف کی نفی ہیں ۔ مقالہ نگار نے شوریٰ کے معنی پر بحث کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ موجودہ پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد بھی شوریٰ پر مبنی ہے ، گویا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے شخصی حکومت کے تصور کے خلاف اسلام جمہوریت پر مبنی حکومت کا موید ہے ۔ اسی طرح مضمون نگار نے کہا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ امیر شوریٰ سے مشورے کا پابند تو ہے ، لیکن اس کے ماننے کا پابند نہیں ہے ۔ اس طرح تو پھر ایک امیر اور ڈکٹیٹر کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہے گا ۔ مضمون نگار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حیثیتوں ایک منصب رسالت اور دوسرے منصب امامت پر بحث کرنے کے بعد کہا ہے کہ حضور نے اپنی رائے کے علی الرغم جنگ بدر اور غزوۂ احد میں صحابۂ کرام کے مشوروں پر عمل کیا ۔ اسی طرح فاضل مقالہ نگار نے جیش اسامہ اور مانعین زکوٰۃ کے خلاف اقدام جیسے واقعات کو اپنے اصلی تناظر میں بیان کر کے یہ بات واضح کی ہے کہ اسلام جمہوریت کا علمبردار ہے ۔
کتاب کا ٹائیٹل خوب صورت اور دیدہ زیب ہے ۔ طباعت سفید کاغذ پر کی گئی ہے ۔ کتاب کی جلد بھی اچھی ہے ۔ مرتب کی طرف سے اکابر دیو بند کے خیالات اور نظریات کو جمع کرنے کی اچھی کوشش ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کتاب میں پروف کی بہت غلطیاں ہیں ۔ بعض ایسی غلطیاں بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ بعض عنوانات میں تکرار ہے ۔ مثلاً ووٹر کی شرعی حیثیت اور ووٹ کی اسلامی حیثیت ، مذہب اور سیاست اور شریعت و سیاست ۔ بعض جگہوں پر عنوانات تک میں فرق پایا جاتا ہے ۔ مثلاً فہرست کے صفحہ پر ووٹر کی شرعی حیثیت درج ہے ، جبکہ کتاب کے اندر متعلقہ حصے میں انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت درج ہے ۔ اسی طرح فہرست میں دیے گئے ۱۱ عنوانات میں سے ۵ کے صفحات نمبر غلط درج کیے گئے ہیں ۔ کتاب کے عنوان کے ساتھ لکھا ہے کہ : ’’مجموعۂ افادات مولانا اشرف علی تھانوی‘‘ ۔ اس سے ایک قاری یہ سمجھتا ہے کہ یہ مولانا ہی کی تحریروں پر مشتمل ہو گا ، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ اس لیے اس غلطی کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے ۔ فہرست کے صفحے میں موضوعات کے ساتھ ان کے مصنفین کا اضافہ ہونا چاہیے ۔
بحیثیت مجموعی کتاب کی اشاعت ایک اچھی کوشش ہے ۔ اس کتاب کی صورت میں اب دین اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے دیو بند کے اکابر علما کے نقطۂ نظر پر مشتمل ایک کتاب موجود ہے ۔ تاہم بہتر ہو گا کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں مذکورہ بالا خامیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کی جائے کہ کتاب کو سیاسیات کے معروف اسلوب میں ڈھالا جائے تاکہ یہ سیاسیات کے طالب علموں کے لیے مزید دلچسپی کا باعث ہو ۔
____________