HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۱۹-۲۲۱ (۴۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ، قُلْ: فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ، وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا۔ وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ، قُلِ: الْعَفْوَ۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ{۲۱۹} فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی ۔ قُلْ : اِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ، وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ، وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ ، اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ{۲۲۰} 

وَلَاتَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ، وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ ، وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ، وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ ۔ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ، وَاللّٰہُ یَدْعُوْا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ، وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ{۲۲۱}

وہ تم سے جوئے اور شراب کے بارے میں پوچھتے ہیں ، (اِس لیے کہ یہ بھی اِن کے ہاں غریبوں کی مدد کا ایک ذریعہ ہیں ) ۔ ۵۷۷  کہہ دو کہ اِن دونوںکا گناہ بہت بڑا ہے اور (اِس میں شبہ نہیں کہ) لوگوں کے لیے اِن میں کچھ فائدے بھی ہیں ، لیکن اِن کا گناہ اِن کے اِن فائدوں سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ ۵۷۸   اور پوچھتے ہیں کہ (اچھا ، یہ تو واضح کیجیے کہ) کیا خرچ کریں؟ کہہ دو کہ وہی جو ضرورت سے زیادہ ہے ۔ ۵۷۹  اللہ اسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم دنیا اور آخرت ، دونوں کے معاملات میں غور کرتے رہو ۔ ۵۸۰  اور پوچھتے ہیں کہ (جنگ ہوئی اور لوگ مارے گئے تو اُن کے) یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ کہہ دو : جس میں اُن کی بہبود ہو ، وہی بہتر ہے ۔ اور اگر تم (اُن کی ماؤں سے نکاح کر کے) اُنھیں اپنے ساتھ شامل کر لو تو وہ تمھارے بھائی ہیں ، ۵۸۱  اور اللہ جانتا ہے کہ کون بگاڑنے والا ہے اور کون اصلاح کرنے والا ۔ ۵۸۲  اور اگر اللہ چاہتا تو (اِس کی اجازت نہ دے کر) تمھیں مشقت میں ڈال دیتا۔ بے شک ، اللہ زبردست ہے ، وہ بڑی حکمت والا ہے ۔ ۵۸۳  ۲۱۹۔ ۲۲۰ 

اور (یتیموں کی بہبود کے مقصد سے بھی ) مشرک ۵۸۴عورتوں سے نکاح نہ کرو، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور (یاد رکھو کہ) ایک مسلمان لونڈی کسی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں پسند ہو ۔ اور اپنی عورتیں بھی مشرکوں کے نکاح میں نہ دو ، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور (یاد رکھو کہ) ایک مسلمان غلام کسی مشرک شریف زادے سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں پسند ہو ۔ ۵۸۵ یہ (مشرک لوگ تمھیں) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنی توفیق سے جنت اور مغفرت کی دعوت دیتا ہے ۵۸۶ ، اور لوگوں کے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں ۔ ۲۲۱ 

۵۷۷؎ عرب جاہلی کی روایات میں اس کی جو صورت بیان ہوئی ہے ، وہ یہ تھی کہ جب سرما کا موسم آتا ، شمال کی ٹھنڈی ہوائیں چلتیں اور ملک میں قحط کی سی حالت پیدا ہو جاتی تو لوگ مختلف جگہوں پر اکٹھے ہوتے ، شراب کے جام لنڈھاتے اور سرورومستی کے عالم میں کسی کا اونٹ یا اونٹنی پکڑتے اور اسے ذبح کردیتے ۔ پھر اس کا مالک جو کچھ اس کی قیمت مانگتا، اسے دے دیتے اور اس کے گوشت پر جوا کھیلتے ۔ اس طرح کے موقعوں پر غربا و فقرا پہلے سے جمع ہو جاتے تھے اور ان جوا کھیلنے والوں میں سے ہر شخض جتنا گوشت جیتتا جاتا ، ان میں لٹاتا جا تا۔ عرب جاہلی میں یہ بڑی عزت کی چیز تھی او رجو لوگ اس قسم کی تقریبات منعقد کرتے یا ان میں شامل ہوتے ، وہ بڑے فیاض سمجھے جاتے تھے اور شاعر ان کے جودوکرم کی داستانیں اپنے قصیدوں میں بیان کرتے تھے ۔ اس کے برعکس جو لوگ ان تقریبات سے الگ رہتے ، انھیں برم کہا جاتا جس کے معنی عربی زبان میں بخیل کے ہیں ۔ جوئے اور شراب کی یہی منفعت تھی جس کی بناپر یہ سوال پیدا ہوا ہے ۔

۵۷۸؎ اصل الفاظ ہیں: ’ اثمھما اکبر من نفعھما‘ ۔ قرآن کے اس جواب سے واضح ہے کہ دین میں حرمتوں کی بنیاد اخلاقی مضرت ہے ۔ اسے اشیا یا اعمال کے دوسرے فوائد اور نقصانات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس آیت میں ’ نفع‘ کے بالمقابل ’ اثم‘ کا لفظ استعمال کر کے قرآن نے یہی بتایا ہے ۔ مادی یا طبی فوائد اور نقصانات کا تقابل پیش نظر ہوتا تو اس کے بجائے ضرر کا لفظ استعمال کیا جاتا۔

۵۷۹؎ یعنی بار بار پوچھتے ہو تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حال اور مستقبل کی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں کے علاوہ جو کچھ تمھارے پاس موجود ہے ، وہ معاشرے کا حق ہے ۔ اللہ کی راہ میں انفاق کے تمام مطالبات اسی سے متعلق ہیں ۔ دین و شریعت کی رو سے انفاق کی جو ذمہ داری ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے ، یہ اس کی آخری حد ہے ۔ اس سے آگے کوئی مطالبہ اللہ تعالیٰ نے اس سے نہیں کیا ہے ۔

۵۸۰؎ یہ کسی بات کو مجمل چھوڑ کر بعد میں لوگوں کے پوچھنے پر اس کی وضاحت کا فائدہ بتایا ہے کہ اس سے لوگوں کو دنیا اور آخرت کے معاملات میں غوروفکر کی تربیت حاصل ہوتی ہے ۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :

’’اوپر کے سارے سوالات پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ سوالات جو پیدا ہوئے تو محض اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ لوگوں کی نگاہوں میں عام طور پر وہ توازن نہیں ہوتا جو دین اور دنیا ، دونوں کے فوائد و مصالح کو صحیح صحیح تول سکے ۔ اس عدم توازن کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دین داری کی طرف میلان ہوا تو لوگ دین کو نری رہبانیت بنا کر رکھ دیتے ہیں ، یہاں تک کہ جنگ و جہاد ، خواہ کسی حالت میں بھی ہو ، ان کے ہاں خلاف تقویٰ قرار پا جاتا ہے ۔ اور اگر دنیا داری کی طرف میلان ہو گا تو جوئے اور شراب جیسی چیزوں کو بھی محض اس خیال کی بنا پر نیکی قرار دینے کی کوشش کریں گے کہ آخر ان میں بھی تو کچھ پہلو فائدے کے ہیں ۔ قرآن نے فکر انسانی کی تربیت کی جو راہ اختیار کی ہے ، وہ اس عدم توازن کو دو ر کر کے اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت ، دونوں کا حق صحیح صحیح پہچان سکے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۱۷)

۵۸۱؎ یعنی اس معاملے میں اصل مقصود یتیموں کی بہبود ہے ، اسے ہرحال میں پیش نظر رہنا چاہیے ۔ یہ مقصد اگر ان کے معاملات کو الگ رکھ کر حاصل ہوتا ہے تو یہی کرو اور اگر اپنے ساتھ شامل کر کے زیادہ بہتر طریقے پر اسے حاصل کر سکتے ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ جس چیز میں ان کی بہتری ہو ، وہی بہتر ہے ۔

۵۸۲؎ یہ تنبیہ کا جملہ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخض کو معلوم ہونا چاہیے کہ لوگوں کی نیت اور ارادے اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں رہ سکتے ۔ وہ جانتا ہے کہ اس اقدام سے کس کے پیش نظر یتیم کی بہبود ہے اور کون اس پردے میں کوئی دوسرا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ لہٰذا کوئی اس اجازت سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے ۔

۵۸۳؎ یعنی اگر یتیموں کو ساتھ شامل کیے بغیر ان کی اور ان کے معاملات کی دیکھ بھال کا مطالبہ کیا جاتا تو تم ایک بڑی مشقت میں پڑ جاتے ، لیکن اللہ تعالیٰ حکیم ہیں ، انھوں نے بڑا کرم فرمایا کہ تمھارے لیے سہولت کے ساتھ نیکی اور خدمت کی ایک راہ کھول دی ۔ اس پر تمھیں اپنے پروردگار کا شکرگزار ہونا چاہیے ۔ اس سے کوئی غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو گے تو یاد رکھو کہ وہ عزیز بھی ہیں ۔ ان کی پکڑ سے کوئی تمھیں بچا نہ سکے گا ۔

۵۸۴؎ اس سے مراد مشرکین عرب ہیں ۔ قرآن میں یہ لفظ خاص انھی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ دنیا کی کوئی دوسری قوم اگر ان کی طرح شرک کو بحیثیت دین اختیار کیے ہوئے ہو تو اس کو بھی اسی کے تحت سمجھنا چاہیے ۔ یہودو نصاریٰ بھی شرک جیسی نجاست سے آلودہ ہیں ، لیکن وہ چونکہ اصلاً توحید ہی کے ماننے والے ہیں اور شرک سے برأت کا اظہار کرتے ہیں ، اس لیے یہ حکم ان سے متعلق نہیں ہے ۔

۵۸۵؎ یہ وضاحت اس لیے فرمائی ہے کہ ایمان لانے کے بعد آدمی کی پسند اور ناپسند کے معیارات میں جو تبدیلی لازماً ہونی چاہیے ، وہ لوگوں پر واضح ہو جائے ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے :

’’اسلام میں پسند اور ناپسند کے لیے معیار نہ ظاہری شکل وصورت ہے ، نہ نسل و نسب اور نہ آزادی اور غلامی ، بلکہ ایمان اور عمل صالح ہے ۔ اس وجہ سے اب تمھارے رشتے ناتے ذاتوں اور برادریوں کے پابند نہیں رہ گئے ، بلکہ عقیدے اور عمل کے تابع ہو گئے ہیں ۔ قریش کی ایک مہ جبین شہزادی تمھارے لیے دو کوڑی کی ہے ، اگر وہ ایمان کے زیور سے آراستہ نہیں ہے اور سواحل افریقہ کی ایک کالی کلوٹی لونڈی تمھارے لیے حور جنت ہے ، اگر اس کا دل جمال ایمان و اسلام سے نورانی ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۵۱۹)                

۵۸۶؎ یہ اس ممانعت کی حکمت بتائی ہے کہ مشرکوں کے ساتھ اس طرح کا تعلق پیدا کرو گے تو گویا اپنے گھر کو جہنم کی دعوت کا مخاطب بناؤ گے ، اس لیے کہ شرک پر اصرار کرنے والوں کے لیے نہ خدا کی مغفرت میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان کے لیے اس کی جنت کے دروازے کبھی کھل سکتے ہیں ۔ یہ اپنا گھر جلانے کے لیے آگ خریدنا ہے ۔ اس طرح کی حماقت کوئی شخص ہوش و حواس کے ساتھ نہیں کر سکتا۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــ

B