HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

اخلاص نیت

[اس روایت کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں زاویۂ فراہی کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے۔]


روی ۱ انہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنما الاعمال بالنیات۲۔ وإنما لکل إمری مانوی ۳ ، فمن کانت ھجرتہ الی اللّٰہ ورسولہ فھجرتہ الی اللّٰہ و رسولہ ، و من کانت ھجرتہ الی دنیا یصیبھا او امراۃ یتزوجھا فھجرتہ الی ما ھاجرالیہ ۴۔
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (نیک) عمل ۱ (کا اجر ۲ تو عمل کرنے والوں کے )ارادوں ہی پر منحصر ہے۔ (آخرت میں)انسان کے لیے وہی ( عمل باعث اجر )ہے جس کا وہ ارادہ کرے۔ چنانچہ جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول۳ کی رضا ۴ کے لیے ہجرت ۵ کی ، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے قرار پائے گی(اورآخرت میں اِسی بنا پراُس کے لیے بڑے اجرکا باعث ہو گی)، اور جس نے (اس کے برخلاف) دنیا (کے کسی مقصد )کو پانے یا کسی خاتون سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی (مقصد) کے لیے ہو گی ۶ جس کی خاطر اس نے ہجرت کی (اور آخرت میں وہ اس کا کوئی اجرنہ پا سکے گا )۔

[۱] روایت کے اسلوب اور ہجرت جیسے خالص صالح عمل کی مثال سے واضح ہے کہ یہاں اعمالِ صالحہ مراد ہیں ۔ عمل صالح سے مراد، قرآن کی اصطلاح میں ، ہر وہ عمل ہے جو خداکی اس حکمت کے موافق ہو جس پر اس عالم کی تخلیق ہوئی اور جس کے مطابق اب اس کی تدبیر امور کی جاتی ہے۔اس کی تمام اساسات عقل وفطرت میں ثابت ہیں اور خدا کی شریعت اسی عمل کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے۔

[۲] یہاں اخروی اجر مراد ہے۔ ’’انسان کے لیے وہی ہے جس کا وہ ارادہ کرے ‘‘ کے الفاظ سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔مزید براں ہجرت کی مثال بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہے۔ سورۂ آل عمران میں اسی ہجرت اور اس جیسے بعض دوسرے دینی اعمال کا ذکر کر کے اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ قیامت میں انھیں ضائع نہیں کرے گا اور ان کا بہترین بدلہ دے گا:

’’تو ان کے پروردگار نے ان کی(قیامت کے دن بخشش کی )دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا۔ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ سو جنھوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے اور ہمارے راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے ہیں، ان سے ان کے گناہ دور کر دوں گا اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گاجن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہ اللہ کے پاس ان کا بدلہ ہو گا اور بہترین بدلہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘ (۳: ۱۹۵)

[۳] پیغمبر زمین پر اللہ کا فرستادہ اوراپنی قوم کے لیے ہدایت الٰہی کا ماخذ ہوتا ہے ۔ اس لیے دینی امور میں پیغمبر کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث کے اکثر مقامات پر اللہ اور رسول کے احکام کو یکساں طور پر واجب التعمیل قرار دیا گیاہے۔ دیکھیے ،سورۂ نسا (۴) کی آیت ۱۰۰ میں ہجرت ہی کے حوالے سے اللہ اور رسول کا اکٹھے ذکر آیا ہے : ’و من یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللّٰہ ورسولہ‘ ۔ (اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے گا)۔

[۴] یعنی اخروی کامیابی کے لیے اچھے اعمال کا انجام دینا ہی کافی نہیں ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ وہ رضاے الہٰی کے لیے انجام دیے جائیں۔اچھے کام کرتے ہوئے اگر کسی کے پیش نظرشہرت، دولت ، اقتدار یا ان جیسے دوسرے دنیوی مقاصد ہوں توان کی بنا پر آخرت میں کسی اجر کی توقع ہر گز نہیں رکھنی چاہیے۔ سورۂ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اور جو آخرت کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے، ہم اس کی کھیتی میں افزونی دیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے، ہم اس کو اس میں سے کچھ دیتے ہیں اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔‘‘ (۴۲: ۲۰)

[۵] ہجرت ایک خالص دینی عمل ہے۔دین میں اس کی دو ہی صورتیں ہیں:

ایک صورت یہ کہ بندۂ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے؛ اسے دین کے لیے ستایا جائے ، یہاں تک کہ مسلمان کی حیثیت سے کھلا رہنا ہی اس کے لیے ممکن نہ رہے تو اس کا یہ ایمان اس سے تقاضا کرتا ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہو جائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔قرآن مجید نے اپنے ایمان کو خطرے میں دیکھ کر اس سے گریز کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے ۔سورۂ نساء میں ہے :

’’جن لوگوں کی روحیں فرشتے اس حال میں نکالیں گے کہ (دوسروں کے ڈر سے اپنے ایمان و اسلام کو چھپا کر) وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ہوئے تھے ،ان سے وہ پوچھیں گے: یہ تم کس حال میں پڑے رہے ؟ وہ جواب دیں گے: ہم اس ملک میں مجبور اور بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے : کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘ ( ۴: ۹۷)

دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر جب تبلیغ کا حق بالکل آخری درجے میں ادا کر دیتے ہیں اور حجت تمام ہو جاتی ہے تو ہجرت و برأت کا مرحلہ آ جاتا ہے ۔اس میں قوم کے سرداروں کی فرد قراردادِ جرم بھی پوری وضاحت کے ساتھ انھیں سنا دی جاتی ہے اور یہ بات بھی بتا دی جاتی ہے کہ ان کا پیمانۂ عمر لبریز ہو چکا ۔ لہٰذا اب ان کی جڑیں اس زمین سے لازماً کٹ جائیں گی۔ اس کے ساتھ پیغمبر کو بھی بشارت دی جاتی ہے کہ نصرتِ خداوندی کے ظہور کا وقت آ پہنچا ۔وہ اور اس کے ساتھی اب نجات پائیں گے اور جس سرزمین میں وہ کمزور اور بے بس تھے ، وہاں انھیں سرفرازی حاصل ہو جائے گی ۔ اس لیے اپنی قوم کی تکفیر اور اس کے عقیدہ و مذہب سے بے زاری کا اعلان کر کے وہ اب اسے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس کے بعد پیغمبر کو ہجرت کا حکم دے دیا جاتا ہے ۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ہجرت کا حکم اللہ تعالیٰ ہی دیتے ہیں ، اس کا فیصلہ کوئی پیغمبر اپنے اجتہاد سے نہیں کر سکتا ۔اس موقع پر اہل ایمان کو بھی پیغمبر کے ساتھ ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے ۔

صاف واضح ہے کہ یہاں ہجرت کی دوسری قسم ہی مراد ہے۔گویا یہ روایت اس زمانے سے متعلق ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی مثال یہاں تفہیم مدعا کے لیے دی ہے۔یہ عمل اپنے ظاہر کے اعتبار سے اللہ اور اس کے رسول ہی کے لیے خاص ہو سکتا ہے۔ آپ نے واضح فرمایا ہے کہ اس جیسا سرتاسر دینی عمل بھی اگر دنیوی مقصد کے لیے کیا جائے تو وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہو گا۔

[۶] اس بات کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ انسان اگر کوئی اچھا عمل آخرت کے بجائے دنیا کے لیے کرتا ہے تو اسے آخرت میں اس کا کوئی صلہ نہیں ملے گا ۔ اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اگر آخرت کے بجائے دنیا کو اپنا مقصود بنا لے ، یعنی اس کا ہر عمل دنیا کے حصول کے لیے خاص ہو جائے تو اس کا انجام جہنم ہو گا ۔ جنت کے انعام کا وہی مستحق ہے جس کا اصل مطمح نظر آخرت ہے ۔ ارشاد ہے :

’’جو دنیا ہی کا طالب بنتا ہے ، ہم اس کے لیے اسی میں جس قدر چاہتے ہیں، جس کے لیے چاہتے ہیں، آگے بڑھا دیتے ہیں۔ پھر ہم نے اس کے لیے جہنم رکھ چھوڑی ہے جس میں وہ خوار اور راندہ ہوکر داخل ہو گا۔ اورجو آخرت کا طالب بنتا ہے اور اس کے شایان شان کوشش بھی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو درحقیقت یہی لوگ ہیں جن کی سعی مقبول بھی ہو گی۔ ‘‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۱۸۔۲۰)

متن کے حواشی

۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ بخاری کی روایت رقم ۶۱۹۵ ہے۔

۲۔روایت میں یہاں ’انما الاعمال بالنیۃ‘کے الفاظ تھے ، ان کی جگہ بخاری رقم ۱ کا جملہ ’انما الاعمال بالنیات‘شامل کیا گیا ہے ۔

۳۔ یہاں ’وانما لا مری ما نوی‘کے الفاظ تھے ، ان کی جگہ بخاری ، رقم ۱ کا جملہ ’وانما لکل امری مانوی‘شامل کیا گیا ہے ۔

۴۔ یہ روایت معمولی فرق کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے :

بخاری ، رقم ۱، ۵۲ ، ۲۳۴۴، ۳۶۰۹، ۴۶۸۲، ۶۱۹۵، ۶۴۳۹۔ مسلم ، رقم ۳۵۳۰ ۔ ترمذی، رقم ۱۵۷۱ ۔ نسائی، رقم ۷۴، ۳۳۸۳، ۳۷۳۴۔ ابو داؤد،رقم ۱۸۸۲۔ ابن ماجہ ، رقم ۴۲۱۷۔ احمد بن حنبل،رقم ۱۶۳، ۲۸۳۔ ابن خزامہ ، رقم ۱۴۲، ۱۴۳، ۴۵۵۔ ابن حبان ، رقم ۳۸۸، ۳۸۹، ۴۸۶۸۔ بیہقی، رقم ۱۸۱، ۱۸۲، ۹۷۲، ۱۳۲۱، ۲۰۸۷، ۷۱۶۲، ۷۸۹۷، ۸۷۷۴، ۱۲۶۸۶، ۱۴۷۷۳۔ دار قطنی، رقم ۱ ۔ حمادیہ، رقم ۱۲۸۔ بخاری ، رقم ۶۱۹۵۔

____________

B