قرآن مجید میں برائی کے جواب میں بھلائی کو غیر معمولی نیکی قرار دیا گیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’ اور بھلائی اور برائی ، دونوں یکساں نہیں ہیں ۔ تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہے تو تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے ،گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔ اور یہ دانش نہیں ملتی ، مگر انھی کو جو ثابت قدم رہنے والے ہوتے ہیں اور یہ حکمت نہیں عطا ہوتی ، مگر انھی کو جو بڑے نصیبہ ور ہیں ۔‘‘(حم السجدۃ ۴۱ : ۳۴ ۔۳۵)
یہ تعلیم غیر معمولی اجر کی ضمانت دیتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر عمل بہت مشکل ہے۔ اس مشکل کے کئی سبب ہیں۔ایک سبب یہ ہے کہ جب ہمارے خلاف برائی ہوتی ہے تو ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔ ہماری طبیعت میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اس اشتعال پر قابو پانا اور پھر صحیح الفاظ اور مناسب اسلوب میں بات چیت کو جاری رکھنا یا اپنے آپ کو کسی اقدام سے روکنامشکل ہو جاتا ہے ۔دوسرا سبب یہ ہے کہ بالعموم یہ برائی نیکی کے جواب میں ہوتی ہے۔ آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ احسان ناشناسی ہے ۔ اور اس طرح کے آدمی کو سبق سکھانا ضروری ہے ۔تیسرا سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں نرمی کے رویے کو فرد کی کمزوری پر محمول کیا جاتا ہے ۔اندیشہ محسوس ہوتا ہے کہ اگربرائی کے جواب میں اچھائی کا رویہ اختیار کیا گیا تو دوسرا اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا ۔چوتھا سبب یہ ہے برائی کے باعث ہمارے وقار کو دھچکا لگتا اور ہماری حیثیت عرفی مجروح ہوتی ہے ۔ وقار کے معاملے میں ہماری دفاعی حس زیادہ فعال ہو جاتی ہے ۔یہ اور اس طرح کے بہت سے اسباب ہیں جن کے تحت ہم برائی کے جواب میں برائی کا رویہ اختیار کرتے اور اپنے اس عمل پر اپنے ضمیر کی خلش کو دور کرنے کے لیے اسی نوع کے استدلال کا سہارا لیتے ہیں ۔
برائی کے بدلے میں نیکی کا آغاز عفو و درگزر سے ہوتا ہے اور آدمی پھر آگے بڑھ کر اچھے سلوک کا اظہار کرتا ہے ۔ اس رویے کو اختیار کرنے کے لیے اپنے اندر ایک وصف پیدا کرنا ضروری ہے اور وہ ضبط نفس اور نیکی پر استقلال کا وصف ہے ۔اسی وصف کو قرآنِ مجید کی اس آیت میں ’صبر‘کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے ۔صبر ایک مثبت رویے کا نام ہے جس میں آدمی اپنے جذبات کو قابومیں رکھتا اور اپنے آپ کو منفی اقدام سے روک لیتا ہے ۔اس منزل کو طے کر لینے کے بعدہی آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ برائی کے جواب میں نیکی کر ے اور قرآن مجید کے الفاظ ’ذوحظ عظیم‘ کا مستحق قرار پائے ۔
ہمارا معاشرہ ، خاندان ، محلے، اور ملک کی سطح پر انتشار اور خلفشار کا شکار ہے ۔ اس خلفشار کے بہت سے اسباب میں سے ایک معاشرے کے افراد کی بڑی اکثریت کا صبر کی مذکورہ خوبی سے محروم ہونا ہے ۔معاملہ گھروں کے جھگڑوں کا ہو یا مذہبی یا سیاسی اختلافات کا ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کے لیے آمادہ نظر آتا ہے ۔دراں حالیکہ قرآن مجیدنے واضح کر دیا ہے کہ اتحاد ، اتفاق اور دوستی کا راستہ برائی کے جواب میں نیکی ہے ۔
طالب محسن
_______
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، وہ تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور (اس نے) اس بات کی گواہی دی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں ، وہ اس کی بندی کے بیٹے ہیں، وہ اللہ کا وہ کلمہ ہیں جسے اس نے مریم (علیھا السلام) کی طرف القا فرمایا اور وہ اس کی روح ہیں ۔ اور (وہ یہ بھی مانتا ہے کہ) جنت اور دوزخ حق ہیں (یعنی موجود ہیں) تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو (جو ان عقائد کا حامل ہو گا)جنت میں داخل کریں گے، اس کا عمل جو کچھ بھی رہا ہو ۔‘‘ (مشکوٰۃ، رقم ۲۷)
اس حدیث میں بحیثیت مجموعی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بندے سے اصل مطلوب چیز اس کا رویہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھا ، وہ خدا کابندہ بن کر جینے کے عہد کے ساتھ زندہ رہا اور زندگی کے آخری سانس تک اس نے بندگی کے حدود سے تجاوز نہ کیا۔
دنیا کی آزمایش دراصل انسان کی فکر اور اس کے علم اور رویے کا امتحان ہے ۔ اس میں اس کی آزمایش دو پہلووں سے ہوتی ہے :
۱۔ اس نے صحیح بات جاننے کے لیے کتنی اور کس درجے میں کوشش کی اور دنیا میں جو وسائل اسے میسر تھے ، ان میں سے اس نے اس مقصد کے لیے کیا کچھ صرف کیا اور کیا کچھ داؤ پر لگایا ۔
۲۔ حق جان لینے کے بعد اسے ماننے اور قبول کر لینے کے بارے میں اس کا رویہ کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ موروثی عقائد ، گروہی تعصبات اور مسلکی اعتقادات قبول حق کے راستے کی رکاوٹ بن گئے ہوں ۔
دنیا میں آدمی جب زندگی کی تگ و دو کے لیے باہر نکلتا ہے تو ا س کا جسم اور کپڑے دونوں آلودہ ہوتے ہیں ۔ دن بھر کی مشقت اور جدوجہد کے بعد وہ جب واپس گھر آتا ہے تو سب سے پہلے اپنے جسم اور کپڑوں کی آلودگی کو دور کرنے کے لیے فکرمند ہوتا ہے ۔ اعمال کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ زندگی کی سرگرمیوں میں بندے سے کوئی گناہ سرزد ہی نہ ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے تمام تر اخلاص، خشیت اور تقویٰ کے باوجود اس سے گناہ صادر ہو جاتے ہیں ۔ یہ گناہ روح کی غلاظت ہیں۔جسم اور کپڑوں کی آلودگی کی طرح گناہوں کے بارے میں سچے مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا دامن دل اگر گناہوں سے آلودہ ہو گیا ہے تو جتنی جلدی ممکن ہو ، وہ اسے توبہ کے پانی سے دھو ڈالے ۔ غلطیوں کا شعور او رگناہوں کی ندامت اسے اعتراف جرم کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مغفرت طلب کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو توبہ گناہوں کا غسل ہے ۔ دین گناہوں سے دل کی طہارت اور خطاؤں سے روح کی پاکیزگی کا نام ہے ۔یہی پاکیزگی اسے آخرت میں خدا کی جنت کا حق دار بناتی ہے ۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کوئی مجموعۂ احکام نہیں ہے ، بلکہ یہ انسانوں کو پاکیزہ بنانے کی دعوت ہے ۔ شریعت کے احکام خیالات ، علم اور عمل ہی کی پاکیزگی کے لیے دیے گئے ہیں ۔ ایسی پاکیزگی کی ضرورت اس لیے ہے کہ خدا کی جنت پاکیزہ لوگوں کا ٹھکانا ہے ۔ لہٰذا اس کی جنت میں آبادہونے کے لیے پاکیزگی شرط ہے اور یہ دنیا ایسے ہی پاکیزہ لوگوں کے انتخاب کے لیے بنائی گئی ہے ۔
بندہ اگر یہ حقیقت سمجھ لے تو پھر اس کا اللہ ہی کو الہٰ ماننا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا بندہ اور رسول تسلیم کرنا ایک حسی واقعہ بن جاتا ہے پھر اس کے قول و فعل ہر وقت او رہر جگہ پر خدا کی الوہیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر وہ خدا کو ہر جگہ اور ہر وقت موجود پاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع اس کا شب و روز کا وظیفہ بن جاتی ہے ۔
حدیث کے آخر میں ’ علی ما کان من العمل‘ (اس کا جو کچھ عمل بھی رہا ہو ) کے الفاظ آئے ہیں ۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ حدیث میں عقائد و ایمانیات کے اقرار کے بعد اسے ہر برا بھلا کام کرنے کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور یہ کہ محض اقرار کے بعد اس سے اعمال کی پرسش نہیں ہو گی ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اوپر بیان ہوا اسے اختیار کر لینے کے بعد ایسا شخص خدا اور آخرت کے بارے میں یقین اور اعتماد کے اس درجے میں ہوتا ہے کہ وہ حتی الوسع نافرمانی سے بچنے کی کوشش میں رہتا ہے اور انسان ہونے کے ناتے جو گناہ اس سے سرزد ہو جاتے ہیں ، وہ ان کے فوراً بعد توبہ واستغفار کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ یہ جملہ خدا کے اپنے بندے پر اعتماد کا اظہار ہے ۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسے مخلص شخص سے بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہو جائے ، مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ گناہ کے باوجود خدا سے بے پروا اور آخرت سے نچنت ہو کر زندہ رہے ۔ وہ لازماً توبہ کر کے گناہوں سے پاک ہو گا۔
اس حدیث کے آخری حصے میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیھاالسلام کے بارے میں کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں وہاں ارشاد فرمائیں جہاں کچھ عیسائی بھی موجود تھے اور انھیں بھی دین کی دعوت دینا پیش نظر تھا۔
اس حدیث سے یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیر مسلم کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سابقہ مذہب کے مخصوص باطل عقائد سے برأت کا اظہار کرے ۔
اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب کی رعایت اور موقع محل کے اعتبار سے اپنی بات بیان کرتے تھے ۔
محمد اسلم نجمی
_______
دنیا میں آدمی کو اپنے کام پر ستایش اور پزیرائی ملتی ہے ۔لیکن اس کے پیچھے مسلسل محنت ، استقامت اور اپنی جگہ بنانے کی محنت کی تاریخ ہوتی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بڑے کامیاب ڈاکٹر ہیں ۔ زمانہ ان کی لیاقت اور صلاحیت کا معترف ہے ۔ کچھ لوگ غیر معمولی انجینئر ہیں ۔ جہاں کوئی بڑی فنی مشکل یا غیر معمولی منصوبہ بندی پیش نظر ہو لوگ ان سے رجوع کرتے ہیں۔بعض غیر معمولی صنعت کار ہیں ۔ انھوں نے بہت بڑی صنعتی ایمپائر کھڑی کر دی ہے ۔ چند عظیم فن کار ہیں ۔ لوگ ان کے فن کے دل دادہ ہیں اور فن کی دنیا میں ان کی بہت مانگ ہے ۔
لیکن کیا یہ محض ان اصحاب کی لیاقت ہے ، جس کا نتیجہ انھیں حاصل ہو گیا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہونہار طالب علم اپنی تعلیم کے آخری سال میں کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے اور موت اسے اس دنیا سے لے جاتی ہے ۔ اسی طرح دوسرے شعبوں کا حال ہے ۔ کچھ لوگ غیر معمولی نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن وقت انھیں مساعی دکھانے کی مہلت نہیں دیتا ۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی صلاحیتوں کو بیان کرتے ہیں ، کوئی بڑا کاروباری بن سکتا ہے ، لیکن اسے سرمایہ دستیاب نہیں ۔ کسی میں پڑھنے کی بڑی صلاحیت ہے ، لیکن اس کے والدین اسے تعلیم نہیں دلا سکتے ۔
غرض یہ کہ یہاں کامیابی اور ناکامی سرتاسر ذاتی لیاقت پر مبنی نہیں ۔ اس کے لیے موافقت کرنے والے حالات درکار ہیں اور یہ حالات صرف قدرت مہیا کرتی ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہماری سعی کا ہونا ضروری ہے ۔ لیکن کوئی سعی کتنی کامیاب ہوگی اور کتنے نتائج پیدا کرے گی ، اس کا اصل انحصار پرور دگار کائنات کی حکمت و مصلحت پر ہے ۔
اس دنیا میں حسن کارکردگی کامعاملہ یہی ہے ۔ لیکن اس دنیا میں حسن کارکردگی کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ وہاں کے لیے اٹھایا گیا ایک قدم ، وہاں کے لیے خرچ کی گئی ایک دمڑی اور وہاں کے لیے بولا گیا ایک لفظ اپنی پوری پوری قیمت پائے گا۔ حالات نا مساعد تھے ، قیمت بڑھ جائے گی ۔ جدوجہد جاں گسل تھی ، اجر میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا ۔ وہاں ستایش اور پزیرائی نہ ملنے کا کوئی امکان نہیں ۔
طالب محسن
_______
سورۂ بقرہ کی ابتداہی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ایمان لانے کا بیان ان الفاظ پر ختم ہوا ہے: ’اولئک علی ہدی من ربھم و اولئک ہم المفلحون‘(یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پائیں گے)۔
اس آیت میں سب سے بڑی بات جس پر غور کرنا چاہیے وہ ’ہدی من ربھم‘کے الفاظ میں ہے، یعنی رب کی ہدایت۔ سب الہامی مذاہب کی تاریخ اس اعتبار سے یکساں ہے کہ وہ ’’اپنے رب کی ہدایت‘‘سے شروع ہوتے رہے اور پھر اپنے ماننے والوں کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے فتووں کی نذر ہو کر ’’اپنے رب کی ہدایت‘‘ ہونے کے اعزاز سے محروم ہو جاتے رہے ہیں۔ یہودیت پر ہم سے پہلے قرآن کا یہی تبصرہ ہے:’...یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون : ہذا من عند اللّٰہ ‘... فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھتے اور پھر کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔(البقرہ ۲: ۷۹)
ہماری امت نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ چنانچہ آج ساری امت اپنی اپنی لکھی اور اکٹھی کی ہوئی باتوں میں مگن ہے ۔ اور اپنے ہاتھوں سے کیے ہوئے اس کام کو اللہ کا دین سمجھتے ہیں۔ اگر قرآن آج نازل ہوتا تو شاید اس کا ہم پر بھی تبصرہ یہی ہوتا کہ ... یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون : ہذا من عند اللّٰہ ... فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھتے اور پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
اس ’’اپنے لکھے ہوئے دین ‘‘سے محبت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اصلاح امت کے لیے قرآن اور سنت ثابتہ پر مبنی کوئی بات بلند ہوتی ہے تو وہ صرف اس وجہ سے رد کردی جاتی ہے کہ یہ ان کے مسلک (ہاتھ سے لکھے ہوئے دین )کے خلاف ہے، حالانکہ وہ ’ہدی من ربہم‘ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم اپنی اس روش کی وجہ سے ’اولئک علی ہدی من ربہم‘کے اعزاز سے محرو م ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ صحابہ نے یہ اعزاز حاصل ہی اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ سب گروہی ، نسلی اور مذہبی تعصب سے بلند ہو کر اس دین پر ایمان لائے تھے جو محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ۔انھوں نے متعصب لوگوں کے برعکس یہ نہیں کہا کہ ہم نے اپنے آباواجداد کو جس دین پر پایا ہے ،بس اسی کو تسلیم کریں گے۔ صحابہ نے جس حق کو خدا کا دین سمجھا ، اسے قبول کرلیا۔
صحابہ اسی وجہ سے اس اعزاز کے مستحق ٹھیرے کہ ’’وہ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں ‘‘ ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اس عمل کی روشنی میں اگر ہم نے بھی یہ اعزاز حاصل کرنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ قرآن اور سنتِ ثابتہ کی طرف ہر تعصب کو بھول کر صرف اس وجہ سے لوٹ جائیں کہ یہ ’’ہمارے رب کی ہدایت ‘‘ہے۔ دیکھے اسی رویے کے ساتھ آخرت کی کامیابی کی نوید بھی ہے کہ ’واولئک ہم المفلحون‘ ’’اور یہی فلاح پائیں گے۔‘‘اس کے برعکس اس وقت کے یہود نے اپنے گروہی اور نسلی تعصب کی وجہ سے جب ’’رب کی اس ہدایت‘‘ کو جھٹلادیا توان کے مقابلے میں صحابہ کی یہ شان بیان کی گئی اور ظاہر ہے کہ یہود کے خلاف یہ بات آپ سے آپ ثابت ہو گئی کہ وہ نہ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور نہ فلاح پائیں گے۔
اب ہمارے سامنے قرآنِ مجید کے اس مقام کے حوالے سے دو مثالیں ہیں ۔ایک صحابہ کی جو صرف اس لیے جیتے ہیں کہ اپنے رب کی ہدایت پر رہیں اور دوسرے یہود ہیں جو تعصب کی وجہ سے اپنے فقہا اور صوفیوں کو نہیں چھوڑتے ،مگر خدا کی ہدایت کا انکار کردیتے ہیں۔ ہمیں اپنے طرز عمل کو انھی پر پرکھ کر دیکھنا چاہیے کہ آیا ہم صحابہ کی طرح ہیں یا اس زمانے کے یہود کی طرح ؟
ساجد حمید
_______
عام طور پر تکبر بھی فطرت انسانی کو لاحق بیماریوں میں سے ایک بیماری تصور کی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ساری خباثتوں میں سے ایک خباثت نہیں ، بلکہ ام الخبائث ہے ۔ اس مرض میں مبتلا ہو جانے کے بعد انسان، انسان نہیں رہتا۔ یہی وہ لعنت ہے جو خون کے ایک لوتھڑے سے بنے ہوئے اس بے بس انسان کو اپنے رب کے مقابلے میں لا کھڑا کرتی ہے ۔ آدم کے آگے سجدہ کرنے سے ابلیس کے انکار کی وجہ اس کے تکبر کے سوا کچھ نہ تھی اور یہی لعنت تھی ، جو اسے اللہ کے مقابلے میں لے آئی اور یہی تکبر تھا جس کی وجہ سے فرعون رہتی دنیا تک کے لیے نمونۂ عبرت بن گیا۔
تکبر کی بیماری جتنی زیادہ تباہیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ، اس قدر انسان کو اس کے لگ جانے کا احتمال بھی ہمہ وقت موجود رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار اس سے بچنے کی تلقین کر کے انسان کو اس کی اصل حیثیت بتاتا رہتا ہے ۔ انسان کو اس بیماری کے لگ جانے کے زیادہ سے زیادہ امکان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خودی (انا) اور تکبر کے بیچ ایک انتہائی باریک پردہ حائل ہے اور بسا اوقات خودداری کے تکبر میں بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ بہرحال یہ مرض جس بھی راستے سے داخل ہو ،وہ انسان کو حیوان بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جو عقل پہ پردہ ڈال دیتا ہے او رجو آنکھ ، کان رکھنے والے انسان کو اندھا اور بہرہ بنا دیتا ہے ۔ ابوجہل کی مثال لے لیجیے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہستی سامنے ہے ، لیکن اس کے تکبر نے اس کی عقل پر پردہ ڈالے رکھا ۔ وہ مجسم حق کو دیکھ سکا نہ اس کے کانوں کو حق سننے کی توفیق نصیب ہوئی ۔ اس کے برعکس ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم نے اس بیماری کو اپنے قریب نہ آنے دیا تو دنیا و آخرت میں عزت و تکریم کی علامت قرار پائے ۔ آپ تاریخ کے اوراق کی جتنی بھی گردان کریں گے ، وہ تکبر کے بارے میں انھی حقائق کی یاد دلاتی رہے گی ۔
تکبر کی کئی اقسام ہیں ۔ عام طو رپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صرف طاقت و اختیار کی بنیاد پہ تکبر کیا جاتا ہے ،لیکن یہ تکبر کی صرف ایک قسم ہے ۔ یہ جو دعوے ہو رہے ہیں کہ میں یہ کر دوں گا اور ایسا نہیں کرنے دوں گا ۔ یہ سب اسی نوع کے تکبر کے مظاہر ہیں ۔ لیکن تکبر کی اور بھی بہت ساری قسمیں ہیں ۔ تکبر کے مرض میں وہ لوگ بھی مبتلا ہیں جنھیں طاقت و اقتدار حاصل نہیں۔ مثلاً بعض لوگ عوامی مقبولیت کے تکبر میں مبتلا ہیں ۔ بعض لوگوں کو اللہ نے لکھنے پڑھنے کی اچھی صلاحیت دے رکھی ہوتی ہے تو وہ اس پر تکبر کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ہمارے بعض شاعر اور ادیب حضرات کو خصوصاً تکبر کا یہ عارضہ لاحق ہے ۔ بعض لوگ اپنی ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر تو بعض تعلقات کی کثرت کی وجہ سے تکبر کے مرض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بعض لوگوں میں یہ بیماری ان کے خاندان یا ذات کی وجہ سے سرائیت کر جاتی ہے ۔ تکبر کی اسی طرح کی اور بھی سیکڑوں بنیادیں بیان کی جا سکتی ہیں ، لیکن اس کی ایک انتہائی بھیانک شکل مذہبی اور علمی تکبر ہے ۔ یہ جو روش چل نکلی ہے کہ دین کی صرف وہی تعبیر و تشریح درست ہے جس کو میں بیان کر رہا ہوں ۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ میں یا میری جماعت ہی مسلمان ہے اور دوسروں کو حقارت کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ جو اپنی کسی دینی یا سیاسی رائے سے اختلاف کرنے والوں کے ایمانوں کو مشکوک قرار دیا جا رہاہے ۔ یہ جو اپنی رائے کی غلطی کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور اپنی پالیسیوں پہ نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے ۔ یہ سب اسی علمی اور مذہبی تکبر کے مظاہر ہیں ۔ بہرحال تکبر جیسا بھی ہو اور جس بھی شکل میں ہو ، انسان کے روحانی اور اخلاقی وجود کے لیے زہر قاتل ہے ۔ اس کا محرک قوت و اختیار ہو ، ذہنی و جسمانی صلاحیت ہو، خاندانی پس منظر ہو ، شکل و صورت ہو ، تعلقات کی کثرت ہو ، عوام میں مقبولیت ہو ۔ دین کا علم و فہم ہو یا کچھ اور ، ہر صور ت میں یہ انسان کو اپنے رب کے مقابلے میں لاکھڑا کر دیتا ہے اور اس سے ہر وقت اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے ۔ اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کے آگے اپنے عجز کا ادراک اور اعتراف کر لے ۔ یہ نماز، یہ روزے ، یہ حج ، یہ عبادات سب اس عجز کی یاددہانی کے لیے ہیں ۔ انسان ایک لمحے کے لیے رحم مادر اور قبر کو خیال میں لے آئے تو وہ ’’میں میں ہوں‘‘ کی بجائے پکار اٹھے گا کہ ’’میں اللہ کا عاجز بندہ ہوں اور بس۔‘‘ لیکن مصیبت یہ ہے اور یہ واقعی ایک بڑی مصیبت ہے کہ تکبر کی بیماری سب سے پہلا وار دماغ و عقل پر کرتی ہے ۔ یہ انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہے اور جس طرح دیوانے کو اپنے دیوانہ ہونے کا نہ احساس ہوتا ہے اور نہ کبھی وہ اس کا اقرار کرتا ہے ۔ بعینہٖ تکبر کے مرض میں مبتلا لوگ اپنے آپ کو متکبر سمجھتے ہیں ۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ وہ تکبر کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ یہ وہ مرض ہے جو بڑھتا جاتا ہے ، لیکن مریض کو اپنی علالت کا احساس ہوتا ہے ، نہ وہ اس کے اثرات کو محسوس کر سکتا ہے ۔ ہاں ، البتہ ایک چیز ایسی ہے جو مریض کو اس مرض کا احساس دلا بھی سکتی اور اس کا علاج بھی کرا سکتی ہے ۔ وہ ہے اللہ کی پاک کتاب قرآن مجید۔ اس سے رجوع کر کے ہر شخص اس بیماری سے نجات پا سکتا ہے ۔
سلیم صافی
_______
کیا آپ نے کبھی شیشم کے درخت سے سے فروٹ حاصل کرنے کی مشق دیکھی ہے ؟ کیا آپ کو کبھی لق و دق اور بے آب و گیاہ صحرا میں چاول کاشت کرنے اور ان سے اعلیٰ قسم کے چاول حاصل کرنے کی کوشش میں مگن لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے؟ یا کیاآپ کو کسی ایسے شخص سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جو بھینس کے بطن سے بکرے کی پیدایش کا منتظر ہو؟ اگر آپ نے ابھی تک شیشم کے درخت سے فروٹ حاصل کرنے کی مشق نہیں دیکھی ، اگر آپ کو بے آب و گیاہ صحرا میں چاول کی کاشت کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ یا اگر آپ ابھی تک بھینس کے بطن سے بکرے کی پیدایش کے منتظر شخص سے نہیں ملے تو پھر آپ کو اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں کی صلاحیت پر شک کر لینا چاہیے ۔ یہ شیشم کے درخت سے فروٹ حاصل کرنے ، یہ بے آب و گیاہ صحرا میں چاول کاشت کرنے ، اور یہ بھینس کے بطن سے بکرا پیدا کرنے کی مشق اس ملک میں چاروں طرف گزشتہ ایک عرصے سے جاری ہے ۔ ٹیلی وژن پر اس مشق کا چرچا ہے ۔ اخبارات اس سے بھرے پڑے ہیں ۔ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں اس کا تذکرہ ہے اور اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ہمارے حکمران روز و شب انھی کے بارے میں غوروخوض کررہے ہیں ۔ یہ احتساب ، ممبران پارلیمنٹ کے لیے گریجویشن کی شرط ، یہ خواتین کے لیے سیاسی مناصب میں تیس اور پچاس فی صد کوٹہ ، یہ سب کچھ او رکیا ہے ؟ کیا یہ شیشم کے درخت سے فروٹ حاصل کرنے کی مشق نہیں؟ وہ ملک جس میں دولت، گاڑی او ربنگلہ ہی عزت و تکریم کا معیار ہو ، وہ ملک جس میں میڈیا پر روز وشب نفس پرستی اور دولت پرستی کی تلقین جاری ہو،وہ ملک جس کا نظام تعلیم انسان کو خدا پرست کی بجائے مادہ پرست بنا رہا ہو، وہ ملک جس کے چپڑاسی سے لے کر استاد تک ہر طبقے کی اکثریت کرپٹ ہو،وہ ملک جس کے حاکم جج اور منصف بن کر خود احتساب اور حساب کتاب سے مبرا ٹھیرے ہوں ، اس ملک میں اگر آپ چند سولوگوں کو گرفتار کر کے نیب آرڈیننس جیسے قوانین کے ذریعے سے احتساب کرنا چاہتے ہیں تو کیا یہ شیشم کے درخت سے فروٹ حاصل کی مشق نہیں؟ کیا یہ لق و دق صحرا میں چاول کاشت کرنے کی سوچ نہیں اور کیا یہ بھینس کے بطن سے بکرے کی پیدایش کا خواب نہیں؟
قوم ان پڑھ اور جاہل ہے ۔ کروڑوں بچوں کو پرائمری تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے ۔ شرح خواندگی چودہ فی صد ہے ۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو انڈر میٹرک ہیں یا صرف دستخط کرنا جانتے ہیں ۔ گریجویٹ تو کیا میٹرک پاس لوگوں کی تعداد بھی چند فی صد ہے ۔ وہ المیہ اپنی جگہ کہ ایم اے پاس لوگ بھی اتنے نالائق ہیں کہ میٹرک پاس نہیں لگتے ۔ تعلیم کا بجٹ ، جی ڈی پی کا دس بیس فی صد تو کیا ، تین فی صد بھی نہیں ۔ عالم یہ ہے اور ادھر یہ حضرات ملک کو تعلیم یافتہ قیادت دینے میں مگن ہیں ۔ ممبر پارلیمنٹ کے لیے شرط لگائی تو وہ بھی مڈل یا میٹرک نہیں ، بلکہ بی اے یعنی چودہ جماعتیں پاس ۔ اب آپ ہی بتائیے کیا یہ شیشم کے درخت سے فروٹ حاصل کرنے کی مشق نہیں؟ کیا یہ لق و دق صحرا میں چاول کاشت کرنے کی کوشش نہیں ؟ اور کیا یہ بھینس کے بطن سے بکرے کی پیدایش کا انتظار نہیں ؟
آج کا اخبار میرے سامنے ہے ۔ اخبار ایک ہے ، لیکن ایک موضوع سے متعلق اس میں بہت ساری خبریں ہیں ۔ ایک خبر کی سرخی ہے : ’’سیاسی جماعتیں زیادہ ٹکٹ خواتین امیدواروں کودیں ۔ اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی پچاس فی صد ہونی چاہیے۔‘‘ ایک اور سرخی ہے : ’’خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے مساوی مواقع دیں گے ۔‘‘ ایک سیاسی لیڈر کے بیان کی سرخی جمی ہے: ’’خواتین سے امتیازی سلوک ختم کر کے برابر کے حقوق دیے جائیں ۔‘‘ اب ایک اور رخ ملاحظہ کر لیجیے : ’’غیرت کے نام پر ہلاکت قتل قرار دے دی گئی ۔ تمام ناخواندہ کونسلرز کو ۲۰۰۳ء تک خواندہ بنا دیا جائے گا ۔ کاروکاری کے نام پر قتل کو بھی قتل کیس تصور کیا جائے گا ۔ پہلی خواتین پالیسی کا اعلان ۔ ‘‘ یہ سب سرخیاں بتا رہی ہیں کہ پارلیمنٹ میں خواتین کو پچاس فی صد نمائندگی دینے کی باتیں اس ملک میں ہو رہی ہیں اور ان کو ہر شعبۂ زندگی میں مردوں کے برابر حصہ دینے کا خواب اس ملک میں دیکھا جا رہا ہے ، جہاں غیرت کے نام پر قتل ہو رہے ہیں ۔ جہاں کاروکاری ایک روایت کے طور پر موجود ہے ۔ جہاں کی منتخب کونسلرز بھی ناخواندہ ہیں ۔ جہاں کے بیشتر علاقوں میں خواتین کو تعلیم دینے کا کوئی رواج نہیں ہے ۔ جہاں خواتین کا مرد کے بغیر گھر سے نکلنا جرم ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔ جہاں بھیڑ بکری سمجھ کر شادی جیسے اہم فیصلے میں اس کی مرضی کا نہ صرف یہ کہ خیال نہیں رکھا جاتا ، بلکہ ’’سورہ‘‘ کی صورت میں اسے دشمنوں کے تصفیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ایسے عالم میں خواتین کو پارلیمنٹ میں پچاس فی صد نمائندگی کے خواب دیکھنا کیا شیشم کے درخت سے فروٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں ؟ کیا یہ لق و دق صحرا میں چاول کاشت کرنے کی مشق نہیں ؟ اور کیا یہ بھینس کے بطن سے بکرے کی پیدایش کا انتظار نہیں ؟
کاش ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں آ جائے کہ خواتین کو پہلے زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کے قابل بنایا جائے اور پھر فطری انداز میں ان کو آگے آنے کے آزادانہ مواقع دیے جائیں ۔ کاش انھیں کوئی سمجھا سکے کہ بی ۔اے کی شرط لگا کر منظور نظر لوگوں کو آگے لانے سے کام نہیں چلے گا؟ قیادت کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ قوم کو تعلیم یافتہ بنا دیا جائے ۔ قوم تعلیم یافتہ بنے گی تو خود بخود قیادت بھی تعلیم یافتہ سامنے آ جائے گی ۔
سلیم صافی
_______
بعض لوگوں میں یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ ہمارے نیک اعمال کی بنیاد اللہ سے ملاقات کا جذبہ ہونا چاہیے۔ رویت باری تعالیٰ ہی ہمارا منشا ے اصلی ہوناچاہیے ۔ اعمال کے صلے میں جو جنت اور اس کی نعمتیں ملیں گی، اگر ان کو اپنا مقصود بنا لیا جائے تو یہ حجاب بن جاتی ہیں اور اعمال میں اخلاص باقی نہیں رہتا ، بلکہ اس کی جگہ غرض آجاتی ہے ۔ لہٰذا اصلاً ان نعمتوں کی تمنا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ محبوب حقیقی کا وصل ہی ہمارے اعمال کا جذبۂ محرکہ ہونا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسانی عمل (Practical Life) میں کیا ہوتا ہے؟ کیا ان لوگوں کا یہ خیال محض خیال ہی ہے یا فی الواقع اسے بروئے کار لانا ممکن ہے؟
جب کوئی بندہ ایمان لاتا ہے تو اسے حرام اشیا ترک کرنا پڑتی ہیں اور صرف حلال ذرائع ہی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔ اسے اپنے گردو پیش میں گونا گوں مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کئی رنج اور تکلیفیں برادشت کرنا پڑتی ہیں۔ ایسے میں اللہ سے تعلق اس کا سہارا بنتا ہے ۔دنیا کی محرومیوں کے مقابلے میں جنت کی ابدی نعمتیں ملنے کی امید اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ایک مادی وجود اپنی بقا کے لیے کھانے پینے ، سانس لینے اور بدن کو راحت پہنچانے کا محتاج ہوتاہے ۔ وہ ان بندھنوں سے آزاد نہیں ہو سکتا۔یہ لوگ ان مادی ضرورتوں کو کم کر کے ان سے آزاد ہونے کا تصور ضرور دیتے ہیں ، لیکن عملی طورپر ایسا ہونہیں پاتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنے پیروکاروں کو جنت کی نعمتوں کی ترغیب دیتے آئے ہیں اور راہ حق کے مصائب کے مقابلے میں فردوس کی راحتوں کو پانے کی آرزو پیدا کرتے آئے ہیں۔ قرآن مجید ان نعمتوں کے بیان سے پر ہے۔ اس لیے یہ نظریہ کہ علائق مادیہ سے اٹھ کر محض رویت باری تعالیٰ کو اپنا مقصود بنایا جائے، بشری سطح پر ناقابل عمل نظر آتا ہے۔ سب سے بڑا مقصود ، البتہ یہی ہونا چاہیے کہ اللہ کی خوش نودی حاصل کی جائے اور اس کی ناراضی سے بچا جائے ۔لیکن چونکہ اللہ نے خود ان نعمتوں کی طمع دلائی ہے، اس لیے ہم ان کے حصول کی خواہش ترک نہیں کر سکتے۔
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایسے کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے جو ہمیں جنت میں لے جائیں۔ ایمان اور عمل صالح ہی جنت کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اس جنت کو پانے کی دعا کرنا اور اس کی خواہش رکھنا جائز ہی نہیں ، بلکہ محمود بھی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جو اللہ سے تین بار جنت مانگتا ہے، جنت کہتی ہے،اے رب اس آدمی کو جنت میں بھیج دیجیے اور جو شخص دوزخ سے تین بار پناہ مانگتا ہے، دوزخ کہتی ہے، اسے دوزخ سے پناہ دیجیے ۔‘‘ (ترمذی ، رقم ۲۵۷۲)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جنت مشکلات سے گھیر دی گئی ہے اور دوزخ خواہشات و لذات سے گھری ہوئی ہے‘‘۔ (مسلم ، رقم ۷۱۳۰)
مشکلات کا مطلب نفس پر قابو پانا اور اسے ہمت والے کاموں پر آمادہ کرنا ہے ، جبکہ خواہشات کے پیچھے بے سوچے سمجھے چل پڑنا،دوزخ تک پہنچادیتا ہے۔
اگرجنت کے حصول کی خواہش پسندیدہ نہ ہوتی تو اس کو مشکلات سے گھیر کر رکھنا اور ایمان و اعمال صالحہ کی شرط سے مقید کرنا ضروری نہ تھا۔بنی آدم کو دوزخ سے بچنے کا ٹارگٹ دیا گیا اور اس کا طریقہ یہ بتایا گیا کہ تکمیل خواہشات میں من مانی نہ کرو اور سوچ سمجھ کر اپنی لذات و خواہشات کو حاصل کرو ، کیونکہ اگر انسان خواہشات کو پورا کرنا اور اپنی مرضی کرنے ہی کو اپنا وطیرہ بنا لے تو اس کے دوزخ میں جانے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا:
’’اہل جنت تین قسم کے ہوں گے۔ پہلا وہ صاحب اقتدار جو انصاف کرتا ہو ، صدقہ و خیرات کرتا ہو اور جسے بھلائی کے کاموں کی توفیق ہو ،دوسرا رحم دل رشتہ دار اورہر مسلمان کے لیے رقت قلب رکھنے والا شخص اور تیسرا بچ بچا کر چلنے والا اور گناہوں سے گریزاں عیال دار آدمی۔ ‘‘ (مسلم ، رقم ۷۲۰۷)
ہمارا مقصود و مطلوب ہرحال میں خدا کی رضا ہی ہونی چاہیے۔ رضا کی بات حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے جو مسلم میں بیان ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ اہل جنت کو مخاطب کرے گا۔اے جنت کے باسیو ۔ وہ کہیں گے لبیک اور خوش آمدید ، سب بھلائی آپ کی قدرت ہی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیاتم راضی ہو؟ اہل جنت جواب دیں گے: اے رب ، ہمارے راضی نہ ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں رہی۔ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کر دیاہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کونہ دیا۔ اللہ فرمائے گا ،کیا تمھیں اس سے بہتر عطا نہ کروں؟ وہ پوچھیں گے، اے رب ان سے بہتر کیا شے ہے؟ اللہ فرمائے گا، میں تم پر اپنی رضا نازل کرتا ہوں پھر اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔ ‘‘ (مسلم ، رقم ۷۱۴۰)
گویااللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور اس کی رضا پا لینا ہی اعلیٰ ترین مقصد ہو گا جو جنتی حاصل کریں گے۔ ہم جنت کی نعمتوں کو اللہ کی رضا کا لازمی نتیجہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ جن سے ناراض ہوا جاتاہے ،انھیں دھتکاراجاتاہے عطا نہیں کیا جاتا اور جنھیں عطا کیا جاتا ہے ،یہ عطاان سے راضی ہونے کی بڑی علامت بن جاتی ہے۔یہ ارشاد نبوی قرآن مجید کے لفظ رضوان کا مصداق ہے جو جنت کی نعمتوں کے بیان کے ساتھ بالعموم آتاہے ، یعنی اہل جنت کو جنت کے ساتھ، اللہ کی رضوان یا خوشنودی بھی ملے گی۔سورۂ توبہ کی آیت ۷۲ میں فرمایا: ’’اللہ کی خوش نودی سب(نعمتوں) سے بڑھ کرہے۔‘‘
اہل ایمان کا بھی یہ وصف بیان ہو اہے کہ وہ اللہ کی رضوان کی طلب رکھتے ہیں۔ سورۂ فتح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علہیم کے بارے میں ارشاد ہوا :
’’اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ، وہ کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں ۔ تم ان کو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع و سجود میں سرگرم پاؤ گے ۔‘‘ (۲۲: ۲۹)
ان میں سے مہاجرین کا ذکرکرتے ہوئے یہ وصف بیان ہوا :
’’وہ اللہ کافضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔‘‘ (الحشر ۵۹: ۸)
یہ خوشنودی یا ’’رضوان‘‘ اللہ اور اس کے پیغمبر کے بتائے ہوئے طریق کار (Methodology) ہی کو اختیار کرکے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ خود اپنے پاس سے نیا طریق یا سلوک وضع کر لینا یا وحی کے علاوہ کسی دوسرے ذریعے (Source) کو معرفت کا رستہ سمجھ لینا گمراہی کا باعث بن جاتا ہے ۔یہ معاملہ نصاریٰ کا ہوا ۔ انھوں نے خوش نودی کا مطلب دنیا سے کٹ کر ہمہ وقت دھیان اورگیان میں مشغول رہنا سمجھ لیا ۔ چنانچہ سورۂ حدید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اور رہبانیت انھوں (حضرت عیسی کے پیرو کاروں ) نے خود ایجاد کرلی ۔ ہم نے ان کے اوپر صرف اللہ کی خوش نودی کی طلب فرض کی تھی ، مگر انھوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔‘‘( حدید ۵۷: ۲۷)
ہمیں بھی کتاب و سنت کے بیان کردہ لائحہ عمل کو بعینہٖ اختیار کرناہے اور حق کی طلب میں بھی آگے بڑھ کر ازخود کوئی عمل اختیار نہیں کرنا۔یہی ہماری عافیت اورہمارے حسن انجام کا ضامن ہو سکتا ہے۔
محمد وسیم اختر مفتی
____________