[قارئین آگاہ ہوں گے کہ سورۂ فیل کی تفسیر میں امام حمید الدین فراہی کی رائے مفسرین کی عام رائے سے مختلف ہے ۔ مفسرین کا عام نقطۂ نظر یہ ہے کہ اصحاب فیل ابابیل کے کنکر گرانے سے نیست و نابود ہوئے تھے۔ اس کے برعکس امام فراہی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ قریش مکہ کی سنگ باری کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ساف و حاصب کے طوفان سے وقوع پزیر ہوا تھا۔ مولانا فراہی کی رائے کے بارے میں ’’اشراق‘‘ کے شعبۂ تحریر کے ایک رکن جناب ریحان احمد یوسفی نے خط کے ذریعے سے بعض اشکالات کا اظہار کیا ہے ۔ ان میں سے بیشتر اشکال وہی ہیں جنھیں ہندوستان کے ایک عالم مولانا شبیر احمد صاحب میرٹھی نے پیش کیا تھا اور جن کا جواب مولانا نسیم ظہیر صاحب اصلاحی نے تحریر کیا تھا۔ یہاں ہم افادۂ عام کے لیے یہ جواب شائع کر رہے ہیں ۔ ادارہ]
مولانا حمید الدین فراہی کے اجزاے تفاسیر میں تفسیر سورۂ فیل بھی ہے ۔ اس میں انھوں نے بڑے مدلل طور پر اس عام خیال کی تردید فرمائی ہے کہ ابرہہ کے لشکر کی بربادی سمندر کی جانب سے آئی ہوئی چڑیوں کی سنگ باری سے ہوئی تھی ، اور قریش اور دوسرے اہل مکہ، ابرہہ اور اس کے لشکر جرار کے خوف کی وجہ سے دامن کوہ میں بھاگ کر چھپ گئے تھے ۔ حضرت مولانا کی تحقیق کے مطابق قریش ، اہل مکہ اور اس وقت باہر سے زیارت کعبہ کے لیے آئے ہوئے حاجیوں نے ابرہہ کے لشکر کانہایت جم کر مقابلہ کیاتھا اور ان کی شدید سنگ باری اور خدا کی نصرت اورتائید سے ابرہہ کا پورا لشکر تتر بتر ہو گیا۔اس میں شدید بھگدڑ مچ گئی اور یہ یہاں گرا وہ وہاں گرا، یہ یہاں مرا وہ وہاں مرا کا عالم تھا۔
مولانا فراہی کی اس تحقیق سے جو بڑے غوروفکر کا نتیجہ اور قطعی دلائل و شواہد پر مبنی ہے ، بعض اہل علم کو اتفاق نہیں ہے ۔ انھی لوگوں میں مولانا شبیر احمد صاحب ازہر میرٹھی بھی ہیں ۔ موصوف نے ماہنامہ ’’جامعۃ الرشاد‘‘ اعظم گڑھ کے اکتوبر ، نومبر ۱۹۸۵ء کے شمارہ میں مولانا فراہی کے مذکورہ بالا خیالات پر بعض اعتراضات کیے ہیں۔ سطور ذیل میں انھی اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا ۔
مولانا شبیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’’طیر‘ سے مردار خور پرندے مراد سمجھنا محض بے دلیل بات ہے ۔ بعض شعراے عرب نے فخریہ اشعار میں یہ مضمون باندھا ہے کہ جنگ میں ہماری فتح مندی و ظفریابی یقینی ہے ۔ ہم جب اپنے بہادر شہ سواروں کو لے کر دشمن کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ہمارے ساتھ گدھوں کی ٹولی بھی فضا میں سرگرم پرواز ہو جایا کرتی ہے ، کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ہم دشمنوں کو قتل کر ڈالیں گے تو انھیں کھانے کے لیے لاشیں نصیب ہوں گی ۔ مولانا فراہی نے اس شاعرانہ مبالغہ آرائی کو حقیقت واقعہ سمجھ لیا کہ فی الواقع کسی کو کوچ کرتا ہوا دیکھ کر گدھ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ عرب و عجم میں ، ملک ملک میں ، لاکھوں جنگیں ہوئی ہیں ، فوج کشیاں کی گئی ہیں ، لیکن آج تک کسی چھوٹی بڑی فوج کو کوچ کرتی ہوئی دیکھ کر گدھ اس کے ساتھ نہیں ہوئے ۔‘‘
یہ اعتراض بہت مبہم ہے کہ ’طیر‘ سے مردار خور پرندے مراد سمجھنا محض بے دلیل بات ہے ۔ اس کا اگر مطلب یہ ہے کہ لفظ ’طیر‘ مردار خور پرندوں کے معنی میں آتا ہی نہیں ہے تو یہ بجائے خود بے دلیل ہے ۔ آخر اس سے مردار خور پرندے کیوں مراد نہیں ہو سکتے ؟ لفظ ’طیر‘ ’ طار،یطیر‘ کا مصدر ہے جس کے معنی ہوا میں دونوں بازو سے اڑنے کے ہیں ۔ پھر اسی سے منقول ہو کر پرندوں کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ عام اس سے کہ پرندہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ علاوہ ازیں قرآن مجید اور کلام عرب، دونوں میں یہ لفظ مردار خورپرندوں کے معنی میں صراحتہً استعمال ہوا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے:
وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِہٖ ۔ (یوسف ۱۲: ۴۱)
’’اور دوسرے کو سولی دی جائے گی اور اس کے سر کو پرندے کھائیں گے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ۔ (الحج ۲۲: ۳۱)
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں ۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں لفط ’طیر‘ مردار خور پرندوں کے معنی میں صراحۃً استعمال ہوا ہے ۔ کلام عرب میں بھی اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ، پھر آیت میں ’طیر‘ کی صفت ’ابابیل‘ آئی ہے جو گھوڑوں کی جماعت یا بڑی چڑیوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ زہیر ابن ابی سلمیٰ کا شعر ہے:
وبالفوارس من ورقاء قد علموا
فرسان صدق علی جرد ابابیل
’’اور ورقاء کے ان شہ سواروں کے ساتھ جو اصیل غول در غول گھوڑوں پر سوار تھے اور جن کی شجاعت مسلم تھی ۔‘‘
اعشیٰ کا شعر ہے:
طریق و جبار رواء اصولہ
علیہ ابابیل من الطیر تنعب
’’کھجوروں کے چھوٹے اور بڑے درخت جن کی جڑیں سیراب تھیں اور جن پر کووں کے غول چیخ رہے تھے ۔ ‘‘
ان تمام شواہد کی موجودگی میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ لفظ ’طیر‘ گدھ یا دوسرے مردار خور پرندوں کے معنی میں نہیں آیا ہے یا اس معنی میں آتا ہی نہیں ہے ۔ اگر مولانامحترم کا مطلب یہ ہے کہ یہاں سیاق و سباق کے اعتبار سے ’طیر‘ کو مردار خور پرندوں کے معنی میں لینا بے دلیل ہے تو اس کے جواب میں صرف یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ مولانا فراہی نے اس کے متعلق عقلی ونقلی دلائل و شواہد کا انبار لگا دیا ہے ۔ مولانا میرٹھی صاحب نے انھیں یکسر نظر انداز کر دیا ہے ، حالانکہ جب تک ان دلائل کی تردید نہ ہو ، مولانا کا اعتراض بے معنی ہو گا ۔ یہاں مولانا فراہی کے دلائل کا ذکر موجب طوالت ہو گا ، البتہ سورۂ فیل میں مذکورہ چڑیوں کے متعلق بعض روایتوں کے الفاظ نقل کیے جاتے ہیں جن سے مولانافراہی کے خیال کی تصدیق ہوتی ہے اور جن پر انھوں نے اعتماد کیا ہے اور جنھیں مولانا میرٹھی صاحب بغیر دلیل رد کر رہے ہیں ۔ ان چڑیوں کے بارے میں حضرت عکرمہ سے روایت ہے :
کانت طیرا خضرا خرجت من البحر لھارؤس کرؤس السباع ۔(تفسیر ابن جریر ۳۰/ ۲۹۸)
’’یہ چڑیاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں جو سمندر سے آئی تھیں اور ان کے سر درندوں کے سر کی طرح تھے ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
لھا خراطیم کخرا طیم الطیر واکف کاکف الکلاب۱ ۔(تفسیر ابن جریر ۳۰/ ۲۹۸)
’’ان کے چڑیوں کی طرح کے سونڈ اور کتے کے پنجوں کے مانند چنگل تھے ۔‘‘
حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے:
طیر خضر، لھا مناقیر صفر تختلف علیھم ۔ (تفسیر ابن جریر ۳۰/ ۲۹۸)
’’یہ چڑیاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں اور زرد گوں چونچوں سے ان کا گوشت کھاتی تھیں ۔‘‘
مولانا میرٹھی صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’کسی جنگی ٹولے کو کوچ کرتا ہوا دیکھ کر مردار خور چڑیوں کا ان کی کامیابی کا یقین کر کے ان کے ساتھ ہو لینا محض شاعرانہ مبالغہ آرائی ہے۔‘‘ ممکن ہے کہ ’’چڑیوں کا یہ یقین کرنا کہ لشکر ضرور کامیاب اور فتح مند ہو گا ،‘‘ شاعرانہ مبالغہ آرائی ہو ۔ لیکن کسی فوج کو کوچ کرتے ہوئے دیکھ کر گدھ وغیرہ مردار خور پرندوں کا اس کے ساتھ ہوجانا کوئی مستبعد نہیں ہے ۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی کھیت میں ہل بیل یا ٹریکٹر سے جوتائی شروع ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے پرندے ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں ، اس لیے کہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ زمین جوتے جانے پر اس کے اندر سے کیڑے مکوڑے نکلیں گے جو ان کی غذا بنیں گے ۔ اسی طرح ہمارے یہاں دیہاتوں میں کسی گڑھے یا تالاب میں مچھلی کا شکار کرنے کے لیے جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو ان کی بھیڑ بھاڑ اور شورو شغب کے ساتھ ہی اس تالاب کے ارد گرد چیل ، کوے اور گدھ وغیرہ مختلف چڑیاں منڈلانے لگتی ہیں ۔ جب آج مچھلی کا شکار شروع ہونے سے پہلے محض اس کی تمہید کا منظر دیکھ کر چڑیوں کا یہ حال ہوتا ہے تو پھر چودہ پندرہ سو سال پہلے جب کہ دنیا اتنی زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ نہیں تھی اور جنگ کے میدانوں میں لاشیں سڑتی گلتی رہتی تھیں ۔ کسی جنگی لشکر کو کوچ کرتے ہوئے یا لڑائی ہوتے ہوئے دیکھ کر مردار خور پرندوں کا وہاں منڈلانا یا لشکر کے ساتھ ہو جانا کون سی مستبعد بات ہے ؟
ایک حماسی شاعر کہتا ہے:
کم ترکنا ھناک من بطل
تسقی علیھا الریاح فی لمعہ
’’ ہم نے وہاں میدان میں بہت سے بہادروں کو اس حال میں چھوڑ دیا کہ ہوائیں ان کے بالوں کے جوڑوں پر خاک اڑاتی تھیں۔‘‘
اس شعر کے بارے میں مولانا میرٹھی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ صرف شاعرانہ مبالغہ آرائی ہے ، کیونکہ شاعر حمیری ہے اور یہ جس جنگ کا واقعہ ہے ، اس میں قبیلۂ حمیر کو بنو عبد مناف نے شکست فاش دی تھی اور بہت سوں کو قتل کیا تھا ۔ اسی جنگ کی تصویر کشی شاعر نے اپنے اشعار میں کی ہے ۔ چنانچہ مولانا مفتی اعزاز علی صاحب شرح حماسہ میں لکھتے ہیں:
وفیہ یقول شاعر من حمیر وانصف فیما قال ولذاعدت ھذہ الابیات من المنصفات۔
’’اسی جنگ کے بارے میں حمیر کا شاعر کہتا ہے کہ او رجو کچھ اس نے کہا ہے ، بالکل صحیح کہا ہے ۔ اس لیے اس کے ان اشعار کو ’’منصفات‘‘ میں سے قرار دیا گیا ہے۔‘‘
مولانا میرٹھی صاحب اپنے دوسرے اعتراض کے تحت لکھتے ہیں:
’’پہاڑ کے اوپر سے کسی گروہ پر سنگ باری اس صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ وہ گروہ پہاڑ کے دامن میں ہو ۔ اس صورت میں پہاڑ کے اوپر سے جو پتھر پھینکے یا لڑکھائے جائیں گے ، ان سے اس گروہ کو نقصان پہنچے گا ، لیکن ابرہہ کی فوج کو وادی محسر میں تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ جن لوگوں نے وادی محسر دیکھی ہے ، وہ جانتے ہیں کہ اس کے دائیں طرف یا بائیں طرف کے پہاڑ اتنے نزدیک نہیں کہ ان کے اوپر سے پھینکے ہوئے پتھر ان لوگوں کو ہلاک یا زخمی کر ڈالیں جو وادی محسر میں ہوں۔ مولانا فراہی نے اپنی آنکھوں سے وادی محسر دیکھی ہوتی تو ہرگز یہ تاویل نہ کرتے ۔‘‘
یہ تسلیم ہے کہ ابرہہ کی فوج کو وادی محسر میں تباہی کا سامنا کرنا پڑا جو ایک لمبی چوڑی وادی ہے اور بائیں جانب پہاڑ دوری پر واقع ہیں ، اس لیے اس وادی میں ٹھیرے ہوئے لشکر پر پہاڑ کے اوپر سے پتھر مارنا یا لڑھکانا بہت مشکل تھا ، مگر یہاں سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا عربوں کے سامان جنگ میں ایسے ہتھیار نہیں تھے جن سے دور دراز تک پتھر مارے جا سکتے ہیں ؟ ہمارے خیال میں مولانا میرٹھی صاحب نے اس پہلو پر غور نہیں فرمایا ، ورنہ وہ ایسی بے وزن بات ہرگز نہ تحریر فرماتے ۔ منجنیق، قذاف، قذافہ، فلاخن اور گوپھن وغیرہ عربوں کے خاص ہتھیار تھے جن کے ذریعہ سے وہ دور ہی سے ایسی شدید سنگ باری کرتے تھے کہ مقابل لشکر کو منٹوں میں تتر بتر ہو جانے پر مجبو رکر دیتے تھے ۔ جن کتابوں ۲ میں جاہلی عربوں کی لڑائیوں (ایام العرب) کا مفصل تذکرہ ہے ، ان میں ان ہتھیاروں کے استعمال کا بھی جگہ جگہ ذکر آیا ہے ، ’’لسان العرب‘‘ میں بھی ہے کہ :
قیل الاعرابی کیف کانت حرو بکم ؟ فقال کانت بیننا حرب عون ، تفقا فیہا العیون فتارۃ نجنق و اخری نرشق۔(۱۰/ ۳۷)
’’کسی اعرابی سے پوچھا گیا کہ تمھارے جنگیں کیسی ہوتی تھیں ؟ تو اس نے کہا کہ ہمارے درمیان بڑی سخت جنگ ہوتی تھی ، اس میں آنکھیں پھوٹ جاتی تھیں ، کبھی ہم منجنیق سے پتھر مارتے تھے تو کبھی تیر چلاتے تھے۔‘‘
جنگ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی منجنیق نصب کرنے کا حکم فرمایا تھا اور اس حکم کی تعمیل ہی نہیں کی گئی ، بلکہ اس سے کام بھی لیا گیا تھا۔
ابرہہ کا لشکر بہت بڑی تعداد میں تھا اور ہر طرح مسلح تھا ۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس سے گوریلا جنگ کی جائے ۔ (جس کے عموماً عرب عادی تھے) پھر منجنیق اور قذاف وغیرہ سے سنگ باری کرنے کے لیے یہ ضروری بھی ہوتا ہے کہ مد مقابل لشکر کچھ دوری پر ہو ۔ اس لیے وادی محسر کے بیچ میں ابرہہ کے لشکر کا پڑنا جنگی اعتبار سے عربوں کے حق میں تھا ، نہ کہ ان کے خلاف۔ چنانچہ انھوں نے دونوں طرف سے ان کو گھیر کر اپنی منجنیقوں کے ذریعے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔
عرب کی تاریخ و جغرافیہ پر مولانا فراہی کی بڑی گہری نظر تھی ۔ خصوصاً ان جگہوں کا انھیں بخوبی علم تھا جن کا کسی حیثیت سے قرآن پاک سے تعلق تھا۔ مولانا کو بیت اللہ کی زیارت کا بھی شرف حاصل تھا۔ اس لیے انھوں نے بچشم خود ان تمام مقامات کا مشاہدہ فرمایا ہو گا ۔ اس اعتراض میں ان پر وادی محسر نہ دیکھنے کا طنز سراسر ناروا اور غیر ذمہ دارانہ ہے ۔
مولانا میرٹھی صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں :
’’تاریخ عالم میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ دامن کوہ سے گزرتے ہوئے کسی لشکر کو فریق مقابل کے آدمیوں نے پہاڑ کے اوپر سے وزنی پتھر لڑھکا لڑھکا کر سخت نقصان پہنچایا ہے اور وزنی پتھر لڑھکائے ہی جاتے ہیں، ہاتھوں میں لے کر دور نہیں پھینکے جا سکتے ۔ پس اگر لشکر ابرہہ کی تباہی بھی اسی طرح ہوئی ہوتی تو آیت میں لڑھکانے کا ذکر ہوتا، حالانکہ آیت میں ’رمی ‘ یعنی پھینکنے کا ذکر ہے۔‘‘
اس کا جواب اس سے پہلے والے اعتراض میں گزر چکا ہے کہ عربوں کے سامان جنگ میں منجنیق ، قذافہ اور گوپھن وغیرہ بھی تھے جن سے وہ شدید سنگ باری کرتے تھے ۔ ان ہتھیاروں کے ذریعے سے بڑے بڑے پتھر اوپر سے لڑھکائے نہیں جاتے تھے ،بلکہ اوٹ سے چھپ کر یا سامنے ہی سے دشمنوں پر پھینکے جاتے تھے ، منجنیق اور قذاف وغیرہ کے جنگی استعمال کا غالباً مولانا کو علم نہیں ہے ۔ یہاں ائمۂ لغت کے بعض اقوال پیش کیے جاتے ہیں :
منجنیق : الۃ حربیہ ترمی بھا القذائف ۔(الافصاح ۱۹۹)
’’منجنیق ایک ایسی جنگی مشین ہے جس کے ذریعے سے پتھر پھینکے جاتے ہیں ۔ ‘‘
القذاف : الذی یرمی بہا الشئی فیبعد ۔(لسان العرب ۹/ ۲۷۷)
’’قذاف ایک مشین ہے جس کے ذریعے سے کوئی چیز دور پھینکی جاتی ہے ۔ ‘‘
صاحب ’’لسان العرب ‘‘ نے یہ اشعار نقل کیے ہیں :
لما اتانی الثقفی الفتان
فنصبوا قذافۃ بل ثنتان
’’جب ثقفی نوجوان ہمارے پاس آئے تو انھوں نے ایک نہیں ، بلکہ دو پتھر مارنے کی مشین نصب کی ۔ ‘‘ (۹/ ۲۷۷)
مزاد کا شعر ہے :
قذیفۃ شیطان رجیم رمی بہا
فصارت ضواۃ فی لہازم ضرزم
یہ وہ اوزار ہیں جن سے عرب پتھر مارا کرتے تھے ، صرف ہاتھوں سے نہیں مارتے تھے جیسا کہ مولانا میرٹھی صاحب کا خیال ہے ۔ شمشیر زنی اور سنگ باری ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ وہ ان سب کے بڑے ماہر تھے ۔ پھر یہ کیسے باور کر لیا جائے کہ انھوں نے نہتے ہو کر اس لشکر جرار کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو گا ؟ بلاشبہ انھوں نے جبکہ وہ حالت احرام میں بغیر تیر اور تلوار کے تھے ، ان ہتھیاروں کو ضرور استعمال کیا ہو گا جو اس وقت ممکن الحصول تھے اور انھیں ہتھیاروں کے لیے ، جیسا کہ پہلے مثالوں سے ثابت ہو چکا ہے ’رمی‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے آیت میں لفظ ’ترمی‘ واقعہ اور اقتضاے حال کے عین مطابق ہے ۔ اس پر سرے سے کوئی اعتراض ہی وارد نہیں ہوتا۔ لڑھکانے کی بات تو محض مولانا شبیر احمد صاحب میرٹھی کی اپج اور اختراع ہے۔ مولانا فراہی نے لڑھکانے کی کوئی بات ہی نہیں لکھی ہے کہ اس پر کوئی اعتراض وارد ہو ۔
مولانا میرٹھی صاحب کا چوتھا اعتراض یہ ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی ہے کہ وہ پھینکے ہوئے پتھر ’سجیل‘ کی جنس کے پتھر تھے ۔مولانا فراہی کو بتانا چاہیے تھا کہ اگر ابرہہ کی فوج پر اہل مکہ نے سنگ باری کی تھی تو سجیل کے سنگ ریزے کہاں سے لائے تھے ، جب کہ مکہ اور نواح مکہ ، بلکہ تمام حجاز کی سرزمین میں سجیل کے پتھر پائے ہی نہیں جاتے ۔ ‘‘
مولانا میرٹھی صاحب کا یہ اعتراض بھی بالکل بے سروپا ہے کہ مکہ اور نواح مکہ ،بلکہ تمام سرزمین حجاز میں سجیل کے پتھر پائے ہی نہیں جاتے ۔ کیونکہ انھوں نے اس بے بنیاد دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں دی ہے ۔ ایسے بے ثبوت دعویٰ کی موجودگی میں کون مان سکتا ہے کہ پوری سرزمین حجا زمیں کنکر (سجیل) پائے ہی نہیں جاتے ۔ کنکر ایک معمولی چیز ہے ۔ اس کا ہر جگہ ہونا ممکن ہے ۔ جن لوگوں نے اس وادی کو دیکھا ہے اور جو لوگ مکہ اور حجاز میں رہ چکے ہیں ، ان سے دریافت کرنے پر یہی معلوم ہوا کہ یہاں کنکر پائے جاتے ہیں ۔ خصوصاً وادی محسر کا علاقہ تو کنکروں سے بھرا پڑا ہے ۔
قرآن مجید میں دو جگہ اور لفظ سجیل آیا ہے :
۱۔ وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ۔ (ہود ۱۱: ۸۲)
’’اور اس سرزمین پر ہم نے کنکر کے پتھر برسانا شروع کیے ۔ جو لگا تار گرتے رہے ۔ ‘‘
۲۔ وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ۔(حجر ۱۵: ۷۴)
’’اور ہم نے ان پر سجیل کے پتھر برسائے ۔‘‘
ایک دوسری جگہ سجیل کی تعبیر اس طرح کی گئی ہے:
لِنُرْسِلَ عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ ۔ (الذاریات ۵۱: ۳۳)
’’تاکہ ہم ان پر کنکر برسائیں۔‘‘
ان آیتوں میں عرب بائدہ کا ذکر ہے جن کو ایسی شدید اور تباہ کن آندھی کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا تھا جو اپنے ساتھ سجیل کی قسم کے پتھر لیے ہوئے آئی تھی اور مسلسل کئی روز تک چلتی رہی ۔ یہ قومیں عرب تھیں اور سرزمین حجاز میں آباد تھیں انھیں ہلاک کرنے والی آندھی کہیں دور دراز سے کنکر پتھر لے کر نہیں آئی تھی ، بلکہ وہ جن راستوں سے گزری تھی ، انھی میں پڑے ہوئے کنکر پتھر اپنے ساتھ اڑاتے ہوئے چلی تھی ۔ اب اگر اس علاقہ میں سجیل کی قسم کے پتھر پائے ہی نہیں جاتے ، جیسا کہ مولانا میرٹھی صاحب کا دعویٰ ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آندھیاں بھی اپنے ساتھ سجیل کے پتھر کہاں سے لائی تھیں ؟
مولانا ان آیات پر بھی ذرا ٹھیر کر غور فرما لیتے تو یہ عجیب و غریب اعتراض ہرگز نہ فرماتے ۔ اگر بالفرض مولانا کی یہ بات تسلیم ہی کر لی جائے کہ سجیل کے پتھر حجاز میں پائے ہی نہیں جاتے تو یہ بات کس طرح مانی جا سکتی ہے کہ ’بحجارہ من سجیل ‘ سے مراد وہی پتھر ہے ’’جس کو جلا کر پیس کر عمارتی چونا بنایا جاتا ہے ؟ ‘‘۳ حالانکہ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
قال ابن عباس ، سجیل معناہ سنک و کل یعنی بعضہ حجر و بعضہ طین ۔(تفسیر رازی ۳۲/ ۱۰۱)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سجیل کا معنی سنگ اور گل ہے ۔ یعنی اس کا کچھ حصہ پتھر اور کچھ مٹی ہے۔‘‘
کیا اس کے بعد بھی مولانا میرٹھی صاحب کو اپنے اخذ کردہ مفہوم پر اصرار ہو گا ۔
پانچواں اعتراض
اب مولانا کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اعتراض ملاحظہ ہو ۔ فرماتے ہیں:
’’سجیل کی قسم کے سنگریزے مار کر تین چار ہزار آدمی ، ساٹھ ہزار آہن پوش فوج کو کوئی خاص گزند نہیں پہنچا سکتے ۔ سب کو ہلاک کر ڈالنے اور کھائے ہوئے بھس کی طرح بنا دینے کا ذکر ہی کیا۔‘‘
یہ اعتراض بڑا مضحکہ خیز ہے ۔ کیونکہ سجیل (سنگریزے )برسانے والے خواہ عرب ہوں یا چڑیاں ، دونوں ہی صورتوں میں یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی حفاطت کرنے اور اس کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے چڑیوں کے پھینکے ہوئے چنے اور دال کے برابر سنگریزوں میں اتنی قوت دے سکتا ہے کہ وہ گولیوں اور بموں کا کام کریں تو کیا وہی خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اس موقع پر نصرت فرمائے جب اس کے چند ہزار کمزور بندے کفن بردوش اس کے گھر کی حفاظت کے لیے ایک جہاد عظیم میں مصروف ہوں اور ان کا سردار (عبد المطلب) خانۂ کعبہ کے دروازے پر کھڑا ہو کر اپنے خدا کے حضور یہ پردرد دعا کر رہا ہوں:
لاہم ان المر یمنع
رحلہ فامنع رحالک
’’اے اللہ آدمی اپنے اہل کی حفاظت کرتا ہے پس تو بھی اپنے لوگوں کی حفاظت کر ۔ ‘‘
لا یغلبن صلیبھم
ومحالھم ابدا محالک
’’ان کی صلیب اور قوت تیری قوت پر غالب نہ ہو ۔ ‘‘
ان کنت تارکھم و قبلتنا
فامر مابدا لک
’’اگر تو ہمارے قبلہ کو ان کے زیر نگیں کرنا چاہتا ہے تو وہی کر جو تیری مرضی ہو۔ ‘‘
یا رب لا ارجولھم سواک
یا رب فامنع عنھم حماک
’’اے اللہ میں ان کے بارے میں تیرے سواکسی اور سے امید نہیں رکھتا ۔ پس تو اپنے گھر کی ان سے حفاظت کر تو ان کے پھینکے ہوئے کنکروں اور پتھروں میں ایسی قوت رکھ دے کہ ساٹھ ہزار نہیں ، بلکہ لاکھوں کی تعداد پر مشتمل فوج ان کی سنگ باری کی وجہ سے تباہ و برباد ہو جائے ؟ جبکہ ان کی سنگ باری کے ساتھ تائید غیبی کے طور پر آسمان سے بھی سنگ باری ہو رہی ہو ؟‘‘
ہم اپنی بات کی مزید وضاحت کے لیے مولانا فراہی کی تفسیر سورۂ فیل کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں :
’’اس کی سب سے پہلی مثال غزوۂ بدر میں ملتی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور قریش کی طرف رخ کر کے فرمایا : ’ شاہت الوجوہ ‘ ’ ’خدایا یہ چہرے بگڑ جائیں ‘‘۔ اس کے بعد کنکریاں ان کی طرف پھینکیں اور صحابہ سے فرمایا: ’’بڑھو‘‘ ۔نتیجہ یہ ہوا کہ تمام کفار کو آنکھوں کی پڑ گئی ۔ اسی کی نسبت سورۂ انفال میں فرمایا : ’ وما رمیت اذ رمیت و لکن اللّٰہ رمی‘ ۔(۱۷) ’’جب تم نے کنکریاں ماریں تو تم نے نہیں ماریں ، بلکہ اللہ نے ماریں‘‘۔دیکھواللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رمی کو اپنی رمی کے لیے سبب ظاہر اور پردہ بنایا ہے ۔ گو اس موقع پر دو طرف سے کنکریاں پھینکی گئیں ۔ ایک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جس کو کفار نے دیکھا اور ایک خدا کی طرف سے جس کو وہ نہ دیکھ سکے ۔ لیکن اس کے اثر کو انھوں نے محسوس کیا ۔ اسی لیے آیت میں نفی اور اثبات ، دونوں ساتھ ساتھ آئے ہیں ۔ بعینہٖ یہی صورت واقعۂ فیل میں بھی نظر آتی ہے۔ قریش سنگ باری کے زور سے ابرہہ کی فوج کو کعبہ سے دفع کر رہے تھے ۔ خداوند تعالیٰ نے اسی پردہ میں ، ان پر آسمان سے سنگ باری کر دی ۔ چنانچہ جس طرح غزوۂ بدر کی رمی کو اپنی طرف منسوب کیا ( ولکن اللّٰہ رمی) اسی طرح یہاں بھی کفار کو کھانے کے بھس کی طرح بنا دینا، اپنی قوت قاہرہ کی طرف منسوب کیا ( فجعلھم کعصف ماکول)۔ ظاہر ہے کہ یہ عظیم الشان معجزہ ہے ۔ کیونکہ قریش کے لیے ابرہہ کے لشکر گراں کو پارہ پارہ کر دینا تو درکنار ، اس کو شکست دے دینا بھی آسان نہ تھا۔ ‘‘(تفاسیر فراہی ، ۳۸۸)
مولانا میرٹھی کا چھٹا اعتراض یہ ہے :
’’عربیت کا صحیح ذوق قعطاً یہ گوارا نہیں کرتا کہ ’ترمیھم‘ میں خطاب سنگ باری کرنے والے شخص سے ہو ۔ بریں تقدیر ، ’ترمونھم‘ لانا ضروری تھا۔ اور اللہ تعالیٰ ’ترمیھم‘ کے بجائے ’ترمونھم‘ فرمانے سے عاجز نہ تھا۔ ‘‘
مولانا فراہی کو عربی ادب کا ذوق تھایا نہیں ، اس سے یہاں بحث نہیں ہے ، البتہ اس قدر عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ خود مولانا میرٹھی نے صحیح ذوق کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیے :
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَنَصِیْرٍ۔(البقرہ ۲: ۱۰۶۔۱۰۷ )
’’کیا تم نہیں جانتے کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ؟ کیا نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ؟ اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی یارومددگار نہیں ۔ ‘‘
ان آیات میں خطاب صیغۂ واحد ’ الم تعلم‘ سے شروع ہوا اور دوبارہ پھر واحد ہی کا صیغہ ’ الم تعلم ‘ ہی استعمال ہوا ہے۔ اور اس کے بعد ’مالکم ‘میں جمع کی ضمیر آ گئی ہے ۔ عربی ادب کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر کے دونوں واحد کے صیغوں میں مخاطب جماعت کا ایک ایک فرد علیحدہ علیحدہ مراد ہے ۔ پھر اس کے بعد پوری جماعت کو جمع کے صیغہ سے خطاب کیا گیا۔ کیا یہاں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عربیت کے صحیح ذوق کے مطابق ’الم تعلم ‘کے بجائے ’الم تعلموا ‘ ہونا چاہیے تھا۔ جیسا کہ ’الم تر‘ کے بارے میں مولانا میرٹھی صاحب نے فرمایا ہے۔
دراصل یہ طریقۂ استعمال عربی زبان کا ایک خاص اسلوب ہے ۔ اس کی تھوڑی سی تفصیل خود مولانا فراہی کے الفاظ میں ہم یہاں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ مولانا فراہی لکھتے ہیں :
’’یہ زبان کا مخصوص اسلوب ہے جس میں واحد کا اطلاق جمع پر ہوتا ہے ۔ گویا واحد کالفظ ایک ایک کر کے پوری جماعت کو مخاطب کرتا ہے ۔ کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کی مثالیں بہت ہیں ۔ تورات میں جہاں کہیں خدا نے بنی اسرائیل کو واحد کے صیغہ سے خطاب کیا ہے ، وہاں یہی اسلوب ملحوظ ہے ۔ مفصل بحث ’’کتاب الاسالیب‘‘ ۴ میں ملے گی ۔ یہاں ہم صرف قرآن مجید سے بعض مثالیں نقل کریں گے۔
فرمایا ہے :
اَلَمْ تَرَاَنَّ الْفُلْکَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰہِ لِیُرِیَکُمْ مِّنْ اٰیٰتِہٖ۔(لقمان ۳۱: ۳۱)
’’نہیں دیکھتے کہ کشتیاں سمندر میں چلتی ہیں اللہ کے فضل سے تاکہ تم کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے ۔‘‘
اس آیت میں کلام ، واحد کے صیغہ ’الم تر‘سے شروع ہوا ، لیکن پھر ’لیریکم‘ میں جمع کی ضمیر آ گئی، کیونکہ واحد سے مقصود درحقیقت جمع ہی تھی ۔
دوسری جگہ ہے:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ اِنْ یَّشَاْیُذْھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۔ (ابراہیم۱۴: ۱۹)
’’نہیں دیکھتے کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو ایک غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر وہ چاہے توتمھیں فنا کر دے اور تمھاری جگہ نئی مخلوق بسا ئے ۔ ‘‘
اس آیت میں وہی اصول ملحوظ ہے ۔ کبھی اس کے برعکس جمع سے کلام شروع ہوتا ہے اور پھر واحد کی ضمیر آ جاتی ہے ۔ لیکن اس سے مقصود وہی جمع ہوتی ہے ۔ مثلاً :
ہَلْ اُنَبِّءُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ ۔ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ ۔ یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ ۔ وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ ۔ اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یِّھِیْمُوْنَ۔ (شعرا۲۶: ۲۲۱۔۲۲۵)
’’میں تمھیں بتاؤں کہ شیاطین کن پر اترتے ہیں ؟ وہ لپاٹیوں اور گنہ گاروں پر اترتے ہیں ، وہ کان لگاتے ہیں ، حالانکہ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔ اور شعرا کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں ۔ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ ‘‘
کلام شروع ہوا ’انبئکم‘ ضمیر خطاب جمع سے اور پھر ’الم تر‘ واحد کا صیغہ آ گیا ۔ ‘‘(تفاسیر فراہی ۳۶۹)
اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ ’رمی‘ کا لفظ ’طیر‘ کے لیے عربی زبان اور کلام مجید میں کہیں اور بھی استعمال ہوا ہے ، مگر ہمارے محدود مطالعے کی حد تک کلام عرب میں اس کی کوئی اور مثال موجود نہیں ہے کہ ’طیر‘ کے لیے ’رمی‘ کا لفظ استعمال ہوا ہو۔ ’رمی‘ کے معنی کسی چیز کو طاقت سے دور پھینکنے کے آتے ہیں ۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے :
قال المبرد معناہ مارمیت بقوتک اذ رمیت ولکن بقوۃ اللّٰہ رمیت۔(۴/ ۳۳۵)
’’مبرد نے کہا کہ ‘مارمیت اذرمیت‘ کا معنی یہ ہے کہ تم نے اپنی قوت سے کنکری نہیں پھینکی ، بلکہ اللہ کی قوت سے پھینکی۔‘‘
ظاہر ہے کہ رمی چھوٹی چھوٹی چڑیوں کی چونچ اور چنگل سے نہیں ہو سکتی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن روایتوں میں اس کا ذکر ہے کہ چڑیوں کے چونچ اور چنگل میں چنے کی دال کے برابر سنگ ریزے تھے ۔ خود ان میں بھی ان کے کنکریاں پھینکنے کے لیے ’ رمی‘ کے بجائے ’القت‘اور ’ارسلت‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اور ’رمت‘ کا لفظ نہیں استعمال ہوا ہے۔ خود بہت سے قدیم مفسرین کو بھی یہ لفظ کھٹکا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس کی عجیب و غریب تاویل کی ہے کہ چڑیاں مڑ کر اور عجیب ڈھنگ سے اپنی چونچ اور چنگل کو گھما کر دانوں کے برابر سنگریزے گراتی تھیں ۔ پس عربیت کا ذوق اس سے قطعاً ابا کرتا ہے کہ چڑیوں کے لیے ’رمی‘ کا لفظ استعمال ہوا اور ’ترمی‘ کا فاعل انھیں مانا جائے ۔
اب مولانا میرٹھی کا ساتواں اعتراض ملاحظہ ہو :
’’مولانا فراہی نے ابرہہ کے لشکر کا بے مثال شجاعانہ دفاع کرنے کا تمغہ اہل مکہ کے علاوہ ان حاجیوں کو بھی عطا فرما دیا جو اس سال حج کے لیے آئے تھے ، حالانکہ اس وقت مکہ میں باہر سے آئے ہوئے کسی حاجی کے رہنے کی بات کرنے کے لائق نہیں ہے ۔ باہر سے آئے ہوئے حاجی تو تیرھویں ، چودھویں ذی الحجہ کو اپنے اپنے وطن کو واپس ہو جاتے تھے اور ابرہہ کا لشکر ماہ محرم میں وادی محسر پہنچا تھا۔‘‘
مولانا کے اس اعتراض کا وزن اس وقت تسلیم کیا جا سکتا ہے جب قطعی طور پر یہ ثابت ہو جائے کہ واقعۂ فیل ماہ محرم ہی میں پیش آیا تھا ، جبکہ اس سلسلے میں متعدد اقوال منقول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے چالیس روز قبل یہ واقعہ پیش آیا ۔ایک قول پچاس روز قبل کا ہے ۔ ان کے علاوہ پندرہ سال قبل ، دس سال قبل ، تئیس سال قبل ، تیس سال قبل یہاں تک کہ چالیس سال اور ستر سال قبل ولادت تک کے اقوال موجود ہیں ۔۵ انھی میں سے ایک کو ترجیح دے کر مولانا فراہی بڑے وثوق و اعتماد کے ساتھ لکھتے ہیں کہ : ’’علماے سیر کے بیان کے مطابق ابرہہ کا حملہ موسم حج میں پیش آیا تھا۔ ‘‘ گو اس موقع پر انھوں نے اس کے لیے کوئی حوالہ نہیں دیا ہے ، لیکن ان سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کوئی بے سروپا اور بے بنیاد بات لکھیں گے ۔ ممکن ہے کہ مولانا کے ذہن میں حوالہ موجود رہا ہو ، لیکن اپنی یادداشت کے اعتماد کے سبب اس کو درج نہ کر سکے ہوں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ مولانا نے مختلف اقوال و قرائن سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہو کہ واقعۂ فیل حج کے موسم میں پیش آیا۔ جیسا کہ خود اہل عرب کے بیانات سے اس کا اشارہ ملتا ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ۔
تاریخ و سیر کی کتابوں میں تلاش و جستجو کے باوجود سر دست ہمیں مولانا فراہی کے اس قول کاکوئی حوالہ تو دستیاب نہیں ہو سکا، مگر جن لوگوں نے واقعۂ فیل کا زمانہ ماہ محرم بتایا ہے ، ان کا ماخذ صرف محمد بن اسحاق کی بیان کردہ روایات ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے اہم اور عظیم الشان واقعہ کے ثبوت کے لیے تنہا ایک شخص کی روایات کافی نہیں ہو سکتیں ۔ وہ بھی ایسے شخص کی جس کی بہت سے اہل فن نے تضعیف بھی کی ہو۔ چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ محمد بن اسحاق کے بارے میں ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں لکھتے ہیں :
۱۔ وقال مالک ، دجال من الدجا جلہ ۔(۹/ ۴۱)
’’امام مالک نے فرمایا کہ (محمد بن اسحاق) دجالوں میں سے ایک دجال ہے ۔ ‘‘
۲۔ وقال البخاری ، ایضا محمد بن اسحاق ینبغی ان یکون لہ الف حدیث ینفرد بھا۔ (۹/ ۴۲)
’’اور امام بخاری نے فرمایا ہے کہ محمد بن اسحاق تقریباً ایک ہزار احادیث میں منفرد ہیں ۔ ‘‘
۳۔ وقال یعقوب بن شعبہ سمعت ابن نمیر یقول ۔۔۔ وانما اتی انہ یحدث عن المجہولین احادیث باطلہ ۔ (۹/ ۴۲)
’’یعقوب بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن نمیر سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ ۔۔۔ محمد بن اسحاق مجہول لوگوں سے باطل اور بے بنیاد رواتیں بیان کرتے تھے ۔ ‘‘
۴۔ وقال احمد بن حنبل کان محمد بن اسحاق یدلس ۔ (۹/ ۴۳)
’’امام احمد نے فرمایا کہ محمد بن اسحاق تدلیس کیا کرتے تھے۔‘‘
۵۔ وقال عباس الدوری عن ابن معین محمد بن اسحاق ثقۃ ولیس بحجۃ۔(۹/ ۴۴)
’’عباس دوری ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ محمد بن اسحاق ثقہ تو ہیں ، مگر حجت نہیں ۔ ‘‘
۶۔ وقال ابن المدینی ثقۃ لم یضعہ عندی الا روایتہ عن اھل الکتاب ۔(۹/ ۴۵)
’’ابن مدینی نے کہا کہ محمد اسحاق ہیں تو ثقہ ، مگر میرے نزدیک ان کا کوئی درجہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ وہ اہل کتاب سے روایتیں لیتے ہیں ۔ ‘‘ ۶
یہی وجہ ہے کہ محتاط علما و مفسرین اور ارباب سیر و تاریخ اس مسئلہ میں بالکل خاموش ہیں اور جن لوگوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے تو انھوں نے مہینا کی کوئی صراحت نہیں کی ۔ مثلاً امام فخر الدین رازی وغیرہ لکھتے ہیں :
لم یکن بین عام الفیل ومبعث الرسول الانیف و اربعون سنۃ۔ (۳۲/ ۹۷)
’’عام الفیل اور بعثت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین چالیس سال اور کچھ مہینا کا وقفہ تھا۔‘‘
اس کے مقابلہ میں مولانا فراہی کے خیال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ عکرمہ بن ہاشم بن عبدمناف نے صراحتہً اپنے شعر میں کہا ہے کہ ابرہہ کے آدمی قربانی کے کچھ اونٹ بھی ہنکا کر لے گئے تھے ۔ چنانچہ وہ کہتا ہے :
لاھم اخزالاسود بن مقصود
الاخذ الھجمہ فیھا التقلید
’’خداوند اسود بن مقصود کو رسوا کرے جو قربانی کے اونٹوں کو جن کی گردنوں میں قلادے تھے ہنکا لے گئے ۔ ‘‘
بین حرا ثبیر فالبید
یحبسھا وھی اولات التطرید
’’حرا ثبیر اور بید کے درمیان ان کو روکا اور وہ ہنکا لے جانے کے لیے تھے ۔ ‘‘
فضمھا الا طماطم سود
اخضرہ یا رب وانت محمود
’’پھر ان کو حبشی غلاموں کے حوالے کیا ، خداوند ان کو اپنی ماں سے محروم کر دے ، تو سزاوار حمد ہے ۔ ‘‘
ابن جریر طبری اور بعض دوسرے مورخین کے بیان میں بھی یہ صراحت ملتی ہے :
ولما نزل ابرہۃ المغمس ۔۔۔ وھمت قریش وکنانہ و ہذیل ومن کان معھم بالحرم من سائر الناس بقتالہ ۔(۳۰/ ۳۰۱)
’’اور جب ابرہہ وادی مغمس میں خیمہ زن ہوا ۔۔۔ اورقریش ، قبیلۂ کنانہ ، قبیلۂ ہذیل اور وہ تمام لوگ جو اس وقت ان کے ساتھ حرم میں موجود تھے ، سب نے ابرہہ سے مقابلہ کی ٹھان لی۔‘‘
روایت کے الفاظ ’ ومن کان معھم بالحرم من سائر الناس ‘ خاص طور پر غور طلب ہیں ۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اطلاق دس بیس آدمیوں کے بجائے ایک جم غفیر ہی پر ہو سکتا ہے ۔ اگر یہ واقعہ ماہ محرم کا ہے ، جبکہ موسم حج ختم ہو چکا تھا اور مکہ اور اس کے قریب بازار ، عکاظ اور ذی المجنہ وغیرہ بھی بند ہو گئے تھے ، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ اس وقت حرم میں آ گئے تھے ظاہر سی بات ہے کہ یہ حجاج کرام ہی ہو سکتے تھے ، دوسرے نہیں ۔ ورنہ پھر من سائرالناس کا کیا مطلب ہو گا ؟
ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ۔ سورۂ فیل میں ہے ۔’الم یجعل کید ھم فی تضلیل‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی مخفی چالوں کو ناکام بنا دیا ۔ اب یہاں پھر سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ وہ مخفی چال کیا تھی ؟ اس کا جواب مولانا فراہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے :
’’قرآن مجید میں تصریح ہے کہ اصحاب فیل نے ایک مخفی تدبیر (کید) کی تھی ۔ لیکن روایات میں اس کے حملہ کے جو وجوہ بیان کیے گئے ہیں ، ان میں مخفی تدبیر کا کوئی پہلو نہیں ہے ۔ وہ قوت کی نمایش اور عرب کی تذلیل کی ایک کھلی ہوئی کارروائی ہے۔ البتہ قابل اعتماد روایات ۷ سے استنباط کرنے کے بعد ’کید ‘(مخفی تدبیر) کے چند پہلو سامنے آتے ہیں ۔ مثلاً :
۱۔ اس نے اشہر حرم میں حملہ کیا، کیونکہ اس کو خیال تھا کہ عرب ان مہینوں میں جنگ و خون ریزی سے احتراز کرتے ہیں ۔
۲۔ اس نے مکہ میں ایسے وقت داخل ہونا چاہا جب تمام اہل مکہ دوسرے عربوں کے ساتھ حج میں ہوتے ہیں ۔
۳۔ اس نے خاص طور پر ایام تشریق میں حملہ کرنا چاہاکہ عرب یا تو منی میں مقیم ہوں گے یا سفر کے تھکے ہارے گھر کو واپس آ رہے ہوں گے ۔
ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر اب غور کرو کہ خداوند تعالیٰ نے ان کی چالوں کو کس طرح برباد کر دیا۔
۱۔ ان کی فوج کو بطن محسرہی میں روک دیا۔
۲۔ محسر کے پتھروں سے عربوں نے اسلحہ کا کام لیا۔
۳۔ خدا نے آسمان سے سنگریزے برسانے والی آندھی بھیجی ۔ ‘‘(تفاسیر فراہی ۳۸۶)
ان تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعۂ فیل کا موسم حج میں پیش آنا زیادہ قرین قیاس ہے ۔ کیونکہ اس سے زیادہ بہتر اور موزوں توجیہ کوئی اور نہیں بنتی ۔ مولانا میرٹھی صاحب کی نظر ’کید‘ کے نکتہ کی جانب نہیں گئی ، اس لیے انھوں نے اس کی مراد سے کوئی بحث نہیں کی ۔ چنانچہ ان کی بیان کردہ تفصیلات میں اس مخفی تدبیر کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ مولانا نے کید کا ترجمہ منصوبہ کیا ہے ۔ اس کے باوجود ہمارا سوال اپنی جگہ برقرار ہے ۔ کیونکہ منصوبہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک پوشیدہ اور ایک ظاہر اور جب اس کے لیے ’کید‘ استعمال کیا جائے گا تو اس سے پوشیدہ منصوبہ ہی مراد ہوگانہ کہ ظاہر ۔
مولانا شبیر احمد صاحب میرٹھی اپنے آٹھویں اعتراض کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
’’مولانا فراہی نے سنا ہے کہ جاہلیت کے شعرا و خطباء کے کلام کا بڑا گہرا مطالعہ فرمایا تھا اور عربی زبان سے کماحقہ واقفیت کے لیے اس کا مطالعہ بلاشبہ نہایت مفید ہے ، لیکن اس مطالعہ کی وجہ سے مولانا کے ذہن میں جاہلیت کے عربوں کی جو اخلاقی تصویر مرتسم ہو گئی تھی ، وہ صحیح نہ تھی ۔ مولانا فراہی کے گمان میں اہل عرب شجاعت ، سخاوت ، خودداری و عزت نفس میں دیگر ممالک کے باشندوں سے فائق و ممتاز تھے ، یہ سراسر غلط ہے ۔ کسی قبیلہ میں اکا دکا اشخاص ایسے بلند اخلاق ہوں تو ہوں عام اہل عرب ایسے نہ تھے ۔ وہ بہادر تھے ، آپس میں قتل و غارت کرنے کے لیے ۔ لیکن عجمی اقوام یعنی ایرانیوں اور رومیوں ، حبشیوں اور مصریوں سے ایسے ہی مرعوب تھے جیسے انگریزوں کے دور میں ہندوستان کے باشندے انگریزوں سے مرعوب رہا کرتے تھے ۔ وہ حد درجہ لالچی اور کنجوس تھے ۔ اپنے یتیموں پر بھی انھیں رحم نہیں آتا تھا۔ دیگر مسکینوں کا ذکر ہی کیا، ان کے شعرا نہایت جھوٹے ہوتے تھے ۔۔۔ پس یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ اہل مکہ نے ابرہہ کے لشکر پر سنگ باری کرنے کی جرات کی تھی ۔ ‘‘
ہمیں پھر افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ مولانا میرٹھی کا یہ اعتراض بھی عربوں کی صحیح عادات و خصائل سے بالکل عدم واقفیت کا نتیجہ ہے ۔ یا پھر مولانا اپنے مخصوص نظریات کی تائید و حمایت میں جاہلی عربوں سے متعلق تاریخی حقائق اور واقعات سے بالارادہ چشم پوشی کررہے ہیں ۔
جاہلی عربوں کی جو تاریخ محفوظ ہے ، اس کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ قریش اور بنو اسماعیل کا تمام تر سرمایۂ فخر و نیاز ہمیشہ شہ سواری ، شمشیر زنی ، قدر اندازی اور فیاضی اور مہمان نوازی رہی ہے ۔ یہاں تک کہ غیروں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اسی جوہر کی بدولت انھوں نے کبھی اپنی آزادی پر آنچ نہ آنے دی ۔ ان کے اس مسلم شرف کو معقول دلیل و شہادت کے بغیر نہ ماننا ، ان کو گیدڑوں سے تشبیہ دینا اور حد درجہ لالچی اور کنجوس پکارنا بڑی جرأت کی بات ہے ۔ ہم مولانا کے اس اعتراض کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
۱۔ یہ سراسر غلط ہے کہ عام اہل عرب شجاعت ، سخاوت ، خودداری و عزت نفس میں دیگر ممالک کے باشندوں سے فائق و ممتاز تھے ، وہ ایرانیوں ،رومیوں ، حبشیوں اور مصریوں سے ایسے ہی مرعوب تھے جیسے انگریزوں کے دور میں ہندوستان کے باشندے انگریزوں سے مرعوب رہا کرتے تھے ۔
۲۔ وہ حد درجہ لالچی اور کنجوس تھے ، اپنے یتیموں پر بھی انھیں رحم نہ آتا تھا۔
۳۔ ان کے شعرا نہایت جھوٹے ہوتے تھے ۔
ان میں سے ہر دعویٰ کے بالمقابل ہم علماے محققین اور نامور مورخین کی شہادتیں پیش کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہم مشہور مستشرق عالم ڈاکٹر گستاؤ لیبان کی شہرۂ آفاق کتاب ’’تمدن عرب‘‘ سے دو اقتباسات نقل کرتے ہیں جو علی الترتیب پہلے اور دوسرے اعتراضات کو رد کرنے اور عربوں کے اصل رو پ کو سامنے لانے کے لیے کافی ہیں ۔
’’یونانی چوتھی صدی قبل مسیح سے بھی پہلے سے عربستان سے واقف تھے اور اس ملک کی دولت نے اسکندر کو اس کے فتح کرنے پر آمادہ کیا ۔ نیارکس (سکندر کا سپہ سالار )نے جزیرہ نماے عرب کے گرد جو بحری فوج کشی کی ، اس کا نتیجہ عنقریب ظاہر ہونے والا تھا ، لیکن اسکندر کی وفات نے اسے روک دیا ۔۔۔ لیکن جس وقت اینٹگون (اسکندر کا سپہ سالار) شام اور قینیہ پر قابض ہو گیا تو اس نے اپنے ایک سربرآوردہ سپہ سالار کو نبطیوں کے مقابلہ میں بھیجا۔ یہ سپہ سالار حملۂ ناگہانی کر کے پٹرا پر قابض ہو گیا، لیکن اس کی ساری فوج جس کی تعداد چار ہزار چھ سو تھی بالکل برباد ہو گئی ۔ اس کے بعد اینٹگون نے اپنے بیٹے ڈمٹریس کو ان کے مقابل بھیجا ۔ ہردوط لکھتا ہے کہ جس وقت ڈمٹریس پٹرا میں پہنچا تو عربوں نے اسے یہ کہا : اے شاہ ڈمٹریس تو ہم سے کیوں لڑتا ہے ہم ایک ایسے بیابان کے رہنے والے ہیں جہاں شہر والوں کو مایحتاج مطلق نہیں مل سکتیں ۔ ہم نے ایک اس قسم کے بے پیداوار ملک میں رہنا اسی وجہ سے اختیار کیا ہے کہ ہم ہرگز غلام بننا نہیں چاہتے ۔ ۔۔۔ اگر تو محاصرہ کو طول دینا چاہتا ہے تو بہت جلد تجھے ہر قسم کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا اور تو ہرگز ہمیں مجبور نہیں کر سکے گا ۔۔۔ ڈمٹریس نے اس صلح کے پیغام کو غنیمت جانا اور خوشی خوشی تحائف لے کر ایک ایسی لڑائی کو ختم کر دیا جس میں اسے سخت مشکلات معلوم ہو رہی تھیں ۔۔۔
ان (عربوں) کی لوٹ مار اور ان کی چڑھائیوں پر روم کے شہنشاہوں کو جن کا ملک دریاے فرات پر پہنچ گیا تھا۔ سخت غصہ آیا اور انھوں نے ان کی گوشمالی کے لیے عربستان کوہستانی پر کئی لشکر کشیاں کیں ۔ لیکن اس کا نتیجہ اسی قدر ہوا کہ یا تو چند روزہ خراج وصول ہوا یا چند روز کے لیے جنگ و جدل موقوف ہو گئی ۔ یہ بدوی اقوام اس وقت بھی اسی طرح جنگ کرتی تھیں جیسے اب کرتی ہیں ۔
شہنشاہ آگسٹس ۸ نے اس دولت کے لالچ میں جو سال ہا سال سے یونانی اور ادمی مورخین کے متخیلوں میں بھری ہوئی تھی ایک چڑھائی یمن پر کی ، لیکن یہ مطلق سرسبز نہ ہوئی اور شہنشاہ ٹائی بیرس ۹ کے زمانہ میں البتہ اتنا ہوا کہ عربستان کا ایک چھوٹا سا گوشہ جہاں اکثر بدوی اقوام رہتی تھیں ، چند روز کے لیے فتح ہو گیا ۔
جس وقت رومیوں کا دارالسلطنت قسطنطنیہ میں آیا اس وقت عربوں نے دریائے فرات کی حکومت کے لیے ایرانیوں اور یونانیوں کا مقابلہ کیا۔
اس مختصر کیفیت سے ثابت ہوتا ہے کہ باستثنائے سرحدات شمالی عربستان بالکل غیر اقوام کی فتوحات سے محفوظ رہا ۔ وہ بڑے بڑے مصری ، یونانی ، رومی اور ایرانی وغیرہ ملک گیر جنھوں نے تمام دنیا کو تہ و بالا کر ڈالا ، عربستان کا کچھ بھی نہ کر سکے اور اس عظیم الشان جزیرہ نما کا دروازہ مطلق بند رہا ۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے تمام مہذب ملکوں میں عربستان ہی کا ملک ہے جس کا بڑا حصہ غیر اقوام کی حکومت سے بچا رہا۔ ‘‘ ( ۸۰۔۸۳)
’’دیورژے لکھتا ہے کہ عربوں کے خصائص میں شاید وہ خاصیت سب سے نمایاں ہے جو لوٹنے کے ولولہ اور مہمان نوازی کے جوش سے مل کر پیدا ہوئی ہے ۔ غارت گری کا اشتیاق اور اس کے ساتھ فیاضی شدید بے رحمی اور پھر کشادہ دلی وہ خاصیتیں ہیں جو ان کے اوصاف اضداد کو ہمارے سامنے لاتی ہیں اور ایک ہی تقریر میں ایک ہی شخص کی نسبت بیس مرتبہ ہم سے آفریں اور نفریں کہلواتی ہے ۔۔۔ ہمیں ایسے خصائص قبیحہ کے ساتھ ہرگز ہمدردی نہ ہوتی اگر انھی کے مقابل میں اعلیٰ درجے کے اوصاف بھی نہ ہوتے ۔ وہی شخص جس کے ہاتھ سے لوٹ کے ، اشتیاق یا غیرت کے ، شدید سے شدید بے رحمی کے افعال سرزد ہوتے ہیں ، جس وقت اپنے خیمہ میں بیٹھتا ہے تو ایک مہربان میزبان بن جاتا ہے اور اعلیٰ تواضع سے پیش آتا ہے ۔ جو کوئی مصیبت زدہ ان کی پناہ میں آ گیا ، جس نے ان کی حمیت پر بھروسا کیا تو پھر اس کی مدارات دوستوں کی سی نہیں ہوتیں ، بلکہ عزیزوں اور قرابت داروں کی سی ۔ اس مہمان کی جان مقدس و محترم ہو جاتی ہے اور میزبان کو اس کی حفاظت خود اپنی جان پر کھیل کر بھی واجبات سے ہوتی ہے ۔ اگرچہ اس پر یہ کیوں نہ ثابت ہو جائے کہ جو شخص اس کی پناہ میں بیٹھا ہے ، یہ وہ دشمن جانی ہے جس کی تباہی کی وہ سو بار آرزو کر چکا ہے ۔ اسے شاید اس میں بھی تامل نہ ہو گا کہ مراسم مہمان داری کو عمدہ طور پر اور کشادہ دلی سے ادا کرنے کے لیے اپنے ہمسایہ کا اونٹ بزور چھین لائے یا حسن تقریر سے مانگ لائے ۔ ‘‘(تمدن عرب ۵۷۔۵۸)
ان دونوں بیانات کو پیش نظر رکھ کر مولانا کے دونوں الزامات کا جائزہ لیجیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ کیا مولانا کا بیان صحیح ہے یا ان مورخین کا اعتراف حقیقت جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ عربوں ، مسلمانوں اور اسلام کی ایسی تصویر کشی کریں کہ ساری دنیا ان سے متنفر ہو جائے اور انھیں حقیر ، ذلیل اور رسوا سمجھنے لگے ؟ غیروں کے یہ دونوں اقتباسات نمونہ کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ ورنہ تاریخ عرب کی تمام کتابیں عربوں کی غیرت وحمیت و عزت و خودداری ، حلم و بردباری ، ہمت و دلیری ، شجاعت وبہادری ، شہ سواری اور شمشیر زنی اور حریت پسندی نیز ان کی فیاضی اور مہمان نوازی ، پڑوسیوں کی حفاظت اور غریبوں اور مسکینوں کی اعانت کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں ۔
اب ڈاکٹر یحییٰ جبوری استاذ جامعۂ قطر کی اہم تصنیف ’’الشعر الجاہلی‘‘ کی ایک عبارت کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے :
’’اشعار کو عربوں کے یہاں بڑی اہمیت حاصل تھی ، کیونکہ یہ عربوں کے مفاخر ، مآثر، اور ان کے اوصاف میں شامل تھے ۔ اشعار صاحب کلام کی نفسیات ، مناقب ، بہادری ، دلیری ، جنگ جوئی ، غم و غصہ ، خوشی و مسرت ، جودو سخا اور عدل و وفا جیسے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور اچھی بری عادتوں کو واضح کرتے ہیں ۔ صاحب کلام کی زندگی اور ان کے گردوپیش کے واقعات ، حادثات اور ان کے حسب و نسب اور ان کی زندگی کے مختلف ادوار اور واقعات کی معرفت انھی اشعار سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ عربوں کا دیوان (تاریخ ) ، ان کی حکمت کا مخزن اور ان کے علم و ادب کا گنجینہ ہیں ۔ جب کبھی وہ عزت و رفعت اور نصرت و ظفر مندی سے ہم کنار ہوتے یا کوئی اہم واقعہ پیش آتا تو فوراً اسے اپنے قصیدہ میں نظم کر لیتے تھے ۔ کیونکہ قصیدہ ہی ان کے نزدیک سب سے زیادہ دیرپا اور محفوظ رہنے والی چیز تھی ۔ ان کے نزدیک اپنے کارناموں کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ تھا۔ ‘‘(کتاب الصناعتین۸۳۱)
جاحظ کی کتاب الحیوان میں ہے :
’’ دنیا کی ہر قوم اپنے مآثر و محاسن اور کارناموں کی بقا اور حفاظت کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور اختیار کرتی ہے ۔ دور جاہلیت کے عرب اپنے کارناموں کی حفاظت کے لیے موزوں کلام پر اعتماد کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کا کلام ہی دیوان ہے ۔‘‘ (کتاب الحیوان ۱/ ۱۷۔۲۷)
ابن عبد السلام کا بھی یہی خیال ہے کہ :
’’ شعر ہی دور جاہلیت کا دیوان ، ان کے علم و حکمت کا منتہا اور ان کی معلومات کا خزانہ تھا ۔ اور جب باہم مفاخرت کا موقع آتا تھا تو اسی کی طرف مراجعت کرتے تھے ۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ :
’’ شعر ایک ایسی قوم کا علم ہے جس کے یہاں اس سے زیادہ صحیح کوئی دوسرا علم نہیں تھا۔ ‘‘(طبقات الشعرا ۲۲ )
یہ ہیں اشعار جاہلیت کے متعلق علما و ادبا کے بیانات اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ۔ اب آپ خود مولانا شبیر احمد صاحب کے اس دعویٰ کی صداقت کا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ان کے شعرا نہایت جھوٹے ہوتے تھے ۔
ان بیانات کے نقل کرنے سے ہمارا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عربوں کے اندر کوئی برائی تھی ہی نہیں ۔ بلاشبہ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اندر بہت سی خراب قسم کی خصلتیں بھی پائی جاتی تھیں ۔ جنھیں اسلام نے آ کر دور کیا اور پھر اپنی برکت اور ان کے جوہر ذاتی کی بدولت ان سے دنیا کی سیادت و قیادت اور حق کی رہنمائی کا کام لیا ۔ فطرت کی اسی صالحیت اور ذاتی ذہانت و قابلیت کی بنیاد پر ہی دنیا کی تمام متمدن اقوام کے بالمقابل انھی عربوں کو اسلام جیسی عظیم تحریک کی امانت سونپی گئی ۔ اس لیے کہ وہی دراصل اس کے اہل تھے ۔ عربوں کے محاسن و مثالب کا اگر طالب علمانہ طور پر فکرو نظر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت نہایت واضح طو رپر معلوم ہو جائے گی کہ ان کے مصائب کا بڑا حصہ درحقیقت ان کو صحیح تربیت نہ ملنے کی وجہ سے تھا۔ اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ اگر کسی صالح اور زرخیز زمین کا کوئی ہوشیار مالی نہ ہو جو اس کی دیکھ بھال کرتا رہے تو اس میں گل و لالہ کے ساتھ بے گانے پودے بھی بہت اگ آتے ہیں ۔
نواں اعتراض
مولانا میرٹھی اپنے آخری اعتراض کے تحت رقم طراز ہیں :
’’اگر اہل مکہ نے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہوتا تو شعراے قریش نہایت فخر و مباحات کے ساتھ اس کا ذکر کرتے اور قریش کی شجاعت و بسالت کا اپنے قصیدوں میں وہ صور پھونکتے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی ،حالانکہ اس دور کے کسی بھی قریشی یا غیر قریشی شاعر نے لشکر ابرہہ کی تباہی کو انسانی شجاعت کا ثمرہ نہیں بتایا ۔ جس شاعر نے بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے ۔‘‘
یہ صحیح ہے کہ شعراے قریش نے فخر و مباہات کے طور پر لشکر ابرہہ سے اپنی معرکہ آرائی کا بہت زیادہ ذکر نہیں کیا ہے ، لیکن اس کے علاوہ عین وقت پر غول درغول چڑیوں کا نمودار ہونا اور مخصوص جماعت ۰۱؎ پر ہی پتھر مارنا اور ان کو کھائے ہوئے بھس کی طرح بنا دینا بھی کوئی معمولی واقعہ نہ تھا ، مگر عرب شعرا نے اس کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔ لیکن ابرہہ کا لشکر چڑیوں کی تباہی سے تباہ ہوا ہوتا تو عرب شعرا جہاں اس واقعہ کو محض اللہ کی آیت و قدرت اور اس کی غیبی مدد کے طور پر ذکر کرتے ، وہیں چڑیوں کے اس عجیب و غریب اور غیر متوقع عمل کا بھی ذکر ضرور کرتے ، مگر ایسا نہیں ہے ۔ مولانا میرٹھی صاحب نے جو اشعار نقل کیے ہیں ۔ یا جو دوسری کتابوں میں مذکور ہیں ، ان میں شعرا نے چڑیوں اور پتھروں کا ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے ، لیکن یہ کہیں نہیں ہے کہ یہ پتھر چڑیوں نے پھینکے ، بلکہ انھوں نے اس سنگ باری کو ’حاصب ‘ اور ’ساف‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ابو قیس کہتا ہے :
فارسل من ربھم حاصب
یلفھم مثل لف القزم
’’پھر اللہ کی طرف سے ان پر حاصب چلی جو خس و خاشاک کی طرح ان کو لپیٹ لیتی تھی ۔ ‘‘
ابو قیس بن اسلت یثربی کہتا ہے :
فلما اجاز و ابطن نعمان ردھم
جنود الا لہ بینہ ساف و حاصب ۱۱؎
’’جونہی وہ بطن نعمان سے آگے بڑھے، خدا کی فوجوں نے ساف اور حاصب کے درمیان نمودار ہو کر ان کو پسپا کر دیا ۔‘‘
ان اشعار میں چڑیوں کی سنگ باری کو نہ بیان کرنے کی وجہ اس کے علاوہ ا ور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ عربوں نے اپنی معرکہ آرائی کا بالکل ہی ذکر نہیں کیا۔ دراصل ابرہہ کے ساتھ ان کی معرکہ آرائیوں کا ہر جگہ چرچا تھا ۔ بعض شعرا نے اس پر فخریہ اشعار بھی کہے ہیں ۔ غالباً مولانا ان سے ناواقف ہیں ۔ اسی وجہ سے انھوں نے ایک بے بنیاد دعویٰ کر ڈالا ہے ۔ قدیم اسلامی شاعر ذوالرمہ کہتا ہے :
وابرہۃ اصطادت صدور ماحنا
جہارا وعثنون العجاجۃ اکدر
’’اور ہمارے نیزوں نے علانیہ ابرہہ کا شکار کیا ۔ اور فضا میں کثیف غبار کا ستون قائم تھا۔‘‘
تنحٰی لہ عمر وشک ضلوعہ
نبا فذ ۃ بخلاء والخیل تبصر ۲۱؎
’’عمر نے اس کی طرف لپک کر نیزے کے کاری زخم سے اس کی پسلیاں توڑ دیں اور شہ سوار ثابت قدم تھے ۔ ‘‘
دیکھیے ان شعروں میں صراحت ہے کہ اس کی قوم کے ایک آدمی نے ابرہہ کو نیزہ بھی مارا اور یہ واقعہ بہت زیادہ ذکر اس لیے نہیں ہے کہ دراصل ان کی سنگ باری کے پردہ میں سخت آندھی اور طوفان کے ذریعے سے ایسی شدید خدائی سنگ باری ہوئی کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے اور جو نہ بھاگ سکے ، وہ وہیں چبائے ہوئے بھس کی طرح ہوگئے ۔ یہ خدا کی قدرت کاملہ کا ایک عظیم الشان معجزہ تھا ۔ قریش کے لیے ابرہہ کے لشکر جرار کو پارہ پارہ کر دینا تو درکنار اس کو شکست دے دینا بھی آسان نہ تھا۔ اس لیے شعراے عرب نے اس واقعہ کومحض اللہ کی آیت و قدرت اور اس کی غیبی مدد کے طور پر ہی ذکر کیا ہے ۔ یہ عربوں کی بلندظرفی ، ان کے اعلیٰ اخلاق اور حقیقت پسندی کی وہ کھلی ہوئی دلیل ہے جس کی بلا ثبوت مولانا تردید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اگر طوالت کا خوف دامن گیر نہ ہوتا تو ہم مولانا فراہی کی تفسیر سے ان اسباب کو بھی بیان کرتے جن کے باعث لوگوں کو ’ترمیھم بحجارۃ من سجیل ‘ کی تفسیر میں غلط فہمی پیدا ہو گئی اور انھوں نے اس کی تاویل میں ان روایتوں پر اعتماد کر لیا جو بقول مولانا فراہی :
’’یک قلم بے بنیاد ہیں ۔ ازروے سند ان میں سے ایک روایت بھی قابل اعتماد نہیں ۔ یہ تمام روایات ابن اسحاق تک منتہیٰ ہوتی ہیں اور اہل فن کے نزدیک یہ طے شدہ ہے کہ یہ یہود اور غیر ثقہ راویوں سے روایت کرتے ہیں ۔‘‘(تفاسیر فراہی ۳۸۳)
(بشکریہ ماہنامہ ’’حیات نو‘‘)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے ۔ اس میں ’خرطوم‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو شکاری چڑیوں کے لیے مستعمل ہے ۔ چنانچہ امراؤالقیس کا شعر ہے :
کانھا لقوہ ۰۰ طلوب
کان خرطومھا منشال
’’وہ اونٹنی جھپٹنے والے پر غاب کی طرح ہے ، جس کی چونچ کرچھے کی مانند ہے۔ ‘‘(تفاسیرفراہی ۳۹۰)
۲؎ مثلاً ابوعبیدہ کی ’’شرح النقائض‘‘ اور میدانی کی ’’مجمع الامثال‘‘ وغیرہ۔
۳؎ مولانا میرٹھی صاحب نے اپنی تفسیر میں سجیل سے مراد اسی پتھر کو لیا ہے اور واوین میں انھی کا جملہ ہے۔
۴؎ یہ مولانا فراہی رحمہ اللہ علیہ کی ایک معرکۃ الآرا تصنیف ہے ۔ جس میں قرآن مجید کے بیشتر اسالیب اور ان کی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ یہ کتاب ’’اسالیب القرآن‘‘کے نام سے چھپ چکی ہے ۔
۵؎ روح المعانی ۳/ ۲۳۳، تفسیر خازن۷/ ۲۴۵، الدرالمنشور ۶/ ۳۹۵۔
۶؎ ہم نے یہ چند اقوال اس لیے نقل کر دیے ہیں تاکہ یہ ذہن میں رہے کہ واقعۂ فیل میں چڑیوں کے پتھر مارنے کی تمام روایتیں انھی محمد بن اسحاق کی بیان کردہ ہیں ۔ اور ان سے پہلے کسی راوی کا پتا نہیں ۔ ویسے اس کتاب میں ان کے غیر معتبر ہونے کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ اور ساتھ ہی ان کی ثقاہت کے بھی بہت سے اقوال موجود ہیں ۔ مگر امام بخاری اور دوسرے ائمۂ حدیث انھیں بالکل ناقابل اعتماد سمجھتے ہیں۔
۷؎ دیکھیے اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کی عام کتابوں میں جو واقعات بیان کیے ہیں ، مولانا فراہی نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے ، بلکہ دوسری روایتوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اور وہیں سے یہ بات لی ہے کہ واقعۂ فیل موسم حج میں پیش آیا تھا۔ تحقیق کے بعد اگر اس ماخذ کا پتا چل گیا تو ان شاء اللہ ہم اس پر الگ سے لکھیں گے ۔
۸؎ آگسٹس سب سے پہلا شہنشاہ روم تھا۔ اس کے وقت میں روم کی سلطنت جمہوری کا خاتمہ ہوا اور بادشاہت قائم ہوئی ۔
۹؎ ٹائی بیرس دوسرا شہنشاہ روم اور آگسٹس کا بیٹا تھا ۔
۱۰؎ تفسیر ابن کثیر میں ہے ’ فجاء ت حتی صفت علی رؤسھم‘ ۴/ ۹۵۱، اسی طرح کے الفاظ روح المعانی میں بھی ہیں ۔
۱۱؎ حاصب کا لفظ قرآن مجید میں بھی آیا ہے ۔ مفسرین نے اس کے معنی ایسی تند ہوا کے لیے ہے جو زور اورشدت کی وجہ سے زمین سے کنکریاں اور سنگریزے اٹھا لیتی ہے ۔ اور لفظ ساف تو چڑیوں کے لیے کسی طرح بھی صحیح نہیں ہو سکتا ۔ ’سافی‘ اس ہوا کو کہتے ہیں جو گردو غبار، خس و خاشاک اور درختوں کی پتیاں اڑاتی ہوئی چلتی ہے ۔
۱۲؎ تفاسیر فراہی۳۸۴۔