مصنف : مرتضیٰ انجم ،
ضخامت : ۴۴۸ ،
قیمت :۲۰۰ روپے،
ناشر :دارلشعور ، لاہور۔
معاشرتی زندگی میں حکومت کے ادارے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ جدید دور میں فلاحی مملکت کے تصور نے اس اہمیت کو اور بڑھا دیا ہے ۔ کسی ملک میں کس قسم کی حکومت ہونی چاہیے ، حکو مت اور عوام کا آپس میں کیا تعلق ہونا چاہیے ، اور حکومت کا اور اس کے مختلف اداروں کا آپس میں کیا تعلق ہو گا؟ یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات مغربی ترقی یافتہ ممالک نے کم و بیش طے کر دیے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ترقی پزیر ممالک کی صفت میں شامل ہے جن میں ابھی تک ایک طرزحکومت پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ پاکستان تیسری دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں بار بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کے موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ اس موضوع پر تحریر کی گئی کتابوں میں اکثر فوجی مداخلت کے لیے معروضی حالات کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے ۔ تحقیقی اداروں نے اس موضوع پر بہت سارے تحقیقی مقالے بھی لکھے ہیں ۔ اہل قلم نے عام قاری کے لیے بھی کافی پڑھنے کا مواد مہیا کیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ایسی ہی ایک کوشش ہے جو عام قاری کے مطالعہ کی غرض کے لیے لکھی گئی ہے ۔ مصنف نے جو بنیادی طور پر افسانہ نگار ہے ، اپنے پس منظر کے لحاظ سے پاکستان میں ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک کی فوجی حکومتوں کی داستان کو حوالۂ قلم کیا ہے ۔
مصنف کے نزدیک پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب ایوب خان کو وزیر دفاع کی حیثیت سے گورنر جنرل محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے ۔ جنرل ایوب خان نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ فوج کا سربراہ بھی رہے گا۔ اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ فوج کا سیاسی کردار بڑھتا گیا ۔ حتیٰ کہ اکتوبر ۱۹۵۸ میں سکندر مرزا نے حکومت برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا۔ تین ہفتے کے بعد ان کے اپنے ساتھ یہی معاملہ پیش آ گیا ۔ جنرل ایوب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ صدر پاکستان بھی بن گئے ۔
مصنف نے ایوب خان کے دور حکومت کے ان تمام اقدامات کا ذکر کیا ہے جن میں زرعی اصلاحات ، آئین اور آئینی کمیشن ، روس اور بھارت کے ساتھ تعلقات ، بھارت کے ساتھ جنگ ، معاہدۂ شملہ شامل ہیں ۔ آخر میں ایوب خان کی اقتدار سے رخصتی کو بیان کیا ہے ۔ مصنف کے نزدیک ایوب خان کے تمام سیاسی اقدامات کی بنیاد یہ تھی کہ حکومت سازی میں عوام کی شرکت ممکن نہیں اور بعض اہم شعبوں مثلاً مالیات ، قانون اور سائنسی ترقی جیسے معاملات پر عوام رائے رکھنے کے اہل نہیں ہیں۔ مصنف نے جنرل ایوب کے سیاسی نظریات اور اقدمات میں منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو کے عمل دخل کی طرف بھی اشارہ کیاہے ۔
سقوط ڈھاکہ کے حالات و واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف نے یحییٰ خان کی رنگین مزاجی کا بالخصوص ذکر کیا ہے ۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کہ کس طرح ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پوری قوم کو دنیا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا ۔ حال ہی میں شائع ہونے والی تاریخی اہمیت کی حامل حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نے بھی جنرل یحییٰ خان کے اسی کردار کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ پاکستانی تاریخ کے اس درد انگیز حادثے پر غور کرتے ہوئے ذہن اس طرف ضرور جاتا ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی و ناکامی میں کارفرما دنیوی تدبیروں کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصولوں کا بھی ایک اہم کردار ہے ۔ اگر ان کا لحاظ نہ رکھا جائے تو پھر مسلمان خود ناکامی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر جمہوری دور کے بعد ضیا الحق کے مارشل لا کا گیارہ سالہ طویل دور شروع ہوتا ہے ۔ زیر نظر کتاب میں اس دور کے اہم واقعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے ۔ ضیا الحق اسلام کا نام لے کر اقتدار پر قابض ہوئے اور ملک ایک دفعہ پھر جمہوریت کی پٹڑی سے اتر گیا۔ نواز شریف اور بے نظیر دونوں کے دور حکومت میں سیاسی عدم استحکام رہا اور اسمبلیوں کو رخصت کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر ۱۲ اکتوبر کو پرویز مشرف ایک فوجی حکمران کی حیثیت سے اقتدار پر قابض ہوئے ۔
مصنف نے یہ کتاب لکھ کر پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کے موضوع پر پہلے سے موجود مواد میں اضافہ کیا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کو دیکھ کر جس میں زیادہ عرصہ فوجی حکومت ہی رہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی فوج کی سیاسی تاریخ کی کتاب ہے ۔ اقتدار کے حصول کے لیے ہمارے رہنماؤں نے جو محلاتی سازشیں کیں ، ان کی طرف بھی مصنف نے اشارہ کر دیا ہے ۔ تاہم اس کتاب کو بغور پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل چیزوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے ۔
کتاب کے مندرجات ابواب کے نمبر دے کر بیان نہیں کیے گئے ہیں جیسے مختلف فوجی حکومتوں کو پہلی ، دوسری فوجی حکومتوں کے نام دے کر بیان کیا گیا ہے ، مگر ساتھ ہی پہلی دوسری اور تیسری فوجی بغاوت کے عنوانات بھی درج کر دیے گئے ۔ اگر ان سب کو ترتیب اور مختلف ابواب کو ان کے نمبرز کے تحت لایا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔
کتاب میں پاکستان کی تاریخ میں علاقائی مسائل جیسے مشرقی پاکستان اور صوبہ سرحد کی طرف اشارہ کیا ہے ، لیکن بعض جگہوں پر بات کرتے ہوئے مصنف نے مسئلے کی نوعیت اور حقیقت کو جانے بغیر مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ۔ جبکہ اس قسم کی اہم بات کے لیے ثبو ت بہت ضروری ہوتے ہیں ۔ مثلاً مصنف نے لکھا ہے کہ ’’سرحدی گاندھی‘‘ (خان عبد الغفار خان) پاکستان کی شکست و ریخت کے سارے منصوبوں میں دہلی اور کابل کے ہم نوا تھے جن کا مقصد بالآخر پاکستان کی سالمیت کو ختم کرنا تھا۔ اس قسم کی باتیں حقائق کو مسخ کر دیا کرتی ہیں اور ان سے انتہا پسندی کی بو آتی ہے ۔
جہاں تک مصنف کے انداز تحریر کا تعلق ہے ، وہ عام فہم ہے ، لیکن بعض جگہوں پر انگریزی کا بے جا استعمال انداز تحریر کو متاثر کر رہا ہے ۔ کتاب کے صفحات کے برابر غلطیاں کتاب میں موجود ہیں اور ان کو پروف ریڈنگ کی غلطیاں ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بعض جگہوں پر اہم شخصیات کے ناموں کی تصحیح کی بھی ضرورت ہے ۔
کتاب موضوع کے لحاظ سے سنجیدہ ہے، مگر مصنف نے بعض مقامات پر ناشایستہ الفاظ بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جس سے کتاب کا معیار متاثر ہو رہا ہے ۔ کتاب چونکہ پاکستان کی تاریخ سے متعلق ہے اور اس میں بعض اہم مباحث بھی شامل ہیں ۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ اگر تمام مقامات پر نہیں تو کم از کم اہم واقعات کے حوالے دینے چاہییں تھے تاکہ تحقیقی ذہن رکھنے والے قارئین کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
امید ہے کہ مصنف کتاب کے اگلے ایڈیشن میں مندرجہ بالا نکات کا لحاظ رکھیں گے ۔ مصنف سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس مضمون سے متعلق دوسرے موضوعات پر بھی طبع آزمائی کریں گے ۔ کتاب مطالعۂ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے عام قارئین کے لیے مفید ہے۔
____________