بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ؟ قُلْ: مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمیٰ وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ، وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ، فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ{۲۱۵}
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ ، وَ ھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ، وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا ، وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ، وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا ، وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ ، وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ {۲۱۶}
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ۔قُلْ : قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ، وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ ، وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ، وَلَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا، وَمَنْ یَّرْتَدِدْمِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَھُوَکَافِرٌ ، فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ، وَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ {۲۱۷} اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ {۲۱۸}
وہ تم ۵۷۰ سے پوچھتے ہیں کہ اچھا، پھر کیا خرچ کریں ؟ کہہ دو کہ جتنا مال بھی خرچ کرو، وہ تمھارے والدین ، اعزہ و اقربا ، اور (تمھارے ہی معاشرے کے) یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے ، اور (مطمئن رہو کہ) جو نیکی بھی تم کرو گے ، (وہ ہرگز ضائع نہ ہو گی ) ، اِس لیے کہ اللہ اُس سے پوری طرح واقف ہے ۔ ۵۷۱ ۲۱۵
تم پر جنگ فرض کی گئی اور (اللہ کی راہ میں انفاق کی طرح) وہ بھی تمھیں ناگوار ہے ، دراں حالیکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور تمھارے لیے وہی بہتر ہو ، اور بالکل ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو ۔ ۵۷۲ اور (حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ جانتا ہے اور (اِس طرح کی بہت سی چیزوں کو ) تم نہیں جانتے ۔ ۲۱۶
وہ تم سے پوچھتے ہیںکہ حرام مہینے میں قتال کا کیا حکم ہے ؟ ۵۷۳ کہہ دو کہ اِس میں قتال بڑی ہی سنگین بات ہے ، لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اور اُس کو نہ ماننا اور بیت الحرام کا راستہ لوگوں پر بند کرنا اور اِس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ اور ظلم و جبر کے ذریعے سے لوگوں کو دین سے پھیرنا قتل سے بھی بڑا گناہ ہے ۔ اور (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں سے قتال کا حکم تمھیں دیا گیا ہے ، اُنھوں نے طے کر لیا ہے کہ) وہ تم سے برابر لڑیں گے ، یہاں تک کہ اگر اُن کے لیے ممکن ہو تو تمھیں دین سے پھیر لے جائیں ۔ اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور پھر اِسی کفر کی حالت میں مر جائے گا ، (وہ خوب جان لے کہ) اِسی طرح کے لوگ ہیں جن کے عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہوئے ۵۷۴ اور یہی دوزخ میں پڑنے والے ہیں ، یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (اِس کے برخلاف) جو لوگ ایمان پر قائم رہے ہیں ۵۷۵ اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے ، وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں ، ۵۷۶ اور اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے ۔ ۲۱۷۔ ۲۱۸
۵۷۰؎ یہ انھی لوگوں کے سوالات ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور انھی مسائل سے متعلق ہیں جو جہاد و انفاق کا حکم دینے کے بعد اس طرح کے منافقین اور کمزور مسلمانوں کے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے ۔ تجدید شریعت کا مضمون اس فصل میں اب انھی کے جوابات سے بتدریج آگے بڑھتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔
۵۷۱؎ یہ قرآن نے سوال کرنے والوں کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر جواب دیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کی مقدار تو اپنی ہمت اور حوصلے کے مطابق تمھیں ہی طے کرنی ہے ، لیکن جو بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انفاق کی ترغیب پر تمھیں گھبرانا نہیں چاہیے ۔ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے ، وہ اللہ کی جیب میں نہیں جائے گا ، اسے تم اپنے ہی بھائی بندوں کی ضرورتوں کے لیے خرچ کرو گے ۔ اللہ تو تم سے کچھ لینے کے بجائے الٹا قیامت میں تم کو دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک اس کا صلہ عطا فرمائے گا ۔ تمھاری ہر نیکی اس کے علم میں ہے اور وہ کسی چیز کو فراموش کرنے والا نہیں ہے ۔
۵۷۲؎ یہ ایک بدیہی حقیقت کا بیان ہے ۔ انسان کو جو چیزیں اخلاقی لحاظ سے اوپر اٹھانے والی ہیں ، وہ بالعموم انھیں ناپسند کرتا ہے اور جو اس لحاظ سے پست کر دینے والی ہیں ، ان کے لیے وہ اپنے اندر بڑی رغبت پاتا اور بے اختیار ان کی طرف لپکتا ہے ۔
۵۷۳؎ اشہر حرم میں جنگ سے متعلق قرآن نے اپنا موقف اگرچہ اوپر آیات ۱۹۰۔ ۱۹۵ میں بیان کر دیا تھا، لیکن ان لوگوں نے اس کے باوجود محض اس خیال سے کہ شاید اسی طرح جنگ کی ذمہ داری سے بچنے کی کوئی راہ نکل آئے ، یہ سوال کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ پوری تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیا ، بلکہ اس طرح کے حالات میں ان کے اندر ارتداد کے میلانات کو سامنے رکھ کر بات کو اس کے آخری نتائج تک بالکل واضح کر دیا ہے ۔
۵۷۴؎ دنیا اور آخرت ، دونوں میں اعمال کے ضائع ہو جانے کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ رسولوں کی بعثت کے نتیجے میں جو دینونت برپا ہوتی ہے ، اس میں کفر و ایمان کے نتائج اسی دنیا میں سامنے آ جاتے ہیں ۔
۵۷۵؎ اصل میں فعل ’ امنوا ‘ آیا ہے ۔ موقع کلام دلیل ہے کہ اس آیت میں یہ اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے ۔
۵۷۶؎ اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد جیسے اعمال کی توفیق پانے کے بعد بھی بندۂ مومن اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہی ہو سکتا ہے ، اس لیے کہ نجات تو بہرحال خدا کی رحمت اور اس کی مہربانی ہی سے ہو گی ۔ چنانچہ آگے فرمادیا ہے کہ اللہ غفورورحیم ہے ۔
[باقی]
ــــــــــــــــــــــ