HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

تدبیر اور تقدیر

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث :۱۰۰۔۱۰۱)


عن أبی خزامۃ عن أبیہ قال : قلت : یا رسول اﷲ ، أرأیت رقی نسترقیہا و دواء نتداوی بہ و تقاۃ نتقیہا ، ھل ترد من قدر اﷲ شیئا ؟ قال : ہی من قدر اﷲ۔
’’حضرت ابوخزامہ کے والد(یعمر)رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ، یہ تعویز جو ہم استعمال کرتے ہیں، یہ دوا دارو جس سے ہم علاج کرتے ہیں اوریہ حفاظتی تدابیر جنھیں ہم اپنی حفاظت کے لیے اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟ کیا آپ کے خیال میں یہ تقدیر کو کچھ بھی ٹال سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ بھی تقدیر ہیں۔‘‘
لغوی مباحث

رقی : یہ ’ رقیۃ ‘ کی جمع ہے۔ جیسے ’ظلم ،ظلمۃ‘ کی جمع ہے۔ اس کے معنی تعویز کے ہیں۔

نسترقیہا: ’استرقی یسترقی‘ کے معنی ہیں کلمات پڑھ کر یا انھیں لکھ کر ان کی روحانی تاثیر سے فائدہ اٹھانا۔

دواء :دوا دارو، جڑی بوٹیوں اور دوسرے کیمیائی یا معدنی اجزا سے تیار کیے گئے مرکبات جو امراض کے علاج کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

نتداوی بہ: ہم دوا سے علاج کرتے ہیں۔

تقاۃ :حفاظتی تدابیر،پرہیز وغیرہ ۔ یہ ’وقاۃ‘ سے اسم ہے۔

نتقیہا: ’أی نتقی بسببہا‘ جن کے ذریعے سے ہم بچتے ہیں۔

متون

ترمذی میں اسی روایت کا آغاز اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اس میں سوال یعمر کے بجائے کسی دوسرے آدمی کا ہے ۔ یعنی ایک آدمی آیا اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امور کے تقدیر میں مؤثر ہونے کے بارے میں سوال کیا۔ابن ماجہ کی روایت میں ’دواء‘ کی جگہ ’أدویۃ،نسترقیہا‘ کے بجائے ’نسترقی بہا‘ اور ’تقاۃ‘ کی جگہ ’تقی‘ آیا ہے۔ اسی طرح اس میں ان اجزا کی ترتیب بھی مختلف ہے اور آغاز روایت معروف کے بجائے ’سئل‘ کے مجہول صیغے سے ہوا ہے۔ابن حبان کی روایت میں ’تقاۃ نتقیہا‘ کی جگہ ’أشیاء نفعلہا‘ آیا ہے۔ مزید برآں اس روایت میں راوی کا نام ’ابو خزامۃ عن أبیہ‘ کے بجائے ’کعب بن مالک عن أبیہ‘ آیا ہے۔اسی طرح جامع از معمر بن راشد کی روایت میں ’أترد من القدر‘ کی جگہ ’أتغنی من القدر‘ آیا ہے۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ اس روایت کے متون میں کوئی فرق معنوی لحاظ سے اہم نہیں ہے۔

معنی

یہ روایت معنی کے اعتبار سے اس باب کی اہم ترین روایت ہے۔ اس روایت میں تقدیر کالفظ زیادہ وسیع تناظر میں استعمال ہوا ہے۔

اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو تدبیر و سعی کے اصول پر استوار کیا ہے۔ اگر اس روایت کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو یہ بات ان الفاظ میں ادا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے اس دنیا کے امور کو انجام دینے کے لیے سعی وتدبیر کرنا مقدر کر دیا ہے۔ یعنی اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ امور دنیا کی انجام دہی کے لیے اپنی عقل اور تجربے کی روشنی میں تدابیر اختیار کرے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے جب سے اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے ، اس نے حقیقت کو سمجھا ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا چلا آرہا ہے۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسے بطور اصول بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ جہادوقتال کی تیاری کا حکم ، شہد اور دودھ وغیرہ کے مفید ہونے کا تذکرہ، کھیتی باڑی اور تجارت کے لیے سعی کا حوالہ سب اسی مسلمہ اصول کے مظاہر ہیں۔

انسانی تجربہ اس معاملے میں اس قدر محکم ہے کہ انسان اپنی تدبیر اور سعی ہی کو اصل حقیقت سمجھ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مداخلت کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔لاریب ، زندگی کے امور کی انجام دہی کے لیے سعی وتدبیر مقدر ہے۔یعنی زندگی کی گاڑی آگے بڑھانے کے لیے اگر کوشش اور تدبیر سے کام نہیں لیا جائے گا تو یہ گاڑی رک جائے گی۔ سعی کی کمی اور تدبیر کی خامی نتائج پر اثر انداز ہو گی۔عمومی اصول یہی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اگر اسے دنیوی زندگی کے لیے حتمی کر دیتے توایک بڑے دائرے میں آزمایش ختم ہو جاتی ۔ چنانچہ قرآن وحدیث میں یہ بات زیادہ زور سے بیان ہوئی ہے کہ ہر سعی اور ہر تدبیر کی کامیابی اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکیمانہ فیصلے کی مرہون منت ہے۔ لہٰذا مکمل بات یہ ہے کہ ہم سعی وتدبیر کے مکلف ہیں، لیکن ہمیں بھروسا اس سعی وتدبیر کے بجائے خدا پر کرنا چاہیے۔ اور ہماری سعی وتدبیر کے باوجود نتائج جو کچھ بھی نکلیں اس کے آزمایش ہونے کے پہلو کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

اس ضمن میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ احادیث میں بھی عام طور پر اللہ تعالیٰ کی کارفرمائی کا مضمون ہی بیان ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تصریحات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تدبیر کا دائرہ پھر کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ واضح فرما دیا کہ سعی وتدبیر اس کائنات کی اسکیم کا حصہ ہے ۔ یعنی یہ بھی تقدیر ہے۔

شارحین نے اس روایت سے تعویز کے جواز کے لیے بھی استدلال کیا ہے۔اس باب میں نہی اور جواز دونوں طرح کی روایات موجود ہیں ۔ شارحین کے نزدیک ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ وہ تعویز منع ہیں جن میں اسمائے الہٰی اور آیات قرآنی کے علاوہ کسی اور چیز کو لکھا گیا ہو۔ ہمارے نزدیک ، اس بحث کا یہ محل نہیں ہے۔ یہاں تعویز کا ذکر ایک تدبیر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہر معاشرے میں یہ ایک معروف عمل ہے اور امراض و آفات سے بچنے کے لیے اسے ایک مؤثر تدبیر مانا جاتا ہے اور سائل نے اسے اسی پہلو سے بیان کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تو اس کا سبب سائل کا اصل مدعا ہے۔ تعویز کے جواز وعدم جواز یا جائز یا ناجائز تعویزوں کے بارے میں وضاحت ان شاء اللہ اس کے محل پر ہو جائے گی۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے جواز کا اشارہ ملتا ہے، لیکن اسے اس کی اصل دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

کتابیات

ترمذی ، رقم ۱۹۹۱، ۲۰۷۴۔ابن ماجہ، رقم ۳۴۲۸۔احمد، رقم ۱۴۹۲۵، ۱۴۹۲۶، ۱۴۹۲۷۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۱۰۰۔الجامع از معمر بن راشد، رقم ۱۹۷۷۷۔

_______

 

تقدیر پر بحث

عن أبی ہریرۃ قال : خرج علینا رسول اﷲ صلی اﷲ علی وسلم ، ونحن نتنازع فی القدر ۔ فغضب حتی احمر وجہہ ، حتی کأنما فقیء فی وجنتیہ حب الرمان ۔ فقال : أبہذا أمرتم؟ أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا فی ہذا الأمر ۔ عزمت علیکم ، عزمت علیکم ألا تتنازعوا فیہ ۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آنے کے لیے (گھر سے) نکلے اور ہم تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ آپ کو غصہ آ گیا کہ آپ کا چہرا سرخ ہو گیا۔ اتنا غصہ ، لگتا تھا کہ آپ کے گالوں پر انارکے دانے نچوڑ دیے گئے ہیں۔ آپ نے کہا: کیا میں نے تمھیں یہ کرنے کو کہا تھا؟ کیا مجھے تمھاری طرف یہ دے کر بھیجا گیا تھا؟ تم سے پہلے والے لوگ جب اس طرح کی بحثوں میں پڑے تھے تو ہلاک ہو گئے تھے۔ میں تمھیں زور دے کر کہتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس معاملے میں کبھی جھگڑوں میں نہ پڑنا۔‘‘
لغوی مباحث

احمر وجہہ :آپ کا چہرا سرخ ہو گیا۔ یہ شدید غصے کی حالت کا بیان ہے۔

فقیء :نچوڑ دیا گیا۔ ’فقأ‘ مسلنے اور نچوڑنے کے معنی میں آتا ہے۔

وجنتیہ: ’وجنۃ‘ کا مطلب گال یا رخسار، آپ کے دونوں گال۔

عزمت علیکم :میں تم پر لازم کرتا ہوں۔ میں زور دے کر کہتا ہوں ۔

متون

اس روایت میں ’نحن نتنازع‘ کی صورت میں متکلم کا صیغہ اختیار کیا گیاہے۔ ابن ماجہ کی روایت میں اس کی جگہ ’ہم یختصمون فی القدر‘ کے الفاظ میں غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ قرآن مجید کو وجہ نزاع بنانے پر آیا تھا۔ چنانچہ اس روایت کے مطابق حضور نے فرمایا: ’ما لکم تضربون کتاب اﷲ بعضہ ببعض، بہذا ہلک من کان قبلکم‘ مسند احمد کی ایک دوسری روایت سے تنازع کی کیفیت بھی معلوم ہوتی ہے ۔ روایت کے الفاظ ہیں: ’ أن نفرا کانوا جلوسا بباب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقال بعضہم ألم یقل اﷲ کذا وکذا وقال بعضہم ألم یقل اﷲ کذا و کذا فسمع ذلک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فخرج‘۔ اس روایت میں آگے جا کر ’ہلک‘ کے بجائے ’ضل‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے اور آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صحیح طریقے کی تلقین بھی ہے ۔آپ نے فرمایا: ’إنکم لستم مما ہہنا فی شیء ، انظروا الذی امرتم بہ فاعملوا بہ والذی نہیتم عنہ فانتھوا ‘۔

یہ اس روایت کے متون کے اہم اختلافات ہیں۔باقی اختلافات محض لفظی ہیں۔

معنی

شارحین کے نزدیک ،اس روایت میں بنیادی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ تقدیر کے معاملے کو طے کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیز گمراہی کا باعث بن سکتی ہے اور اس کا نتیجہ اخروی ہلاکت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ یہ معاملہ تو فرد کے حوالے سے ہے ۔ شارحین نے اس اختلاف کے امت کی یکجہتی کے منافی ہونے کو بھی موضوع بنایا ہے۔یعنی یہ بحثیں اختلاف آرا اور نتیجۃً تفرقے کا باعث بھی بنیں گی اور یہ افتراق دنیوی تباہی کا سبب بن جائے گا۔

تقدیر پر ایمان احادیث کی رو سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ متعدد احادیث ہم پڑھ چکے ہیں جن میں تقدیر کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سوال کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی ناراضی کا اظہار نہیں کیا۔قرآن مجید کی متعدد آیات ہیں جن میں تقدیر کے مسئلے پر براہ راست یا ضمناً روشنی پڑتی ہے ۔ جب اس مسئلے کی دینی اہمیت واضح ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سمجھانے کے لیے کئی مواقع پر گفتگو کی ہے۔ پھر قرآن مجید کی متعلقہ آیات کو زیر بحث لانے میں کیا قباحت ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر ناراضی ظاہر کی ہے۔

ہمارے خیال میں اس کا سبب موضوع نہیں ، طریقۂ گفتگو ہے۔متون کے مطالعے سے واضح ہے کہ آیات کے مدعا کو طے کرنے میں کھینچ تان کی جارہی تھی۔ قیاس یہی ہے کہ کوئی صاحب علم صحابی بھی اس موقع پر موجود نہیں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساری بحث سن رہے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بات ناگوار گزری کہ آیات قرآنی کو اس طرح بازیچۂ اطفال بنایاجائے۔یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی کلامی بحث کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔

خدا کی کتاب سے ایک مسلمان کا تعلق وہی ہے جو اسی روایت کے ایک دوسرے متن میں بیان ہوا ہے۔یعنی بندہ مؤمن کتاب اللہ سے خدا کے اوامرونواہی کو سمجھے اور اس کی تعمیل کرے۔ موشگافیاں اور نکتہ سنجیاں علمی تفریح کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کا محل خدا کی کتاب نہیں ہو سکتی ۔

کتابیات

ترمذی، رقم ۲۰۹۸۔ابن ماجہ، رقم ۸۲۔ احمد ،رقم ۶۳۸۱، ۶۵۵۰۔ مسند ابو یعلی، رقم ۶۰۴۵۔

____________

B