ایک مسلمان نے دوسرا نکاح کر لیا ۔ اس پر ان کی پہلی بیوی بہت ناراض ہو گئیں ۔ دوسرے نکاح سے پہلے وہ ایک دین دار خاتون مشہور تھیں ۔ مگر دوسرے نکاح کے بعد انھوں نے گھر کے اندر اتنا طوفان برپا کیا کہ ان کے شوہر دل کے مریض بن گئے۔ میں نے مذکورہ خاتون کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طور پر موجودہ عملی حالات میں دوسرے نکاح کا قائل نہیں ہوں ۔ مگر آپ کے لیے یہ دوسرا نکاح گویا ایک خدائی امتحان تھا جس میں آپ ناکام ہو گئیں ۔ یاد رکھیے ، جنت کا ٹکٹ موافق حالات میں دین داری پر نہیں ملتا ، بلکہ وہ غیر موافق حالات میں دین داری پر ملتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے : کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو جانچا نہ جائے گا ۔ (العنکبوت ۲۹: ۲۔ ۳)
اصل یہ ہے کہ دین داری کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک ہے ، معمول کے حالات میں دین داری ۔ دوسری دین داری وہ ہے جب کہ حالات غیر موافق ہو جائیں ۔ جب آدمی کو اپنے بھڑکے ہوئے جذبات پر قابو رکھ کر دینی حکم کا پابند بننا پڑے ۔ اسی دوسری صورت حال کا نام آزمایش ہے ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عورت یا مرد کے لیے جنت کا فیصلہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس پر اس دوسری نوعیت کے حالات گزریں ۔ مگر وہ اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھے ۔ وہ غیر معمولی حالات میں بھی اسی طرح دینی تقاضوں پر عمل کرے جس طرح کوئی شخص معمول کے حالات میں دینی تقاضوں پر عمل کرتا ہے ۔
جانچ کا یہ لمحہ ہر مسلم عورت اور ہر مسلم مرد پر ضرور آتا ہے ۔ مزید یہ کہ جانچ کا یہ لمحہ اعلان کے ساتھ نہیں آتا ، بلکہ وہ اعلان کے بغیر آتا ہے ۔ جو لوگ اس لمحہ کو پہچانیں اور جانچ میں پورے اتریں ، وہی کامیاب ہیں اور جو لوگ اس لمحہ کو نہ پہچانیں اور جانچ میں پورے نہ اتریں ، وہ اللہ کی نظر میں ناکام قرار پائیں گے ، خواہ کسی اور اعتبار سے بظاہر وہ کتنا ہی زیادہ دین دار بنے ہوئے ہوں۔
مولانا وحید الدین خان
_______
صہیب بن سنان الرومی ان اصحاب رسوم میں سے ہیں جنھوں نے دور اول میں اسلام قبول کیا ۔ ان کی پیدایش موصل میں ہوئی ۔ انھوں نے مدینہ میں ۳۸ھ میں وفات پائی ۔ بوقت وفات ان کی عمر تقریباً ستر سال تھی ۔ ان سے تین سو سات حدیثیں مروی ہیں ۔ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انا سابق العرب ، و صھیب سابق الروم۔
صہیب رومی کا تذکرہ تاریخ اسلام کی اکثر کتابوں میں آیا ہے ۔ مثلاً طبقات ابن سعد ، تاریخ ابن عساکر وغیرہ ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیب رومی ایک اونچے خاندان کے فرد تھے ۔ پھر وہ مکے میں تجارت کرنے لگے ۔ انھوں نے تجارت میں کافی دولت کمائی ( کان صھیب قد ربح مالا وفیرا من تجارتہ)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کے لیے ہجرت فرمائی تو صہیب رومی نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا ۔ روایات بتاتی ہیں کہ ان کی ہجرت کی خبر لوگوں کو ہو گئی ۔ چنانچہ قریش کے کچھ نوجوان ان کے پاس آئے ۔ انھوں نے کہا کہ تم نے اپنا یہ مال مکہ میں حاصل کیا ہے ۔ اس کو لے کر ہم تم کو مدینہ نہیں جانے دیں گے ۔ صہیب رومی نے کہا کہ اگر میں تم کو اپنا مال دے دوں تو تم مجھ کو جانے دو گے ۔ انھو ں نے کہا : ہاں ۔ اس کے بعد صہیب رومی نے اپنا سارا مال ان کے حوالہ کر دیا (فجعل لھم مالہ اجمع)۔
اپنا مال قریش کے حوالہ کر کے صہیب رومی مدینہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کو مکہ کا پورا واقعہ بتایا ۔ اس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’یا ابا یحییٰ ربح البیع‘ (اے ابو یحییٰ ، تمھاری تجارت کامیاب رہی) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’ ربح صھیب، ربح صھیب‘ (صہیب کی تجارت کامیاب رہی، صہیب کی تجارت کامیاب رہی) ۔ البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، الجزء الثالث ، ص ۱۷۳۔ ۱۷۴۔
حضرت صہیب رومی کا یہ واقعہ جس کی تصدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ، بے حد اہم ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بامقصد انسان کا کردار کیا ہونا چاہیے ۔ اس کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کے علاوہ ہر دوسری چیز کو ثانوی (سیکنڈری) درجہ پر رکھے ۔ وہ اپنے مقصد کو بچانے کی خاطر ہر دوسری چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔
مذکورہ واقعہ پر غور کیجیے ۔ حضرت صہیب رومی کے سامنے ایک صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ یہ مال میں نے اپنی محنت سے کمایا ہے ۔ وہ میرا ایک جائز حق ہے ۔ مجھے اپنے حق سے محرومی کو قبول نہیں کرنا چاہیے ۔ مجھے ہرحال میں اپنے مال کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہیے ، خواہ اس کے لیے مجھے ظالموں سے لڑائی لڑنی پڑے ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ مدینہ دعوت اسلامی کا مرکز بن رہا ہے ۔ وہاں پہنچ کر مجھے اس دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے ۔ اسلام کے اس قافلہ کے ساتھ مل کر مجھے چاہیے کہ میں اس تاریخی مہم کو اس کی تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کروں ۔
صہیب رومی نے محسوس کیا کہ یہ کم بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے ۔ اگر میں مال کے لیے ٹکراؤ کروں تو یہ کوئی عقل مندی نہ ہو گی ۔ یہ مال کی خاطر مقصد کو قربان کرنے کے ہم معنی ہو گا ۔ چنانچہ انھوں نے مقصد کو بچانے کی خاطر مال کو قربان کر دیا اور اس سے دست بردار ہو کر مدینہ چلے گئے ۔
اس طرح کے معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک ہے منطقی انصاف کا طریقہ ، اور دوسرا ہے عملی حل کا طریقہ ۔ منطقی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ خالص فنی اعتبار سے صحیح اور غلط کو معلوم کیا جائے ، جیسا کہ قانون عدالت میں ہوتا ہے ۔ اور دوسرا ہے عملی حل(Practical solution)۔ عملی حل کا مطلب یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے صحیح اور غلط کی بحث میں نہ پڑا جائے ، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ عملی حالات کے اعتبار سے مسئلہ کا مثبت حل کیا ہے ۔ پہلا طریقہ عام انسان کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ بامقصد انسان کا طریقہ۔
عام انسان کو صرف یہ معلوم رہتا ہے کہ قانون کے مطابق، اس کا حق کیاہے ۔ اس کے برعکس بامقصد انسان قانونی حق اور منطقی انصاف سے بلند ہو کر یہ سوچتا ہے کہ میرے لیے اپنے مقصد اعلیٰ کو حاصل کرنے کا مفید طریقہ کیا ہے ۔ سوچ میں اس فرق کی بنا پر ، عام انسان لوگوں کے ساتھ زر اور زمین کا جھگڑا کرتا رہتا ہے ، کیونکہ اس کے سوا اس کا اور کوئی نشانۂ حیات نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بامقصد انسان کا نظریہ، حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی تمھارا کرتا لینا چاہے تو اسے اپنا چغہ بھی دے دو۔ یعنی دنیوی چیزوں کے معاملہ میں نزاع پیدا ہو تو فوراً یک طرفہ قربانی کے ذریعہ سے اس نزاع کو ختم کردو ، تاکہ مقصد کی طرف تمھارا سفر کسی خلل کے بغیر مسلسل طو رپر جاری رہے ۔
اس طرح کے نزاعی معاملات میں عام انسان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حق کیوں چھوڑیں ، ہم انصاف سے دست بردار کیوں ہوں ،مگر بامقصد انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ دنیوی حق کو لینے کی کوشش میں وہ ربانی حق سے محروم ہو جائے گا ۔ دنیوی انصاف کو حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ آخرت کے انصاف کی میزان میں اپنے آپ کو بے قیمت کر لے گا ۔ سوچنے کا یہی فرق دونوں کے عمل میں فرق پیدا کر دیتا ہے ۔ ایک ، دنیا کی خاطر آخرت کو گنوا دیتا ہے ، اور دوسرا ، آخرت کی خاطر دنیا کو ۔
مولانا وحید الدین خان
_______
ہم ایک صاحب علم صوفی کی مجلس میں بیٹھے تھے ۔ ان سے اہل تصوف کے نقطۂ نظر کی صحت و عدم صحت پر بات ہو رہی تھی۔ یہ بات چیت اس علمی نکتے کے گرد گھوم رہی تھی کہ تصوف کو دین سے الگ قراردینادرست ہے یا نہیں ۔ محترم صوفی صاحب اس نکتے کے حق میں دلائل دے رہے تھے کہ تصوف کا عملی پہلو خود ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کرتا ہے ۔ہمیں اس بات پر اصرار تھا کہ کسی اہم دینی ضرورت کے پورا کرنے کے لیے قرآن و سنت سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے ۔
اس گفتگو کو ایک اور صاحب بھی سن رہے تھے ۔ صوفی صاحب کسی ضرورت سے اٹھ کر گئے تو وہ ہمیں نصیحت کرنے کا موقع پا کر فرمانے لگے : ’’مجھے بھی اہل تصوف پر اسی نوعیت کے اعتراضات تھے۔ میں بھی یہ اعتراضات پیش کرتا رہا ہوں اور کبھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا ہوں ۔ ایک دوست سے بات کرتے ہوئے میں نے اس بات کو پا لیا کہ اہل تصوف سے علمی بحثیں کرنے کا حاصل کچھ نہیں ۔ ان سے دینی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد لینی چاہیے اور صوفی یہ مدد بخوبی کر سکتے ہیں ۔‘‘ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی فرمایا :’’یہ مدد لینے میں اگر کہیں کہیں اپنے دینی فہم سے کسی حد تک صرف نظر بھی کرنا پڑے تو ایک بڑے مقصد کو پانے کے لیے یہ بھی کر لینا چاہیے۔‘‘
میں سوچتا ہوں: دین ایک وحدت ہے ۔ اساسات سے لے کر فروع تک ہر چیز ایک رشتے میں پروئی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی معاملات کو قیاس و استنباط پر چھوڑ دیا گیا ہے ، لیکن کسی قیاس اور کسی استنباط کی صحت کو جانچنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ یہ دین کے کلیات اور ان کلیات پر مبنی اجزا سے پوری طرح ہم آہنگ ہو ں۔
میں دین کا ایک طالب علم ہوں اور میں نے دین کو ایسا ہی پایا ہے ۔ یہ صرف میرا نقطۂ نظر ہی نہیں ہے ، پچھلی پندرہ صدیوں میں اس دین کے پیش کرنے والے تمام علما اسے اسی طرح پیش کرتے آرہے ہیں ۔ گویا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ماننے میں کسی کو تامل تو کیا ہو، سب اسی کے داعی اور مدعی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اس دین کو اختیار کرنے والا اپنے آپ کو اس بات پر مجبور کیوں پاتا ہے کہ وہ اپنی دینی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ’’کہیں کہیں‘‘ اپنے دینی فہم سے صرفِ نظر کرے ۔ اگردین کے ایک وحدت ہونے کی بات درست ہے تو پھر معاملے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ دین کا فہم درست نہ ہو اور دوسرے یہ کہ دینی زندگی بہتر بنانے کا طریقہ غلط ہو ۔ معاملہ کچھ بھی ہو ،جہاں غلطی ہے، اصلاح اسی کی ہونی چاہیے ۔ فائدہ دین کے معاملے میں کسی غلطی کو گوارا کرنے کے لیے دلیل نہیں ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ بہت سے دینی گروہوں کی طرف سے یہ فائدہ ہی بنیادی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔یہ بات بڑے اصرار سے کہی جاتی ہے کہ آپ ہمارے طریقے کو اختیار کرلیں ۔ جب آپ اس کے فوائد کا تجربہ کر لیں گے ، خود ہی اس مسلک کی صحت کے قائل ہو جائیں گے ۔
ہمیں حیرت ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کارِ دعوت کے ۲۳ برسوں میں پہلے قریشِ مکہ اور پھر یہود و نصاریٰ کے ساتھ دین کے ہر ہر پہلو پر گفتگو جاری رہی،لیکن کسی بھی موقع پر فائدے کی یہ دلیل پیش نہیں کی گئی ۔ ہر ہر اعتراض کے جواب میں استدلال ہی کے طریقے کو اختیار کیا گیا ۔
دین ایک وحدت ہے ۔ مزید یہ کہ تزکیۂ نفس کا پورا نصاب ہے ۔ اس کے حوالے سے وہی چیز قابل قبول ہے ، جو اس کے ساتھ ہر لحاظ سے ہم آہنگ ہو۔
طالب محسن
_______
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے حنے (یعنی کجاوے کی لکڑی) کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ آپ نے فرمایا : معاذ، جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پرکیا ہے اور بندوں کا اپنے اللہ پر کیا حق ہے ؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں ۔ اور (اس کے نتیجے میں) اللہ پر بندوں کا یہ حق قائم ہو جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں ، عذاب نہ دے۔ حضرت معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا میں لوگوں کو اس بات کی بشارت نہ دے دوں ۔ آپ نے فرمایا کہ تم ان کو بشارت نہ دو ، ایسا نہ ہو کہ وہ (اس بات کا غلط مفہوم لے کر محض زبانی اقرار پر) تکیہ کر کے بیٹھ جائیں ۔ (مشکوۃ ، رقم ۲۴)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی تربیت کا یہ طریقہ بھی اختیار فرماتے تھے کہ بعض اہم باتیں سوالات کی صورت میں ان سے پوچھتے تھے ۔ ایسی صورت میں صحابۂ کرام بالعموم اللہ و رسولہ اعلم (اللہ اوراس کے رسول بہتر جانتے ہیں) کہتے تھے۔ وہ یہ اسلوب حصول علم کے لیے اختیار کرتے تھے تاکہ حضور کو جو کچھ ارشاد فرمانا ہے ، وہ فرما دیں تاکہ انھیں تعلیم اور ہدایت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوں ۔
اللہ ہی کو الہٰ ماننا اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا وہ بنیادی مطالبہ ہے جو قرآن میں دین کی جامع دعوت کے طور پر بیان ہوا ہے ۔ قرآن میں پیغمبروں کی سیرت کے مطالعے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سارے نبیوں اور رسولوں نے خداے واحد کی بندگی کی طرف بلانے سے اپنی دعوت کا آغاز کیا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز میں سورۂ فاتحہ کی قرأت کو لازم قرار دیا ہے ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں ’’اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ کے الفاظ میں دین کا بنیادی مطالبہ موجود ہے ۔ اس سے بندے کو نمازوں میں اس عظیم حقیقت کی بار بار یاددہانی ہوتی رہتی ہے اور اس طرح وہ شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے ۔
عبادت میں پرستش اور اطاعت دونوں چیزیں شامل ہیں یعنی جیسے مراسم عبودیت (نماز، روزہ وغیرہ) ضروری ہیں ، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی خدا کی فرماں برداری کرے ۔
دین کے اس بنیادی مطالبے کو شعوری طور پر مان لینے کے بعد بندے کے اپنے خدا سے بے پروائی اور سرکشی کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں ۔ اللہ کی اطاعت کے بغیر محض مراسم عبودیت کی ادائیگی ایک معاشرتی عمل بن کر رہ جاتی ہے جس کی کوئی دینی حیثیت باقی نہیں رہتی اور خدا کے ہاں اس کی عبادت بے وزن قرار پاتی ہے ۔
خداے واحد کی پرستش کے نتیجے میں اللہ پر بندے کا حق قائم ہو جانا کوئی معمولی چیز نہیں ہے ۔ خداہی کو الہ ماننا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا محض عقیدہ نہیں ہے ، بلکہ ایک رویے کا نام ہے۔ اس کے نتیجے میں بندہ کبھی اپنے اللہ کے بارے میں بے پروا نہیں ہوتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بسا اوقات وہ غلطیاں کرتا ہے ، اس سے خطائیں ہو جاتی ہیں ۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس سے بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہو جائے ۔
اس پر متنبہ ہونے پر وہ نادم ہوتا ہے اور آیندہ گناہ نہ کرنے کے عہد کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جاتا ہے اور توبہ کرتا ہے ۔
حدیث کے آخر میں حضرت معاذ کو لوگوں کو بشارت دینے سے منع کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے آپ نے ’لا مبشرھم فیتکلوا‘(تم ان کو بشارت نہ دو ایسا نہ ہو کہ وہ تکیہ کر کے بیٹھ جائیں) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توحید کے اقرار اورشرک سے اجتناب کے نتیجے میں جنت کی بشارت دراصل پورے دین پر عمل پیرا ہونے کی تمہید ہے ، لیکن یہاں محض اقرار مطلوب نہیں ہے ، بلکہ اصل مقصود پورے دین پر عمل پیرا ہونا ہے ۔ عمل کے بغیر ایمان دراصل قانونی ایمان ہے اس کی آخرت میں کوئی قدروقیمت نہ ہو گی۔ ایمان کا لازمی نتیجہ ایسے عمل صالح کی صورت میں نکلنا چاہیے جو اس کی پوری زندگی پر محیط ہو ۔ اگر یہ سچ برآمد نہیں ہوتا تو بندے کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے اور اسے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ وہ محض زبانی اقرار کی بنا پر اس بشارت کا حق دار نہیں ہو سکتاجو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
محمد اسلم نجمی
_______
نیک لوگ بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جنھیں ان کی نیکی ، تقویٰ او رپارسائی نے خدا کی معرفت سے نوازا ہوتا ہے ۔ دوسرے وہ جن کی عبادت و ریاضت، فضل و کمال اور منصب و مرتبہ نے انھیں خدا سے زیادہ اپنی ذات کا عرفان بخشا ہوتا ہے۔ ظاہری سیرت و کردار کے اعتبار سے اکثر دونوں گروہ ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں ۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں جو کسوٹی بن کر یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ کون سا گروہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مستحق ہے اور کون سا گروہ اس کے غضب کا حق دار ہے ۔
اس طرح کے حالات کے پیش آنے کی ایک صورت وہ ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کی موجودگی میں اور ان کے سامنے کسی ایسے شخص کو بلند مرتبہ عطا کرے جس سے یہ خود کو برتر خیال کرتے ہوں ۔ اگر یہ نیکو کار پہلے گروہ سے ہوتا ہے تو اس کا ذہن فوراً خد ا کی بے حساب بخشش اور عطا کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ وہ منہ کے بل اپنے مالک کے حضور گڑ پڑتا ہے ۔ اس کی زبان سے معرفت کے اعلیٰ ترین کلمات نکلتے ہیں ۔ اس کے زمین بوس وجود سے وہ دعائیں نکلتی ہیں جو آسمان کا سینہ چیرتی ہوئی عرش قبولیت تک جا پہنچتی ہیں ۔ اس کا عجز بارگاہ ربوبیت میں اس طرح ملتجی ہوتا ہے کہ مالک تو نے اپنی کتاب میں یہ سکھایا ہے کہ جب حق داروں کو حق دیا جا رہا ہو اور ایسے میں کوئی سوالی آ جائے تو اسے بھی ازراہ عنایت کچھ نہ کچھ دے دینا چاہیے ۔ مولیٰ تو نے اپنے اس بندے کو جو کچھ دیا یقیناًاپنے علم و حکمت کی بنا پر دیا ہے ۔ لیکن اس تقسیم کے وقت میں بھی ایک سائل بن کر تیری بارگاہِ کرم میں حاضر ہو گیا ہوں ۔ اے رب تو مجھے وہ کچھ بلا استحقاق دے دے جو تو دوسروں کو استحقاق کی بنا پر دیتا ہے۔
خدا کی شان کریمی یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ جس کرم کی اس نے دوسروں کو تلقین کی ہے ، وہ خود اس کا اظہار نہ کر ے ۔ چنانچہ پھر اللہ کی رحمت مانگنے والے پر برستی ہے اور اس طرح برستی ہے کہ دنیا دیکھتی ہے ۔ مانگنے والے کی جھولی عطاو بخشش کے خزانوں سے بھر دی جاتی ہے ۔ خدا کے سامنے ذلیل ہونے ولا انسانوں کے سروں کا تاج بنا دیا جاتا ہے ۔ یہ خدا کا فضل ہے، وہ جسے چاہے عنایت کرے ۔ بے شک اللہ بہت بلند اور بڑا صاحب جودوکرم ہے ۔
اس کے برعکس دوسری قسم کے نیکو کاروں کے سامنے پیش آنے والا ایسا کوئی بھی واقعہ ان کے قصر پندار پر حملے کے مترادف ہوتا ہے ۔ یہ ان کے مینارۂ عظمت کو زمین بوس کر دیتا ہے ۔ خدا کی بخشش ہمیں چھوڑ کر دوسرے کی طرف متوجہ ہو ، ان کا نفس یہ گوارہ نہیں کر سکتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے دل میں اس شخص کے خلاف حسد، بغض اور عداوت پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ ان کا تکبر انھیں اللہ المتکبر سے بھڑا دیتا ہے ۔ اس کا تو خیر کیا بگڑنا ہے ، حسدو تکبر کی یہ آگ ان کا اپنا نشیمن جلا ڈالتی ہے ۔ خدا کا قہر ان پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔ وہ بارگاہ رب سے مردود کر دیے جاتے ہیں ۔
ان دونوں قسم کے نیکوکاروں کی مثال قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔ پہلے گروہ کی مثال سیدنا زکریا علیہ السلام کی شخصیت ہیں۔ وہ اپنے وقت کے نبی اور آل یعقوب کی وراثت کے حامل تھے ۔ اس کے ساتھ وہ حضرت مریم کے خالو اور ان کے متولی بھی تھے ۔ انھوں نے جب حضرت مریم کے پاس خدا کا خصوصی رزق اترتے دیکھا تو یہ نہیں سوچا کہ کل کی اس لڑکی پر جو خود ان کی نگرانی میں تھی ، خدا کا یہ احسان کیوں ہوا اور ان پر خدا کی یہ عنایت کیوں نہیں ہوئی ؟ بجائے اس کے کہ وہ اس لڑکی سے حسد کرتے انھوں نے فوراً اپنا رخ خدا کی طرف کر دیا۔ اپنے وجود کی تمام تر بے کسی کے ساتھ انھوں نے اپنی خالی جھولی خدا کے سامنے پھیلا دی ۔ اللہ تعالیٰ کی شان عطا نے ان کی جھولی منہ مانگی مراد سے بھر دی ۔ جو اسباب ہوتے ہوئے عمر بھر نہ دیا ، وہ آج سارے اسباب منقطع ہونے کے بعد دے دیا۔ اس حال میں کہ خود بوڑھے اور بیوی بانجھ ہو چکی تھی ۔ اور دیا بھی تو یحییٰ جیسا جلیل القدر نبی جس کی تعریف میں خود اس نے سردار، پاک باز اور نبی صالح کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر قرآن میں مریم و عیسیٰ کے تذکرے کے ساتھ زکریا اور یحییٰ کا ذکر کر کے اس واقعے کو ابدی زندگی دے دی ۔
دوسرے گروہ کی نمائندہ مثال ابلیس ہے ۔ خدا نے اس کے سامنے آدم کو خلیفہ بنایا ۔ چاہیے یہ تھا کہ وہ خدا کے حکم کے آگے سجدے میں گر پڑتا۔ مگر تکبر اور حسد کی آگ نے اسے اندھا کر دیا ۔ اس کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف اپنی ذات کی تھی ۔ اس لیے اس معاملے کو وہ اپنا اور آدم کا معاملہ سمجھا۔ وہ یہ نہ جان سکا کہ دراصل یہ خدا اور اس کا معاملہ ہے ۔ اس نے خدا کا فیصلہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس نے خدا سے بغاوت کر دی ۔ چنانچہ خدا کا غضب بھڑکا اور اس طرح بھڑکا کہ وہ کائنات کا واحد بد نصیب بن گیا جس نے خدا کے سامنے کھڑے ہو کر معافی مانگنے کے بجائے سرکشی کی مہلت مانگی ۔
یہ مضمون صرف نیک لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے ۔ ان لوگوں کے لیے جن کے لیے نیکی کی راہ آسان کر دی گئی ہے ۔ تاکہ وہ اس آسان راہ کی مشکل گھاٹی کو جان لیں ۔ وہ جان لیں کہ نیک ہونے میں کوئی بھلائی نہیں ۔ اصل بھلائی خدا کے لیے نیک ہونے میں ہے ۔
ریحان احمد یوسفی
_______
میرے ایک جاننے والے صاحب کی دعا کا پہلا جملہ کچھ اس طرح ہوتا ہے :
’’یا اللہ ! جس طرح مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نعمت جو مجھے یا کسی کو بھی ملی ، اس کا دینے والا صرف تو ہے ، اسی طرح مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ جس کو جو ملا ، وہ اس کی کسی خوبی کی بنا پر نہیں ملا ، بلکہ صرف تیری خوبیوں کی بنا پر ملا ہے ۔ میں تیری ہر نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیری ہر خوبی پر تیری حمد بیان کرتا ہوں۔‘‘
بلاشبہ یہ الفاظ معرفت کے الفاظ ہیں ۔ یہ اس عظیم حقیقت کا اعتراف ہیں جو عالم میں چار سو پھیلی ہے ۔ یہ توحید کی مکمل تعریف ہے ۔ خدا کو ایک ماننا جتنا اہم ہے ، اتنا ہی اہم یہ ہے کہ اسے ہر نعمت ، خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ مانا جائے ۔ پہلی بات سے پہلو تہی کے نتیجے میں شرک پیدا ہوتا ہے تو دوسری بات کو فراموش کر کے انکار خدا یا کم از کم اعراض خدا کا ذہن جنم لیتا ہے ۔ شرک والی بات سے تو اکثر لوگ واقف ہیں ، مگر دوسری بات کا شعور عام نہیں ۔ اس لیے آج کل اکثر لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔
انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو ان گنت نعمتوں کے درمیان پاتا ہے ۔ یہ نعمتیں اس قدر ہیں کہ انسان ساری زندگی انھیں گنتا رہے تو زندگی ختم ہو جائے گی ،مگر نعمتیں ختم نہیں ہوں گی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کی زبان سے مذکورہ بالا الفاظ نکلیں۔ مگر انسان کا معاملہ بڑا عجیب ہے ۔ وہ صرف ان نعمتوں کو نعمت شمار کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ گویا نعمت کا مفہوم اس کے نزدیک یہ ہے کہ وہ بھلائی جو دوسروں کو پہنچی ،مگر اسے نہ پہنچی ۔ یہ سوچ لازماً ایسے اعمال کو جنم دے گی جن کی توقع کسی خدا پرست سے نہیں کی جا سکتی ۔ بلاشبہ یہ رویہ اختیار کرنا بدترین درجے کی بدقسمتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے پاس ہرحال میں کھونے کے لیے اتنا کچھ ہوتا ہے جس کے مقابلے میں نہ ملی ہوئی یا مل کر چھن جانے والے چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی ۔
مثال کے طور پر آج کل کا ایک بڑا اہم مسئلہ مالی تنگی ہے ۔ لوگوں کے اخراجات آمدنی کے مقابلے میں اتنے کم ہو گئے ہیں کہ گزارا کرنا مشکل ہو تا جارہا ہے ۔ ایسے میں لوگ شکوے شکایت کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ مزاج میں چڑچڑا پن آ جاتا ہے۔ وہ دوسروں اور خصوصاً زیردستوں سے بدخلقی سے پیش آنے لگتے ہیں ۔ آسمان والے سے بھی انھیں رنجش ہو جاتی ہے ۔ ان کے مطابق اس نے انھیں دیا ہی کیا ہوتا ہے ۔ وہ اس سے بے پروا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کی شکر گزاری سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ اس کی بندگی سے بے رغبت ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں کوئی ان سے دریافت کرے کہ اگر آسمان والا انھیں ساری دنیا کے خزانے دے دے اور صرف ان کی آنکھیں چھین لے ۔ کیا وہ یہ سودا پسند کریں گے ؟ کیا وہ چاہیں گے کہ وہ گاڑیوں میں بیٹھیں ، لیکن بیساکھیوں کے سہارے؟ کیا وہ لاکھوں روپے کے ایسے بینک اکاؤنٹ رکھنا پسندیں گے جن کی چیک بکس تو ان کے پاس ہوں ، مگر ان پر سائن کرنے والے ہاتھ نہ ہوں؟ کیا وہ چاہیں گے کہ انھیں محل و جائداد مل جائے ، لیکن اولاد لے لی جائے ؟ کوئی یہ نہیں چاہے گا۔ پھر لوگوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پچاس سال تک عیش و عشرت کی ایسی زندگی گزارنا پسند کریں گے جس کے بعد، زیادہ نہیں صرف پچاس ہزار سال تک آگ میں جلنا پڑے ؟
اگر جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے تو ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے گا کہ آپ ایک مہربان کی ناقدری مت کیجیے ۔ اس کریم کی احسان فراموشی مت کریں جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا ہے ۔ جس نے بلا جبر اور بلا استحقاق ہمیں اتنا کچھ دیا ہے جو کسی نے دیا ہے نہ دے سکتا ہے ۔ اس دنیا میں جس کو اچھی اولاد ملے ، وہ خوش نصیب گنا جاتا ہے ۔ جسے اچھاشوہر یا بیوی ملے ، اچھا استاد ملے ، اچھا دوست ملے، اچھا افسر ملے ، اچھا ہمسایہ ملے وہ خوش قسمت شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ انسان بڑا خوش نصیب ہے کہ اسے اچھا رب مل گیا ہے ۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کا واسطہ ایک ایسی ہستی سے ہے جس کی طرف سے انھیں ہرحال میں بھلائی ہی پہنچے گی ۔ اور یہ بھلائی وہ لوگوں کو ان کی خوبیوں کی بنا پر نہیں دیتا، اپنی خوبیوں کی بنا پر دیتا ہے ۔
زندگی میں اور کچھ نہیں کیا تو قرآن کی صرف اس ایک آیت کو سمجھ لیں ۔ یہی ایک آیت ہدایت کے لیے کافی ہے ۔ یہی ایک آیت نجات کے لیے کافی ہے۔
ریحان احمد یوسفی
____________