HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’’جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست اور پاکستان کا مستقبل‘‘

مصنف: سعید ملک مرحوم

مرتب: مقبول الرحیم مفتی

صفحات:۲۸۰

قیمت:۱۵۰ روپے

ناشر: دارالتذکیر، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار ، لاہور


جناب سعید ملک مرحوم کی زیر تبصرہ کتاب اصلاً جماعت اسلامی کی اس حکمت عملی پر تنقید ہے جو ایک مرحلے پر جماعت میں ایک وسیع تر اختلاف کی بنیاد بنی اور اس کے نتیجے میں مولانا مودودی کے بعدجو لوگ جماعت میں اہم ترین شمار کیے جاتے تھے، جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے۔ جماعت کی تاریخ میں اس حادثے کو ماچھی گوٹھ کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ایک قصبہ ہے جہاں ۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماع ارکان منعقد ہوا تھا۔

مصنف کا دعویٰ اگرچہ یہ ہے کہ اس کتاب میں کسی خاص گروہ یا جماعت پر تنقید نہیں ہے اور شاید اسی وجہ سے انھوں نے اس کا نام ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ تجویز کیا تھا،لیکن کتاب کے مطالعہ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس کتاب کے لیے موزوں نام وہی ہے جو جدید ایڈیشن کے مرتب نے اسے دیا ہے۔

جناب سعید ملک کی اس کتاب کے زیر تبصرہ ایڈیشن میں تین طرح کے موضوعات پر مواد شامل ہے:

۱۔ مصنف کا تصور انقلاب اورتصور تاریخ

۲۔ جماعت اسلامی کی تبدیل شدہ حکمت عملی پر تنقید

۳۔ جماعت اسلامی کے داخلی انتشار اور جناب سعید ملک کی جماعت سے علیحدگی کے حوالے سے بعض دستاویزات

مصنف کا تصور انقلاب اور تاریخ وہی ہے جس کے خدوخال مولانا مودودی کی ابتدائی تحریروں میں نمایاں ہوئے۔ مولانا تحریک پاکستان کے حوالے سے جو خیالات رکھتے تھے، مسلم لیگ کی قیادت کے بارے میں ان کا جو نقطۂ نظر تھا اور پھر وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جس ہمہ گیر تبدیلی کے قائل تھے، مصنف نے کم وبیش ان سب خیالات کو اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے ۔ مثال کے طور پر جناب سعید ملک کے نزدیک تحریک پاکستان اسلام کے لیے نہ تھی ۔ اسی طرح وہ قائد اعظم کی قیادت کے بارے میں مذہبی حلقے کی طرف سے پیش کی گئی اس دلیل پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں کہ ان کی حیثیت مسلمانان ہند کے وکیل کی ہے اور وکیل کے لیے لازم نہیں کہ وہ اپنے موکل کے تمام خیالات سے اتفاق رکھتا ہو ۔ اس اعتبار سے یہ کتاب مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پر کوئی فکری تنقید نہیں۔ مصنف کا کہنا یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی ہمہ گیر فکری تبدیلی لائے بغیر دستورسازی یا سیاسی تبدیلی کی کوئی کوشش اول تو کامیاب نہیں ہو سکتی اور اگر ہو جائے تو نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔اس حوالے سے ان کا موقف یہ ہے کہ بنیادی فکری تبدیلی کے بغیر عملی سیاست میں جماعت کی سرگرمی کے ساتھ شرکت نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔

ہمارے نزدیک یہ بات پوری طرح درست ہے۔ چالیس پچاس برس پہلے کہی جانے والی یہ بات ممکن ہے کہ اس وقت محض ایک خیال ہو ، لیکن آج ہمارے سامنے اسلامی انقلاب کے لیے کی گئی نصف صدی پر محیط ایسی جدو جہد ہے، جس کاکوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہر حربہ اور طریقہ اختیار کرکے دیکھ لیا گیا اور ہر بار یہ ثابت ہوا کہ جب تک معاشرے میں کوئی بنیادی فکری تبدیلی نہیں آتی، سیاسی سرگرمیوں کی کثرت کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان تجربات سے اب یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ کسی اسلامی انقلاب کے آئیڈیل سے قطع نظر عام سیاست دانوں کی طرح کا رویہ اپنا کر بھی مذہبی لوگ یہ چاہیں کہ کوئی سیاسی تبدیلی لے آئیں تو اس کا بھی کوئی امکان نہیں۔ گویا یہ حکمت عملی اصولی اعتبار سے تو ناکام ثابت ہوئی ہی ہے، عملی اعتبار سے بھی ثمر بار نہیں ہوئی۔

تاہم ہمارا خیال ہے کہ اس وقت کی جماعت اسلامی کی قیادت کو اس بات سے اصولی اختلاف نہیں تھا۔ ان کا اجتہاد تھا کہ جماعت نے اتنا فکری کام کر لیا ہے کہ اگرا ب وہ عملی سیاست پر اپنی توجہ مرتکز کرے تو تبدیلی آسکتی ہے۔جماعت کی قیادت کا یہ اجتہاد ظاہر ہے کہ درست ثابت نہیں ہوا۔ اس کے بعد ہونا یہ چاہیے تھا کہ سیاسی ناکامیوں کے بعد جماعت اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرتی اور انقلاب کے پہلے مرحلے، یعنی فکری تبدیلی کو سیاسی تبدیلی کی جگہ اپنے لائحۂ عمل میں مرکزی حیثیت دیتی، لیکن جماعت کی قیادت نے اس باب میں کسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ:

سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

جناب سعید ملک کا کہنا ہے کہ فکری انقلاب کے بغیر کسی نظام کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک :

’’انقلاب فکر سے قبل انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے کے دو ہی نتائج ہو سکتے ہیں: یا تو وہ تحریک قائم شدہ قدروں سے بتدریج مصالحت کر کے اپنی قدریں کھو بیٹھے گی یا پھر متواتر شکست کھا کر اس کے کارکن اور موئدین مایوسی کے عالم میں گوشۂ تنہائی اختیار کر لیں گے۔‘‘( ۱۰۹)

کم و بیش پچاس برس کے بعد ہم اس رائے میں اتنا اضافہ کریں گے کہ مصنف کو ’’یا‘‘ کے بجائے ’’اور‘‘ کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا۔

جماعت اسلامی کی حکمت عملی پر مصنف نے جو اصولی تنقید کی ہے اور جس کا ہم نے سطور با لا میں ذکر کیا ہے، اس سے ہمیں فی الجملہ اتفاق ہے، تاہم جماعت پر تنقید کے ضمن میں انھوں نے دو ایسے اعتراضات اٹھائے ہیں جن سے ہمیں اتفاق نہیں ہو سکا۔ ان کا ایک اعتراض تو جماعت کی اس مہم پر ہے جو ’’مطالبۂ دستور اسلامی‘‘ کے تحت چلائی گئی۔ اس پر ان کا بنیادی اعتراض یہ ہے :

’’دنیا میں آج تک کسی نظام کے قیام کی ابتدا تدوین دستور سے نہیں ہوئی اور نہ تاریخ اقوام میں کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ کوئی دستور قیام نظام کا ذریعہ ثابت ہوا ہو۔‘‘ ( ۱۴۵)

وہ یہ بھی کہتے ہیں :

’’ایسا دستور آج تک مرتب نہیں کیا گیا جو حکمرانوں کا ہاتھ پکڑ کر انھیں کسی خاص نظام کو برپا کرنے پر مجبور کر دے۔‘‘( ۱۴۷)

اس تنقید میں دوباتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایک جدید ریاست میں دستور کی اہمیت ہے۔ انسانی فکر کے ارتقاکا یہ ایک مثبت پہلو ہے کہ آج انسان اجتماعی زندگی کو قائم اور محفوظ رکھنے کے لیے کسی عمرانی معاہدے کی ضرورت پر متفق ہیں۔ اس معاہدے یا دستور کی وجہ سے شخصی آمریت کے دروازے بند ہوئے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی دستور حکمرانوں کا ہاتھ پکڑ کر انھیں من مانی کرنے سے روکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دستور سے انحراف کی بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں ، لیکن اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دستور اجتماعیت کی تشکیل میں بہت بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے اگر دستور کی اس اہمیت کو محسوس کیا تو یہ اس کی بصیر ت کی دلیل ہے۔

دوسرا یہ کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک نئی ریاست کو جوناگزیراقدام کرنا تھے ، ان میں ایک نئے دستور کی تدوین بھی تھی۔ اس لیے مجلس دستور ساز کے قیام کے ساتھ ہی اس حوالے سے پیش رفت کا آغاز ہو گیا تھا۔ گویا یہ صورت حال جماعت اسلامی کی نہیں، حالات کی پیدا کردہ تھی۔ مصنف کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ کوئی جماعت خلا میں رہ کر کام نہیں کر سکتی، وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتی ہے، لہٰذا جب دستور سازی کا مرحلہ شروع ہو گیا تو جماعت کے لیے اس سے لاتعلق رہنا ممکن نہیں تھا۔ اس وقت تو یہی خیال تھا کہ اب جو دستور بن جائے گا، وہ ہمیشہ کے لیے ہو گا۔ اس لیے اگر جماعت نے یہ کوشش کی کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہو تو اسے اس مرحلے پر ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔

مصنف اپنی تنقید میں جماعت کی اس خدمت کو بھی نظرانداز کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کمیونزم کی فکری یلغار کو روکنے کے لیے اس نے سر انجام دی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی چیز کمیونزم کے طوفان کے سامنے بند باندھے ہوئے ہے تو وہ مسلمانوں کی اسلام سے جذباتی وابستگی ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ کمیونزم پاکستان میں ایک عام آدمی کا مسئلہ کبھی نہیں رہا۔ اس نے اگر اپنا حلقۂ اثر پیدا کیا تو وہ ملک کے تعلیمی ادارے تھے یا ادبی حلقے۔ ان حلقوں میں اگر کوئی چیز کمیونزم کے فروغ کو روک سکتی تھی تو وہ اسلام کے ساتھ محض جذباتی وابستگی نہیں تھی ، بلکہ وہ فکری کام تھا جو کمیونزم کی نظری اساسات کو ہدف تنقید بنا سکتا تھا۔ اس باب میں بہرحال جماعت اسلامی نے ایک خدمت سرانجام دی اور اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔

کتاب کا تیسرا حصہ جناب سعید ملک اور جماعت اسلامی کے اختلافات کے حوالے سے بعض دستاویزات پر مشتمل ہے۔ یہ اصل کتاب پر اضافہ ہے اور ہمارے خیال میں اس اضافے سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک اصل کتاب کا تعلق ہے تو اس دور میں یقیناًاس کی اہمیت تھی جب یہ پہلی مرتبہ شائع ہوئی، کیونکہ اس موضوع پر شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، لیکن آج اس حوالے سے بے شمار تنقیدی اور تحقیقی کام ہو چکا ہے۔ آج اس نوعیت کی کتاب، ایک تاریخی اہمیت تو رکھتی ہے، علمی و تنقیدی حوالے سے شاید بہت اہم قرار نہ دی جا سکے۔ تاہم جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ جدید ایڈیشن میں بعض اضافوں کے باعث اس کی اہمیت اس لحاظ سے بڑھ گئی ہے کہ یہ اس اختلافی عمل کی فکری اور عملی بنیادوں تک رسائی آسان بنا دیتی ہے۔جس نے جماعت کی تنظیم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی سے سعید ملک مرحوم نے استعفیٰ کیوں دیا اور پھر اس باب میں جماعت اسلامی کا ’’سرکاری‘‘ موقف کیا تھا۔ دونوں باتیں خود ان کے اپنے الفاظ میں بیان ہو گئی ہیں جس سے معاملے کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔

ایک بات البتہ ایسی ہے، جس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے بارے میں تین نقطہ ہائے نظر پیش کیے گئے ہیں۔

۱۔ مرتب نے مرحوم کے بیٹے سے یہ روایت کیا ہے کہ سعید ملک صاحب نے اپنے طور پر یہ کتاب برائے اشاعت ایک پبلشرکو دی۔ جماعت کو اس کی خبر ہو گئی اور پبلشرسے مسودہ لے کر اسے مولانا مودودی تک پہنچا دیا گیا۔ بعد میں جب ملک صاحب مصطفے صادق صاحب کے ساتھ مولانا سے ملنے گئے تو انھوں نے اس کتاب کا ذکر کیا۔ سعید ملک نے کہا کہ جب یہ کتاب ابھی شائع ہی نہیں ہوئی تو آپ کو کیسے خبر ہوگئی؟ جب انھیں معلوم ہوا کہ مسودہ جماعت تک پہنچ چکا ہے تو انھوں نے دھمکی دی کہ وہ مسودے کی چوری کی رٹ درج کرائیں گے۔ اس ’’رسوا کن‘‘ صورت حال سے بچنے کے لیے یہ مسودہ واپس کر دیا گیا۔

۲۔ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے ناشر جناب ارشاد احمد حقانی نے نئے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا ہے کہ جب یہ مسودہ جماعت کی قیادت تک پہنچ گیا تو ملک صاحب نے پبلشر کو دھمکی دی کہ اگر مسودہ واپس نہ کیا تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی ۔

۳۔ جناب میاں طفیل محمد کا بیان ہے کہ ملک صاحب کتاب پریس کے حوالے کر چکے تھے کہ جماعت کو اس کارروائی کی اطلاع ہوئی۔ جماعت کے ذمہ دار لوگوں نے ان کو سمجھایا کہ وہ رکن جماعت ہوتے ہوئے یہ کام نہیں کر سکتے، البتہ جماعت سے الگ ہو کر وہ اس طرح کی تنقید کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔ ملک صاحب نے اس اعتراض کو تسلیم کیا اور اشاعت روک دی۔

کتاب کی اشاعت سے متعلق یہ تین بیانات ہیں جو نئے ایڈیشن میں موجود ہیں۔ بہتر ہوتا اگر مرتب کتاب ان روایات کی تخریج کرتے اور اس حوالے سے کوئی ایک رائے قائم کی جاتی۔

____________

B