بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
گزشتہ سے پیوستہ
اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَارَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلاَجِدَالَ فِی الْحَجِّ، وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ، وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی، وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ ۔ {۱۹۷}
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ۔{۱۹۸}
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ، وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ {۱۹۹}
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا۔ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ،{۲۰۰} وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ ٰاتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔{۲۰۱} اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا، وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔ {۲۰۲}
وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْ ٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ {۲۰۳}
حج ۵۳۸ کے متعین مہینے ہیں ۔ ۵۳۹ سو اِن میں جو شخص بھی (احرام باندھ کر)حج کا ارادہ کر لے ، ۵۴۰ اُسے پھر حج کے اِس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے ، نہ خدا کی نافرمانی کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اُس سے سرزد ہونی چاہیے ۔ ۵۴۱
اور (یاد رہے کہ) جو نیکی بھی تم کرو گے ، اللہ اُسے جانتا ہے ۔ اور (حج کے اِس سفر میں تقویٰ کا) زاد راہ لے کر نکلو، اِ س لیے کہ بہترین زاد راہ یہی تقویٰ کا زاد راہ ہے ۔ ۵۴۲ اور عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔ ۱۹۷
(اِس کے ساتھ، البتہ) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو ، ۵۴۳ لیکن (یاد رہے کہ مزدلفہ کوئی کھیل تماشے اور تجارت کی جگہ نہیں ہے ، اِس لیے) جب عرفات سے چلو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اُسی طرح یاد کرو ، جس طرح اُس نے تمھیں ہدایت فرمائی ہے۔ ۵۴۴ اور اِس سے پہلے تو بلاشبہ تم لوگ گم راہوں میں تھے ۔ ۵۴۵ ۱۹۸
پھر (یہ بھی ضروری ہے کہ) جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں ، تم بھی ، (اے قریش کے لوگو)، وہیں سے پلٹو ۵۴۶ اور اللہ سے مغفرت چاہو ۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے ۔ ۱۹۹
(اور یہ بھی کہ) اِس کے بعد جب حج کے مناسک پورے کر لو تو جس طرح پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو ، اُسی طرح اب اللہ کو یاد کرو، بلکہ اُس سے بھی زیادہ ۔ ۵۴۷ (یہ اللہ سے مانگنے کا موقع ہے ) ، مگر لوگوں میں ایسے بھی ہیں کہ وہ (اِس موقع پر بھی) یہی کہتے ہیں کہ پروردگار ، ہمیں دنیا میں دے دے ، ۵۴۸ اور (اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر) آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔ اور ایسے بھی ہیں کہ جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ پروردگار، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرمااور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔ ۵۴۹ یہی ہیں جو اپنی کمائی کا حصہ پا لیں گے ، اور اللہ کو حساب چکاتے کبھی دیر نہیں لگتی ۔ ۵۵۰ ۲۰۰۔ ۲۰۲
اور (منیٰ کے) چند متعین دنوں ۵۵۱ میں اللہ کو یاد کرو۔ پھر جس نے جلدی کی اور دو ہی دنوں میں چل کھڑا ہوا، اُس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو دیر سے چلا اُس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔ ۵۵۲ (ہاں، مگر) اُن کے لیے جو اللہ سے ڈریں ۵۵۳ اور تم بھی اللہ سے ڈرتے رہو ، اور خوب جان لو کہ (ایک دن) تم اُسی کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے ۵۵۴ ۔ ۲۰۳
۵۳۸؎ موقع دلیل ہے کہ حج کا لفظ یہاں علی سبیل التغلیب حج اکبر اور حج اصغر، یعنی حج و عمرہ ، دونوں ہی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
۵۳۹؎ یعنی یہ کچھ ایسی لامحدود اور غیر متعین مدت نہیں ہے کہ اس کی پابندیوں سے لوگ ہراساں ہوں ۔ زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی بات ہے ۔ بندۂ مومن کو حوصلے کے ساتھ اور خدا سے ڈرتے ہوئے یہ مدت پوری احتیاط کے ساتھ گزارنی چاہیے ۔
۵۴۰؎ اصل میں ’فمن فرض فیھن الحج‘کے الفاظ آئے ہیں ۔ ان میں ’فرض فیھن‘ کا اسلوب دلیل ہے کہ اس سے مراد وہی وقت ہے ، جب آدمی احرام باندھ کر حج کاپختہ عزم کر لیتا ہے ۔
۵۴۱؎ یہاں جن تین چیزوں سے منع کیا گیا ہے ، ان کی ممانعت کے وجوہ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اس طرح واضح فرمائے ہیں :
’’ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلام میں یہ عبادت انسان کو ترک دنیا اور زہد کی اس آخری حد سے آشنا کرنے والی ہے جس سے آشنا ہونا اسلام میں مطلوب و مرغوب ہے اور جو تربیت و تزکیہ کے لیے ضروری ہے ۔ اس سے آگے رہبانیت کی حدیں شروع ہو جاتی ہیں جن میں داخل ہونے سے اسلام نے روکا ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ احرام کی پابندیوں کی وجہ سے ان چیزوں کے لیے نفس کے اندر اکساہٹ بہت بڑھ جاتی ہے ۔ انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ جس چیز سے وہ روک دیا جائے ، اس کی خواہش اس کے اندر دوچند ہو جاتی ہے اور شیطان اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ سفر کی حالت ہونے کے سبب سے ان چیزوں کے مواقع بہت پیش آتے ہیں ۔ آدمی اگر چوکنا نہ رہے تو ہر قدم پر فتنہ میں پڑ سکتا ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۸۵)
۵۴۲؎ اصل الفاظ ہیں : ’تزودوا فان خیر الزاد التقویٰ‘۔عربیت کی ادا شناس جانتے ہیں کہ ’فان‘ کا لفظ جب اس طرح آتا ہے تو اپنے ما قبل کی توجیہ و تعلیل کے لیے آتا ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو ضروری ہے کہ ’تزودوا‘ کے بعد ’التقویٰ‘ کا لفظ اس جملے میں حذف مانا جائے ۔ اس کی کوئی دوسری تالیف یہاں کسی طرح موزوں نہیں ہو سکتی ۔
۵۴۳؎ اس سے مراد معاشی فوائد ہیں ۔ ’فضلاً من ربکم‘ کی تعبیر قرآن میں بالعموم اسی مفہوم کے لیے آئی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ حج کے سفر سے اصل مقصود تو حج ہی ہونا چاہیے ، لیکن اس میں کوئی مضایقہ نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی شخص اس سفر سے اپنے لیے کچھ معاشی فوائد بھی حاصل کر لے ۔
۵۴۴؎ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ جاہلیت میں لوگ مزدلفہ پہنچتے تو وہاں تسبیح و تہلیل اور ذکر و عبادت کے بجائے جگہ جگہ آگ جلاتے اور قصیدہ خوانی ، داستان گوئی اور مفاخرت کی مجلسیں منعقد کرتے تھے ۔
۵۴۵؎ مطلب یہ ہے کہ حج و عمرہ کے بارے میں اس رہنمائی کی قد رکرو جو قرآن کے ذریعے سے تمھیں دی جا رہی ہے ۔ اس سے پہلے تو اللہ کے مقرر کردہ ان شعائر کو تم نے کھیل تماشے کی جگہ بنا رکھا تھا۔ یہ خدا کی عنایت ہے کہ علم و معرفت کی ان جلوہ گاہوں کی حقیقت اس نے تم پر واضح کر دی ہے ۔
۵۴۶؎ اس ہدایت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش نے یہ امتیاز قائم کر لیا تھا کہ عرفات کی حاضری وہ اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے تھے اور مزدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بیت اللہ کے پروہت اور مجاور ہیں ، اس وجہ سے ان کے لیے حدودحرم سے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے ۔
۵۴۷؎ یعنی قیام منیٰ کے ایام میں اپنے باپ دادا کے لیے مفاخرت کی جو مجلسیں تم منعقد کرتے رہے ہو، ان کی جگہ اور ان سے زیادہ اہتمام اور جوش وخروش کے ساتھ تمھیں اب اپنے پروردگار کی یاد میں مشغول ہونا چاہیے ۔
۵۴۸؎ حج و عمرہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد غلامی کی تجدید اور ابلیس کے خلاف انسان کی ابدی جنگ کا نہایت روح پرور علامتی اظہار ہیں ، لیکن انسان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایسی عظیم عبادات کو بھی بالعموم اپنے دنیوی مفادات کے حوالے ہی سے دیکھتا ہے ۔
۵۴۹؎ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :
’’اس دعا سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ بندے کو اپنے رب سے دنیا اور آخرت ، دونوں کی بھلائی طلب کرنی چاہیے اور اس بھلائی کا فیصلہ اور انتخاب اسی پر چھوڑنا چاہیے ۔ وہی سب سے زیادہ بہتر طریقے پر جانتا ہے کہ ہمارے لیے حقیقی خیر کس چیز میں ہے ۔ خاص طور پر دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کا خیر ہونا تو منحصر ہے اس امر پر کہ وہ چیز ہمارے لیے آخرت کی کامیابی کا وسیلہ و ذریعہ بن سکے اور کسی چیز کے اس پہلو کو جاننا صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے ۔ اس وجہ سے بندے کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اس معاملے کو اللہ تعالیٰ ہی پر چھوڑے ، اپنی طرف سے کوئی تجویز پیش نہ کرے ۔ البتہ ، دوزخ کے عذاب سے برابر پناہ مانگتا رہے ۔ یہ بڑی سخت چیز ہے ۔ بندے کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے پناہ میں رکھے۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۸۸)
۵۵۰؎ موقع کلام دلیل ہے کہ یہاں یہ جملہ تسلی کے سیاق میں ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مطمئن رہو، خدا کے وعدوں کے پورے ہونے میں دیر نہیں ہو گی ۔ تمھارا اجر تمھیں ملے گا تو یہی سمجھو گے کہ تمھاری مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی تمھیں مل گئی ہے ۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے :
’’یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ان معاملات میں ساری اہمیت اس احساس کی ہے جو انسان کو جزاو سزا کے وقت ہو گا ۔ اگر جزا وسزا کے وقت کا احساس یہی ہو گا کہ عمل اور جزا کے درمیان کا فاصلہ اب بالکل غائب ہو گیا تو پھر یہ فاصلہ بالکل ناقابل لحاظ ہے ۔ پھر تو صحیح یہی ہے کہ مجرم اپنی سزا کو سامنے رکھے اور مومن اپنی جزا کو ۔ نہ وہ مہلت سے مغرور ہو نہ یہ تاخیر سے بے صبر۔ اور اگر کوئی شخص اپنی نافہمی سے اس فاصلے کو اہمیت دے بھی تو اسے یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ’من مات فقد قامت قیامتہ‘ کہ جو شخص مرا، اس کی قیامت کھڑی ہو گئی ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۸۹)
۵۵۱؎ اصل میں ’فی ایام معدودات‘ کے الفاظ ہیں ۔ یعنی گنے ہوئے دن ۔ یہ اسلوب جس طرح بیان تقلیل کے لیے موزوں ہے ، اسی طرح اگر غور کیجیے تو تعیین و تحدید کے لیے بھی بالکل موزوں ہے ۔ ہمارے نزدیک ، اس آیت میں یہ اسی دوسرے مفہوم میں ہے ۔
۵۵۲؎ یعنی اجازت ہے کہ کوئی شخص ۱۳ ذوالحجہ تک ٹھیرے یا ۱۲ کو واپس چلا آئے ۔ دونوں ہی صورتوں میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ یہ اس لیے فرمایا کہ عبادات میں جو چیز جس طرح متعین کر دی جائے ، اس میں جس طرح کمی جائز نہیں ہے ، اسی طرح اضافہ بھی جائز نہیں ہے ۔
۵۵۳؎ یعنی اصل اہمیت اس کی نہیں کہ لوگ کتنے دن ٹھیرے ، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے ، خدا کی یاد میں اور اس سے ڈرتے ہوئے ٹھیرے ۔ عبادت کی روح تقویٰ ہے ۔ رسوم و آداب سے یہی مقصود ہے ۔ یہ ہو تو دو دن بھی بہت ہیں اور نہ ہو تو دس دن کے قیام سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
۵۵۴؎ یہ آخر میں تنبیہ ہے کہ جس طرح یہاں اکٹھے ہو، روز حشر بھی اسی طرح خدا کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے ۔ یہاں سے بھاگ سکتے ہو ، لیکن اس دن کسی کے لیے بھی خدا کے حکم کے بغیر اس کے سامنے سے ہٹنا ممکن نہ ہو گا ۔
[باقی]
ــــــــــــــــــــــ