HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

مشرکین کے بچوں کا انجام

(مشکوۃ المصابیح ، حدیث ۹۴۔۹۵ )


عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ : سئل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عن ذراری المسلمین ۔ قال : اﷲ أعلم بما کانوا عاملین ۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں ( کے انجام )کے بارے میں پوچھا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر جانتے ہیں کہ وہ کیا کرنے والے ہوتے۔‘‘
لغوی مباحث

ذراری: ’ذریۃ‘ کی جمع ہے ۔ اس کا اطلاق انسانوں کی نسل پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح جنوں کی نسل کے لیے بھی یہی لفظ بول لیتے ہیں ۔ بسا اوقات اس میں بچے ہی نہیں بڑے بھی شامل ہوتے ہیں ۔ روایت میں اس سے چھوٹی عمر کے معصوم بچے ہی مراد ہیں ۔ایک بحث اس کے مادے سے متعلق بھی ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس کا مادہ ’ذرر‘ ہے ۔ اس کے معنی پھیلانے کے ہیں ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا مادہ ’ذرء‘ ہے ۔ اور ہمزہ حذف ہو گیا ہے یا بدل دیا گیا ہے۔ اس مادے کے اعتبار سے اس کے معنی خلق کے ہیں ۔

بما کانوا عاملین :یہاں ’کان‘’’تھا‘‘کے معنی میں نہیں ہے اور اس کا مفہوم ہم نے ترجمے سے واضح کر دیا ہے ۔

متون

کتب حدیث میں متعدد روایات اس مضمون کی حامل ہیں، لیکن یہ سوال اور اس کا یہ جواب ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے ۔ اس روایت کے سارے متون میں کم وبیش یہی الفاظ نقل ہوئے ہیں ۔ صرف ایک روایت میں ’سئل عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ کی جگہ ’سئل عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘کے الفاظ آئے ہیں ۔ اسی طرح ایک دوسری روایت میں مشرکین کے بجائے کفار کا لفظ آیا ہے ۔ظاہر ہے یہ کوئی فرق نہیں ہے ۔ ان روایات میں سائل کے بارے میں کوئی تصریح نہیں ہے اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال کسی خاص پس منظر میں پوچھا گیا تھا یا نہیں ۔ بچوں کے انجام کے بارے میں ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ۔ اس روایت میں حضرت عائشہ نے مشرکین اور مومنین ،دونوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا ہے ۔ روایت کے الفاظ ہیں :

عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت : قلت یا رسول اﷲ ذراری المؤمنین ؟ فقال : ہم من آباۂم . فقلت : یا رسول اﷲ ، بلا عمل ؟ قال : اﷲ اعلم بما کانوا عاملین . قلت یا رسول اﷲ ، فذراری المشرکین . قال : من آباۂم . قلت : بلا عمل ؟ قال : اﷲ اعلم بما کانوا عاملین ۔ (ابوداؤد ، رقم ۴۰۷۹)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پوچھا : یا رسول اللہ، اہل ایمان کے بچوں (کا معاملہ کیا ہوگا)؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : وہ اپنے آبا میں سے ہیں۔ اس پر میں نے پوچھا : یارسول اللہ کیا بغیر عمل کے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرنے والے ہوتے ۔ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ، تو مشرکین کے بچے ؟ آپ نے فرمایا : وہ اپنے آبا میں سے ہیں۔ میں نے کہا : بغیر کسی عمل کے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ زیادہ جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والے بنتے ۔‘‘

ظاہر ہے یہ روایت اور زیر بحث روایت مضمون کے اشتراک کے باوجود الگ الگ روایتیں ہیں ۔ اس مضمون کی تمام روایات کو جمع کریں تو بچوں کے انجام کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین جوابات سامنے آتے ہیں :

ایک یہ کہ بچے فطرت پر ہوتے ہیں۔ جب تک وہ بڑے ہو کر اپنے والدین کے زیر اثر کوئی عقیدہ و عمل اختیار نہ کرلیں۔

دوسرے یہ کہ کفار کے بچوں کا انجام ان کے والدین کے ساتھ ہوگا اور اہل ایمان کے بچوں کا انجام اہل ایمان کے ساتھ اور اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا ان کے مستقبل کے بارے میں علم ہے ۔

تیسرے یہ کہ بچے جنتیوں کے خدام ہوں گے۔ پہلے اور تیسرے جواب میں ایک اعتبار سے مطابقت ہے ۔ یعنی عمل کی عدم موجودگی کے باعث انعام یا سزا کا کوئی سبب نہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ انھیں اہل جنت کا خادم بنا دیں گے ۔

معنی

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اللہ تعالیٰ اپنے علم کی روشنی میں بچے کا انجام طے کریں گے ۔ روایت کا یہ مفہوم قرآن مجید کے تصور عدل کے منافی ہے ۔ یقیناً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا وہ صحیح صورت میں روایت نہیں ہو سکا ۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اسے اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے توقف پر محمول کیا جائے۔ اگرچہ یہ بات روایت کے الفاظ سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتی ، لیکن اس صورت میں روایت اعتراض سے قدرے محفوظ ہو جاتی ہے ۔

ہم نے بچوں کے انجام کے حوالے سے تفصیلی بحث اس سے پہلے حدیث ۸۴ کے تحت کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ عادل کامل ہیں۔وہاں کسی کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہو گا ۔ لہٰذا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ بچے جہنم میں ڈال دیے جائیں جو کسی برائی کے مرتکب نہیں ہوئے ۔

کتابیات

بخاری ، کتاب الجنائز، رقم ۱۲۹۵۔ بخاری ، کتاب القدر ، رقم ۶۱۰۹۔ نسائی ،کتاب الجنائز، رقم ۱۹۲۶۔ ابوداؤد ، کتاب السنہ ، رقم ۴۰۷۹ ۔ احمد ، رقم ۱۲۴۷،۲۹۹۹ ،۷۹۷۴، ۸۲۰۶ ، ۱۹۷۷۶، ۲۴۵۶۱، ۲۳۴۰۶ ۔ مسند ابی عوانہ ، رقم ۶۵۸۸ تا ۶۵۹۱۔ مجمع الزوائد ، ۷ / ۲۱۹ ۔سنن البیہقی ، رقم ۱۷۸۷۰ ۔ مسند ابو یعلی ، رقم ۲۴۷۹ ۔ صحیح ابن حبان ، رقم ۱۳۱ ۔

_______

 

سب سے پہلی مخلوق

عن عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إن أول ما خلق اﷲ القلم ۔ فقال لہ : اکتب ۔ فقال : ما أکتب؟ قال : اکتب القدر۔ فکتب ما کان و ما ہوکائن الی الابد ۔
’’عبادہ بن صامت رضی ا للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلی چیز جسے ا للہ تعالیٰ نے تخلیق کیا قلم ہے ۔ پھر ا للہ تعالیٰ نے اس سے کہا : لکھو۔ اس نے پوچھا : کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے کہا : تقدیر لکھو ۔ چنانچہ اس نے وہ تمام چیزیں لکھ دیں جو ہو چکیں اور جو ابد تک ہونے والی ہیں۔‘‘
لغوی مباحث

القدر: لفظی معنی اندازہ کرنے اور ٹھیرانے کے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اس سے تقدیر مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لیے جو کچھ طے کر رکھا ہے ۔

الابد:یہ لفظ زمانہ ، طویل زمانہ یا مدت ، لمبی عمر اور زمانۂ آخر کے معنی میں آتا ہے ۔ اس روایت میں یہ آخری معنی میں آیا ہے ۔

متون

یہ روایت صاحب مشکوٰۃ نے ترمذی سے لی ہے ، لیکن روایت کا وہی حصہ نقل کیا ہے جس میں نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کا قول نقل ہوا ہے ۔ ترمذی نے روایت کے نقل ہونے کا پس منظر بھی درج کیا ہے ۔ موزوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پس منظر بھی درج کر دیا جائے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے فکری رجحانات کیاتھے :

حدثنا عبد الواحد بن سلیم : قال قدمت مکۃ . فلقیت عطاء بن أبی رباح . فقلت لہ : یا أبا محمد ، إن أہل البصرۃ یقولون فی القدر . قال : یابنی ، أتقرأ القرآن . قلت : نعم . قال: فاقرأ الزخرف . قال : فقرأت : حم والکتاب المبین إنا جعلناہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون وإنہ فی أم الکتاب لدینا لعلی حکیم . فقال : أتدری ما أم الکتاب ؟ قلت ا ﷲ و رسولہ أعلم . قال : فإنہ کتاب. کتب ا ﷲ قبل أن یخلق السموات و قبل أن یخلق الأرض. فیہ إن فرعون من أہل النار. وفیہ تبت یدا أبی لہب و تب. قال عطاء : فلقیت الولید بن عبادۃ بن الصامت صاحب رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فسألتہ : ما کان وصیت أبیک عند الموت . قال : دعانی أبی . فقال لی یا بنی : اتق ا ﷲ واعلم أنک لا تتقی اﷲ حتی تؤمن بالقدر کلہ خیرہ و شرہ . فإن مت علی غیر ہذا دخلت النار. إنی سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول : إن أول ........ ۔(ترمذی ، رقم ۲۰۸۱)
’’ عبد الواحد بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ آیا اور میں نے عطا بن ابی رباح سے ملاقات کی اور ان سے کہا: ابو محمد، اہل بصرہ تقدیر کے باب میں بحث کر رہے ہیں۔ (یعنی اس کا انکار کر رہے ہیں)۔ انھوں نے کہا : میرے بیٹے ، کیا تم قرآن پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ انھوں نے کہا سورۂ زخرف پڑھو ۔ میں نے سورۂ زخرف پڑھنا شروع کی : حم والکتاب المبین إنا جعلناہ قرآنا عربیا و إنہ فی أم الکتاب لدینا لعلی حکیم. (۴۳ : ۱۔۴) یہاں روک کر انھوں نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو یہ ام الکتاب کیا ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ انھوں نے وضاحت کی یہ ایک کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے پہلے کہ وہ آسمان تخلیق کرے اور اس سے پہلے کہ وہ زمین پیدا کرے لکھا تھا ۔ اس میں ہے کہ فرعون آگ والوں میں سے ہے ۔ اور اس میں ’تبت یدا أبی لہب و تب‘ بھی لکھا ہوا ہے ۔(اس کے بعد )عطا نے بتایا کہ میں عبادہ بن صامت کے بیٹے ولید سے بھی ملا تھا ۔ عبادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور میں نے ولید سے پوچھا تھا : تمھارے والد کی موت کے موقع پر تمھارے لیے کیا وصیت تھی ۔ ولید نے بتایا : میرے والد نے مجھے بلایا : انھوں نے مجھ سے کہا اے میرے بیٹے ، خدا سے ڈرواور جان رکھو کہ تم خدا سے اس وقت تک (حقیقی معنی میں ) نہیں ڈرو گے جب تک تقدیر کے خیر وشر پر ایمان نہیں لے آؤ گے ۔اگر تمھاری موت اس کے علاوہ کسی چیز پر ہوئی تو جہنم میں جاؤ گے ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلی چیز.........‘‘

ترمذی نے اس روایت کا ایک اور متن کتاب التفسیر میں بھی نقل کیا ہے ۔ اس میں یہ پس منظر کافی مختصر ہے اور روایت کے آخری حصے میں قلم کا ’ما أکتب؟‘والاسوال بھی نہیں ہے اور آخر میں ’فکتب ما کان و ما ہو کائن الی الابد‘ کے بجائے ’فجری بما ہو کائن إلی الأبد‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ابو داؤد نے بھی زیر بحث روایت عبادہ بن صامت رضی ا ﷲ عنہ کی وصیت کے حصے کی حیثیت ہی سے نقل کی ہے ۔ اس میں وصیت کے الفاظ اس طرح سے ہیں :

عن أبی حفصۃ قال : قال عبادۃ بن الصامت لابنہ : یا بنی ، إنک لن تجد طعم حقیقۃ الإیمان حتی تعلم أن ما أصابک لم یکن لیخطئک وما أخطأک لم یکن لیصیبک . سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول ......(ابوداؤد ، رقم ۴۰۴۷)
’’ابو حفصہ سے مروی ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو (وصیت کرتے ہوئے )کہا تھا : اے میرے بیٹے تم ایمان کی حقیقت کے ذائقے کو نہیں پا سکتے جب تک یہ نہ جان لو کہ جو (خیر و شر) تمھیں پہنچا ہے، ممکن نہیں تھا کہ تم سے چوک جاتا۔اور جو کچھ چوک گیا ہے ، ناممکن تھا کہ تم تک پہنچے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے .........۔‘‘

مستدرک میں حضرت ابن عباس کا ایک اثر نقل ہوا ہے ۔ اس کے مطابق یہ قلم نور سے بنایا گیا تھا ۔ اثر کے الفاظ ہیں :

عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ قال : أول ما خلق اﷲ القلم . خلقہ من ہجا قبل الألف و اللام . فتصور قلما من نور . فقیل لہ : أجر فی اللوح المحفوظ . قال : یا رب ، بماذا ؟ قال : بما یکون إلی یوم القیامۃ .....۔(المستدرک ، رقم ۳۶۹۳)
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلی چیز جسے تخلیق کیا گیا قلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے الف لام سے پہلے حروف تہجی سے تخلیق کیا ۔اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے نور سے ایک قلم کا نقشہ بنایا ۔ پھر اس سے کہا گیا : لوح محفوظ میں جاری ہو جا ۔ اس نے پوچھا : میرے پروردگار کس چیز کے ساتھ؟ فرمایا : جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ........۔ ‘‘
معنی

ہم یہ بات اس سے پہلی روایات سے جان چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابد الآباد تک جو کچھ ہونے والا ہے، وہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا ۔ خیال ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سے یہ بھی مستنبط کیا کہ ان امورکے لکھنے کے لیے قلم تخلیق کیا گیا ہو گا ۔

قرآن مجیدمیں اس ضمن میں کوئی اشارہ نہیں ملتا جس سے سب سے پہلی مخلوق کا تعین کیا جا سکے۔ شارحین کو اس روایت کے لفظ ’اول‘ کی توجیہہ کرنے میں مشکل پیش آئی ہے ، کیونکہ عرش ، پانی ، لوح محفوظ اور نور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ سب سے پہلے تخلیق کیے گئے ۔قرآن مجید کی آیت ’ کان عرشہ علی الماء‘کی وضاحت ہم حدیث ۹۲ کے تحت کر چکے ہیں اور خود قرآن مجید ہی سے واضح ہے کہ اس کا محل بالکل مختلف ہے۔ نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم والی روایت محدثین کے نزدیک لائق اعتنانہیں ہے ۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ لوح و قلم کے لفظ صرف اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابد تک کے امور کا ریکارڈ تیار کر رکھا ہے ۔ آج انسان اس کی متعدد صورتیں ایجاد کر چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا ہو گا، کوئی بات کہنا محض حدود سے تجاوز ہو گا ۔

بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم محیط کل ہے ۔ اس نے ابد تک کے امور کو ان کے وقوع سے بہت پہلے جان لیا تھا ۔ باقی رہا تخلیق کا عمل تو اس کے معاملے میں ہمیں محض چند چیزیں بتائی گئی ہیں ۔ ان کے جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ لہٰذا اس باب میں توقف ہی بہتر ہے ۔

مجھے بعض شارحین کی یہ بات درست لگتی ہے کہ اول کا لفظ خاص سیاق و سباق میں ہے ۔ اس سے قلم کو سب سے پہلی مخلوق قرار دینا موزوں نہیں، لیکن وہ جن چیزوں کو اولیت دے رہے ہیں وہ بھی محل نظر ہیں۔

کتابیات

ترمذی ، کتاب القدر ، رقم ۲۰۸۱۔ کتاب تفسیر القرآن، رقم ۳۲۴۱ ۔ ابوداؤد ، کتاب السنہ ،رقم ۴۰۳۷ ۔ احمد ، رقم ۲۱۶۴۷ ، ۲۱۶۴۹ ۔ المستدرک ، رقم ۳۶۹۳ ۔

____________

B