HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

متفرق مضامین

قرآن واضح ہے

اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہر قسم کی تنبیہات گوناگوں پہلوؤں سے بیان کر دی ہیں،لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔(الکہف ۱۸: ۵۴)

دنیا کی زندگی میں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ اپنی پہچان اور اپنے وجود کی حقیقت کی دریافت ہے۔اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ محسوسات کے دائرے میں مقید ہو کر بعض اوقات پیش پا افتادہ علمی ، اخلاقی اور عقلی حقائق کا انکار کر دیتا ہے۔

دنیا کے موجودات میں ہر چیز کا انکار ممکن ہے، مگر موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔انسان اسے ماننے کے باوجود اس سے بے پروا ہو کر زندگی گزارتا ہے۔وہ روز اپنے بھائی بندوں کو جان دیتے اور اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے قبر کے گڑھے میں اتارتا ہے، مگر اس کے باوجود یہ بھول جاتا ہے کہ اسے بھی ایک روز موت کی یہ دہلیز پار کرنا ہے۔

اس آیت میں تنبیہات کے لیے ’مثل‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اس سے مراد عالم غیب کے احوال اور آخرت کے حقائق ہیں جنھیں قرآن تمثیل کے پیراے میں مختلف اسالیب میں پیش کرتا ہے۔قرآن اسے بتاتا ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک دوسری زندگی کا آغاز ہے۔انسان کو اسی زندگی کی تیاری کے لیے عارضی طور پر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔وہ وقت کے گھوڑے پر سوار تیزی سے اپنی(آخرت کی ) منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ دنیا میں اس کے قیام کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے ایک مسافر گاڑی پر سوار ہو ،گاڑی کچھ دیر کے لیے کسی اسٹیشن پر رکے اور وہ نیچے اتر کر کچھ دیر کے لیے پلیٹ فارم پرپڑے بینچ پر بیٹھ جائے۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے سفر سے بے خبر نہیں ہو سکتا، مبادا گاڑی چھوٹ جائے۔زندگی کا یہ سفر بھی ایسا ہی ہے۔پہلی صورت میں تو ممکن ہے کہ کچھ انتظار کے بعد دوسری گاڑی مل جائے، مگر زندگی کی گاڑی اگر چھوٹ گئی تو پھر اس نقصان کے مداوے کا کوئی امکان نہیں ۔دنیا کے پیچھے بھاگنے والے شخص کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گاڑی کا کوئی مسافر اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پڑے بینچ پر جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں وہاں پہلے سے بیٹھے مسافروں سے الجھ پڑے اور اسی دوران میں گاڑی چھوٹ جائے ۔

قرآن اسے یہی حقیقت یاد دلاتا ہے ،مگر وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ وہ قرآن کی ہدایت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے نظر انداز کرتا ہے اور کوئی نہ کوئی اعتراض کا پہلو ڈھونڈ کر اس سے بچنے کا راستہ نکال لیتا ہے۔

حضرت مسیح نے بھی اس حقیقت کو نہایت خوب صورت تمثیل میں بیان کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ یہ دنیا ( اس زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان میں) ایک پل کے مانند ہے ،اس پر گھر نہ بناؤ ،اس پر سے گذر جاؤ۔

محمد اسلم نجمی

_______


دنیا کی زندگی

اور ان (دنیا کی محبت میں اندھے ہو کر غافل ہوجانے والوں) کواس دنیوی زندگی کی تمثیل سناؤکہ اس کو یوں سمجھوکہ بارش ہو جس کو ہم نے آسمان سے اتارا پس زمین کی نباتات اس سے خوب اپجیں پھر وہ چورا ہو جائیں جس کو ہوائیں اڑائے پھریں اور اللہ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔(الکہف۱۸: ۴۵)

اس آیت میں زندگی کی جو تمثیل بیان ہوئی ہے ،یہ دنیا کی وہ زندگی ہے جس پر فریفتہ ہو کر انسان خدا اور آخرت کو بھول جاتا ہے۔یہ آیت نہایت مجمل ہے ۔ اس کی تفصیل سورہ حدید میں بیان ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’(یاد رکھو ) دنیا کی زندگی میں کھیل کود،آرایش و زیبایش،باہمی تفاخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے مسابقت کی تمثیل اس طرح ہے کہ بارش ہو جس کی اپجائی ہوئی نباتات کافروں کے دلوں کو موہ لیں۔پھر وہ خشک ہو جائے اور تم دیکھو کہ وہ زرد پڑگئی ہے۔پھر وہ چورا ہو جائے۔‘‘ (۵۷: ۲۰)

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ لہو ولعب کی رغبت ،زینت و آرایش کا شوق ، مال و منال کی کثرت کے لیے بھاگ دوڑاور معیارزندگی اونچا کرنے کا جنون انسان کو موت اور آخرت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔یہ چیزیں دنیا کو مزین کرکے اس کی نظروں میں کھبا دیتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے مقصد حیات سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔انسان کو گم راہ کرنے کا یہی وہ حربہ ہے جسے شیطان نے راندۂ درگاہ قرار پاجانے کے بعدابتدا ہی میں خدا کی بارگاہ میں بیان کردیاتھا۔قرآن اس صورت واقعہ کو ا بلیس کی زبان میں یوں نقل کرتا ہے: ’’اس نے (راندۂ درگاہ قرار پا جانے کے بعد)کہا:اے رب ،چونکہ تو نے مجھے گم راہ کیامیں زمین میں دنیا کو ان کی نظروں میں کھباؤں گااور ان میں سے تیرے خاص بندوں کے سوا سب کو گم راہ کرکے چھوڑوں گا۔‘‘ (۱۵: ۳۹۔۴۰) گویا دنیا کی آزمایش میں انسان کو ناکام بنانے کے لیے شیطان کا اصل حربہ یہ ہے کہ وہ اسے دنیا کی طمع اور محبت میں اس طرح پھنسا دے کہ وہ آخرت سے بیگانہ ہو جائے ۔

یہ بات شیطان کے چیلنج سے بھی واضح ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی بتا دیا ہے کہ وہ کون خوش قسمت ہیں جو اس کی فتنہ سامانیوں سے بچے رہیں گے۔قرآن میں ہے : ’’اس (شیطان) کا ان لوگوں پر کوئی زور نہیں چلتا ہے جو ایمان لائے ہوئے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں،اس کا زور بس انھی پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے ہیں۔ ‘‘ (۱۶: ۹۹۔۱۰۰)

اس کا مطلب ہے کہ اگر چہ شیطان اور اس کے ایجنٹوں کو یہ مہلت ضرور ملی ہوئی ہے کہ وہ انسانوں کو بہکائیں اور ورغلائیں، مگر ان کا سارا زور و اختیار ان لوگوں پر چلتا ہے جو آگے بڑھ کر اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ،اسے گلے سے لگاتے اوراللہ کے شریک ٹھہراتے ہیں۔شیطان کا اختیار اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ گمراہی کی دعوت اور ترغیب دے۔اس کے بعد یہ انسان کے ارادے اور مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو اسے رد کر دے اور چاہے تو قبول کرلے۔(۱۴: ۲۲)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کا اصل ہدف عقیدۂ توحید اور خدا پر توکل ہے۔ وہ انھی کو مجروح کرتا اور یہیں سے نقب لگاتا ہے۔ بندہ اگر خدا پر غیر متزلزل ایمان رکھے اور ہر حال میں اسی کے فضل اور کارسازی پر بھروسا کرے تو وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

محمد اسلم نجمی

_______


اخروی زندگی کی حقیقت

بے شک جو شخص اپنے رب کے سامنے مجرم کی حیثیت سے حاضر ہوگا تو اس کے لیے جہنم ہے ، نہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔ اور جو اس کے پاس با ایمان ہو کر جائیں گے،انھوں نے نیک عمل بھی کیے ہوں گے،تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے اونچے درجے ہوں گے ۔ان کے لیے ہمیشگی کے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ،ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ صلہ ہے اس کا جس نے پاکیزگی اختیار کی ۔(طٰہٰ۲۰: ۷۴۔۷۶)

ان آیات میں آخرت میں حاصل ہونے والی زندگی کی حقیقت بیان ہوئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ جہاں ہمیشہ قائم رہے گا۔ وہاں موت کو بھی موت آ جا ئے گی۔ وہاں دو ہی زندگیاں ہوں گی :خدا کے نافرمانوں ،بے پرواؤ ں اور سرکشوں کو جہنم کی ایسی آگ کے حوالے کر دیا جائے گا جو کبھی سرد نہ ہوگی۔ان کے عذاب کی شدت کا یہ عالم ہوگا کہ: ’’( دوزخیوں میں سے ہر ایک کو) پیپ (ملا)لہو پینے کو ملے گا۔ وہ اس کو گھونٹ گھو نٹ کرکے پینے کی کوشش کرے گا اور اس کو حلق سے نہ اتار سکے گا اور موت اس پر ہر جانب سے پلی پڑ رہی ہوگی اور وہ مرنے والا نہ بنے گا اور آگے ایک اور سخت عذاب اس کے لیے موجود ہوگا۔‘‘ (۱۴: ۱۶) قرآن میں دوسری جگہ آیا ہے کہ: ’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا، ہم ان کو ایک سخت آگ میں جھونک دیں گے ۔جب ان کی کھالیں پک جائیں گی، ہم ان کی دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ یہ عذاب کا مزا خوب چکھیں۔‘‘ (۴: ۵۶)ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ہے، انھیں اگر وہ سب کچھ حاصل ہو جائے جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اس کے برابر اور بھی (مل جائے)تاکہ وہ اس (سارے مال )کو فدیہ میں دے کر روز قیامت کے عذاب سے چھوٹ سکیں تو(ان کی یہ پیش کش رد کر دی جائے گی اور ہر گز)بھی ان کا یہ فدیہ قبول نہ ہوگا۔‘‘(۵: ۳۶)

اہل جہنم کے لیے عذاب کی شدت ،اس کے خلود اور اس کی بے پناہی کی یہی وہ تعبیر ہے جسے ’لا یموت فیھا ولا یحیٰ‘ (وہ نہ اس جہنم میں مر ے گا اور نہ جیئے گا) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

ان کے مقابل میں ان خوش قسمت لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو سچے ایمان ،اخلاصِ نیت اور عمل صالح کے ساتھ عالم کے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔

’مؤمنا قد عمل الصٰلحٰت‘ کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان وہی معتبر ہے جس کے ساتھ عمل صالح بھی موجود ہو۔عمل صالح کے بغیر ایمان کی مثال ایسے ٹھونٹھ درخت کی سی ہے جو برگ و بار سے بالکل خالی ہو۔فطری بات ہے کہ جو درخت اس دنیا میں پھل پھول نہیں لایا ، وہ آخر ت میں کیسے ثمر بار ہو جائے گا!اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کے ہاں جیسے ایمان کے بغیر اعمال بے وقعت قرار پاتے ہیں،اسی طرح اعمال کے بغیر ایمان بے معنی ہوتا ہے۔ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ بندے سے اعمال صالح کا صدور ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کو اپنا شب و روز کا وظیفہ بنائے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یقینااس کا عمل صالح نظر ثانی کا متقاضی ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جو سورۂ عصر میں زمانہ نبوت کو گواہ بنا کر سمجھائی گئی ہے۔

ایسے لوگ جو ایمان اور عمل صالح کا زادِ راہ لے کر آخرت کے سفر پر نکلیں گے ،وہ جب موت کی دہلیز پار کرکے ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہوں گے تووہاں خدا کی رحمت کے فرشتے ان کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے۔یہ خدا کا وعدہ ہے۔اسے وہ یوں بیان کرتا ہے: ’’بے شک ان لوگوں پر جنھوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے (ان کی دل داری کے لیے)فرشتے اتریں گے(اور انھیں اطمینان دلائیں گے کہ آزمایش کا دور ختم ہوا،وہ کامیاب ہوئے اوریہ)کہ اب نہ کوئی اندیشہ کرو اور نہ کوئی غم اور اس جنت کی خوش خبری قبول کرو جس کا (دنیا میں نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے)تم سے وعدہ کیا جاتا(رہا)تھا۔(اس کے بعد وہ فرشتے کہیں گے کہ کفار نے شیاطینِ جن و انس کے ساتھ دوستی کی اور انھوں نے انھیں جہنم تک پہنچا دیا،مگر تم نے ہمیں دوست بنایا، لہٰذا)ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی رہے (اور جنت کو پانے میں تمھاری مدد کی)اور (اب )آخرت کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں۔اور تم کو اس جنت میں ہر وہ چیز ملے گی جس کو تمھارا دل چاہے گااور تمھارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کروگے(یہ جو کچھ تم کو ملے گا ،یہ)ربِ غفور و رحیم کی طرف سے ابتدائی ضیافت کے طور پر(عطا ہوگا۔آگے جو کچھ ملنے والا ہے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے)۔‘‘ (۴۱: ۳۰۔۳۲)

اس بحث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ آخر ت کی زندگی دائمی ہے اور یہ ناقابلِ بیان حدتک اذیت ناک اور انتہائی آرام دہ زندگیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے ۔اس میں درمیان کی کوئی راہ موجود نہیں ہے۔

محمد اسلم نجمی

_______

 

خدا کا صبر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایذا پہنچانے والی اور تکلیف دہ باتوں کو سن کر ان پر اللہ سے بڑھ کر صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگ (مخلوق میں سے کسی کو) ا س کا بیٹا قرار دے دیتے ہیں اور (اس کی ذات کو شرک سے آلودہ کرکے گویا اسے بدترین گالی دیتے ہیں ، مگر اس کے باوجود) وہ ان (ظالموں) کو عافیت بھی دیتا ہے اور رزق بھی عطا کرتا ہے ۔ (مشکوٰۃ ، رقم ۲۳)

یہ روایت بندوں کی انتہائی نامناسب ، ناپسندیدہ اور مجرمانہ روش کے باوجود اللہ کے کریمانہ رویے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاثر بیان کرتی ہے ۔

اس حدیث میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں :

۱۔ اللہ اپنے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانے کے عمل کو گالی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کے نزدیک شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے ۔ بندہ جب اس کی ذات ، صفات یا حقوق میں کسی دوسرے کو شریک ٹھیراتا ہے تو یہ وہ انتہائی اذیت اور تکلیف ہے جو وہ اللہ کو پہنچا سکتا ہے اور بندہ بعض اوقات عالم کے پروردگار کے بارے میں اتنا بے پروا اور سرکش ہو جاتا ہے کہ وہ یہ جرم بھی کر گزرتا ہے ۔

۲۔ اللہ کے حلم ، صبر اور برداشت کا عالم یہ ہے کہ وہ بندوں کے ایسے انتہائی تکلیف دہ رویوں کے باوجود ان سے درگزر فرماتا ہے اور نہ صرف یہ کہ ان کے جرائم سے صرف نظر کرتا ہے بلکہ وہ انھیں عافیت اور رزق بھی عطا فرماتا ہے ۔ یہ بات قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے :

’’اور اگر اللہ لوگوں سے ان کی حق تلفی پر فوراً مواخذہ کرتا ہوتا تو زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتالیکن وہ ایک وقت معین تک لوگوں کو مہلت دیتا ہے تو جب ان کا وقت معین آ جائے گا تو اس سے نہ وہ ایک ساعت پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے ۔‘‘ (النحل ۱۶: ۶۱)

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ اگرچہ مشرکانہ رویہ اختیار کر کے اللہ کے سب سے بڑے حق کو بھی تلف کرتا ہے اور خود اپنی جان پر بھی سب سے بڑا ظلم ڈھاتا ہے، لیکن اللہ نے دنیا کے سبھی انسانوں کو مقررہ مدت تک جینے کی مہلت دے رکھی ہے ۔ یہ مہلت اس آزمایش کے سبب سے ہے جو اسے دنیا کی زندگی میں درپیش ہے ۔ اس آزمایش کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ بندوں کو ان کے کفر و شرک اور نافرمانیوں کے باوجود مقررہ مدت تک زندہ رکھے اور اس طرح انھیں توبہ و اصلاح کی مہلت مل جائے ۔ بندہ اگر اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھائے ، وہ اپنی غلطی پر متنبہ نہ ہو اور توبہ و انابت کا راستہ اختیار نہ کرے تو پھر جب وقت معین آ جائے گا تو اس کے پیچھے ہٹنے اور آگے بڑھنے کے مواقع ختم ہو جائیں گے ۔

اس حدیث سے ہمیں یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اختیار و اقتدار کی صورت میں اپنے ماتحتوں اور زیر دستوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر عفوو درگزر سے کام لینا اور شفقت اور محبت کے ساتھ اصلاح احوال کے لیے کوشاں ہونا خدا کی سنت کی پیروی کرنا ہے ۔ بندہ اگریہ رویہ اختیار کرے تو وہ سراپا خیر اور سید القوم خادمھم (قوم کا سردار ان کاخادم ہوتا ہے ) کی صحیح تصویر بن جاتا ہے ۔

محمد اسلم نجمی

_______


حق کی حفاظت

قرآنِ مجید میں برائی کے جواب میں بھلائی کو غیر معمولی نیکی قرار دیا گیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’ اور بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں ۔ تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہے تو تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے ،گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔ اور یہ دانش نہیں ملتی مگر انھی کو جو ثابت قدم رہنے والے ہوتے ہیں اور یہ حکمت نہیں عطا ہوتی مگر انھی کو جو بڑے نصیبہ ور ہیں۔‘‘(حٰم ٓ السجدہ۴۱: ۳۴۔۳۵)

یہ تعلیم غیر معمولی اجر کی ضمانت دیتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر عمل بہت مشکل ہے۔ اس مشکل کے کئی سبب ہیں۔ایک سبب یہ ہے کہ جب ہمارے خلاف برائی ہوتی ہے تو ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔ ہماری طبیعت میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اس اشتعال پر قابو پانا اور پھر صحیح الفاظ اور مناسب اسلوب میں بات چیت کو جاری رکھنا یا اپنے آپ کو کسی اقدام سے روکنامشکل ہو جاتا ہے ۔دوسرا سبب یہ ہے کہ بالعموم یہ برائی نیکی کے جواب میں ہوتی ہے۔ آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ احسان ناشناسی ہے ۔ اور اس طرح کے آدمی کو سبق سکھانا ضروری ہے ۔تیسرا سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں نرمی کے رویے کو فرد کی کمزوری پر محمول کیا جاتا ہے ۔اندیشہ محسوس ہوتا ہے کہ اگربرائی کے جواب میں اچھائی کا رویہ اختیار کیا گیا تو دوسرا اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا ۔چوتھا سبب یہ ہے برائی کے باعث ہمارے وقار کو دھچکا لگتا اور ہماری حیثیتِ عرفی مجروح ہوتی ہے ۔ وقار کے معاملے میں ہماری دفاعی حس زیادہ فعال ہو جاتی ہے ۔یہ اور اس طرح کے بہت سے اسباب ہیں جن کے تحت ہم برائی کے جواب میں برائی کا رویہ اختیار کرتے اور اپنے اس عمل پر اپنے ضمیر کی خلش کو دور کرنے کے لیے اسی نوع کے استدلال کا سہارا لیتے ہیں ۔

برائی کے بدلے میں نیکی کا آغاز عفو و درگزر سے ہوتا ہے اور آدمی پھر آگے بڑھ کر اچھے سلوک کا اظہار کرتا ہے ۔ اس رویے کو اختیار کرنے کے لیے اپنے اندر ایک وصف پیدا کرنا ضروری ہے اور وہ ضبطِ نفس اور نیکی پر استقلال کا وصف ہے ۔اسی وصف کو قرآنِ مجید کی اس آیت میں ’صبر‘کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے ۔صبر ایک مثبت رویے کا نام ہے جس میں آدمی اپنے جذبات کو قابومیں رکھتا اور اپنے آپ کو منفی اقدام سے روک لیتا ہے ۔اس منزل کو طے کر لینے کے بعدہی آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ برائی کے جواب میں نیکی کر ے اور قرآنِ مجید کے الفاظ ’ذوحظ عظیم‘ کا مستحق قرار پائے ۔

ہمارا معاشرہ ، خاندان ، محلے، اور ملک کی سطح پر انتشار اور خلفشار کا شکار ہے ۔ اس خلفشار کے بہت سے اسباب میں سے ایک معاشرے کے افراد کی بڑی اکثریت کا صبر کی مذکورہ خوبی سے محروم ہونا ہے ۔معاملہ گھروں کے جھگڑوں کا ہو یا مذہبی یا سیاسی اختلافات کا ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کے لیے آمادہ نظر آتا ہے ۔درآنحالیکہ قرآنِ مجیدنے واضح کر دیا ہے کہ اتحاد ، اتفاق اور دوستی کا راستہ برائی کے جواب میں نیکی ہے ۔

طالب محسن

_______


اخلاقی اقدار

کسی نے پوچھا : اخلاقی اقدار کی بنیاد کیا ہے ۔ دانش وروں نے جواب دیا : اخلاقی اقدار کی بنیاد سماجی ڈھانچے پر ہے اور سماجی ڈھانچے کے بہت سے عناصر طرزِ معیشت سے براہِ راست متعلق ہوتے ہیں ۔اپنی بات کی تفصیل کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ چوری ایک جرم ہے ۔ لیکن اس کا تصور اس وقت سامنے آیاجب چیزوں کو ذاتی ملکیت کی حیثیت حاصل ہوئی۔عورت کے حقوق جاگیر دارانہ معاشرے میں اور ہیں اور موجودہ صنعتی معاشرے میں اور ۔بہت سی اخلاقی اقدار مفادات کے تحفظ کے لیے رائج کی گئیں ۔ مثلاً وفاداری اور نمک حلالی کی اقدار کو رائج کرکے نوابوں ، جاگیرداروں اور بادشاہوں نے اپنی رعایا کو اپنے استحصالی نظام میں جکڑے رکھا ۔اس تجزیے سے وہ ایک دلچسپ نتیجہ بھی نکالتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر معیشت کے نظام کو نئے خطوط پر استوار کر دیا جائے تو چند ہی برسوں میں بہت سی اقدار دم توڑ دیں گی اورانسانی ضمیر نئے پیمانوں سے اپنا فریضۂ ملامت انجام دے گا۔ ان کی سب سے زیادہ دل چسپی عورت کی آزادی سے ہے ۔ان کے نزدیک اگر مرد اور عورت کو کمائی کے یکساں مواقع میسر ہوں تو عورت مرد کے چنگل سے نکل جائے گی ۔ بیوی کا روایتی تصور ختم ہو جائے گا اور مردو عورت کے حقوق و اختیارات بالکل یکساں ہو جائیں گے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کے بارے میں یہ نقطہ ء نظر بڑا سطحی ہے ۔ یہ اہلِ مذہب کی اس رائے کو باطل کرنے کی کوشش ہے کہ اخلاقی اقدار ایک مستقل حیثیت رکھتی ہیں ۔ اہلِ مذہب کا استدلال یہ ہے کہ ان اقدار کا ماخذ وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔یہ فطرت ہمیشہ سے ایک ہے اور ایک ہی رہے گی ۔ بعض برے عوامل اور حالات اسے غیر مؤثر یا معطل ضرور کر دیتے ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فطرت کی اپنی کوئی اصل صورت نہیں ہے ، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔

اس معاملے میں غلطی لگنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اخلاقی اقدار کے پیچھے کارفرما اصولوں اور ان کی عملی صورتوں کو ایک ہی سمجھ لیاہے ۔ حالانکہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔مثلاً ، دیکھیے ، مہمان نوازی ہر معاشرے کی قدر ہے ۔ لیکن اس کے اظہار کے طریقے ہر ماحول میں مختلف ہیں ۔ مہمان کا دروازے میں آ کر استقبال کیا جائے یا نہیں ، اس سے مصافحہ ہو گا یا معانقہ ، کھانا پُر تکلف ہو گا یاسادہ ، کھانا کھلاتے ہوئے اصرار کیا جائے گا یا محض پیش کر دینا ہی کافی ہے ۔ رخصت کرتے ہوئے دروازے تک رخصت کیا جائے گا یا نشست ہی سے ، یہ سب امورمختلف ہو سکتے ہیں ۔کہیں ایک امر کو مہمان نوازی کا تقاضا سمجھا جائے گا اور کہیں دوسرے کو ، لیکن ان سب اعمال کے پیچھے کار فرما ایک ہی قدر یعنی مہمان نوازی ہے ۔

اگر تمام معاشرتی اقدار کو کسی ایک لڑی میں پرونا چاہیں تو وہ خیر خواہی ہے ۔ اسی خیر خواہی کے مظاہر عدل ، محبت ، سخاوت ، مساوات ، آزادی کے الفاظ کا روپ دھارتے ہیں ۔یہ مظاہر بھی ایک حد تک ہر معاشرے میں یکساں ہیں ، لیکن ان کے اطلاق کی صورتیں محتلف ہو جاتی ہیں ۔ یہ چیز اس دھوکے کا باعث بنتی ہے کہ اقدار ایک تغیر پزیر معاشرتی معاملہ ہے ۔

تمام اخلاقی اقدار میں اصل اصول کی حیثیت ایک دوسرے کی خیر خواہی کو حاصل ہے ۔ یہی حقیقت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الدین النصیحۃ‘ کے لافانی الفاظ میں بیان کر دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس خیر خواہی کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ یہ انسان کی اپنی ذات سے لے کر معاشرے ، حکومت یہاں تک کہ دین اور خدا کے لیے بھی مطلوب ہے ۔

طالب محسن

_______

 

اندازِ گفتگو

بات کرنے کے کئی اسلوب ہوتے ہیں۔ اچھے انداز میں بات کی جائے تو دل پر اثر کرتی ہے اور اس سے مثبت نتیجہ نکلتا ہے اور اگر برے طریقے سے وہی بات کی گئی ہوتو نفرت پیدا کرتی ہے اور اس سے برا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔الفاظ کا انتخاب اور آواز کا اتار چڑھاؤ بھی بات کو اچھایا برا بنا دیتے ہیں۔

کسی کوغلط کام پر ٹوکنا ہو تو کہا جاسکتا ہے: ’’شرم سے ڈوب مر‘‘ یا اسے یوں احساس دلایا جاسکتا ہے: ’’ آپ کو اپنے عمل پر ندامت محسوس کرنی چاہیے ‘‘۔پہلے اسلوب میں فائدے کی امید نہیں رکھنی چاہیے، جبکہ دوسری طرح بات کرکے اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کسی کے والد کا ذکر کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے’’ تمھارے باپ نے یوں کیا ‘‘ یا ’’آپ کے والد صاحب کا طرزِ عمل اس طرح ہے‘‘۔پہلی صورت میں سننے والا غصے میں آجائے گا اور بات پر دھیان نہ دے گا، جبکہ دوسری طرح وہ بات سننے اور سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ دوسرے کو فضول خرچی سے روکنا ہو تو ایک انداز ہو گا: ’’یوں گل چھرے نہ اڑاؤ‘‘۔دوسرا اسلوب یوں ہو گا :’’ اپنا ہاتھ روک کر خرچ کرو ‘‘۔دونوں طرح اثر مختلف ہو گا۔

یہ چند مثالیں ہیں۔ ہربات اس طرح کی جا سکتی ہے کہ سننے والاہمدردی محسوس کر کے تعاون پر آمادہ ہو جائے یا یوں کہی جا سکتی ہے کہ وہ غصے اور ضد میں آجائے اور مان کر نہ دے۔ اندازِ گفتگو دل نشیں اور اپنی طرف جذب کرنے والا بھی ہو سکتا ہے اور مشتعل کرنے والا اور غصہ دلانے والا بھی۔ آنکھیں نکال کر ،تیوری چڑھا کر بولیں توسامع بات سننے پر بھی آمادہ نہ ہو گا اور اگر نرمی اور محبت سے بولا جائے تو شیطان بھی کان لگا کر سننے لگے گا۔ آواز کے زیروبم کا بھی یہی حال ہے۔ آواز دھیمی ہو تو اثر رکھتی ہے اور اگر اونچی ہو جائے تو منفی ردعمل کو جنم دیتی ہے۔

قرآن مجید کی سورۂ حم ٓ السجدہ میں ارشادِ خداوندی ہے:’’تم (برائی اور سخت کلامی کا) دفاع اس چیز سے کرو جوزیادہ بہتر ہے(یعنی نیکی اور اچھی گفتگو )۔تب تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے ما بین عداوت تھی، گویا کہ وہ ایک سرگرم دوست ہے‘‘ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف کفار اور مشرکین آپ کی نرم اور مشفقانہ گفتگو سے متاثر ہوتے اور اسلام قبول کر لیتے۔ اس طرح کئی کٹر دشمن آپ کے جان نثار ساتھی بن گئے۔ سورۂ لقمٰن میں حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی گئی یہ نصیحت بیان ہوئی ہے:’’ (اے بیٹے) اپنی آواز کو پست رکھو۔ بے شک سب سے زیادہ بری آواز گدھے کی آواز ہے‘‘۔

آواز میں کرختگی کی بجائے نرمی اور کھر درے پن کی جگہ ملائمت ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ضرورت اور موقع و محل کے مطابق آواز اونچی نیچی کرنے کی صلاحیت دی ہے ۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ گدھے کی طرح حلق پھاڑ کر لوگوں کے کان کھائے۔ وہ چاہے تو نرم اور خوش کن آواز سے لوگوں کے دل موہ لے یا بھدی آواز نکال کر انھیں اپنے آپ سے متنفر کر لے۔

سورۂ بنی اسرائیل میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ارشاد ہوا تو ان سے نرمی اور ادب سے گفتگو کرنے پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ ان کو جھڑکنے حتیٰ کہ اف تک کہنے سے منع کر دیا گیا۔

آدمی کی تمیز اور شرافت سب سے پہلے گفتگو میں جھلکتی ہے پھر دوسرے اعمال میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ آواز کنٹرول میں رکھنا، ملائمت سے خطاب کرنا اور دل نشین اسلوب اختیار کرنا بڑے دھیان کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگرہر لمحہ احتیاط ملحوظ ہو اور ہمہ وقت خوفِ الٰہی دل پر چھایا ہو، تبھی ایک شخص کے لیے ممکن ہوسکتا ہے کہ اس کی گفتگو سے کسی کو رنج و آزار نہ ہو، بلکہ ایسے متقی کی بات دوسروں کے لیے راحت کا سامان بن جاتی ہے۔

وسیم اختر مفتی

_______

 

مغرب کا اخلاقی بگاڑ اور مسلمانوں کی ذمہ داری

مغربی تہذیب جس اخلاقی بگاڑ اور مادر پدر جنسی آزادی کے دور سے گزر رہی ہے، اس پر ہماری طرف سے کافی اعتراضات کیے جا چکے ہیں اور اسے مغربی زندگی کا ایک بڑا منفی پہلو خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم اہل مغرب اپنے اس رویے کو معیوب خیال نہیں کرتے ۔ وہ اسے آزادی عمل کی غیر متنازع اور مسلمہ انسانی قدر کا لازمی نتیجہ خیال کرتے ہیں۔

مغربی فکر کے ارتقا سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ نشاۃ ثانیہ کے دور میں جو ردعمل مروجہ عیسائی مذہب کے خلاف ہوا، وہ بڑھتا ہوا انکارِ مذہب تک جا پہنچا۔ دریافت و ایجاد کے جوش میں فکر و عمل کی جو راہیں کھلیں، انھوں نے ہر پہلو سے مذہب کو ایک کونے میں کر دیا۔ اس صورتِ حال کے متعدد اسباب تھے۔ ان میں پاپائیت کی بے لوچ حکومت کے خلاف ردِ عمل، مذہبی عقائد و مسلمات کا جدید سائنسی انکشافات کے خلاف ہونااور اہل کلیسا کا اپنے توہمات پر اڑ جانا نمایاں تھے۔ مثلاً مسیحی فکر میں زمین کو کائنات کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی، کیونکہ یہ ان کے خدا کی جنم بھومی تھی۔ جبکہ سائنس کے نزدیک یہ بات خلافِ واقعہ تھی، لیکن انھوں نے اس حقیقت کو ماننے کے بجائے سختی سے جدید خیالات کو دبانے کی کوشش شروع کر دی جس کے نتیجے میں مذہب کے خلاف جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔

انیسویں صدی تک مغربی فکر کے لیے نظریاتی طور پر بھی خدا کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو گیا۔ مگر رکاوٹ یہ تھی کہ انسان ایک توجیہ پسند مخلوق ہے۔ انکارِ خدا کے بعد لازمی تھا کہ خدا کے بغیر انسان اور کائنات کی توجیہ کی جائے اور ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کے لیے یہ بتانا ضروری تھا کہ بغیر ایک خالق کے کائنات اور انسان کیسے وجود میں آئے۔ قرآن بھی اپنے منکرین کے سامنے یہی دو سوال رکھتا ہے: ’’کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے ) کے پیدا ہو گئے یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انھوں نے ہی آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں‘‘ (الطور۵۲: ۳۵۔۳۶)

کائنات کا مسئلہ تو خیر آج کے دن تک حل نہیں ہو سکا ،بلکہ الٹا Big Bang Theory نے اب اس بات کا پورا امکان سائنسی بنیادوں پر ثابت کر دیا ہے کہ کائنات کا آغاز جس دھماکے سے ہوا، وہ ایک خالق کی بیرونی مداخلت کے نتیجے میں ظہور پزیر ہوا۔ البتہ اس زمانے میں ڈارون کے نظریۂ ارتقاکی صورت میں خدا کے بغیر انسان کی توجیہ کی ایک شکل لوگوں کے سامنے آگئی۔ گویا بندر کے ہاتھ ناریل لگ گیا (نظریۂ ارتقا میں بندر اور انسان میں جو خصوصی تعلق ہے، یہ محاورہ پڑھتے ہوئے، وہ ذہن میں حاضر رہے)۔ حال یہ ہوا کہ ڈارون کو The Man Who Killed the God کا خطاب مل گیا۔ نظریۂ ارتقا کی غیر مقبولیت کا سبب ، اس کی تمام تر عملی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود یہی تھا کہ اس نے سائنسی بنیادوں پر خدا سے ہٹ کر انسان اور حیات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی۔

پھر کیا تھا سماجی، عمرانی، نفسیاتی، معاشی ، معاشرتی ، تہذیبی اور تاریخی علوم کے ماہرین کی ایک فوج انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر اس اصول کی روشنی میں کام کرنے کے لیے کھڑی ہو گئی کہ انسان ایک بے خدا اور حیوانی الاصل ہستی ہے۔ ان علوم میں سے دو ایسے تھے جن سے موجودہ جنسی بے راہ روی کی فضا ہموار ہوئی۔ پہلا علم نفسیات کا تھا۔ فرائڈ نے اس پر کام کیا اور جنس کے جذبے کو بنیاد بنا کر تمام انسانی اعمال و اعتقادات کی تشریح کر ڈالی اور اسی بنیادی جبلت (Basic Instinct) کو زندگی کی روح رواں قرار دیا۔

اس سے کہیں زیادہ اثر اس کام کا ہوا جو انسانی تہذیب پر کیا گیا۔ اس میں دکھایا گیا کہ جنسی اخلاقیات کا ماخذ فطرت یا مذہب نہیں،بلکہ معاشی نظام ہے جو شکار سے زراعت اور زراعت سے صنعت تک پہنچا ہے۔ اس علم کے مرتبین نے یہ بتایا کہ انسانی معاشروں میں ابتداءً مردو عورت کے تعلقات مکمل جنسی آزادی کے اصول پر قائم تھے، مگر جب انسان نے شکار سے زراعت کے عہد میں قدم رکھا تو زمین کی انفرادی ملکیت کا نظریہ پیدا ہوا۔ ایک مرد کو زمین پر کام کرنے کے لیے کام کرنے والوں کی ضرورت پڑی۔ ان کارکنوں کے حصول کا بہترین ذریعہ اولاد تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ شادی کا سلسلہ شروع ہو جس میں کسی عورت کی وفاداریاں صرف ایک مرد سے وابستہ ہوں اور اس سے ہونے والی اولاد صرف اسی کی ملکیت ہو۔ عورت کے ایک مرد کی ملکیت ہونے کے اسی تصور سے عصمت اور حیا کے تصورات پیدا ہوئے تاکہ ان پابندیوں سے عورتوں کی لگام ہمیشہ مردوں کے ہاتھ میں رہے۔ جبکہ مردوں نے خود کو ہمیشہ ان زنجیروں سے آزاد رکھا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق اب انسان نے زراعتی دور سے صنعتی دور میں قدم رکھ دیا ہے۔ پیداواری عمل میں نہ صرف انسانوں کی اہمیت کم ہوگئی ہے، بلکہ عورت خود معاشی طور پر مکمل آزاد ہے۔ لہٰذا اب نہ کسی عورت کے ایک مرد سے جڑے رہنے کی کوئی ضرورت ہے، نہ شادی کی، نہ عصمت کوئی قابل لحاظ شے ہے نہ حیا کی کوئی ضرورت ہے۔ نتیجے کے طور پر خاندان کے بنیادی ادارے کی ساری اساسات ختم ہو گئیں۔

اس پس منظر کو اگر آپ ذہن میں رکھیں تو آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ کیوں اہل مغرب بغیر شادیوں کے ساتھ رہتے ہیں، کیوں خاندان کا ادارہ کمزور ہوچکا ہے، کیوں وہ شادی کے بعد بھی دیر سے اور کم بچے پیدا کرتے ہیں، کیوں عورتیں گھر سے باہر نکل آنا ضروری سمجھتی ہیں؟

ہمارے مسلم معاشرے بھی بد قسمتی سے اسی راہ پر چل پڑے ہیں جو اہل مغرب کا راستہ ہے۔ ایک طرف ہمارے معاشرے صنعتی دور میں داخل ہو چکے ہیں جس کے اپنے تقاضے اور نتائج و اثرات ہیں۔ دوسری طرف سیٹلائٹ ، کیبل اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے مغربی افکار اور اخلاقی بگاڑ ہمارے گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کر رہے ہیں۔ تیسری طرف ہماری پڑوسی ہندو تہذیب مغرب کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بعد اس کا بگاڑ ہماری زبان میں بالخصوص ہماری عورتوں تک پہنچا رہی ہے۔ ان سب کے ساتھ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقہ اوپر بیان کردہ مغربی افکار کے پروردہ ہیں اور اس فکر کو دن رات عوام میں روشن خیالی اور خواتین کے حقوق کے نام پر پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ہمارے معاشرے میں کس طرح خاموشی سے تبدیلی آ رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں پردہ و حجاب کی قدر اب محض ایک اقلیت کا جامہ بن کر رہ گئی ہے۔

ان حالات میں اہل مغرب کی جنسی بے راہ روی پر شور مچانے سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ ان تمام مغربی افکار و تحقیقات پر قرآن کی روشنی میں تنقید کی جائے جو اس اخلاقی بگاڑ کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ یہ کام مسلمان اہل علم کے کرنے کا ہے۔ اگر انھوں نے یہ کام بروقت نہ کیا تو اندیشہ ہے کہ مغربی تہذیب کا یہ طوفان ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کو ساتھ بہا کر لے جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک بہت اہم کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ فکر آخرت کے تصور کو عام کیا جائے ،کیونکہ مغربی تہذیب کے زہر کا حقیقی تریاق اگر کوئی ہے تو یہی ہے۔

ریحان احمد یوسفی

_______

 

فرقہ پرستی اور اس کا علاج

اللہ تعالیٰ نے انسان کومتنوع اور رنگا رنگ صلاحیتوں ، ذہانتوں اور مزاجوں سے نوازا ہے۔ اپنے گھر میں اپنے احباب میں اور اپنے معاشرے میں جب وہ انھیں بروئے کار لاتا ہے تو اس سے آرا کا اختلاف جنم لیتا ہے۔جب کسی خاص مسئلے پر ہمارے سامنے کوئی مختلف رائے آتی ہے تو وہ ہمیں کئی پہلوؤں سے غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، اس کی گرہیں کھولنے میں مدد دیتی ہیں اور بالآخر ہم اس مسئلے کا حل دریافت کرلیتے ہیں۔ گویا اختلاف رائے ایک نعمت ہے جو ہمارے فکر و عمل کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ نعمت اگر میسر نہ ہو تو اندھی تقلید پیدا ہوتی ہے جو اندھی عقیدت سے جنم لیتی ہے اور اسی سے فرقہ پرستی کا آغاز ہوتا ہے، ہم اگر صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو اختلاف رائے کی کئی مثالیں ہمارے سامنے آئیں گی۔ صحابۂ کرام آزادانہ ایک دوسرے کی علمی و عملی آرا پر تنقید کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے ان کے درمیان کبھی محبت میں کمی نہیں آئی، بلکہ اس کے برعکس جب بھی ان میں سے کسی کو غلطی کا احساس ہوا تو اس نے فوراً اپنی رائے تبدیل کر لی۔ حضرت عثمان حج میں نمازیں قصر نہیں کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کو پتا چلا تو انھوں نے فرمایا کہ ان کی رائے درست نہیں ہے ،مگر چونکہ وہ خلیفہ ہیں تو انھی کی رائے پر عمل ہو گا۔ یہی طرزِعمل تابعین اور فقہا کے ہاں بھی پوری شان سے نظر آتا ہے۔ یہ حضرات نہ صرف غلطی معلوم ہونے پر اپنی آرا بھی تبدیل کرتے تھے، بلکہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام بھی کرتے تھے۔ایک تابعی یحییٰ بن یزید نوفلی نے امام مالک کو یہ لکھا :

’’ میں نے سنا ہے کہ تم باریک (نفیس) کپڑے پہنتے ہو اور پتلی پتلی چپاتیاں کھاتے ہو اور نرم بچھونے پربیٹھتے ہو اور اپنے دروازے پر دربان مقرر کرتے ہو، حالانکہ تمھاری مجلس علم کے لیے ہوتی ہے جس میں لوگ دور و نزدیک سے آتے ہیں۔ جنھوں نے تمھیں اپنا امام بنا رکھا ہے اور تمھارے اقوال پر راضی ہیں۔ تمھیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرناچاہیے اور تواضع کو لازماً اختیار کرنا چاہیے ۔ میں نے یہ خط تمھیں بطور نصیحت لکھا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔‘‘

آخری فقرے پر غور کیجیے اور پھر امام مالک کا جواب ملاحظہ فرمائیے:

آپ کا نوازش نامہ ملا۔ میں آپ کی شفقت اور نصیحت کا شکر گزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تقویٰ کی نعمت سے نوازے اور اس نصیحت کے عوض بھلائی دے۔ میں گناہوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق چاہتا ہوں۔ آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ میں باریک کپڑے پہنتا ہوں، پتلی چپاتیاں کھاتا ہوں ، نرم فرش پر بیٹھتا ہوں اور دروازے پر دربان رکھتا ہوں تو و۱قعی میں ایسا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کا خواستگار ہوں، مگر باری تعالیٰ یہ بھی تو فرماتے ہیں : قل من حرم زینت اللّٰہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق۔ یہ میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کا ترک کر دینا، ان کو اختیار کرنے سے بہتر ہے۔ آپ اپنی خط و کتابت سے ہمیں نہ بھولیے۔ ہم بھی خط و کتابت جاری رکھیں گے۔ ‘‘

پہلے خط میں خیر خواہی کا رنگ غالب ہے۔ دوسرے خط میں نہ صرف اس جذبے کی قدردانی ہے،بلکہ اپنا اختلاف بھی مناسب و موزوں انداز میں ظاہر کر دیا گیا ہے۔ یہ ہماری اس علمی روایت کی ایک جھلک ہے جس نے بڑی بڑی قدر آور شخصیات پیدا کیں اور پھر وہ عظیم الشان دینی لٹریچر تخلیق ہوا جو آج بھی دین کے طالب علم کے لیے مشعل راہ ہے۔ مگر اسے مسلمانوں کی بد قسمتی ہی کہیے کہ بجائے اس کے کہ ان شخصیات کے کام سے فائدہ اٹھا کر دینی علم کو آگے بڑھایا جاتا اور مسلمان ہر زمانے میں اٹھنے والے سوالات کا مقابلہ کرتے، ان شخصیات سے اندھی عقیدت پیدا ہوئی۔ اس اندھی عقیدت نے بعد میں اندھی تقلید پیدا کی اور آج یہ حال ہے کہ کہیں شیعہ اور سنی میں فساد ہے تو کہیں اہل حدیث اور احناف باہم جھگڑ رہے ہیں۔ پھر ان فرقوں نے ایک خاص قسم کی اجارہ داری بھی قائم کر رکھی ہے کہ یہ کسی اور عالم کو دین پر غور کرنے اور ان کی آرا سے مختلف رائے رکھنے کی اجازت دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ اس فرقہ پرستی کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ لوگوں میں مذہب سے دوری اور بیزاری اپنے عروج پر ہے۔ لوگ اب کسی بھی فرقے پر اعتماد نہیں کرتے حتیٰ کہ دین کا علم رکھنے والوں کی معاشرے میں کوئی قدر نہیں۔

اس معاملے کو اگر ہم دین کی روشنی میں دیکھیں تو ہمارے سامنے قرآن مجید کا یہ ارشاد آتا ہے: ’’اور سب اللہ کی رسی کو تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘

اللہ کی رسی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’یہ قرآن ہے جو آسمان سے زمین تک اللہ کی تانی ہوئی رسی ہے‘‘۔ مولانا اصلاحی اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں :

’’ حبل اللہ ‘‘سے مراد قرآن ہے، اس لیے کہ یہی ہمارے رب اور ہمارے درمیان ایک عہد و میثاق ہے۔ خدا کو مضبوطی سے پکڑنا ظاہر ہے کہ اپنے ظاہری مفہوم میں نہیں ہے، اس لیے کہ خدا چھونے اور پکڑنے کی چیز نہیں، اس کو مضبوطی سے پکڑنے کی شکل یہی ہو سکتی ہے کہ ہم اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں جو ہمارے اور اس کے درمیان واسطہ ہے۔‘‘

اللہ کا مطالبہ تو ہم سے قرآن تھامنے کا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پوری امت میں کوئی شخص روایات کی وادی میں گم ہے تو کوئی اپنی مخصوص فقہ کے حصار میں قید ہے اور قرآن جو کہ میزان، فرقان اور حبل اللہ ہے، وہ روایت او رفقہ کے رحم و کرم پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم ایک طرف قرآن کو اپنا ہادی و رہنما نہیں مانیں گے اور دوسری طرف اپنے اوپر تنقید سننے کو گوارا نہیں کریں گے، ہم پر علمی زوال کی یہ کالی رات چھائی رہی گی اور ہم فرقہ پرستی کی دلدل میں پھنسے رہیں گے۔

کاشف علی خان شیروانی

____________

B