HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۹۰-۱۹۴ (۳۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ) 


وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ کَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ۔ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَہٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ۔ {۱۹۰۔۱۹۳} 

اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۔ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ {۱۹۴} 

اور اللہ کی راہ میں ۵۱۷  اُن لوگوں سے لڑو جو (حج کی راہ روکنے کے لیے) تم سے لڑیں اور (اِس میں) کوئی زیادتی نہ کرو ۔ ۵۱۸ بے شک ، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اِن (لڑنے والوں) کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور وہاں سے نکالو، جہاں سے اُنھوں نے تمھیں نکالا ہے ۵۱۹ اور (یاد رکھو کہ) فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے ۔ ۵۲۰   ا ور مسجد حرام کے پاس تم اُن سے خود پہل کر کے جنگ نہ کرو ، جب تک وہ تم سے اُس میں جنگ نہ کریں ۔ ۵۲۱  پھر اگر وہ جنگ چھیڑ دیں تو اُنھیں (بغیر کسی تردد کے) قتل کرو۔ اِس طرح کے منکروں کی یہی سزا ہے ۔ ۵۲۲  لیکن اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے ۔ ۵۲۳  اور تم یہ جنگ اُن سے برابر کیے جاؤ ،یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اِس سر زمین میں) اللہ ہی کا ہو جائے ۔ ۵۲۴  

تاہم وہ باز آ جائیں تو (جان لو کہ) اقدام ۵۲۵  صرف ظالموں کے خلاف ہی جائز ہے ۵۲۶۔۱۹۰۔ ۱۹۳ 

ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہے ۵۲۷ اور (اِسی طرح) دوسری حرمتوں کے بدلے ہیں ۔ لہٰذا جو تم پر زیادتی کریں ، اُنھیں اِس زیادتی کے برابر ہی جواب دو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان لو کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو اُس کے حدود کی پابندی کرتے ہیں ۔ ۲۸ ۵   ۱۹۴  

۵۱۷؎  مطلب یہ ہے کہ جس قتال کا حکم یہاں دیا جا رہا ہے ،وہ نہ خواہش نفس کے لیے ہے ،نہ مال و دولت کے لیے ، نہ ملک کی تسخیر اور زمین کی حکومت کے لیے ، نہ شہرت و ناموری کے لیے اور نہ حمیت و حمایت اور عصبیت یا عداوت کے کسی جذبے کی تسکین کے لیے ، بلکہ محض اللہ کے لیے ہے ۔ انسان کی خودغرضی اور نفسانیت کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ اللہ کی جنگ ہے جو اس کے بندے اس کے حکم پر اور اس کی ہدایت کے مطابق اس کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ ان کی حیثیت اس جنگ میں محض آلات و جوارح کی ہے ۔ اس میں ان کو اپنا کوئی مقصد نہیں ، بلکہ خدا کے مقاصد پورے کرنے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا وہ اپنی اس حیثیت سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے ۔

۵۱۸؎  یعنی اللہ کی راہ میں یہ قتال اخلاقی حدود سے بے پروا ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ اخلاقیات ہر حال میں اور ہر چیز پر مقدم ہیں اور جنگ و جدال کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ان سے انحراف کی اجازت کسی شخص کو نہیں دی ۔

۵۱۹؎  یعنی تمھیں نکالنا ہی کچھ کم جرم نہ تھا ، لیکن اللہ نے انھیں مہلت دی ، اب اگر یہ حج کی راہ بھی روکتے ہیں تو انھیں ام القریٰ مکہ سے اسی طرح نکال دو ، جس طرح انھوں نے تمھیں وہاں سے نکالا ہے ۔ پھر جہاں پاؤ، قتل کردو ، اس لیے کہ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اب یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں رہے ۔

۵۲۰؎  ان آیات میں قتال کا جو حکم دیا گیا ہے ، یہ اس کی دلیل بیان ہوئی ہے ۔ مدعا یہ ہے کہ ہر چند حرم کے پاس اور حرام مہینوں میں قتال ایک بڑی ہی سنگین بات ہے ، لیکن فتنہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ فتنہ کا لفظ یہاں کسی کو ظلم و جبر کے ساتھ اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے یا مذہب پر عمل سے روکنے کی کوشش کے لیے آیا ہے ۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں 'Persecution' کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ قرآن نے اسے جگہ جگہ اس معنی میں استعمال کیا ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ فی الواقع قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اس میں انسانوں کو حق دیا ہے کہ وہ اپنے آزادانہ فیصلے سے جو دین اور جو نقطۂ نظر چاہیں ، اختیار کریں ۔ لہٰذا کوئی شخص یا گروہ اگر دوسروں کو بالجبر ان کا دین چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے تو یہ درحقیقت اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی پوری اسکیم کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔

۵۲۱؎  مطلب یہ ہے کہ کسی حرمت کے پامال کرنے میں پہل تمھاری طرف سے نہیں ہونی چاہیے ۔ چنانچہ مسجد حرام کے پاس اور حرام مہینوں میں قتال اگر ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کی ابتدا ان کی طرف سے ہو جائے ۔ تم اس معاملے میں اپنی طرف سے ابتدا ہر گز نہیں کر سکتے ۔

۵۲۲؎  یعنی جو رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود اسے نہ مانیں ، بلکہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیں اور حج جیسی عبادت کے لیے بھی وہ اگر واپس آنا چاہیں تو حرام مہینوں میں تلوار اٹھائیں اور ان کی راہ میں مزاحم ہو کر کھڑے ہو جائیں، ان کی سزا ایسی ہی سخت ہونی چاہیے ۔

۵۲۳؎  باز آ جانے سے مراد محض جنگ سے رک جانا نہیں ہے ، بلکہ اپنے اس کفر اور سرکشی سے باز آ جانا ہے جس کی سزا اوپر بیان ہوئی ہے ۔ اس کے بغیر ، ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کے مستحق نہیں ہو سکتے تھے ۔

۵۲۴؎  اس کے معنی یہ ہیں کہ جس قتال کا حکم یہاں دیا گیا ہے، اس کی غایت صرف یہ نہیں ہے کہ حج کی راہ میں قریش کی مزاحمت ختم کر دی جائے ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سرزمین عرب میں دین صرف اللہ ہی کا ہو جائے ۔ قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو جنگ کا حکم انھی دو مقاصد کے لیے دیا گیا ہے ۔ پہلے مقصد کے لیے فتنہ کا جو لفظ اصل میں آیا ہے ، اس کے معنی ہم نے اوپر بیان کر دیے ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ دوسروں کو بالجبر ان کے مذہب سے برگشتہ کرنے یا اس پر عمل کی راہ روکنے کی روایت اب بڑی حد تک دنیا سے ختم ہو گئی ہے ، لیکن انسان جب تک انسان ہے ، نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب اور کس صورت میں پھر زندہ ہو جائے ۔ اس لیے قرآن کا یہ حکم قیامت تک باقی ہے ۔ اللہ کی زمین پر اس طرح کا کوئی فتنہ جب سر اٹھائے ، مسلمانوں کی حکومت اگر اتنی قوت رکھتی ہو کہ وہ اس کا استیصال کر سکے تو اس پر لازم ہے کہ مظلوموں کی مدد کے لیے اٹھے اور اللہ کی اس راہ میں جنگ کا اعلان کردے ۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کی یہ ہدایت ابدی ہے ، اسے دنیا کا کوئی قانون بھی ختم نہیں کر سکتا۔ رہا دوسرا مقصد تو یہ دو ہی صورتوں میں حاصل ہو سکتا تھا : ایک یہ کہ سرزمین عرب میں دین حق کے سوا تمام ادیان کے ماننے والے قتل کر دیے جائیں ۔ دوسرے یہ کہ انھیں ہر لحاظ سے زیردست بنا کر رکھا جائے ۔ چنانچہ صلح و جنگ کے بہت سے مراحل سے گزر کر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین پوری طرح مغلوب ہو گئے تو بالآخر یہ دونوں ہی طریقے اختیار کیے گئے ۔ مشرکین عرب اگر ایمان نہ لائیں تو انھیں ختم کر دینے کا حکم دیا گیا اور یہودو نصاریٰ کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ ان سے جزیہ لے کر اور انھیں پوری طرح محکوم اور زیر دست بنا کر ہی اس سرزمین پر رہنے کی اجازت دی جائے ۔ ان میں سے البتہ جو معاندین تھے ، انھیں جب ممکن ہوا قتل یا جلا وطن کر دیا گیا۔

اس دوسرے مقصد کے لیے قتال اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق شریعت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ انھی لوگوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ ’’شہادت‘‘کے منصب پر فائزکرتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کی ایسی گواہی بن جاتے ہیں کہ اس کے بعد کسی کے لیے اس سے انحراف کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو حاصل ہوا ہے ۔ اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب کسی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو اس کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی ۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور ان کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ انھیں جس طرح فتنہ کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا ، اسی طرح اس مقصدکے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی ۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسانوں کے ہاتھ سے انجام پایا ۔ اسے ایک سنتِ الہٰی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے ۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۱۴ کے الفاظ ’یعذبھم اللّٰہ بایدیکم‘میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے ۔

۵۲۵؎  اصل میں لفظ ’عدوان‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی تو زیادتی اور تعدی کے ہیں ، لیکن یہاں یہ ٹھیک اس مفہوم میں آیا ہے جس مفہوم میں ہم ’’اقدام‘‘ کا لفظ بولتے ہیں ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے :

’’عربی زبان میں کبھی کبھی بعض الفاظ محض مجانست و ہم آہنگی کے لیے استعمال ہو جاتے ہیں ۔ ان کا مفہوم موقع و محل سے متعین ہوتا ہے ۔ مثلاً کہتے ہیں : ’دناھم کما دانوا‘( ہم نے ان کو بدلہ دیا، جیسا کہ انھوں نے ہمارے ساتھ کیا)۔ ظاہر ہے کہ یہاں ’دانوا‘ محض ’دنا‘ کی مشابہت کی وجہ سے لایا گیا ہے ۔ ورنہ موقع ’فعلوا‘ یا اس کے ہم معنی کسی لفظ کا ہے ۔ یا قرآن میں ہے : ’جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا‘۔ (برائی کا بدلہ اسی کے مانند بدلہ ہے ) ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کسی برائی کابدلہ کوئی برائی نہیں ہے، لیکن محض سابق لفظ کی ہم آہنگی کی وجہ سے جرم کے ساتھ اس کی سزا کو بھی ’سیئۃ‘ سے تعبیر کر دیا۔ اسی طرح آگے والی آیت میں ہے : ’فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ‘ (جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کی زیادتی کے برابر اس کے خلاف اقدام کرو) ۔ اس آیت میں کسی کی زیادتی کے جواب میں جو اقدام کیا جائے ، اس کو بھی ’اعتدا‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، حالاں کہ یہ معنی میں محض اقدام کے ہے ۔ صرف اپنے ماسبق کے ساتھ ہم آہنگی کی وجہ سے اس شکل میں استعمال ہوا ۔ عربی زبان کے اسی معروف اسلوب کے مطابق زیر بحث آیت میں بھی لفظ ’عدوان‘ استعمال ہوا، لیکن مراد اس سے مجرد وہ اقدام ہے جو جوابی کارروائی کے طور پر کیا جائے ۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن ۱ /۴۷۹)

۵۲۶؎  یعنی اگر یہ اپنی معاندت چھوڑ کر ایمان و اسلام کی راہ اختیار کر لیں تو ان کے پچھلے جرائم کی بنا پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کے بعد اقدام صرف انھی لوگوں کے خلاف جائز ہو گا جو انکار پر قائم رہیں اور اپنے رویے کی اصلاح نہ کریں ۔

۵۲۷؎  یعنی ماہ حرام کی حرمت اگر یہ ملحوظ نہیں رکھتے تو اس کے بدلے میں تمھیں بھی حق ہے کہ اس کی پروا کیے بغیر ان کے خلاف جنگ کرو، اس لیے کہ اس طرح کی حرمتیں باہمی طور پر ہی قائم رہ سکتی ہیں ، انھیں کوئی ایک فریق اپنے طور پر قائم نہیں رکھ سکتا۔

۵۲۸؎  یہ اوپر بیان کیے گئے احکام کی دلیل ارشاد ہوئی ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’مطلب یہ ہے کہ اشہر حرم میں یا حدودِ حرم میں لڑائی بھڑائی ہے تو بہت بڑا گناہ ،لیکن جب کفار تمھارے لیے اس کی حرمت کا لحاظ نہیں کرتے تو تمھیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ قصاص کے طور پر تم بھی ان کو ان کی حرمت سے محروم کر دو ۔ ہر شخص کی جان شریعت میں محترم ہے ، لیکن جب ایک شخص دوسرے کی جان کا احترام نہیں کرتا ، اس کو قتل کر دیتا ہے تو اس کے قصاص میں وہ بھی حرمت جان کے حق سے محروم کر کے قتل کر دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اشہر حرم اور حدود حرم کا احترام مسلم ہے ، بشرطیکہ کفار بھی ان کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان میں دوسروں کو ظلم و ستم کا ہدف نہ بنائیں ۔ لیکن جب ان کی تلواریں ان مہینوں میں اور اس بلد امین میں بے نیام ہوتی ہیں تو وہ سزاوار ہیں کہ ان کے قصاص میں وہ بھی ان کے امن و احترام کے حقوق سے محروم کیے جائیں ۔ مزید فرمایا کہ جس طرح اشہر حرم کا یہ قصاص ضروری ہے ، اسی طرح دوسری حرمتوں کا قصاص بھی ہے ۔ یعنی جس محترم چیز کے حقوق حرمت سے وہ تمھیں محروم کریں ، تم بھی اس کے قصاص میں اس کے حق حرمت سے انھیں محروم کرنے کا حق رکھتے ہوـ۔ پس جس طرح کے اقدامات حرم اور اشہر حرم کی حرمتوں کو برباد کر کے وہ تمھارے خلاف کریں ، تم ان کے جواب ترکی بہ ترکی دو۔ البتہ تقویٰ کے حدود کا لحاظ رہے ۔ کسی حد کے توڑنے میں تمھاری طرف سے پیش قدمی نہ ہو اور نہ کوئی اقدام حد ضروری سے زائد ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت انھی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ہر طرح کے حالات میں اس سے ڈرتے رہتے ہیں ۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۷۹۔ ۴۸۰)

(باقی)      

              ـــــــــــــــ              ـــــــــــــــ

B