HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

متفرق مضامین

مجلس نبوی کے آداب

’’(اِن فتنوں سے بچنے کے لیے)، اے ایمان والو، (تم بارگاہِ رسالت میں بیٹھو تو) ’راعنا‘ نہ کہا کرو، ’انظرنا‘ کہا کرو اور (جو کچھ کہا جائے، اُسے) توجہ سے سنو، اور (اِس بات کو یاد رکھو کہ)اِن کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔اہل کتاب ہوں یا مشرکین، اِن میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے کوئی خیر تم پر نازل کیا جائے۔ اور ( یہ احمق نہیں جانتے کہ) اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے، اور (نہیں جانتے کہ) اللہ بڑی عنایت فرمانے والا ہے۔
(اِنھیں اعتراض ہے کہ تورات کی شریعت میں ہم کوئی تبدیلی کیوں کرتے ہیں۔ اِنھیں بتا دو)، ہم (اِس کتاب کی) جو آیت بھی منسوخ کرتے ہیں یا اُسے بھلا دیتے ہیں، (قرآن میں) اُس کی جگہ اُس سے بہتر یا اُس جیسی کوئی دوسری لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے، (اے لوگو)کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آسمانوں اور زمین کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مدد کرنے والا۔‘‘ (۲: ۱۰۴۔۱۰۷)

مدعا یہ ہے کہ یہ یہود ہمارے اِس نبی پر کیا ایمان لائیں گے اور کیا تقویٰ کی راہ اختیار کریں گے۔ اے مسلمانو، تم اپنے دامن کی فکر کرو۔ یہ لوگ تمھاری محفلوں میں آکر بڑے شنیع طریقوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، تم اِن سے خبردار رہو اور انہیں کوئی موقع نہ دو۔ دیکھو یہ تمھارے نبی کے پاس آتے اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم علم کے سچے طالب اور حق کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اے محمد تیری محفل میں آئے ہیں، تو بات کرتا ہے ہم تیری بات سنتے ہیں، تو نے بات کرتے ہوئے ابھی یہ کیا کہا تھا، کان توپڑا پر سنائی نہ دیا، ہماری کچھ رعایت کریں پھر سے کہیں، ہم بھی جان لیں ہم بھی سمجھ لیں، تم فہم و فراست کی کہتے اور عقل و دانش کی با ت کرتے ہو۔

یہ لوگ اپنا یہ تاثر تمھارا مجلسی لفظ ’راعنا‘ بول کر ظاہر کرتے ہیں۔ خوش گمان یہ سمجھتا ہے کہ یہ رعایت چاہتے ہیں ۔لیکن غور کرو ،نہ یہ کسی رعایت کے مستحق ہیں،نہ یہ کوئی رعایت چاہتے ہیں۔ یہ راعنا (ہماری رعایت کریں) کا لفظ نہیں راعینا (ہمارے چرواہے)کا لفظ بولتے ہیں، تاکہ یہ شہنشاہِ ارض و سما کے رسول کا مذاق اڑائیں اور اُس کے ذریعے سے اِن پر جو اتمامِ حجت ہو رہا ہے اُس کے ردِ عمل میں اُس کی توہین کر یں اور اُس کو مسلمانوں کی نگاہ سے گرانے کی کوشش کریں۔

اے ایمان والو، اِن فتنوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تم جب بھی اپنے نبی کے پاس بیٹھو اور تمھیں اُس سے بات سمجھنے کے لیے اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا اور کوئی بات دوبارہ سننا پیشِ نظر ہو تو ’راعنا‘ کے الفاظ نہ کہا کرو، بلکہ ’انظرنا‘ کہہ دیا کرو ،اور ہاں جو کچھ بھی کہا جائے، اُسے پہلے ہی سے توجہ سے سنا کرو۔ لازم ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو اِن شنیع حرکتوں سے بہت دور رکھیں۔

اے مسلمانو! تم خود کو بچاؤ اور اِس بات کو یاد رکھو کہ تمھارے پروردگار نے ایسے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہ تمھارے ارد گرد کے اہلِ کتاب ہوں یا مشرکین، اِن میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے، وہ اِس غصے اور اِس حسد میں جل رہے ہیں کہ تم خدا کی طرف سے اِس خیرِ عظیم کے حق دار کس طرح قرار پا گئے، وہ نہیں چاہتے کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے کوئی خیر تم پر نازل کیا جائے۔ اُن کے خیال میں سارا خیر اور سارا شرف تو اُن کی وراثت تھا، نہ کہ اِس قلاش نبی اور اِس کے اِن بے سرو سامان ساتھیوں کی۔ اُن کے خیال میں اللہ نے یہ غلط فیصلہ کیا ہے کہ اِس بھلائی سے تمھیں بہرہ مند کر دیا ہے۔ مسلمانو، تم اِن کی چالوں سے ہوشیار رہو۔

افسوس یہ احمق یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ بڑی حکمت کا مالک ہے ، وہ اپنی حکمت سے جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے، اور کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ بڑی عنایت فرمانے والا ہے، کیا یہ اُس کو تمھارے حق میں بخل کا مشورہ دینا چاہتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ وہ بڑے فضل والا ہے وہ جو فیصلہ اپنی حکمت اور رحمت سے کرے گا پھر وہ کسی کے مشورے سے اُس میں کوئی بخل کیوں برتے گا۔

انھیں یہ اعتراض بھی ہے کہ تورات کی شریعت میں خدا کوئی تبدیلی کیوں کرتا ہے۔ اگر تورات اُسی کی نازل کردہ ہے تو پھر کیا اُسے اب کسی تجربے نے کچھ سجھا دیا ہے، جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا اور اب اُس نے جان لیا ہے، یہ کیسا خدا ہے جس سے محمد کا قرآن ہمیں متعارف کرا رہا ہے ۔ اے مسلمانو ، یہ لوگ اِس طرح کے اعتراضات کرکے تمھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ تم انھیں چھوڑ دو اور کوئی بھی اُن کی بات نہ سنے، وہ تنہا رہ جائیں۔

انھیں بتا دو، کہ خدا تمدن کے ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے پیشِ نظر اِس کتاب تورات کی جو آیت بھی منسوخ کرتا ہے یا اُسے بھلا دیتا ہے، قرآن میں اُس کی جگہ اُس سے بہتر یا اُس جیسی کوئی دوسری آیت لے آتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اُس نے انسانوں کے لیے اپنی ہدایت اور اپنی شریعت میں کوئی کمی کر ڈالی ہے ۔

اے لوگو، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔وہ کسی کو شریعت دینے کے بعد اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے دست بردار نہیں ہو جاتا، وہ جب چاہتا ہے اور جس ذریعے سے چاہتا ہے ، دنیا کو اپنی شریعت دیتا ہے ، اور پھر اُس میں اپنی حکمت سے جب بھی کوئی تبدیلی چاہتا ہے، کر ڈالتا ہے۔

اے یہود ، جان لو، آسمانوں اور زمین کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے ،اُس نے تمھیں اپنی شریعت کا حامل بنایا تھا ،پر تم اُس کے اہل ثابت نہ ہو سکے ،اب اُس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسری قوم کو اِس منصب پر سرفراز کرے گا ۔اُس کا یہ فیصلہ تمھارے غم و غصہ کے باوجود، نافذ ہو کر رہے گا۔ تمھارا کوئی حامی اور کوئی مدد گار بھی اللہ کے اِس فیصلے کو ہٹانے میں تمھاری مدد نہیں کر سکتا۔

محمد رفیع مفتی

_______


خدا سے دعا

’’اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت بخشنے کے بعد کبھی کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخشں۔ تو نہایت بخشنے والا ہے ۔ اے ہمارے پروردگار! تو سب لوگوں کو ایک ایسے دن کے لیے جمع کر کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا ۔‘‘ (آل عمران ۳: ۸۔۹)

قرآن مجید میں یہ ان لوگوں کی دعا نقل ہوئی ہے جو واقعی اہل علم ہیں اور انھیں اپنے علم میں رسوخ (پختگی) حاصل ہے ۔

یہ دنیا آزمایش کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادے کی آزادی اور اختیار دے کرہدایت و ضلالت میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب اس کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے ۔ یہ دونوں راستے اس کے سامنے واضح ہیں ۔ اس کی آزمایش یہ ہے کہ وہ کسی خارجی جبر کے بغیر اپنے لیے دونوں میں سے کسی ایک راہ کا انتخاب کرے ۔ خدا کی مرضی یہ ہے کہ وہ سیدھی راہ پر چلے ۔ وہ جب یہ راہ اختیار کر لیتا ہے تو شیطان اور اس کے حواری اسے راہ حق سے ہٹانے اور گمراہی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں ۔ انسان کے لیے بسا اوقات یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنے ان ازلی دشمنوں سے اللہ کی تائید و نصرت کے بغیر مقابلہ کر سکے ۔

پہلی آیت میں بندوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ جب شکوک و شبہات کے نرغے میں آ جائیں اور ان کا ایمان و اسلام خطرے میں ہو تو اپنے اللہ سے مدد کی دعا کریں ۔ اور وہ یہ دعا ہمیشہ کرتے رہیں تاکہ دین میں انھیں اطمینان حاصل رہے ۔ صراط مستقیم پر ان کے جمے ہوئے قدم اکھڑنے نہ پائیں اور فتنوں کے حملے کے وقت خدا کی مدد پہنچتی رہے ۔ بس یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ راہ حق میں ثابت قدم رہ سکتے ہیں ۔

دوسری آیت میں آخرت پر بندے کے غیر متزلزل یقین کا اظہار ہے ۔ غور کیجیے تو آخرت پر سچا ایمان اور پختہ یقین ہی ہے جو انسان کے دل کا محافظ ، دماغ کا رہنما اور عقل کا پاسبان ہے ۔ انسان اگر اس یقین سے محروم ہو جائے تو پھر فکر و نظر کی گمراہی سے بچنا ممکن نہیں رہتا ۔ پھر وہ زندگی کو ایک آسان بازی سمجھنے لگتا ہے اور اسے دنیا کے داؤ پر لگا دیتا ہے ۔ یہ چیز بالآخر اسے آخرت میں خدا کی جنت سے محروم کر دیتی ہے ۔

وہ لوگ جن کے دل و دماغ میں آخرت کا یقین رچا بسا ہوتا ہے ، وہ دنیا میں ہر قدم احتیاط کے ساتھ اٹھاتے، پھونک پھونک کر قدم رکھتے اور یہ یقین کر کے آگے بڑھتے ہیں کہ وہ واقعی صراط مستقیم پر گام زن ہیں ۔ وہ شیطان کے حملوں سے ہمیشہ اندیشہ ناک رہتے ہیں ۔ ان حملوں سے بچنے کی دعا ان کا شب و روز کا معمول ہوتا ہے اور وہ راہِ حق میں ثابت قدمی اور استقامت کے لیے اللہ ہی سے مدد کے طالب ہوتے ہیں ۔

محمد اسلم نجمی

_______


نبی کریم کا عورتوں سے خطاب

’’حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عید الفطر کے روز عید گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کا گزر عورتوں (کے ایک گروہ) کے پاس سے ہوا۔ (آپ کچھ دیر کے لیے وہاں رکے اور انھیں خطبہ دیتے ہوئے) آپ نے ارشاد فرمایا : اے عورتو، تم زیادہ سے زیادہ خیرات کیا کرو، کیوں کہ (مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ) عورتیں جہنم میں زیادہ ہیں ۔ (اس پر) انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہے (یعنی ہماری کس غلطی کی وجہ سے ایسا ہے ) ؟ آپ نے فرمایا : تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو ۔ دین اور دنیا کی ذمہ داری میں اتنی کمی کے باوجود ۱؂ میں نے ہوشیار اور پختہ ارادے والے بندے کو تم سے بڑھ کر گمراہ کر دینے والیاں نہیں دیکھیں ۔ عورتوں نے پوچھا : ہمارے دین اور دنیا کی ذمہ داریوں میں کمی کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا: کیا (دستاویزی) شہادت میں ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی نہیں ہوتی ۔ انھوں نے کہا : ایسا ہی ہے ۔ آپ نے فرمایا : یہ تمھاری دنیا کی ذمہ داریوں میں کمی کی مثال ہے ۔ (اس کے بعد) آپ نے فرمایا : کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت حالت حیض میں نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ؟ انھوں نے کہا : کیوں نہیں !ا یسا ہی ہے ۔ آپ نے فرمایا : یہ تمھاری دینی ذمہ داریوں میں کمی کی مثال ہے ۔‘‘ (مشکوٰۃ ،رقم ۱۹)

یہ غالباً اس موقعے کی بات ہے جب آپ نمازِ عید کے لیے نکلے ۔ پہلے آپ نے مردوں کو خطبہ دیا اور پھر عورتوں کو کچھ نصیحتیں کیں ۔ اس حدیث میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے بس یہی کچھ فرمایا ہو گا ۔آپ نے اس موقع پر اور بہت سی نصیحتیں کی ہوں گی ، مگر راوی نے اپنے ذوق کے مطابق اور اپنی پسند کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل باتوں کو منتخب کیا اور انھیں بیان کر دیا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی بھی آتی تھی اور بعض حقائق رویا (خواب) کے ذریعے سے بھی دکھائے جاتے تھے تاکہ آپ لوگوں کو نصیحت کریں اور انھیں دینی لحاظ سے دنیا و آخرت کے بعض اہم پہلووں کی جانب توجہ دلائیں ۔ اس حدیث میں اسی قسم کے ایک رویا کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔

دوزخ میں عورتوں کی اکثریت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو وجوہ بیان فرمائے ہیں :

۱۔ وہ لعن طعن بہت کرتی ہیں ۔ یہ ان کے بات بے بات طیش میں آ جانے ، بات کرتے ہوئے احتیاط نہ برتنے ، الزام دینے ، بہتان باندھنے اور چغلی کھانے میں زیادہ دلچسپی لینے اور عدمِ تربیت اور احتیاط نہ کرنے کے باعث رازوں کی پاس داری میں لاپروائی کا رویہ اختیار کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔

۲۔ وہ اپنے خاوندوں کی ناشکرگزار ہوتی ہیں ۔ شوہر انھیں ساری عمر کما کر کھلاتا ہے اور ان کی ضروریات پوری کرتا ہے ۔ لیکن حالات کی ناسازگاری کے باعث اگر رزق میں تنگی پیدا ہو جائے اور بعض ضرورتیں پوری نہ ہو سکیں تو ایسی صورت میں ان کا رویہ بالعموم ناشکری کا ہوتا ہے اور وہ سابقہ زندگی کی رفاہیت کو نظر انداز کر کے بسا اوقات ایسے تبصرے کرتی ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انھیں اپنے خاوند کے گھر میں کبھی سکھ کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سبھی عورتیں ایسی ہوتی ہیں ۔ یہ دراصل عورتوں کا عمومی رویہ بیان ہوا ہے ۔ ورنہ تو کتنی ہی عورتیں ایسی ہیں جو نہایت نیک سیرت، پاک باز اور اپنی زبان اور رازوں کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں اور کتنے ہی مرد ایسے ہیں جو کم ظرفی ، رازوں کی پاس داری میں لاپروائی اور دوسروں کی عیب جوئی کے معاملے میں عورتوں سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں ۔

محمد اسلم نجمی

۱؂ حدیث میں اس کے لیے ’’ناقصات عقل و دین‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ عربی زبان میں عقل اور دین کے الفاظ جب اس طرح استعمال ہوتے ہیں تو اس سے دین اور دنیا مراد ہوتے ہیں ۔ عربی کے اس اسلوب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس حدیث سے غلط نتیجہ نکالا گیا اور عورت کو ناقص العقل قرار دے دیا گیا۔ یہ چیز عقل و فطرت کے مسلمات، دین و شریعت کی تعلیمات اور انسان کو اس دنیا میں درپیش آزمایش کی حکمت کے خلاف ہے۔

_______


انفاق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میں قسم کھاتا ہوں(کہ وہ ہر حال میں ہو کر رہیں گی، ان میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ)جس نے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا تو اس کے مال میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (دوسری یہ کہ )کسی پر ظلم ہو اور وہ مظلوم (یعنی بے گناہ بھی) ہواور پھر وہ اس پر صبر کرے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ اس کی عزت میں اضافہ نہ کرے۔اور(تیسری یہ کہ )جب کوئی آدمی اللہ کو چھوڑ کر اوروں سے مانگنے نکل کھڑا ہوتو اللہ اس پر تنگ دستی کے دروازے کھول دیتا ہے(یعنی اسے تنگ دست بنا دیتا ہے)۔(اس کے بعد فرمایا)میں تمھیں ایک بات بتاتا ہوں ،اسے یاد رکھو (پھر وہ بات یوں بیان کی کہ)اس دنیا میں چار طرح کے لوگ رہتے ہیں :(ایک ) وہ بندہ جسے اللہ نے مال اور علم دیا ہو اور وہ (ا پنے علم کے ذریعے سے) ،اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور (اپنے مال کے ذریعے سے)صلہ رحمی کرتا ہو،اور اسے احساس ہو کہ(جو علم اور مال اسے عطا ہوا ہے )اس میں اللہ کا حق بھی ہے۔اور(دوسرا )وہ بندہ جسے اللہ نے علم عطا کیا ہو ،مگر اسے مال نہ دیا ہو اور(مال سے محرومی کے باوجود)وہ نیک نیت ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ اگر اس کے پاس مال ہوتا تو فلاں (خدا کی راہ میں انفاق کرنے والے )کی طرح خرچ کرتا۔ایسے شخص سے اس کی نیت کے مطابق معاملہ ہو گا اور ان دونوں کا اجر برابر ہوگا۔اور (تیسرا)وہ جسے اللہ نے مال دیا مگر علم سے محروم رکھا اور علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے مال (کے نشے میں ) سرمست ہو گیا،وہ (اپنے )اس( مال کے معاملے )میں نہ اللہ سے ڈرتا ہے(یعنی اسے بے جا اسراف و تبذیر میں اڑا دیتا ہے ) ،نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ مال میں اللہ کا حق پہچانتا ہے(یعنی اللہ کے راستے میں انفاق نہیں کرتا)تو یہ شخص بدترین مقام پر ہے۔اور(چوتھا )وہ شخص جسے اللہ نے مال اور علم دونوں سے محروم رکھا اوروہ(محض مال سے محرومی پر حسرت کرتے ہوئے )کہتا ہے:اگر اس کے پاس مال ہوتا تو فلاں (خدا فراموش شخص)کی طرح (مال کو عیش و عشرت میں )خرچ کرتا۔ایسے شخص کے سا تھ بھی اس کی نیت کے مطابق سلوک ہوگا ،اور ان دونوں کے گناہوں کا بوجھ یکساں رہے گا۔ (ترمذی، رقم۲۲۴۷)

اس حدیث کی ابتدا اللہ کے راستے میں انفاق کی تعلیم سے ہوئی ہے۔اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ دین میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا کتنی اہمیت کا حامل ہے۔

انفاق کے بارے میں آپ کا یہ فرمانا کہْ جس نے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا ،وہ جان لے کہ اس کے مال میں کوئی کمی نہیں ہوئی، یہ بات عجیب لگتی ہے ۔ بظاہر خرچ کرنے سے مال کم ہوتا ہے ،مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اسے یوں سمجھ لیں کہ جیسے کسی شخص کے پاس مال ہو اور وہ اس میں سے کچھ رقم بنک میں جمع کرادے تو اگرچہ اس کے پاس بظاہر روپیہ کم ہو گیا، مگر دوسری جگہ پر روپیہ اس کے نام پر محفوظ ہو گیا۔اس لیے اس کے مال میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، بلکہ اس کی جو رقم بنک میں پڑی ہے ، وہ زیادہ محفوظ ہے۔اسی طرح اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوامال ہی اصلاً محفوظ ہے۔پھر یہی نہیں کہ اصل زر محفوظ ہوا ہے ، بلکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ آخرت کے بنک میں جمع ہونے والے مال پر اس طرح منافع دیں گے کہ اسے کئی گنا بڑھا دیں گے۔

کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جن کے اس دنیا کے بنکوں میں کروڑوں روپے جمع ہیں ، مگرموت کے بعد جب وہ خدا کے حضور حاضر ہوں گے تو آخرت کے بنک میں ان کے حساب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہوگی۔اور کتنا خوش بخت ہے وہ شخص جو اپنے مال کو خدا کی امانت خیال کرتا ہے اور محروموں کو اس میں حصہ دار بناتا ہے ۔ایسا شخص قیامت میں خدا کی جنت میں داخل ہوگا اور آخرت کی ابدی بادشاہی کا حق دار قرار پائے گا۔

اس حدیث میں دوسری اہم بات یہ بیان ہوئی ہے کہ اصل عزت خدا سے تعلق قائم کرنے اور اس کی مرضی پر چلنے سے حاصل ہوتی ہے۔اس راہ پر چلتے ہوئے کسی شخص کو اگر کسی تکلیف یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور کوئی اسے محض اپنے مال و دولت اور اثر و اقتدار کے بل پر رسوا کرنا چاہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کی یہ کوشش خدا کی مرضی کے خلاف ہوگی ۔ایسا شخص اگر ظلم و زیادتی کے باوجود صبرکرے اور صراطِ مستقیم پر قائم رہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ خدا کی نظر میں برگزیدہ ہوگا اور دنیا میں بھی صاحب عزت قرار پائے گا۔

تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں رزق اور وسائل کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے بندوں میں فرق اور تفاوت قائم رکھا ہے۔یہ خدا کی مشیت اور اس دنیا میں درپیش آزمایش کی ضرورت ہے۔اس حدیث میں محروموں کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور میسر اسباب کو جائز طریقوں سے استعمال میں لانے کے بعدجو کچھ حاصل کر پائیں اس پر قناعت کریں۔اور اگر ناگزیر ضرورتوں کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑ جائے تو بس اللہ ہی کے سامنے دست سوال دراز کریں،اور اسی کے دروازے پر دستک دیں۔ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ بندے کو وہاں سے رزق مہیا کردیتا ہے ، جہاں سے اسے سان گمان بھی نہیں ہوتا۔(۶۵: ۳)

اس کے برخلاف بندہ اگر رزق کی تنگی سے گھبرا جائے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے غلط روش اختیار کر لے اور غیراخلاقی اور غیر قانونی طریقوں سے دولت کمانے کے درپے ہوجائے اور عالم کے پروردگار پر اعتماد کھو بیٹھے اور مخلوق میں سے کسی کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ لے تو ایسے شخص کے لیے خدا کا فیصلہ ہے کہ وہ لازماً رسوا ہوگا اور زندگی بھر تنگ دستی سے چھٹکارا نہ پا سکے گا۔یہ رویہ اختیار کرکے وہ گویا اللہ کے مقابلے میں دوسروں کو رازق مانتا اور انھیں خدا کے منصب پر فائز کرتا ہے۔یہ ایسا جرم ہے جس کا نتیجہ دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں خدا کی ناراضی ہوگا۔

اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کی درجہ بندی کرکے ان کے رویوں کو نہایت خوبی کے ساتھ نمایاں کیا ہے:

برے اعمال میں تو نیت اچھی بھی ہو تو ان کی برائی میں کوئی فرق نہیں آتا،البتہ نیک اعمال میں اصل اعتبار نیت کا ہے۔اچھا کام اگر خدا کے لیے کیا جائے تو اس کا اجر آخرت میں محفوظ ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر عملِ صالح کے پیچھے نیت بری ہو توایسا عمل خدا کے ہاں بے وزن قرار پاتا ہے۔

نیت کی پاگیزگی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ جس کے ساتھ بھلائی کر رہا ہے ، اسے اپنا محسن سمجھے،اس لیے کہ اس نے اسے نیکی کرنے کا موقع فراہم کیاہے ۔ اس لیے وہ نہ اس پر احسان جتائے اور نہ اسے اذیت دے۔

اللہ نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے۔یہاں لوگوں کو علم و مال وغیرہ کی صورت میں جو کچھ ملا ہے ، وہ ان کے استحقاق کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ آزمایش کی غرض سے عطا ہوا ہے۔اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانے والوں اور محروم رہنے والوں کا خدا کی نظر میں پسندیدہ رویہ نہایت جامعیت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

وہ لوگ جنھیں اللہ نے اس دنیا میں علم کی دولت ،اسباب و وسائل اور مال و منال وغیرہ سے محروم رکھا ہے،وہ بظاہر ان سے کم تر نظر آتے ہیں ، جنھیں یہ سب کچھ یا اس میں سے کچھ ملا ہے۔دنیا کے اعتبار سے یہ فرق مراتب بہر حال قائم رہے گا،مگر محرومین اگر قرآن و سنت کا لحاظ ر کھتے ہوئے آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں صحیح رویہ اختیار کریں تو وہ آخرت کے اجر میں پانے والوں کے برابر ہو سکتے ہیں۔

محرومین کی آزمایش بھی اگرچہ آسان نہیں ہے ، مگر علما اور اہل ثروت کی ذمہ داریاں زیادہ سخت اوربہت نازک ہیں۔ انھیں اپنی بہت سی تمناؤں ،آرزووں اور خواہشوں کو قربان کرکے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مقابل محرومین کو بس اپنی نیت کو پاک صاف رکھنا اور صبر و شکر کا رویہ اختیار کرنا ہے ۔اس کے بعد ،امید ہے کہ وہ آخرت کے اجر میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔

محمد اسلم نجمی

_______

 

خدمت خلق

انسان کی فطرت ہے کہ وہ امیدوں کے سہارے جیتا ہے ۔ یہ امیدیں اسے اپنے ہم نفسوں سے ہوتی ہیں ۔ بعض لوگ دوسروں کی توقعات پر پورا اترنے کو زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں ۔ وہ کسی کی زندگی میں عین اس وقت امید کی شمع روشن کر دیتے ہیں جب اسے ہر طرف اندھیرا نظر آتا ہے ۔ یہ معاشرے کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے جان لیا ہے کہ انسان کے احساس کو معراج اس وقت حاصل ہوتی ہے ، جب وہ دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنا شروع کر دے اور نظر کو رفعت اس وقت عطا ہوتی ہے ، جب اسے اپنی ذات سے باہر ، دوسروں کی تکالیف نظر آنا شروع ہو جائیں ۔ اور احساس و نظر کی معراج حاصل کرنے کا واحد ذریعہ خدمت خلق ہے ۔

خدمت خلق تنظیمیں بنا کر کرنا ہی ضروری نہیں ، بلکہ یہ وہ سامان ہے جو کسی غریب بچی کی رخصتی کا سبب بن سکے ،وہ دس بیس روپے کی دوا ہے جو کسی بیمار کو صحت یاب کر سکے اور وہ لقمہ ہے جو کسی بھوکے کو زندگی دلا سکے ۔ سو بہت بڑے بڑے اداروں ہی سے نہیں ، بلکہ یہ معراج ہر انسان اپنے گردوپیش میں حاصل کر سکتا ہے ۔ بات صرف اس احساس کی ہے ۔ یہ احساس ان لوگوں کی متاع ہے جو اپنی زندگی دوسروں کے آرام کے لیے وقف کر دیتے ہیں ۔ کسی کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا اس وقت اور بھی آسان ہو جاتا ہے ، جب انسان یہ جانتا ہو کہ جس زندگی میں وہ سانس لے رہا ہے ، یہ منزل نہیں ، سفر ہے ۔ اور یہ کہ حقیقی زندگی کا آغاز اس زندگی کے اختتام سے مشروط ہے ۔ اور اس سفر کے لیے زادِ راہ میں وہ اعمال بھی شامل ہیں جو کسی دوسرے کے لیے فائدہ مند ہوں ۔ جو لوگ ا س بات سے واقف ہیں ، وہ اس سامان سفر کے حصول کے لیے اپنی نیندیں ، اپنا آرام ، اپنی خوشی سب پیش کر دیتے ہیں ۔

خدمت خلق کا احساس اجتماعی سوچ سے پیدا ہوتا ہے ، مگر ہمارے معاشرے میں انفرادی مسائل کو اجتماعی مسائل پر ترجیح دی جاتی ہے ۔ ملاوٹ کرنے والا یہ نہیں سوچتا کہ اس سے وہ تو فائدہ حاصل کرے سکے گا ، مگر کوئی بیمار بھی پڑ سکتا ہے ۔ جعلی ادویات بنانے والا یہ نہیں سوچتا کہ اس کی دولت سے زیادہ اہم کسی کی جان ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو تو ہم چو ر، ڈاکو ، قاتل وغیرہ کے نام دے سکتے ہیں، مگر اس اجتماعی مسئلے میں ہم سبھی کسی نہ کسی حیثیت سے گناہ گار ہیں ۔ ایک غریب کو دھتکارنے سے پہلے ہم یہ نہیں سوچتے کہ ان چند روپوں کے دینے سے شاید ہماری زندگی پر تو کوئی اثر نہ پڑے ، مگر اس غریب کی زندگی پر ضرور پڑے گا ۔ اسے صرف کھانا ہی نہیں ، بلکہ زندگی میسر آ سکے گی ، وہ اپنی بیٹی کی رخصتی کا بندوبست کر سکے گا یا اپنے بوڑھے ماں باپ کی دوا لا کر انھیں موت سے بچا سکے گا ۔

سو اصل بات دوسروں کے مسائل کو سمجھنااور ان کا حل تلاش کرناہے ۔ یہ عمل خواہ کسی بھی سطح پر ہو ، بہرحال خدمت خلق قرار پائے گا ۔

معاذ احسن غامدی

____________

B