سوال: مولانا وحید الدین خان اپنی ڈائری (۱۹۹۰۔۱۹۸۹) میں لکھتے ہیں:
’’ پاکستان سے ایک ماہنامہ اشراق نکلتا ہے ۔ اس کا شمارہ جنوری ۱۹۸۹ ہمارے سامنے ہے ۔ اس کے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’خلیفۃ‘‘ کو جنات کا جانشین کے معنی میں لینا صحیح نہیں ۔ ’’خلیفۃ‘‘ عربی زبان میں اصلاً اس شخص کے لیے آتا ہے جو کسی کے بعد اس کے اختیار و اقتدار کے مالک کی حیثیت سے اس کی جگہ لے ۔ پھر یہ لفظ کسی کے بعد اس کی جگہ لینے کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض اختیار و اقتدار کے مالک کے معنی میں مستعمل ہوا ۔ لغت عرب میں اس معنی کے نظائر موجود ہیں۔۔۔ لفظ کے معنی میں اس طرح کے تصرفات کی مثالیں عربی زبان میں عام ہیں ۔ قرآن کی آیت انی جاعل فی الارض خلیفۃ(البقرہ) میں لفظ خلیفۃ صاحب اقتدار ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ صفحہ ۵۲۔
مگر پورے مضمون میں لغت یا کلام عرب سے کوئی ایک مثال بھی نہیں دی گئی ہے کہ خلیفۃ کا لفظ مجرد ہو کر محض اختیار و اقتدار کا مالک ہونے میں مستعمل رہا ہے ۔ ہمارے علما اکثر ایسی باتیں کہتے ہیں جن کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ثابت کر دیا۔ حالاں کہ خالص علمی اعتبار سے وہ ثابت شدہ نہیں ہوتا۔
یہ ایک غیر سائنسی استدلال ہے جو موجودہ زمانہ میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے علماکے لیے سائنٹفک لاجک کا مطالعہ بے حد ضروری ہے ۔ تاکہ وہ جانیں کہ ثابت شدہ ہونے کا مطلب کیا ہے اور غیر ثابت شدہ ہونے کا مطلب کیا۔ ہمارے علما کی اس کمی نے موجودہ زمانہ میں ان کے پیدا کردہ لٹریچر کو جدید انسان کے لیے بے معنی بنا دیا ہے۔‘‘(۱۶)
سوال یہ ہے کہ مولانا کے اس دعوے کی حقیقت کیا ہے ؟
جواب : مولانا وحید الدین خان نے اپنی ڈائری کے اس شذرے میں دو باتیں کہی ہیں ۔
۱۔ لفظ خلیفۃ کے بارے میں مضمون نگار کا استدلال علمی اعتبار سے ثابت شدہ نہیں ہے ۔
۲۔ کسی چیز کا ثابت شدہ اور غیر ثابت شدہ ہونا ایک سائنسی حقیقت ہوتی ہے ۔ اس لیے سائنسی استدلال کے بغیر کسی چیز کا اثبات یا ابطال جدید انسان کے لیے بے معنی ہے ۔
ان تمہیدی معروضات کے بعد اب ہم مولانا کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
ان کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ اشراق کے مضمون نگار کا یہ دعویٰ کہ قرآن کے محولہ بالا مقام پر خلیفۃ کا لفظ کسی کے بعد اس کی جگہ لینے کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض اختیار و اقتدار کا مالک کے معنی میں مستعمل ہوا ہے ، خالص علمی اعتبار سے ثابت شدہ دعویٰ نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے لیے صاحب مضمون کی جانب سے لغت یا کلام عرب سے کوئی ایک مثال بھی نہیں دی گئی ہے۔
مولانا کا یہ اعتراض کہ صاحب مضمون نے لفظ خلیفہ کے معنی کی تائید میں لغت عرب سے کوئی مثال نہیں دی ہے ، اس کا باعث شاید ان کا تسامح ہے ورنہ وہ اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ عربی زبان کے ماخذوں میں سے مستند ترین ذریعہ خود قرآن مجید ہے ۔ مضمون نگار نے اس ماخذ سے نہایت واضح مثالیں پیش کر دی ہیں ۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ ہر صاحب ذوق شخص معانی کے اثبات کے لیے کسی اور چیز کی احتیاج محسوس نہیں کرے گا ۔ اور وہ اگر دوسرے شواہد (عربی ادب وغیرہ) کا مطالعہ کرے گا تو وہ بھی قرآن ہی کی تائید میں ہوں گے ۔
القرآن یفسر بعضہ بعضا ]قرآن کا بعض (حصہ) اس کے بعض (دوسرے حصوں) کی تفسیر کرتا ہے [کے مسلمہ اصول کے تحت قرآن مجید سے مثالیں پیش کر دینے کے بعد لفظ خلیفہ کے مفہوم کی تعیین کی ذیل میں استدلال کے علمی ہونے پر کوئی اعتراض وارد کرنا ممکن نہیں ہے ۔
اس حقیقت واضح کرنے کے لیے ہم مضمون نگار کے شذرے کا پورا استدلال نقل کیے دیتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’لغت عرب میں اس معنی کے نظائر موجود ہیں ۔ سورۂ ص میں ہے :
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ۔ (۳۸: ۲۶)
’’اے داؤد، ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ (اقتدار کا مالک) بنایا ہے تو لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘
اعراف میں فرمایا ہے :
وَاذْکُرُوْا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ۔ (۷: ۶۹)
’’اور یاد کرو جب اس نے تمھیں قوم نوح کے بعد خلفاء (اقتدار کے مالک) بنایا۔‘‘
اس سے فعل استخلف بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ نور میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔(۲۴: ۵۵)
’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں کے ساتھ جو تم میں سے فی الواقع ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ وہ انھیں اس سرزمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا، جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا (یعنی اقتدار بخشا) جو اس سے پہلے گزرے۔‘‘
لفظ کے معنی میں اس طرح کے تصرفات کی مثالیں عربی زبان میں عام ہیں ۔ مثلاً وارث اور میراث عربی زبان کے دو معروف لفظ ہیں ۔ یہ اصلاً ، بے شک ، ترکے کا مالک ، اور ترکہ کے لیے آتے ہیں۔ لیکن محض ’مالک‘ ، اور ’ملک‘ کے معنی میں بھی ان کا استعمال لغت عرب میں ثابت ہے ۔ سورۂ حجر میں ہے :
وَاِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ وَ نَحْنُ الْوٰارِثُوْنَ۔ (۱۵: ۲۳)
’’اور بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے اور ہم ہی سب کے وارث (مالک) ہیں ۔ ‘‘
آل عمران میں فرمایا ہے :
وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔ (۳: ۱۸۰)
’’وہ اللہ ہی کی میراث (ملک) ہیںیہ آسمان اور زمین اور اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے بے خبر ہے ۔ ‘‘
قرآن مجید کی آیت : انی جاعل فی الارض خلیفۃمیں لفظ خلیفۃہمارے نزدیک ، صاحب اقتدار ہی کے معنی میں استعمال ہواہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں اسے بنانے والا ہوں جو زمین میں اقتدار کامالک ہو گا ۔ فرشتوں نے اس اقتدار کے لازمی نتیجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا : کیا آپ اسے بنائیں گے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ؟
انسان کی حیثیت اس زمین پر فی الواقع یہی ہے ۔ اسے یہ اقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے ۔ قرآن مجید کی اس حیثیت کا اثبات کرتا ہے ۔ لیکن وہ اسے بتاتا ہے کہ زمین و آسمان کا اصل پادشاہ وہی ہے جس نے اسے یہ اقتدار بخشا ہے ۔ اسے چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرے اور اختیار و اقتدار کے باوجود اپنے مالک کا بندہ بن کر رہے ۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ لفظ خلیفہ کو اس آیت میں اللہ کا نائب، یا جنات کا جانشین کے معنی میں لینا کسی طرح موزوں نہیں ہے ۔ آیت میں یہ نکرہ استعمال ہوا ہے ۔ نیابت یا جانشینی کے معنی کے لیے عربیت کی رو سے ضروری تھا کہ یہ مضاف الیہ کی صراحت کے ساتھ یا لام سے معرف ہو کر آتا ۔ ‘‘ (اشراق ، جنوری ۱۹۸۹، ۵۲۔۵۳)
لفظ خلیفہ کے اختیار و اقتدار کی حامل ہستی کے معنوں میں استعمال کے لیے مضمون نگار کے استدلال سے آگاہی کے بعد مولانا کے اعتراض پر کسی تبصرے کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔
دوسرے اعتراض کے ضمن میں مولانا نے جدید انسان کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ اس سے غالباً ان کی مراد دورِ حاضر کا انسان ہے ۔ علم کی ترقی ، تجربے کی امتداد اور مشاہدے کی وسعت نے اس کے سوچنے کے طریقوں ، چیزوں کے دیکھنے کے انداز ، معاملات کو سمجھنے کی صلاحیتوں اور حالات کا تجزیہ کرنے اور نتائج نکالنے کی اہلیت میں اضافے کے باعث جدید انسان نے بلاشبہ زندگی کو بہت سے نئے زاویوں سے دیکھا ہے ۔ مگر فطری حقائق کے بارے میں اس کا رویہ ہمیشہ کی طرح حقیقت پسندانہ رہا ہے ۔ اس نے انھیں اپنے اسلاف کی طرح مستقل حیثیت دی ہے ۔ ان میں کسی تغیر یا تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ ان کی صحت یا عدم صحت کا مسئلہ کبھی اس کے ہاں نہیں آیا ۔ ان حقائق پر انسانیت کے اجماع کو اس نے بلاتردد اور برضا و رغبت قبول کیا ہے۔
اسلام اپنے ماننے والوں میں جو رویہ پیدا کرنا چاہتا ہے وہ فطری حقائق پر مبنی ہے ، یہ حقائق ابدی اور غیر متبدل ہیں لہٰذا یہ رویہ اختیار کرنے کے بعد بندۂ مومن قدیم و جدید کی بحث کا موضوع ہی نہیں بنتا۔ وہ بس مستقل اہمیت کی حامل اعلیٰ اقدار سے مزین ایسی ہستی ہوتی ہے جو ہر دور اور ہر زمانے میں شرف و عزت کا اعلیٰ ترین معیار قرار پاتی ہے ۔
انسان کا جدید یا قدیم ہونا اس کا عمرانی معاملہ ہے ۔ یہ کوئی دینی یا اخلاقی مسئلہ نہیں ہے ۔ اور اسلام اس پہلو سے بنیادی اور اصولی ہدایات دے دینے کے بعد اسی وقت در اندازی کرتا ہے جب کوئی اخلاقی مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔
حقائق ثابت کرنے کے لیے انسان نے استدلال کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ اس بارے میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ فاضل مضمون نگار نے لفظ خلیفہ کی تحقیق میں اپنا نقطۂ نظر جس طرح دلائل و براہین کے ساتھ واضح کیا ہے وہ ہر اعتبار سے علمی استدلال ہے ۔ ۱ اسے سائنسی یا غیر سائنسی استدلال کی بحث میں الجھانا ہی درست نہیں ہے ۔ یہ زبان و بیان کا مسئلہ ہے اور ایسے مسائل میں اہل دانش علمی استدلال کرتے ہیں ۔ کسی چیز کو اگر عقل و فطرت ،دلائل و شواہد اور آثار و قرائن کی بنیاد پر صحیح ثابت کر دیا جائے تو وہ چیز ایک علمی حقیقت قرار پاتی ہے ۔ اس سے اختلاف تو ممکن ہے مگر اسے غیر علمی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
سائنسی استدلال اصلاً ریاضیاتی استدلال ہوتا ہے اور زبان و بیان کی نزاکتیں اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں کیونکہ زبان منطق نہیں نطق ہوتی ہے اور نطق میں بس علمی استدلال ہی معتبر ہوتا ہے ۔
____________
۱ سائنسی استدلال سے مراد مولانا کی مراد بھی علمی استدلال ہی ہے۔
_______________