کینیڈا، امریکا اور سعودی عرب کا سفرنامہ
مصنف : ریحان احمد یوسفی
صفحات : ۲۳۹
قیمت : ۲۰۰ روپے
ناشر : الکتاب پبلشرز ۲/۹ابراہیم مارکیٹ پی آئی بی کالونی کراچی
عام ادیب فکر انگیز اور دل نشیں اسلوب میں حیات و کائنات کی بڑی بڑی حقیقتوں کے بارے میں سوال اٹھاتا، دوسروں کو ان کی تہ میں اترنے پر ابھارتا اور فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتا ہے ، مگر بالعموم قاری کو تشکیک و گمان کے گورکھ دھندے میں الجھا دیتا ہے ۔ جبکہ خاص ادیب بالفاظ دیگر باشعور مسلمان ادیب کے طاق قلب میں چونکہ وحی الہٰی کی قندیل روشن ہوتی ہے ، اس لیے وہ اس کی روشنی میں حیات و کائنات پر غور کرتا اور دوسروں کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور یوں قاری کے سامنے حق و صداقت کی واضح اور روشن شاہراہ نمایاں کر دیتا ہے ۔
ریحان احمد یوسفی سوچنے ، کڑھنے اور لکھنے کا درد بے دوا پانے والے نوجوان اور شہر ادب میں نووارد خاص ادیب ہیں ۔
جب بھی کوئی شخص سفر سے لوٹتا ہے تو وہ اپنوں کو سفر کے حالات سے ضرور آگاہ کرتا ہے ۔ وہ انھیں اپنی خوشیوں ،تکلیفوں، حیرتوں ، مشاہدوں ، تجربوں اور دریافتوں میں شریک کرتا ہے ۔ ایک ادیب اس پہلو سے خوش نصیب ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کا اظہار ہزاروں لوگوں کے سامنے کر لیتا ہے ۔ افسانہ اور ناول کے بعد سفر نامہ نثری ادب کی سب سے زیادہ پڑھی جانی والی صنف ہے ۔ سفر نامہ میں ادیب مختلف مسائل کو موضوع سخن بناتا اور مختلف اسالیب کو اختیار کرتا ہے اور یوں ایک صنف میں مختلف اصناف ادب کو یکجا کر دیتا ہے ۔
ریحان احمد کا سفر نامہ کینیڈا ، امریکا اور سعودی عرب کے اسفار پرمشتمل ہے ۔ ہر مصنف کی تحریر اس کی شخصیت کی بھی عکاس ہوتی ہے ۔ اس سفر نامے سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ریحان احمد سراپا دعوت آدمی ہیں ۔ وہ لوگوں کو اس بستی کا مکیں بنانے کے لیے بے تاب ہیں جو عالم کے پروردگار نے جنت کے نام سے آباد کرنی ہے اور اس آگ سے بچانے کے لیے بے قرار ہیں جو رب ذوالجلال نے جہنم کے نام سے دہکانی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ صاحب فکرو نظر آدمی ہیں۔ وہ علمی اسلوب میں دلیل سے بات سمجھتے اور دلیل ہی سے بات سمجھاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ خوش مزاج آدمی ہیں ۔ بڑی تیز حس مزاح رکھتے ہیں ۔ لطیف باتوں پر مسکراتے ہیں اور دوسروں کو بھی ’’مسکرواتے‘‘ ہیں ۔ اس طرح یہ سفر نامہ دعوت و سیاحت، دین و دانش ، فکر و نظر اور تفکرو تفنن کا حسین امتزاج بن گیا ہے ۔
آئیے ریحان احمد کے ساتھ اس سفر کا آغاز کرتے ہیں ۔ ریحان صاحب ابھی کراچی ائیر پورٹ کے لاوئج میں بیٹھے ہوئے ہیں :
’’لاوئج میں بیٹھ کر میں لوگوں کو جہازکی طرف جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ اس دوران میں اپنی دانست میں ڈالر بچانے کے لیے ، کئی دفعہ گھر پر فون کر کے بات کی ۔ کیونکہ جو کال ابھی ۵ روپے میں ہو رہی تھی اگلے دن سے ۵ ڈالر میں بھی نہیں ہوا کرے گی ۔ جب لوگوں کا رش ختم ہو گیا اور فائنل کال دے دی گئی تو آخری چیکنگ سے گزر کر میں جہاز میں داخل ہو گیا۔ میری اس تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ اگلے ۲۴ گھنٹے جہاز کے پیٹ میں گزارنے تھے ۔ جہاز کا سفر اگر مختصر ہو تو کافی خوش گوار ہوتا ہے ، لیکن یہ سفر اگر چند گھنٹوں سے بڑ ھ جائے اور سفر بھی پی آئی اے سے کیا جا رہا ہو تو بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے ۔ تاہم میں نے اس مشکل سے بچنے کا ایک راستہ یہ نکالا کہ خود کو تصور میں ، ہزاروں میل کا یہ سفر اونٹ پر کرتے ہوئے دیکھا ۔ ایسا کرنے کے بعد بے اختیار خدا کی اس عظیم نعمت کا احساس ہوا جو جہاز کی شکل میں میرے سامنے تھی ۔ اگر آپ میرے تجربے کی معنویت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذرا ساحل سمندر پر جا کر صرف آدھے گھنٹے تک دوڑتے اونٹ کی سواری کر لیجیے ۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ماضی میں لوگ جب اس چولیں ہلا دینے والے تجربے سے گزرتے ہوں گے تو ان کا کیا حال ہوتا ہو گا ۔ جدید سائنسی ترقی کے ذریعے سے خدا نے انسانوں کو کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے مگر انسان شکر گزاری کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرتا چلا جاتا ہے ‘‘(۱۳)
اس وقت ریحان احمد کینیڈا میں ہیں ۔ قومی درد رکھنے والا آدمی بھی کیسا ہوتا ہے ، کسی اچھی بات سے خوش ہو تو ساتھ ہی دکھی بھی ہو جاتا ہے:
’’یہاں لائن بنانا ایک ضروری عمل ہے جس کی خلاف ورزی ایک سماجی جرم ہے ۔ اگر کسی جگہ بوجوہقطار نہیں بھی ہو تو ڈسپلن کے تحت یہ خیال رکھتے ہیں کہ اصولاً کس کا نمبر ہے ۔ مجھے اس سلسلے میں ایسے ایسے تجربات پیش آئے ہیں کہ اگر ہم مسلمانوں کے طرز عمل سے اس کا مقابلہ کیا جاے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ مجھے کینیڈا میں یہ تجربہ بھی ہوا کہ میں ایک بینک میں قطار میں کھڑا تھا، لیکن اپنی سلپ بھرنے کے لیے میں قطار سے نکل گیا ۔ میرے سلپ بھرنے کے دوران میں کئی لوگ لائن میںآ کر کھڑے ہو گئے ۔ میں نے اپنے پاکستانی تجربے کے پیش نظر محسوس کیا کہ اگر میں واپس جا اپنی جگہ کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہوں تو بدمزگی کا پورا امکان ہے ۔ میں یہ سوچ کر لائن کے آخر کی طرف جانے لگا تو میرے پیچھے والے شخص نے ، جو اس وقت تک کاؤنٹر کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا، مجھے آواز دے کر بلایا اور اپنے سے آگے کھڑا کر لیا ۔
اب ذرا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیے ۔ حرم پاک مسلمانوں کا مقدس ترین مقام ہے ۔ اس کی عظمت پر ہر مسلمان نثار ہونے کے لیے تیار ہے، مگر اس کی تمام تر عظمت کے باوجود اس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث موجود ہے کہ ایک مسلمان کی جان ، مال ، عزت و آبرو اس سے زیادہ محترم ہے ۔ اسی حرم میں مسلمان باجماعت صف در صف نماز ادا کرتے ہیں ۔ جیسے ہی امام صاحب سلام پھیرتے ہیں ، انتہائی منظم انداز میں نماز پڑھنے والے یہ نمازی وحشیوں کی طرح حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس کے بعد اگلی نماز تک وہ دھینگا مشتی ہوتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ اس بلوۂ عام میں گھس کر حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش کرنا کسی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ۔ کیونکہ ایسا کرنا اپنی جان ، مال اور آبرو تینوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ حالانکہ لوگ اگر قطار بنا لیں تو ہر شخص بلا کسی زحمت سکون سے اسے بوسہ دے سکتا ہے۔‘‘ (۳۷۔۳۸)
کینیڈا ہی میں ریحان احمد کا ایک مشاہدہ اور تجزیہ ملاحظہ کیجیے :
’’مجھے کینیڈا آئے ہوئے دو ہفتے ہونے کو تھے ۔ عام طور پر مغربی تہذیب کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ یہ لوگ جنسی معاملات میں حد سے گزرے ہوئے لوگ ہیں تاہم ابھی تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا تھا جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ۔ ۔۔۔ جب میں ریسورس سنٹر سے واپس آرہا تھا تو پہلی بار ان گنہ گار انکھوں نے وہ منظر بھی دیکھ لیا جو شاید مقامی لوگوں کے لیے تو کوئی خاص بات نہیں ،مگر ایک نئے آنے والے کے لیے غیر متوقع طو رپر اسے دیکھ کر نظر انداز کرنا آسان نہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب میں بھی مقامی ہو گیا تو ’’نگاہ میں کوئی برا نہ رہا‘‘۔۔۔ مغربی تہذب جس اخلاقی بگاڑ اور مادر پدرجنسی آزادی کے دور سے گزر رہی ہے اس پر ہماری طرف سے کافی اعتراضات کیے جاتے ہیں اور اسے مغربی زندگی کا ایک بڑامنفی پہلو خیال کیاجاتاہے ۔ تاہم اہل مغرب اپنے اس رویے کو معیوب خیال نہیں کرتے ۔ وہ اسے آزادی عمل کے غیر متنازع اور مسلمہ انسانی اقدار کا لازمی نتیجہ خیال کرتے ہیں۔
مغربی فکر کے ارتقا سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ نشاۃ ثانیہ کے دور میں جو رد عمل مروجہ عیسائی مذہب کے خلاف ہوا وہ بڑھتا ہوا انکارِ مذہب تک جا پہنچا۔ دریافت و ایجاد کے جوش میں فکر و عمل کی جو راہیں کھلیں انھوں نے ہر پہلو سے مذہب کو ایک کونے میں کر دیا۔ اس صورت حال کے متعدد اسباب تھے، جن میں پاپائیت کی بے لوچ حکومت کے خلاف ردعمل ، مذہبی عقائد و مسلمات کا جدید سائنسی انکشافات کے خلاف ہونا اور اہل کلیسا کا اپنے توہمات پر اڑ جانا نمایاں تھے ۔ مثلاً مسیحی فکر میں زمین کو کائنات کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ یہ ان کے خدا کی جنم بھومی تھی ۔ جبکہ سائنس کے نزدیک یہ بات خلاف واقعہ تھی ۔ لیکن انھوں نے اس حقیقت کو ماننے کے بجائے سختی سے جدید خیالات کو دبانے کی کوشش شروع کر دی ، جس کے نتیجے میں مذہب کے خلاف جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے ۔
انیسویں صدی تک مغربی فکر کے لیے نظریاتی طو رپر بھی خدا کو ساتھ لے کر چلانا مشکل ہو گیا۔ مگر رکاوٹ یہ تھی کہ انسان ایک توجیہ پسند مخلوق ہے ۔ انکارِ خدا کے بعد لازمی تھا کہ خدا کے بغیر انسان اور کائنات کی توجیہ کی جائے اور ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کے لیے یہ بتانا ضروری تھا کہ بغیر ایک خالق کے کائنات اور انسان کیسے وجود میں آئے ۔ قرآن بھی اپنے منکرین کے سامنے یہی سوال رکھتا ہے : ’’کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے پیدا ہو گئے ہیں یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ کیا انھوں نے ہی آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ؟(الطور۵۲: ۳۵۔۳۶)
کائنات کا مسئلہ تو خیر آج کے دن تک حل نہیں ہو سکا ، بلکہ الٹا Big Bang Theory نے اب اس بات کا پورا امکان سائنسی بنیادوں پر ثابت کر دیا ہے کہ کائنات کا آغاز جس دھماکے سے ہوا ، وہ ایک خالق کی بیرونی مداخلت کے نتیجے میں ظہور پزیر ہوا ۔ البتہ اس زمانے میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی صورت میں خدا کے بغیر انسان کی توجیہ کی ایک شکل لوگوں کے سامنے آ گئی ۔ گویا بندر کے ہاتھ ناریل لگ گیا(نظریۂ ارتقا میں بندر اور انسان میں جو خصوصی تعلق ہے ، یہ محاورہ پڑھتے ہوئے ، وہ ذہن میں حاضر رہے ) حال یہ ہوا کہ ڈارون کو The man who killed the God کا خطاب مل گیا۔ نظریۂ ارتقا کی غیر معمولی مقبولیت کا سبب ، اس کی تمام تر علمی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود یہی تھا کہ اس نے سائنسی بنیادوں پر خدا سے ہٹ کر انسان اور حیات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ۔
پھر کیا تھا سماجی ، عمرانی ، نفسیاتی ، معاشی ، معاشرتی ، تہذیبی اور تاریخی علوم کے ماہرین کی ایک فوج انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر اس اصول کی روشنی میں کام کرنے کے لیے کھڑی ہو گئی کہ انسان ایک بے خدا اور حیوانی الاصل ہستی ہے ۔ ان علوم میں سے دو ایسے تھے جن سے موجودہ جنسی بے راہ روی کی فضا ہموار ہوئی۔ پہلا علم نفسیات کا تھا۔ فرائڈ نے اس پر کام کیا اور جنس کے جذبے کو بنیاد بنا کر تمام انسانی اعمال و اعتقادات کی تشریح کر ڈالی اور اسی بنیادی جبلت (Basic Instinct) کو زندگی کی روح رواں قرار دیا۔
اس سے کہیں زیادہ اثر اس کام کا ہوا جو انسانی تہذیب پر کیا گیا۔ اس میں دکھایا گیا کہ جنسی اخلاقیات کا ماخذ فطرت یا مذہب نہیں بلکہ معاشی نظام ہے جو شکار سے زراعت اور زراعت سے صنعت تک پہنچا ہے ۔ اس علم کے مرتبین نے یہ بتایا کہ انسانی معاشروں میں ابتداءً مردو عورت کے تعلقات مکمل جنسی آزادی کے اصول پر قائم تھے ۔ مگر جب انسان نے شکار سے زراعت کے عہد میں قدم رکھا تو زمین کی انفرادی ملکیت کا نظریہ پیدا ہوا۔ ایک مرد کو زمین پر کام کاج کرنے کے لیے کام کرنے والوں کی ضرورت پڑی ۔ ان کارکنوں کے حصول کا بہترین ذریعہ اولاد تھی ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ شادی کا سلسلہ شروع ہو جس میں کسی عورت کی وفاداریاں صرف ایک مرد سے وابستہ ہوں اور اس سے ہونے والی اولاد صرف اسی کی ملکیت ہو۔ عورت کے ایک مرد کی ملکیت ہونے کے اسی تصور سے عصمت اور حیا کے تصورات پیدا ہوئے ۔ تاکہ ان پابندیوں سے عورتوں کی لگام ہمیشہ مردوں کے ہاتھ میں رہے ۔ جبکہ مردوں نے خود کو ہمیشہ ان زنجیروں سے آزاد رکھاہے ۔
اس تحقیق کے مطابق اب انسان نے زراعتی دور سے صنعتی دور میں قدم رکھ دیا ہے ۔ پیداواری عمل میں نہ صرف انسانوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے بلکہ عورت خود معاشی طور پر مکمل آزاد ہے ۔ لہٰذا اب نہ کسی عورت کے ایک مرد سے جڑے رہنے کی کوئی ضرورت ہے نہ شادی کی ، نہ عصمت کوئی قابل لحاظ شے ہے نہ حیا کی کوئی ضرورت ہے ۔ نتیجے کے طور پر خاندان کے بنیادی ادارے کی ساری اساسات ختم ہو گئیں ۔
اس پس منظر کو اگر آپ ذہن میں رکھیں تو آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ کیوں اہل مغرب بغیر شادیوں کے ساتھ رہتے ہیں، کیونکہ خاندان کا ادارہ کمزور ہو چکا ہے ، کیوں وہ شادی کے بعد بھی دیر سے اور کم بچے پیدا کرتے ہیں ، کیوں عورتیں رسیاں تڑا کر گھر سے باہر نکل آنا ضروری سمجھتی ہیں اور کیوں جنسی تسکین کے لیے وہ ہر رکاوٹ کو پھلانگنا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ ‘‘ (۵۰، ۵۲)
آئیے اب امریکا چلتے ہیں۔ سفر نامہ نگار بتاتے ہیں :
’’امریکا کم و بیش ایک براعظم جتنا وسیع ہے ۔ یہاں فطرت اپنے ہر رنگ میں جلوہ گر ہے ۔ عظیم سمندر، طویل ساحل، لق و دق صحرا، بلند پہاڑ ، بہتے دریا، سرسبز و شاداب میدان، گھنے جنگلات ، شدید گرمی ، سخت سردی ، ہر سو پھیلی بہاراور اجاڑ خزاں، غرض قدرت کی ہر صناعی یہاں دیکھنے کو مل جاتی ہے ۔ اس پر انسانوں کی کاریگری نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے ۔ جدید سائنس کی مدد سے مغربی تہذیب نے انسانی زندگی کو جن سہولتوں سے بہرہ مند کیا ہے ، وقت کی رفتار کو جس طرح تیز کیا ہے ، فطرت کی نیرنگیوں کے ساتھ انسانی عقل و ہنر کے جو کرشمے دکھائے ہیں ، ان کے مشاہدے کے لیے یہ بہترین جگہ ہے ۔
یہ سرزمین اپنے معاشی استحکام کی بنا پر غریب ملکوں کے نوجوانوں کا خواب ہے ۔ اپنے حسن و صناعی کی بنا پر دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی منزل ہے ۔ اپنی آزاد خیالی کی بناپر بند معاشروں کے افراد کے لیے مقام عیش ہے ۔ یہاں انسان کو نہ صرف اپنی قیمت ملتی ہے بلکہ اس قیمت سے وہ ہر لذت خرید سکتا ہے ۔ زندگی کا ہر حسن، دنیا کی ہر آسایش اور دورِ جدید کی ہر سہولت باافراط اور بآسانی یہاں دستیاب ہے ۔ ۔۔۔مگر یہ تصویر کاصرف ایک رخ ہے ۔ میں نے بارہا ان فلک بوس عمارتوں کو ایک جنگل کی طرح محسوس کیا ۔ میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ انتہائی بلندی پر واقع اپنے شان دار دفاتر کی کھڑکیوں سے جب ٹریلین ڈالرز کا کاروبار کرنے والے سرمایہ دار باہر جھانکتے ہوں گے تو نیچے چلتے ہوئے انسان انھیں حشرات الارض محسوس ہوتے ہوں گے ۔ ان میں سے نجانے کتنے ہوں گے جو ڈالروں کی جھنکار کے پیچھے اپنے ملک ، اپنی زمین ، اپنی ہوا ، رشتے ناطے ، چاہنے والے اور دوست احباب چھوڑ کر یہاں آئے ہوں گے ۔ مگر یہ ڈالر درختوں پر نہیں لگتے ۔ انسان کو اپنا آپ بیچنا پڑھتا ہے ۔ اپنا ضمیر ، ایمان ، دین ، تہذیب اور بعض اوقات اولاد بھی تیاگنی پڑتی ہے ۔
لوگ ایسے معاشرے کا حصہ بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی بنا سود پر ہے ، جس کے ریشے ریشے میں قمار بازی کی روح سرائیت کی ہوئی ہے ، جہاں عریانیت ایک قدر ہے ، جہاں شراب ایک ضرورت ہے جہاں مفاد برستی بقا کا راز ہے ۔ غرض شجرِ ایمان کی جڑ کاٹ ڈالنے والا ہر تیشہ یہاں زندگی کا لازمہ ہے ۔ یہ بات شاید آخرت فراموش لوگوں کے لیے قابل توجہ نہیں ۔ مگر وہ جنھیں اپنے رب کا فرمان یاد ہے :’’اس زمین پر جو کچھ ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنایا ہے تاکہ آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے ۔ اور جو کچھ اس پر ہے ہم اسے چٹیل میدان بنا دیں گے ‘‘ (الکہف ۱۸: ۷۔۸) ، ان کی زندگی کا نصب العین یہ دنیا اور ا س کی رنگینیاں نہیں بن سکتیں۔
منکرِ خدا و آخرت تہذیب کا گہوارہ یہ سرزمین ایسی آزمایش ہے جس میں پڑنے کے بعد آدمی کا بچ نکلنا آسان نہیں ۔ یا تو وہ ایک مجاہد کی زندگی گزارے وگرنہ شعوری نہ سہی لاشعوری طور پر انسان خود کو شیطان کے آگے سجدہ ریز ہونے پر مجبور پاتا ہے۔ یہاں آنے سے قبل میں نے سنا تھا کہ مغرب میں رہ کر بھی برائی سے بچا جا سکتا ہے ۔ مگر یہاں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ یہاں اکثر لوگوں کے لیے برائی کا معیار ہی بدل جاتا ہے ۔
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
اس کے برخلاف ایک جنت خد انے بنائی ہے ۔ جس کا حسن کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا، اور نہ کسی دل پر اس کا خیال گزرا۔ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ۔ مقابلہ کرنے والوں کو مقابلہ کرنا چاہیے ۔ اس جنت کی قیمت بس اتنی ہے کہ انسان اس دنیا کو جنت نہ سمجھے ۔ اسے اپنی منزل نہ سمجھے ، ایک سرائے سمجھے اور خو دکو ایک مسافر ۔ جو شخص یہ بات سمجھ لے گا وہ خود بخود اللہ کی فردوس تک جا پہنچے گا۔ ‘‘ (۶۹۔۷۱)
ریحان احمد کی ’’بدذوقی‘‘ ، خوش خُلقی اور خو ش طبعی کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے:
’’۔۔۔جب دوبارہ ٹرین روانہ ہوئی تو یہی لڑکی میرے پاس آئی۔ اس کا نام حنا تھا۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ ٹورنٹو میں رہتی ہے ۔ کالج کی طالبہ ہے اور ساتھ میں جاب بھی کرتی ہے ۔ اس وقت وہ اپنے انکل کے پاس نیویارک چھٹیاں منانے جا رہی ہے ۔ وہ اکیلی سفر کر رہی ہے اور اس لیے بہت بورہو رہی ہے ۔ میں بدقسمتی سے اسے کسی قسم کی کمپنی دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اولاً میں تنہائی چاہتا تھا۔ ثانیاً ، کمپنی دینے کے لیے مجھے اسے اپنے ساتھ بٹھانا پڑتا۔ گو مغربی معاشرے میں یہ ایک معمول کی بات ہے ، بالخصوص بس اور ٹرین میں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں جہاں مردو زن ایک ساتھ ہی سفر کرتے ہیں، مگر مجھے یہ اچھا نہیں لگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغرب میں اپنے قیام کے دوران میں جب کبھی کوئی لڑکی ٹرین یا بس میں میرے پاس آ کر بیٹھتی تو میں سیٹ چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا۔ میں صرف اتنا اہتمام کرتا کہ میرا جسم اس کے جسم سے مس نہ ہونے پائے ۔
یہ قارئین کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایسے بدذوق شخص کا سفر نامہ پڑھ رہے ہیں جو ریل کے ایک بہت رومانٹک سفر میں ایک تنہا نوجوان لڑکی کو ساتھ بٹھانے سے گریزاں ہے ۔ جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ تھوڑی دیر میں وہ لڑکی مصنف کے کندھے پر سر ٹکا کر سو جائے ۔ ایک سفر نامے میں رنگ بھرنے کے لیے یہ آئیڈیل صورت حال ہے ۔ مگر الحمد للہ راقم کوئی بڑا مصنف یا ادیب نہیں ایک عام آدمی ہے جسے روزِ قیامت خدا کے علاوہ واپس جا کر اپنی بیوی کو بھی منہ دکھانا ہے ۔ اور جو ، سفر نامے میں قارئین کی دلچسپی بڑھانے کے لیے اپنی ازدواجی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ ‘‘ (۵۷۔۵۸)
ریحان احمد امریکا میں ایک عمارت کی چھت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ماحول کو حقیقت سے قریب کرنے کے لیے چھت کو گنبد نما آسمان کی شکل میں بنایا گیا تھا ۔ اس کا رنگ وقفے وقفے سے بدلتا رہتا ۔ جن سے دن اور رات کے مختلف اوقات کا تاثر ابھرتا۔ صبح کا جھٹپٹا، دن کا اجالا، شام کی ملگجی روشنی اور رات کا تاروں بھرا آسمان۔ سب وقفے وقفے سے آتے رہتے ۔ اب سب کے ساتھ ابر آلود موسم اور بارش کی بھی عکاسی کی گئی تھی ، جس میں گرج چمک اور بارش کے صوتی اور بصری اثرات سے حقیقت کا رنگ بھرا گیا۔غرض بڑی چابک دستی سے فطرت کی نقل کی گئی تھی ۔ ہم کافی دیر تک وہاں بیٹھے اور اس مہارت کی داد دیتے رہے ۔ (۷۸)
اورپھر امریکا میں مستقل اقامت اختیار کرنے کے بجائے کچھ اور ہی سوچنے لگتے ہیں :
’’میں سوچ رہا تھا کہ جب انسان اپنے تمام تر عجز کے باوجود ایسی کاریگری دکھا سکتا ہے تو خدا کائنات کاپالنہار اور تمام خزانوں کا مالک جب فردوس کی صورت میں اپنی خلاقی کا مظاہرہ کرے گا تو اس کا عالم کیا ہو گا ۔ یاقوت و مرجان کی وہ بیٹیاں چاندو سورج جن کی دل کشی کو سجدہ کریں ، شیشے اور موتی کے وہ محل جن کا مسالا مشک و عنبر ہو گا ،سونے اور چاندی کے وہ درخت جن کے سائے ابدی اور پھل ہر لمحہ قابل رسائی ہوں گے ، بکھرے موتیوں جیسے وہ خدام جو آخری حد تک مالک کے مزاج آشنا ہوں گے ، دودھ، شہد ، ماء مصفا اور شراب کی وہ نہریں جو پینے والوں کو ہر گھونٹ میں صحت و زندگی اور لطف و لذت کے ایک نئے ذائقے سے آشنا کریں گی اور نجانے کیا کیاکچھ۔ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بتا دیا ہے کہ جہاں تمھارے علم و ادراک کی حدیں ختم ہوتی ہیں خدا کا فن وہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ اور خود خداوند یہ کہتا ہے کہ یہ وہ سلطنت ہے جہاں ملے گا جو مانگو گے اور دیا جائے گا جو تمھارا دل چاہے گا، جہاں خوف پر مار سکتا ہے نہ غم کا کوئی گزر ہے ، جہاں ماضی اپنے تمام تر پچھتاووں کے ساتھ غیر موجود ہے اور مستقبل اپنے تمام تراندیشوں کے ساتھ غیر حاضر ۔ یہ خدا کے غلاموں کی ابدی بادشاہی ہے جس سے وہ نکلنا چاہیں گے نہ کوئی انھیں نکالے گا۔ کوشش کرنے والوں کو اس جنت کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مقابلہ کرنے والوں کو اس جنت کے لیے مقابلہ کرنا چاہیے ۔
انسان کے تحت الشعور میں کہیں اس فردوس کی کوئی جھلک ضرور موجود ہے جو اسے ہر جگہ اس کی نقل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اللہ نے یہ جھلک انسان میں اس لیے رکھی ہے کہ انسان اللہ سے اس فردوس کو خرید لے ۔ مگر پیغمبروں کی رہنمائی کھو دینے کے بعد انسان اس دنیا میں ہی فردوس کی تعمیر میں لگ جاتا ہے ۔ میں اور آپ کتنی سادگی سے زندگی گزار سکتے ہیں ، مگر نہیں گزارتے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرآسایش بنانے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اپنی ساری توانائی دنیا میں اپنی جنت کی تعمیر کی کوشش میں گنوا دیتے ہیں ۔ مگر جنت نہیں بن پاتی ۔ بار بار ہماری محدودیت ہمارے سامنے آ جاتی ہے ۔ ہم کھانا کھاتے ہیں مگر پیٹ بھر جاتا ہے ، ہم نکاح کرتے ہیں مگر یکسانی سے اکتا جاتے ہیں ہم تھک جاتے ہیں ، اداس ہو جاتے ہیں بوڑھے ہو جاتے ہیں ، بے زار ہو جاتے ہیں ، بیمار ہو جاتے ہیں اور ہم ۔۔۔ اپنی فردوسِ ناتمام کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور میں لوٹ جاتے ہیں جہاں ہماری اصل جنت موجود ہے مگر اس وقت اسے خریدنے کے لیے ہمارے پاس سرمایہ نہیں ہوگا ۔ وہ تو ساری دنیا کی جنت کی تعمیر کے لیے خرچ ہو چکا ۔ ہاں کچھ ہوگا تو ابد تک اپنی محرومی پر رونا اور چلانا ہو گا ۔ وہ میری ٹریجڈی تھی یہ میرے ابناے نوع کی ٹریجڈی ہے ۔ پتا نہیں کس کی ٹریجڈی زیادہ بڑی ہے ۔ کون جانے ۔۔۔۔۔۔‘‘(۷۹۔۸۰)
لیجیے ، اب ریحان احمد ایک ایسے مقام کی طرف عازم سفر ہوئے ہیں جہاں انھوں نے ’’دیکھنا‘‘ اور ’’گھومنا‘‘ نہیں ، بلکہ ’’حاضر ہونا ‘‘ہے۔
لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک
ان الحمد و النعمۃ لک و الملک لا شریک لک ۔
حاضر ہوں ! اے اللہ میں حاضر ہوں ! حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں ! بے شک ، ہر نعمت اور تعریف تیری ہے اور بادشاہی بھی ! تیرا کوئی شریک نہیں!
اس غیر معمولی موقع پر ریحان احمد ’’خوابوں کی سرزمین‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’میں مغربی تہذیب کے مرکز میں چار مہینے رہا ۔ میرا یہ سفر ایک طالب علم کا سفر تھا۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو پہلے ایک نقطۂ نظر قائم کر لیتے ہیں اور پھر جو چیز اس کے خلاف سامنے آئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ میں نے مغرب میں جو خوبیاں دیکھیں کھلے دل سے ان کا اعتراف کیا اور جو خامیاں نظر آئیں انھیں بیان کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔ تاہم یہاں سے روانگی کے وقت میرے دل کی وہی کیفیت تھی جس میں ڈوب کر اقبال نے اپنا یہ شعر کہا تھا۔ میں اس میں ذرا سی لفظی ترمیم حسب حال کر رہا ہوں ۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ ’’رونق‘‘ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و ’’حرم‘‘
حرمین سے میرا تعلق وہ بھی ہے جو ہر مسلمان کا ہوتا ہے اور وہ بھی جو بالکل ذاتی ہے ۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین دن اسی صحرا کی چھاؤں میں گزارے ہیں ۔ جب وقت کی تپتی دھوپ نے میرے وجود کو جھلسا دیا تو خدا نے اسی مبارک زمین کو میرے لیے سائبان بنایاتھا۔ یہ دھرتی میرے جسم کے لیے ہی نخلستان نہ تھی بلکہ میری روح کے لیے بھی ایک چھایاں بن گئی۔ آج میں اسی سائبان کی طرف واپس لوٹ رہا ہوں ۔ یہ میری خوابوں کی سرزمین ہے جن کی تعبیر ایک دفعہ پھر مجھے بلا رہی ہے۔ ‘‘(۱۹۹)
آگے چلیں ۔ بیت اللہ قریب ہے :
’’خدا کے گھر میں داخلے کے احساس نے وجود کی گہرائیوں میں اطمینان و سکون کی لہر دوڑادی ۔ ۔۔۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مطاف کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔ میں حسب عادت مطاف کی سیڑھیوں سے قبل رکا اور نگاہیں اٹھا کر بیت اللہ کو دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ دنیا میں حسن کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ لیکن حسن و سادگی اور جمال و جلال کا جو امتزاج اس چار دیواری میں ہے ، کہیں اور نہیں ۔۔۔ دوران طواف میں لوگ بہت کچھ کرتے ہیں ، مگر میں صرف دو کام کرتا ہوں : دعا یا تسبیح ۔ اس جگہ انسان کو یا تو وسیع تر کائنات کا حصہ بن جانا چاہیے جو ہر آن خدا کی تسبیح کرتی ہے یا پھر ایک سخی داتا ان داتا کے حضور میں پیش ایک محروم بھکاری۔ ۔۔۔ طواف سے فارغ ہو کر میں نے اہلیہ کو ان کے گھروالوں کے پاس بھیج دیا کیونکہ انھیں عمرہ نہیں کرنا تھا اور خود ملتزم سے آ کر لپٹ گیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حضور میں رازونیاز کیا کرتے تھے ۔ میں یہاں پہنچا تو یوں لگا کہ جیسے میں خدا سے ملاقات کے لیے آیا ہوں ۔ وہاں بہت لوگ کھڑے تھے ،مگر سب ایک دوسرے کے لیے غیرموجود۔ سب ایک دوسرے سے لاتعلق ۔ وہاں انسان تھا یا خدا ۔ تیسرا کوئی نہیں تھا۔ میں بھی خلوت میں چلاگیا۔ اس دوران میں پتا نہیں کیا کچھ ہوا ۔ میرے لیے تو کچھ نہ رہا تھا۔ جو رہی تو بے خبری رہی۔ جب وہاں سے ہٹا تو محسوس ہوا کہ بہت سارا گند بہت ساری بارش کے ساتھ بہ گیا ہے ۔ ‘‘ (۲۰۵۔ ۲۰۶۔۲۰۷)
اور اب ریحان احمد مدینہ کے حدود میں داخل ہو رہے ہیں ۔ ایک غیر معمولی سعادت حاصل کر رہے ہیں :
’’(مدینہ) وہ سرزمین جسے خدا نے روزِ ازل سے اسلام کی نصرت و سربلندی کے لیے چن لیا۔ وہ سرزمین جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس وقت اپنے دروازے کھولے جب دوسرا ہر دروازہ بند ہو گیا تھا۔ وہ سرزمین جہاں نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا فیصلہ کن باب رقم ہوا ۔ وہ سرزمین جس سے طلوع ہونے والے خورشید ہدایت نے کل عالم سے باطل کی ظلمتوں کو دور کر دیا۔ وہ سر زمین جہاں ایثار و قربانی ، وفاو محبت، سمع و طاعت اور شجاعت و استقامت کی لافانی داستانوں نے جنم لیا۔ وہ سرزمین جو آج بھی اہل شوق و محبت کے دل کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ وہ سرزمین خدا نے آج اپنے لطف و کرم سے ایک دفعہ پھر دکھلا دی ۔ فالحمد للہ رب العالمین۔
مدینے کی حدود میں داخل ہوتے ہی دور سے مسجد نبوی الشریف علی صاحبھا صلوٰۃ و سلام کے بلند و بالا مینار نگاہوں کی تراوٹ اور قلب کو سکون دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ شہر، مکہ کی طرح ، مجھے کبھی اجنبی نہیں لگا۔ بلکہ مدینہ تو ہمیشہ ماں کی آغوش کی طرح فراخ اور پرسکون لگا ہے ۔ یہاں خداکبھی خداے ذوالجلال نہیں لگا، ہمیشہ خداے کریم محسوس ہوا ہے ۔ یہاں اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی نظر آتی ہے ۔ اس شہر پر سترماؤں سے بڑھ کر چاہنے والے رب کی ٹھنڈی چھاؤں ہمہ وقت سایہ فگن رہتی ہے ۔ ‘‘(۲۲۶۔ ۲۲۷)
یہ اس سفر نامہ کے چند نمونے ہیں ۔ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سفر نامہ کس قدر دلچسپ اور پرتاثیر ہے ، مگر بعض مقامات پر یہ سفر نامہ مقالہ محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کا احساس مصنف کو بھی ہے اور وہ ایسے مقامات پر لکھتے ہیں :
’’آٹھ صفحوں کی یہ بحث ہزاروں صفحات کے میرے مطالعے کا نچوڑ ہے اور مستقبل میں ہونے والے اسلام اور مغرب کے ٹکراؤ کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے میں کافی مفید ثابت ہو گی ۔ تاہم جو قارئین صرف سفرنامے میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ ان صفحات کو چھوڑ کر اگلا باب شروع کر سکتے ہیں ۔ ‘‘ (۱۱۹)
’’معاف کیجیے گا میں آپ کو سفرنامے سے بہت دور لے گیا۔ دراصل مغرب الحاد (Atheism) اور عیسائیت دونوں کا گڑھ ہے ۔ میرے جیسے آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان سے لاتعلق ہو کر گزر جاؤں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسباب بھی ایسے پیدا کیے کہ مجبوراً مجھے دونوں پر قلم اٹھانا پڑا۔ مجھے امید ہے کہ پڑھنے والوں کے دل میں اگر ایمان کا کوئی شائبہ بھی موجود ہے تو انھیں یہ بحث غیر متعلق نہیں لگی ہو گی ۔ ‘‘ (۱۰۵)
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب ایک سفرنامہ کے نام سے لکھی گئی ہے ، قاری اسے سفر نامہ ہی کے موڈ سے پڑھتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ قاری کے اس موڈ کو پیش نظر رکھا جائے۔ اور پھر یہ انحراف فنی لحاظ سے بھی سفرنامہ کو مجروح کرتا ہے ۔ ایک ناول نگار اگر اپنے ناول کے کسی مقام پر یہ محسوس کرے کہ اس کا ایک کردار روسی کیمونسٹ ہے تو کیوں نا اس موقع پر اس کردار کے حوالے سے اسلامی نقطۂ نگاہ سے روسی تہذیب اور کیمونزم پر تنقیدی مضمون لکھ دیا جائے اور ساتھ یہ وضاحت کر دی جائے کہ جو قارئین صرف ناول میں دلچسپی رکھتے ہوں ، وہ ان صفحات کو چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں اور یہ کہ پڑھنے والے کے دل میں اگر ایمان کا شائبہ بھی موجود ہے تو انھیں یہ بحث غیر متعلق نہیں لگی ہو گی تو ہمارا خیال ہے کہ قارئین اور ناول کے ساتھ کچھ زیادتی ہو جائے گی ۔ فن بہرحال فن ہے اس کے تقاضوں کی پوری طرح تکمیل کرنی چاہیے ا س مسئلے کو جذباتی طور پر دین و ایمان کا مسئلہ بنا کرنظر انداز نہیں کرنا چاہیے ورنہ ناقدین فن کے ہاں ایسی کاوشیں بار نہیں پاتیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قارئین کا حلقہ بھی محدود ہو جاتا ہے۔بلاشبہ ادیب کے نظریات کا اظہار اس کی ادبی تحریر میں بھی ہو جاتا ہے اور یہ اظہار بالکل فطری ہوتا ہے ، مگر یہ اظہار بہت مختصر ،ضمنی ،اور اشاراتی اسلوب میں ہونا چاہیے۔ مصنف نے یہاں باقاعدہ عنوانات اور صغریٰ کبریٰ قائم کر کے علمی بحثیں کی ہیں۔ اگرچہ یہ بحثیں بہت اچھی ہیں ، مگر ایک اچھی بات بے موقع ہوجائے تو اچھی نہیں لگتی ۔ اسی طرح بعض مقامات پر بہت ذاتی قسم کے معاملات بیان کر دیے گئے ہیں ۔ یہ چیز بھی عام قارئین کی کتاب کے ساتھ دلچسپی کو متاثر کرتی ہے ۔
بہرحال لفظ بہ لفظ پڑھنے کے قابل کتابیں بہت کم ہوتی ہیں ، اس سفرنامہ کو بجا طور پر ایسی کتابوں میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔ یہ مصنف کی پہلی کتاب ہے ، اس لحاظ سے ان کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ کینیڈا، امریکا اور سعودی عرب جانے والے اس سفرنامہ سے معلومات کے پہلو سے بھی بڑا استفادہ کر سکتے ہیں۔
____________