HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

جنت کی چڑیا

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث : ۸۴)


عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت : دعی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إلی جنازۃ صبی من الأنصار۔ فقلت یا رسول اﷲ ، طوبی لہذا، عصفور من عصافیر الجنۃ، لم یعمل السوء ولم یدرکہ۔ فقال : أو غیر ذلک ، یا عائشۃ ، إن اﷲ خلق للجنۃ أھلا ، خلقہم لھا و ھم فی أصلاب آباءھم ، و خلق للنار أھلا ، خلقہم لھا و ھم فی أصلاب آباءھم ۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بچے کے جنازے کے لیے بلایا گیا ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ، اسے مبارک ہو ،یہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے۔ نہ اس نے کوئی برا کام کیا اور نہ اسے اس کا شعور تھا ۔ آپ نے فرمایا : اے عائشہ ، یا معاملہ دوسرا ہے ؟ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے جنت والے بناتے ہیں اور وہ ابھی اپنے آبا کی صلب میں ہوتے ہیں اور جہنم کے لیے جہنم والے بناتے ہیں اور وہ ابھی اپنے آبا کی صلب میں ہوتے ہیں۔‘‘

لغوی مباحث

طوبی لھذا: ایک رائے یہ ہے کہ یہ ’طاب یطیب‘ سے افعل التفضیل کی تانیث کا صیغہ ہے۔ لغوی معنی خوشی ، شادمانی اور عمدگی کے ہیں ۔صاحبِ مرقاۃ نے ابنِ عباس کی یہ رائے نقل کی ہے کہ قرآن مجید میں یہ ترکیب ’فرح و قرۃ عین لھم‘ (خوشی اورآنکھوں کی ٹھنڈک) کے معنی میں آئی ہے ۔ ۱؂ علاوہ ازیں انھوں نے ’طوبی‘ کے معنی کے بارے میں بھی مختلف آرا نقل کی ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ حبشی زبان میں اورایک رائے کے مطابق یہ ہندی میں جنت کا نام ہے ۔ ان کے برعکس ایک رائے یہ ہے کہ یہ جنت کے ایک درخت کا نام ہے ۔ زمخشری کے نزدیک یہ ’بشری‘ اور ’زلفی‘ کی طرح مصدر ہے اور اسے ’سلام لک‘ اور ’سلاما لک‘ پر قیاس کرکے مرفوع یا منصوب قرار دیا جا سکتا ہے ۔ بہرحال ، یہ ترکیب یعنی ’طوبی لفلان‘ دعا بھی ہے اور مبارک باد بھی۔

عصفور: ہمارے ہاں جس پرندے کو چڑیا کہتے ہیں ، عربی میں اس کے لیے ’عصفور‘ آتا ہے ۔ اردو میں ان مواقع پر بالعموم پھول کی تعبیر اختیار کی جاتی ہے ۔ مراد جواب دہی ،ذمہ داری اور سزاو جزا سے بریت اور ترددات و آزار سے پاک مسرت اور آزادی کا حصول ہے ۔ان اسالیب سے بچے کی معصومیت ، اس کی کم عمری اور نیکی وبدی کے مراحل سے بری ہونے کے پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں ۔

لم یدرکہ: ’أدرک الشیء‘ کے معنی ہیں کسی شے کے قریب جا پہنچنا یا اسے حاصل کر لینا ۔اور ’أدرک المسألۃ‘ کے معنی ہیں کسی معاملے کو سیکھ لینا ۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں آیا ہے۔

أو غیر ذلک: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ اردو کے جملے ’’بات کوئی اور لگتی ہے؟‘‘ کے ہم معنی ہے ۔ اختلاف کے لیے اس طرح کا اسلوب ہم اس موقع پر اختیار کرتے ہیں ، جب ہم دوسرے کی رائے کو غلط قرار دیے بغیر اسے صحیح بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ کے ساتھ تعلق خاطر واضح ہوتا ہے ۔ اس جملے کو ’أوْ غیرُ ذلک‘، ’أوَ غیر ذلک‘ اور ’أو غیرَ ذلک‘ بھی پڑھا گیا ہے۔

أصلاب: یہ ’صلب‘ کی جمع ہے۔ ’صلب‘ کے معنی سختی کے ہیں ۔ یہ ریڑھ کی ہڈی کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اسی سے یہ حسب و نسل کے معنی میں آتا ہے ۔ عربی کا معروف محاورہ ہے : ’ھو من صلب فلاں‘ (وہ فلاں کی نسل سے ہے)۔

متون

اس روایت کے متون میں کوئی قابلِ لحاظ فرق نہیں ہے ۔ محض لفظی فرق ہیں ۔ بعض روایات میں راویوں نے اختصار سے واقعہ بیان کیا ہے ۔ زیرِ مطالعہ متن مسلم سے ماخوذ ہے اور سب زیادہ مفصل متن یہی ہے ۔چند لفظی فرق یہ ہیں ۔اس روایت کا آغاز ’دعی رسول اللّٰہ إلی جنازۃ صبی من الانصار‘ کے جملے سے ہوا ہے ۔ دوسرے متون میں اس کی جگہ محض ’توفی صبی یا أتی بصبی من الانصار یصلی علیہ‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔یہاں حضرت عائشہ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ’أو غیر ذلک‘ کے دل پزیر اسلوب سے شروع ہوا ہے۔ بعض راویوں نے اسے ’أو لا تدرین‘ کی صورت میں سادہ تنقیدی جملہ بنا دیا ہے ۔اسی طرح آخری جملہ ’إن اﷲ خلق للجنۃ أھلا وخلقھم لھا۔۔۔‘ کی جگہ ’أن اﷲ خلق الجنۃ وخلق النار و خلق لھذہ أھلا ۔۔۔ یا خلق اﷲ للجنۃ خلقا فجعلہم لھا أھلا‘ کے جملے مروی ہیں۔ ایک روایت میں ’صبی‘ کی جگہ ’غلام لم یبلغ السن‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ غرض یہ کہ اس روایت کے تمام متون میں ایک ہی بات بیان ہوئی ہے اور ان کے اجزا بھی کم و بیش یکساں ہیں۔

معنی

اس روایت میں تین نکات حل طلب ہیں۔ایک یہ کہ جنت کی چڑیا ہونے سے کیا مراد ہے؟ دوسرے یہ کہ بچوں کا انجام کس اصول پر ہو گا؟ تیسرے یہ کہ کیا نیکی و بدی بھی تقدیر سے متعلق ہے؟

پہلی بات بہت سادہ ہے ۔ ہم نے لغت کی بحث میں بیان کیا ہے کہ یہ اسلوب بچوں کی معصومیت اور ان کے بغیر حساب کتاب کے جنت میں جانے کے پہلووں کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات فطری نتیجہ سمجھتے ہوئے کہی ہے ۔بچے بے گناہ ہوتے ہیں ۔ وہ گناہ وثواب کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ جس طرح دنیا میں انسان بچوں کو ذمہ داریوں سے مبرا سمجھتا ہے ۔ انھیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی ایسا ہی سمجھیں گے اور اس انصاری بچے کو جنت میں بھیج دیں گے۔ چنانچہ روایت میں ان کا یہی استدلال نقل بھی ہوا ہے ۔

دوسرا نکتہ ایک عا م پوچھا جانے والا سوال ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ سوال پوچھا گیا ہے۔ لیکن آپ کے حوالے سے اس کے دو مختلف جوابات نقل ہوئے ہیں ۔ مثلاً بخاری میں ہے :

عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: سئل رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم عن اولاد المشرکین ۔ فقال اﷲ إذ خلقہم أعلم بما کانوا عاملین۔( رقم ۱۲۹۴)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ جب انھیں تخلیق کررہا تھا تو اس بات سے سب سے زیادہ واقف تھا کہ وہ کیا اعمال کریں گے۔‘‘

اس روایت میں وہی بات بیان ہوئی ہے جو بات آپ نے انصاری بچے سے متعلق زیرِ بحث روایت میں بیان کی ہے۔ایک اور روایت دیکھیے :

عن علی رضی اﷲعنہ قال : سألت خدیجۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم عن ولدین ماتا لھا فی الجاھلیۃ۔فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : ہما فی النار ۔ قال : فلما رأی الکراھیۃ فی وجہہا ۔ قال : لو رأیت مکانھما لأبغضتہما ۔ قالت : یا رسول اللّٰہ فولدی منک ؟ قال : فی الجنۃ ۔ قال : ثم قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : إن المؤمنین و اولادھم فی الجنۃ وإن المشرکین و اولادھم فی النار ۔ ثم قرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : وَالَّّذِیْنَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ۔ (الطور ۵۲ : ۲۱) (احمد بن حنبل ، رقم ۱۰۷۶)
’’حضرت علی رضی اللہ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بیٹوں کے بارے میں پوچھا جو جاہلیت میں مر گئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : وہ دونوں جہنم میں ہیں۔ اس جواب پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے پر ناگواری دیکھی ۔ آپ نے وضاحت کی کہ اگر تم ان کا مرتبہ دیکھتی تو تمھیں بھی ان پر غصہ آتا ۔ اس پر انھوں نے سوال کیا : پھر آپ سے جو میرا بچہ ہوا ہے اس کا کیا معاملہ ہے ۔ آپ نے فرمایا : وہ جنت میں ہے ۔ پھر آپ نے (اصول) بیان کیا : مؤمنین اور ان کی اولاد جنت میں ہے اور مشرکین اور ان کی اولاد جہنم میں ہے ۔ (اپنی بات کو مؤکد کرنے کے لیے ) آپ نے یہ آیت پڑھی: وَالَّّذِیْنَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِہِمْ ذُرِّیَّتَھُم (وہ جو ایمان لائے اور ان کی ذریت نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کے ساتھ ان کی ذریت کو ملا دیا )۔‘‘

دونوں روایتیں دو متضاد باتیں بیان کرتی ہیں ۔ ایک کے مطابق فیصلہ اللہ کے علم پر ہوگا اور دوسری کے مطابق مشرکین کی اولاد اور مومنین کی اولاد میں فرق کیا جائے گا ۔

تیسری روایت دیکھیے:

عن الأسود بن سریع أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بعث سریۃ یوم حنین ۔ فقاتلوا المشرکین فأفضی بہم القتل الی الذریۃ ۔ فلما جاء وا، قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ما حملکم علی قتل الذریۃ ۔ قالوا: إنما کانوا أولاد المشرکین۔ قال: أو ھل خیارکم الا اولاد المشرکین۔ والذی نفس محمد بیدہ ما من نسمۃ تولد الا علی الفطرۃ حتی یعرب عنھا لسانھا۔(مسند احمد بن حنبل ، رقم ۱۵۰۳۶)
’’اسود بن سریع بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے موقع پر ایک دستہ روانہ کیا ۔ ان لوگوں نے مشرکین کے ساتھ قتال کیا ۔ جنگ کی کیفیت انھیں بچوں (کے قتل ) تک لے گئی۔ پھر جب یہ لوگ لوٹے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : تم نے بچوں کو کس سبب سے قتل کیا ہے ۔ ان لوگوں نے جواب دیا : یارسول اللہ وہ مشرکین کے بچے ہی توتھے ۔ آپ نے پوچھا : کیا تمھارے بہترین لوگ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے کوئی جان ایسی نہیں ہے جو فطرت (یعنی حق) پر پیدا نہ ہوتی ہو ، یہاں تک کہ وہ اپنی زبان سے واضح طور پر کچھ کہے۔‘‘

یہ روایت درج بالا روایات کے بالکل برعکس بچوں کو خدا کی بنائی ہوئی فطرت پر قرار دیتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا واضح مطلب یہی ہے کہ جب تک کوئی جان اپنے شعور و ارادہ کے ساتھ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتی ، اسے مجرم قرارنہیں دیا جاسکتا ۔غرض یہ کہ یہ روایت بالکل اسی بات کی حامل ہے جو قرآنِ مجیدمیں بیان ہوئی ہے۔ قرآنِ مجید واضح طور پر کہتا ہے: ’لیس للانسان الاما سعی‘، انسان کے لیے اجر میں وہی ہے جس کی اس نے سعی کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’لایظلمون فتیلا‘، تم پر ریشہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ’لاتزر وازرۃ وزر اخری‘ ، کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھائے گی ۔یہ آخرت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان کیے گئے اصول ہیں۔ قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اصولوں کو اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے ساتھ عہدکی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معصوم بچوں کومحض اس پاداش میں کہ انھیں مشرک ماؤں نے جنم دیا ہے جہنم میں ڈال دیں گے، جب کہ انھوں نے کوئی برائی نہیں کی اور اس گھر میں پیدا ہونے میں بھی ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی قرآنِ مجید کے تصورِ جزا و سزا کے منافی ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے علم کی بنیاد پر سزا دیں گے ۔ جس پروردگار نے دنیا میں کسی قوم پر عذاب بھیجنے کے لیے اپنے اوپر لازم کیے رکھا کہ وہ اس وقت تک عذاب نہیں دیں گے جب تک رسول بھیج کر اتمام حجت نہیں کردیں گے۲؂۔ جو پروردگار یہ کہیں کہ وہ بڑوں کو بھی صرف ان جرائم پر سزا دیں گے جن کا ارتکاب انھوں نے پورے شعور کے ساتھ کیا ہو گا ۳؂ ۔ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان بچوں کو جنھیں دنیا میں شعور وادراک کے ساتھ کچھ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا، ناکردہ گناہوں کے جرم میں سزا دے دیں گے۔

قرآنِ مجید کے ان محکمات کی روشنی میں ہم پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات بیان کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے جرائم ہی پر سزا دیں گے ۔ بچوں کے معاملے میں وہ وہی معاملہ کریں گے جو ان کے عدل و رحم کا تقاضا ہے ۔

تیسرا سوال خیر و شر کے باب میں تقدیر سے متعلق ہے ۔ ہم اس سے پچھلی حدیث کی شرح میں واضح کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کے ساتھ انسان کو اس معاملے میں کامل آزادی دے رکھی ہے ۔ اس باب میں اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ وہ چاہے تو خدا کا شکر گزار بندہ بنے اور چاہے تو ناشکر گزار ، ’اما شاکرا و اما کفورا‘۔

رہا یہ سوال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ان متضاد روایات کی کیا حقیقت ہے ۔ ہم اپنی استعداد کی حد تک سعی کے باوجود کسی مطمئن کرنے والے حل تک پہنچنے سے قاصر رہے ہیں۔یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ راویوں کے سوءِ فہم کے باعث بات صحیح طریقے سے نقل نہیں ہو سکی ۔ قرآنِ مجید کی مکی سورتیں ہوں یا مدنی ، وہ ایک ہی بات اصرار کے ساتھ پیش کرتا رہا ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال پر ہی سزایا جزا ملے گی ۔ لہٰذا یہ بات کسی طرح بھی تصور میں نہیں آسکتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے برعکس کوئی بات ارشاد فرمائیں گے ۔

آخر میں ضمنی طور پر یہ بات بھی واضح رہے کہ بچوں کے انجام کے بارے میں قرآنِ مجید میں نفیاً یا اثباتاً کوئی بات بیان نہیں ہوئی ۔ لہٰذا لازم ہے کہ یہ بات قرآنِ مجید کے عمومی اصول کے تحت ہی سمجھی جائے ۔

کتابیات

بخاری ، رقم ۱۲۹۴۔مسلم ،رقم ۴۸۰۵،۴۸۱۲، ۴۸۱۳۔ نسائی ،رقم ۱۹۲۱۔ ابن ماجہ ، مقدمہ/۷۹ ۔ ابوداؤد، رقم ۴۰۸۹۔احمدبن حنبل ، رقم۱۰۷۶،۹۸۵۱، ۱۵۰۳۶،۲۳۰۰۲، ۲۴۵۶۰،۔ابن حبان ۱/ ۳۴۷، ۱۴/ ۴۷۔سنن الکبری ۱/ ۶۳۳۔ الجامع لمعمر ۱۱/۱۲۴۔

________

۱؂ سورۂ الرعد۱۳: ۲۹۔

۲؂ وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا،’’اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں بھیجا کرتے جب تک رسول مبعوث نہ کر لیں۔‘‘(الاسراء ۱۷: ۱۵)

۳؂ ولیس علیکم جناح فیما أخطأتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم ،’’اس معاملے میں(بے علمی کے باعث) جو تم سے غلطی ہوئی ہے اس پر تم سے کوئی مؤاخذہ نہیں البتہ تمھارے دلوں نے جس بات کا عزم کر لیا اس پر مؤاخذہ ہے ۔‘‘(الاحزاب ۳۳ : ۵)

____________

B