HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

ایڈورٹائزمنٹ

وہ معلومات جو گاہک کی خواہشات اور ضرورتوں کو بدل ڈالیں، کسی خاص شے کے بارے میں اس کے طرزِ عمل اور رجحان پر اثر انداز ہوں اور اس شے کی فروخت بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں، ان کا پرچار ایڈورٹائز منٹ ہے۔

اگرچہ بیسویں صدی کو ایڈورٹائز منٹ کی صدی کہاگیا ہے ، لیکن ایسا نہیں کہ ایڈورٹائزمنٹ پہلے بالکل موجود نہ تھی۔ اس کا سراغ قدیم روم میں ملتا ہے جہاں پومپیائی (Pompeii) کے شہر میں قصاب کی دکان کے باہر گائے کی رانوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ گھر کرائے پر دینے کے اشتہار لگائے گئے۔ شراب کی فروخت بڑھانے کے لیے دیواروں پر ڈسپلے پینٹ کیے گئے۔

زبانی تعریف ہمیشہ سے ایڈورٹائزمنٹ کا اہم ذریعہ رہی ہے۔ وزیرآباد کا پھیری والا ’’ کالے کالے را‘‘ کی صدالگا کر جامن بیچے ، دلّی کا خوانچہ فروش ’’لیلیٰ کی انگلیوں سے زیادہ باریک ، مجنوں کی پسلیوں سے زیادہ ٹیڑھی‘‘کی آواز لگا کر ککڑیاں بیچے ، عرب دکان دار غوغا کرکے عُکاظ، مَجَنّہ یا دُومۃ الجندل کے بازاروں میں اپنا سودا بیچیں یا یورپ کے Town criers چلاّ چلاّ کر لوگوں کو اپنی مصنوعات کی طرف متوجہ کریں ، یہ سب ایڈورٹائز منٹ کے ابتدائی طریقے ہیں ۔ جوں جوں تمدن ترقی کرتا گیا، ایڈورٹائزمنٹ بھی ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی ۔ کہا جا سکتا ہے کہ تہذیبِ انسانی کی ترقی کا عکس ماڈرن ایڈورٹائز منٹ میں جھلکتا ہے۔

جب پریس ایجاد ہوا تو ایڈورٹائزمنٹ میں اس کا خوب استعمال کیا گیا ۔۱۷۰۴ء میں Boston News Letter میں پہلی دفعہ اشتہارات چھپے ۔ ٹریڈمارک، Insignia اور Catalogue کا رواج شروع ہوا۔ ۱۸۸۰ء میں Colgate, Ivory اور Pears برانڈز کے ناموں سے صابن بنے جو آج بھی چل رہے ہیں۔

پھر اس ضرورت کے لیے ڈاک سے استفادہ کیا گیا ۔ لوگوں کے گھروں میں پمفلٹ پوسٹ کیے جانے لگے۔

۱۹۲۰ء میں Pittsburgh میں دنیا کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو اشتہار بازی کو ایک نئی جہت مل گئی ۔ کمرشل سروس شروع کی گئی اور مختلف کمپنیوں کی طرف سے Sponsored پروگرام پیش کیے جانے لگے۔پہلی اور دوسری جنگِ عظیم نے بھی ایڈورٹائزمنٹ پر گہرا اثر ڈالا۔ جنگ میں لوگوں کی شمولیت کو بھر پور بنانے اور جنگ کی آفات سے لوگوں کو بچانے کے لیے اشتہارات کا استعمال کیا گیا ۔ اس دوران میں بجلی سے منور بورڈوں (Neon Signs) کا چلن ہوا۔ دیواروں پر تصویریں کندہ کی جانے لگیں۔ Thompson پہلی ایجنسی تھی جس نے فوٹوگرافی کا عنصر شامل کیا۔

۱۹۴۶ء میں ٹی وی مارکیٹ ہونا شروع ہوا تو اشتہاری کمپنیوں نے اپنی توجہ اس پر مرکوز کردی ۔ اب ظاہری getup اور گلیمر کا دور شروع ہوا ۔ Visuals کے آنے سے حسن و ادا کی نمایش شروع ہوئی اور اشتہارات میں پاپ گروپس اور رقاصاؤں کے ڈانس شامل کیے جانے لگے ۔

اب کمپیوٹر کی ایجاد نے ایڈورٹائزمنٹ کی تاثیر میں کئی گنا اضافہ کر دیاہے۔ فیکس اور سیٹلائٹ نے بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرنے والا انٹرنیٹ جنم دیا ہے ۔ اشتہار لکھنے والوں اور گرافک ڈینزائنروں کی ایک نئی نسل وجود میں آچکی ہے۔ اشتہارات میں لوگوں کو کئی طرح متاثر کیا جاتا ہے ۔ Market segmentationکے ذریعے سے ایک طرح کا رجحان رکھنے والے صارفین کو مجموعی طور پرا پروچ کیا جاتا ہے ۔ دیکھنے سننے اور وجدان کی حسوں کو انگیخت کیا جاتا ہے ۔ قومی ، مذہبی ، جنسی اور لطیف احساسات کو Exploit کیا جاتا ہے۔ ۱۹۲۱ء میں والٹر تھا مپسن نے گاہکوں کومائل کرنے کے طریقے دریافت کرنے کے لیے Behavioural research کے بانی ، ماہرِ نفسیات جان واٹسن کی خدمات حاصل کیں۔ Consumer کو راحت حاصل کرنے، صحت افزوں کرنے اور خوبصورتی کو لافانی بنانے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ نفسیاتی برتری حاصل کرنا اور امراض اور حادثات سے بچنا ہر انسان کی تمنا ہوتی ہے۔ اسے اپنے مقاصدکی تکمیل کرنے کے لیے ابھارا جاتا ہے ۔ بہتر زندگی اور حسین مستقبل کی آرزوئیں پیدا کی جاتی ہیں۔ پھر بلامعاوضہ یا آدھی قمیت پر دینے ، بونس اور تحائف دینے کے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ۔ مفت گاڑی یا مفت ہوائی ٹکٹ ملنے کا لالچ دیا جاتا ہے۔

شوربرپا کرکے قوتِ سماعت کو، سکون کی کیفیت پیدا کرکے آنکھوں کو، خوشبودار تحفوں سے قوتِ شامہ کو متاثر کیا جاتا رہا۔ جب ان سے تسلی نہ ہوئی تو جنس (Sex) کوعمل میں لایا گیا۔ Wood burry facial soap کا اشتہار \“The skin love to touch.\” you اس عمل کی ابتدا تھی۔ اب یہی اشتہارات کا اہم جزو ہے۔

Scare copy اس اشتہار کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کو ہراساں کرکے اشیا بیچی جاتی ہیں ۔غربت اوربیماریوں سے ڈرایا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں Hepatitis اور Aids پر چلنے والی مہمیں اس کی مثالیں ہیں ۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اپنی قریب المیعاد ویکسین ان اشتہاروں کی بنا پر فروخت کی۔

معاشی اور اخلاقی وجوہ کی بنا پر ایڈورٹائزمنٹ پر مغرب میں بھی بہت تنقید ہوئی۔ ناقدین نے ایڈورٹائزمنٹ پراٹھنے والے اخراجات کو فضول خرچی اور معاشی بوجھ قرار دیا۔ اہلِ دانش نے صارف کو جذباتی طور پر اغوا کرنا اچھا نہ سمجھا ۔ ایجنسیوں میں بھی احساس پیدا ہوا کہ وہ لوگوں کی سروس نہیں کررہیں ، بلکہ پراڈکٹس کی شان بڑھا رہی ہیں ۔ غیراخلاقی حربے اختیار کرنے کا نوٹس لیاگیا۔دوسری طرف ایڈورٹائزمنٹ کے حامیوں کاکہنا تھا کہ جب ایک چیز کی سیل کئی گنابڑھ جاتی ہے تو اس پر آنے والی لاگت کم ہو جاتی ہے اور اسے ارزاں نرخوں پر مہیا کرنا ممکن ہو جاتا ہے ۔ پھر کئی لوگوں کی معاش اس صنعت سے وابستہ ہے۔ اخبارات ، ریڈیواور ٹی و ی تو اپنا ۷۰ فی صد بجٹ ہی اشتہارات سے پورا کرتے ہیں۔

امریکا میں ایڈورٹائزمنٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی قانون بنائے گئے۔ ۱۰ مارچ ۱۹۷۰ کو سگریٹ کے اشتہارات پر کنٹرول کرنے کے لیے ایک بل سینٹ میں پیش کیا گیا جو دو سال کے بعدموثر قانون بن گیا۔ وفاق کے علاوہ ہر ریاست اپنا قانون رکھتی ہے۔کہیں شراب کے اشتہارات ممنوع ہیں اور کہیں دیواروں کواشتہاروں سے بھرنا یا بڑے بڑے بورڈ لگانا۔ برطانیہ میں اخبارات ، میگز ین ، بازاروں اور کھیل کے میدانوں میں ایڈورٹائزمنٹ کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے ۔ جب کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر انھیں سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ یہ BBCپر شجرِ ممنوعہ ہیں، البتہ دوسرے چینلز پر شام ۶ بجے سے رات ۱۱ بجے تک ان کا دورانیہ ساڑھے ۷ منٹ فی گھنٹہ مقرر کیا گیاہے ۔بچوں کے پروگراموں کے دوران میں اشتہار پیش کرنے کی اجازت نہیں، عام پروگراموں کے درمیان سگریٹ اور شراب کے اشتہارات کثرت سے دکھائے جاتے ہیں۔

ان تحدیدات کو دیکھتے ہوئے اشتہاری کمپنیوں نے ازخود اپنے لیے قواعد وضع کرلیے۔ اخبارات و رسائل نے اشتہار قبول کرنے سے پہلے چھان بین کرنا شروع کی۔خلاف حقیقت اورمبالغے پر مبنی Ads واپس کی جانے لگیں۔ ان اقدامات نے Truthful advertisement کا تصور دیا۔ اخلاقیات اور مفادِ عامہ کا لحاظ رکھنے کا مشورہ دینے کے لیے کئی فلاحی تنظیمیں بنیں۔سب سے مؤثر Better Business Bureaus (B B B) ہیں جو امریکا اور کینیڈا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان کے پمفلٹ اور Updates صارفین اور ایجنسیوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ جھوٹے اور غلط رہنمائی کرنے والے اشتہار نہ دیے جائیں۔ اشتہار کے الگ الگ جملے اور مجموعی تاثر ، دونوں مبنی بر حقیقت ہونے چاہییں ۔ وفاقی اور ریاستی قوانین کی مخالفت نہ کی جائے۔ اشتہار میں اصل قیمت بتائی جائے اور بعد میں اضافی چارجز لاگو نہ کیے جائیں۔ فری، بونس اور Rebate دینے کی شرائط تفصیل کے ساتھ پہلے بتائی جائیں۔اشتہار بازی سے بچوں کی تربیت پر برا اثر نہ پڑتا ہو۔

بلا شبہ امریکا اوریورپ کے لوگ اپنے تئیں اصولوں پر چلتے ہیں ، لیکن جہاں اخلاق جنسی آزادی پر مبنی ہو، لوگوں کی رضامندی سے گناہ ، نیکی بن جاتا ہواور جمہور غیر فطری (Unnatural) چیزوں کو فطرت (Nature) قرار دے دیتے ہوں، وہاں کیا اخلاق اور کیا اخلاقی اصول ہوں گے۔ اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء میں فرائڈ نے کہا کہ ہم جنسی (Homosexuality) کو بیماری نہیں کہا جاسکتا ۔ پھر ماہرینِ نفسیات نے یہ اصول وضع کیا کہ سوسائٹی کی قبولیت پانے والی تمام اقدار درست ہوتی ہیں ۔ Ellen Degeneres اور Elton Jon علانیہ ہم جنس ہونے کی بنا پر ایک مقام حاصل کر گئے ۔ Richard Gere, Whoopi Goldberg اور الزبتھ ٹیلر ہم جنسوں کی حمایت کرکے شہرت پا گئے۔ لہٰذا ہم جنسی ایک نارمل جنسی رویہ ٹھہرا اور اس کی مذمت کو بھی برا سمجھا جانے لگا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۸۰ء میں امریکن سائیکاٹرک ایسوسی ایشن نے ہم جنسی کو نفسیاتی بیماریوں کی فہرست سے خارج کر دیا۔

B B B کے کوڈ میں کاروباری اصولوں کا تو لحاظ رکھا گیا ہے۔ لیکن لوگوں کے جذبات کو بھڑ کانا، ان کو آرزوں میں مبتلا کرکے نفسیاتی اور معاشرتی بے چینی (Sociopsycholigical upset) میں مبتلاکر دینا برا نہیں سمجھا جاتا ۔ اسی طرح سرمایہ داروں کو ہر حربے سے اپنی پراڈکٹس فروخت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ذیل میں ہم اسلام کی روشنی میں ایڈورٹائزمنٹ کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کریں گے ۔

اگر کوئی چیز ایڈورٹائزمنٹ کے بغیر نہیں بکتی تو بائع کو ایڈورٹائزمنٹ پر کچھ رقم صرف کرنے کی اجازت ہوگی، لیکن تمام تصرفات کی طرح ایڈورٹائزمنٹ کو بھی شریعت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ بیع کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لا یحل لمسلم ان باع من اخیہ بیعاً ، فیہ عیب ان لا یبیّنہ لہ ۔ (مستدرک حاکم ،کتاب البیوع)
’’ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو کوئی چیز فروخت کرے ، جس میں کوئی عیب ہو اور وہ اسے باخبر نہ کرے ۔‘‘
البیّعان بالخیار ما لم یتفرّقا، فان صدقا بُورِک لہمافی بیعہما و ان کذبا و کتما، مُحِقت برکۃ بیعہما۔ (بخاری،رقم ۲۰۷۹، ۲۱۱۰)
’’خرید و فروخت کرنے والوں کو جدا ہونے تک سودا منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔اگر وہ سچ بول کر سودے کی خوبیاں اور خامیاں بتا دیں گے تو ان کی بیع میں اللہ کی طرف سے برکت ہو گی اور اگر انھوں نے جھوٹ بولا اور کچھ چھپایا تو یہ برکت چلی جائے گی۔‘‘

ایڈورٹائزمنٹ کا مقصد بھی خرید ار کو خوبیاں اور خامیاں بتاناہو ۔ یہ نہ ہو کہ اپنی خوبیوں اور اپنے مدِمقابل کی خامیوں کاپرچار کیاجائے۔ پھر جھوٹی یقین دہانیوں سے بھی اجتناب کرنا ہو گا ۔ کیونکہ ارشاد نبوی ہے:

الحلف منفقۃ للسلعۃ ممحقۃ للبرکۃ ( بخاری رقم،۲۰۸۷)
’’جھوٹی قسم سودا جلد بکا دیتی ہے اوربرکت کو ختم کر ڈالتی ہے۔‘‘

انسان شیطان کے ہاتھوں دنیا قائم ہونے کے وقت سے اغوا ہوتا ہے ۔ لیکن ایڈورٹائزمنٹ نے اس راہوار شیطانی کو خوب مہمیز لگائی ہے ، پرکشش ، جنس و جذبات کو انگیخت کرنے والے اشتہارات دیکھ کر انسان پھسل جاتا ہے ۔ انفرادی لذت اور قومی سربلندی کے حصول کی خواہش اسے کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے ۔

عورتوں کے لیے نگاہ قابو میں رکھنے ، حفاظتِ فرج کرنے، زیب و زینت کا اظہار نہ کرنے اور سج دھج کی نمایش سے بچنے کے احکام وارد ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف مردوں کو بھی فرج کی حفاظت کرنے اور نگاہ کی آوارگی سے بچنے کا فرمان ہے۔یہ احکام اپنی معمول کی زندگی میں ہر لحظہ ملحوظ رکھنے چاہییں۔ گھروں کے اندر کچھ نرمی ہے ، لیکن باہرنکل کر زیب و زینت کی نمایش کرنا انتہائی برا ہے۔

ایڈورٹائزمنٹ کا مقصدInformation ہے ۔خود اس کی تعریف کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ پراپیگنڈہ اور پبلیسٹی سے مختلف چیز ہے ۔ آج کے Ads کو دیکھ کر لگتا ہے کہ Glamour کا ایک طوفان بلاخیز ہے جو سب کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جارہا ہے اور Information کہیں پیچھے رہ گئی ہے ۔

اشتہار بازی کا معاشی پہلو بھی قابل غور ہے ۔ شاید ہمارے ماہرین معاشیات اس بارے میں کچھ کرنے سے معذور ہیں ۔ بڑھتی ہوئی ایڈورٹائزمنٹ نے معیشت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں ۔ آج پاکستان کا ہر غریب آدمی بھی اپنے مہمان کو پیپسی پلانے پر مجبور ہے ، چاہے وہ اس کی سکت نہ رکھتا ہو ۔ کیونکہ پیپسی ہمارے معاشرے کی قدر بن چکی ہے۔ چائے کی چھوٹی سی ڈبیا ۳۰ روپے سے لے کر ۶۵ روپے تک بکتی ہے اس لیے کہ چائے کے انتہائی مسحور کن اشتہارات ہر لمحہ جاری و ساری ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مہنگی اشیا بڑی آسانی سے ایڈورٹائزمنٹ کے سہارے بیچ رہی ہیں اور ملکی کمپنیاں دم توڑ رہی ہیں۔ وہ مغربی ممالک جو پاکستان کو بھاری شرح سود پر قرضے دیتے ہیں اور ان قرضوں کو پاکستان کی حکومتیں گرانے اور بدلنے میں استعمال کرتے ہیں ، وہ اپنے مفاد کے شعبوں میں ایڈورٹائزمنٹ کے لیے مفت سہولتیں دے رہے ہیں اور جس پاکستانی صنعت سے ان کے مفاد پر زد پڑتی ہو ، اس کے خلاف سائنٹیفک طریقوں سے تشہیر ی مہم چلادیتے ہیں ۔دوسری طرف پاکستان کی بنیادی ضروریات (Utilities) کو مہنگا کیا جارہا ہے ۔

ان تجاوزات کا ازالہ کیا جاسکتاہے ،اگر Direct advertisement کو فروغ دیا جائے جو انسانی تہذیب کا ہمیشہ سے خاصہ رہی ہے اور Communication Mass سے توجہ ہٹا لی جائے ۔روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی تشہیر بازاروں اور کاروباری مراکز میں اشتہار ، پمفلٹ اور معلوماتی لٹریچر مہیا کرکے کی جاسکتی ہے۔ فالتو ، فری اور انعامی اسکیموں کے لالچ میں لوگوں کو نہ پھنسایا جائے ، بلکہ کمپنیاں اپنی لاگت کم کرنے اور صارفین کو رعایت دینے کے طریقے اپنائیں ۔ قسط وار اشیا دینے کی حوصلہ شکنی کی جائے ، اس لیے کہ یہ سود کا عنصر اپنے اندر رکھتی ہیں ۔اس کی بجائے لوگوں کو قرضِ حسنہ دے کر اپنی ساکھ بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ سامان تعیش اور Luxuries کی ایڈورٹائزمنٹ کو سختی سے بند کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ معاشرتی اور نفسیاتی بے چینی کا باعث بنتی ہیں۔

عورتوں کی زیبایش کے اظہار اور مردو زن کے بے جا اختلاط سے اشتہار پاک کیے جائیں ۔

عام آفات ، بیماریوں اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے بارے معلومات دینا حکومت کی ذمہ داری ہو اور اس کے لیے Mass media کا بھر پور استعمال کیا جائے۔ کسی خاص کمپنی یا کسی خاص پراڈکٹ کی تشہیر ہرگز نہ آنے پائے جو عام طور پر بالواسطہ طریقوں سے شامل کر دی جاتی ہے۔اس لیے کہ Scare copy ایسی مہموں ہی سے جنم لیتی ہے۔اس کا فائدہ تاجر اور مصنوعات بنانے والے اٹھاتے ہیں اور صارف خوف کا شکار ہو کر اشیا خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔

ہر کاروبار میں کا م آنے والا اصل سرمایہ اللہ کا تقویٰ ہے ۔ اچھے مسلمان اور اچھے تاجر پیدا کیے جائیں تاکہ اچھی ایڈورٹائزمنٹس سامنے آ سکیں۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام ہے ، کیونکہ تاجروں کو جب سامنے نفع نظر آتا ہے تو وہ اصولوں کو بھول کر اسے پانے میں لگ جاتے ہیں۔

____________

B