[معہد العلم الاسلامی ، المورد میں ایم اے اسلامیات کے داخلوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ داخلہ فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ ۳۰ نومبر ۲۰۰۱ ہے ۔ اس موقع پر دانش گاہ کا ایک مختصر تعارف ہم طلبہ کی رہنمائی کے لیے یہاں شائع کر رہے ہیں۔ ادارہ]
’’المورد‘‘ ملتِ اسلامیہ کی عظیم علمی روایات کی امین ایک منفرد دانش گاہ ہے۔ پندرھویں صدی ہجری کی ابتدا میں یہ دانش گاہ اس احساس کی بنا پر قائم کی گئی ہے کہ تفقہ فی الدین کا عمل ملت میں صحیح نہج پر قائم نہیں رہا۔ فرقہ دارانہ تعصبات اور سیاست کی حریفانہ کشمکش سے الگ رہ کر خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر دینِ حق کی دعوت مسلمانوں کے لیے اجنبی ہو چکی ہے۔ قرآنِ مجیدجو اس دین کی بنیاد ہے، محض حفظ و تلاوت کی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ امت کی اخلاقی اصلاح اور ذہنی ترقی کے لیے اس سے رہنمائی نہیں لی جاتی اور ہم عمل کے لیے اس قوتِ محرکہ سے محروم ہو گئے ہیں جو صرف قرآن ہی سے حاصل ہو سکتی تھی۔ مذہبی مدرسوں میں وہ علوم مقصود بالذات بن گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ قرآنِ مجید تک پہنچنے کا وسیلہ ہو سکتے تھے۔ حدیث، قرآن و سنت میں اپنی اساسات سے بے تعلق کر دی گئی ہے اور سارا زور کسی خاص مکتب فکر کے اصول و فروع کی تحصیل اور دوسروں کے مقابلے میں ان کی برتری ثابت کرنے پر ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ امت کے ذہین عناصر میں دین کو جاننے اور سمجھنے کی خواہش روز افزوں ہے۔وہ دورِ جدید کے علمی اور فکری مسائل سے پریشان ہیں۔ انھیں اس وقت آسمانی ہدایت کی شدید ضرورت ہے، لیکن موجودہ مذہبی فکر دین کو جس طرح پیش کر رہا ہے، وہ اس سے مطمئن نہیں ہو پاتے۔ ’’المورد‘‘ کے نام سے یہ دانش گاہ اسی صورتِ حال کی اصلاح کے لیے قائم کی گئی ہے۔
اس دانش گاہ کو جناب جاوید احمد غامدی نے۱۹۸۳ میں قائم کیا تھا ۔ ان کی سرپرستی اور ان کے احباب کے غیر معمولی تعاون سے یہ مسلسل سرگرمِ عمل ہے ۔ کئی برس کی محنتِ شاقہ کے بعد اہلِ علم کی ایک ٹیم میسر ہوئی ہے، جسے اوپر بیان کیے گئے خطوط پر تربیت دی گئی ہے۔ کام کرتے ہوئے تربیت حاصل کرکے ان لوگوں نے یہ اہلیت پیدا کر لی ہے کہ المورد کی فیکلٹی کا حصہ بن سکیں۔ ۱۹۹۷ ء میں المورد نے اسلامیات کی پوسٹ گریجوایشن کے ادارے کی حیثیت اختیار کی اور ۲۰۰۱ میں اسے ایم اے جناح یونیورسٹی کراچی کا الحاق (Affiliation) حاصل ہو اہے ۔
دانش گاہ کا نظم و نسق ایک بورڈ آف گورنرز کے تحت ہے۔ بورڈ کے ارکان مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ یہ ادارے کی خدمت اور اس کی ترقی کی مساعی کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں۔
اس دانش گاہ کے ذریعے سے ہم دین کے ایسے جید علما اور محققین تیار کرنا چاہتے ہیں جو :
اوّلاً انبیا علیہم السلام کے طریقے پر، دعوت و انذار کی روایت کو امتِ مسلمہ میں زندہ کر سکیں۔
ثانیاً علمِ جدید کے اس چیلنج کا مقابلہ کر سکیں جو امت کو اس زمانے میں در پیش ہے۔
ثالثاً اپنے دینی فکر میں قرآنِ مجید کو وہی حیثیت دیتے ہوں جو دین میں اس کو فی الواقع حاصل ہے ۔ چنانچہ دین سے متعلق ہر معاملے میں وہ اسے میزان اور فرقان قرار دیتے، نحو و ادب ، فلسفہ و کلام اور فقہ و حدیث کے لیے اسے معیار مانتے اور ہر چیز کے ردّوقبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
اس دانش گاہ کا نصاب ہم نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اس میں قرآنِ مجید کو وہی حیثیت حاصل رہے جو دین میں اس کو فی الواقع حاصل ہے۔ چنانچہ ہمارے اس نصاب میں مرکز و محور وہی ہے۔ ہم ہر چیز کی ابتدا اس سے کرتے ہیں اور اس کی انتہا بھی وہی قرار پاتا ہے۔ علم و فن کی ہر وادی میں طلبہ اسے ہاتھ میں لے کر نکلتے ہیں اور ہر منزل اس کی رہنمائی میں طے کرتے ہیں۔ جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، اسی کو سمجھنے اور اسی کے مدعا کو پانے کے لیے پڑھایا جاتا ہے ۔ نحو و ادب، فلسفہ و کلام اور فقہ و حدیث کے لیے اسے معیار مانا جاتا ہے اور ہر چیز کے ردوقبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ اس نصاب میں اصل اہمیت نحو، ادبِ جاہلی، حدیث، اور اخذ و استنباط کے اصول و مبادی کی تدریس کو دی گئی ہے۔ قدیم منطق کی تعلیم بس اتنی ہوتی ہے کہ طلبہ ان فنون کی اصطلاحات سے فی الجملہ واقف ہو جائیں تاکہ ان علمی کتابوں کے مطالعہ میں انھیں کوئی دقت نہ ہو جن کے لکھنے والوں نے اپنا مدعا بالعموم ان فنون ہی کی زبان میں بیان کیا ہے۔ عربی اس دانش گاہ میں ایک زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے ۔نئے علوم میں سے بالخصوص فلسفہ و نفسیات، طبیعیات، معاشیات کے اہم مسائل کا مطالعہ طلبہ کو اس طرح کرایا جاتا ہے کہ وہ ان کی حقیقت اور طریقۂ استدلال کو پوری طرح سمجھ کر ان کے مقابلے میں قرآن و سنت کا نقطۂ نظر واضح کر سکیں۔ صحفِ سماوی سے اعلیٰ علمی سطح پر تعارف کو بھی اس نصاب میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ فقہ اسلامی کے کسی ایک مذہب کے بجائے تمام اہم مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس طرح دی جاتی ہے کہ طلبہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ سارا فقہی ذخیرہ ان کی اپنی میراث ہے اور اس معاملے میں کسی رائے اور شخص کے ساتھ تعصب کے لیے علم کی دنیا میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ چنانچہ اس ذخیرے میں سے صرف وہی چیز قبول کرنی چاہیے جو اللہ کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے اور اس کے خلاف ہر چیز، بغیر کسی تردد کے رد کر دینی چاہیے۔
طلبہ کو محض کتابیں ہی نہیں پڑھائی جاتیں، اس کے ساتھ ان کی تربیت کے لیے بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے انھیں ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنا کچھ وقت لازماً صالح علما کی صحبت میں گزاریں اور قرآن و حدیث کے ان ارشادات میں خاص طور پر دھیان لگائیں جو تربیتِ اخلاق سے متعلق ہیں۔ اس کے ساتھ دین کی نصرت کا جذبہ بھی ان کے اندر پیدا کیا جاتا ہے اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ تفقہ فی الدین کی اس نعمت سے بہرہ یاب ہونے کے بعد اپنی قوم اور اس کے اربابِ اقتدار کو دینِ حق کی پیروی کے لیے دعوت و انذار ہی ان کی اصل ذمہ داری ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ تشنگانِ علم و ہدایت کے لیے یہ دانش گاہ ہر لحاظ سے ’’المورد‘‘ قرار پائے اور اپنی پیاس بجھانے کے لیے وہ اقصاے عالم سے اس کی طرف رجوع کریں۔ یہ دین کی تجدید و احیا اور امت کی اصلاح کا ایک منفرد منصوبہ ہے۔ اسے عام دینی مدارس پر قیاس نہ کیجیے۔ اس کے ذریعے سے ان شاء اللہ امت میں ایک عظیم فکری انقلاب برپا ہو گا اور علم و دانش کی ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔
دینی علوم کی تدریس کے یے یہ دانش گاہ، بی۔ اے، بی۔ ایس۔ سی یا اس کے مساوی تعلیمی قابلیت اور عربی زبان میں ضروری استعداد کے حاملین کے لیے ایک دو سالہ کورس کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ کورس ایم۔اے اسلامیات کے لیے ہے۔
ایم اے اسلامیات کے لیے نصاب کی تفصیل یہ ہے:
اصول و مبادی
قرآنِ مجید
حدیث
ادبِ جاہلی
اعلیٰ نحو
دینِ حق
خلافتِ راشدہ کی تاریخ
مذاہبِ عالم
علوم جدیدہ — اہم مباحث
اصولِ فقہ
مختارات (اسلامی علوم کی اعلیٰ علمی کتابوں سے انتخاب)
سیرت النبی
قدیم عرب کی تاریخ
عربی زبان کے اس ایک سالہ ڈپلومہ کورس کا ہدف طلبہ میں عربی زبان پڑھنے اور ایک حد تک لکھنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ اس کورس میں طلبہ کو نہ صرف عربی زبان کی گرامر اور قواعد سکھائے جاتے ہیں ،بلکہ ان کی تطبیق کی بھی مشق کرائی جاتی ہے۔ یہ ڈپلومہ کورس اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ طلبہ میں جدید کے ساتھ ساتھ قدیم عربی کا ذوق بھی پیدا ہو۔
وہ لوگ جو دین کے مبادیات کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ادارہ ان کے لیے درجِ ذیل کورسز کا اہتمام کرتاہے:
(۱) مطالعۂ قرآن (تین ماہ، ہفتے میں چار دن)
(۲) مطالعۂ حدیث (تین ماہ، ہفتے میں چار دن)
(۳) مطالعۂ اسلام (تین ماہ، ہفتے میں چار دن)
(۴) مطالعۂ سیرت (تین ماہ، ہفتے میں تین دن)
(۵) عربی بول چال (تین ماہ، ہفتے میں چار دن)
(۶) اسلام کے دورِ اول کی تاریخ (تین ماہ، ہفتے میں تین دن)
دانش گاہ یہ سہولت بھی لوگوں کو مہیا کرنے کی سعی کر رہی ہے کہ وہ گھر بیٹھے مختلف کورسز کر سکیں۔ اس ضمن میں عنقریب ای میل کے ذریعے سے فہمِ قرآن کورس کرایا جانا پیشِ نظر ہے۔
دانش گاہ کی لائبریری میں طلبہ اور اساتذہ کے مطالعے کے لیے تمام ضروری کتابیں دستیاب ہیں۔ اس وقت لائبریری میں کم و بیش آٹھ ہزار کتابیں موجود ہیں۔ ۸۰ کے قریب ماہانہ جرائد آتے ہیں۔
طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے مخلص اور محنتی اساتذہ کی ایک ٹیم دانش گاہ میں کام کر رہی ہے ۔ طریقۂ تدریس اور نصاب میں بہتری لانے کے لیے دانش گاہ میں جانچ پڑتال (Evaluation) کا نظام باقاعدگی سے جاری ہے ۔نصاب کی تدریس کے ساتھ ساتھ اساتذہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ طلبہ کے اخلاق وکردار کے لیے عملی نمونہ بنیں تاکہ وہ طلبہ کی کردار سازی میں موثر کردار ادا کریں ۔
ادارے کے اخراجات کا انتظام بورڈ آف گورنرز کے ارکان کی ذمہ داری ہے ۔وہ لوگ جو ادارے کے مقاصد سے اتفاق رکھتے ہیں ، انھیں اس ٹیم کا آگے بڑھ کر ساتھ دینا چاہیے ۔ادارے کی ترقی میں وہ کئی طرح سے معاون ہو سکتے ہیں ۔ مثلا :
۱۔ اپنے حلقۂ احباب میں ادارے کو متعارف کرائیں۔
۲۔ کسی طالب علم کے اخراجات اٹھالیں ۔
۳۔ لائبریری میں کتب کے اضافے کے لیے رقوم دیں ۔
۴۔ قرآن ، حدیث اور بائیبل سے متعلق کسی تحقیقی پروجیکٹ کی مالی اعانت کریں ۔
مالی وسائل کی فراہمی کی صورت میں ادارے میں حسب ذیل کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہمارے پیشِ نظر ہے :
۱۔ ایک آڈیٹوریم کی تعمیر
۲۔ نئے اساتذہ کا اضافہ
۳۔ ہاسٹل کا قیام
____________