نام کتاب: مطالعۂ تصوف، قرآن و سنت کی روشنی میں
مصنف: ڈاکٹر غلام قادر لون
ضخامت: 605صفحات، مجلد
ناشر : دوست ایسوسی ایٹس، الکریم مارکیٹ، اردو بازار لاہور
قیمت: 300 روپے
مخلوق ہونے کے لحاظ سے یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے خالق کے متعلق سوچے اسے پہچانے اور اپنی تخلیق و پرورش پر حقِ شکر گزاری ادا کرے۔ انسان کے اسی فطری جذبۂ تشکر کی رہنمائی کے لیے اللہ نے اپنے فرستادے بھیج کر اس کی ہدایت کا سامان کیا۔ اللہ کے ان پیغمبروں نے انسان کو عبودیت کے وہ باوقار طریقے بتائے جو افراط و تفریط سے پاک اور راہِ اعتدال کی خوبی کے حامل تھے۔ ان پیغمبروں کی آواز جن انسانوں تک نہ پہنچی یا وہ زمانے کی گردشوں کے غبار سے آلودہ ہو کر رہ گئی یا جن حساس اور پاک باز انسانوں کے اندر فطرت سے محبت اور پاس گزاری کا جذبہ غیر معمولی تھا، انھوں نے اپنے طور پر بھی اسی راہِ حق پرستی کی منزلیں متعین کرنے کی سعی و جہدکی ۔ اس ضمن میں انسانی مہم جوئی کی داستانیں تاریخِ انسانی کے ہر موڑ پر ملتی ہیں اور پروردگارِ کائنات سے کیے گئے انسان کے عہدِ الست کی بگڑی ہوئی صداے بازگشت کی حیثیت رکھتی ہیں۔مکتی، نروان، رہبانیت اور تصوف انھی داستانوں کے چند ناقابلِ فراموش نام ہیں۔
نبیِ آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایک محفوظ اور حتمی دین کے آجانے کے باعث اگرچہ امتِ مسلمہ میں اس طرح کی مہم جوئی کی کوئی گنجایش باقی نہیں تھی ، لیکن خالق کے ساتھ ’’عشق و مستی‘‘ کے بے پناہ جوش و ولولے کے باعث تصوف کے عنوان سے ایک داستانِ عزیمت پھر بھی رقم ہو گئی ۔ قرآن نے چونکہ بہت ہی واضح طور پر خالق کے ساتھ تعلق کے آداب متعین کر دیے تھے، اس لیے دینِ اسلام کے رمز آشنا ہمیشہ سے اہلِ تصوف سے عرض کرتے رہے ہیں کہ ان کے ہاں فکر و نظر سے لے کر عمل اور رویے تک، بے اعتدالیاں در آئی ہیں۔ ان معروضات کی لے کہیں بہت تند و تیز رہی اور کہیں بہت ہی دل نواز اور حقِ نصیحت و تنقید کے عین موافق۔ ہماری علمی تاریخ میں ان دونوں رویوں کی حامل بڑی معرکہ آرا کتب لکھی گئیں ۔ زیرِ تبصرہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ اس میں تصوف پر بے جا تنقید کی گئی ہے نہ اس کی اندھی حمایت ، بلکہ یہ ایک مطالعہ ہے—- تصوف کو اہلِ تصوف کے افکار و نظریات کے تناظر میں جاننے کا بے لاگ مطالعہ۔ مصنف اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’پیش نظر کتاب میں محدثین، فقہا و مفسرین، مورخین، صوفیہ اور ناقدینِ تصوف کی تحریروں سے استشہاد کیا گیا ہے۔ تصوف کی مخالفت میں بہت کم لکھا گیا ہے لیکن جن علماء نے تصوف کی مخالفت کی ہے، وہ علم و عمل کے پہاڑ تھے۔ ان کے تبحرعلمی، خلوص اور نیک نیتی کو نظر انداز کرنا نا انصافی ہو گی۔ مستشرقین نے بھی تصوف پر بہت کچھ لکھا ہے اور یہ موضوع ان کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ تصوف کے سمجھنے میں ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ کتاب میں ان کی کتابوں سے کم حوالے دیے گئے ہیں، کوشش یہ کی گئی ہے کہ جن مصادر سے انھوں نے مواد اخذ کیا ہے، ان سے براہِ راست استفادہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس میں کامیابی بھی ملی ۔‘‘ ( ۱۰)
کتاب میں جن موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ، وہ سب کے سب تصوف کے معرکہ آرا مباحث ہیں۔ ان کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر ہم کتاب کے تمام ابواب کا اجمالی تعارف پیش کرتے ہیں :
پہلا باب لفظ ’’تصوف‘‘ پر ہے۔ اس میں لفظ تصوف کے اشتقاق پر قابل ذکر محققین کی آرا کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی باب میں بیعت، ارادت، طریقۂ بیعت، چہار تکبیر، چہار پیر، اصحابِ صفہ کے عنوانات بھی انتہائی گہرائی کے ساتھ زیرِ بحث لائے گئے ہیں اور کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا گیا۔
اگلا باب ’’علم باطن‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ تصوف کے علمِ کلام میں اصل منبع کی حیثیت چونکہ ’’علم باطن‘‘ ہی کو حاصل ہے ، اس لیے مصنف نے اس پر موافق و مخالف ، دونوں آرا کا زوردار موازنہ کیا ہے۔ اہل تصوف ’’علمِ لدنی‘‘ کو علم باطن قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت علی رضوان اللہ اجمعین کو اس علم کا وارث قرار دیا جاتا ہے۔ فاضل مصنف نے باب کے آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ علمِ باطن اور علمِ لدنی نام کی کسی چیز کا وجود، کم از کم اسلام میں ثابت نہیں ہوتا۔ اس سلسلے کی تمام روایات نہ صرف علما ، بلکہ بعض اہم صوفیا کے نزدیک بھی ثابت نہیں ہیں ۔
تیسرا باب زہد و مجاہدہ پر باندھا گیا ہے۔ اس کا آغاز مشہور صوفی شیخ ابراہیم بن ادھم کے اس ارشاد سے کیا گیا ہے:
’’تم صالحین کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتے جب تک ان چھ گھاٹیوں کو عبور نہیں کرو گے۔ (۱)نعمت کا دربند کرکے سختی کا در کھولو۔ (۲) عزت کا باب بند کرکے ذلت کا دروازہ کھولو۔ (۳)راحت کا دروازہ بند کرکے مشقت کا باب کھولو۔ (۴) نیند کا دروازہ بند کرکے بیداری کا دروازہ کھولو۔ (۵) غنا کا باب بند کرکے فقر کا در کھولو۔ (۶) امید کا دروازہ بند کرکے موت کے لیے تیاری کا دروازہ کھولو۔‘‘ (۲۳۲)
اس ارشاد کے بعد انھوں نے ’’فاقہ کشی یا بھوک، قلتِ منام اور قلتِ کلام‘‘ کے منازل بیان کیے ہیں اور صوفیا کے اقوال کے ذریعے سے بتایا ہے کہ ان کے ہاں زہد و مجاہدہ کے لیے ان اعمال کی کس قدر اہمیت ہے۔ باب کے آخر میں انھوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں صوفیا کے افکار کا جائزہ لیا ہے۔ باب کا اختتام انھوں نے اس تبصرے سے کیا ہے:
’’اسلام کی نگاہ میں تزکیۂ اخلاق ایک پاک اور عظیم مقصد ہے اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جائے اس کا سنت کے موافق ہونا لازمی ہے۔ شریعت کی نظر میں مقصد کی پاکیزگی اس وقت تک بے معنی ہے جب تک وسیلہ ایسا اختیار نہ کیا جائے جو مقصد کی روح سے ہم آہنگی اور مناسبت نہ رکھتا ہو۔ حضرت فضیل ابن عیاض نے قرآن کی آیت ’’لیبلوکم ایکم احسن عملاً‘‘ (تاکہ تمھیں آزمائے کہ کس کا عمل سب سے اچھا ہے) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد ’’اخلص‘‘ اور ’’اصوب‘‘ عمل ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ اخلص اور اصوب کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا:
’’عمل اگر خالص ہو مگر وہ درست نہ ہو تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اگردرست ہو مگر خالص نہ ہو تو بھی قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ خالص اور درست نہ ہو۔ خالص کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے لیے ہو اور درست کے معنی یہ ہیں کہ وہ سنت کے موافق ہو۔‘‘ ‘‘(۲۷۸)
تجرد کے موضوع پر چوتھا باب تحریر کیا گیا ہے۔ اس باب میں’’ کشف المحجوب‘‘ کے حوالے سے سید علی ہجویری کی یہ بات اصل الاصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ :
’’طریقت کی اساس تجرد پر رکھی گئی ہے کیوں کہ نکاح بہرحال دو خرابیوں سے خالی نہیں ہے۔ ایک غیر اللہ کا دل میں خیال پیدا ہونا اور دوسرے جسم کا لذتِ نفس میں مشغول ہونا۔ ‘‘(۲۸۰)
اس باب میں صوفیا کے انتہائی حیران کن واقعات نقل کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے انھوں نے عورت کو تو فتنۂ عظیم قرار دیا ہی ہے ، مگر مصنف نے ایسے صوفیا کے واقعات کا بھی تذکرہ کیا ہے جنھوں نے اپنے جنسی اعضاتک کاٹ ڈالے، آنکھیں پھوڑ ڈالیں اور شہوت کا راستہ بند کرنے کے لیے ہر طریقہ آزما ڈالا۔ اس کے برعکس مصنف نے ان صوفیا کا حال بھی بیان کیا ہے جو سلوک کی منزل کے لیے حسنِ زن کو اللہ ہی کے حسن کا عکس قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ کا یہ واقعہ بڑا ’’چشم کشا‘‘ ہے:
’’شاہ ولی اللہ صاحب کے بہ قول ان کے والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ :ایک مرتبہ انتہائی قبضِ عظیم محسوس کر رہا تھاکہ واقعتا مجھ پر ایک تجلی وارد ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک حسین و جمیل عورت زیورات اور جاذبِ نظر لباس سے مزین ہے اور وہ آہستہ آہستہ میرے قریب آنے لگی ۔ اس کے قرب سے میرا شعلۂ شوق بھڑکنے لگا، بالآخر وہ مجھ سے بغل گیر ہو کر یک تن ہو گئی ۔ میرا وجود اس کی شکل میں متمثل ہو گیا اور تمام زیورات و لباس میں نے اپنے وجود پر موجود پائے۔ یہ دیکھ کر مجھے انتہائی انبساط و سرور حاصل ہوا اور وہ گھٹن جاتی رہی۔ شاہ ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ واقعہ مقامِ توحید کے حصول پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ ( ۳۱۱)
فقر اور توکل تصوف کی وہ اصطلاحات ہیں جو کم از کم نام کے اعتبار سے قرآنِ مجید میں مذکور ہیں۔ مگر اہلِ تصوف اس سے کیا مراد لیتے ہیں، یہ ایک دل چسپ انکشاف ہے۔ مصنف نے ان پر علیحدہ علیحدہ باب رقم کیے ہیں۔ فقر کے ضمن میں انھوں نے صوفیا کے تصور پر امام ابن تیمیہ کا جائزہ پیش کیا ہے اور امام موصوف کی ان احادیث کے متعلق تحقیق پیش کی ہے جن میں صوفیا نے غنا اور جائز مال کو ناپسند یدہ قرار دے کر خوش حال صحابہ کی تخفیف ثابت کی ہے۔ امام ابن تیمیہ نے ایسی تمام احادیث کو موضوع اور ضعیف قرار دیا ہے۔
صوفیا کے اکابرین میں سے شیخ ابوبکر شبلی توکل کے بارے میں کہتے ہیں:’’توکل عمدہ قسم کی گداگری ہے۔‘‘ (۳۴۷)
مشہور صوفی سہل بن عبداللہ تستری کا کہنا ہے: ’’توکل ترکِ تدبیر کا نام ہے!‘‘
ان بزرگ سے جب پوچھا گیا کہ کسبِ معاش تو سنت ہے، پھر یہ محمود کیسے ہو سکتا ہے تو ان کا جواب مولف نے یہ نقل کیا ہے:
’’جس نے کسبِ معاش پر طعن کیا اس نے سنت پر طعنہ زنی کی اور جس نے ترکِ کسب پر طعن کیا، اس نے توحید کو مطعون کیا۔ ‘‘ (۳۵۴)
اسی طرح صوفیا کے نزدیک زادِ راہ لے کر چلنا، بیماری کا علاج کرانا ،حتیٰ کہ جنت کی طلب بھی توکل کے خلاف ہے۔ اس ضمن میں صوفیا کے یہ ارشادات نقل کیے گئے ہیں:
’’رابعہ بصری کے بارے میں روایت ہے کہ ایک دفعہ انھیں سخت بخار آیا، لوگوں نے اس بارے میں مزاج پرسی کی تو فرمایا کہ میں خلوت میں مصروف تھی کہ میرے سامنے جنت پیش کی گئی۔ میرا دل اس کی طرف مائل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر عتاب کیا۔ شیخ ابوبکر شبلی نے ایک دفعہ کہا کہ اگر مجھے جنت اور جہنم کے درمیان انتخاب کا اختیار دیا گیا تو میں جہنم کو اختیار کروں گا کیوں کہ اس میں نفس کی مخالفت ہے۔ لیکن ان کے استاد شیخ جنید بغدادی نے جواب میں کہا کہ اگر مجھے جنت اور دوزخ کے درمیان انتخاب کا موقع دیا گیا تو میں کسی کا انتخاب نہیں کروں گا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر چھوڑ دوں گا۔ شیخ بایزید بسطامی جنت اور جہنم کے درمیان تمیز کرنے کو بھی توکل کے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘(۳۶۳ )
امام غزالی کے حوالے سے لکھا ہے:
’’اگر تیرا دل توکل میں محکم ہو اور تجھے خدا کے وعدے پر مکمل یقین ہو تو تیرے لیے بے زادِراہ ہی صحرانوردی درست ہے ورنہ عوام کی طرح تو بھی زادِ راہ ساتھ لے کر چل۔‘‘ (۳۵۹)
باب کے آخر میں مصنف نے صوفیا کے ان نظریات کو ’’بے عملی‘‘ قرار دیا ہے اور مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کا ایک سبب قرار دیا ہے۔ اپنے موقف کے حق میں انھوں نے سورۂ رعد اور سورۂ انفال کی یہ آیات پیش کی ہیں:
’’اور خدا تب تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک اس قوم کے لوگ اپنی حالت خود نہ بدلیں ۔‘‘
’’اور ایسا اس لیے ہے کہ خدا اس وقت تک کسی قوم کو دی ہوئی نعمتوں کو تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود بدل نہ جائیں۔ اس کے نااہل ثابت نہ ہوں، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘(۳۸۷ )
اسقاط الوسائط کے ضمن میں مصنف نے بعض غیر معروف اور کچھ بدنام صوفیا کے حوالے سے لکھا ہے کہ اپنے آپ پر شریعت کو منسوخ کر دینے کے قائل تھے، البتہ شاہ ولی اللہ کا اپنے والدِ بزرگوار کے حوالے سے نقل کیا گیا فرمان بہت حیران کن ہے۔ اقتباس کچھ یوں ہے:
’’اسقاطِ شریعت یا اسقاط الوسائط کو محتاط صوفیہ نے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے لیکن بہت سے ایسے محققین بھی اپنے آپ کو اس سے محفوظ نہ رکھ سکے جو شریعت کے رمز شناس کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی بیان کرتے ہیں کہ میرے والد پر یہ الہام کیا گیا کہ آپ سے تکالیفِ شرعیہ اٹھالی گئیں اور آپ کو اختیار ہے چاہیں تو آپ اعمال بجا لائیں چاہیں تو نہ لائیں۔ لیکن انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان پر شریعت نافذ رہنے دی جائے۔ اپنے چچا کے متعلق شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب کہتے ہیں کہ وہ سقوطِ تکلیف کے قائل تھے ۔ان پر یہ بھی الہام ہوا اور کہا گیا کہ اگر تم جہنم کے خوف سے عبادت کرتے ہو تو ہم نے تمہیں جہنم سے نجات دی ، اگر تم جنت کے طلب گار ہو تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس میں آپ کو داخل کریں گے ، اگر ہماری رضا کے طالب ہو تو ہم تم سے راضی ہیں۔‘‘ (۳۹۳)
مصنف نے ابن حزم، ابن جوزی، ابن تیمیہ اور ابن قیم کی تنقیدات کا بھی ذکر کیا ہے کہ انھوں نے رفعِ شریعت یا اسقاط الوسائط کے مسئلے پر صوفیا پر سخت گرفت کی ہے۔ اس باب میں صوفیا کے رویے پر خود مصنف نے یوں اظہارِ خیال کیا ہے:
اسقاط الوسائط یا بہ الفاظِ دیگر اباحیت کے اظہار کے لیے صوفیہ اور شعرا متصوفین نے دل چسپ پیرائے اختیار کیے، کبھی انہوں نے نماز و روزہ جیسی عبادات کا مذاق اڑایا تو کبھی کعبہ کو ’’پس ماندگانِ راہ‘‘ کی منزل قرار دیا۔ کہیں مسجد کے جلانے کی باتیں کہی گئیں، تو کہیں مصحف کے اوراق کو پھاڑنے کے ارادوں کا اظہار کیا گیا۔ بعض لوگوں نے قاضی کی داڑھی نوچنے کی دعوت دی تو بعض نے فقیہِ شہر کی قبر پر رباب بجانے کی قسم کھائی۔ جب ان قابلِ اعتراض باتوں پر اہلِ شرح کی طرف سے احتساب اورداروگیر کا خطرہ نظر آتا تو یہ دلیل دی جاتی:
از نفی و ز اثبات بروں صحرائے است
کیں طائفہ را درآں میاں سود ائیست
اے دوست چوں عاشقی در آنجا برسد
نہ نفی نہ اثبات نہ مورا جائیست
نفی و اثبات سے دور اس صحرائے بیکراں میں جب بال کی گنجائش نہیں تھی تو شریعت کہاں باریاب ہوتی؟ اس لیے اس کی نارسائی پر بھرپور طنز کیے گئے۔ برصغیر کی تاریخ میں سلسلہ قادریہ کے ایک صوفی ملا شاہ بدخشانی (م1069 ھ1658 ء) جو شاہ میاں میر لاہوری (م1045 ھ1635 ء)کے خلیفہ مجاز اور شہزادہ داراشکوہ(1070-1024 ھ؍1659-1615 ء)کے پیر طریقت بھی تھے، نے برملا اس کا اظہار یوں کیا:
پنجہ در پنجۂ خدا دارم
من چہ پروائی مصطفےٰؐ دارم
(میرا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں ہے مجھے مصطفےٰؐ کی کیا پرواہ ہے؟)
ملا شاہ بدخشانی نے جب یہ شعر کہا تو علماءِ کشمیر (ملا شاہ بدخشانی کشمیر میں کئی برس قیام کر چکے ہیں) نے کفر کا فتویٰ دیا اور شاہ جہاں سے درخواست کی کہ ملا شاہ پر شرعی حد جاری کی جائے۔ بادشاہ شاہ جہاں نے کشمیر کے صوبہ دار ظفر خان کو فرمان بھیجا۔ لیکن شہزادہ داراشکوہ نے ملا شاہ کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ میں عجلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ کسی دوسرے بزرگ مثلاً شاہ میاں میر لاہوری سے رائے لی جائے۔ جب شیخ میاں میر لاہوری سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ احوال کے زیر اثر ملا ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن سے احتراز لازم ہے۔ چنانچہ ملا کی جان بخشی ہوئی اور وہ بچ گئے۔‘‘(۴۱۰)
ادبِ تصوف میں شطحات کا ذکر نہ ہو تو داستانِ تصوف ادھوری رہتی ہے۔شطحات شطح کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ کلمات یا الفاظ ہیں جو صوفیا نے عالم سکر یا ذوق و مستی کی حالت میں کہے ہوتے ہیں۔ مثلاً منصور حلاج کا بدنامِ زمانہ کلمہ ’’انا الحق‘‘ وغیرہ ۔
اس باب میں مصنف نے دس صوفیا کے شطحات پر بحث کی ہے۔ سب سے عبرت انگیز شطح شیخ محی الدین ابن عربی سے منسوب ہے۔ مصنف نے ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’شیخ محی الدین ابن عربی کا مرقعِ فکر ایسے اقوال و افکار سے رنگین ہے جو شطحات کے ذیل میں آتے ہیں۔ کہتے ہیں: انا اصغر ربی بسنتین (میں اپنے رب سے دو سال چھوٹا ہوں) ۔‘‘(۴۲۹ )
مصنف نے متذکرہ صوفیا میں سے شیخ بایزید بسطامی کے متعلق لکھا ہے کہ انھوں نے توبہ کر لی تھی۔(۴۴۷)
صوفیا کے عقیدے رجال الغیب سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا ایک گروہ ہمیشہ موجود رہتا ہے جو نظامِ عالم کا کاروبار سنبھالے ہوئے ہے۔ زندگی ان کے توسط سے رواں دواں ہے۔ اس باب پر صوفیا کی آرا نقل کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ بطور عقیدہ تمام اہل تصوف اس پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اس کی وضاحت میں بہت ابہام ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان رجال الغیب میں کئی درجات ہیں اور یہ لوگ زمان و مکان کی قیدسے آزاد ہیں۔ ہوا میں اڑتے ہوئے مافوق الفطرت امور آسانی سے انجام دیتے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ بغداد کے اوپر سے ایک مرتبہ تین ابدال پرواز کر رہے تھے ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کی خانقاہ تک پہنچ کر دو ابدال شیخ جیلانی (جو غوث کے منصب پر فائز تھے) کا پاسِ ادب ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے خانقاہ سے ہٹ کر گزرے مگر تیسرے ابدال نے دل میں یہ خیال کرکے کہ بغداد میں کوئی مردِ خدا نہیں ہے، خانقاہ کے اوپر سے پرواز کی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اس کے خطرۂ باطنی پر مطلع ہوئے اور آپ نے اس کی اس جسارت پر اس کی قوتِ پرواز سلب کی۔ یہ دیکھ کر مردِ غیب ہواسے اتر کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے قصور کی معافی کا طلب گار ہوا۔ جب اس نے خلوصِ دل سے توبہ کی تو شیخ نے اس کے کمالات واپس کیے اور وہ پہلے کی طرح ہوا میں پرواز کرتا ہوا چلا گیا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے متعلق وثوق سے بیان کیا جاتا ہے کہ اقطاب، ابدال اور اوتاد کا تقرر و تنزل اور عزل و نصب شیخ کے دائرۂ اختیار میں تھا۔ ایک بار ایک چور حضرت شیخ کے مکان میں در آیا تو اس کی بصارت زائل ہو گئی، مکان سے کوئی چیز نہ لے جا سکا۔ اس دوران حضرت خضر علیہ السلام نے خدمتِ شیخ میں حاضر ہوکر عرض کی کہ حضور ایک ابدال کا انتقال ہوا ہے ، جس کے بارے میں آپ کا حکم ہو اسے ان کی جگہ مقرر کیا جائے۔ شیخ جیلانی نے فرمایا کہ ہمارے گھر میں ایک شخص شکستہ دل اور محرومی کے عالم میں ہے ۔ جا کر اسے لے آؤ ہم اسے ابدال کے منصب پر فائز کریں گے۔ حضرت خضر علیہ السلام چور کو گھر سے باہر شیخ کی خدمت میں لے آئے۔ آپ نے اس پر نظر کی تو اس کی بینائی لوٹ آئی۔ بینا بن جانے کے بعد آپ نے اسے پورے اعزاز کے ساتھ ابدال مقرر کر دیا۔ ایک مرتبہ ایک ابدال کا انتقال ہوا تو شیخ جیلانی نے قسطنطنیہ سے ایک کافر کو طلب کیا، اس کی مونچھیں ہلکی کرکے اس کا نام ’’محمد‘‘ رکھ دیا، اپنا عمامہ اس کے سر پر رکھ کر اسے ابدالوں کی جماعت میں شامل کیا۔‘‘(۴۶۴)
حدیث میں امام احمد بن حنبل نے رجال الغیب کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس ضمن میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں مصنف نے ملا علی قاری، علامہ ابنِ قیم اور ابنِ تیمیہ کی ان احادیث کے بارے میں تحقیق پیش کی ہے کہ ان کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ اس باب میں مصنف کا حاصلِ مطالعہ یہ ہے :
’’خلاصۂ بحث یہ ہے کہ اسلام میں رجال الغیب کے نظریہ کی کوئی اصلیت نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔ صحابہ سے کوئی اثر صحت کے ساتھ منقول نہیں ہے۔ تابعین اس معاملہ میں خاموش ہیں۔ یہ نظریہ ’’قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر‘‘ کے بعد کی پیداوار ہے۔ زمانہ کے ساتھ رجال الغیب کے اسماء و مناصب ، اماکن وساکن اور تعداد سے متعلق عجیب و غریب باتیں لوگوں میں پھیل گئی ہیں۔ بعض سادہ لوح صوفیہ ان سے ملاقات کرنے کے لیے برسوں جنگلوں اور ویرانوں کا سفر کرتے رہے، جب کسی اجنبی شخص نے ان سے ملاقات کی تو وہ یہ سمجھے کہ ہو نہ ہو یہ شخص رجال الغیب میں سے تھا۔ بعض صوفیہ نے کسی ویران مکان میں جنات کی آوازیں سنیں تو خیال کیا کہ اس مکان میں رجال الغب آتے جاتے ہیں ۔ بعض اوقات جنات کی قوت کو رجال الغیب کی کرامات بتایا ۔ چنانچہ جنات کی قوتوں اور صلاحیتوں کو بھی رجال الغیب سے منسوب کیا گیا۔ مثلاً یہ کہ انہیں قوتِ پرواز حاصل ہے، وہ پانی پر چلتے ہیں، وہ نظر نہیں آتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عقیدۂ اسلامی سے ان بے اصل چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی رجال الغیب کا نظریہ ایمانیات میں شامل ہے۔ ‘‘(صفحہ۴۸۲)
’’صوفیا اور علم حدیث‘‘ کتاب کا موضوع کے اعتبار سے آخری باب ہے۔ مصنف نے انکشاف کیا ہے کہ اگرچہ بعض صوفیا نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے ،لیکن مفسرین نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیا قرآن کے الفاظ کا واضح مطلب لینے کے بجائے اپنے ذہن میں القا ہونے والے نکات سے آیات کی تشریح کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے سورۂ توبہ کی آیت۱۲۳ پیش کی ہے:
’’ یا ایھا الذین امنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدوافیکم غلظۃ۔ (التوبہ: ۱۲۳)
’’اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس رہتے ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہیے۔‘‘
صوفیہ کے نزدیک اس آیت سے مراد نفس ہے، ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ قریب کے کافروں سے قتال کریں، اور انسان سے قریب ترین چیز اس کا نفس ہے۔
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وادی طویٰ میں حکم دیا: فاخلع نعلیک(اپنے نعلین اتار دو)
صوفیہ کا کہنا ہے کہ عالمِ اجسام میں نعلین سے مراد نعلین ہی ہیں، مگر عالمِ ارواح میں دنیا و آخرت ہے۔ اور ان دونوں عالموں میں موازنہ و مناسبت موجود ہے جس سے صرف انبیا اور خواص اولیا واقف ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ظاہر میں نعلین اتارنے کا حکم دیا اسی طرح اس سے باطن میں ترکِ دنیا وآخرت کا مطالبہ بھی کیا۔‘‘(۴۸۴)
مصنف نے اس باب میں مشہور صوفیا کے وہ اقوال بھی نقل کیے ہیں جن میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے بیان کردہ احوال و مقامات اور صوفیانہ اشارات کی اساس قرآن و سنت میں ہے۔ مصنف نے ان اقوال کی تحسین کرنے کے بعد حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے اقوال بھی تصوف کی کتابوں میں بکثرت ملتے ہیں جن میں علم بے زاری اور معارف دشمنی کا پہلو نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی ، ابن حبان جیسے محدثین کی آرا بھی نقل کی ہیں جن میں برملا یہ کہا گیا ہے صوفیا کا زہد و تکشف اپنی جگہ، لیکن علم حدیث میں وہ ساقط الاعتبار ہیں۔ چند اقتباس ملاحظہ ہوں:
’’مشہور محدث یحییٰ ابن سعید اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’تم حدیث کے معاملہ میں اہل خیر (زہاد) کو سب سے زیادہ جھوٹا پاؤ گے۔‘‘ اور امام مسلم کی رائے ہے کہ ان کی زبانوں پر جھوٹ بلا ارادہ سرزد ہو جاتا ہے ۔ ابتدائی دور کے نامور زہاد کو بھی حدیث میں ناقابلِ اعتماد کہا گیاہے ۔ حضرت حسن بصری کو روایتِ حدیث میں ذہبی نے ’’کثیرالتدلیس‘‘ کہا ہے۔ حضرت علی کے شاگرد حضرت کمیل ابن زیاد جو بعض صوفیہ کے نزدیک علمِ باطن اور خرقہ ولایت کی اہم کڑی ہیں، کو محدثین نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔ حضرت حسن بصری کے شاگرد فرقد سبخی کے متعلق محدث ایوب (۶۶۔۱۳۱ھ/ ۶۸۵۔۷۴۸ ء) نے صاف صاف کہا ہے کہ فرقد صاحبِ حدیث نہیں ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ان کی احادیث منکرروایات ہیں۔ امام نسائی (۲۱۵۔۳۰۳ ھ/۸۳۰۔۹۱۵ ء) کے نزدیک وہ ضعیف ہیں۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ ان میں غفلت اور حافظہ کی کمزوری تھی۔ حضرت حسن بصری کے دوسرے اور سب سے بڑے شاگرد عبدالواحد بن زید کو امام بخاری نے متروک الحدیث کہا ہے۔ امام نسائی کی بھی ان کے بارے میں یہی رائے ہے۔ امام جلال الدین سیوطی بھی اسی رائے کے قائل ہیں۔ ابن حبان کہتے ہیں: ’’وہ ان لوگوں میں سے تھے جن پر عبادت غالب آگئی ، یہاں تک کہ وہ روایات میں احتیاط سے غافل ہو گئے جس سے ان کی احادیث میں منکر روایات کی کثرت ہو گئی اور حجت کے لائق نہ رہے۔‘‘ (۴۹۵)
’’صوفیہ کی کتابوں میں جو احادیث ملتی ہیں ، ان پر محدثین نے سخت تنقید کی ۔ امام غزالی پر محدثین نے ایک الزام یہ بھی لگایا ہے کہ انہوں نے اپنی تصنیفات میں موضوع احادیث کو نقل کیا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب احیاء العلوم تصوف پرلکھی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنی۔ علامہ ابن جوزی نے احیاء پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اور ابو حامد غزالی آئے تو صوفیہ کے طریقہ پر کتاب الاحیاء لکھی اور اسے باطل احادیث سے بھر دیا۔‘‘
امام ابن تیمیہ نے بھی موضوع اور احادیث کو احیاء کے نقائص میں شمار کیا ہے۔ علامہ سبکی نے غزالی کی بے سند احادیث پر ایک مستقل باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے:
’’یہ وہ فصل ہے جس میں احیاء کی وہ تمام احادیث جمع کی ہیں، جن کی سند مجھے نہیں ملی۔‘‘
یہ باب ایک سو دو صفحات پر محیط ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق احیاء علوم الدین میں چھ سو ضعیف اور موضوع احادیث ہیں۔ امام مازری (م۵۳۶ھ؍۱۱۴۱ء) نے بھی احیاء علوم الدین کی ضعیف اور موضوع احادیث پر اعتراض کیا ہے۔‘‘(۴۹۹)
’’احیاء العلوم کی عمارت جن بنیادوں پر تعمیر کی گئی ہے ان میں سب سے اہم تصنیف ابو طالب مکی کی کتاب ’’قوت القلوب‘‘ ہے۔ اس کے متعلق بھی محدثین کا فیصلہ وہی ہے جو احیا کے بارے میں ہے۔ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ محمد بن علی بن عطیہ،ابو طالب المعروف بہ المکی نے صوفیہ کے طریقہ پر قوت القلوب کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ناپسند اور مستشنع چیزوں کا ذکر کیا۔ علامہ ابن جوزی نے اس پر تنقید کی اور ان تمام روایات کو جو مختلف ایام و شہور کی نمازوں کے متعلق اس میں موجود ہیں، موضوع قرار دیا۔‘‘ (۵۰۲ )
کچھ ایسے ہی تبصرے محدثین نے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘، شیخ ابو نعیم اصفہانی کی ضخیم کتاب ’’حلیۃ الاولیا‘‘ شیخ محمد بن طاہر المقدسی کی کتاب ’’صفوۃ التصوف‘‘، شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ’’اللمع‘‘ علی بن یوسف الشطنوفی کی معروف کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘ اور تصوف کی دیگر امہات کتب پر کیے ہیں۔ (۵۰۵)
اسی باب میں مصنف نے’’ صوفیہ اور وضع حدیث‘‘ کے ذیلی عنوان سے احادیث وضع کرنے میں صوفیوں کے ’’کارہائے نمایاں ‘‘پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے۔
یوں تصوف کے فلسفے سے لے کر اذکار و اشغال تک ، ہر پہلو پر سیر حاصل مطالعہ کرنے کے بعد قاری کتاب کے سب سے آخری باب ’’ہنرش نیزبگو‘‘ پر پہنچتا ہے تو پہلے ہی پیرے کو پڑھ کر بحرِ حیرت میں غوطے کھانے لگتا ہے اور پھر جوں جوں وہ اس باب کے صفحے الٹتا جاتا ہے، اسے یوں لگتا ہے کہ تصوف کی ہر چیز کو باطل اور غیر اسلامی قرار دینے کے بعد مصنف ایک طرح کے ’’احساسِ جرم‘‘ میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اس فکر میں ہیں کہ صوفیا کی بھرپور طریقے سے ’’تالیف قلب‘‘ کی جائے ۔ چنانچہ انھوں نے صوفیا کے عالمِ اسلام پر بعض احسان بیان کیے ہیں ، لیکن اس معاملے میں بھی ان کی ذہانت کو داد دینا پڑتی ہے کہ انھوں نے صوفیا کے محاسن بیان کیے ہیں نہ کہ تصوف کے ! اور وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب بھی رہے ہیں کہ وہ تصوف کے ہرگزدشمن نہیں ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ یہ باب انھوں نے ’’حالتِ سہو‘‘ میں لکھا ہے ۔ اس لیے انھیں بالکل یاد نہیں رہا کہ جن چیزوں اور رویوں کو وہ خلافِ اسلام ثابت کر چکے ہیں ، اب انھی کے محاسن بیان کرنے کی تکلیفِ مالا یطاق میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں انھیں اپنی اس حالتِ سہو کا اندازہ ہو جائے گا اور بایزید بسطامی کی طرح وہ بھی اپنی رائے سے رجوع فرما لیں گے۔
یہ کتاب اس لحاظ سے شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا ہے کہ اس میں جس شخصیت کا بھی ذکر آیا ہے اس کے مختصر حالاتِ زندگی مع سنین دیے گئے ہیں ۔ ان معلومات نے کتاب کو معروضی معلومات کا بھی خزانہ بنا دیا ہے ۔ اگرچہ یہ پہلو کتاب کی ایک ضمنی خوبی ہے لیکن اس کی اہمیت بہرحال اپنی جگہ مسلم ہے ۔
بحیثیتِ مجموعی یہ کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے بہت کامیاب اور قابلِ مطالعہ ہے۔ اس کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ شاید ہی کسی صوفی کو اس کے مندرجات سے انکار ہو اور یقیناًوہ بھی اس کتاب کی اس خوبی کو تسلیم کریں گے کہ مصنف کے کسی بھی جملے یا لفظ سے ہرگز یہ نہیں لگتا کہ وہ تصوف کے خلاف کوئی کد یا تعصب رکھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس کتاب کو بلا خوفِ تردید تصوف کا بے لاگ اور غیر متعصبانہ مطالعہ قرار دے سکتے ہیں۔
____________