HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

نومولود اور شیطان

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۶۹۔۷۲)


عن إبی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : ما من بنی آدم مولود إلا یمسہ الشیطان حین یولد ۔ فیستھل صارخا من الشیطان ، غیر مریم و ابنھا (علیھما الصلٰوۃ و السلام)۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدم کی اولاد میں کوئی جنم لینے والا ایسا نہیں ہے جسے شیطان اس کی پیدایش کے موقع پر تنگ نہ کرے ۔ چنانچہ وہ شیطان کے چھونے سے چیخ چیخ کر رونے لگتا ہے ، سوائے مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے کے ۔‘‘
لغوی مباحث

مس: یہ لفظ چھونے کے معنی میں آتا ہے ۔ شیطان کے ساتھ نسبت میں اس میں شیطان کی ایذا رسانی کے معنی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

یستہل: بچے کا پیدایش کے موقع پر رونا۔

صارخا: بلند آواز سے چیخنا ۔ یہ حال ہونے کی سبب سے منصوب ہے ۔

متون

صاحبِ مشکوٰۃ نے یہ روایت حضرت مسیح اور حضرت مریم علیہما الصلوۃ و السلام کے استثنا پر ختم کر دی ہے ۔ بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اس استثنا پر قرآنِ مجید کی آیت : ’وانی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطان الرجیم‘، (میں اسے اور اس کی ذریت کو(اے اللہ،) آپ کی پناہ میں دیتی ہوں)(آلِ عمران ۳ :۳۶) سے استشہاد بھی روایت ہوا ہے ۔ایک روایت کے مطابق حضرت ابو ہریرہ نے یہ آیت ’واقرء وا ان شئتم‘ (اگر چاہو تو پڑھو )کے الفاظ بول کر پڑھی ہے ۔باقی فرق محض لفظی ہیں ۔ مثلاًصحیح مسلم کی ایک روایت میں ’مس‘ اور ’ یمس‘ کی جگہ پر اس کے ہم معنی الفاظ’ نخس‘ اور ’نخسۃ‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں ۔بعض روایات میں ’مس‘ کی ایک دوسری صورت’ مسۃ‘ استعمال ہوئی ہے۔ یہ روایت بخاری ، مسلم اور مسندِ احمد میں روایت ہوئی ہے ۔ اور اس کے ہر متن میں مذکورہ آیت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صاحبِ مشکوٰۃ نے اس حصے کو نقل نہیں کیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ استشہاد کچھ زیادہ قوی نہیں ہے ۔

اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے صاحبِ ’’فتح الباری‘‘ نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں شیطان کا طریقِ کار بیان ہوا ہے ۔ یہ روایت بخاری میں ہے ۔روایت کے الفاظ ہیں :

عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم : کل بنی آدم یطعن الشیطان فی جنبیہ باصبعہ حین یولد غیر عیسی بن مریم ذھب یطعن فطعن فی الحجاب۔ (کتاب بدء الخلق ، باب ۱۰)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمام بنی آدم کوجب وہ پیدا ہوتے ہیں ، شیطان ان کے پہلو میں اپنی انگلی سے کچوکا دیتا ہے ۔ سوائے عیسیٰ بن مریم کے۔ وہ انھیں بھی کچوکا دینے گیا ، مگر کچوکا ایک پردے میں دیا ۔‘‘
معنی

یہ روایت اپنے مفہوم کے اعتبار سے ایک خبر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیدایش کے موقع پر بچے کے رونے کا سبب کیا ہے ۔ اس خبر کے درست یا غلط ہونے کا مدار روایت کی صحت پر ہے ۔ بخاری ومسلم کے اس روایت کو منتخب کرلینے کی وجہ سے یہ ایک وقیع روایت ہے ۔ لہٰذا اس میں جو خبر دی گئی ہے اسے درست ہی قرار دیا جائے گا ۔قرآنِ مجید میں نفیاً ، اثباتاً، یا اشارۃً بھی اس ضمن میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ اس روایت کے فہم یا مدعا کو متعین کرنے میں ہمیں قرآنِ مجید سے کوئی مدد نہیں ملتی ۔

بچے کے رونے کاظاہری سبب طبی ہے ۔ اطبا کے مطابق بچے کے سانس کے عمل کا آغاز پھیپھڑوں کے کھلنے سے ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچہ بلند آواز سے چیخے ۔ جب بچہ چیختا ہے تو اس کے پھیپھڑے کھل جاتے ہیں اور تنفس کا عمل ہموار طریقے سے جاری ہو جاتا ہے ۔اطبا کی اس بات اور حدیث کے مفہوم میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔انسان کے لیے جو چیز طبی لحاظ سے ناگزیر ہے ، اس کو مہیا کرنے کے مرئی یا غیر مرئی اسباب کچھ بھی ہو سکتے ہیں ۔

اصل میں اس حدیث سے جس بات کا ابلاغ مقصود ہے ، وہ شیطان کا عمل دخل ہے ۔ اس روایت میں بتا دیا گیا ہے کہ انسان کے اس دنیا میں آتے ہی اس کا سابقہ شیاطین سے پڑ جاتا ہے ۔ اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شیطان کی انسان سے دشمنی کی شدت کیا ہے ۔ ایک بچہ جو ابھی دنیا میں داخل ہوا ہے ۔ جس کا ابھی اس خیر و شر کی کشمکش سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، شیطان اسے بھی نظر انداز نہیں کرتا اور اپنی دشمنی کا اظہار اسے جسمانی تکلیف دے کر کرتا ہے ۔

قرآنِ مجید میں شیطان کی انسان سے دشمنی اور اسے گمراہ کرنے کا عزم پوری وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ یہ روایت اس دشمنی کے نقطۂ آغاز کا پتا دیتی ہے ۔

اس روایت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام کا استثنا بھی بیان ہوا ہے ۔ یہ استثنا کس وجہ سے ہے ؟یہ نہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے اور نہ اس روایت کے کسی اور متن میں اس کی وضاحت بیان ہوئی ہے ۔ لہٰذا یہ بات بھی ایک خبر ہی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس مجمل خبر کو جان لینے کے سوا ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔کیونکہ اس کے بارے میں مزید کوئی بات کہنے اور جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جس آیت سے اس استثنا کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے وہ بڑی حد تک قابلِ لحاظ ہے ۔ لیکن آیت کا اصل مدعا اس خبر کی تصویب نہیں ہے ۔ قرآنِ مجید میں حضرت مریم کی یہ دعا جس محل میں بیان ہوئی ہے ، اس سے واضح ہے کہ ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور ان کی بچی اور نواسے کو شیطان کی دراندازیوں سے محفوظ کر دیا گیا ، لیکن یہ بات واضح رہے کہ انھوں نے یہ دعا حضرت مریم علیہا السلام کی پیدایش کے بعد کی تھی ۔ لہٰذا حضرت مریم کی پیدایش کے موقع کو اس آیت کی وجہ سے مستثنیٰ سمجھنا درست معلوم نہیں ہوتا ۔لہٰذا اس روایت کا وہ متن زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے جس میں صرف عیسٰی بن مریم علیہ السلام کا استثنا بیان ہوا ہے ۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پہلے دن ہی سے محفوظ ہونا اس لیے بھی درست ہے کہ انھیں گود ہی میں کلام کرنے کی اہلیت دی گئی تھی اور انھوں نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کر دیا تھا ۔ قرآنِ مجید میں یہ بات پوری وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ جب کسی شخص پر وحی نازل کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو زمین آسمان میں اس حق کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کر دیا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے ، حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے یہ اہتمام بچپن ہی سے ہونا چاہیے ۔اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام کو چونکہ ایک ایسے پیغمبر کی ماں بننا تھا ، جو بن باپ کے پیدا ہو لہٰذا ان کی خصوصی حفاظت بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔

کتابیات

بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء ، باب ۴۲۔کتاب تفسیر القرآن ، باب ۵۹۔مسلم، کتاب فضائل القرآن ، باب ۴۰۔ مسند احمد، مسندِ ابی ہریرہ۔

_______

 

بچے کا رونا اور شیطان

عن أبی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : صیاح المولود حین یقع نزغۃ من الشیطان۔
’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بچے کے چیخنے کاباعث ،جب بچا چیختا ہے ،شیطان کا کچوکا ہے ۔ ‘‘
لغوی مباحث

نزغۃ :کچوکا ، انگلی یا کسی نوکیلی چیز کو چبونا۔

متون

اس روایت کا یہی متن روایت ہوا ہے ۔ اصل میں یہ پہلی روایت کے مضمون ہی کا مختصر بیان ہے ۔

معنی

اس روایت کے متعدد پہلو ہم اوپر کی روایت کی شرح میں واضح کر چکے ہیں ۔ یہاں صرف ایک پہلو کی توضیح پیشِ نظر ہے ۔ ان روایات کے مطالعے سے یہ تاثر ہو سکتا ہے کہ انسان پیدا ہوتے ہی شیطان کے تسلط میں آجاتا ہے ۔ اس روایت کا مدعا یہ نہیں ہے ۔ شیطان کی صلاحیت صرف وسوسہ اندازی تک محدود ہے ۔ انسان اپنے ارادے سے اس وسوسے کو قبول کرتا اور شیطانی راستوں پر چل نکلتا ہے ۔

کتابیات

مسلم ، کتاب الفضائل ،باب ۶۵۔ تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیے ، ’’کتابیات‘‘، حدیثِ سابق۔

_______

 

شیطان کے کارندے

عن جابر رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إن إبلیس یضع عرشہ علی الماء ۔ ثم یبعث سرایاہ یفتنون الناس فأدناھم منہ منزلۃ أعظمھم فتنۃ ۔ یجئ أحدھم فیقول : فعلت کذا و کذا ۔ فیقول : ما صنعت شیئا ۔ قال : ثم یجئ أحدھم فیقول : ما ترکتہ حتی فرقت بینہ و بین إمرأتہ ۔ قال : فیدنیہ منہ ۔ فیقول : نعم أنت ۔ قال الأعمش : أراہ ۔ قال : فیلتزمہ ۔
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے ۔ پھر وہ مہمات بھیجتا ہے جو لوگوں کو فتنوں میں ڈالتی ہیں۔ جو ان میں سب سے بڑا فتنہ پرداز ہوتا ہے وہ مرتبے میں اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ ان میں سے ایک آتا ہے ، پھر وہ بیان کرتا ہے : میں نے یوں اور یوں کیا ۔ پھر وہ کہتا ہے : تم تو کچھ بھی نہیں کر سکے ،پھر ایک اور آتا ہے ، آکر کہتا ہے : میں نے اسے نہیں چھوڑا ،یہاں تک کہ اس کے اور اس کی گھر والی کے مابین تفریق کرا دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ شیطان اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے تم کیا خوب ہو ۔ اعمش کہتے کہ میرے خیال میں آپ نے فرمایا تھا : پھر وہ اسے لپٹا لیتا ہے ۔ ‘‘
لغوی مباحث

عرش: صاحبِ اقتدار کی نشست۔

یفتنون : آزمایش میں ڈالتے ہیں۔

فرقت : تفریق کرا دیتے ہیں ۔

نعم أنت : تم کیا خوب ہو ۔

یلتزم : لپٹنا ۔ چمٹ جانا۔

متون

اس روایت کا تفصیلی متن یہی ہے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔ باقی کتابوں میں فتنوں کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ۔ صرف یہ خبر دی گئی ہے کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے اور اس کے ہاں بڑے مراتب اسے حاصل ہوتے ہیں جو انسانوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ سامان ہوتا ہے ۔

معنی

یہ روایت بھی ان اخبار میں سے ہے جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا گیا اور آپ نے اپنی امت کو باخبر کیا ۔ اس روایت میں پہلی بات یہ واضح کی گئی ہے کہ شیطان اپنی فتنہ سامانیوں میں اکیلا نہیں ہے ۔ اس کا کارخانہ خود اس پر اور اس کے بہت سے کارندوں پر مشتمل ہے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شیطان کے یہ کارندے ہر ہر طرح کی برائیوں کی ترویج کی کوشش کرتے ہیں اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے بار بار وسوسہ اندازی کرتے ہیں ۔تیسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ مرغوب زوجین میں مناقشہ پیدا کرنا ہے ۔ انسانی سماج کی خیر و فلاح کا انحصار گھر کے سکون پر ہے ۔ اگر یہ سکون غارت ہو تو اس کے نتیجے میں صرف دو مرد وعورت ہی متاثر نہیں ہوتے ، بلکہ ان کے بچے اور ان کے خاندان بھی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سب سے برا نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل کی صحیح خطوط پر تربیت شدید طور پر متاثر ہوتی ہے ۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ میاں بیوی کی مثال ایک نمایاں مثال کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہے ۔ شیطان کا ہدف تمام انسانی تعلقات ہیں ۔ وہ ہر ہر رشتے کو توڑنا چاہتا ہے ۔ چنانچہ وہ بہنوں اور بھائیوں ، والدین اور اولاد اور دوست اور دوست کے مابین بھی منافرت کے بیج بوتا رہتا ہے ۔

اس سے ایک اور نکتہ بھی واضح ہوتا ہے ۔ ان روابط کی درستی انسانی اخلاق کی درستی کی مرہون ہے ۔ چنانچہ حقیقت میں اس کا اصل ہدف اخلاق کی بربادی ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس لیے بیان کر دی ہے کہ ہر انسان اخلاق کے معاملے میں شیطان کی دراندازیوں پر متنبہ رہے ۔

کتابیات

مسلم ، کتاب صفۃ القیامہ و الجنہ والنار ، باب ۱۷۔مسند احمد، مسند جابر بن عبداللہ ۔

_______

 

اہلِ عرب اور شیطان

عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : إن الشیطان قد أیس من أن یعبدہ المصلون فی جزیرۃ العرب و لکن فی التحریش بینھم۔
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان جزیرۂ عرب کے ان نمازیوں سے اپنی عبادت سے مایوس ہو چکا ہے۔لیکن باہمی مناقشات میں وہ پر امید ہے۔‘‘
لغوی مباحث

المصلون : یہ نمازی ۔ یہ الف لام عہد کا ہے ۔

التحریش : باہمی تفریق و دشمنی۔

متون

روایت کے متون زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ ایک روایت میں ’فی التحریش‘ کے بعد ’بینھم ‘کا اضافہ روایت ہوا ہے ۔مسلم کی ایک روایت کے سوا کسی روایت میں ’المصلون‘ کے ساتھ ’جزیرۃ العرب ‘کی تخصیص بیان نہیں ہوئی ۔امام احمد نے اپنی کتاب میں یہ جملہ حج کے موقع پر آپ کے خطاب کے ایک جزکے طور پر بھی روایت کیا ہے ۔

معنی

یہ روایت صحابہء کرام رضوان اللہ عنہم کے حوالے سے ایک عظیم الشان بشارت کو بیان کرتی ہے ۔ یہاں شیطان کی عبادت سے شرک مراد ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا تصور جس طرح راسخ کر دیا تھا اور صحابہء کرام جس طرح اس پر جازم ہو گئے تھے ، یہ خوش خبری اسی کامیابی کا نتیجہ ہے ۔

اس روایت سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ قیامت تک کے اہلِ عرب کو کوئی خصوصیت حاصل ہو گئی ہے ۔ روایت میں ’ المصلون ‘ کا لفظ معرف باللام آیا ہے اور یہ لام عہد کا ہے ۔چنانچہ اس روایت میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست تربیت کردہ صحابہ ہی کو ’المصلون‘ قرار دیا گیا ہے ۔

اس روایت میں ایک اندیشے کو بھی ظاہر کیا گیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ عقائد کے معاملے میں شیطان کا بس تم پر نہیں چلے گا ۔ لیکن تمھارے اندر پھوٹ ڈالنے کے معاملے میں اسے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بات کو بیان کرنے سے آپ کا مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ شرک و توحید کے معاملے میں تمھارے اندر ضروری حساسیت پیدا ہوگئی ۔ چنانچہ شیطان کی وسوسہ اندازی اس میں مؤثر نہیں ہو گی ۔ لیکن تفریق و انتشار کے معاملے میں تم اس کے فریب میں آ سکتے ہو ۔ تمھیں اس معاملے میں بھی پوری طرح چوکنا رہنا چاہیے۔

کتابیات

مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار ، باب ۱۷۔ ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ۲۵۔مسند احمد، مسند انس بن مالک۔

____________

B