قارئینِ ’’اشراق‘‘ کے خطوط و سوالات پر مبنی جوابات کا سلسلہ
سوال :شئیرز کا کاروبار جائز ہے یا نہیں ؟ ان میں نفع اور نقصان دونوں ہیں۔ (ڈاکٹراکبر میمن، حیدر آباد)
جواب : شئیرز کا کاروبار اپنی سادہ صورت میں بالکل جائز ہے ،لیکن ہمارے ہاں اس کی بعض ایسی صورتیں ہیں جو جوئے سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ ان سے بچتے ہوئے اگر یہ کاروبار کیا جائے تو اس میں حرج نہیں۔ (طالب محسن)
_______
سوال : کوئی آدمی مجھ سے قرض لے اور اسے شئیرز کا کاروبار کرے تو اس کا وبال میرے اوپر ہو گا؟ (ڈاکٹر اکبر میمن ، حیدر آباد )
جواب : کوئی آدمی قرض لے کر کہاں خرچ کرے گا ،اس کا تعلق قرض دینے والے سے اصلاً نہیں ہے ۔ البتہ اگر یہ معلوم ہو کہ قرضہ لینے والا کسی غلط کام کے لیے قرض لے رہا ہے تو پھر معذرت کر لینی چاہیے ۔ شیرز کا کاروبار کرنے کے معاملے میں آپ اگر اپنے قرض دار کو درست کاروباری مانتے ہیں تو آپ پر کوئی وبال نہیں۔ چھوٹی موٹی غلطی اگر اس سے ہوتی ہے تو اسی کے کھاتے میں ڈالی جائے گی۔ (طالب محسن)
_______
سوال : صبر کی حد کیا ہے ؟ (ایم ناصر امین ، بہاول پور)
جواب : صبر اصل میں زندگی بھر کا عمل ہے ۔ اصلاً آدمی کو صبر کے رویے پر قائم رہنا چاہیے ، لیکن اگر کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو معافی اور درگزر کی امید ہے ۔ (طالب محسن)
_______
سوال : ختم نبوت کی بابت دو توجیہات کی جاتی ہیں :
۱۔ ایک یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک خدائی دین کی عمارت تعمیر ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر بالکل مکمل ہو گئی ۔ اس کے بعد ہدایت ، دین اور علمِ حق میں سے کوئی چیز ایسی باقی نہ رہی جسے ظاہر کرنے کے لیے کسی اور نبی یا رسول کے آنے کی حاجت ہو ۔
۲۔ دوسری یہ کہ ابتدا میں انبیا انسانوں کی صرف دینی معاملات ہی میں رہنمائی نہیں کیا کرتے تھے ، بلکہ طبعی علوم و فنون اور صنعت و حرفت میں بھی انسانوں کو علم دیا کرتے تھے ۔ پھر جوں جوں انسان ان علوم و فنون میں خود کفیل ہوتا چلا گیا ، ان دنیوی علوم کی تعلیم انبیا کے منشور سے خارج ہوتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ نبوت بتدریج صرف عبادات ، عقائد اور سماجی احکام تک محدود ہو گئی ۔ اس کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ پر نبوت ختم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اب ارتقا کی اس منزل کو پہنچ چکا ہے کہ سوائے عقائد و عبادات کے ، باقی تمام معاملاتِ زندگی وہ خود طے کر سکے۔ اب انسان اپنے لیے سماجی ، تمدنی ، معاشی اور سیاسی نظام بھی اسی طرح مرتب کر سکتا ہے جس طرح وہ طب ، زراعت ، صنعت سازی اور دیگر نئی علوم کو چلاتا رہا ۔ انسان کے پاس اب ایک نظامِ زندگی مرتب کرنے کے لیے ایک طرف تو آسمانی صحائف کی تعلیمات ہیں اور دوسری طرف اس کے پاس صدیوں کے تجربات ہیں جبکہ تیسری طرف سائنسی ترقی انسان کے علم و وسائل میں معتدبہ اضافہ کر چکی ہے ۔ لہٰذا اب معاشی ، سماجی اور سیاسی امور میں بھی ، طبعی اور فنی امور کی طرح ، انسان کی رہنمائی کے لیے نبوت کی حاجت نہیں رہی ۔
خلافت فی الارض کا منشا بھی دراصل یہ ہے کہ انسان اپنے معاملات اور اس دنیا کا انتظام اور انصرام بتدریج خود سنبھالے۔ پس جب تک انسانیت اپنے بچپن اور نا پختگی کے دور میں رہی ، انبیا آ آ کر شفیق والدین کی طرح اسے انگلی پکڑ کر چلاتے رہے اور جب انسانیت پختگی اور شعور کی منزل کو پہنچ گئی تو انبیا کی آمد کا سلسلہ بند کر دیا گیا ۔
ان دونوں توجیہات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ اور کیا ان دونوں کے اشتراک سے ایک زیادہ متوازن اور معتدل مسلک وجود میں آ سکتا ہے ؟
۳۔ مولانا وحید الدین خاں اپنی کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’قرآن میں کہا گیا ہے کہ آج منکرین تمھارے دین کی طرف سے ناامید ہو گئے ۔ اس لیے تم ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو ۔ آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا ۔ (المائدہ : ۳) اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام سے پہلے جو دین آئے وہ ناقص دین تھے اور اسلام مکمل دین ہے ۔ خدا نے اپنے بندوں کے پاس کبھی کوئی ناقص دین نہیں بھیجا ۔ اسلام کے کامل ہونے کا تعلق اس کی حفاظت سے ہے نہ کہ فہرستِ کلام سے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب دین کو اپنی صحیح شکل میں اتارنے کے ساتھ مزید تکمیلی اہتمام کیا گیا ہے کہ اس کی پشت پر قوت بھی جمع کر دی گئی ہے تاکہ کوئی منکر یا غیر منکر اس کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچا سکے ۔ یہی بات دوسری جگہ ان لفظوں میں کہی گئی ہے : ’اور تیرے رب کا کلام پورا ہو گیا ۔ صداقت اور انصاف میں ۔ اب کوئی اس کلام کو بدلنے والا نہیں (الانعام : ۱۱۵) ‘‘ (ص ۶ )
مولانا کی اس بات کے بارے میں بھی آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں ؟ (عرفان محمود ، اٹک)
جواب :آپ نے ختمِ نبوت کے جواز کے حوالے سے کچھ آرا رقم کی ہیں اور ان کے متعلق میری رائے جاننا چاہی ہے ۔ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ مجھے مولانا وحید الدین کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ کوئی دین بھی ناقص دین نہیں تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی پر اپنی ہدایت بے کم و کاست نازل کی ہے ۔ چنانچہ وہ تمام مذاہب جن کی بنیاد وحیِ الہٰی ،یعنی آسمانی کتابوں پر ہے ، اپنی تعلیمات میں بالکل یکساں ہیں ۔ فرق صرف بعض مظاہر اور شرعیِ احکام میں ہے ۔ یہ فرق بھی زمانے کے معاشی اور سماجی حالات کی وجہ سے ہے ۔ اور اس فرق کی بنا پر اسلام میں بھی فتاویٰ تبدیل ہوتے رہے ہیں ۔ اس کا تکمیل و عدم تکمیل سے کوئی تعلق نہیں ۔ البتہ مجھے ان کی یہ بات درست نہیں لگتی کہ تکمیلِ دین کی آیت سے حفاظتِ دین مراد ہے ۔ میرے خیال میں یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے دین کی تکمیل کو بیان کر رہی ہے ۔ نہ اس کا حفاظت سے کوئی تعلق ہے اور نہ سابقہ ادیان کے مقابلے میں اس دین کے مکمل ہونے کو بیان کرنا متکلم کے پیشِ نظر ہے ۔
آپ کا بیان کردہ یہ نکتہ بھی محل نظر ہے کہ تمام انبیا دین کی تکمیل کے مراحل کا حصہ ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ ایک رہا ،البتہ شرعی احکام یا تعمیلی مظاہر کے بعض اجزا حسبِ ضرورت مختلف رہے ۔
البتہ آپ کے بیان کردہ دوسرے نکتے میں بعض چیزیں لائقِ تحسین ہیں ۔ مثلاً ختمِ نبوت کے لیے یہ دلیل کہ اب تمدن کا ارتقائی عمل ایک خاص جگہ پر پہنچ گیا ہے لہٰذا دین کی تعلیمات کی حفاظت کے لیے موزوں حالات پیدا ہو گئے ہیں ۔ اسی طرح عملی اور سماجی ضروریات میں بھی اب کسی بڑے تغیر کے آنے کا کوئی امکان نہیں لہٰذا اب نئی نبوت کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے نزدیک ، اصل وجہ صرف یہ ہے کہ اب ایک ہی پیغمبر کی تعلیمات ساری دنیا کے لیے اتمامِ حجت کا ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ (طالب محسن)
_______
سوال : کیا وکالت کا پیشہ اسلامی ہے اور اس کی کمائی بھی اسلامی ہے ؟ (ایم ناصر امین ،بہاول پور)
جواب : وکیل کا اصل کام عدالت کو صحیح بات تک پہنچنے میں مدد دینا اور اپنے مؤکل کی قانونی معاونت کرنا ہے۔ اس اعتبار سے اس پیشے میں کوئی قباحت نہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں وکلا بالعموم غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ یہ چیز ظاہر ہے کہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتی۔ اگر وکیل اپنا اصل کردار ادا کریں تو وہ خود بھی ایک کارِ خیر انجام دیں گے اور ان کی آمدنی بھی جائز ہو گی۔ (طالب محسن)
_______
سوال : حضرت علی کا قول ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو ۔ اس سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ؟ کیا کسی پر احسان نہ کیا جائے؟ (ایم ناصر امین ،بہاول پور)
جواب : میرا خیال ہے کہ حضرت علی احسان کے بعد دل میں پیدا ہونے والے عجب ، دوسرے سے احسان مندی کی توقع اور اپنی برتری کے خیال کی ضرر رسانیوں پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ چیزیں بطورِ خاص اس صورت میں اور نقصان دہ ہو جاتی ہیں جب دوسرا غلط رویہ اختیار کرتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب بہرحال نہیں ہے کہ دوسرے پر احسان نہ کیا جائے ۔ (طالب محسن)
_______
سوال : ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ دین کے نام پر رقم اکٹھی کرنے کا حق صرف حکمرانوں کو حاصل ہے ۔ اللہ کے رسول بھی حکمران بننے کے بعد ہی بیت المال قائم کرتے ہیں ۔ اور اس بیت المال سے غریبوں کی کفالت کرتے ہیں ۔ مگر آج کل علما امیر لوگوں سے مراعات حاصل کر کے اپنا معیارِ زندگی بڑھا لیتے ہیں اور اس مال کو غریبوں تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں ۔ جو علما چندہ مانگے بغیر دین کا کام کر رہے ہیں ان کا کام نبیوں کے طریقے پر ہے اور جو علما لوگوں سے چندہ لے کر دین کا کام کر رہے ہیں وہ دراصل کاروبار کر رہے ہیں؟
اس معاملے میں آپ کا موقف کیا ہے ؟
جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے یہ استہشاد درست نہیں ہے کہ آپ چندہ نہیں لیتے تھے ۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاروبار بند ہو جانے کے بعد آپ کے گھریلو اخراجات کی ذمہ داری بڑی حد تک ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اٹھائے رکھی ۔ مکے میں اپنے دعوتی کام کے لیے آپ نے دارارقم کی پیش کش قبول کی اور اسے استعمال کیا ۔ باقاعدہ بیت المال کا نہ ہونا محض اتفاقی امر ہے ۔ (طالب محسن)
_______
سوال : ایک شخص مقروض ہے ۔ اس کے گھر میں نصاب سے کچھ زیادہ وزن کا زیور موجود ہے جو عموماً عورتوں کے پاس ہوتا ہے اور اُن کے زیر استعمال رہتا ہے ۔ ملکیت کے اعتبار سے وہ زیور مخصوص نہیں ہے جیسا کہ گھروں میں عام رواج ہے ۔ اس زیور پر زکوٰۃ دینا ہو گی ؟(محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب : قرض لیے ہوئے مال کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ فنا ہو چکا ،یعنی خرچ ہو چکا ہے اور دوسری یہ کہ وہ کسی اثاثے کی شکل میں موجود ہے۔
پہلی صورت میں قرض کی رقم آپ اپنے مجموعی قابلِ زکوٰۃ اثاثوں سے منہا کرکے زکوٰۃ ادا کریں گے اور دوسری صورت میں آپ قرض سے بنے ہوئے اثاثے کے سوا قابلِ زکوٰۃ اثاثوں پر زکوٰۃ ادا کریں گے۔(محمد رفیع مفتی )
_______
سوال : اللہ نے انسان کو خود ہی پیدا فرمایا۔ وہ خود اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا ۔ دنیا کی تھوڑی سی زندگی کے امتحان کے بدلے (اگر وہ فیل ہو گیا) تو آیندہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلنا کیا انصاف کے خلاف نہیں ہے ؟ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اگر اتنی لا محدود سزا دینا تھی تو اس سے بہتر تھا کہ پیدا ہی نہ کیا ہوتا ۔ میں نے کب پیدا ہونے کا مطالبہ کیا تھا ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب : جرم کی سزا دراصل، اُس کی شناعت اور اُس کی سنگینی کی بنا پر ہوا کرتی ہے، نہ کہ مدتِ جرم کی بنا پر۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ مدتِ جرم بھی جرم کی سنگینی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے، لیکن جرم کی سنگینی کی واحد وجہ اُس کی مدت نہیں ہوتی ۔ بعض جرم چند لمحوں کے ہوتے ہیں ،لیکن وہ اپنے بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ مثلاً کسی کو قتل کرنے کا جرم۔ چنانچہ اصل مسئلہ جرم کی شناعت کا ہے۔اگر کوئی شخص اپنے شفیق اور مہربان والدین کو قتل کر دیتا ہے، تو آپ بتائیے کہ اُس کے جرم کی سنگینی کس درجے کی ہے۔
ایک دوسرے پہلو پر غور کریں۔ نیکی کے بدلے میں نیکی کی جائے تو یہ خوبی ہے، لیکن اگر وفاکے بدلے میں بے وفائی کی جائے، ایثار کے بدلے میں لُوٹ لیا جائے،خدمت کرنے کے بدلے میں بے گار لی جائے، محبت کرنے کے بدلے میں دشمنی کی جائے تو یہ سراسر ظلم ہو گا ، بہت بڑا ظلم۔
خدا انسان کا خالق بھی ہے اور رب بھی، اُس کا منعم بھی ہے اور محسن بھی۔ انسان محض اور محض خدا کے ترس پر کھڑا ہے، انسان کے ساتھ خدا کا رویہ انتہائی احسان کرنے والے کا ہے۔ اُس کے ساتھ انسان کا معاملہ برابر کانہیں ہے۔ انسان خدا کے بل بوتے پر قائم ہے اور ہر لحاظ سے اس کا محتاج ہے ۔ چنانچہ پھر انسان کی طرف سے اُس کے اتنے اچھے اور اُس کی زندگی میں اتنی اہمیت رکھنے والے خدا کے ساتھ، ایک لمحے کی سرکشی بھی اپنے اندر لا محدود سنگینی رکھتی ہے۔ اِس لیے کہ یہ مخلوق کی اپنے خالق کے ساتھ سر کشی ہے۔ یہ بندے کی اپنے رب کے ساتھ سر کشی ہے، یہ عبد کی اپنے معبود کے ساتھ سرکشی ہے۔ یہ انسان کی رحمن کے ساتھ سر کشی ہے۔ اِس جرم کی شناعت ماپی ہی نہیں جا سکتی۔ اور پھر مزید یہ کہ انسان جب فی الواقع مجرم بن کر جرم کرتا ہے تو اُس کی اپنی جانب سے جرم زماں و مکاں کی حدوں میں محدود نہیں ہوا کرتا۔ فرعون نے اپنے ارادے اور اپنی نیت کے اعتبار سے کسی محدود وقت تک کے لیے فرعونیت اختیار نہیں کی تھی اور اپنی طرف سے اُس نے اپنی فرعونیت کا دائرہ صرف ملکِ مصر تک محدود نہیں کیا تھا ۔ اُسے خدا نے جتنا موقع دیا تھا، اُس میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا اور جتنا علاقہ دیا، اُس سب میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا تھا۔ خدا اگر اُس کے لیے مواقع اور علاقے کو لامحدود کر دیتا تو کیا خیال ہے کہ ہم اُسے آج ایک مہربان بادشاہ کے طور پر دیکھ رہے ہوتے، نہیں بالکل نہیں۔
دین ہمیں بتاتا ہے کہ جہنم میں صرف اور صرف سرکش لوگ ہی ڈالے جائیں گئے اور یہ بات واضح رہے کہ خدا سے سرکشی اپنی اصل ہی میں زماں و مکاں سے بالا ایک لا محدود جرم ہوتا ہے۔
اب میں آپ کے سوال کے دوسرے پہلو کی طرف آتا ہوں کہ خود انسان نے تو خدا سے اِس آزمایش میں ڈالے جانے کی التجا نہیں کی تھی۔پھر اُسے اتنی بڑی آزمایش میں کیوں ڈالا گیا۔
اِس حوالے سے آپ سورۂ احزاب کی آیات ۷۲، ۷۳ دیکھیں۔ اُن میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اختیار و ارادہ کے ہوتے ہوئے اپنی اطاعت کے عہد کو ایک امانت کی حیثیت سے آسمانوں اور زمین پر پیش کیا ، لیکن وہ اِسے اٹھانے سے ڈر گئے۔یہ ڈر اِس بات کا تھا کہ کہیں ہم اِس امانت کی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام نہ ہو جائیں۔اِن آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین نے تو اِس امانت کو نہ اٹھایا ،لیکن انسان نے اِس امانت کو اٹھا لیا۔چنانچہ یہ کہنا درست نہیں کہ ہم اِس آزمایش میں اپنے مرضی کے بغیر ڈالے گئے ہیں۔آج گو ہم کو اس امانت کا اٹھانے کا شعور نہیں لیکن ہر آدمی اچھی طرح یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس امانت کو قبول کرنا اس کی فطرت کا اقتضا ہے ۔ (محمد رفیع مفتی)
_______
سوال : آپ کہتے ہیں کہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب میں قیامتِ صغریٰ بپا کرکے دکھا دی گئی ۔ حالانکہ سابقہ ادوار میں رسولوں کی دعوت کے نتیجے میں کافروں پر عذاب نازل ہوتے رہے ،کیا وہ بھی اسی قسم کی قیامتیں تھیں اور بار بار واقع ہوئیں ؟ کیا آیندہ بھی واقع ہوں گی ، نہیں تو کیوں ؟(محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب : رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں جتنے عذاب بھی آئے ہیں، اُن کی نوعیت ہمارے خیال میں یہی ہے کہ وہ قیامتِ کبریٰ کا انکار کرنے والوں پر اس سے پہلے آنے والی قیامتِ صغریٰ ہوتی ہے جو آیندہ قوموں کے لیے ایک آیت بنتی ہے۔ اب چونکہ قرآنِ مجید کی شکل میں، اُس دینونت کی سرگزشت ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی گئی ہے، خدا کی طرف سے دین اپنی مکمل شکل میں محفوظ ہو گیا ہے اور اب کسی نئی نبوت یا رسالت کی ضرورت نہیں رہی، لہٰذانبوت و رسالت کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے، اب نہ کسی رسول نے آنا ہے اور نہ براہِ راست مخاطبین کی طرف سے کسی رسول کی تکذیب کا امکان ہے۔ نتیجۃً رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں آنے والے عذاب کا بھی اب کوئی امکان نہیں ہے۔(محمد رفیع مفتی )
_______
سوال : آج کل زراعت پر صنعت کی طرح بھاری خرچ آتا ہے جیسے کھاد ، بیج ، خرچہ ٹریکٹر ، مالیہ ، آبیانہ وغیرہ ۔ یہ اخرجات منہا کر کے عشر نکالا جائے تو منافع کی بجائے نقصان ہوتا ہے ۔ کیونکہ پیداوار بہت کم ہو گئی ہے اور منافع کا مارجن بہت کم ہے ۔ آپ کا نقطہء نظر کیا ہے ؟(محمد بلال ، مظفر گڑھ)
۱۰۔ ہمارے نزدیک اب چونکہ بارانی اور نہری دونوں نوعیت کی زراعت پر باقاعدہ کئی قسموں کے اخراجات ہوتے ہیں، لہٰذا، یہ یکساں نوعیت کی زمینیں شمار ہوں گی۔چنانچہ ایک بات تو یہ ہے کہ زمین پر زکوٰۃ، عشر نہیں ،نصفِ عشر ہوگی اور دوسری یہ کہ اب حکومت کو جو مالیہ وغیرہ دینا پڑتا ہے ، وہ بھی اُس نصفِ عشر میں سے منہا کر کے دیا جائے گا۔ (محمد رفیع مفتی )
_______
سوال : آپ نے فرمایا ہے کہ جلسہ استراحت اور تورک وغیرہ ایسی سنن نہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں جاری کی ہیں آج اتنے سو سال بعد ہمارے پاس کون سا ایسا معیار ہے جس پر پرکھ کر ہم یہ معلوم کر سکیں کہ کون سا عمل سنتِ جاریہ ہے اور کون سا نہیں ہے۔ کیونکہ امت کے اندر بہت سے اعمال ایسے رائج ہیں جن کو سنت کے خلاف کہا جاتا ہے ۔ عام آدمی کس طرح پہچان سکتا ہے جب کہ وہ رہنمائی بھی اپنے ملک کے علما سے حاصل کرے گا جو کسی نہ کسی طرح ایک غیرمسنون عمل کو مسنون ثابت کر دیں گے ۔ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب : سننِ جاریہ وہ سنن ہیں جن کے سنن ہونے پر اِس امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا اِن سنن پر عمل تو ہر خاص و عام آدمی کرتا رہتا ہے،لیکن عام آدمی مجموعی دینی اعمال میں سے سننِ جاریہ کو الگ نہیں کر سکتا۔ یہ اُسے علما ہی سے دریافت کرنا ہو گا۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنے مسلک کے علما سے سننِ جاریہ کے بارے سوال کرے گا ،تو وہ اُسے اپنے نقطہ ء نظر ہی کے مطابق جواب دیں گے، ظاہر ہے اُنہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اِس صورت میں آپ کا اشکال غالباً یہ ہے کہ ہو سکتا ہے وہ علما ایک ایسی چیز کو سنت قرار دے دیں، جو سننِ جاریہ کا نقطہء نظر پیش کرنے والوں کے نزدیک سنت نہ ہو۔ اِس معاملہ میں مَیں تو یہی کہوں گا کہ پوچھنے والے کو چاہیے کہ وہ خود جس نقطہء نظر کا قائل ہے، اُسی نقطہ ء نظر کے علما سے معلومات حاصل کرے۔(محمد رفیع مفتی )
_______
سوال : آپ نے فرمایا ہے کہ رفع یدین کا مسئلہ اس وقت سے اٹھا ہے جب تواتر سے ملنے والے عمل کے بجائے حدیث کو نماز کا اصل مبنٰی بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کیا آپ اس وقت کی نشان دہی کر سکتے ہیں ؟ اور وہ کون لوگ تھے جنھوں نے ایسا کیا ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب : میری بات ایک اصولی حقیقت پر مبنی ہے۔ اُسے آپ اِسی حوالے سے دیکھیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ امت نے نماز بخاری و مسلم کی احادیث سے نہیں سیکھی، بلکہ یہ دین کے اُس عملی تواتر سے سیکھی ہے، جس پر اصل دین یعنی قرآن و سنت کھڑے ہیں۔اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ جیسے امام بخاری رحمہ اللہ کو میسر آنے والی کوئی صحیح حدیث قرآن کی آیت میں تبدیلی نہیں کر سکتی، اِسی طرح کوئی صحیح حدیث نماز کی اُس شکل میں اضافہ یا کمی بھی نہیں کر سکتی ، جو شکل ہمیں نبی ﷺ کی جاری کردہ سنت سے ملی ہے۔ اگر نماز اپنی اصل میں راویوں کے ذریعے سے ملنے والی احادیث پر کھڑی ہوتی، تو پھر ہماری یہ بات ٹھیک نہ تھی۔ پھر جونہی کسی راوی سے ہمیں کوئی حدیث ملتی ہم نماز کی شکل اُس حدیث کے مطابق کر لیتے۔ حدیث اور سنت کے فرق کے حوالے سے آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حدیث ہمیں راوی سے ملتی ہے اور سنت ہمیں امت (کے عملی تواتر )سے ملتی ہے، اِس لحاظ سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔(محمد رفیع مفتی )
_______
سوال : اللہ کے قوانین اٹل ہیں جیسے آگ ہر انسان کو جلاتی ہے خواہ وہ غلطی سے آگ میں ہاتھ ڈالے یا جان بوجھ کر ۔ اسی طرح شرک ایک ناقابلِ معافی جرم ہے ۔ یہ خدا کا قانون ہے ۔ لہٰذا شرک خواہ کوئی سوچ سمجھ کر کرے یا غلط فہمی کی بنیاد پر اسے سزا ملنی چاہیے ۔ یعنی خدا کا قانون اٹل ہے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی نجات کی امید رکھنا ،کیا اس قانون کے خلاف نہیں ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب : جس طرح آگ کے لیے جلانے کا قانون ہے، اُس سے زیادہ بڑی حقیقت کے طور پر مشرک کے جہنم میں پڑنے کا قانون ہے۔ کوئی آدمی جب فی الواقع مشرک قرار پا جائے گا، تو اب اُس کاجہنم کی آگ میں جلنا لازمی ہے، لیکن جس طرح دنیا میں ہم یہ بات کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی فی الواقع آگ میں ہاتھ ڈالے گا تو اُس کا ہاتھ جلے گا، اِسی طرح اگر کوئی آدمی فی الواقع شرک کرے گا اور پھر مشرک ہی کی حیثیت سے مرے گا، تو وہ لازماً جہنم میں ڈالا جائے گا۔ لیکن وہ آدمی جو ہمیں کسی شرکیہ عمل میں پڑا ہوا دکھائی دیتا ہے، اُس کا معاملہ کیا ہے ، کیا اُسے ہم ایک حقیقی مشرک اور جہنمی آدمی سمجھیں اور اُسے ہم اُسی نگاہ سے دیکھیں، جس نگاہ سے اہلِ جنت اہلِ جہنم کو دیکھیں گے۔میرا خیال ہے کہ اِس یقین سے معاملہ کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ ہم کسی دوسرے کے بارے میں خدا کے حتمی فیصلے کو نہیں جانتے اور جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، وہ سب کچھ ظاہری طور پر دیکھا ہے۔ چنانچہ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ فلاں آدمی مشرکانہ عمل کر رہا ہے، کیونکہ یہ تو اُس کا ظاہر ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آدمی دل سے پکا مشرک ہے، کیونکہ یہ اُس کا باطن ہے۔
بہرحال، اگر وہ خدا کے ہاں مشرک ہی شمار کیا گیا تو آپ تسلی رکھیں کہ پھر یہ بات آگ کے لیے جلانے کے قانون سے بھی زیادہ یقینی ہے کہ وہ مشرک آگ میں جھونکا جائے گا۔
جو مثال آپ نے دی ہے اس میں اور شرک کرنے میں فرق ہے ۔ جب کوئی آدمی آگ میں ہاتھ ڈالتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے تو اب یہاں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ اس نے ہاتھ ڈالا بھی ہے یا نہیں جبکہ شرک چونکہ اصلاً دل کا عمل ہے اور وہ ہمیں کسی حسی چیز کی طرح دکھائی نہیں دیتا لہٰذا اس کے بارے میں حسی چیز کی طرح حکم بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔ (محمد رفیع مفتی )
_______
سوال : مملکتِ پاکستان مسلمانوں کا ایک نظم اجتماعی ہے اور یہاں کے مسلمان ’’الجماعۃ‘‘ ہیں ۔ کیا اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اس نظمِ اجتماعی کا سربراہ بھی اسلام کے دورِ اولین کی طرح امیر المومنین اور خلیفہ کہلائے اور یہاں پراسلامی قوانین نافذ ہوں اور اصولی طور پر نظام خلافت رائج ہو ؟ (حبیب الرحمن خان ، تونسہ)
جواب : بلاشبہ پاکستان کا نظم اجتماعی ’’الجماعۃ‘‘ ہی ہے ۔ مگر اس کے سربراہ کے لیے شرعاً ضروری نہیں ہے کہ وہ امیر المومنین کہلائے ۔ مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے سربراہ کا امیر المومنین ،خلیفہ ،صدر یا وزیر اعظم کہلانا تمدنی مسائل ہیں ۔ دین و شریعت کے ساتھ ا س کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ یہاں اسلامی قوانین نافذ ہوں ۔ بلکہ جو لوگ اس ملک میں مسندِ اقتدار پر فائز ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ تمام اسلامی قوانین تدریج اور حکمت کے ساتھ نافذ کریں ۔ (محمد بلال)
____________