HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور علومِ نبوت (۲)

ایک اصولی ضابطہ

ہم نے روافض اور شیعہ راویوں کی راویت اس لیے رد کی ہے کہ اصولِ حدیث کی رو سے راوی میں طعن کا چوتھا سبب ’’بدعت‘‘ ہے اور بدعت کی دو قسمیں ہیں :

۱۔ وہ بدعت جو باعثِ تکفیر ہو ، ایسے بدعتی راوی کی روایت مردود ہوتی ہے اور ناقابلِ استناد، اس پر علما کا اتفاق ہے :’ من کفر ببدعتہ لم یحتج بہ بالاتفاق ۔ ۵۲ ؂ ‘

شریعت کے متواتر اور مشہورِ عام حکم کے انکار یا اس کے خلاف اعتقاد پر تکفیر کا حکم ہو گا: ’فالمعتمد ان الذی ترّد روایتہ من انکرأمراً متواتراً من الشرع معلوماً من الدین بالضرورۃ و کذا من اعتقد عکسہ ۔ ۵۳؂‘

۲۔ ایسی بدعت جو باعثِ فسق ہو ، ایسے راوی کی روایت دو شرطوں کے ساتھ مقبول ہو گی :

(الف) راوی اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو ۔ ’ یحتج بہ ان لم یکن داعیۃ الی بدعتہ ، ولا یحتج بہ ان کان داعیۃ ۔ ۵۴؂ ‘

(ب) اپنی بدعت کی موید اور اس کو رواج دینے والی کسی چیز کی روایت نہ کرے ۔ ’ و منھم زائغ عن الحق ، صدوق اللھجۃ ، قد جری فی الناس حدیثہ، اذ کان مخذولاً فی بدعتہ ، مأمونا فی روایتہ ، فھولا عندی لیس فیھم حیلۃ الا ان یؤخذمن حدیثھم ما یعرف اذ لم یقویہ بدعتہ فیتھم عند ذلک ۔ ۵۵ ؂ ‘

حافظ ابنِ حجر عسقلانی اسے مذہبِ مختار قرار دیتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو ’’شرح نخبۃ الفکر مع الشرح ‘‘از مصنف ص : ۱۰۳ ۔

مرسل روایتیں

اس سلسلے میں درج بالا مرفوع روایات کے علاوہ کچھ مرسل روایتیں بھی موجود ہیں ۔ ان کا تفصیلی جائزہ لینے سے قبل مرسل کے متعلق کچھ عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں ۔

’’مرسل‘‘ لغت میں ’’ارسل‘‘ سے اسمِ مفعول کا صیغہ ہے جس کے معنی آزاد چھوڑنے کے ہیں ۔ اصطلاح میں مرسل وہ روایت ہے جس کی سند کا آخری حصہ (تابعی کے بعد ) بیان نہ کیا گیا ہو ۔ ۵۶؂

یعنی تابعی ’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ کہے اور حدیث بیان کرے ۔ خواہ تابعی بڑے رتبے کا ہو یا معمولی درجے کا ۔ ۷ ۵ ؂

اس سے معلوم ہوا کہ مرسل ایسی روایت ہے جس کا بیان کرنے والا زمانہء و قوع میں موجود نہیں تھا اور اسی بنیاد پر اس کی حجیت کی بحث چل پڑی ۔ محققین کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ۔

حدیثِ نبوی کے حفاظ و نقاد کی آخری و حتمی رائے یہی ہے اور اسی فیصلے کو انھوں نے اپنی تصانیف میں درج کیا ہے ۔ علامہ ابن الصلاح فرماتے ہیں : ’ وما ذکرنا ہ من سقوط الاحتجاج بالمرسل والحکم بضعفہ ھوالمذہب الذی استقرعلیہ آراء جماھیر حفاظ الحدیث و نقاد الاثروتداولوہ فی تصانیفہ ۔ ۵۸؂ ‘

امام مسلم فرماتے ہیں : ’المرسل من الروایات فی اصل قولنا و قول اھل العلم بالاخبار لیس بحجۃ ۔ ۵۹ ؂ ‘

حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں : ’المرسل ضعیف لاحجۃ فیہ ۔ ۶۰؂ ‘

مرسل کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں غیر معروف راوی کو حذف کیا جاتا ہے جو غیر ثقہ بھی ہو سکتا ہے ۔۶۱؂ البتہ اکثر علما مراسیلِ صحابہ کو ضعیف نہیں سمجھتے، بلکہ یہ موصول کے حکم میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ صحابہ، صحابہ سے روایت کرتے ہیں اور سب صحابہ عادل ہیں ، پس ان کی جہالت مضر نہیں ۔ ۶۲؂

اس سلسلے کی مرسل روایتیں

۱۔ صحیح بخاری میں ہے : ’عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال : بعثنی ابوبکر رضی اللہ عنہ فی موذنین بعثھم یوم النحر یوذنون بمنی ان لایجح بعد العام مشرک ولایطوف بالبیت عریان، قال حمید بن عبد الرحمن : ثم اردف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعلی بن ابی طالب وامرہ ان یوذن ببراء ۃٍ ، قال ابوہریرہ : فاذن معنا علی یوم النحر فی اھل منی ببراء ۃٍ و ان لایحج بعد العام مشرک ولا یطوف بالبیت عریان ۔ ۶۳؂ ‘

اس حدیث میں آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ :

۱۔ (ثم اردف) علی رضی اللہ عنہ کا سورۂ برات ء کے ساتھ بھیجنا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے کلام میں موجود نہیں بلکہ یہ حمید بن عبد الرحمن کا قول ہے جو ایک تابعی ہیں ، اس لیے حافظ ابنِ حجر کو تسلیم ہے کہ : ’ھذا القدر من الحدیث مرسل ، لان حمیداً لم یدرک ذلک ، ولاصرح بسماعہ لہ من ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ۔ ۶۴؂ ‘ یعنی : روایت کا یہ حصہ مرسل ہے کیونکہ حمید بن عبد الرحمن جیسے اس واقعے کے دوران میں موجود نہ تھا ، اسی طرح اس نے اس ٹکڑے کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننے کی تصریح بھی نہیں کی۔

۲۔ اس روایت میں ’لایبلغہ الا انا ۔۔۔ آہ‘ کے الفاظ بھی سرے سے موجود نہیں۔

(۲) اس قسم کی ایک مرسل روایت سیرۃ ابنِ ہشام ۴ :۱۹۰ میں محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ابوجعفرالباقر سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ :’ لایودی عنی الا رجل من اھل بیتی‘۔

اسی سند کے بارے میں حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں : ’اسنادہ مرسل ۔ ۶۵؂ ‘

(۳) ایک مرسل روایت زید بن یُثیع سے منقول ہے : ۶۶؂ زید کوفی ہے اور ثقہ تابعی ہے ۔ ۶۷؂ اس سے روایت کرنے والا صرف ابو اسحاق السبیعی ہے ۔ ۶۸؂ ابو اسحاق السبیعی تدلیس کیا کرتا تھا ۔ ۶۹؂ اس کی یہ روایت معنعن ہے ، پس اصولِ حدیث کے مطابق یہ روایت مردود ہے ۔

(۴) ایک مرسل روایت ابوجعفر الباقر سے مفسر ابن جریرِ نے نقل کی ہے ۔ ۷۰؂ مرسل ہونے کے ساتھ اس میں درجِ ذیل خامیاں ہیں :

۱۔ اس کا ایک راوی محمد بن حمید رازی ہے جس کے بارے میں محدث اسحاق بن منصور فرماتے ہیں : میں اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دوں گا کہ محمد بن حمید کذاب تھا ۔ ۷۱؂ امام جوزجانی لکھتے ہیں : بدمذہب اور غیر ثقہ تھا۔ ۷۲؂

۲۔ ایک راوی سلمہ بن الفضل بن الابرش ہے جس کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں کہ : ’عندہ مناکیر۔ ۷۳؂ ‘

جبکہ امام یحییٰ بن سعید القطان امام بخاری سے نقل کرتے ہیں : جس راوی کے متعلق میں منکر الحدیث استعمال کروں تو اس سے روایت لینی ناجائز ہے ۔ ۷۴ ؂

امام علی بن المدینی لکھتے ہیں : ری سے نکلنے سے پہلے پہلے ہم نے ان کی رویات کو اپنے سے پرے پھینکا تھا۔ ۷۵؂

۳:۔ ایک راوی محمد بن اسحاق صاحب المغازی ہے ، جو بدترین تدلیس کا شکار تھا اورہمیشہ ایسے راویوں کے بارے میں تدلیس سے کام لیتا تھا جو ضعیف اور مجہول ہوا کرتے تھے ۔ ۷۶؂ اس کی یہ روایت معنعن بھی ہے ، پس روایت مردود ہوئی ۔

(۵) مفسر ابنِ جریر نے ایک روایت اس سند کے ساتھ نقل کی ہے : ’حدثنی محمد بن الحسین قال حدثنا احمد بن المفضل، قال حدثنا اسباط عن السدِی قال لما نزلت ۔۔۔ آہ ۔ ۷۷؂ ‘

اس میں بھی کئی اسنادی خرابیاں ہیں :

۱۔ ابنِ جریر کے استاذ محمد بن الحسین بن ابی الحنین الحنینی کے متعلق مجھے کتب اسماء رجال میں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ ثقہ تھے یاغیر ثقہ ۔

۲۔ اس کا ایک روای احمد بن المفضل الحفری الکوفی ہے جو روساءِ شیعہ میں سے تھا ۔ ۷۸؂

۳:۔ ایک راوی اسباط بن نصر ہمدانی ہے ، اس کی روایتیں پایہء اعتبار سے ساقط اور مقلوب الاسانید ہوتی ہیں ۔ ۷۹؂

۴۔ آخری راوی الُسدّی ہے ، جس کا نام محمد بن مروان تھا اور جھوٹ بولنے سے متہم (بدنام) تھا ۔ ۸۰؂

حافظ صالح بن محمد البغدادی فرماتے ہیں : احادیث وضع کیا کرتا تھا ۔ ۸۱؂ امام ابو حاتم رازی لکھتے ہیں کہ ذاہب الحدیث اور متروک الحدیث ہے اس کی روایت نہ لکھی جائے ۔ ۸۲؂

مولانا محترم آگے فرماتے ہیں :

’’اور جب مالِ غنیمت کے خمس میں سے ایک لونڈی آپ کے حصے میں آئی اور اس کے بارے میں لوگوں میں قیل و قال شروع ہو گئی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پاسِ غیرت کی بنا پر لوگوں کو ایذا رسانی سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا : ’’ ھو منی وانا منہ ‘‘ (تم نے علی رضی اللہ عنہ کو کیا سمجھا ہے) وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔‘‘ ۸۳؂

مجھے تلاش بسیار کے باوجود’ ھو منی وانا منہ‘ کے الفاظ نہ مل سکے ۔ البتہ صحیح روایت میں ’’ا نت منی وانا منک‘‘ کے الفاظ مسطورہ بالا واقعہ کے بغیر ملتے ہیں ۔ ۸۴؂

لیکن اس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نظر نہیں آتی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی الفاظ اشعریین اور سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں استعمال کیے ہیں :

عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ قال : قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ان الا شعریین اذا ارملوا فی الغزو اوقل طعام عیالھم بالمدینۃ جمعوا ماکان عندھم فی ثوب واحد ، ثم اقتسموہ فی اناء واحدً بالسویۃً ، فھم منی وانا منھم ۔ ۸۵؂
’’الشعریوں کو جب کسی غزوہ کے دوران میں غلے کی کمی کا سامنا کرنا پڑے یا مدینہ میں کہیں ان کے اہل و عیال کو قلتِ طعام سے واسطہ پڑے تو وہ سب اپنا سارا غلہ ایک جگہ کر لیتے ہیں ، پھر اسے سب کو برابر برابر بانٹ دیتے ہیں ، پس وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔‘‘

۲۔ سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک تھے کہ مالِ غنیمت آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ھل تفقدون من احد ؟ قالوا : لا ، قال : لکنی افقد جلیبیبا فاطلبوہ، فطلب فی القتلی ، فوجدوہ الی جنب سبعۃ قد قتلھم ثم قتلوہ ۔ فاتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوقف علیہ فقال : قتل سبعۃ ثم قتلوہ ، ھذا منی وانا منہ ، ھذا منی وانا منہ، ھذا منی و انا منہ ، قال : فوضعہ علی ساعدیہ ، لیس لہ الا ساعدا النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، قال : فحفر لہ ، ووضع فی قبرہ ، ولم یذکر غسلاً ۔ ۸۶ ؂
’’دیکھو کون کون لوگ لاپتا ہیں ، لوگوں نے چند آدمیوں کے نام گنائے ، آپ نے فرمایا : میں جلیبیب کو گم پاتا ہوں ۔ مسلمان ان کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ سات آدمیوں کے پہلو میں مقتول پڑے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی اور لاش کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا : سات کو قتل کر کے قتل ہوا ۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور جلبیب کی لاش کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر لائے اور قبر کھدوا کر دفن کیا اور غسل نہیں دیا۔‘‘

(جاری)

_______

۵۲ ؂ تقریب النووی مع تدریب الراوی ۱ : ۳۲۴ ۔

۵۳؂ شرح نخبۃ الفکر، ص ۱۰۱ ۔

۵۴ ؂ تقریب النووی مع التدریب ۱ : ۳۲۵ ۔

۵۵؂ احوال الرجال ازجوزجانی ،ص ۳۲ ۔

۵۶؂ مقدمہ ابن الصلاح ،ص ۷۰ ۔ ۷۱ ، نوع ۹ ۔

۵۷؂ شرح نخبۃ الفکر ،ص ۶۶۔ ۶۷ ؛ النکت علی کتاب ابن الصلاح ۲ : ۵۴۳ ۔ ۵۴۴ ۔

۵۸؂ مقدمہ ابن الصلاح ،ص ۷۳ ۔

۵۹؂ صحیح مسلم مطبوعہ استنبول ۱ : ۳۰ مقدمہ ، باب (۶) ۔

۶۰ ؂ فتح الباری ۱ : ۲۵۱؛ ۲:۱۷۵؛ ۵: ۱۹۰، ۱۱: ۲۶۷ ۔

۶۱؂ الباعث الحثیث، حاشیہ از احمد محمد شاکر ،ص ۵۸ ۔

۶۲؂ مقدمہ ابن الصلاح ،ص ۷۵؛ الباعث الحثیث از حافظ ابنِ کثیر ،ص ۵۸ ۔

۶۳؂ صحیح بخاری ( ۴۶۵۵) کتاب التفسیر (۶۵) تفسیر سورۂ برات ء ۔

۶۴؂ فتح الباری ۸ : ۳۱۸ ۔

۶۵؂ فتح الباری ۸ : ۸۳ ۔

۶۶؂ تفسیر ابنِ جریر ۶: ۳۰۶ ( ۱۶۳۸۶) ، (۱۶۳۸۷) ۔

۶۷؂ تاریخ الثقات للعجلی ،ص ۱۷۲، ترجمہ ۴۹۳ ۔

۶۸؂ تہذیب الکمال۱۰: ۱۱۶ ۔

۶۹؂ تعریف اہل التقدیس ،ص ۱۰۱ ، ترجمہ ۹۱ ۔

۷۰؂ تفسیر ابنِ جریر ۶: ۳۰۷ (۱۶۳۹۱) ۔

۷۱؂ تاریخِ بغداد ۲ : ۲۶۳ ۔

۷۲؂ احوال الرجال للجوزجانی ،ص ۲۰۷، ترجمہ : ۳۸۲ ۔

۷۳؂ التاریخ الکبیر ۴: ۸۴ ، ترجمہ ۲۰۴۴ ۔

۷۴؂ میزان الاعتدال ۱ : ۶؛ لسان المیزان ۱ : ۲۰ ۔

۷۵؂ التاریخ الصغیر ۲ : ۲۴۵ ؛ تہذیب الکمال ۱۱ : ۳۰۶ ۔

۷۶؂ تعریف اھل التقدیس، ص ۱۳۲ ، ترجمہ ۱۲۵ ۔

۷۷؂ تفسیر ابنِ جریر ۶ : ۳۰۷ (۱۶۳۹۲) ۔

۷۸؂ الجرح و التعدیل ۲ : ۷۷؛تہذیب الکمال ۱ : ۴۸۷ ۔

۷۹؂ الجرح والتعدیل ۲ : ۳۳۲؛ تہذیب الکمال ۲ : ۳۵۸ ۔

۸۰؂ تقریب التہذیب، ص ۸۰ ۔

۸۱؂ تاریخِ بغداد ۳ : ۳۹۲ ۔ ۳۹۳ ؛ تہذیب الکمال ۲۶: ۳۹۳ ۔

۸۲؂ الجرح و التعدیل ۸ : ۸۶ ، ترجمہ : ۳۶۴۔

۸۳؂ ماہنامہ ’’فکرو نظر‘‘ اسلام آباد، ص ۷۸، فضیلت (۶۱) ۔

۸۴؂ صحیح بخاری (۲۶۹۹) کتاب الصلح (۵۳) باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان بن فلان (۶) ؛ السنن البری للنسائی (۸۴۵۶) کتاب الخصائص (۷۷) باب (۲۲) ؛ جامع الترمذی (۳۷۱۶) کتاب المناقب (۵۰) باب (۲۱) ۔

۸۵؂ صحیح بخاری (۲۴۸۶) کتاب الشرکۃ (۴۷) باب الشرکۃ فی الطعام و النھدوالعروض؛ صحیح مسلم(۲۵۰۰) کتاب فضائل الصحابہ (۴۴) باب من فضائل الاشعریین (۳۹)

۸۶؂ صحیح مسلم (۲۴۷۲) کتاب فضائل الصحابہ (۴۴) باب من فضائل جلیبیب (۲۷) ۔

____________

B