۱۵ دسمبر ۲۰۰۰
محترمی و مکرمی مدیرِ ’’اشراق‘‘
السلام علیکم
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے ۔
ایک علمی مسئلہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
سورہ نساء میں ہے:
’’اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہے جو اس کی موت سے پہلے اس کا یقین نہ کر لے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا۔‘‘ (۴: ۱۵۹ )
اس آیت کے مفسرین نے عموماً دو معنی بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ جب سیدنا مسیح علیہ السلام دوبارہ تشریف لائیں گے ،اُس وقت تمام اہلِ کتاب اپنی موت سے قبل ان پر ایمان لے آئیں گے۔ دوسرے یہ کہ جب مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے ، اس وقت آپ کی موت سے قبل جتنے اہلِ کتاب ہوں گے ، وہ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
مگر یہ تفسیر میری سمجھ میں نہیں آ رہی ۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس آیت میں حضرت مسیح کی مذکورہ آمد کا اور آپ پر تمام اہلِ کتاب کے ایمان لانے کا ادنیٰ اشارہ بھی موجود نہیں ہے ۔
اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے وقت تمام اہلِ کتاب آپ پر ایمان لے آئیں گے تو یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ جب آپ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو :
۱۔ اس وقت آپ نبی و رسول کی حیثیت سے آئیں گے یا ایک امتی کی حیثیت سے ؟
۲۔ اگرآپ نبی کی حیثیت سے آئیں گے تو اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ علیہ السلام کی کیاحیثیت ہو گی ؟
۳۔ کیا حضرت محمد ﷺ کی وفات کے بعد کسی رسول یا نبی کی آمد ہو سکتی ہے ؟
۴۔ اور اگر مسیح علیہ السلام ایک امتی کی حیثیت سے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو کیا کسی امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیر مسلموں ، یعنی اہلِ کتاب سے کہے کہ مجھ پر ایمان لے آؤ؟
۵۔ قرآن و حدیث میں جہاں اہلِ کتاب کو دعوت دی گئی ہے ، کیا وہاں یہ بات ان سے کہی گئی ہے کہ تم ایک امتی پر بھی ایمان لاؤ؟
۶۔ کیا تورات او رانجیل میں اہلِ کتاب کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم کو امتِ محمدیہ کے ایک امتی پر بھی ایمان لانا ہو گا؟
۷۔ کیا اُس وقت تمام اہلِ کتاب مسلمان ہو جائیں گے ، یعنی یہودی اور عیسائی دنیا سے ختم ہو جائیں گے؟ لیکن قرآنِ مجید سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی قیامت کے دن تک رہیں گے اور عیسائی یہودیوں پر غالب رہیں گے ۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۵۵میں ارشاد ہوتا ہے : ’’جبکہ اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ،میں تمھیں قبض کر لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں ۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان سے تمھیں پاک کرنے والا ہوں ۔ اور جن لوگوں نے تمھاری پیروی کی ہے ان کو قیامت تک کے لیے ان لوگوں پر غالب کرنے والا ہوں ۔‘‘
اس آیت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اہلِ کتاب کے دونوں گروہ یہودی اور عیسائی قیامت تک رہیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام کا پیرو گروہ یعنی عیسائی آپ کے منکرین ، یعنی یہودیوں پر قیامت کے دن تک غالب رہے گا ۔
اس کے علاوہ قرآن مجید عیسیٰ علیہ السلام کی آمدِ ثانی اور آپ کے ہاتھوں یہود کے قتل اور عیسائیوں کے اسلام قبول کر لینے کے بجائے ایک دوسری بات کرتا نظر آرہا ہے ۔
سورۂ مائدہ میں ہے:
’’اور جب کہا اللہ نے اے عیسیٰ ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود ٹھیرا لو ۔ اس نے کہا تو پاک ہے میرے لیے (روا) نہیں کہ میں (ایسی بات) کہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوتا تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا ۔ تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے بے شک تو چھپی باتوں کو جاننے والا ہے ۔ میں نے انھیں نہیں کہا مگر صرف وہ جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا رب ہے ۔ اور میں جب تک ان میں رہا ان پر خبردار (باخبر) تھا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو ان پر تو نگران تھا اور تو ہر شے سے باخبر ہے ۔‘‘ (۵: ۱۱۶۔ ۱۱۷)
اس آیت میں یہ جملہ کہ ’’جب تو نے مجھے اپنی طرف اٹھا لیا تو توُ ہی ان پر نگران تھا‘‘ ،سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں دوبارہ نہیں آئیں گے ۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ نے دوبارہ دنیا میں آ کر تمام عیسائیوں کو مسلمان کر دیا ہوتا تو پھر اس مکالمہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام ’’ اے اللہ ، میرے بعد تو ان پر تھا ‘‘کہنے کے بجائے فرماتے کہ ’’اے اللہ ،جب تو نے مجھے دوبارہ دنیا میں بھیجا تو میں نے یہ بات کہنے والے سب لوگوں کو مسلمان نہیں کر دیا تھا ‘‘۔ مزید فرماتے کہ ’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے ان سب کو دوبارہ دعوت دے کر اس بات سے منع کر دیا تھا ۔ ‘‘اور اگر اللہ نے آپ کو دوبارہ دنیا میں بھیج کر آپ کے ذریعے سے آپ کو اور آپ کی والدہ کو معبود قرار دینے والوں کو مسلمان کرادیا ہوتا تو اللہ ان سے کیوں پوچھتے کہ کیا تو نے ان سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ۔
سورۂ نسا میں ہے:
’’اور بہ سبب ان کے اس دعویٰ کے کہ ہم نے مسیح بن مریم ، اللہ کے رسول ، کو قتل کیا ۔ حالانکہ نہ تو انھوں نے اس کو قتل کیا نہ سولی دی بلکہ معاملہ ان کے لیے گھپلا کر دیا گیا ۔ اور جو لوگ اس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ اس کے معاملے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کو اس بارے میں کوئی قطعی علم نہیں ، بس گمان کی پیروی کر رہے ہیں ۔ قتل اس کو انھوں نے ہرگز نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔ اور اہلِ کتاب میں سے کوئی نہیں ہے جو اس کی موت سے پہلے اس کا یقین نہ کر لے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا۔ ‘‘(۴: ۱۵۷۔ ۱۵۹)
سورۂ نساء کی اس آیت کو سیاق و سباق کے لحاظ سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کی بداعمالیاں بیان کر رہے ہیں ، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو قتل کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کے سامنے ان کے اس دعوے کی تردید کردی اور فرمایا کہ انھوں نے ان کو نہ قتل کیا اور نہ سولی دیا ہے ۔ بس یہ ایسے ہی اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں اور یقیناًوہ قتل نہیں ہوئے ، بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے اور یہ اہلِ کتاب جو آپ کے سامنے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ان کو قتل کر دیا ہے ، یہ سب اپنی موت سے قبل اس بات کو مان جائیں گے کہ نہ وہ قتل کیے گئے اور نہ سولی دئیے گئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دیں گے کہ مجھے نہ یہ قتل کر سکے اور نہ سولی دے سکے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ؟ یعنی ختمِ نبوت کے حوالے سے بھی حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ ان سوالات کے بارے میں اہلِ علم اپنا نقطہء نظر تفصیل کے ساتھ بیان فرمائیں اور آپ اسے ’’اشراق‘‘ میں شائع کریں ۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
والسلام
محمد طارق ، لاہور
____________