HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: بنی اسرائیل ۱۷: ۶۶- ۸۴ (۶)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


رَبُّکُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَکُمُ الْفُلْکَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّہٗ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا(۶۶) وَاِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ فَلَمَّا نَجّٰکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا(۶۷)
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَکُمْ وَکِیْلاً(۶۸) اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ یُّعِیْدَکُمْ فِیْہِ تَارَۃً اُخْرٰی فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ فَیُغْرِقَکُمْ بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہٖ تَبِیْعًا(۶۹)
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً(۷۰) یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍم بِاِمَامِھِمْ فَمَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَاُولٰٓءِکَ یَقْرَءُ وْنَ کِتٰبَھُمْ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً(۷۱) وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیْلاً(۷۲) 
وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً(۷۳) وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْھِمْ شَیْءًا قَلِیْلاً(۷۴) اِذًا لَّاَذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا(۷۵)
وَاِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْھَا وَاِذًا لَّایَلْبَثُوْنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیْلاً(۷۶) سُنَّۃَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلاً(۷۷) اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْھُوْدًا(۷۸) وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا(۸۰) وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلَُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا(۸۱)
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا(۸۲) وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰبِجَانِبِہٖ وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَءُوْسًا(۸۳) قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً(۸۴)
(لوگو)، تمھارا پروردگار وہی ہے جو تمھارے لیے سمندر میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اُس کا فضل تلاش کرو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ تمھارے حال پر بڑا مہربان ہے۔ تمھیں جب سمندر میں مصیبت پہنچتی ہے تو اُس کے سوا جن کو پکارتے ہو، وہ سب بھولے بسرے ہو جاتے ہیں۔ پھر وہی پروردگار جب تمھیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو منہ موڑ جاتے ہو۱۹۳؎۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔۶۶-۶۷
سوکیا اِس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ اُسی خشکی کی طرف لے جا کر تمھیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دے، پھر تم کسی کو اپنا کارساز نہ پاؤ؟ یا اِس سے بے خوف ہو گئے ہو کہ تمھیں دوبارہ سمندر میں لے جائے، پھر تم پر ہوا کا سخت طوفان بھیج دے اور تمھاری ناشکری کے بدلے تم کو غرق کر دے، پھر تم اپنے لیے ایسا کوئی نہ پاؤ جو اُس پر ہمارا پیچھا کرنے والا ہو؟۶۸-۶۹
ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے اور خشکی اور تری میں اُن کو سواری عطا فرمائی ہے اور اُن کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اُنھیں نمایاں فضیلت دی ہے۱۹۴؎۔ (اِس پر بھی وہ ناشکری کرتے ہیں)۔ اُنھیں یاد رکھنا چاہیے، جس دن ہم سب لوگوں کو اُن کے رہنماؤں سمیت بلائیں گے،۱۹۵؎ پھر جن لوگوں کو اُن کا اعمال نامہ اُن کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا، وہی اپنا اعمال نامہ (خوشی سے) پڑھیں گے۱۹۶؎ اور اُن کے ساتھ ذرہ برابر نا انصافی نہ ہو گی۔ اِس کے برخلاف جو اِس (دنیا) میں اندھے بنے رہے، وہ آخرت میں بھی اندھے اور راستے سے بہت دور پڑے ہوئے ہوں گے۔ ۱۹۷؎۷۰-۷۲
(اے پیغمبر)، قریب تھا کہ یہ اُس چیز سے ہٹا کر تم کو فتنے میں ڈال دیں جو ہم نے تمھاری طرف وحی کی ہے تاکہ اِس (قرآن) کے سوا تم کوئی دوسری بات ہم پر افترا کرکے پیش کرو۔۱۹۸؎ اگر تم ایسا کرتے تو یہ ضرور تمھیں اپنا دوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم نے تمھیں مضبوط نہ رکھا ہوتا تو بعید نہیں تھا کہ تم بھی اِن کی طرف کچھ جھک پڑو۱۹۹؎۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم تمھیں زندگی اور موت، دونوں کا دہرا عذاب چکھا تے،۲۰۰؎ پھر تم ہمارے مقابلے میں اپنا کوئی مددگار نہ پاتے۲۰۱؎۔ ۷۳-۷۵
یہ اِس سرزمین۲۰۲؎ سے تمھارے قدم اکھاڑ دینے کے درپے ہیں تاکہ تم کو یہاں سے نکال دیں۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو تمھارے بعد یہ بھی کچھ زیادہ دیر ٹھیرنے نہ پائیں گے۔۲۰۳؎ تم سے پہلے اپنے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں، اُن کے بارے میں اِس سنت کو یاد رکھو۲۰۴؎ اور ہماری اِس سنت میں تم کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (یہ مرحلہ یقینا مشکل ہے، سو اِس میں صبر و استقامت کے لیے) سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز کا اہتمام رکھو۲۰۵؎ اور خاص کر فجر کی قراء ت کا، ۲۰۶؎اِس لیے کہ فجر کی قراء ت روبرو ہوتی ہے۲۰۷؎ اور رات کو بھی اِسی طرح اٹھو (اور نماز پڑھو)۔ یہ تمھارے لیے مزید برآں ہے۲۰۸؎۔ تم امید رکھو ۲۰۹؎کہ تمھارا پروردگار (قیامت کے دن) تم کو اِس طرح اٹھائے کہ یہ اٹھانا محمود خلائق ہو۲۱۰؎ اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، مجھ کو (جہاں داخل کرنا ہے)، اِس طرح داخل کر کہ وہ عزت کا داخل کرنا ہو اور (جہاں سے نکالنا ہے)، اِس طرح نکال کہ وہ عزت کا نکالنا ہو اور خاص اپنے پاس سے قوت و اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۲۱۱؎۔ اور،(اے پیغمبر)، اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اِس لیے کہ یہ باطل مٹنے ہی والا تھا۲۱۲؎۔ ۷۶-۸۱
ہم اِس قرآن میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے، مگر اِن ظالموں کے لیے یہ (اُن کے) خسارے ہی میں اضافہ کر رہا ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب ہم اُس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا اور پہلو بدل لیتا ہے۲۱۳؎ اور جب اُس کو مصیبت پہنچتی ہے تو بالکل مایوس ہو جاتا ہے۔(اِن کا حال بھی یہی ہے، اِس لیے) کہہ دو کہ ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے۔ سو تم میں سے جو زیادہ صحیح راستے پر ہیں، اُنھیں تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے۲۱۴؎۔ ۸۲-۸۴

۱۹۳؎ یہ انسان کے عام رویے کی مثال دی ہے کہ ہزاروں ٹن کے وزنی جہاز جو سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے رواں دواں ہیں، سب خدا ہی کے حکم سے چل رہے ہیں۔ خدا نے یہ اہتمام اِس لیے کیا ہے کہ انسان اُس کا فضل تلاش کرے اور اُس پر خدا کا شکر گزار ہو، لیکن انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہی جہاز کسی طوفان میں گھر جائیں تو اُسے خدا یاد آجاتا ہے اور جوں ہی طوفان سے نکل جائیں، پھر نہ وہ طوفان اور اُس کی مصیبت یاد رہتی ہے اور نہ خدا، جس کے سامنے اُس وقت گڑگڑارہے تھے۔

۱۹۴؎ انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت یقینا حاصل ہے، مگر یہ فضیلت کلی نہیں ہے۔ آیت سے واضح ہے کہ بعض مخلوقات انسان پر بھی فضیلت رکھتی ہیں۔

۱۹۵؎ یعنی اچھے لوگ اپنے رہنماؤں کے ساتھ اور برے لوگ اپنے رہنماؤں کے ساتھ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”ہر گروہ کو اُن کے لیڈروں اور مقتداؤں کے ساتھ جمع کرنے میں اعزاز و تکریم کا پہلو بھی ہے اور اتمام حجت کا پہلو بھی۔ اتقیا کے لیڈر تو یہ دیکھیں گے کہ الحمد للہ جس اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے اُنھوں نے بازیاں کھیلیں، اُس کا انجام اِس شاندار صورت میں سامنے آیا اور اشرار کے لیڈر اپنی کارستانیوں کے انجام دیکھیں گے اور اُن کی پیروی کرنے والے اُن پر لعنت بھیجیں گے اور اُن کے لیے، جیسا کہ دوسرے مقام میں تصریح ہے، دونے عذاب کا مطالبہ کریں گے۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۲۵)

۱۹۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’فَاُولٰٓءِکَ یَقْرَءُ وْنَ کِتٰبَھُمْ‘۔اِن میں فعل اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ جن کا اعمال نامہ اُن کے بائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا، وہ اُس کو پڑھنا تو ایک طرف، اُس کو لیتے ہی پیٹھ پیچھے چھپانے کی کوشش کریں گے اور اپنی بدبختی پر اپنا سر اور منہ پیٹیں گے۔

۱۹۷؎ یعنی اُس راستے سے جو اُن کو اُن کی منزل مقصود تک لے جا سکتا تھا۔ اِس کے مقابل میں جن لوگوں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور خدا کی نشانیوں سے فائدہ اٹھایا، وہ اپنی منزل کو پورے دن کی روشنی میں دیکھیں گے اور بغیر کسی رکاوٹ کے شاداں و فرحاں اُس تک پہنچ جائیں گے۔

۱۹۸؎ اصل الفاظ ہیں:’وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ‘۔اِن میں ’عَنْ‘ اشارہ کر رہا ہے کہ ’لَیَفْتِنُوْنَکَ‘ یہاں ’یصرفونک‘ یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم چونکہ اِن کے ایمان کے حریص ہو، اِس لیے تمھاری اِس خواہش سے فائدہ اٹھا کر یہ تمھیں اِس فتنے میں ڈالنا چاہتے تھے کہ ایمان و اسلام کی طرف کچھ بڑھنے کا تاثر دے کر تمھیں آمادہ کریں کہ اپنی دعوت میں تم کچھ ترمیم کر لو اور اِس طرح یہ تم کو تمھارے موقف سے ہٹا دیں۔

۱۹۹؎ مطلب یہ ہے کہ اِن کی پیش کش کو سن کر تم بھی کچھ تذبذب میں پڑ گئے تھے، مگر راہ حق پر تمھاری استقامت کے صلے میں خدا کی توفیق شامل حال ہوئی اور اُس نے تمھیں اِس صورت حال سے نکال دیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ نبی کے معصوم ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اُس کو کوئی تذبذب کی حالت پیش نہیں آتی یا کوئی غلط میلان اُس کے دل میں خطور نہیں کرتا،بلکہ اِس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اول تو اُس کا میلان کبھی جانب نفس میں نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ جانب خیر میں ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ جانب خیر میں بھی اگر وہ کوئی ایسا قدم اٹھاتا نظر آتا ہے جو صحیح نہیں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے اُس کو بچا لیتا ہے اور صحیح سمت میں اُس کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۲۸)    

۲۰۰؎ یعنی دنیا میں بھی دہرا عذاب چکھاتے اور موت کے بعد آخرت میں بھی۔ یہ اُسی قاعدے پر ہے کہ جن کے رتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے۔

۲۰۱؎ اِس میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن عتاب کا رخ، اگر غور کیجیے تو اُنھی منکرین کی طرف ہے جو سمجھوتے کی تجویزیں لے کر آ رہے تھے۔ اُنھیں تنبیہ فرمائی ہے کہ جس پروردگار کی دعوت کے جواب میں وہ اِس طرح کی تجویزیں پیش کر رہے ہیں، وہ اُنھیں کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔

۲۰۲؎ یعنی سرزمین مکہ سے۔

۲۰۳؎ اللہ کے رسول کو ہجرت پر مجبور کر دیا جائے تو اُس کے قوم کو چھوڑ کر نکلتے ہی قوم کی امان اٹھ جاتی ہے اور عذاب کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ آگے فرمایا ہے کہ یہ ایک سنت الہٰی ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہ پیشین گوئی اِسی سنت کے مطابق کی گئی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکل جانے کے بعد حرف بہ حرف پوری ہوگئی۔

۲۰۴؎ اصل میں یہ فعل محذوف ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، اِس اسلوب میں فی الجملہ تخصیص ذکر کا پہلو مضمر ہوتا ہے اور براہ راست اصل چیز کو نگاہ کے سامنے کر دیتا ہے۔

۲۰۵؎ یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشا کے اوقات میں پورے اہتمام کے ساتھ پڑھتے رہو۔ نماز کے یہ اوقات چونکہ ہر شخص کو معلوم تھے، اِس لیے بالاجمال فرمایا ہے کہ ’لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ‘نماز کا اہتمام رکھو۔ اِس میں ’دُلُوْک‘کا’ل‘وقت کے مفہوم میں ہے اور عربی زبان میں یہ اِس مفہوم کے لیے معروف ہے۔

۲۰۶؎ اصل الفاظ ہیں:’وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ‘۔ اِن سے مراد نماز فجر میں قرآن کی قراء ت ہے۔ یہ بات چونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے تعلق سے واضح تھی، اِس لیے لفظوں میں بیان نہیں ہوئی۔ لفظ ’قُرْاٰنَ‘ کا نصب ہمارے نزدیک تخصیص ذکر کے لیے ہے، یعنی ’أخص بالذکر قرآن الفجر‘۔اِس سے فی الجملہ طول قراء ت کی طرف بھی اشارہ ہو رہا ہے اور جہر قراء ت کی طرف بھی۔ اِسی طرح یہ اسلوب نماز فجر، بالخصوص اُس میں قرآن مجید کی قراء ت کی اہمیت کو بھی واضح کرتا ہے۔

۲۰۷؎ یعنی اِس میں ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ روایتوں میں اِس کی تصریح ہے*۔ یہ اِسی کی برکت ہے کہ اِس نماز میں امام اور مقتدی، دونوں کو دل و دماغ کا حضور حاصل ہوتا ہے۔

۲۰۸؎ اِس سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز تہجد کا اہتمام اُسی طرح ضروری تھا، جس طرح عام مسلمانوں کے لیے پانچ وقت کی نمازوں کا اہتمام ضروری ہے۔ اُن کے لیے یہ ایک نفل نماز ہے جس کا اہتمام اگر امت کے علما کریں گے تو دعوت کی جدوجہد میں اُن کے لیے بھی،اگر اللہ نے چاہا تو یہ نصرت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہو گی، اِس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں اِسی پہلو سے اِس کی تاکید فرمائی ہے۔

۲۰۹؎ اصل میں لفظ ’عَسٰی‘آیا ہے۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کی نسبت سے آتا ہے تو امیدو رجا کے جس مفہوم پر یہ دلالت کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے بجاے مخاطبین سے متعلق ہو جاتی ہے۔

۲۱۰؎ اصل میں ’مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن میں ’مَقَامًا‘ ہمارے نزدیک ظرف کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ مصدر کے معنی میں ہے اور یہاں مفعول مطلق کے طور پر آیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...چونکہ لفظ ’بَعْث‘ اور ’مَقَام‘ میں معنی کا اشتراک موجود ہے، اِس لیے کہ ’بَعْث‘ کے معنی اٹھانے اور ’مَقَام‘ کے معنی کھڑے ہونے اور اٹھنے کے ہیں، اِس وجہ سے اِس کے مفعول مطلق واقع ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آج تمھاری مخالفت و مذمت میں یہ شوروغوغا برپا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے، لیکن تم اپنے موقف حق پر ڈٹے رہو، نمازوں بالخصوص تہجد کا خاص اہتمام کرو اور یہ توقع رکھو کہ تمھارا رب تمھیں اِس حال میں اٹھائے گا کہ ایک عظیم امت کی زبانوں پر تمھارے لیے ترانۂ حمد ہو گا اور عنداللہ بھی تمھاری مساعی محمود و مشکور ہوں گی۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۳۱)

۲۱۱؎ یہ ہجرت کی دعا ہے۔ اوپر بیان ہوا ہے کہ قریش اب آپ کو مکہ سے نکالنے کے درپے تھے۔ یہ دعا اِسی تعلق سے تلقین فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس کی تلقین بتا رہی ہے کہ بظاہر یہ ایک دعا ہے، مگر حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ایک عظیم بشارت ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے نکلنے سے پہلے ہی آپ کے داخل ہونے کا انتظام کر لیا گیا ہے۔ آپ کا نکلنا اور داخل ہونا، دونوں عزت و وقار اور رسوخ و استحکام کے ساتھ ہو گا اور اِس سفر میں غلبہ، اقتدار اور نصرت الٰہی کا خاص بدرقہ آپ کے ہم رکاب ہو گا۔ مزید یہ کہ آپ کا پروردگار یہ سارا انتظام اپنے پاس سے فرمائے گا۔ آیت میں ’مِنْ لَّدُنْکَ‘کے الفاظ اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۱۲؎ یعنی اِس کے لیے یہی مقدر تھا کہ ایک دن مٹ جائے۔ یہ ایک سنت الہٰی کا بیان ہے۔ ہجرت اِس کے ظہور کا دیباچہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اِس کی دعا تلقین کی گئی تو ساتھ ہی حکم ہوا کہ اب یہ اعلان بھی کر دیا جائے کہ اِس سرزمین میں باطل کو شکست ہو گی اور خدا کا رسول جو حق لے کر آیا ہے، اُس کا بول لازماً بالا ہوکر رہے گا۔ قرآن کی یہ پیشین گوئی فتح مکہ کے دن اِس شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیزے کی انی سے بیت اللہ کے اندر رکھے ہوئے بت توڑتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے۔

۲۱۳؎ پہلو بدل لینا اعراض کی تصویر ہے جس کے لیے آیت میں ’نَاٰبِجَانِبِہٖ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے اعراض میں نفرت، بے زاری اور غرور و تکبر کا انداز نمایاں ہوتا ہے۔

۲۱۴؎ یہ تفویض کی آیت ہے، گویا ہدایت فرمائی ہے کہ موقف حق پر جمے رہو اور اِن کا معاملہ اللہ کے حوالے کر دو۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے کون سیدھے راستے پر ہے۔

[باقی]

__________

*  بخاری، رقم ۴۴۴۰۔ مسلم، رقم ۶۴۹۔

_______________________

B