بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
اَفَاَصْفٰکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِیْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓءِکَۃِ اِنَاثًا اِنَّکُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا(۴۰) وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّکَّرُوْا وَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلَّا نُفُوْرًا(۴۱) قُلْ لَّوْکَانَ مَعَہٗٓ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاً(۴۲) سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا(۴۳) تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا(۴۴)
وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا(۴۵) وَّجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا وَاِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِھِمْ نُفُوْرًا(۴۶) نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِہٖٓ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ وَ اِذْھُمْ نَجْوٰٓی اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا(۴۷) اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاً(۴۸)
وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا(۹۴) قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْحَدِیْدًا(۵۰) اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُ وْسَھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا(۵۱) یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلاً(۵۲)
وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّےْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۵۳) رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِکُمْ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْکُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْکُمْ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ وَکِیْلاً(۵۴) وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ وَّاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(۵۵)
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلاَ یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلَا تَحْوِیْلاً(۵۶) اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا(۵۷)
(تم پر تعجب ہے)، پھرکیا تمھارے پروردگارنے تمھیں تو بیٹوں کے لیے خاص کیا اور اپنے لیے فرشتوں میں سے بیٹیاں لے لیں ۱۶۴؎؟ حقیقت یہ ہے کہ تم بڑی ہی سنگین بات کہتے ہو۔ ہم نے اِس قرآن میں طرح طرح سے واضح کر دیا ہے۱۶۵؎ تاکہ یہ یاددہانی حاصل کریں، لیکن (اِن پر افسوس)، اِس سے اِن کی بے زاری ہی بڑھ رہی ہے۔ اِن سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ عرش والے پر ضرور چڑھائی کر دیتے۱۶۶؎۔ اللہ پاک اور بہت ہی برتر ہے اُس سے جو یہ کہتے ہیں۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو اُن میں ہیں، سب اُسی کی تسبیح کرتے ہیں ۱۶۷؎۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اُس کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم اُن کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ (تمھاری یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ اِن پر آسمان ٹوٹ پڑتا، مگر) اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ بڑا ہی بردبار اور بڑا ہی درگذر فرمانے والا ہے۔ ۴۰-۴۴
(اے پیغمبر)، جب تم قرآن سناتے ہو تو ہم تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان ایک مخفی پردہ حائل کر دیتے ہیں جو آخرت کو نہیں مانتے، اور اُن کے دلوں پر غلاف ڈال دیتے ہیں اور کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں کہ نہ اُس کو سمجھیں، (نہ سنیں)۱۶۸؎۔اور جب تم قرآن میں تنہا اپنے پروردگار ہی کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت کے ساتھ پیٹھ پھیر لیتے ہیں ۱۶۹؎۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ جب وہ تمھاری طرف کان لگاتے ہیں تو کس لیے کان لگاتے ہیں ۱۷۰؎اور (اُسے بھی) جب وہ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، جب وہ ظالم کہتے ہیں کہ تم لوگ تو بس ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چل رہے ہو۔ دیکھو، یہ تم پر کیسی کیسی مثالیں چست کر رہے ہیں۔ سو کھوئے گئے ہیں، اب کوئی راستہ نہیں پا رہے ہیں ۱۷۱؎۔۴۵-۴۸
یہ کہتے ہیں کہ جب ہم (گل سڑ کر) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے بنا کر اٹھائے جائیں گے؟ کہہ دو کہ تم پتھر یا لوہا ہو جاؤ یا کوئی اور چیز جو تمھارے خیال میں اُن سے بھی زیادہ مشکل ہو(کہ زندگی کو قبول کر سکے، پھر بھی)۔ اِس پروہ کہیں گے: ہمیں کون لوٹائے گا؟ کہہ دو کہ وہی جس نے پہلی بار تمھیں پیدا کیا تھا۔ پھر وہ (مذاق اڑانے کے انداز میں) تمھارے آگے اپنے سر ہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ (اچھا)، یہ کب ہو گا؟ کہہ دو کہ عجب نہیں کہ اِس کا وقت قریب ہی آ پہنچا ہو۔ یاد رکھو، جس دن خدا تمھیں پکارے گا تو اُس کی حمد کرتے ہوئے تم اُس کے حکم کی تعمیل کرو گے اور تمھارا گمان اُس وقت یہی ہو گا کہ تم تھوڑی ہی مدت (اِس حالت میں) رہے ہو۱۷۲؎۔ ۴۹-۵۲
تم میرے بندوں کو سمجھا دو، (اے پیغمبر) کہ (اِن کے جواب میں) وہی بات کہیں جو بہتر ہو۱۷۳؎۔ اِس لیے کہ یہ شیطان ہے جو (بحث کی گرما گرمی میں) اُن کے درمیان وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (میرے بندو، لوگوں کے لیے جنت اور جہنم کے فیصلے نہ سناؤ)۔ تمھارا پروردگار تمھیں خوب جانتا ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو (رحم کا مستحق سمجھ کر) تم پر رحم فرمائے گا یا چاہے گا تو (عذاب کا مستحق سمجھ کر) تمھیں عذاب دے گا۱۷۴؎۔ (تمھارا کام بھی یہی ہے، اے پیغمبر کہ اِنھیں دعوت پہنچا دو)، ہم نے تم کو اِن کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ (اِسی طرح فضیلت کی بحث میں بھی الجھنے کی ضرورت نہیں ہے)۔ زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں، تمھارا پروردگاراُنھیں خوب جانتا ہے (کہ کس کا درجہ کیا ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض پیغمبروں کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے اور (یہ بھی حقیقت ہے کہ) داؤد کو ہم نے زبور عطافرمائی تھی۔۱۷۵؎ ۵۳-۵۵
(اِن۱۷۶؎ منکروں سے) کہو کہ اُنھیں پکار دیکھو جنھیں تم خدا کے سوا اپنا معبود سمجھتے ہو۔ پھر وہ نہ کسی مصیبت کو تم سے ہٹا سکیں گے، نہ اُس کو بدل سکیں گے۔ جن کو یہ پکارتے ہیں، وہ خود اپنے پروردگار کی قربت کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں کہ اُن میں سے کون سب سے زیادہ قریب ہو جائے۔ وہ اُس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اُس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۱۷۷؎۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرے پروردگار کا عذاب ڈرنے ہی کی چیز ہے۔۵۶-۵۷
۱۶۴؎ اوپر کی ہدایات شرک کی تردید پر ختم ہوئی ہیں۔اُسی سے بات کو آگے بڑھایا اور اُن کی دہری حماقت پر توجہ دلائی ہے کہ اول تو خدا کے شریک ٹھیرا کر حماقت کے مرتکب ہوئے، پھر اُس پر مزید ستم یہ کیا کہ خدا کے لیے اُس چیز کا انتخاب کیا جسے اپنے لیے گوارا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
۱۶۵؎ یعنی توحید کی حقیقت بھی گونا گوں پہلوؤں سے کھول کر بتا دی ہے اور شرک کی شناعت بھی اِس طرح واضح کر دی ہے کہ غبی سے غبی آدمی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ بات اُس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ قرآن کا یہی اسلوب ہے جس سے وہ اپنے اجمال کی تفصیل اور اپنے معجزانہ کلام کی ایسی شرح و تفسیر بن گیا ہے کہ دنیا کی دوسری کتابوں میں اِس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔
۱۶۶؎ اِس لیے کہ شراکت اور وہ بھی خدائی میں شراکت اُنھیں کبھی چپکے ہو کر بیٹھنے نہ دیتی۔ وہ لازماً صاحب عرش سے نزاع اور مخاصمت کی راہ ڈھونڈتے تاکہ خود صاحب عرش بن جائیں اور زمین و آسمان کا یہ سارا نظام اِس کے نتیجے میں درہم برہم ہو جاتا۔
۱۶۷؎ یعنی تم جو تہمتیں چاہو، خدا پر جوڑو، لیکن زمین و آسمان تو اپنے وجود سے گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ تمھاری اِن تہمتوں سے پاک اور بالاتر ہے۔
۱۶۸؎ یہ اُس سنت الہٰی کا بیان ہے جس کے تحت جب کوئی شخص یا گروہ حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر لیتا ہے تو کچھ عرصے کی مہلت کے بعد اُس کی وہ صلاحیت ہی سلب کر لی جاتی ہے جو حق کو پانے اور اُس تک پہنچنے کے لیے خدا نے ہر انسان کو دے رکھی ہے۔ اُس کے بعد صرف عذاب ہی کا انتظار ہوتا ہے جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد لازماً آجاتا ہے۔
۱۶۹؎ اِس لیے کہ اپنے مزعومہ معبودوں کے بغیر وہ کسی خدا کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
۱۷۰؎ یعنی اِس لیے کان نہیں لگاتے کہ اُس سے کوئی نفع حاصل کریں، بلکہ اِس لیے کان لگاتے ہیں کہ نکتہ چینی اور اعتراض کا کوئی پہلو ہاتھ آجائے۔
۱۷۱؎ یعنی حقیقت اتنی واضح ہے کہ اُس کی تردید کے لیے کوئی راستہ نہیں پا رہے ہیں۔ چنانچہ کبھی کاہن، کبھی ساحر اور کبھی مجنون و مسحور کہہ کر گریز و فرار کے راستے تلاش کرتے ہیں۔
۱۷۲؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ مرنے سے لے کر قیامت میں اٹھنے کے وقت تک کی مدت لوگوں کو ایسے ہی محسوس ہو گی کہ ابھی سوئے تھے اور ابھی جاگ پڑے ہیں۔
۱۷۳؎ مطلب یہ ہے کہ یہ جو مثالیں چاہیں،چست کریں اور طنزوتعریض کے جو تیر چاہیں، چلائیں، تمھیں اِن کے جواب میں کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جو خلاف حق ہو یا جس میں حدود سے تجاوز ہو جائے۔ تمھیں ہر حال میں وہی بات کہنی چاہیے جو بر حق ہو اور تمھاری دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔
۱۷۴؎ یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ تم بھی خدا کے رحم و کرم پر ہو، لہٰذا دعوت دو۔ تمھارا دائرۂ عمل یہی ہے۔ تم اپنے اِس دائرے سے گزر کر خدا کے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرو۔
۱۷۵؎ یعنی اگر تمھیں قرآن جیسا شہ پارۂ علم و ادب عطا فرمایا ہے تو اِس سے پہلے اپنے پیغمبر داؤد کو بھی ہم نے ایک بے مثال مزمور عطا فرمایا تھا جس کے الفاظ دلوں پر شبنم بن کر برستے تھے اور داؤد جب اُسے پڑھتے تھے تو اُس کی تاثیر سے زمین کے پہاڑ اور فضا کے پرندے، سب اُن سے ہم آہنگ ہو کر خدا کی حمد و ثنا کے لیے نغمہ سرا ہو جاتے تھے۔
۱۷۶؎ اوپر کا پیرا اثناے کلام میں برسرموقع تنبیہ و ہدایت کے لیے ایک جملۂ معترضہ کے طور پر آگیا تھا۔ یہاں سے کلام پھر اپنے اصل مضمون سے مربوط ہو گیا ہے۔
۱۷۷؎ یعنی فرشتے جنھیں مشرکین خدا کے شریک ٹھیرا کر پوجتے اور اُن سے طالب مدد ہوتے تھے۔
[باقی]
______________