خیال وخامہ
o
اُن کا ایما کہ مرا جذبۂ پیدائی تھا
ایک عالم تھا کہ پھر اُس کا تماشائی تھا
اُن کی دہلیز پہ ہوں ، عرش بریں ہے شاید
رہنمائی کے لیے ذوق جبیں سائی تھا
توڑ کر پھینک دیا ایک ادا سے تو نے
اب یہ کہتے ہو ، وہی باغ کی رعنائی تھا
کس کو ہوتا ہے یہاں قیس کا انداز نصیب!
آپ کے شہر میں یہ ایک ہی سودائی تھا
علم کو دیکھ لیا ، حسن بتاں بھی دیکھا
شوق جس رنگ میں تھا ، باعث رسوائی تھا
تو نے قرآن سے مانگی ہے کبھی چوب کلیم؟
تیرے ہاتھوں میں یہ اِک شعلۂ سینائی تھا
ہم بھی گزرے تھے ، یہی دشت سیاست تھا ، مگر
جس کو سمجھا تھا کہ پربت ہے ، وہی رائی تھا
جب بھی چاہا ، وہ کبھی خواب میں آئے ہوتے
میرے دامن میں کوئی لالۂ صحرائی تھا
تو نے اُس کو بھی ، مری جان ، کہاں بخشا ہے
جس کا ہر سانس ترے حق میں مسیحائی تھا
____________