HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: مریم ۱۹: ۱۶- ۴۰ (۲)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ) 


وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْےَمَ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا مَکَانًا شَرْقِےًّا(۱۶) فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا فَاَرْسَلْنَآ اِلَےْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِےًّا(۱۷) قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِےًّا(۱۸) قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِےًّا(۱۹) قَا لَتْ اَنّٰی ےَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّلَمْ ےَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَکُ بَغِےًّا(۲۰) قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَےِّنٌ وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰےَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِےًّا(۲۱)
فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِےًّا(۲۲) فَاَجَآءَ ھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ قَالَتْ ےٰلَےْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْےًا مَّنْسِےًّا(۲۳)
فَنَادٰھَا مِنْ تَحْتِھَآ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِےًّا(۲۴) وَھُزِّیْٓ اِلَےْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَےْکِ رُطَبًا جَنِےًّا(۲۵) فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَےْنًا فَاِمَّا تَرَےِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْےَوْمَ اِنْسِےًّا(۲۶) 
فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَھَا تَحْمِلُہٗ قَالُوْا ےٰمَرْےَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَےْءًا فَرِیًّا(۲۷) ےٰٓاُخْتَ ھٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَاکَانَتْ اُمُّکِ بَغِےًّا(۲۸) 
فَاَشَارَتْ اِلَےْہِ قَالُوْا کَےْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِےًّا(۲۹) قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِےًّا(۳۰) وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَےْنَ مَا کُنْتُ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَےًّا(۳۱) وَّبَرًّا م بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ ےَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِےًّا(۳۲) وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ ےَوْمَ وُلِدْتُّ وَےَوْمَ اَمُوْتُ وَےَوْمَ اُبْعَثُ حَےًّا(۳۳)
ذٰلِکَ عِےْسَی ابْنُ مَرْےَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِےْہِ ےَمْتَرُوْنَ(۳۴) مَاکَانَ لِلّٰہِ اَنْ ےَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ سُبْحٰنَہٗ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا ےَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَےَکُوْنُ(۳۵) 
وَاِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِےْمٌ(۳۶) 
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْ م بَےْنِھِمْ فَوَےْلٌ لِّلَّذِےْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْھَدِ ےَوْمٍ عَظِےْمٍ(۳۷) اَسْمِعْ بِھِمْ وَاَبْصِرْ ےَوْمَ ےَاْتُوْنَنَا لٰکِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْےَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِےْنٍ(۳۸) وَاَنْذِرْھُمْ ےَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ وَّھُمْ لَا ےُؤْمِنُوْنَ(۳۹) اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَےْھَا وَاِلَےْنَا ےُرْجَعُوْنَ(۴۰)

(اب) اِس کتاب میں مریم کا ذکر کرو، جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (بیت المقدس کے) مشرقی جانب۱۳۰؎ گوشہ نشین ہو گئی تھی اور اپنے آپ کو اُن سے پردے میں کر لیا تھا۱۳۱؎۔ پھر ہم نے اُس کے پاس اپنا فرشتہ بھیجا اور وہ اُس کے سامنے ایک پورے آدمی کی صورت میں نمودار ہوگیا۱۳۲؎۔ مریم (نے اُسے دیکھا تو) بول اٹھی کہ میں تم سے خداے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں، اگر تم اُس سے ڈرنے والے ہو۔ اُس نے کہا: میں تمھارے پروردگار ہی کا فرستادہ ہوں (اور اِس لیے بھیجا گیا ہوں) کہ تمھیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں۔ مریم نے کہا: میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، نہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ میں کبھی بدکاررہی ہوں ۱۳۳؎! اُس نے کہا: اِسی طرح ہو گا۔ تمھارا پروردگار فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے بہت آسان ہے(اور ہم یہ اِس لیے کریں گے کہ وہ ہمارا پیغمبر ہو) اور ہم اُس کو لوگوں کے لیے ایک نشانی ۱۳۴؎اور اپنی طرف سے رحمت بنائیں۔ اور یہ بات طے کر دی گئی ہے۔۱۶-۲۱
سو مریم اُس بچے سے حاملہ ہو گئی اور (بیت المقدس سے نکل کر) اُس حمل کو لیے ہوئے ایک دور کی جگہ چلی گئی۔۱۳۵؎ پھر (وہ وقت بھی آگیا کہ)زچگی کی تکلیف اُسے کھجور۱۳۶؎ کے تنے کے پاس لے آئی۔ (اُس وقت سخت بے بسی کی حالت میں) اُس نے کہا: اے کاش، میں اِس سے پہلے ہی مر جاتی اور بھولی بسری ہو جاتی۔۱۳۷؎ ۲۲-۲۳
اِس پر مریم کے نیچے سے فرشتے نے اُس کو پکار کر کہا: غم نہ کرو، تمھارے پروردگار نے تمھارے پائیں سے ایک چشمہ جاری کر رکھا ہے۔ اور تم کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، تمھارے اوپر تروتازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔۱۳۸؎ سو کھاؤ پیو اور (بچے کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ پھر کوئی آدمی دیکھو(کہ کچھ پوچھنا چاہتا ہے) تو اشارے سے کہہ دو۱۳۹؎ کہ میں نے خداے رحمن کے لیے روزے کی نذر مان رکھی ہے، اِس لیے آج میں کسی انسان سے کوئی بات نہ کروں گی۔۱۴۰؎ ۲۴-۲۶
اِس کے بعد وہ بچے کو گود میں لیے ہوئے اپنے لوگوں کے پاس آئی۔ اُنھوں نے (دیکھا تو)کہا: مریم، تم نے یہ بڑی عجیب حرکت کر ڈالی ہے۔ اے ہارون کی بہن۱۴۱؎، نہ تمھارا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تمھاری ماں کوئی بدکار عورت تھی۔ ۲۷-۲۸
اُس نے جواب میں بچے کی طرف اشارہ کیا(کہ وہی بتائے گا)۱۴۲؎۔لوگوں نے کہا: ہم اُس سے کیا بات کریں جو گود میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟ بچہ بول اٹھا: میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے نبی بنایا اور جہاں کہیں بھی ہوں، مجھے سرچشمۂ خیر و برکت ٹھیرایا ہے۔ اُس نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں، نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام کروں اور مجھے اپنی ماں کا فرماں بردار بنایا ہے، مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۱۴۳؎۔ اور مجھ پر سلامتی (کی بشارت) ہے جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔۲۹-۳۳
یہ تھا مریم کا بیٹا عیسیٰ۔ یہ اصل حقیقت بیان ہوئی ہے جس میں یہ لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ خدا کو شایاں نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔ وہ پاک ہے۔ وہ جب کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کو اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا، پھر وہ ہو جاتی ہے۱۴۴؎۔۳۴-۳۵
اور (بچے نے کہا): یقیناً اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۱۴۵؎۔۳۶
(یہ مسیح کی تعلیم تھی)، مگر اُس کے ماننے والوں کے اندر سے مختلف فرقوں نے باہم اختلاف کیا۔ سو (اب) اُن کے لیے جنھوں نے (اِن حقائق کا) انکار کر دیا ہے،۱۴۶؎ ایک ہول ناک دن کی حاضری کے باعث خرابی ہے۱۴۷؎۔ کیا خوب سنتے اور دیکھتے ہوں گے جس دن ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں پڑے ہیں۔ (اے پیغمبر)، اِنھیں حسرت کے اُس دن ۱۴۸؎سے خبردار کردو، جب معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اِس وقت تو یہ غفلت میں پڑے ہیں اور مان نہیں رہے ہیں۔ (لیکن) اِس میں شبہ نہیں کہ زمین اور زمین کے رہنے والوں کے وارث (بالآخر) ہم ہی ہوں گے اور لوگ ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔۱۴۹؎ ۳۷-۴۰

۱۳۰؎ عورتوں کے اعتکاف و عبادت کی جگہ ہیکل میں مشرقی جانب تھی۔ یہاں اِس سمت کا ذکر اِسی رعایت سے ہوا ہے۔

۱۳۱؎ اِس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعتکاف میں بیٹھ گئی تھیں۔

۱۳۲؎ اِس سے غالباً حضرت مریم کا امتحان مقصود تھا۔ آگے کی آیات سے واضح ہے کہ وہ اِس میں پوری طرح کامیاب رہیں اور اِس نازک موقع پر اُسی کردار کا مظاہرہ کیا جو اُن جیسی جلیل القدر خاتون سے متوقع تھا۔

۱۳۳؎ یہ الفاظ ایک کنواری عفیفہ ہی کی زبان سے موزوں ہو سکتے ہیں، اِس لیے صریح دلیل ہیں کہ کسی یوسف نامی شخص سے حضرت مریم کے نکاح کی جو روایت لوقا میں نقل ہوئی ہے، وہ بالکل بے بنیاد ہے۔

۱۳۴؎ یعنی اپنی عظیم قدرت کی نشانی جس کو دیکھنے کے بعد کسی کو شبہ نہ رہے کہ ہم ایک دن تمام مخلوقات کو اِسی طرح دوبارہ پیدا کر ڈالیں گے۔ سورۂ زخرف (۴۳) کی آیت ۶۱ میں سیدنا مسیح کو اِسی بنا پر ’عِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ‘ (قیامت کی دلیل)کہا گیا ہے۔

۱۳۵؎ انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ بیت اللحم تھی۔ وہ جس صورت حال سے دوچار ہو گئی تھیں، اُس میں یہی ایک چارۂ کار تھا کہ لوگوں کی نظروں سے دوروہ کسی ایسی جگہ چلی جائیں، جہاں کم سے کم حمل کے دوران میں اُن کی لعنت ملامت سے بچی رہیں۔ وہ بنی ہارون کے مقدس ترین گھرانے کی لڑکی تھیں اور بیت المقدس میں معبد کی خدمت کے لیے وقف کر دی گئی تھیں۔ اِس حالت میں ایک کنواری کا حمل اُن کے لیے جیسی پریشانی اور مصیبت کا باعث بن سکتا تھا، اُس کا اندازہ ہر شخص کر سکتا ہے۔

۱۳۶؎ اصل میں لفظ ’النَّخْلَۃ‘آیا ہے۔ یہ غالباً بستی سے باہر کھجور کا کوئی درخت ہو گا۔ وہ اتفاق سے اِس کی طرف آئیں یا اِس کے لیے اُنھیں کوئی غیبی اشارہ کیا گیا تھا، دونوں صورتوں کا امکان ہے۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ یہ پہلے سے متعین تھا، اِس لیے کہ الف لام کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔

۱۳۷؎ اِن الفاظ سے اُس کرب اور پریشانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جس میں حضرت مریم اُس وقت مبتلا ہو گئی تھیں۔ ایک کنواری بچہ جننے جا رہی ہے، اِس کے نتیجے میں جو کچھ رسوائی کا سامان اُن کے لیے ہو سکتا تھا، یہ فقرہ اُس کے لیے اُن کے احساسات کی بالکل صحیح تعبیر ہے۔

۱۳۸؎ مطلب یہ ہے کہ اُن کے لیے وہاں یہ اہتمام کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ جب اپنا کوئی مشن کسی کے سپرد کرتا ہے تو اُس کی رحمت اِسی طرح شامل حال ہوتی ہے۔ چنانچہ کھجور کے تنے کو ہلانے کی ہدایت بھی محض رحمت الٰہی کے ظہور کا بہانہ تھا، ورنہ ظاہر ہے کہ جس عمر میں کھجور کے درخت کو پھل لگتا ہے، اُس کو ہلانے کی قوت حضرت مریم کے بازو میں نہیں ہو سکتی تھی۔

۱۳۹؎ اصل میں لفظ ’قُوْلِیْ‘آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ جس طرح زبان سے کوئی بات کہنے کے لیے آتا ہے، اُسی طرح اشارہ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔

۱۴۰؎ مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھ لو اور کوئی تعرض کرے تو اُس کو اِس طریقے سے ٹال دو۔ اِس سے معلوم ہوا کہ سیدہ جس حالت میں تھیں، یہود کی شریعت میں چپ کا روزہ اُس حالت میں بھی رکھا جا سکتا تھا۔ اسفار یہود سے اِس کی تصدیق ہوتی ہے۔

۱۴۱؎ سیدہ بنی ہارون میں سے تھیں۔ قدیم قبائلی زبانوں میں یہ اسلوب موجود ہے کہ کسی شخص کو قبیلے کے جد اعلیٰ کی نسبت سے مخاطب کیا جائے۔ مثلاً عربی زبان میں قبیلۂ مضر کے آدمی کو ’یا أخا مضر‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے قبیلوں کا ہے۔ہمارے نزدیک یہاں یہی معنی مراد ہیں، اِس لیے کہ ملامت کے موقع پر یہ کہنا نہایت موزوں ہے کہ اے ہارون کے مقدس خاندان کی لڑکی، تیرا باپ شریف اور تیری ماں عفیفہ، پھر حیف ہے کہ تم نے ایسی حرکت کر ڈالی ہے۔

۱۴۲؎ اُنھیں غالباً بتا دیا گیا تھا کہ وہ خاموش رہیں گی اور نومولود سب تہمتوں کا جواب خود دے گا اور اُن کی پاک دامنی اور اپنی وجاہت کی شہادت سب کے سامنے پیش کر دے گا۔ وہ مطمئن رہیں، اُنھیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ اُن کے حق میں ایک ایسی زبان کھولنے والا ہے جو سب کی زبانیں بند کر دے گی۔ اُس نے اگر اُنھیں ایسے غیرمعمولی امتحان میں ڈالا ہے تو اُن کے لیے پوری عزت اور سرخ روئی کے ساتھ اُس سے نکلنے کا سامان بھی وہی کرے گا اور یہ اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔

۱۴۳؎ سیدنا مسیح علیہ السلام کے یہ ارشادات نہایت معنی خیز ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”پہلی بات اُنھوں نے یہ فرمائی کہ ’اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ‘، میں اللہ کا بندہ ہوں۔ یعنی کوئی میری اِس خارق عادت ولادت سے اِس غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو کہ میں کوئی مافوق بشر ہستی ہوں۔ میں اللہ کا بندہ ہی ہوں۔ یہ قرآن نے اُن کے ارشاد ’اِبْنُ اللّٰہِ‘ کی صحیح تعبیر بتائی ہے۔ عبرانی میں ’اِبْن‘ کا لفظ بندہ اور بیٹے،دونوں کے لیے آتا ہے۔ موقع و محل سے اُس کا تعین کرتے ہیں۔ حضرت مسیح کی واضح تعلیمات کی موجودگی میں اِس لفظ کی تاویل میں کسی التباس کی گنجایش نہیں تھی، لیکن پال نے اُس کو فتنے کا ذریعہ بنا لیا اور تثلیث کا ایک پورا گورکھ دھندا تیار کر دیا۔ ہم انجیلوں کی روشنی میں اِس میتھالوجی کی تردید سورۂ آل عمران اور مائدہ کی تفسیر میں کر چکے ہیں۔
دوسری بات اُنھوں نے یہ فرمائی کہ خدا نے مجھے کتاب و نبوت سے سرفراز فرمایا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں، میرا وجود وہاں کے لیے سراپا خیر و برکت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جہاں تک شریعت کا تعلق ہے، تورات ہی کی شریعت پر عامل اور اُسی کے داعی اور مجدد تھے۔ البتہ اُنھوں نے اِس پر حکمت کا اضافہ فرمایا۔ یہی حکمت کے وعظ ہیں جو منتشر اور ناتمام حالت میں ہمیں انجیلوں میں ملتے ہیں۔ یہی لعل و گہر ہیں جو وہ اپنی زبان مبارک سے ہر دشت و چمن میں برساتے ہوئے گزرتے تھے اور جس دل میں ذرا بھی زندگی کی رمق ہوتی تھی، اُس کو زندہئ جاوید کر دیتے تھے۔
 تیسری بات اُنھوں نے یہ فرمائی کہ مجھے زندگی بھر کے لیے نماز اور زکوٰۃ کی ہدایت ہوئی ہے۔ دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو تمام دین و شریعت کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔اِس وجہ سے تمام آسمانی شرائع میں سب سے پہلے اِنھی کا ذکر آتا ہے۔ اِن کی ظاہری شکلیں مختلف ادیان میں مختلف رہی ہیں، لیکن بندگیئ رب اور ہم دردیئ خلق کی روح اِن کی ہر شکل میں محفوظ رہی ہے۔ نماز آدمی کواُس کے رب سے صحیح طور پر جوڑتی ہے اور زکوٰۃ سے اُس کا تعلق خلق کے ساتھ صحیح طور پر استوار ہوتا ہے۔ اِنھی دو چیزوں کی استواری پر تمام دین کے قیام کا انحصار ہے۔ اگر کوئی شخص اِن کو ڈھا دے تو وہ تمام دین کو ڈھا دے گا، اگرچہ وہ دین کے نام پر کتنی ہی لاف زنی کرے۔
 چوتھی بات اُنھوں نے یہ فرمائی کہ خدا نے مجھے اپنی ماں کا فرماں بردار بنایا ہے، مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا ہے۔ یعنی ہر چند میری ولادت کی نوعیت خاص ہے، میرے اوپر میرے رب کے انعامات بھی خاص ہیں، لیکن اِن سب باتوں کے باوجودمیں ایک ماں کا بیٹا اور فرماں بردار بیٹا ہوں۔ خدا کے خاص انعامات کے معنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ میری حیثیت عرفی و بشری میں کوئی فرق آگیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح فرما دی کہ جو اپنے ماں باپ کا فرماں بردار نہیں،وہ جبار و شقی ہے۔ حضرت مسیح کے اِس ارشاد سے انجیل کی بعض اُن روایات کی تردید ہوتی ہے جن سے یہ گمان گزرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ حضرت مریم کا واجبی احترام نہیں کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح پر دعواے الوہیت کی تہمت چپکائی گئی ہے تواُس کی تائید فراہم کرنے کے لیے اِس قسم کی روایات بھی انجیلوں میں داخل کر دی گئیں۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۴۸)

۱۴۴؎ مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے کسی ارادے اور منصوبے کو بروے کار لانے کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے کہ اُسے اولاد کی ضرورت ہو۔ ہر کام کے لیے اُس کا ایک کلمۂ ’کُنْ‘ہی کافی ہے۔ اِس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ مسیح بھی اِسی کلمے کا ایک کرشمہ ہیں۔ اُن کی خارق عادت ولادت ہرگز اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ خدا کا جسدی ظہور ہیں یا اُن میں الوہیت کے قسم کی کوئی چیز پائی جاتی ہے۔

یہ پورا پیرا حضرت مسیح کے ارشادات کے درمیان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جملۂ معترضہ ہے جس میں مخاطبین کو توجہ دلائی گئی ہے کہ حضرت مسیح کی اصل حقیقت یہ ہے جو اُنھوں نے اپنی پیدایش کے فوراً بعد خود اپنی زبان سے واضح کر دی تھی۔

۱۴۵؎ یہ اُسی گفتگو کا حصہ ہے جو جملۂ معترضہ سے پہلے نقل ہوئی ہے۔ انجیل میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’میرا باپ‘ اور ’تمھارا باپ‘ کی جو تعبیر جگہ جگہ آئی ہے، یہ قرآن نے اُس کی تصحیح کر دی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ سیدنا مسیح نے جو بات فرمائی تھی، وہ درحقیقت یہ تھی، لیکن عبرانی زبان میں ’أب‘اور ’ابن‘کے الفاظ چونکہ باپ اور بیٹے اور رب اور بندے کے معنی میں مشترک تھے، اِس لیے نصاریٰ نے سیدنا مسیح کی الوہیت کا عقیدہ ایجاد کیا تو اِس اشتراک سے فائدہ اٹھا کر اُنھیں یہ صورت دے دی۔

۱۴۶؎ سیدنا مسیح کے متبعین میں سے شمعون کے پیرو اِن سب حقائق کو مانتے تھے، لہٰذا یہ اشارہ سینٹ پال کے پیرووں کی طرف ہے جو خود بھی کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اِن میں سب سے نمایاں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ہیں۔

۱۴۷؎ اِس لیے کہ اُس دن تمام حقائق واضح ہو جائیں گے اور سیدنا مسیح اُن کے خلاف خود گواہی کے لیے کھڑے ہوں گے۔ سورۂ مائدہ (۵)میں قرآن نے اِس ’مَشْھَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ‘کی تفصیل کر دی ہے۔

۱۴۸؎ خدا کے سامنے حاضری کے دن کو حسرت کا دن اِس لیے کہا ہے کہ اُس دن سب لوگ حسرت کے ساتھ کہیں گے کہ اے کاش، ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانا نصیب ہو جائے تاکہ ہم ایمان اور عمل صالح کی زندگی گزار کر یہاں واپس آئیں۔

۱۴۹؎ یعنی کسی اور کی طرف نہیں، بلکہ ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اِس لیے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہاں کوئی اِن کی مدد کے لیے کھڑا ہوجائے گا یا اذن الہٰی کے بغیر یہ کسی سے اپنی سفارش کرالیں گے۔

[باقی]

______________________

B