سوال: روزہ کیا ہے اور اس کا معنی و مفہوم کیا ہے؟
جواب: روزہ ہماری دینی عبادات میں بڑی غیر معمولی اہمیت کی حامل عبادت ہے۔ رمضان میں ہم روزے رکھتے ہیں۔ عام دنوں میں بھی نفل روزے رکھے جاتے ہیں۔ ہمارے مذہب ہی میں نہیں، بلکہ دنیا کے تمام مذاہب میں روزے کو یہ حیثیت حاصل رہی ہے کہ تزکیۂ نفس اور اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے یہ عبادت کی جائے۔
عربی زبان میں اس کے لیے ’ صوم‘ کا لفظ آتا ہے، جس کے معنی کسی چیز سے رک جانے ، اس کو ترک کردینے اور اس سے اجتناب کرنے کے ہیں۔ گھوڑوں کو تربیت دینے کے لیے جب بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا تواہل عرب اسے ان کے ’صوم‘ سے تعبیر کرتے تھے۔ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ خاص حدود وقیود کے ساتھ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اسی کو ’روزہ‘ کہتے ہیں۔ انسان چونکہ اس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے اس کا جذبۂ عبادت جب اس کے اس عملی وجود سے متعلق ہوتا ہے تو پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہوجاتا ہے۔ روزہ اسی اطاعت کا علامتی اظہارہے۔ اس میں بندہ اپنے پروردگار کے حکم پراور اس کی رضا اور خوشنودی کی طلب میں بعض جائز چیزوں کو اپنے لیے حرام قرار دے کر مجسم اطاعت بن جاتا او راس طرح گویا زبان حال سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حکم سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔وہ اگر قانون فطرت کی رو سے جائز کسی شے کو بھی اس کے لیے ممنوع ٹھیرا دیتا ہے تو بندے کی حیثیت سے زیبا یہی ہے کہ وہ بے چون وچرا اِس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے(میزان ۳۵۶)۔
سوال: روزے کی تاریخ اور مقصد کیا ہے؟
جواب: جس چیز کو ہم ’روزہ‘ کہتے ہیں، قرآن مجید کے نزول سے پہلے بھی یہ لفظ اس کے لیے استعمال ہوتا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ جس طرح روزہ ہم پر فرض کیا گیا ہے، اسی طرح پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳)
’’ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔‘‘
بنی اسمٰعیل عرب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد تھے، وہ بھی روزے کی عبادت سے پوری طرح واقف تھے۔ یہود و نصاریٰ بھی جانتے تھے کہ روزہ کیا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے تمام ادیان میں روزے کو یہ حیثیت حاصل رہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور اس کو ایک عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہے۔ چنانچہ روزے کے بارے میں یہ باتیں مسلمانوں کے ہاں بھی بالکل تسلیم شدہ ہیں ۔ ہندو، عیسائی اور یہود بھی ’روزے‘ کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ ’روزہ‘ اگرچہ ہماری زبان کا لفظ ہے اور دوسری زبانوں میں ا س کے لیے دوسرے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن جو اس کا مدعا یا مصداق ذہنوں میں آتا ہے، وہ وہی ہے جس کو ہم ’روزہ‘ کہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ تربیت نفس کی ایک اہم عبادت کے طور پر اس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے۔
روزہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اس کی مذہبی حیثیت اور اس کے حدودو شرائط سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ قرآن نے جب اس کا حکم دیا تو ان حدود و شرائط میں سے کوئی چیزبھی بیان نہیں کی، بلکہ ہدایت فرمائی کہ خدا کے ایک قدیم حکم اور انبیا علیہم السلام کی ایک قدیم سنت کے طور پر وہ جس طرح اسے جانتے ہیں، اسی طرح ایک لازمی عبادت کے طور پر اس کا اہتمام کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اسی کے مطابق روزہ رکھا اور مسلمان نسل در نسل اب اسی طریقے کی پیروی کر رہے ہیں۔
اس لحاظ سے روزے کا ماخذ بھی اصلاً مسلمانوں کا اجماع اوران کا عملی تواتر ہی ہے۔ قرآن نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ اسے فرض قرار دیا، مریضوں اور مسافروں کے لیے اس سے رخصت کاقانون بیان فرمایا اوربعد میں جب بعض سوالات اس سے متعلق پیدا ہوئے تو ان کی وضاحت کردی ہے[1]۔
سوال: روزے کی ابتدا کیسے ہوئی؟
جواب: اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کی تین بنیادیں ہیں:
ایک یہ کہ وہ ہمارا معبود ہے اور ہم اس کی پرستش کرتے ہیں،
دوسرے یہ کہ وہ ہمارا مالک اور آقا ہے، بادشاہ ہے؛ ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں،
اور تیسرے یہ کہ ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ وہ اگر کسی موقع پر ہم سے کسی قربانی کا تقاضا کرے تو اس کی حمیت و حمایت میں قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ ’روزہ‘ اس کی اطاعت کا علامتی اظہار (symbolic expression) ہے۔ سیدنا آدم علیہ السلام نے نماز پڑھی، روزے رکھے اور ساری عبادات کیں۔ چنانچہ روزہ، قربانی اور دیگر عبادات پہلے ہی دن سے اور اسی وقت اور زمانے سے چلی آ رہی ہیں[2]۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کا حکم کب اور کہاں دیا گیا؟
جواب:روزے کی عبادت ایک قدیم ترین عبادت ہے۔ دنیا کے جتنے بھی مذہبی تصورات ہیں، ان میں جس طرح پرستش کے لیے کچھ آداب یا مراسم مقرر کیے گئے ہیں، اسی طرح روزہ بھی ایک عبادت رہی ہے۔ دین ابراہیمی کی روایت میں بھی ہم قریش کے ہاں بھی روزوں کا ذکر دیکھتے ہیں۔ عاشورہ کے روزے کی بحث میں بہت سی روایتیں خود ان لوگوں نے نقل کر دی ہیں جو عرب کی قدیم تاریخ پر کام کرتے رہے ہیں۔ ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ میں جواد علی لکھتے ہیں:
’’روایتوں میں ہے کہ قریش یوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔ اِس روزوہ جمع ہوتے، عید مناتے اوربیت اللہ کوغلاف پہناتے تھے۔ اِس کی توجیہ مورخین یہ بیان کرتے ہیں کہ قریش جاہلیت میں کوئی ایسا گناہ کربیٹھے تھے جس کا بوجھ اُنھوں نے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ چنانچہ اِس کا کفارہ ادا کرنا چاہا تو یوم عاشور کا روزہ اپنے لیے مقرر کر لیا۔ وہ اِس دن یہ روزہ اللہ تعالیٰ کاشکر اداکرنے کے لیے رکھتے تھے کہ اُس نے اُنھیں اِس گناہ کے برے نتائج سے محفوظ رکھا۔ روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھتے تھے...اِس روزے کی ایک توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ قریش کوایک زمانے میں قحط نے آلیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اِس سے نجات عطا فرمائی تو اُنھوں نے اِس پر اللہ کا شکر اداکرنے کے لیے یہ روزہ رکھنا شروع کردیا۔‘‘(۶/ ۳۳۹-۳۴۰)
بنی اسرائیل کے ہاں بھی اگر آپ بائیبل کے مجموعۂ صحائف میں دیکھیں تو جگہ جگہ روزوں کا ذکر ہوا ہے۔ پھر روزوں کی بعض اقسام بھی زیر بحث آئی ہیں۔ مثلاً خاموشی کا روزہ ۔ ان کے آداب اور حدود سے متعلق بھی بہت سی چیزیں بائیبل کی آیات، صحائف اور تاریخ میں ملتی ہیں۔
روزوں کے بارے میں یہ بات کہ کوئی ایک ماہ یا ایک وقت اس کے لیے مخصوص کیا جائے، بنی اسرائیل کے ہاں تو یہ طریقہ موجود ہے۔ خود مسیحیوں کے ہاں بھی اس کی روایت رہی ہے، لیکن قریش کے ہاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اس طرح کی کوئی روایت صراحت کے ساتھ تو نہیں ملتی، البتہ یہ بات تاریخ کی روایات سے واضح ہوتی ہے کہ رمضان کے مہینے کو ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی اور اسے ایک عبادت کا مہینا سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ غار حرا میں عبادت کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جو روایات ہم تک پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ایک مہینے میں اعتکاف کی روایت رہی ہے۔ اعتکاف کی یہ روایت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں شروع ہوئی ہے، اس سے پہلے آپ کے دادا حضرت عبد المطلب بھی ایک ماہ کے اعتکاف کا اہتمام کرتے تھے۔ اس میں، ظاہر ہے کہ جس طرح ابراہیمی روایت میں دعا و مناجات، اللہ سے تعلق اور کچھ غور و فکر کا اہتمام کیا جاتا تھا، اسی طرح یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینے میں جب اعتکاف کیا جاتا تو اس کے ساتھ ہی لوگ بہت کچھ اللہ کی راہ میں خرچ، یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور اس طرح کی دیگر بعض نیکیوں کا اہتمام بھی کرتے تھے۔
اس طرح کی روایات ہمیں عرب کی قدیم تاریخ میں ملتی ہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے نبوت کا فیصلہ کیا تو یہ بتایا کہ اب آپ اللہ کے پیغمبر بنا دیے گئے ہیں ۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے جن چیزوں کی تعلیم دی گئی، ان میں اہم ترین چیز نماز تھی۔ نماز پہلے بھی موجود تھی اور نماز کے تصور سے اہل عرب پوری طرح واقف تھے، بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز کا اہتمام کرتے تھے۔ جس طریقے سے نماز پڑھی جاتی تھی، اس کے بہت سے شواہد ہم کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ملتے ہیں۔ بخاری کی روایت ہے کہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے سے پہلے ہی نمازوں کا پابند ہو گیا ہوا تھا (مسلم، رقم۶۳۵۹)۔
قریش کے صالحین بھی نمازوں کا اہتمام کرتے تھے۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ خود قریش کے اندر ایسے بہت سے لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ ہم تو ابراہیمی روایت کے مطابق دین کے آداب بجا لاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شخصیت کے بارے میں بھی یہ معلوم ہے کہ آپ نے کبھی نبوت سے پہلے بھی شرک نہیں کیا، آپ توحید ہی کے ماننے والے تھے اور آپ نے وہ چیزیں کبھی نہیں کیں جو مشرکانہ بدعات کے تحت اختیار کر لی گئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج و عمرہ کرنے کی جو روایتیں پہلے سے معلوم ہیں، ان میں بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے نبوت سے پہلے بھی حج اسی طریقے کے مطابق کیا جو اب ہمارے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قریش نے جو اس میں بدعتیں داخل کر دی تھیں، ان میں سے کسی کا آپ نے ارتکاب نہیں کیا۔ چنانچہ روزے رکھنے کے معاملے میں بھی یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک عمومی طریقہ تو اختیار کر لیا گیا تھا کہ روزے رکھے جاتے تھے۔
چنانچہ عاشورہ کے روزوں کے بارے میں بہت سی روایات ملتی ہیں کہ ان کا اہتمام ہونے لگا تھا، لیکن ہمارے پاس جو بھی تاریخی معلومات ہیں، ان سے یہی واضح ہوتا ہے کہ مدینہ میں آنے کے بعد کسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کو اس کا پابند کیا ہے کہ اب ہم رمضان کے پورے مہینے کے روزے رکھیں گے۔ یہ پورے مہینے کے روزے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کر دیے؛ یہ متعین طور پر جاری کیے گئے اور ان کے لیے رمضان ہی کا مہینا مقرر کیا گیا۔ ان کی ابتدا قرآن مجید کے کسی حکم سے نہیں ہوئی۔ قرآن مجید کی سورۂ بقرہ میں جو حکم بیان ہوا ہے، وہ اصل میں اس فیصلے کی حکایت ہے، یعنی فیصلہ ہو چکا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق لوگ روزے رکھنا شروع ہو گئے اور اس کے لیے رمضان کا مہینا مقرر کر دیا گیا۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ابتداءً قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئی۔ اب قرآن مجید نے بعض سوالات کے جواب دیتے اور بعض رخصتوں کو بیان کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ یہ دیکھیے کہ یہ بات خود قرآن مجید کے الفاظ سے واضح ہو جاتی ہے، ابتدا ان الفاظ سے کی ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍﵧ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ. (البقرہ۲: ۱۸۳-۱۸۴)
’’ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ ۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ اِس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے ۔‘‘
یعنی یہ جو روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں، یہ وہی روزے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے فرض کر چکے ہیں۔ روزوں کی عبادت فرض کی جا چکی ہے، ایک متعین طریقے سے فرض کی جا چکی ہےاور ایک متعین مہینے میں فرض کی جا چکی ہے تو یہ فرمایا کہ ایمان والو، یہ جو روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں، یہ بالکل اسی طرح فرض کیے گئے ہیں، جس طرح یہ پہلی امتوں پر فرض رہے ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا کہ پہلی امتوں میں روزے کا تصور بھی موجود تھا اور ان کے لیے کچھ مخصوص ایام بھی تھے، لیکن یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ وہ رمضان ہی کا مہینا تھا۔ رمضان کا مہینا مشرکین عرب کے ہاں ایک خصوصی حیثیت رکھتا تھا اور عبادت اور اعتکاف کا مہینا سمجھا جاتا تھا۔ قرآن مجید نے یہ بتایا کہ جس طرح پہلی امتوں پر یہ فرض عائد کیا گیا تھا، اسی طرح تم پر عائد کیا گیا ہے۔
پھر اس کا مقصد بیان کیا کہ ’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ‘، یعنی تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی مشق کرو گے تو اس کے نتیجے میں تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہو گا ، تم اپنی خواہشات اور رغبات کو ڈسپلن کرنا سیکھو گے اور تمھیں معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا ایک ناگزیر تقاضا یہ ہے کہ بندہ اس سے ڈرنے والا بن کر رہے، اس کے حضور میں پیشی کے احساس کے ساتھ جیے اور اس کے حکم کی پیروی کرے۔
چنانچہ یہ بنیادی بات جب واضح کر دی گئی تو اس کے بعد یہ کہا ہے کہ ’’یہ گنتی کے چند دن ہیں‘‘ تو ظاہر ہے کہ ایک چیز پہلے سے معلوم و متعین ہے کہ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ یہاں درحقیقت یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ انتیس تیس دن کوئی بہت بڑی مدت نہیں ہے۔ اگر تم اس کے مقصد پر نگاہ رکھو اور یہ چیز ملحوظ رکھو کہ تمھیں اس سے حاصل کیا ہونے والا ہے تو یہ گنتی ہی کے چند دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی شریعت میں یہ چیز ملحوظ رکھتے ہیں کہ:
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.(البقرہ۲: ۲۸۶)
’’اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘
لوگوں پر اتنی ہی ذمہ داری ڈالی جائے جس کا وہ تحمل کر سکتے ہیں۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ یہ ذمہ داری ہم نے ڈالی ہے تو یہ کوئی بھاری ذمہ داری نہیں ہے۔ چنانچہ آگے یہ فرمایا کہ تم میں سے کوئی مریض یا مسافر ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ دو نمایاں چیزیں ہیں جو قرآن مجید نے اپنے عام طریقے کے مطابق بیان کر دی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عذر پیش آ گیا ہے یا کوئی غیرمعمولی مشقت پیش آ گئی ہے تو روزہ چھوڑ سکتے ہو، لیکن جیسا کہ آگے فرمایا ہے کہ ’فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ‘ ، روزہ چھوڑنے کے بعد دوسرے دنوں میں تم یہ تعداد پوری کرو گے۔ لہٰذا یہ اسی وقت کہا جا سکتا تھا جب اس کے دن بالکل متعین ہوں۔ قرآن مجید نے یہ بیان تو نہیں کیا کہ یہا ں وہ کون سے دن ہیں، لیکن یہ اسلوب بیان ہی بتا رہا ہے کہ یہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر ہو چکے ہیں، مسلمان ان کا اہتمام کر رہے ہیں اور انھوں نے روزے رکھنا شروع کر دیے ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بتاتے ہیں کہ یہ تم پر فرض کیے گئے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ رخصت کا قانون بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں اگر تمھیں کوئی سفر یا مرض یا عذر درپیش ہو جائے تو اس موقع پر تمھارے لیے کیا قانون ہے؟ اس کے بعد کچھ وقفے کے بعد، یعنی کچھ مدت کے بعد پھر اس موضوع کو لیا ہے اور وہاں یہ بتایا ہے کہ اس کے لیے رمضان کا مہینا کیوں مقرر کیا گیا ہے؟ اس میں جو رخصت اوپر دی گئی تھی، اس میں بھی ترمیم کر دی گئی ہے۔ آگے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں تو ان کا جواب یہ ہے ۔
ظاہر ہے کہ پہلے سے ایک مذہبی روایت موجود ہے اور اہل کتاب بھی روزے رکھتے ہیں تو اس کی بنیاد پر سوالات پیدا ہو رہے ہیں ۔ چنانچہ اس سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ روزوں کے لیے رمضان کے مہینے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا۔ ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی ہدایت کے مطابق مقرر کیا، یہ آپ ہی کی طرف سے شروع کیے گئے اور لوگوں نے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ پہلے سے جو چیز عمل میں آ چکی ہے، قرآن مجید میں سورۂ بقرہ کی آیات اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ رخصتیں بیان کرتی اور کچھ سوالوں کے جواب دیتی ہیں[3]۔
سوال: روزے کا قانون اور احکام کیا ہیں ؟
جواب: انبیا علیہم السلام کے دین میں روزے کا جو قانون ہمیشہ سے رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی کے مطابق روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍﵧ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَﵧ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍﵧ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗﵧ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًي لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰي وَالْفُرْقَانِﵐ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُﵧ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَﵧ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَﵟ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ. وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌﵧ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ. اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰي نِسَآئِكُمْﵧ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّﵧ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْﵐ فَالْـٰٔنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْﵣ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِﵣ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَي الَّيْلِﵐ وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِﵧ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَاﵧ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۸۳- ۱۸۷)
’’ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ اِس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ اور جو اِس کی طاقت رکھتے ہوں کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں تو اُن پر ہر روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے، اور روزہ رکھ لو تو یہ تمھارے لیے اور بھی اچھا ہے، اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لوگوں کے لیے سراسر ہدایت بنا کراور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو (اپنی نوعیت کے لحاظ سے) رہنمائی بھی ہیں اور حق و باطل کا فیصلہ بھی۔ سو تم میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو، اُسے چاہیے کہ اِس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ (یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے۔ اور (فدیے کی اجازت) اِس لیے (ختم کر دی گئی ہے) کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو، (اور جو خیرو برکت اُس میں چھپی ہوئی ہے، اُس سے محروم نہ رہو)۔ اور (اِس مقصدکے لیے رمضان کا مہینا) اِس لیے (خاص کیا گیا ہے) کہ (قرآن کی صورت میں) اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پر اُس کی بڑائی کرو اور اِس لیے کہ تم اُس کے شکر گزار بنو۔ اور میرے (کسی حکم کے) بارے میں، (اے پیغمبر)، جب میرے بندے تم سے کوئی سوال کریں تو (اُن سے کہہ دو کہ اِس وقت) میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا اُن کو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔ (تم پوچھنا چاہتے ہو تو لو ہم بتائے دیتے ہیں کہ) روزوں کی رات میں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمھارے لیے جائز کیا گیا ہے۔ وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اُس نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے درگذر کیا۔چنانچہ اب (بغیر کسی تردد کے) اپنی بیویوں کے پاس جاؤ اور (اِس کا )جو( نتیجہ) اللہ نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے، اُسے چاہو، اور کھاؤ پیو، یہاں تک کہ رات کی سیاہ دھاری سے فجر کی سفید دھاری تمھارے لیے بالکل نمایاں ہو جائے۔ پھر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ اور ہاں، تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو رات کو بھی بیویوں کے پاس نہ جانا۔ یہ اللہ کی مقررکی ہوئی حدیں ہیں، سو اِن کے قریب نہ جاؤ۔ اللہ اِسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ ‘‘
قرآن کی اِس وضاحت کے بعد روزے اوراعتکاف کا جو قانون متعین ہو کر سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے:
روزے کی نیت سے اور محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے سے اجتناب ہی شریعت کی اصطلاح میں ’روزہ‘ ہے۔ یہ پابندی فجر سے لے کر رات کے شروع ہونے تک ہے، لہٰذا روزے کی راتوں میں کھانا پینا اور بیویوں کے پاس جانا بالکل جائزہے۔ روزوں کے لیے رمضان کا مہینا خاص کیا گیا ہے، اس لیے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، اس پر فرض ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
بیماری یا سفر کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کے باعث آدمی اگر رمضان کے روزے پورے نہ کرسکے تو لازم ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر اس کی تلافی کرے اور یہ تعداد پوری کردے۔ حیض ونفاس کی حالت میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ تاہم اس طرح چھوڑے ہوئے روزے بھی بعد میں لازماً پورے کیے جائیں گے۔
روزے کا منتہاے کمال اعتکاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی شخص کو اس کی توفیق دے تو اسے چاہیے کہ روزوں کے مہینے میں جتنے دنوں کے لیے ممکن ہو، دنیا سے الگ ہوکر اللہ کی عبادت کے لیے مسجد میں گوشہ نشین ہوجائے اور بغیر کسی ناگزیر انسانی ضرورت کے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ آدمی اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو تو روزے کی راتوں میں کھانے پینے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن بیویوں کے پاس جانا اس کے لیے جائز نہیں رہتا۔ اعتکاف کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ روزے کا یہ قانون مسلمانوں کے اجماع اورتواتر عملی سے ثابت ہے اورقرآن مجید نے بھی بڑی حد تک اِس کی تفصیل کردی ہے (میزان ۳۷۰)۔
سوال: ہم ماہ رمضان کے مبارک ایام کیسے گزاریں؟
جواب: رمضان کی حقیقت خود بھی سمجھیے اور اپنی اولاد کو بھی اس کےبارے میں بتائیے۔ کوئی چیز بھی انسان کے نفس پر اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتی جب تک اس کے شعور میں نہیں آ جاتی۔ رمضان کی حقیقت قرآن مجید نے اس طرح واضح کر دی ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳)
’’ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس امتحان میں ڈالا ہے، اس میں خدا کے حوالے سے ایک پہلو یہ ہے کہ انسان خدا کی اطاعت کرے۔ خدا کہتا ہے کہ جھوٹ نہ بولو، بددیانتی نہ کرو، حق تلفی نہ کرو، کسی کی جان ، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی نہ کرو، تو ہمیں اس سے اجتناب کرنا ہے۔ خواہشات کہتی ہیں کہ اگر کچھ سمیٹ سکتے ہو تو سمیٹ لو، کسی کا مال کھا سکتے ہو تو کھا لو اور کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہو تو پہنچا دو۔ کبھی انتقام کا جذبہ، کبھی خواہش کا جذبہ، کبھی اقتدار کی خواہش، یہ سب چیزیں جرائم اور گناہوں پر آمادہ کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے روکتے ہیں۔
اسلام اعلیٰ ترین اخلاق پر زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔ اعلیٰ ترین اخلاق پر زندگی بسر کرنے کا کوئی ایک شعبہ نہیں ہے۔ آپ کو کاروبار میں، سیاست میں، معاشرت میں ، گھر میں، گھر سے باہر، ہر جگہ اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں پر زندگی بسر کرنی ہے۔ جب آپ ان اصولوں پر زندگی بسر کرتے ہیں تو اپنی خواہشات، رغبات اور چاہتوں کو حدود کا پابند کر دیتے ہیں۔ اسی کو ’تقویٰ ‘ کہتے ہیں، یعنی اپنے آپ کو بے لگام نہ چھوڑ دیا جائے، بلکہ اپنے اوپرنظم و ضبط (discipline) نافذ کیا جائے کہ تم جھوٹ نہیں بولو گے، دھوکا نہیں دو گے، اپنا نقصان برداشت کر لو گے ، مگر کسی کا مال نہیں کھاؤ گے اور کسی کی حق تلفی نہیں کرو گے۔
چنانچہ ہمارا مذہب چاہتا ہے کہ ہم یہی زندگی بسر کریں۔ اس کا ظہور ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہونا چاہیے۔ مذہب کا یہ پیغام ہے کہ آدمی گھر میں بیوی اور اولادکے ساتھ اور بیوی شوہر کے ساتھ معاملہ کر رہی ہو، وہ رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ معاملہ کر رہا ہو، آپ منڈی میں بیٹھے ہوں، کوئی دوا بنا رہے ہوں، کوئی سودا بیچ رہے ہوں ، کہیں مال بھیج رہے ہوں ، کسی جگہ ملازمت کر رہے ہوں یا آپ سیاست و معیشت میں ہوں ، ہر جگہ اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں پر قائم رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ:
إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلاَقِ.(السنن الکبریٰ، رقم ۲۱۳۰۱)
’’ میں صرف اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ میں اعلیٰ اخلاق کو ان کے کمال تک پہنچا دوں۔ ‘‘
اعلیٰ اخلاق کی زندگی کوئی آسان زندگی نہیں ہے۔ یہ زندگی ہمیں ہر جگہ بسر کرنی ہے۔ جب یہ زندگی بسر کرنی پڑے گی تو آپ کو حدود میں رہنا پڑے گا۔ اس کو عربی زبان میں ’تقویٰ‘ کہا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو ان حدود میں رکھیے جو اخلاقی لحاظ سے آپ کو ایک اعلیٰ، توانا اور صحت مند انسان بنائے۔ روزہ اسی کی تربیت دیتا ہے۔ اس تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک انتہائی موثر طریقہ اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو تین جبلی تقاضوں پر پابندی لگا دی ہے۔ جبلی تقاضوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دو چار گھنٹوں میں اندر سے زور کرنا شروع کر دیتے ہیں؛ پیاس اور بھوک لگنا شروع ہو جائےگی۔
روزہ آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تم خدا کے بندے ہو اور تمھیں خدا کے حکم پر اپنے جبلی تقاضوں پر زور لگا کر پابندی عائد کر دینی ہے اور تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ آپ دیکھیے کہ جب چار پانچ گھنٹے رہ جاتے ہیں تو اس کے بعد وہ سب کچھ ہونا شروع ہو جاتا ہے جس میں انسان بے بسی کی کیفیت میں آ جاتا ہے؛ پیاس اور بھوک ستا رہی ہوتی ہے اور ایک ہی چیز اسے روک رہی ہوتی ہے کہ یہ میرے پروردگار کا حکم ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اطاعت کا یہ جذبہ ہے کہ میں خدا کی بات مانوں گا، اور خدا کی بات اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنا ہے۔ اس بات ماننے کو عربی زبان میں ’اطاعت‘ کہتے ہیں۔ انسان مجسم اطاعت بن جاتا ہے۔
چنانچہ روزہ اس کی تربیت دیتا ہے۔ ہر سال یہ کم و بیش ۷۲۰ گھنٹے کے لیے ہمیں یہ سکھانے کے لیے آتا ہے کہ تم خدا کے بندے ہو اور کاروبار، معیشت ، معاشرت اور سیاست میں خدا جو کچھ کہہ رہا ہے، تمھیں ان اخلاقی اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ یہ پیغام اپنے بچوں اور اپنے نفس کو دیجیے۔ اس کے بعد خود بہ خود روزے کی تیاری ہو گی، لیکن اگر رمضان کا مہینا منانے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے کہ گویا یہ بھی کوئی کھانے پینے اور افطار کی مجلسیں منعقد کرنے کا مہینا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ بچے بھی یہی درس لیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو شعبان کے مہینے میں نفل روزے بھی رکھ لیجیے تاکہ ذہنی تیاری کے ساتھ روزہ رکھنے کی عادت بھی پڑے، اس لیے کہ اس مہینے میں ایک ذہنی، فکری اور عملی تیاری شروع ہو جاتی ہے[4]۔
سوال: قرآن مجید اور ماہ رمضان کا باہمی تعلق کیا ہے ؟
جواب: ایک تعلق تو وہ ہے جو قرآن مجید کے نزول سے پیدا ہو گیا، یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے وقت کا انتخاب کرنا تھا جس میں وہ اپنے پیغمبر پر اپنی کتاب نازل کر سکے، اس لیے یہ رمضان کا مہینا تھا جس میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے بعد میں یہ بتا دیا کہ وہ رات بھی اسی رمضان میں آئی جسے ’لیلۃ القدر‘ کہا جاتا ہے[5]۔ ہمارے ہاں اسے عام تعبیر میں ’’شب قدر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس رات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی معمولی رات نہیں ہے۔ راتوں میں سے ایک رات نہیں ہے، بلکہ ایسی رات ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فیصلوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ وہ ’لَيْلَةُ الْقَدْرِ‘ ہے ۔ ’قَدْرِ‘ کا لفظ یہاں ’فیصلوں کی رات‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کی عظمت بھی بیان کر دی ہے کہ ’خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ‘ (وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے)۔ اس کے بارے میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس میں فرشتے اور روح الامین اللہ کے فیصلے لے کر اترتے ہیں۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا جو نظم قائم کیا ہے ، اس میں اس رات کی بڑی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ یہ رات بھی رمضان میں آئی اور مہینا بھی رمضان کا تھا۔
ایک تو یہ نسبت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک پورے مہینے کے روزے رکھنے چاہییں۔ روزہ ہمیشہ اللہ کی شریعتوں کا حصہ رہا ہے۔ تمام پیغمبروں کے ہاں روزوں کی عبادت موجود رہی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ سیدنا یونس علیہ السلام تو نینوا میں ہوئے ہیں اور یہ بہت پرانی تہذیب ہے۔ یہاں آشوری قوم آباد تھی۔ قرآن مجید اور بائیبل سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کی قوم عذاب کو دیکھ کر ایمان کے لیے متوجہ ہوئی تو انھوں نے روزہ رکھا، یعنی بادشاہ اور پوری قوم نے روزہ رکھا۔ ’’صحیفۂ یونس‘‘ میں ہے:
’’ تب نینوا کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ واعلیٰ، سب نے ٹاٹ اوڑھا۔ اوریہ خبر نینوا کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا۔ اور بادشاہ اوراُس کے ارکان دولت کے فرمان سے نینوا میں یہ اعلان کیا گیا اور اِس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا حیوان ،گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اورنہ کھائے پیے، لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اورخدا کے حضور گریہ و زاری کریں، بلکہ ہر شخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے۔‘‘ (۳: ۵-۸)
چنانچہ روزہ ایک پرانی عبادت ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ پورے مہینے کے روزے اب قیامت تک مسلمانوں کو عبادت کے طور پر رکھنے ہیں تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کا انتخاب کیا جس میں قرآن نازل ہوا تھا، لہٰذا اب ایک معنوی نسبت بھی پیدا ہو گئی، یعنی نزول کی نسبت تو موجود ہی تھی، ایک معنوی نسبت بھی پیدا ہو گئی۔ اس معنوی نسبت کو سمجھنا چاہیے۔ ہم جب روزے کے بارے میں قرآن میں یہ پڑھتے ہیں کہ یہ کیوں لازم کیا گیا ہے؟ تو اس کاجواب قرآن مجید نے یہ دیا ہے کہ ’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ‘ تاکہ تمھارے اندر اللہ تعالیٰ کے حدود کو ملحوظ رکھ کر زندگی بسر کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ تمھیں اندازہ ہو جائے کہ تمھیں دنیا میں بے پروائی کی زندگی بسر نہیں کرنی۔ تمھیں اپنی پیدایش اور موت کوسمجھنا ہے۔ زندگی کو ایک سنجیدہ حقیقت سمجھ کر بسر کرنا ہے اور خواہشات و رغبات کی اس کشمکش میں اپنے آپ کو حدود کا پابند رکھنا ہے۔ یہی تقویٰ ہے۔
اس دنیا میں ایک کشمکش برپا ہے؛ یہ خیر وشر کی کشمکش ہے۔ اس میں انسان کے اندر رغبتیں ، خواہشیں، جذبات اور تمنائیں بھی ہیں۔ اس کے اندر عقل بھی ہے اور اسے ارادہ و اختیار بھی دیا گیا ہے۔ لہٰذا صحیح فیصلہ کرنا ہے اور اپنے آپ کو حدود کا پابند رکھنا ہے۔ اپنی باگ خواہشات کے ہاتھ میں نہیں دے دینی۔ اصل میں ہمارے اندر ہمارا نفس ایک سرکش گھوڑے کی صورت میں موجود ہے ، اس کو عام طور پر خواہشات جدھر چاہتی ہیں، لے جاتی ہیں۔ اس لیے اس کو ایک باگ دے کر اور سنبھال کر رکھنا ہے تاکہ یہ صحیح راستے پر گامزن رہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ تقویٰ بڑی غیرمعمولی چیز ہے۔ جب آپ پورے قرآن کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز ہدف کی حیثیت رکھتی ہے، وہ بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخر میں انسانوں کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ رنگ ، نسل اور نسب جیسی جتنی چیزیں بھی دنیا میں ہیں، یہ باعث شرف نہیں ہیں، بلکہ ’اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ‘ (الحجرات۴۹: ۱۳)، یعنی اللہ کے ہاں جو چیز باعث شرف ہو گی، وہ تمھارا سب سے بڑھ کر متقی، پرہیز گار، پروا کی زندگی بسر کرنے والا اور حدود آشنائی کی زندگی بسر کرنے والا ہونا ہی ہو گا۔ قرآن مجید اسی تقوے کی دعوت لے کر آیا ہے۔
باطن کے لحاظ سے تعبیر کریں گے تو تزکیہ ہے اور شریعت کے پورے نظام کو سامنے رکھ کر تعبیر کریں گے تو تقویٰ ہے۔ چنانچہ تقویٰ اور تزکیہ صرف دو پہلوؤں سے الگ الگ لفظ بن جاتے ہیں،ورنہ دین کا اصلی ہدف انھی دو لفظوں کے اندر چھپا ہوا موجود ہے، یعنی آپ پاکیزگی اختیار کریں گے تو یہ باطن ہے اور اس پاکیزگی کا ظہور اللہ کے حدود کی پیروی میں ہو گا تو وہ تقویٰ ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی پوری دعوت کا ہدف ہی یہ تقویٰ ہے۔ اب جس چیز کو قرآن اپنی دعوت کا ہدف کہتا ہے، وہ روزے سے پیدا ہوتا ہے اور روزے کا مقصد یہی ہے، اس لیے یہی مہینا اس کے لیے مناسب تھا کہ اس کو روزے کا مہینا بنا دیا جائے، یعنی قرآن جس مقصد کے لیے نازل ہوا ہے، یہ اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے انسان کو تیار کرتا ہے، بلکہ سب سے بڑھ کر تیار کرتا ہے۔
چنانچہ عبادات کا جب آپ جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز جس پرستش کے تعلق کو نمایاں کرتی ہے یا حج و عمرہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ حمیت و حمایت کے تعلق کو نمایاں کرتے ہیں، یہ چیزتقوے کو ہدف بنا کر ہم پر فرض کی گئی ہے۔ چونکہ یہ دعوت کا اصلی مقصود ہے، اس لیے قرآن مجید اسی کو پیدا کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور ماہ رمضان کا یہی باہمی تعلق ہے جس کے لیے اسی مہینے کا انتخاب کیا گیا۔ چونکہ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا ہے اور قرآن کی دعوت تقوے کی دعوت ہے، اس لیے جو مہینا تقویٰ پیدا کرتا ہے یا جو روزے اور عبادت تقویٰ پیدا کرتی ہے، اس کو پھر اسی کے ساتھ خاص کر دینا چاہیے[6]۔
سوال: کیا ماہ رمضان میں ہر قسم کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ؟
جواب: اصول یہ ہے کہ جب آپ کوئی فکر یا نظریہ پیش کرتے ہیں، آپ کا نظام فکر مکمل بیان ہو جاتا ہے اور پھر آپ کسی موقع پر کسی جز پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ اس کے تمام لوازم اور تقیدات بھی بیان کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو بہت سی روایات بیان ہوتی ہیں، ان میں بھی، ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرآن دے دیا ، بہت سے دوسرے اصولی مقدمات واضح کر دیے اور ایک سنت جاری کر دی ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اسی فریم میں رکھ کر سمجھا جائے گا۔ لہٰذا قرآن مجید سے جو اصول واضح ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ گناہ دو طرح کے ہیں:
ایک وہ جو خدا کے حوالے سے ہوتے ہیں،
اور دوسرے وہ جو بندوں کے حوالے سے ہوتے ہیں۔
بندوں کے حوالے سے کوئی گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک بندہ معاف نہ کر دے، یعنی قتل ، زیادتی اور حق تلفی معاف نہیں ہو جائے گی؛ وہ تو بندے کےساتھ معاملہ کرنا ہے۔لیکن وہ گناہ جو خدا کے حوالے سے ہیں، مثلاً نماز اور روزہ چھوٹ گئے یا ان میں کوئی کوتاہی ہو گئی تو رمضان ان گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس مہینے میں ہر انسان کے لیے یہ اللہ کی بڑی بشارت ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے متعلق عمرے یا رمضان کے ذریعے سے گناہ معاف فرما دیتے ہیں، لیکن ملاوٹ یا دھوکا دہی معاف نہیں کریں گے ، اس لیے کہ اس میں دوسرا آدمی آ گیا ہے ۔ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہاں معاملہ صاف کرکے نہیں جاؤ گے تو قیامت میں اس شخص کو موقع دیا جائے گا کہ وہ آپ کے ساتھ معاملہ کرے، تو آپ کے پاس سواے اسے اپنی نیکیاں دینے اور اس کی برائیاں لینے کے کچھ نہیں ہو گا۔لہٰذا ان دونوں کے حوالے سے یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ:
اولاً، وہ گناہ ہیں جو ہم اللہ تعالیٰ کے حوالے سے کرتے ہیں، یعنی حقوق اللہ میں کوتاہی کرتے ہیں، مثلاً نماز اور روزے کا اہتمام نہیں کیا؛ ہمارے پاس مال تھا اور استطاعت تھی تو حج و عمرہ کرنے کا خیال نہیں آیا۔ عبادات کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے سے ہم پر لازم ہوتی ہیں یا اللہ ہی کے حوالے سے گناہ بنتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جنسی نوعیت کے بہت سے معاملات ہیں جو بندے اور خدا ہی کے مابین ہوتے ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے بارے میں کسی دوسرے سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ گناہ کے درجات کو متعین کریں تو اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جو حقوق اللہ کے حوالے سے آپ کے سامنے آئیں گی۔
ثانیاً، وہ گناہ ہیں جو حقوق العباد کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں۔ آپ نے کسی بندے کی حق تلفی کردی؛ ماں، باپ، عزیز اور رشتہ دار کی حق تلفی کر دی۔ آپ نے کسی کی جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی کر دی۔ قرآن مجید نے یہ بیان کیا ہے کہ گناہوں کی ایک نوعیت ’اِثْم‘ ہے اور ایک ’عدوان‘ ہے۔ حق تلفی اور زیادتی میں، ظاہر ہے کہ دوسرا فریق بھی موجود ہے تو اس دوسرے فریق سے آپ نے اپنا گناہ معاف کرانا ہے۔ اس میں معافی بھی چاہیے اور تلافی بھی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے جتنے گناہ ہیں، ان میں کسی دوسرے سے نہ معافی کی ضرورت ہے اور نہ تلافی کی۔
چنانچہ یہ جتنی بھی بشارتیں ہیں، خواہ لیلۃ القدر کے حوالے سے ہیں، رمضان کے حوالے سے یا حج و عمرے کے حوالے سے ہیں ، یہ سب اصل میں حقوق اللہ سے متعلق ہیں۔ حقوق العباد کے متعلق تو ہمیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر دنیا میں اس کا معاملہ صاف نہیں کیا گیا تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہمیں اس بندے کے سپرد کر دے گا اور پھر اس کو راضی کرنا پڑے گا ۔ ایک حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ اس موقع پر اس شخص کو دینے کے لیے نیکیوں کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور لینے کے لیے اس کی برائیوں کے سوا کچھ نہیں ہو گا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».(بخاری، رقم ۲۴۴۹)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقے سے ظلم کیا ہو تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی ۔ ‘‘
اس لیے یہ گناہوں کی معافی کی جو بات کہی جاتی ہے، اس کے بارے میں ہر شخص کو متنبہ ہونا چاہیے کہ اس کا تعلق اس رحیم و کریم ہستی سے ہے جس کے کسی حکم کی تعمیل میں کوتاہی ہو جاتی ہے۔ وہ چونکہ بڑا ہی رأفت و رحمت رکھنے والا ہے تو اس نے اس کے لیے معافی کے مواقع پیدا کر دیے ہیں؛ حج و عمرہ کرو تو معاف کردوں گا، جمعہ کا اہتمام کرو تو معاف کردوں گا، یہی معاملہ رمضان میں بھی ہوتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کا مال کھا لیں یا کسی کے پلاٹ پر قبضہ کر لیں اور اس کے بعد کہیں کہ میں نے حج و عمرہ کر لیا ہے، میں نے جمعہ پڑھ لیا ہے اور میں نے رمضان کے روزے رکھ لیے ہیں، اس لیے میرے گناہ معاف ہو گئے۔
چنانچہ وہ بشارتیں جن میں انسان کی مغفرت یا معافی کا ذکر ہے، وہ حقوق اللہ سے متعلق ہیں ، ان کا حقو ق العباد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقوق العباد میں بندے کو راضی کرنا ہے، اس سے معافی مانگنی ہے، اگر اس کا کوئی مال اس کے پاس ہے تو وہ واپس کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ معافی کی کوئی صورت نہیں ہے، بلکہ آخرت میں بھی اللہ کے بندے کے ساتھ ہی معاملہ کرنا پڑے گا۔
اس لیے اللہ کے بندوں کے جو حقوق ہیں، ان کے بارے میں کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ رمضان آئے گا اور روزے رکھیں گے یا حج کریں گے تو معاف ہو جائیں گے؛ حج وعمرے میں وہ گناہ معاف ہوتے ہیں جو خدا سے متعلق ہیں[7]۔
سوال: کیا رمضان المبارک میں عبادت کے علاوہ تفریحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا جا سکتا ہے؟
جواب: روزے کی حالت میں روزے کے آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس میں کچھ چیزیں وہ ہیں جو ممنوع قرار دی گئی ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن کے بارے میں کسی عاقل کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ عام حالات میں بھی ناجائز ہیں اور روزے میں تو بالکل ہی نہیں ہونی چاہییں، مثلاً کسی کی غیبت، جھوٹ بولنا، کسی کو دھوکا دینا، کم تولنا اور اس طرح کے دیگر معاملات۔ یہ جو ہمارے ہاں عام برائیاں ہیں، وہ عام حالات میں بھی کبیرہ گناہ ہیں۔ ان میں سے بعض چیزیں بہت بڑے بڑے گناہ ہیں، چہ جائیکہ انسان روزے کی حالت میں ان کا ارتکاب کرے۔ لیکن جس وقت آپ روزہ کھول لیتےہیں اور رات آ جاتی ہے تو روزے کی رات میں یہ ترغیب دی گئی ہے کہ قیام اللیل کیا جائے اور عبادت کی جائے، اس کو لازم نہیں کیا گیا؛ جب لازم نہیں کیا گیا تو بہت سی چیزیں جائز کر دی گئی ہیں،مثلاً بیویوں سے جنسی تعلق اور کھانا پینا جائز کر دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی جائز تفریح ہو تو اس کو بھی ناجائز تو نہیں کیا جا سکتا؟ اس کے حوالے سے صرف ترغیب دلانی چاہیے کہ یہ راتیں بڑی اہم راتیں ہیں، ان میں زیادہ سے زیادہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اگر آپ بروقت سوئیں گے نہیں تو قیام اللیل کے لیے نہیں اٹھ سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ رات ہی کے وقت میں کچھ کھا پی لیں، مگر سحری کی برکتوں سے محروم ہو جائیں گے۔ لہٰذا روزے کو اس کے پورے آداب کے ساتھ رکھنے کی سعی کرنی چاہیے، یعنی سحری کے وقت سے ذرا پہلے اٹھا جائے اور اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اللہ تعالیٰ اگر توفیق دے تو قیام اللیل کی سعادت حاصل کی جائے۔
چنانچہ جو چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں میں کی ہیں، پوری توجہ اسی پر رکھی ہے۔ آخری عشرے میں تو اللہ کے پیغمبر یہ فرمایا کرتے تھے کہ اب ہمیں اپنی راتیں اللہ کے لیے بیدار رکھنی ہیں۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کان النبي صلی اللہ علیه وسلم إذا دخل العشر، شدّ مئزرہ وأحیا لیله وأیقظ أھله. (بخاری، رقم۲۰۲۴)
’’ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر عبادت کے لیے کس لیتے، خودبھی شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کوبھی اِس کے لیے اٹھاتے تھے ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال کو بھی جگاتے تھے اور کمر کس لیتے تھے کہ اللہ کی عبادت کی جائے۔ رمضان میں ساری توجہات کا مرکز یہی رہنا چاہیے، تاہم اگر کوئی جائز کھیل بچے یا نوجوان کھیل لیتے ہیں تو اس پر کوئی زیادہ قدغن بھی نہیں لگانی چاہیے[8]۔
سوال: کیا رمضان المبارک میں مغفرت کے حصول کے لیے مصروفیت چھوڑ کر عبادت پورے حق سے ادا کرنا ضروری ہے؟
جواب: عبادات اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں اور انسان پورے حق سے یہ کیسے ادا کر سکتا ہے، حق ادا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہم تو بندوں کے حقوق ادا نہیں کر پاتے، وہ تو پھر بھی منعم حقیقی ہے، اس لیے اس کا حق تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں ادا کر پاتا، تاہم اس کا حق ادا کرنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے ذریعے سے مغفرت کے حصول کے لیے بڑی ترغیب دی ہے۔ مغفرت چاہنے کے لیے کوئی مصروفیت چھوڑنے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے صرف ایک دل چاہیے جو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جائے۔
لہٰذا کاموں کی مصروفیت میں بھی جو دل اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اس سے زیادہ شاید کوئی دل اللہ کو محبوب نہیں ہے، اس لیے اپنے کاموں کو کبھی عذر نہیں بنانا چاہیے۔ کام کرتے ہوئے آپ اللہ کو یاد کریں، استغفار کریں، اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں پر نگاہ کریں۔ یہی بہت کافی ہے، پوری طرح حق تو کوئی بھی نہیں ادا کر سکتا، مگر کوشش کرتے رہنا چاہیے[9]۔
سوال: ماہ رمضان میں عوام کو سہولتوں کی فراہمی کےلیے مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟
جواب: سہولتوں کے لیے وہی کام کرنے چاہییں جو آدمی اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ لوگوں کے لیے مہنگائی مسئلہ بن رہی ہے اور حکمران ان کی مدد کر سکتے ہیں تو ضرور کرنی چاہیے۔ اگر وہ لوگوں کے لیے کچھ چیزیں سستی کرا سکتے ہیں تو انھیں یہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنی چاہیے۔ جس طرح ہم مغربی ملکوں میں دیکھتے ہیں، اسی طرح عام لوگوں کو بھی یہ روایت قائم کرنی چاہیے کہ وہ اپنے کاروبار میں اس اخلاقیات کا خیال رکھیں گے کہ ایک تہوار آ گیا ہے، اس میں لوگ زیادہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے سہولت پیدا کی جائے۔ روزہ رکھنے میں اوقات سے متعلق بھی عام طور پر مسلمان حکومتیں ایسی تبدیلیاں کر دیتی ہیں جس میں لوگوں کے لیے سہولت پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے یہ سہولت ضرور پیدا کرنی چاہیے۔
عبادات کے بارے میں ایک مسلمان حکمران یا مسلمانوں کی حکومت جو سہولتیں بھی لوگوں کے لیے بہم پہنچا سکتی ہے، اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔ معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ سہولتیں بہم پہنچائے۔ سہولت یہ نہیں ہے کہ مثال کے طور پر ہمارے ہاں لوگوں کے ٹیکس کے روپے سے لوگوں کو حج کرانا شروع کر دیا جاتا ہے؛ سہولت پہنچانا بالکل الگ چیز ہے، مثلاً ایک آدمی حج کرنا چاہتا ہے، اس نے اپنے لیے اسباب فراہم کر لیے ہیں، اب آپ اسے بہتر سے بہتر طریقے سے کیسے وہاں پہنچائیں گے، اس میں کیا رعایتیں دے سکتے ہیں، ان کا لحاظ کرنا چاہیے۔ چنانچہ سہولت فراہم کرنا تو حکمرانوں کا کام ہے۔ دینی و دنیوی، ہر معاملے میں حکومت اسی لیے قائم کی جاتی ہے کہ امن فراہم کرے اور لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرے[10]۔
سوال: کیا بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر قضا روزے رکھ سکتی ہے؟
جواب: قضا روزے تو فرض ہیں؛ فرض روزے اور فرض عبادات کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ نفل روزوں کے بارے میں اللہ کے پیغمبر نے نصیحت فرمائی ہے کہ میاں بیوی کے تعلق کے لحاظ سے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اگر بیوی نے روزے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ بھی شوہر سے بات کر کے اجازت لے اور اگر شوہر نے روزے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے بھی بیوی سے بات کرنی چاہیے[11]۔
سوال: خواتین مخصوص ایام کی وجہ سے رہ جانے والے روزوں کو کیسے پورا کریں؟
جواب: اس حالت میں اگر نماز چھوٹ گئی تو اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، مگر روزے کے بارے میں یہ قانون بیان کر دیا گیا ہے کہ وہ رکھنے ہی ہوں گے۔ ان چھوٹے ہوئےروزوں کا فدیہ اس وقت دیں گے جب یہ حالت ختم ہی نہ ہو رہی ہو۔ مثلاً ایک آدمی بہت بوڑھا ہو گیا ہے یا ایسا مرض ہے کہ وہ باقی دنو ں میں بھی یہ روزے پورے نہیں کر سکتا تو پھر وہ فدیہ دے سکتا ہے۔ عورتوں کو چاہیے کہ اس کے بعد روزے ہی رکھیں اور نفل روزوں سے پہلے اپنے فرض روزے پورے کریں[12]۔
سوال: کیا روزے کی سکت نہ رکھنے والوں کے لیے فدیے کا حکم منسوخ ہو چکا ہے؟
جواب:اس کو قرآن مجید نے واضح کر دیا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کوئی حکم ابتداءً دیا ہے یا کسی چیز کا پابند کیا ہے تو اس میں ایک تدریج کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس میں ہمارے لیے بھی بڑا سبق ہے۔ جب کوئی نیا نیا آدمی دین کی طرف متوجہ ہوتا یا اس میں داخل ہوتا ہے تو اس سے پہلے اس کی بہت سی عادات پختہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پورے مہینے کے روزوں کا پابند کیا ہے۔ رمضان میں پورا خاندان روزہ رکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے، سب مسلمان اس کا اہتمام کر رہے ہوتے ہیں، ایک عمومی فضا پیدا ہو جاتی ہے اور نیکی و خیر کی طرف رغبت بھی ہو جاتی ہے۔
چونکہ یہ معاملہ اجتماعی طور پر ہو رہا ہوتا ہے تو بڑا آسان ہوتا ہے کہ آپ سحری کے وقت اٹھیں اور روزہ رکھیں، کوئی خصوصی اہتمام نہیں کرنا پڑتا۔ رمضان کے بعد اگر روزے چھوٹ جائیں گے تو ہمارے لیے بھی انھیں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، یعنی رمضان میں روزے رکھنا آسان ہوتا ہے، مگر بعدمیں چھوٹے ہوئے روزے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی عبادات میں یہی پسند کرتے ہیں کہ آسانی اور سہولت رہے ، لہٰذا پہلے مرحلے میں جب لوگ عادی نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دی کہ اگر روزے چھوٹ گئے ہیں تو فدیہ بھی دیا جا سکتا ہے، لیکن اسی موقع پر کہہ دیا تھا کہ ’اَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ‘(روزہ رکھ لو تو یہ تمھارے لیے اور بھی اچھا ہے)، یعنی یہ بات اسی وقت واضح کر دی تھی کہ اگر روزہ ہی رکھو تو بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتے ہیں اور ان کو پسند یہی ہے کہ بعد کے زمانوں میں بھی روزے چھوٹ گئے ہوں تو روزہ ہی رکھا جائے، لیکن پھر ظاہر ہے کہ لوگ فدیے کی ایک اجازت سے فائدہ بھی اٹھاتے رہے ہوں گے تو کچھ وقت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہمارا منشا یہی ہے کہ کم سے کم سال میں ایک مہینے کے روزے پورے کیے جائیں ۔
چنانچہ اگر روزے چھوٹ گئے ہیں تو اب فدیے کی اجازت ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد اب روزے ہی رکھنے ہوں گے اور اس کی حکمت بیان کی کہ’لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ‘ (تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو ) ، یعنی جو تعداد اللہ چاہتا ہے کہ ہر شخص کے لیے مقرر رہے، وہ اگر کوئی مریض یا مسافر ہے تو اس کے لیے بھی وہی تعداد رہے؛ اس وقت وہ نہیں رکھ سکا تو بعد میں اس کو پورا کر لے۔ لہٰذا یہ تیسیر کے اصول پر اللہ تعالیٰ نے پہلے سہولت دی، لوگ عادی ہو گئے اور مشقت اٹھانے کے لیے تیار ہو گئے تو جو سہولت دی گئی تھی، وہ ختم کر دی گئی[13]۔
سوال: بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑنے والا فدیہ دے گا یا بعد میں روزہ رکھے گا؟
جواب: بیماری دو نوعیت کی ہوتی ہے: عارضی اور دائمی۔ اگر کوئی شخص کسی عارضی بیماری میں مبتلا ہو اور وہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو وہ باقی دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے، اس لیے کہ روزوں کی تعداد پوری کرنا ہی بہتر ہے۔ تعداد پوری کرنا صرف بہتر ہی نہیں، بلکہ پوری کرنا چاہیے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم یہ تعداد پوری کرو۔ پھر اگر اس کے لیے کسی دائمی بیماری یا تکلیف کی وجہ سے تعداد پوری کرنا ممکن نہیں رہا اور اس کے لیے فدیہ دینا ممکن ہے تو فدیہ دے دے۔ ہر عاقل یہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجید میں تعداد پوری کرنے کے لیے انھی کو کہا گیا ہے جو پوری کر سکتے ہیں؛ جو شخص تعداد پوری نہیں کر سکتا ، اس کے لیے ظاہر ہے کہ اللہ کا حکم یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تعداد پوری کرے۔ جب وہ تعداد پوری کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں تو اسے اللہ نے رخصت دے دی ہے۔
چنانچہ رمضان المبارک کے مہینے میں انسان کسی ایسی دائمی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہو گیا جس کی وجہ سے روزہ رکھنے کی امید نہیں اور وہ روزہ نہیں رکھ پا رہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے یہ رخصت دے دی ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے میں فدیہ دے دے[14]۔
سوال: کیا حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین رمضان کے روزے چھوڑ سکتی ہیں؟
جواب: اس حوالے سے خواتین کو اپنے ڈاکٹر سے بات کرنی چاہیے۔ انھیں وہ زیادہ بہتر راے دے سکتے ہیں۔ حاملہ خواتین ہوں یا دودھ پلانے والی خواتین ہوں، ان کے لیے حمل یا دودھ پلانا رخصت کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمارے فقہا نے بھی ان چیزوں کی بنیاد پر رخصتیں دی ہیں، لیکن اس کا فیصلہ فرد کو کرنا ہے۔ اگر اس نے مشورہ کرنا ہے تو کسی طبیب یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ اس کی نوعیت ایسی تو نہیں کہ جس سے مجھے کوئی نقصان پہنچے اور میرے لیے یہ موزوں ہے یا نہیں ہے۔
بیماری یا تکلیف جیسی چیزوں میں بعض ایسے معاملات ہیں جن میں ہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شدید بخار ہے؛ یہ بیماری ظاہر ہوئی ہوتی ہے، لیکن بہت سے ایسے امراض ہیں جو ظاہر نہیں ہوتے، مثلاً ذیابیطس (Diabetes)، بلڈ پریشر اور کینسر، تو اس حوالے سے ڈاکٹر ہی فیصلہ کرے گا کہ اس میں روزہ رکھنے سے ہلاکت یا نقصان کا معاملہ تو نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارے دین میں اس کو جائز نہیں رکھا گیا کہ آدمی اپنے لیے ہلاکت خود خرید لے[15]۔
سوال: کیا خواتین روزے کی حالت میں سالن چکھ سکتی ہیں؟
جواب: کوشش تو یہ کرنی چاہیے کہ روزے میں ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جو روزے کی اصل روح اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تعلق کے منافی ہو۔ تاہم اگر خاوند کا خوف ہو یا لوگوں کے اعتراض اور نمک مرچ زیادہ ہونے کی صورت میں کسی مسئلے کا اندیشہ ہو تو روزے کی حالت میں مجبوری کے عالم میں صرف اسی حد تک کوئی چیز چکھ کر پھینک سکتے ہیں۔ امید ہے کہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے۔ لیکن شوہروں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ نمک کم یا زیادہ ہونے پر اتنے غصہ والے نہ بنیں کہ ان کی بیویوں کو ایسے ناپسندیدہ عمل کرنے پڑیں جن سے ان کی روزے جیسی عبادت خطرے میں ہو[16]۔
سوال: کیا خواتین رمضان میں مانع حیض ادویات استعمال کر سکتی ہیں؟
جواب: اگر ایسی دوائیں ایجاد ہو گئی ہیں جن کے منفی اثرات نہیں ہیں تو خواتین رمضان اور حج وعمرہ کے لیے یہ استعمال کر سکتی ہیں، اس لیے کہ ان میں بھی یہی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، تاہم اس کا مشورہ کسی ڈاکٹر یا طبیب کو دینا چاہیے تاکہ وہ ان کے لیے کوئی نقصان کا باعث نہ بن جائے۔ اگر کوئی ایسی دوا ہے جس سے ان ایام کو مؤخر کیا جا سکتا ہے تو کوئی مانع نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے، اس لیے کہ جو علاج معالجے کی چیزیں ہیں یا اس طرح کی صورتیں ہیں، یہ وقت کے ساتھ پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ آج کے زمانے میں جو چیزیں ایجاد ہو گئی ہیں، وہ اس سے پہلے موجود نہیں تھیں تو اللہ تعالیٰ نے رعایت دے دی۔ اگر آپ نے کوئی ایسا طریقہ ایجاد کر لیا ہے جس سے آپ ایام کو مؤخر کر سکتے ہیں تو کر لیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے[17]۔
سوال: کیا ڈائٹنگ کے لیے روزہ رکھنے سے خواتین کو اجر ملے گا؟
جواب: روزہ تو ایک عبادت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کا ایک اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہمارے وجود میں مجسم ہو جاتی ہے۔ ہم مجسم اطاعت بن کر خدا کے سامنے حاضر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا عبادات تو اللہ کے لیے کی جاتی ہیں۔ دیکھیے، جس طرح میں اپنی ماں کے پاس جاتا ہوں، اس کے پاؤں دباتا ہوں ، ا س کا ہاتھ چومتا ہوں، اس کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں، اس کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہوں تو میرے سامنے جو چیز ہوتی ہے، وہ ماں کی خوشنودی ہے، اسی طرح عبادات اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا اظہار ہے۔ ان کو اس پہلو سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ ان سے دنیا میں کیا فائدہ ہو گا، اس لیے کہ ان کے ذریعے سے تو آپ اپنے رب کو خوش کر رہے ہیں۔
دور حاضر میں جو اصل میں بنیادی مسئلہ پیدا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ مذہبی گھرانوں میں تو پیدا ہو گئے، لیکن مذہب کی یہ حقیقت کہ خدا کے ساتھ تعلق کی معرفت آپ کو حاصل ہو جائے، یہ شعور کی سطح پر نہیں ہوتی، تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ اچھا، کچھ عبادات بھی ہیں؛ آپ کو روزہ رکھنا ہو گا، نماز بھی پڑھنی ہو گی تو پھر وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کے کچھ دنیوی فوائد بیان کر یں۔ یہ اللہ کی عبادات ہیں اور اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کا اظہار ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا تعلق اگر کسی سے ہو سکتا ہے تو وہ ہمارے پروردگار اور منعم حقیقی سے ہو سکتا ہے۔
عباد ت کو کوئی حقیر چیز نہیں سمجھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی آدمی کہتا ہے کہ میری ماں نے مجھے بلایا تھا اور میں اس کے پاس جاتا ہوں تو کمرے سے نکل کر اس کے پاس جانے تک کچھ کھانا ہضم ہو جاتا ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کتنی بے ذوقی کی بات ہے، یعنی کیا محبت ہے جو ہمیں ماں سے ہوتی ہے، کیا تعلق خاطر ہے جس کا ہم اس کے لیے اظہار کرتے ہیں، کیسے ہم ماں کی بات پر دوڑتے ہوئے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھا ہی نہیں جا رہا۔
میرا پروردگار ہے، میرا خالق ہے، میرا محبوب بھی ہے، میرا معبود بھی ہے، اس نے یہ سب کچھ مجھے دیا ہے، شعور بخشا ہے اور مجھے ہمیشہ کی زندگی کی بشارت دی ہے تو کیا یہ معمولی بات ہے۔ میں اپنے رب کے کہنے پر روزہ رکھتا ہوں، میں اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے نماز پڑھتا ہوں۔ عبادات میں تو کسی ادنیٰ شے کی بھی آمیزش نہیں ہونی چاہیے[18]۔
سوال: کیا روزے کی حالت میں بھول کر کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: اگر تو روزہ ختم ہو گیا ہے تو بس ختم ہو گیا، اب تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا؛ اسے ختم ہونے کے بعد تو آپ کو قضا روزہ رکھنا ہو گا۔ بعض صورتوں میں قضا روزہ ہی کافی ہے اور بعض صورتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے کہ اگر تم نے جانتے بوجھتے ایسی غلطی کر دی ہے تو اس پر تمھیں وہی کفارہ ادا کرنا چاہیے جو ظہار کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ جان بوجھ کر روزہ توڑ لینا ایک بڑا گناہ ہے۔ اس طرح کا کوئی عمل آدمی سے سرزد ہوجائے تو بہتر ہے کہ وہ اس کا کفارہ ادا کرے، لیکن آدمی بھول کر کچھ کھا پی لے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ یہ تو اسے اللہ نے کھلایااور پلایا ہے(بخاری، رقم ۱۹۳۳۔ مسلم، رقم ۲۷۱۶)[19]۔
سوال: کیا جھوٹ اور دھوکا دہی جیسے اعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: جتنے بھی شریعت کے احکام ہیں، اس کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں: ایک اس کا ظاہری پہلو ہوتا ہے اور دوسرا باطنی۔ ظاہری پہلو کو انھی چیزوں تک متعین کیا جا سکتا ہے جو ظاہری نوعیت رکھتی ہیں۔ باطنی پہلو کا تعلق خدا سے ہوتا ہے، مثال کے طور پر ایک آدمی نے بدکاری کا ارتکاب کیا، آپ نے اس کو سو کوڑوں کی سزا دے دی، جو قرآن مجید نے بیان کی ہے۔ اس کے اندرتوبہ، رجوع اور خدا کے تعلق کا ظہور نہیں ہوا ؛ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے اور نہ ہوتے ہوئے سزا میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تو وہ اسی صورت میں مغفرت کی توقع رکھ سکتا ہے، جب کہ اس کے اندر خدا خوفی پیدا ہوئی ہو اور اس نے یہ سمجھا ہو کہ میں نے خدا کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ چنانچہ روزے کے معاملے میں اس کے عبادت کے پہلو کو ان ظاہری چیزوں پر محدور کر دیا گیا جن پر پابندی لگائی گئی، یعنی کھانا پینا اور جنسی تعلق۔
اس کے باطن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی کہ یہ سب کچھ تو اس لیے پیدا کیا گیا تھا کہ ان چیزوں سے تم نجات حاصل کر و۔ اگر ان سے ہی نجات حاصل نہیں کر سکے تو خدا کی بارگاہ میں تمھارے روزےکی حیثیت کیا ہو گی۔
یہی معاملہ حج کا ہے۔ ایک آدمی نےحج کے مناسک پورے کر دیے تو ہم یہ کہیں گے کہ قانونی لحاظ سے اس کا حج ہو گیا، لیکن قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ اس میں جو اصل چیز نہیں ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ’فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ‘ ،’’ اسے پھر حج کے اس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے، نہ خدا کی نافرمانی کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اس سے سرزد ہونی چاہیے ‘‘ (البقرہ۲: ۱۹۷)، یعنی وہ چیزیں جو اصل حقیقت رکھتی ہیں اور جن کو پیش نظر رکھ کر عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ اگر تمھارے اندر پیدا نہیں ہوئیں تو پھر یہ سب کچھ خدا کی بارگاہ میں کوئی وزن نہیں رکھتا[20]۔
سوال: کیا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: کچھ چیزیں ایسی ہیں جو واقع میں ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو حکماً وہی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں، تو سگریٹ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس وجہ سے اس سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ روزے میں آپ کو جس کیفیت میں مبتلا کیا گیا ہے، وہ اصل میں ایسے ہی ہے، جیسے ایک منہ کھلا ہوا تھا، آپ نے اس پر مہر لگا دی؛ یہ مہر لگی رہنی چاہیے۔ یہی معاملہ جنسی معاملات کا بھی ہے، یعنی ان میں بھی یہ طریقہ نہیں ہے کہ آپ محارم کے قریب پہنچتے رہیں؛ ان میں بھی آدمی کو اپنے آپ کو بہت دور روک کر رکھنا چاہیے۔
اسی طرح سگریٹ اور نسوار جیسی چیزوں کو روزے کی حالت میں اپنے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہیے۔ روزہ اسی چیز کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر آپ نے اپنے آپ کو بند کر لیا۔ ’صوم‘ رک جانے کو کہتے ہیں اور یہ رک جانے کی کیفیت کے بالکل خلاف ہے۔ اگر آپ سگریٹ لگا کر پی رہے ہوں تو اس کے نتیجے میں وہ احساس ختم ہو جائے گا جو روز ے کی وجہ سے آپ کے اندر پیدا ہونا چاہیے۔
اصل چیز یہ نہیں ہے کہ آپ نے منہ میں ایک لقمہ نہیں ڈالنا، بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ وہ چیزیں جو منہ کے راستے سے لذت کو اندر منتقل کرتی ہیں، ان سے اجتناب کرنا چاہیے، اور سگریٹ بھی انھی میں شامل ہے[21]۔
سوال: کیا آنکھ، کان اور ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: کھانے پینے کی جگہ ہمارا منہ ہے۔ لہٰذا کسی چیز کو بھی اس کے ذریعے سے ہمارے اندر نہیں جانا چاہیے۔ روزے کی حالت میں دوسری چیز جنسی روابط ہیں۔ بس یہی روزہ ہے۔ اس کے علاوہ آنکھوں، کانوں میں دوا ڈالی ہے، کسی مرض میں انجیکشن لگوایا ہے، اس سے روزے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ روزے کو اسی وقت کوئی نقصان پہنچتا ہے جب کچھ کھایا پیا یا ازدواجی تعلق قائم کیا ہو۔
یہ کہنا کہ اگر دوائی کا حلق میں ذائقہ محسوس ہو تو یہ درست نہیں ہے، یہ محض منطق ہے۔ یہ عبادت ہے اور عبادت میں جو اللہ تعالیٰ نے پابندی لگا دی ہے، بس اسی تک محدود رہیے۔ اس میں اس طرح کے تکشفات میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ دین کے مزاج کے خلاف ہے۔ ایک سادہ بات کہی گئی ہے اور سادہ بات پر رہتے ہوئے روزہ رکھیے[22]۔
سوال: کیا انجیکشن یا ویکسین لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: روزے کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ روزے کی حالت میں اطمینان کے ساتھ ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا جیسی وبا میں لوگوں کی جان کی حفاظت ہونی چاہیے؛ یہ بڑی آفت ہے۔ یہ کوئی اضطرار کا معاملہ بھی نہیں ہے۔ روزے کے معاملے میں یہ ضروری ہے کہ آپ منہ سے کوئی چیز لیں یا شہوت پوری کریں۔ ان کے علاوہ باقی کسی چیز سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لیے عام انجیکشن یا ویکسین لگوانے سے بھی روزے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس طرح کی چیزیں اگرچہ ایجاد نہیں ہوئی تھیں، مگر حجامہ یا پچھنے لگوانے جیسی بہت سی چیزیں ہوتی رہتی تھیں، ان کو کبھی بھی روزے کے منافی نہیں سمجھا گیا۔
اس طرح کی چیزوں میں، ظاہر ہے کہ قیاس کیا جاتا ہے۔ روزے کو وہیں تک محدود رہنا چاہیے۔ یہ عبادات کی نوعیت کی چیز ہے، یعنی کھانے پینے اور شہوت پوری کرنے پر پابندی ہے، خواہ وہ کسی بھی طریقے سے ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو پابندی لگائی ہے، وہیں تک محدود رہیے۔
انجیکشن کا ان دونوں چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں، البتہ روزے کی حالت میں طاقت حاصل کرنے کے لیے انجیکشن لگوانا روزے کی روح کے خلاف ہے[23]۔
سوال: شوگر کے مریض کے لیے روزے کا حکم کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے تو یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر کوئی مریض یا مسافر ہے یا اسے اس طرح کی کوئی دوسری تکلیف لاحق ہے تو وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے۔ بیماری دو طرح کی ہو سکتی ہے: ایک وہ ہے جو ٹھیک ہو جائے گی اور ایک وہ ہے جو ٹھیک نہیں ہوتی، جیسے شوگر کی بیماری ہے۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے بعد میں روزے کی تعداد پوری کرنے کا امکان نہیں ہوتا تو وہ فدیہ دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر انھوں نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق روزہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اگر دوائی انجیکشن کے ذریعے سے لی جا رہی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن منہ کے ذریعے سے کوئی دوائی نہیں لی جا سکتی۔
اگر صورت حال اس طرح کی پیدا ہو گئی ہے، جس طرح سفر میں آدمی نے روزہ رکھا اور بے ہوش ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی ہدایت کی ہے، اس لیے کہ جب انسانی جان کا خطرہ ہو تو پھر یہ احکام اٹھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر وہ روزہ کھول لیتے ہیں تو روزہ قضا کرنا ہو گا، اور اگر وہ اس قابل ہی نہیں ہے اور ڈاکٹر بھی اسی نتیجے پر پہنچتا ہے تو فدیہ دینا ہو گا، لیکن جب بیماری اس سطح پر پہنچ جائے کہ جان کو خطرہ لاحق ہو جائے یا اس طرح کی کوئی تکلیف لاحق ہو جائے تو پھر روزہ کھول لینا چاہیے۔
اگر شوگر کا مریض اس قدر معذور ہو گیا ہے کہ ڈاکٹر نے اسے روزہ نہ رکھنے کے لیے کہا ہے تو پھر اسے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس کا ہلاکت میں نہ ڈالنا اور یہ شدید خواہش رکھنا کہ اگر مجھے موقع ملتا تو میں روزے رکھتا۔ روزے کی عبادت کے ساتھ بہت سی دوسری عبادتیں بھی کی جا سکتی ہیں، اسے ان کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ عبادات کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اصول بتا دیا ہے کہ یہ مشقت کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے[24]۔
سوال: کیا گالی گلوچ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: رمضان تو پھر بھی رمضان ہے، عام حالات میں بھی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ آدمی کو اپنے آپ کو مہذب بنانا چاہیے۔ گالی دینا شرف انسانیت کی توہین ہے۔ عام حالات میں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی رمضان میں ایسا کرتا ہے تو اسے فوراً توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور اللہ کی طرف رجوع کر لینا چاہیے۔ اگر وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے تو اس کا روزہ رکھنا یا نہ رکھنا برابر ہو جائے گا[25]۔
سوال: کس عمل اور غلطی سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟
جواب: غلطی اور غلطی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک غلطی وہ ہے جس میں آپ کا کوئی ارادہ یا نیت شامل نہیں ہوتا، یعنی آپ جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتے؛ جیسے غلطی ہوتی ہے، ہو گئی۔ چنانچہ دیکھیے جیسے کوئی انسان بھول کر کھا لیتا ہے ، یعنی اسے یاد نہیں رہا کہ روزہ ہے یا کوئی ایسا عمل کر لیتا ہے جس کا شعور اس کو نہیں تھا، بلکہ رمضان کی ابتدا میں بعض لوگوں کو ایسا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس طرح بھولنے سے روزے کو کچھ نہیں ہوتا؛ نہ وہ فاسد ہوتا ہے اور نہ اس میں کوئی خرابی واقع ہوتی ہے۔ جس وقت آپ کو شعور ہو گیا، سمجھیے کہ آپ روزے سے ہیں، بلکہ اس پر تو فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے تمھیں کھلا پلا دیا(بخاری، رقم۱۹۳۳)، اس لیے اس پر کوئی مواخذہ نہیں کیا گیا، لیکن جانتے بوجھتے، اس شعور کے ساتھ کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، اگر انسان اس کو توڑ دیتا ہے یا اس کی روح کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو اس سے روزے میں خرابی پیدا ہو گی اور عبادت کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
دوسری غلطی وہ ہے جو ہم جانتے بوجھتے کرتے ہیں۔ جانتے بوجھتے کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔ جب جانتے بوجھتے کوئی کام کیا جائے تو وہ بعض اوقات اللہ کے حکم کی تحقیر ہو جاتی ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ غلطی ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے[26]۔
سوال: کیا قے اور خون نکلنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے؟
جواب: یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ خون نکلنے سے روزہ فاسد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس لیے کہ سبیلین سے، ظاہر ہے کہ وہ سب چیزیں نکلتی ہیں جن کو اللہ نے نکلنے کے لیے راستہ دے رکھا ہے۔ آخر ہم بول وبراز کرتے ہیں، اس وجہ سے اس سے تو روزہ ٹوٹنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ خون کا معاملہ بھی یہی ہے؛ کسی جگہ زخم لگ گیا اور خون نکل آیا تو دھو لیجیے، مگر طاہر اور پاکیزہ رہنا چاہیے، یعنی ہمارے دین میں بول و براز کے بعد پاکیزگی کے لیے استنجا کو ایک سنت بنا دیا گیا ہے ، لیکن یہ کہ خون نکلنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا بول و براز سےروزہ ٹوٹ جائے گا، اس کا تو کوئی سوال نہیں ہے۔
قے اگر اس طریقے سے آئی ہے کہ جو کچھ تھا، آپ نے باہر پھینک دیا، اس کی بھی کوئی وجہ نہیں کہ روزہ ٹوٹے، لیکن اگر قے کو آدمی نے جانتے بوجھتے نگل لیا تو ظاہر ہے کہ یہ چیز روزے کے اصول کے بالکل منافی ہے، غلطی سے اس کا کوئی حصہ اندر چلا گیا تو اس سے روزے کو کوئی فرق نہیں پڑتا[27]۔
سوال: کیا روزے کی وجہ سے دفتری کام ٹھیک سے انجام نہ دینا گناہ ہے؟
جواب:اس کے دو پہلو ہیں:
ایک پہلو کا تعلق فرد سے ہے۔ اگر کوئی شخص ملازمت کرتا ہے تو اسے اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اگر وہ روزے سے ہے تو اسے زیادہ مشقت اٹھا کر لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہیے۔ جب اس نے معاہدہ کیا ہوا ہے کہ اسے دفتری اوقات میں حاضر ہونا ہے، لوگوں کی خدمت کرنی ہے یا اس کے اوپر ذمہ داریاں ہیں تو اسے ان کو بدرجۂ اتم پورا کرنا چاہیے۔ رمضان تو اسی تربیت اور تلقین کے لیے آیا ہے کہ اسے اپنے عہد وفا کرنے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ تقویٰ اسی چیز کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے کسی فرد کے لیے تو کسی رخصت کا سوال ہی نہیں۔
دوسرے پہلو کا تعلق معاشرے سے ہے۔ اگر مسلمانوں کا معاشرہ ہے اور ان کے معاشرے میں اگر ریاست کا نظم لوگوں کے لیے سہولت بہم پہنچاتا ہے؛ اوقات کم کر دیے جاتے ہیں یا ان میں کوئی تبدیلی کر دی جاتی ہے یا ذمہ داریوں کو ہلکا کر دیا جاتا ہےتو یہ عین مطلوب ہے اور اسے ضرور کرنا چاہیے تاکہ لوگ عبادت کر سکیں، یعنی عبادت کی سہولت بہم پہنچانا ذمہ دار اداروں کا کام بھی ہے اور مسلمان معاشرے میں قائم ہونے والی حکومت کا کام بھی ہے، لیکن اگر کسی جگہ یہ سہولت نہیں دی جارہی ، آپ ذمہ داری میں اسی طرح شریک ہیں، جس طرح دوسرے شریک ہیں، آپ کسی غیر ملک میں ہیں، ایسی جگہ پر ہیں جہاں حکومت یا ادارے اس طرح کی رعایت نہیں دیتے تو پھر آپ کو بہرحال زائد مشقت اٹھا کر اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
اللہ کے ہاں یہ چیز عذر نہیں بنے گی کہ آپ اس موقع پر لوگوں کے سامنے یہ کہہ کر سرخرو ہو جائیں کہ میرا روزہ تھا، اس وجہ سے میں نے کسی کا کام نہیں کیا یا میں نے یہ ذمہ داری نہیں اٹھائی یا میں اٹھ کر گھر چلا گیا یا میں اپنے دفتر ہی میں لیٹا رہا۔ یہ آپ کو حق نہیں ہے کہ ایسا کریں[28]۔
سوال: روزے کی حالت میں لڑائی جھگڑے کی نوبت آجائے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:اس طرح کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب کوئی تم سے جھگڑا کرے تو اسے کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں۔ دراصل یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو کسی آدمی سے غلطی ہو گئی، لیکن ایک شخص نے روزہ رکھ کر اور مسجد یا حرمین میں جا کر بھی یہی کام کیا ہے تو یہ بہت افسوس کی بات ہے۔
حج کے معاملے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ ’فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ‘ (البقرہ۲: ۱۹۷)، یعنی وہاں پر کوئی شہوانی، نافرمانی اور لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام زندگی کے اندر تو آپ کو یہ سب کچھ نہیں کرنا، لیکن وہاں اگر کوئی کوتاہی ہو گئی ہے تو اسی لیے تو آپ روزے رکھ رہے ہیں اور حج کے لیے آ رہے ہیں تاکہ آپ شیطان کو شکست دے سکیں، مگر یہاں پر بھی آپ وہی کام کر رہے ہیں۔
چنانچہ یہ بتایا گیا ہے کہ روزے میں چونکہ ذرا قویٰ مضمحل ہوئے ہوتے ہیں تو بعض اوقات بعض لوگوں میں ردعمل کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یاددہانی کے لیے فرمایا کہ ایسی صورت پیدا ہو جائے تو اس کا احتمال ہے کہ تم ردعمل میں بھول جاؤ تو جواب میں یہ کہہ دیا کرو کہ میں روزے سے ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ وَإِنْ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ. (بخاری، رقم 1894)
’’روزے ڈھال ہیں، لہٰذا تم میں سے جس شخص کا روزہ ہو، وہ نہ بے حیائی کی باتیں کرے، اورنہ جہالت دکھائے۔ پھر اگر کوئی لڑنا چاہے یا گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں ۔‘‘[29]
سوال: روزے میں غیر مہذب کاموں سے کیسے بچا جائے؟
جواب: سب سے پہلے آپ روزے کی اہمیت کوسمجھیں۔ یہ غیر مہذب کام بے شعوری اور کسی چیز کے رسم بن جانے سے ہوتے ہیں۔ ہم جب اس چیز کو اس کی اصل حقیقت میں نہیں سمجھتے تو غلط رویے اختیار کر لیتے ہیں۔ روزہ ایک عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کا ایک اظہار ہے۔ اس کی اطاعت کے جذبے سے روزہ رکھا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ تقویٰ پیدا ہو۔ اگر وہ تقویٰ روزے کی حالت میں ہی نہیں رہا تو بعد میں کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ یعنی پھر تو مقصد ہی فوت ہو گیا۔ اس کا مقصد کیا ہے، عبادت کی نوعیت کیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کا ظہور کیسے ہونا چاہیے؟ ا س کو سمجھنا چاہیے۔
علما کو بھی اسے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں، یعنی جب کوئی چیز انسانی شعور کی سطح پر آ جاتی ہے تو انسان متنبہ ہوتا ہے، اس میں غلطی ہوتی ہے تو وہ لوٹتا ہے اور اگر پاؤں پھسل جاتا ہے تو اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اسی وقت ہوتا ہے جب اسے شعور ہو کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں، اس کا مقصد کیا ہے اور اس پر میں کیا کھوؤں گا اور کیا پاؤں گا۔ اگر یہ رویہ اختیار کیا جائے اور یہ آفات لاحق کر لی جائیں تو پھر آپ پائیں گے کچھ بھی نہیں، سب کچھ کھو کر آ جائیں گے، کیونکہ بھوکا اور پیاسا رکھنا مقصود نہیں تھا، وہ تو ایک علامت تھی اس بات کی کہ میں اللہ کے حکم پر سب کچھ بند کر سکتا ہوں۔ ہر چیز بند کرنے کے لیے تو یہ تربیت کی جا رہی تھی، لہٰذا جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا، جو حرام چیزیں ہیں، وہ چیزیں جو اللہ کے ہاں ممنوع قرار دی گئی ہیں، اگر انھی کا روزے میں ارتکاب کرنا ہے تو روزے کی حقیقت کیا ہوئی۔ چنانچہ اس کی لوگوں کو تربیت دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں عبادات چونکہ ایک رسم سی بن جاتی ہیں، اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ کھائیں پئیں گے نہیں، بس کافی ہے۔ اس کے بعد جھوٹ بولیں، غیبت کریں اور بے ہودہ حرکتوں میں مبتلا ہو جائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
روزہ ہے ہی اس لیے کہ آپ کو ڈسپلن کرے اور آپ کے اندر وہ تقویٰ پیدا کرے اور انسان اپنی جبلتوں کو حدودآشنائی سکھائے کہ ان کے اندر رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ساری شریعت اصل میں حدود کی تربیت ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ بارہا اس کو کھول کر بیان کر دیتے ہیں: ’تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ‘، ’’یہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو‘‘(البقرہ۲: ۲۲۹)[30]۔
سوال: کیا مشکل حالات میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت شرعی حکم ہے؟
جواب: یہ رخصت تو خود اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ سفر میں تمھیں روزہ ہی رکھنا چاہیے یا بیماری میں اپنے آپ کو بے شک، موت کے حوالے کر دو، مگر تمھیں روزہ ہی رکھنا چاہیے یا بیماری اور روزے کی مشقت اٹھاؤ۔ یہ اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک موقع پر فرمایا کہ:
لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِى السَّفَرِ. (ابوداؤد، رقم۲۴۰۹)
’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔‘‘
یعنی کوئی آدمی اگر سفر میں روزہ رکھتا ہے تو یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ترغیب دی ہے ۔ ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ سفر کی مشقت کی وجہ سے روزہ بھی رکھے ہوئے ہے اور اس طرح کی صورت حال سے بھی دوچار ہے جو اس کے لیے موزوں نہیں تھی تو یہ نصیحت فرمائی کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے (ابوداؤد، رقم۲۴۰۹) ۔ اللہ نے اگر کوئی رخصت دی ہے تو اسے اللہ کا صدقہ سمجھنا چاہیے۔ ایک موقع پر سیدنا عمر کے سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ توجہ دلائی کہ اللہ کی رخصتوں کو حقیر سمجھنا درست نہیں ہے۔ اللہ اپنے بندوں کے حالات سے واقف ہے۔ یہ رخصت غیر محتاط مشقت میں دی جاتی ہے۔ عام حالات میں، ظاہر ہے کہ آپ کوئی عبادت کریں گے، پڑھیں گے، کاروبار کریں گے، ہر جگہ مشقت ہوتی ہے، لیکن یہ وہ مشقت ہے جو انسان اٹھانے کا عادی ہوتا ہے؛ مشقت جب اس درجے میں داخل ہوتی ہے جس کا تحمل مشکل ہوتا ہے تو وہاں غیر محتاط مشقت کے معاملے میں اللہ نے عبادات میں رخصت دی ہے اور اس کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ اپنی عبادات کے معاملے میں تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر سختی کرے(البقرہ۲: ۱۸۵)۔
اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ سہولت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔چنانچہ یہ اللہ کی دی ہوئی رخصت ہے۔ یہ رخصت ان معاملات میں دی گئی ہے جن میں غیرمحتاط مشقت پیدا ہو جاتی ہے، اور یہ غیر محتاط مشقت کہاں پیدا ہوئی اور کہاں نہیں ہوئی، اس کا فیصلہ ہر انسان نے کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں سفر میں روزہ چھوڑوں گا تو میں ہی فیصلہ کروں گا کہ سفر کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے روزہ چھوڑ دینا چاہیے، اللہ نے تو رخصت دے دی۔ بیماری میں بھی یہی معاملہ ہے، یعنی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو معمولی سا سر درد ہو رہا ہو، لیکن وہ خیال کرے کہ اگر میں چائے چھوڑ دوں تو مجھے سر درد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ایک شخص فیصلہ کرتا ہے کہ کیا فی الواقع میرے ساتھ وہ معاملہ ہو گیا ہے کہ جس میں میں مرض کی اس کیفیت میں روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اس فیصلے میں بعض اوقات غلطی بھی ہو جاتی ہے، لیکن جو اصول ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا، رخصت خود دے دی، اس کی وجہ خود بیان فرما دی، اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصویب کر دی اور ان رخصتوں کو اپنا صدقہ قرار دیا، اس لیے ان کے بارے میں یہ رویہ درست نہیں ہے کہ انھیں ترک کر کے خود کو مشقت میں ڈالا جائے[31]۔
سوال: کیا زندگی بھر کے چھوٹے ہوئے روزے رکھ سکتے ہیں؟
جواب:ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں، لیکن انھوں نے کبھی روزے رکھے ہی نہیں۔ ان کو اس کا شعور ہی نہیں دلایا گیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کو احساس ہوا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور ان کے لیے اسلام کی طرف رغبت کے اسباب پیدا ہو گئے، وہ اب چاہتے ہیں کہ روزے یا نماز کا اہتمام کریں۔ اسلام کا مزاج اس معاملے میں یہ ہے کہ پہلے تو اسے توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور جو کچھ پہلے ہو چکا، اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے، پھر اس کے بعد دیکھے کہ اس کے اندر تلافی کرنے کی کتنی ہمت ہے؛ اس کا لحاظ کرکے وہ اپنے لیے اس کا پروگرام بنا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر امام ابن تیمیہ نے نمازوں کے بارے میں لوگوں کو نصیحت کی کہ آپ جو نوافل پڑھتے ہیں، ان کی جگہ فرض پڑھ لیں۔ اس سے ایک وقت تک آپ کی نمازوں کی تلافی ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ توبہ و استغفار بھی کرتے رہیے۔
روزوں کے معاملے میں بھی آپ یہ کر سکتے ہیں کہ لوگ جو مہینے میں ایک یا دو نفل روزے رکھ لیتے ہیں، ان کی جگہ آپ فرض روزوں کی نیت کر کے رکھتے رہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیے کہ وہ آپ کو ہمت دے اور کسی نہ کسی درجے میں تلافی ہو جائے۔ لہٰذا یہی طریقہ ہے جو آپ اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ان کی تعداد گن کر بیٹھ جائیں گے تو پھر شاید ہمت ہار جائیں گے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ توبہ و استغفار کریں ۔
آج سے یہ طے کریں کہ آپ کو اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنا ہے اور اللہ کے احکام کی پیروی کرنی ہے اور جو کچھ پیچھے ہو چکا ہے، اس کی تلافی کے لیے اپنی مقدرت اور ہمت کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی پروگرام بنا لینا چاہیے۔ یہ ہر شخص کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے اور ہر شخص اپنے حالات کو دیکھ کر اس میں کچھ تبدیلی بھی کر سکتا ہے[32]۔
سوال: جوانی میں چھوڑے گئے روزوں کی بڑھاپے میں تلافی کیسے کی جائے ؟
جواب:چونکہ روزہ ایک بڑی مشقت کی عبادت ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس وقت انھیں توفیق دے دے، وہ روزے رکھنا شروع کردیں۔ مہینے میں جو دو تین نفل روزے ہوتے ہیں، وہ رکھ کر اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ اے میرے پروردگار، ان کو قبول فرما لیں۔ یہ گویا ایک طرح کی تلافی ہے، یہی بہت کافی ہے[33]۔
سوال: کیا کسی دینی ذمہ داری کے لیے مسلسل سفر میں رہنے کی وجہ سے روزے چھوڑے جا سکتے ہیں؟
جواب: قرآن مجید نے صراحت کر دی ہے کہ کسی ذمہ داری کے لیے کیا، عام حالات میں بھی سفر میں روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔ سفر کی مشقت کے حوالے سے ایک فرد کو ہی فیصلہ کرنا ہے۔ سفر میں روزہ چاہیں تو رکھ لیں اور چاہیں تو چھوڑ دیں۔ سفروں میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب وہ سفر نہیں رہے جو پہلے تھے؛ جہاز یا گاڑی یا اپنی ہی کار کے ذریعے سے سفر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سی گاڑیاں بھی ایئر کنڈیشنڈ ہو گئی ہیں۔ لہٰذا اب بہت سی سفری سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ آدمی اپنی حالت کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے۔ اللہ نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ اگر کوئی کسی ذمہ داری کی وجہ سے سفر کرے گا تو اس میں روزہ چھوڑے گا اور اگر وہ اپنے شوق سے، مثال کے طور پر وہ تفریحی سفر کر رہا ہے تو پھر نہیں چھوڑے گا، یعنی آپ تفریح، کام اور ذمہ داریوں کے لیے بھی سفر کرتے ہیں۔ سفر کی مشقت اگر آپ کو پیش آ گئی ہے تو پھر آپ روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔
اب اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھیے، ایک مسلمان جس کو یہ معلوم ہے کہ مجھے بعد میں بھی روزے رکھنے ہی ہیں تو وہ بعض اوقات اپنے معاملات کو بھی اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ رمضان کا مہینا وہ گھر ہی میں گزارے اور رمضان کے مہینے میں کم سے کم سفر کرے۔ وہ ایسے پروگرام بھی نہیں بناتا کہ جس میں اس کی عبادت پر اثر پڑے۔ یہ بندے کے اندر چیزیں ہیں جو اصل میں اس کےپورے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ان میں ہمیں زبردستی نہیں کرنی چاہیے، بس توجہ دلانی چاہیے کہ یہ عبادت ہے، تم اپنے پروردگار کے لیے عبادت کر رہے ہو، بڑی کمال کی عبادت ہے، اس میں تم اللہ کی اطاعت کا نمونہ بن کر زندگی بسر کرتے ہو اور اس کا اجر بھی اللہ کے ہاں بے پناہ ہے، لہٰذا اس عبادت کے لیے شوق پیدا کرو اور کوشش کرو کہ اگر کبھی مشقت بھی اٹھانی پڑے تو اٹھا لو، تاہم اللہ نے جو رخصتیں دی ہیں، ان کے معاملے میں آدمی کو کبھی بھی وہ رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے کہ میں رخصت پر عمل کروں گا تو میں تقوے کے معیار پر نہیں رہوں گا۔
اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب رخصتوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سفر کی مشقت میں نمازیں قصر کر کے اور جمع کر کے پڑھی ہیں ۔ یہی معاملہ روزوں کا رہا ہے، اس وجہ سے کبھی بھی وہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے آپ اللہ کے مقابل میں آ جائیں۔ اس کو ایک عارف نے بہت اچھی طرح بیان کیا ہے کہ پروردگار کے مقابل میں کھڑے ہونے کی نہیں، ایک بندۂ عاجز کی طرح ہر چیز کو جس طرح اس نے فرمایا ہے، اسی طرح لینے اور قبول کرنے کی روش اختیار کرنی چاہیے[34]۔
سوال: کیا نماز پڑھے بغیر روزہ قبول ہو جاتا ہے؟
جواب: روزہ اپنی جگہ ایک الگ عبادت ہے اور نماز اپنی جگہ ایک الگ عبادت ہے۔ جس طرح روزہ رکھنے کا حق ہے، اگر اسی طرح آپ روزہ رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا، لیکن اگر آپ نماز کا اہتمام نہیں کر رہے تو آپ ایک برا کام کر رہے ہیں۔ یقیناً اللہ کے ہاں اس پر مواخذہ ہو گا اور وہ اس کی بنیاد پر سزا دے گا، اس وجہ سے دونوں عبادتیں اپنی جگہ ضروری ہیں۔ یہ جو عبادات ہیں، ان کے بارے میں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کا علامتی اظہار(symbolic expression)ہے۔ ان میں سے کچھ حصہ ہم پر لازم کر دیا گیا ہے؛ جو حصہ لازم کیا گیا ہے، وہ ہر حال میں ادا کرنا ہے۔
باقی ہماری کیفیات پر منحصر ہے۔ ہم نفل روزوں یا نفل نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں یا نہیں کرتے ہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بدو نے آ کر سوالات کیے اور کہا کہ مجھے آپ یہ بتا دیجیے کہ میرے اوپر لازم کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز، روزے اور حج وغیرہ کےبارے میں بتا دیا۔ اس نے کہا کہ اگر میں اپنی طرف سے اس میں کوئی اضافہ یا کمی نہ کروں تو ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم جنت میں جاؤ گے۔ اس لیے عبادات میں وہ حصہ جو ہم پر لازم کر دیا گیا ہے، اس میں ہمارا اختیا ر ختم ہو گیا ہے۔ وہ ہمارے پروردگار کا حکم ہے۔
اب ہمیں امتثال امر میں رمضان کے روزے رکھنے ہیں، زندگی میں ایک مرتبہ حج کے لیے جانا ہے، اپنے مال کی لازم زکوٰۃ ادا کرنی ہے اور پانچ وقت کی فرض نماز پڑھنی ہے[35]۔
سوال: کیا چھوٹے بچوں کو روزہ رکھوانا ٹھیک ہے؟
جواب: بچوں کو تعلیم دینے کے لیے کہ وہ روزے کی اہمیت کو سمجھیں، انھیں عادی بنانے اور شوق دلانے کے لیے روزہ رکھوانے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ اگر بچے کی صحت اور حالت وغیرہ دیکھ کر یا اچھے ڈاکٹر یا طبیب سے بھی مشورہ کر لیا جائے کہ کس عمر میں روزہ رکھوانا چاہیے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ طبی لحاظ سے جو موزوں عمر ہو کہ جس میں بچے کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو، آپ اسےروزہ رکھوا سکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں فرض ہونے سے پہلے اس لیے کی جاتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی معنوی میراث منتقل کرنا چاہتے ہیں؛ اپنا دین، اپنی روایات اور اپنی تہذیب سکھانا چاہتے ہیں۔
لہٰذا بچوں کے لیے تو ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ پہلے تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ یہ تعلیم و تربیت کا روزہ ہے، فرض روزہ نہیں ہے[36]۔
سوال: کیا بچوں کو روزہ رکھوانا اور روزہ کشائی کرانا ٹھیک ہے؟
جواب: اصولی بات یہ ہے کہ جب بھی آپ بچے کو روزہ رکھواتے ہیں تو یہ دیکھ لیں کہ بچہ روزہ رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ بہت سی چیزوں کے حوالے سے ہم بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ تربیت کرنا بہت اچھی بات ہے، لیکن یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ صحت یا موسم کے لحاظ سے وہ اس کا تحمل کر سکتا ہے یا نہیں، اس لیے کہ بچے کی زندگی کو آپ خطرے میں نہیں ڈال سکتے ۔ اگر آپ کسی بچے کو روزے کی تربیت دینا چاہتے ہیں تو انتظار کر لیں؛ ہو سکتا ہے کہ اچھے موسم کے روزے آ جائیں، وہ اس کا تحمل کر سکے اور اس کی عمر بھی موزوں ہو جائے۔
روزہ اس پر اسی وقت فرض ہو گا جب وہ بلوغ کی عمر کو پہنچ جائے گا۔ فرض ہونے سے پہلے اسے روزے سے مانوس کرنا اور یہ احساس دلانا کہ یہ ایک عبادت ہے ، جسے ہم مسلمان ادا کرتے ہیں۔ اس کے لیے اس طرح کی جو روایات قائم ہو جاتی ہیں، ان کی بہت اہمیت ہے۔ جب کوئی معاشرہ اور رشتے وجود میں آتے ہیں تو ان کے اندر کچھ روایات ہوتی ہیں اور یہ اصل میں بعض بڑے تصورات سے وابستہ کر دیتی ہیں۔
جس طرح ہم اپنے بچے کو آداب سکھاتے، خاندانی روایات سے واقف کراتے، دوسروں کے ساتھ معاملات کے بارے میں بتاتے اور بچے کو ساتھ لے کر مسجد میں بھی جاتے یا نماز کے موقع پر اسے توجہ دلاتے ہیں، اسی طرح روزہ بھی رکھوایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس بات کا ضرور اہتمام کر لینا چاہیے کہ کوئی چیز اس کے لیے نقصان کا باعث نہ بن جائے[37]۔
سوال: ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘ کا مطلب کیا ہے ؟
جواب:یہ اختصاص کا اسلوب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہی جزا دیتے ہیں۔ جو کام بھی ہم کرتے ہیں، اس کی جزا مقرر ہے؛ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت سے جتنی چاہے دے، لیکن روزے کا معاملہ اس لحاظ سے بہت مختلف ہے کہ باقی جتنی چیزیں ہیں، ان سب کے محرکات اور تقاضے علم و عقل اور ہماری فطرت میں موجود ہیں اور انھی کی پیروی میں ہم بہت سے معاملات کرتے ہیں۔ جن چیزوں سے ہمیں بچنے کے لیے کہا گیا ہے، مثلاً فواحش، بدکاری، حق تلفی، کسی کی جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی، یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کے پیچھے علم اور عقل کا استدلال موجود ہے۔
روزہ ابتلا کا حکم ہے، یعنی ہمارے پروردگار نے یہ کہا کہ تم میرے لیے، میرے حکم پر اور میری اطاعت کرتے ہوئے ان چیزوں سے اجتناب کرو جن کو علم و عقل میں بھی چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، یعنی کھانا پینا اور بیوی سے ازدواجی تعلق رکھنا؛ یہ کوئی ناجائز چیز نہیں ہے، ایک جائز چیز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پابندی ہم اس لیے قبول کرتے ہیں کہ ہمارے پروردگار نے پابندی لگا دی ہےاور ہمیں اس امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اس کو ابتلا کا حکم کہا جاتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ تعلق کی آزمایش کے لیے ایک حکم دے دیتے ہیں، اس وجہ سے پروردگار عالم نے فرمایا کہ چونکہ روزے میں بندہ میرے لیے اپنا کھانا پینا اور ازدواجی تعلق چھوڑ دیتا ہے، اس لیے میں ہی اسے اجر دوں گا۔
دوسری چیزوں کے محرکات خود اس دنیا میں موجود ہیں اور ان کے فوائد بھی حاصل ہیں۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے، وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی کی حق تلفی نہیں کرنی چاہیے اور کسی کی جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ لہٰذا بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہم اس اصول پر مانتے ہیں کہ یہ اللہ کا بھی حکم ہے اور ہماری فطرت بھی یہی تقاضا کرتی ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے، ایسی چیزوں کا ارتکاب ہمیں نہیں کرنا چاہیے یا ان چیزوں کو لازماً اپنانا چاہیے۔ روزہ وہ چیز ہے جس کے لیے اس طرح کا کوئی محرک موجود نہیں ہے، یہ صرف اللہ کی اطاعت کا جذبہ ہے۔ چنانچہ اس میں اختصاص کے اسلوب میں فرمایا کہ:
الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَأَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ أَجْلِي. (بخاری، رقم۷۴۹۲)
’’روزہ میرے لیے ہے اور پھر میں ہی اس کا اجر دوں گا، اس لیے کہ وہ میرے لیے اپنی شہوت اور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پھر میرا کام ہے کہ اپنے بندے کو نہال کر دوں گا اور میں اس کو ایسا اجر دوں کہ وہ دنیا میں اس کا تصور نہیں کر سکتا، یعنی ایک اجر تو وہ ہے جو اللہ نے مقرر کر رکھا ہے اور یہ وہ اجر ہے جسے اللہ نے اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے بعض اوقات ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کی یہ تنخواہ مقرر ہے، آپ نے یہ کام کیا ہے تو آپ کو اس کا معاوضہ ملنا ہے، لیکن یہ کام تو آپ نے میری خوشنودی کے لیے کیا ہے اور میرا دل خوش کر دیا ہے، اب میں ہی آپ کو اس کا اجر دوں گا۔ گویا یہاں پر اللہ نے اپنی عنایت و افضال کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بیان کر دیا۔ ظاہر ہے کہ جب پروردگار عالم، اس کائنات کا خالق، میرا معبود اور معبود حقیقی یہ کہتا ہے کہ میں ہی اجر دوں گا تو پھر آپ اس کی عنایت کا اندازہ کر سکتے ہیں[38] ۔
سوال: کیا تقویٰ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ صرف روزہ ہے ؟
جواب: تقویٰ دین میں ایک غیرمعمولی مطلوب صفت ہے۔ تقوے کا مطلب یہ ہے کہ میں اب اپنی زندگی احتیاط کے ساتھ بسر کروں گا۔ ایک چیز یہ ہے کہ آپ دنیا میں آئے، شعور کی آنکھ کھولی، آپ نے کہا کہ ’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘۔ دوسری چیز یہ ہے کہ یہ احساس ہوا کہ میں دنیا میں آیا ہوں، کوئی مقصد ہونا چاہیے؛ آپ کو معلوم ہوا ہے کہ آپ دنیا میں ہمیشہ کے لیے نہیں آئے، ایک دن یہاں سے رخصت ہو جائیں گے تو اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ زندگی اس کے لیے ایک سنجیدہ حقیقت بنتی ہے۔ سنجیدگی آپ کو لاابالی پن سے نجات دلا دیتی ہے۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے پروائی کی زندگی بسر کریں۔ آپ پھر سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں۔
ایک موقع پر خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی خوب صورتی سے اس کی وضاحت کی ہے کہ آپ کبھی کانٹوں بھرے راستے پر جا رہے ہوں تو آپ دامن سمیٹ کر چلتے ہیں۔ تو اس دنیا کا معاملہ بھی یہی ہے، یعنی اس میں خواہشات ہیں، شہوات ہیں، مفادات ہیں، جذبات کی انگیخت ہے، تعصبات ہیں، یہ ساری چیزیں چاروں طرف سے حملہ آور ہو رہی ہوتی ہیں۔ ان کے اندر حدود الہٰی کی نگہداشت کرتے ہوئے چلنا تقویٰ ہے۔ تقویٰ پیدا کرنے کے بے شمار ذرائع ہیں۔ مثال کے طور پر:
عبادات کرنے،
قرآن مجید کی تلاوت کرنے،
صالحین کی صحبت اختیار کرنے،
آیات الٰہی پر تدبر اور غور و فکر کرنے،
اور آدمی جب اس کائنات کا مطالعہ کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے پروردگار کی شانوں کا استحضار کرتا ہے، اس سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔
تقویٰ پیدا کرنے کے ان ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ روزہ بھی ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ تقویٰ صرف روزے ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ روزے کی عبادت انسان کو متقی، پرہیزگار اور اس کو خدا سے ڈرنے والا آدمی بنانے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے[39]۔
سوال: کیا رمضان میں قرآن مجید کو بغیر سمجھے صرف نا ظرہ پڑھنے کا ثواب ہو گا؟
جواب: یہ اللہ کی کتاب ہے۔ آدمی اسے شوق سے پڑھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا اپنا ایک پہلو ہے اور انسانی نفسیات پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں، لیکن قرآن مجید اللہ کی کتاب کی حیثیت سے سمجھنے ہی کی چیز ہے۔ ہمارا اصلی ہدف یہی ہونا چاہیے کہ اس کتاب کو سمجھیں، سمجھ کر پڑھیں، سمجھائیں اور اس کے بارے میں بتائیں۔ ہمارے ہاں جب بھی قرآن مجید پڑھا جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ اس کا ترجمہ بھی ساتھ ہی سنایا جائے یا اس کا مدعا لوگوں کو بتایا جائے۔ لوگ اس کو پڑھ کر اور سمجھ کر آئیں۔ اگر آپ رمضان کے مہینے کو اس کے لیے خاص کر لیں کہ مجھے اس میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا ہے اور اگر سننا بھی ہے تو جتنا پڑھا جائے گا، اس کو سمجھ کر جانا ہے۔ اس موقع پر علما بھی یہ اہتمام کریں کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید کا خلاصہ بتا دیں یا سادہ ترجمہ سنا دیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید کو سوچ سمجھ کر ہی پڑھا جا ئے[40]۔
سوال: کیا سخت مشقت یا محنت مزدوری کرنے والوں کو روزے میں کوئی رعایت دی گئی ہے؟
جواب: قرآن مجید جب اس طرح کا کوئی استثنا یا رعایت دیتا ہے تو قرآن کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ اسے ایک قاعدہ بنا دے۔ وہ اس میں اطلاقی طریقہ اختیار کرتا ہے۔ عام حالات میں مریض ہو گا یا مسافر ہو گا، تو اس کا ذکر کر دیا۔ ہمیں یہ تربیت دی گئی ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس میں باعث کیا چیز ہے؟ چنانچہ اس سےپہلے ہمارے فقہا نے بھی بہت سی چیزوں کو شامل کیا، مثلاً انھوں نے دیکھا کہ جو حاملہ عورت ہے، وہ مریضہ تو نہیں ہوتی، لیکن ایک ایسی مشقت سے گزر رہی ہوتی ہے جس میں اسے بھی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کا حق ہونا چاہیےیا بچے کو دودھ پلانے والی ماں بھی اسی مشقت سے گزرتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے دیکھا کہ آدمی بعض اوقات بوڑھا ہو جاتا ہے، تو اس کے لیے بھی مشقت اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ مریض اور مسافر کا ذکر بطور مثال اور عامۃ الورود کی حیثیت سے ہوا ہے۔ اس میں بنیادی بات وہ اصول ہے جو اس میں کارفرما ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی مشکل یا مشقت پیش آ گئی۔
اسی سے ایک اور بات واضح ہوتی ہے کہ عبادات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کا ایک علامتی اظہار ہے۔ ان کے پیچھے ایک محبت ، اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اعتراف اور اپنی عاجزی کے اعتراف کا جذبہ ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بالکل مختلف اصول اختیا رکیا ہے کہ یہاں رخصت کے لیے مشقت کافی ہے۔ چنانچہ اسی روزے کی آیات میں بیان کیا ہے کہ :
يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ. (البقرہ۲: ۱۸۵)
’’ اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے ۔‘‘
اللہ عبادات کے معاملے میں تنگی نہیں چاہتا، وہ تمھیں آسانی ہی میں رکھنا چاہتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتے کہ تمھیں ایسی عبادت کی مشکل میں مبتلا کر دیا جائے، کیونکہ عبادت کی روح محبت ہے؛ اس کے نتیجے میں وہ مجروح ہوگی ۔ مشقت تو انسان اٹھاتا ہے۔ یہاں اضطرار کا اصول نہیں ہے۔ حرام و حلال میں اضطرار کا اصول کار فرما ہے، یعنی اگر کوئی چیز حرام کی گئی ہے تو کسی مجبوری کی وجہ سے آدمی اس کو بقدر ضرورت کھا سکتا ہے، لیکن عبادات میں مشقت کا اصول ہے، لہٰذا عبادات میں جب مشقت پیدا ہو جائے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
چنانچہ دیکھیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں ہر رخصت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کیا کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادات کے لیے ساری ساری رات قیام کرتے تھے، لیکن جو عبادات میں قصر، نمازوں کو جمع کرنے، جرابوں پر مسح اور تیمم جیسی رخصتیں دی گئی ہیں، ان کو بھی اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ بتا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کو ایک نمونے کے طور پر پیش کر دیا۔
اس لیےعبادات میں یہ پسندیدہ نہیں ہے کہ آپ مشقت کا طریقہ اختیار کریں۔ فرض کریں کہ اگر شدید گرمی ہے یا اس طرح کی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ آدمی تحمل نہیں کر سکتا تو اس میں رخصت ہے ۔ سفر یا بعض دوسرے ایسے کام ہیں جن میں ایسی مشقت پیدا ہو جاتی ہے کہ اس میں یہ رعایت ملنی چاہیے۔ بہت سے ایسے علاقے ہیں جن میں روزہ قابل برداشت نہیں رہتا، یعنی اس کے اوقات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اصول بیان کر دیا ہے ۔ اصول یہ نہیں بیان کیا کہ جہاں مشقت پیدا ہو جائے، وہاں روزہ چھوٹا کر لیا کرو، یہ نہیں کہا کہ مریض یا مسافر دو گھنٹے کا روزہ رکھ لیا کرے، اس میں یہ کہا ہے کہ ’فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ‘، یعنی وہ دوسرے دنوں میں ان کو پورا کر لے۔
عبادات میں جو رخصتیں دی گئی ہیں، ان کو اللہ کی عنایت سمجھنا چاہیے اور عبادت کا جذبہ ہر حال میں قائم رہنا چاہیے، لیکن اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لے یا جب جان ہی پر بن آئے گی تو اس میں رخصت ہو گی۔
مرض ، سفر ، سخت سردی میں ٹھنڈے پانی، مشکل حالات یا مشقت جیسے سب مواقع پر رخصت ہی سے فائدہ اٹھانا چاہیے[41]۔
سوال:’’ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے ‘‘ کا مفہوم کیا ہے اورکیا روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ برش کرنا درست ہے ؟
جواب: خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے تھے۔ دانتوں کو صاف کرنا یا ان میں پھنسی ہوئی کسی چیز کو نکالنا یا منہ کی بدبو کو دور کرنا تو تطہیر کا تقاضا ہے۔ ہمارے دین میں تزکیے، نظافت اور صفائی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس سے روزے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس سب کے باوجود ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے منہ میں بو پیدا ہو جاتی ہے تو اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسک. (بخاری، رقم ۱۸۹۴)
’’ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کو یہ منہ کی بو بہت محبوب ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ یہ بو جان بوجھ کر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ عام حالات میں انسان کو صفائی ہی کا اہتمام کرنا چاہیے[42]۔
سوال: کیا روزہ رکھنے سے کوئی طبی فائدہ بھی ہوتا ہے؟
جواب: یہ دین کا موضوع ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ نماز پڑھیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے آپ کو کوئی طبی فائدہ بھی ہو جائے، آپ روزہ رکھیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی طبی فوائد حاصل ہوتے ہوں اور آپ حج کے لیے جائیں تو اس سے بھی بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن یہ دین کا موضو ع نہیں ہے، یہ اصل میں ضمنی چیزیں ہیں۔
کسی بھی کام سے آپ کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔ اصلاً یہ عبادات کس لیے کی جاتی ہیں، اس کو اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے، یعنی روزہ اس لیے رکھا جاتا ہے کہ ہم اللہ سے ڈرنے والے ، خدا ترس، خدا خوفی کےساتھ زندگی بسر کرنے والے بن جائیں؛ ہمارے اندر اللہ کے حدود کی نگہداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہو جائے؛ ہم اپنی باقی زندگی میں نہ کسی کی حق تلفی کریں، نہ کسی کی جان ، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی کریں، نہ بدکاری کی طرف میلان رکھیں اور نہ دوسرے انسانوں کےلیے تکلیف کا باعث بنیں۔ لہٰذا روزے کا مقصد یہی ہے۔ اسی طرح نماز اللہ کی یاددہانی کے لیے ہے۔ اس کا جو ضمنی فائدہ بتایا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ :
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰي عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ. (العنکبوت۲۹: ۴۵)
’’ کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘
نماز بدکاری کے کاموں اور برے کاموں سے تنبیہ کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ یہ جو فوائد اللہ تعالیٰ بیان کر دیتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ دین کے پہلو سے ہوتے ہیں۔ دین آپ کے اخلاق، بدن اور خورو نوش کی تطہیر کرنا چاہتا ہے۔
دین کے مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے فوائد متعین کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک کسی چیز کے طبی یا مادی زندگی کے فوائد کا تعلق ہے تو یہ ضمنی چیز ہے اور لوگ اس پر گفتگو کر سکتے ہیں، لیکن روزہ اور نماز کسی طبی فائدے کے لیے فرض نہیں کیے گئے، وہ اللہ کی عبادات ہیں اور انھیں اللہ کی عبادت ہی کے طور پر ادا کرنا چاہیے۔
نماز پڑھنے کا مقصد گھٹنوں کا درد دور کرنا نہیں ہونا چاہیے[43]۔
سوال: گھر والوں یا معاشرے کے دباؤ میں رکھے گئے روزے کی حیثیت کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کے ہاں تو عبادات اسی وقت قابل قبول ہیں جب ان کے پیچھے تقویٰ ہوتا ہے۔ قربانی پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ. (الحج۲۲: ۳۷)
’’اللہ کو نہ اِن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اِن کا خون، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
یعنی آپ کے اندر تقویٰ ، نیت، ارادہ تھا اور آپ نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عبادت کی ہے تو اللہ کے ہاں اسی کا اجر ہے۔ گھر والوں یا معاشرے کے دباؤ میں جو لوگ روزہ رکھتے ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی نہ کسی حد تک ان میں رجحان پیدا ہو گا۔ دعوت کے لحاظ سے آپ نے کسی آدمی کو کہا کہ ذرا روزہ رکھ کر تو دیکھو۔ کوئی آدمی روزے سے ڈرا ہوا تھا کہ جب میں کھاؤں پیوں گا نہیں تو پتا نہیں کیا ہو جائے گا، تو آپ نے اسے مشق کے لیے روزہ رکھنے کے لیے کہہ دیا تو یہ آپ کے حوالے سے تو ایک معقول بات ہو سکتی ہے، مگر اجر اسی عمل کا ملے گا جو اللہ کے لیے کیا جائے گا[44]۔
سوال: کون سے روزہ دار ہیں جن کو بھوک پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا؟
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کچھ لوگوں کو روزے میں بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آدمی نے روزہ تو عبادت سمجھ کر رکھ لیا ، مگر روزے کو روزہ سمجھا نہیں ۔ روزہ تقویٰ ، صبر، بندے کے اندر احساس بندگی پیدا کرنے کے لیے ایک تربیت تھی۔ اس احساس کے لیے روزہ رکھنا تھا کہ میں نے ایک دن اپنے مالک کو منہ دکھانا ہے۔ اگر یہ سب چیزیں اس کے اندر پیدا ہی نہیں ہوئیں، بلکہ جھوٹ بول رہا ہے، بددیانتی کر رہا ہے، کم تول رہا ہے، ملاوٹ کر رہا ہے اور دکان پر بیٹھے ہوئے ادھر ادھر کی ہانک رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے ایک رسم ادا کر دی ہے۔
اسی طرح کے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر روزے کی حالت میں بھی آپ نے تقویٰ جو کہ اس کا مقصد تھا، اختیار نہیں کیا تو پھر آپ کو یہ بھوکے پیاسے رہنے کی کیا ضرورت ہے(بخاری، رقم ۱۹۰۳)[45]۔
سوال: جہاں طلوع و غروب کئی دنوں بعد ہو، وہاں روزے کا تعین کیسے ہو گا؟
جواب: اگر تو آپ نے ایک ایسے علاقے میں روزہ رکھنا ہے جس میں آپ روزے کا تحمل کر سکتے ہیں، یعنی ۲۴ گھنٹے میں الٹ پھیر ہو گیا ہے۔ کئی جگہوں پر ۱۶، ۱۷ یا ۱۹ گھنٹے کا روزہ ہو جا تا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی زیادہ مدت نہیں ہے اور اطمینان کے ساتھ روزہ رکھ سکتے ہیں تو رکھ لیں، ورنہ روزے کو دوسرے دنوں کے لیے مؤخر کر لیں۔جن علاقوں میں ۶ مہینے کا دن اور ۶ مہینے کی رات ہو جاتی ہے، ان میں بھی اصل میں افق پر طلوع و غروب کے آثار نمودار ہوتے رہتے ہیں اور وقت کی تعیین ہوتی ہے۔ لوگ بھی ان کے لحاظ سے کچھ وقت کا تعین بھی کرتے رہتے ہیں۔
عمومی طور پر تو رات ہی رہتی ہے، مگر افق سے سورج کے غروب و طلوع کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ وہاں پر لوگ اس کے مطابق زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ ان میں وقت بہت طویل ہو جاتا ہے، رات بہت چھوٹی ہو جاتی ہے یا لوگوں کے لیے تحمل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جہاں پر وقت کی تعیین ہی ممکن نہ رہے تو وہاں پر اجتہاد کیا جائے گا اور اس کی دونوں شکلیں ہو سکتی ہیں:
ایک یہ کہ آپ ایک اوسط نکال لیں اور اس کے لحاظ سے روزے کا وقت مقرر کر لیں، جیسے آپ نے باقی اوقات مقرر کیے ہیں۔
دوسرے یہ کہ آپ اس حوالے سے حرمین شریفین کے اوقات کی پیروی کر لیں۔
بہت سی جگہوں پر لوگ ایسے ہی کرتے ہیں، تاہم عام طور پر جہاں انسانوں کی آبادی موجود ہے، وہاں پر شب و روز میں وہ آثار نمودار ہوتے رہتے ہیں جس سے سورج کے غروب و طلوع کا اندازہ ہوتا رہتا ہے، لہٰذا انھی کی پابندی کر کے آپ روزہ رکھ سکتے ہیں، ورنہ قرآن مجید نے جو اصول بیان کر دیا ہے، اس کا اطلاق ہر جگہ ہو گا اور وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی بھی مشقت میں آپ رمضان کے مہینے میں روزہ نہیں رکھ سکتے تو دوسرے دنوں میں پورے کر لیجیے[46]۔
سوال: کیا سحری کھائے بغیر روزہ رکھا جا سکتا ہے؟
جواب: سحری کھائے بغیر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ سحری کھانا ضروری نہیں ہے، مگر سحری کھانے میں بڑی برکت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے:
تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً. (بخاری، رقم ۱۹۲۳)
’’سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری کرنے میں بڑی برکت ہے۔‘‘
اسی سے رمضان کا حسن آپ کے شب و روز میں پیدا ہوتا ہے۔ آپ ایک خاص وقت میں اٹھتے ہیں اور یہ وقت بھی بہت غیرمعمولی ہے۔ یہ وقت اصل میں تہجد کا وقت ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ بھی آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدا آتی ہے کہ میرا کون سا بندہ ہے جو اس وقت اٹھے اور میری عبادت کرے اور میرے سامنے بندگی کے آداب بجا لائے، میں اس وقت اس کو دینے کے لیے آیا ہوں، لہٰذا یہ بہت غیرمعمولی وقت ہے۔ رمضان میں بھی لوگ اسے سو کر گزار دیں تو پھر رمضان کا مقصد کیا ہے۔
چنانچہ سحری کے لیے اہتمام کے ساتھ اٹھنا چاہیے اور سحری کرنی چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص سحری نہیں کر رہا تو روزہ ہو جائے گا۔ روزے کا مطلب یہ ہے کہ آپ فجر سے لے کر رات کے شروع ہونے تک، یعنی غروب آفتاب تک کچھ کھائیں پئیں گے نہیں اور بیوی کے ساتھ کوئی جنسی تعلق قائم نہیں کریں گے[47]۔
سوال: کیا سحر و افطار میں کھجور کھانا لازم ہے؟
جواب: سحر و افطار کے لیے کھجور لازم قرار نہیں دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں رہتے تھے؛ آپ کچھ کھاتے پیتے تھے تو کھجور بھی کھاتے تھے۔ کھجور عرب میں بہت محبوب پھل سمجھا جاتا ہے۔
چنانچہ لوگ عام طور پر آپ کے ساتھ ایک تعلق کے اظہار کےلیے کھجور کا اہتمام کرتے ہیں۔ کھجور پھل بھی بہت اچھا ہےاور قوت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ یہ چونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے علاقے کا پھل ہے اور زیادہ تر یہی استعمال کیا جاتا تھا تو اس سے ایک نسبت کا بھی احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کی چیزیں محبت اور تعلق خاطر سے وجود پذیر ہوتی ہیں[48]۔
سوال: سحر و افطار کی مسنون دعائیں کون سی ہیں؟
جواب:سحر و افطار میں آپ جو دعائیں بھی کرنا چاہتے ہیں، کر سکتے ہیں۔ افطار کے وقت جو دعا صحیح روایات میں آئی ہے، وہ یہ ہے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہُ. (ابوداؤد، رقم۲۳۵۹)
’’پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر لکھا گیا ۔‘‘
یعنی پیاس دور ہو گئی اور رگیں تر ہو گئیں۔ اب اللہ کرم فرمائے گا تو قبول فرمائے گا۔ سحر و افطار کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چند الفاظ روایت ہوئے ہیں، وہ یہی ہیں۔ ان کو دعاؤں کی کتابوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دعا کو لوگ عام طور پر نہیں جانتے ہیں، لیکن آپ جو دعا چاہیں، کر لیں، اس لیے کہ یہ دعا کرنے کا موقع ہے[49]۔
سوال: کیا آج کل کی افطار پارٹیاں دین کی روح کے خلاف ہیں؟
جواب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے افطار کو بڑی برکت اور سعادت قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو افطاری کرانے کا ارشاد ان لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے جو خود روزہ افطاری کا اہتمام نہیں کر سکتے؛ یہ غریب، مسکین، آپ کے اعزہ و اقربا، دوست اور گرد وپیش کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ جس طرح آپ اپنے لیے افطار کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح جن لوگوں کے پاس کھانے کےلیے کچھ نہیں ہے یا بہتر طریقے سے افطار کا بند و بست نہیں کر سکتے، ان کو بھی شریک کر لیں تو یہ بڑے اجر کا باعث ہے (ترمذی، رقم۸۰۷)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں ایک زندہ مسلمان معاشرے کے بارے میں ہدایت دی ہے؛ زندہ معاشرہ وہ ہے جس میں ہم ایک دوسرے کی خبرگیری رکھتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے محلےمیں اور ہمارے خاندان میں کس کو کیا مشکل درپیش ہے۔ رمضان کا روزہ آ گیا ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جنھیں عام حالات میں بھی دو وقت کی روٹی نہیں ملتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم شکر نہیں کرتے، اس لیے کہ موجودہ زمانے میں حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں، تاہم ایسے بہت سے لوگ ہو سکتے ہیں جن کے لیے گوشت کی ایک بوٹی بھی بڑی چیز ہو۔ اگر آپ اچھے طریقے سے افطاری کا اہتمام کر کے کسی غریب، مسکین، ضرورت مند اور کسی محلے دار کو بلا لیتے ہیں تو یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس کا اجر بیان کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے کی جو افطاریاں پارٹیاں ہم کرتے ہیں اور اعزہ و اقربا کو بلاتے اور پندرہ بیس کھانے پکا لیتے ہیں تو یہ ایک شوق ہے جسے آپ نے پورا کر لیا، اس کا اس اجر و ثواب سے کوئی تعلق نہیں ہے جو روایتوں میں بیان ہوا ہے اور جس کی ترغیب دی گئی ہے۔ علم و عقل کہتے ہیں کہ اس پر اجر ملنا چاہیے[50]۔
سوال:کیا غیر مسلموں کی جانب سے افطار کی دعوت میں شریک ہونا جائز ہے؟
جواب: غیر مسلم کی جانب سے پیش کیا گیا کھانا غیر مسلم نہیں ہو جائے گا۔ آپ اپنے گھر میں کھانا کھاتے ہیں، کسی ریستوران میں جا کر کھا لیتے ہیں، آپ کو کسی غیرمسلم نے دعوت دی ہے تو وہ کھانا اگر آپ کے لیے حلال اور جائز ہے تو آپ کو جا کر کھانا چاہیے، اس کا روزے سے کیا تعلق ہے۔ روزہ تو ایک داخلی عزم کے ساتھ کی جانے والی عبادت ہے، یعنی میں جانتا ہوں اور میرا رب جانتا ہے کہ میں اس کےلیے بھوکا پیاسا رہا ہوں۔ روزہ آپ نے وقت پر افطار کرنا ہے؛ وہ پانی کے ایک گھونٹ سے بھی ہو جائے گا۔ لہٰذا اس طرح کی کسی دعوت پر آپ جائیں اور ملیں۔
یہ چیزیں تو محبت اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ انھیں ضرور اختیار بھی کرنا چاہیے، خاص طور پر جو لوگ ایسے ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں مسلمانوں کی حکومتیں نہیں ہیں، وہاں ان حکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا اور ان کا ہماری عبادات کی قدر افزائی کرنا، یہ بڑی خیر وبرکت کی بات ہے، اس لیے کہ اس سے اچھے تعلقات پیدا ہوں گے اور دین کے بارے میں صحیح راے بنے گی۔ اگر کوئی غلط فہمی ہے تو اسے دور کرنے کا ہمیں موقع ملے گا۔ چنانچہ ایسے مواقع کو دین کی دعوت اور اس کے پیغام کے لیے اور خود مسلمانوں کے اخلاقی ربط ضبط کے لیے بڑی اہمیت دینی چاہیے۔ اس میں دینی لحاظ سے کوئی خرابی کی بات نہیں ہے۔
روزہ رکھنا ، وقت پر افطار کرنا، وقت پر شروع کرنا اور وقت پر نماز پڑھنا، یہ چیزیں ہمیں لوگوں سے ملنے یا غیرمسلموں سے بات کرنے سے نہیں روکتیں ۔ غیرمسلم انسانی رشتے سے ہمارے بھائی ہیں اور اس لحاظ سے وہ آدم و حوا علیہما السلام کی اولاد ہیں۔ ان کے پاس جانا اور ملنا، ان سے بات کرنا، ان کو اپنے دین، روایات اور کلچر سے متعارف کرانا، یہ بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ اصل میں جب غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں تو آدمی کا سینہ کسی چیز کو قبول کرنے کے لیے بھی کھلتا ہے۔ اس سے اس کے اندر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں ان لوگوں کے رسوم و رواج، ثقافت، تہذیب اور ان کے مذہب کو جانوں، اس لیے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ دعوتیں بہت خیروبرکت کا نتیجہ بن سکتی ہیں[51]۔
سوال: روزہ افطاری کے وقت میں اختلا ف کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: قرآن مجید میں صرف ’رات‘ کا لفظ نہیں ہے، بلکہ ’اِلَي الَّيْلِ ‘ (رات تک) کے الفاظ ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَي الَّيْلِ. (البقرہ۲: ۱۸۷)
’’ پھر رات تک اپنا روزہ پورا کرو ۔‘‘
چنانچہ اس کو جب کوئی آدمی سنے گا تو ظاہر ہے کہ وہ خیال کرے گا کہ ’رات تک‘ سے مراد یہی ہے کہ دن ختم ہو گیا اور رات شروع ہو گئی، لہٰذا رات کی ابتدا مغرب سے ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ مغرب کے وقت رات کی ابتدا تو ہو جاتی ہے، لیکن اس پر ’رات‘ کے لفظ کا اطلاق شاید موزوں نہیں، اس کے لیے کوئی دس منٹ مزید انتظار کرنا چاہیے۔ چنانچہ یہ فہم کا معاملہ ہے اور یہ امکان ہے کہ اس میں یہ اختلاف باقی رہے۔ اس کا درست مفہوم وہی ہے جو عام طور پر لوگوں نے سمجھا اور ہمارے ہاں، احناف کے ہاں اور دوسرے فقہا کے ہاں بھی اسی کو قبول کیا گیا ہے کہ جیسے ہی رات شروع ہوتی ہے، یعنی غروب آفتاب ہو جاتا ہے تو ہمیں روزہ کھول لینا چاہیے۔
دوسری راے کے معاملے میں کسی شدت کا قائل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ زبان و بیان کے اسالیب کے لحاظ سے ایک احتیاط کا مسلک وہ بھی ہو سکتا ہے، اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملے میں یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ کہیں چارمنٹ یا پانچ منٹ کا وقفہ تو نہیں ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس میں بہت سی تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ اگر ایک آدمی کہے گا کہ غروب آفتاب کا ذکر ہے تو کوئی دوسرا آدمی دوسری تعبیر کر دے گا اور کہے گا کہ ’غروب آفتاب‘ سے مراد یہی ہے کہ اچھی طرح جب غروب آفتاب ہو گیا اور رات شروع ہو گئی۔ چونکہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ یہ بات آ گئی ہے کہ رات تک روزہ پورا کرو تو اس معاملے میں جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’رات تک‘ کا مطلب یہ ہے کہ ذرا مغرب کے دس منٹ بعد، ان کو خواہ مخواہ ہدف مطاعن بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے اپنے نقطۂ نظر کو درست سمجھ کر اس پر عمل کر سکتے ہیں۔
تاہم ترجیحی نقطۂ نظر اور عمومی عرف یہ ہے کہ مغرب کے وقت سے رات شروع ہو جاتی ہے، اور ہم جب بولتے ہیں تو ایسے ہی بولتے ہیں[52]۔
سوال: کیا روزہ افطار کرنے میں تھوڑی تاخیرکرنا بہتر نہیں ہے؟
جواب: جس شخص کو تاخیر سے روزہ افطار کرنا بہتر لگتا ہے، اسے تاخیر سے کر لینا چاہیے۔ انسانوں کے مابین فہم کا تنوع قائم رہنا چاہیے۔ روزے کے حوالے سےاللہ تعالیٰ نے جو بات کہی ہے، وہ ایک اجمال ہے کہ آپ رات تک روزہ پورا کریں۔ کچھ سمجھنے والوں نے سمجھا کہ رات جیسے ہی آ گئی اور سورج جیسے ہی غروب ہو گیا تو ’رات تک‘ کی حد پوری ہو گئی، اب ہم روزہ کھول سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے خیال کیا کہ ذرا رات پڑنے دو، پانچ سات منٹ انتظار کر لیتے ہیں۔ یہ انسانی فہم کا ایک تنوع ہے۔ ایک ہی جملے سے دو لوگ ایک بات کو ذرا اختلاف کے ساتھ سمجھ رہے ہیں۔ اس میں جو ایک کو بہتر لگتا ہے، وہ اس پر عمل کر لے اور جو دوسرے کو بہتر لگتا ہے، اسے اس پر عمل کر نے دیں۔
اس میں کوئی خرابی نہیں ہے کہ آپ نے ذرا احتیاط کر لی اور انتظار کر کے تاخیر سے روزہ افطار کر لیا۔ دوسرے شخص نے یہ خیال کیا کہ خدا کی ہدایت کے مطابق وقت آ گیا ہے تو اس نے روزہ کھول لیا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ افطار میں خواہ مخواہ تاخیر نہ کیا کرو۔
چنانچہ دونوں رجحانات ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی چیز کے بارے میں دو انسانی رجحانات ہوتے ہیں؛ دونوں کو قبول کر لینا چاہیے ؛ دونوں کو باقی رہنے دینا چاہیے ، ان کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ یہاں حلال اور حرام کا مسئلہ پیدا نہیں ہو رہا[53]۔
سوال: روزے پورے سال کے بجاے ایک ماہ تک محدود کرنے میں کیا حکمت ہے؟
جواب: پورے سال میں روزے کے بجاے نماز فرض کر دی گئی ہے۔ نماز یاددہانی کراتی رہتی ہے۔ نماز بھی درحقیقت ایک واعظ اور زاجر ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ’اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ‘[54]، یعنی میری یاددہانی کو قائم کرنے کے لیے نماز کا اہتمام کرو۔ آپ اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں، دکانوں پر بیٹھے ہوتے ہیں، سودا سلف بیچ رہے ہوتے ہیں، گفتگو اور شاعری میں محو ہوتے ہیں اور دوستوں کی مجلس میں ہوتے ہیں تو یک بہ یک ایک آواز آتی ہے کہ پروردگار کہہ رہا ہے کہ میرے حضور میں آ جاؤ۔ اس میں جو تربیت ہوتی ہے، وہ بھی غیرمعمولی ہے اور اسے سال بھر پر اس کو پھیلا دیا ہے۔ اگر روزے کو سال بھر کے لیے فرض کر دیا جاتا تو آپ کوئی کام کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اس سے انسان بڑے اضمحلال میں مبتلا ہو جاتا، اس وجہ سے اس سے روکا گیا ہے۔ تربیت کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے شعور کی سطح پر ایک چیز آ جائے اور بعد کی زندگی میں آپ اس سے کام لے سکیں۔
مقصد روزہ ہی رکھوانا نہیں ہے، بلکہ تربیت کر کے آپ کو زندگی کے میدان میں ڈالنا ہے۔ جس امتحان میں ہم کو مبتلا کیا گیا ہے، وہ امتحان کسی جنگل میں جا کر ہمیں نہیں دینا، بلکہ وہ اسی دنیا میں دینا ہے۔ اس میں کاروبار کرنا ہے، تحقیقات کرنی ہیں، علم کی دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت میں ہم ایک فعال کردار ادا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں اور اس کی صلاحیتیں بھی دی گئی ہیں۔
اس لیے سال بھرکے لیے روزے فرض کر دینا کسی صورت میں بھی موزوں نہیں تھا، یعنی اتنا ہی ہونا چاہیے تھا کہ سال میں کچھ وقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مہینے کو پسند فرمایا تاکہ ایک پورا مہینا آپ کو اس تربیت سے گزار دیا جائے اور خدا کی یاد اور اس کے ساتھ اطاعت کا تعلق آپ کے شعور کی سطح پر آ جائے[55]۔
سوال: حدیث کے مطابق کیا رمضان میں عمرے کا ثواب حج کے برابر ملتا ہے؟
جواب:یہ سمجھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کس موقع اور کس محل میں کہی تھی؟ ہمارے ہاں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جو روایات یا احادیث ہیں، ان میں یہ ملحوظ نہیں رکھا جاتا کہ ان کا موقع اور مقام کیا تھا؟ یہ معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج بھی کیا ہے اور عمرہ بھی۔ سب لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سفر میں شریک ہوں۔ یہ تو بڑی فطری اور سعادت کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لیے جا رہے ہوں، اللہ کے آخری پیغمبر حج کرنے کیے لیے جا رہے ہوں اور آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کا شرف حاصل ہو جائے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں سے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج اور عمرے کے لیے شریک سفر ہوئے، یعنی یہ منظر تو آسمان نے بار بار تو نہیں دیکھنا تھا۔
چنانچہ ایسے ہی ایک موقع پر ایک خاتون کسی مجبوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جا سکی تو اس نے بڑی حسرت کے ساتھ یہ اظہار کیا کہ میں آپ کے ساتھ اس سفر میں نہیں جا سکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اگلے رمضان میں عمرہ کر لو تو یہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہو جائے گا(مسلم، رقم ۳۰۹۸)۔
یہ گویا اس کے اس شوق و ذوق اور اس کی حسرت کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بشارت دی۔ اس کو لوگوں نے اس کے اصل مقام سے اٹھایا اور ایک عام قانون بنا دیا ہے[56]۔
سوال: روایت میں رمضان میں شیاطین کو جکڑنے سے کیا مراد ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کا اس دنیا میں جو قانون ہے، اس روایت کو اس روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ جس وقت ہم کسی نیکی کا ارادہ کرتے ہیں تو ارادہ ہمارے اندر سے اٹھتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اختیار دیا ہے، یہ بتا دیا ہے کہ جب میں نے اس نفس انسانی کا تسویہ کیا، اس کو نِک سُک سے درست کیا تو ’فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا ‘[57]، یعنی اس کے اندر یہ رجحان بھی رکھ دیا کہ یہ برائی بھی کر سکتا ہے اور نیکی بھی۔ نیکی اور بدی کا شعور بھی اس کو دے دیا۔ ایک دوسری جگہ فرمایا کہ ’اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ ‘[58] (ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا) اور ’وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ‘[59]، یعنی دونوں راستے اس پر واضح کر دیے۔
چنانچہ انسان کے اندر بھی برائی کے داعیات موجود ہیں۔ انسان کے اندر جو خواہشات، شہوات اور جذبات ہیں ، یہ اس کے اندر برائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ یہ اندر کے جو داعیات ہیں، یہ ارادہ پیدا کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص ایک انسان کی حیثیت سے برا یا اچھا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب وہ اچھا ارادہ کرتا ، اس کے لیے اقدام کرنا شروع کر دیتا ، اس کے اندر عزم اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھنے کے لیے جائے گا، کسی کی مدد کرے گا، کسی غریب کا ہاتھ پکڑے گا اور کسی ضعیف کے لیے سہارا بنے گا تو جیسے ہی اس کے اندر ایک اچھا ارادہ پیدا ہوتا ہے تو کچھ وقت کے بعد فرشتے اس کی مدد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ شخص اللہ کے کام اور نیکی کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو فرشتے اس کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں، اس کی مدد بھی کرتے ہیں اور اس پر سکینت بھی نازل کرتے ہیں، یہ گویا نیکی کو اللہ کی تائید حاصل ہو جاتی ہے۔
اس کے برخلاف ایک آدمی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مہلت دیتے ہیں کہ وہ اپنے ارادے پر نظرثانی کر لے، لیکن وہ اپنے ارادے پر قائم ہو جاتا اور برائی کی طرف اس کا میلان منتہا کو پہنچ جاتا ہے، وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اب مجھے برائی ہی کا ارتکاب کرنا ہے اور اس کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے تو کچھ وقت کے بعد اللہ تعالیٰ اس غفلت کی سزا میں شیاطین کو موقع دے دیتے ہیں کہ اب وہ چاہیں تو اس پر مسلط ہو جائیں۔ اس کی آخری صورت وہ ہے جسے سورۂ زخرف میں بیان کیا ہے کہ:
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ. (الزخرف۴۳: ۳۶)
’’ اور جو رحمٰن کی یاد سے منہ موڑ لے، اُس پر ہم ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں، پھر وہ اُس کا رفیق بن جاتا ہے۔‘‘
یعنی جب کوئی آدمی خدا کی یاد سے اپنے آپ کو الگ کر لیتا اور غافل ہو کر رہ جاتا ہے تو پھر شیطان اس پرمسلط کر دیا جاتا ہے۔ یہ عام قانون ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں جو دوسری چیز ہے، یہ ختم ہو جاتی ہے، یعنی جب آپ گویا ارادہ کر لیتے ہیں اور برائی کی طرف چل نکلتے ہیں تو ’مردة الجن‘، یعنی جنات میں سے جو شیاطین ہیں اور جو اس طریقے سے ترغیب دیتے ہیں ، ان کو بند کر دیا جاتا ہے(ترمذی، رقم ۶۸۲)۔ یہ بالکل ایک عام مشاہدے کی چیز ہے کہ نیکی کی ترغیب پیدا ہو جائے تو رمضان میں آدمی کے لیے اسے کرنےمیں بڑی سہولت ہوتی ہے، اس لیے رمضان میں ایک فطری رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح برائی کی طرف ایک فطری روک لگی ہوتی ہے۔ تاہم آدمی آگے بڑھتا ہے تو کوئی دوسری طاقت یا کوئی خارجی طاقت اسے نہیں لے جاتی۔ یہ رعایت ہے جو رمضان میں دی جاتی ہے، لیکن جو آدمی کا ارادہ ، رجحان اور اس کے اندر برائی کا میلان ہے، وہ تو ویسے ہی کام کرتا رہتا ہے[60]۔
سوال: نماز تراویح کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: تراویح تہجد ہی کی نماز ہے، یہ کوئی الگ نما ز نہیں ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پانچ نمازوں کے ساتھ تہجد کی نماز کا اہتمام بھی فرماتے تھے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نماز آپ پر لازم کر دی گئی تھی۔ قرآن مجید نے سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا ہے:
وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ. (۱۷: ۷۹)
’’ اور رات کے ایک حصے میں بھی اِسی طرح اٹھو (اور نماز پڑھو)۔ یہ تمھارے لیے مزید برآں ہے۔‘‘
یعنی آپ رات کے وقت تہجد کا اہتمام کریں۔ یہ آپ کے لیے ایک زائد نماز ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ مزمل (۷۳: ۱-۸) میں بھی اسی کی تاکید کی ہے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ رات کے وقت اٹھیں اور اس نماز کا اہتمام کریں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ آپ پر کیوں لازم کی گئی ہے؟ اللہ کے پیغمبر جس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اٹھتے ہیں تو اس لحاظ سے گویا ان پر ایک زائد نماز لازم کی گئی۔ ہم پر پانچ نمازیں لازم تھیں اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر چھ نمازیں لازم تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نہایت اہتمام کے ساتھ نماز تہجد پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی شوق پیدا ہوا؛ اس کو بھی قرآن نے بیان کر دیا ہے کہ جب ہم نے آپ کو حکم دیا کہ یہ نما ز پڑھیں تو اہل ایمان کا ایک گروہ بھی آپ کے ساتھ اس کا اہتمام کرنے لگ گیا (المزمل۷۳: ۲۰)۔
ظاہر ہے کہ تہجد کا وقت فجر سے پہلے ہوتا ہے تو انھی میں سے بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہمارے لیے صبح کے وقت اٹھ کر اسے پڑھنا مشکل ہوتا ہے تو کیا ہم اسے عشاء کے بعد پڑھ لیا کریں؟ تو آپ نے فرمایا کہ پڑھ لیا کریں۔
اصل میں یہ تہجد ہی کی نماز ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف میں بیٹھے ہوئے اپنے خیمے سے باہر نکل کر تہجد کی نماز پڑھی ہے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کے پیچھے صفیں باندھ لیں اور اس طریقے سے پڑھنا شروع کر دی۔ غالباً گرمی کا موسم ہو گا یا اس طرح کی صورت ہو گی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیمے سے باہر نکلنا پڑا۔ لہٰذا یہ تہجد کی نماز ہے اور اس کا صحیح وقت وہی ہے جو تہجد کا وقت ہے۔ اجازت دی گئی ہے کہ اس کو آپ عشاء کے بعد پڑھ سکتے ہیں۔ بعد کے زمانوں میں وہ طریقہ اختیار کر لیا گیا جس کے مطابق مسلمان یہ نماز پڑھنے لگ گئے۔ اس طریقے کی ابتدا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔
پانچ نمازیں تو لوگ عام طور پر پڑھتے ہیں، ان کے ساتھ تہجد کی نماز بھی اسی اہتمام کے ساتھ پڑھنے لگ گئے۔ اب اس نے عشاء کے بعد باقاعدہ نماز کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس کو ’تراویح‘ بھی بہت بعد میں کہا گیا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کے لیے ’تراویح‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت ’قیام اللیل‘ ہی کا لفظ استعمال ہوتا تھا، یعنی تہجد قیام اللیل ہی ہے۔ یہ ’قیام اللیل‘ کی تعبیر سورۂ مزمل سے اخذ کی گئی ہے۔ جب حدیث کی کتابیں دیکھیں تو ان میں بھی اس کی تمام روایتیں ’قیام اللیل‘ ہی کے تحت لائی جاتی ہیں۔ یہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، رات کی نماز ہے، ہمیشہ طاق پڑھی جاتی ہےاور اجازت دی گئی ہے کہ اگر آپ کو کوئی عذر درپیش ہے تواسے عشاء کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں[61]۔
سوال: کیا نماز تراویح کا اہتمام گھر میں کیا جا سکتا ہے؟
جواب: یہ چونکہ تہجد ہی کی نماز ہے، اس لیے آپ اسے گھر میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لوگ اپنی ضرورت کے تحت مسجد میں جاتے تھے۔ آپ گھر میں پڑھیں یا مسجد میں پڑھیں۔ مسجد میں تراویح پڑھنے کی ایک روایت قائم ہو گئی ہے، اس میں ایک امام قرآن سناتا ہے تو قرآن سننے کا اہتمام ہو جاتا ہے اور پابندی کے ساتھ آپ پڑھ لیتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب ایک امام مقرر کیا تو اگلے دن آ کر یہی تبصرہ کیاکہ جس کو تم اس وقت ادا کر رہے ہو، اس سے وہ وقت بہتر ہے جو اس کے لیے اصلاً مقرر کیا ہے[62]۔
سوال: کیا نابالغ امام کے پیچھے تراویح پڑھی جا سکتی ہے؟
جواب: دینی ضروریات کے لیے بلوغ کا مطلب کیا ہے؟ یعنی بچہ اگر نماز ٹھیک پڑھا رہا ہے، نماز سے واقف ہے، نماز کا شعور رکھتا ہے اور اللہ کی کتاب کو پڑھ سکتا ہے تو کوئی مانع نہیں ہے۔ اگر وہ آپ کے درمیان قرآن مجید کو یاد کیے ہوئے ہے تو یہ بڑی نعمت ہے، اس لیے آپ اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اس کا جسمانی بلوغ نہیں، بلکہ ذہنی اور شعوری بلوغ دیکھنا چاہیے، لیکن اگر وہ شعور ہی نہیں رکھتا کہ کہاں کھڑا ہے اور نماز کیا چیز ہے تو یہ ظاہر ہے کہ نماز کو بالکل کھیل بنانا ہو گا۔ ایک باشعور بچہ جو سمجھتا ہے کہ میں اللہ کے حضور میں کھڑا ہوں، میں نماز پڑھ رہا ہوں یا میں نماز پڑھا رہا ہوں اور اس احساس کے ساتھ نماز پڑھا رہا ہوں کہ یہ اللہ کی عبادت ہے اور میں اللہ کایاد کیا ہوا کلام پڑھ رہا ہوں تو اس شعور کے ساتھ آپ کسی کو بھی امام بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے اس کے جسمانی بلوغ کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے[63]۔
سوال: نماز تراویح اگر تہجد ہی کی نماز ہے تو یہ رمضان ہی میں کیوں پڑھی جاتی ہے؟
جواب: چونکہ لوگ رمضان میں خصوصی اہتمام کرتے ہیں ، انھیں عبادت کا زیادہ شوق ہوتا ہے، وہ مسجد میں زیادہ جاتے ہیں اور اب بھی یہی صورت ہوتی ہے، اس لیے یہ رمضان میں اہتمام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ عام حالات میں مسجد میں ایک یا دو صفیں پوری ہوتی ہیں، جب کہ رمضان میں جگہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا لوگوں میں فطری طور پر رمضا ن میں نماز پڑھنے کا زیادہ رجحان ہوتا ہے۔ انھوں نے خیال کیا کہ ہمیں کم از کم رمضان میں تو تہجد کا اہتمام کرنا ہی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو ہمیشہ ہی اس کا اہتمام کرتے ہوں گے۔ایسے لوگ بھی ہوں گے جو سال کے باقی مہینوں میں بھی اس کا وقتاً فوقتاً اہتمام کرتے ہوں گے۔رمضان میں آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ ہم روزے بھی رکھ رہے ہیں، یہ عبادت کا مہینا ہےاور اس کی بڑی فضیلت ہے تو اس میں یہ روایت قائم ہو گئی۔
یہ روایت اصل میں انھی عام لوگوں نے قائم کی ہے جو تہجد کے وقت اٹھنے میں دقت محسوس کر رہے تھے۔اگر آپ اس کی تاریخ دیکھیں تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم اسے اس کے اصل وقت میں ہی پڑھ رہے تھے۔ خود وہ روایت جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے امام مقرر کیا ، وہ بتاتی ہے کہ وہ خود اس نماز میں شریک نہیں ہوئے۔ انھوں نے اس کو اپنے ہی طریقے پر جاری رکھا اور یہ تبصرہ بھی کیا کہ وہ اس سے کہیں بہتر ہے، کیونکہ اس کا اصل وقت وہی ہے۔آپ اس وقت اٹھیں گے، خلوت میں ہوں گے، اللہ سے راز و نیاز کریں گے اور آپ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کریں گے ۔ لہٰذا اس میں اصل وہی ہے، تاہم عام آدمی جو اس وقت نہیں اٹھ سکتا اور اس نے اسے عشاء کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا تو یہ ایک رخصت اور سہولت کا معاملہ ہے اور یہی اصل بن گیا۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو علمی طور پر جب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی تو اس طرح کا معاملہ کر ٖڈالتے ہیں۔ یہی معاملہ تہجد کے ساتھ ہوا ہے[64]۔
سوال: کیا اعتکاف کی عبادت پچھلی امتوں میں موجود تھی؟
جواب: اعتکاف روزے ہی کا منتہاے کمال ہے۔ اعتکاف یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو مسجد تک ہی محدود کر لیں گے۔ ایک لحاظ سے کسی فطری دین میں جتنی رہبانیت ہونی چاہیے، اتنی اس میں داخل کر دی گئی ہے۔جب انسان چاہتا ہے کہ وہ خدا کی طرف تبتل اختیار کرے، خدا کی عبادت کرے، دنیا سے کٹ کر اپنے رب کا ہو کر رہ جائے تو یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اس کو لازم تو نہیں کیا گیا ، لیکن یہ ایک نفل عبادت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک نفل عبادت کے طور پر اعتکاف کا ہمیشہ اہتمام کرتے تھے، غالباً یہ بھی آپ کے لیے لازم ہی تھا۔ باقی لوگ بھی یہ اہتمام کرنے لگ گئے اور اب بھی ہماری مسجدوں میں اس کا بہت اہتمام ہوتا ہے۔ اعتکاف کی عبادت فرض نہیں کی گئی۔ یہ عبادت بھی ہمیشہ سے موجود ہے۔ قرآن مجید نے بیت اللہ کی تعمیر کےبارے میں یہ کہا ہے کہ آپ اس کو طواف کرنے اور اعتکاف کرنے والوں کے لیے پاک رکھیے:
وَعَهِدْنَا٘ اِلٰ٘ي اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ. (البقرہ۲: ۱۲۵)
’’ اور ابراہیم و اسمٰعیل کو اِس بات کا پابند کیا کہ میرے اِس گھر کو اُن لوگوں کے لیے پاک رکھو جو (اِس میں) طواف کرنے، اعتکاف کرنے اور رکوع و سجدہ کرنے کے لیے آئیں۔‘‘
اسی طرح روزے کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ ‘[65] (جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کے یہ پہلے ہی سے قائم ایک سنت ہے جو چلی آ رہی ہے[66]۔
سوال: اعتکاف کیا ہے اور اس کے آداب کیا ہیں؟
جواب: اعتکاف کوئی الگ عبادت نہیں ہے، یہ روزے ہی کا منتہاے کمال ہے۔ قرآن مجید میں روزے کے احکام ہی کی ذیل میں اعتکاف کا ذکر ہوا ہے۔ روزے میں کچھ جائز چیزوں ، یعنی کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ جنسی تعلق پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں ، اعتکاف میں قانونی پہلو سے مزید دو پابندیاں عائد ہوتی ہیں: ایک یہ کہ رات کو بھی بیوی سے قربت نہیں کریں گے اور دوسرے یہ کہ مسجد میں رہیں گے۔ اعتکاف یہ ہے کہ آپ گھر سے اس کی نیت سےنکلیں، یہ فیصلہ کریں کہ کچھ وقت مسجد میں گزاریں گے اور اس سے باہر نہیں نکلیں گے، سواے کسی ناگزیر ضرورت کے اور مسجد میں رہ کر آپ روزہ رکھیں گے۔ روزہ رکھنا فرض عبادت ہے، مگر اعتکاف ایک نفل عبادت ہے۔
روزے کو اس کے منتہاے کمال پر اختیار کرنا نفل اور تطوع ہے۔ قرآن مجید کی آیت ’وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ ‘ (جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو)میں لفظ ’اعتکاف‘ پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسجد میں گوشہ نشین ہوکر بیٹھ گئے تو گوشہ نشینی برائے گوشہ نشینی تو نہیں ہو سکتی، اس کے کچھ باطنی، فکری اور ظاہری مقاصد ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے آپ پر غور کریں، اپنے دین کی حقیقت کو سمجھیں اور اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق پر غور کریں۔ یہ غور و فکر عبادت ہے۔ اب اس کا ایک ظاہری پہلو یہ ہے کہ آپ کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ اس عرصے کے دوران میں زیادہ سے زیادہ نفل عبادت کر سکیں اور اللہ کی کتاب قرآن مجید کو سمجھ کر اور غوروفکر کےساتھ پڑھیں۔
اگر آپ دین کے فہم کے لیے کچھ چیزیں مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ پڑھ لیں۔ جو معروف اورمتعین عبادات ہیں، ان میں بنیادی چیزیں زیادہ اشتغال اور انہماک کے ساتھ مصروف رہنا اور اللہ کی کتاب اور اس کے دین کے فہم میں اضافہ کرنا ہونی چاہییں۔
وہ چیزیں جو اعتکاف کی حالت میں اس کی روح کے خلاف ہیں، مثلاً کاروباری گفتگو، مجلسیں لگانا، میلے یا تقریب کی صورت پیدا کر دینا، جیساکہ ہمارے ہاں ایک اجتماعی اعتکاف کا تصور پیدا ہو گیا ہے، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس میں اصل مقصود یہ ہے کہ آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے الگ ہوں اور مسجد کو اپنا مسکن بنا کر کچھ وقت گزاریں۔ آپ چند گھنٹوں کے لیے ، دن بھر کے لیے یا تین دن کے لیے بیٹھیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دن کے لیے بیٹھا کرتے تھے تو گویا یہ آپ کا اسوۂ حسنہ ہے، جسے لازم نہیں کیا گیا۔ یہ لازم نہیں کہ آپ دس دن کے لیے ہی بیٹھیں گے تو آپ کا اعتکاف ہو گا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تہجد اہتمام کے ساتھ پڑھتے تھے، اسی طرح آپ اعتکاف بھی بہت التزام کے ساتھ کرتے تھے، یعنی ہمیشہ کرتے تھے، بلکہ ایک سال جب آپ کسی سفر یا اس طرح کی صورت حال کی وجہ سے اعتکاف نہیں کر سکے تو پھر اگلے سال آپ نے بیس دن اعتکاف کیا(ابوداؤد، رقم ۲۴۶۳)۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف دس دن کا ہے، ورنہ آپ کو جتنا موقع ملے، اتنا اعتکاف کر سکتے ہیں[67]۔
سوال: کیا اعتکاف صرف آخری عشرے ہی میں ہو سکتا ہے؟
جواب: اعتکاف دوسرے دو عشروں میں بھی ہو سکتا ہے، بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی عشرے میں بھی اعتکاف کیا، اس لیے یہ لازم نہیں ہے کہ یہ آخری عشرے ہی میں کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے[68]، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوۂ حسنہ ہے جس کو سامنے رکھ کر اسے آخری عشرے میں کرنے کی روایت قائم ہو گئی۔ یہ لازم نہیں ہے اور نہ اس کے لیے کوئی دن مقرر ہے، یعنی آپ ایک دن، دو دن ، تین دن یا پانچ دن کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر آخری عشرے میں دس دن کے لیے اعتکاف کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آخری عشرہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احتمال محسوس فرمایا کہ مجھ پر شاید اسی عشرے میں کسی وقت قرآن نازل کیا گیا تھا اور اسی کی کسی طاق رات میں نازل کیا گیا تھا۔ چونکہ قرآن مجید نے یہ بتا دیا کہ وہ رات کوئی معمولی رات نہیں تھی، بلکہ وہ لیلۃ القدر، یعنی بڑی فضیلت کی رات تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرے کو عبادت کے لیے خاص کر لیا۔
چنانچہ اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکا ف کرتے تھے اور اسی کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ عشرہ آ جاتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کا ایک غیرمعمولی اہتمام کرنا شروع کر دیتے تھے:
کان النبي صلی اللہ علیه وسلم إذا دخل العشر، شدّ مئزرہ وأحیا لیله و أیقظ أھله. (بخاری، رقم۲۰۲۴)
’’ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر عبادت کے لیے کس لیتے، خودبھی شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کوبھی اِس کے لیے اٹھاتے تھے ۔‘‘
اسی وجہ سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو سامنے رکھ کر آخری عشرے میں اعتکاف کرتے ہیں، یہ کوئی لازم نہیں ہے[69]۔
سوال: کیا خواتین مسجد میں جا کر اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں؟
جواب: اعتکاف کے لیے مساجد ہی میں بیٹھنا چاہیے۔ مسجد میں رہنا اور مسجد تک محدود ہو جانا ہی اعتکاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی مسجد ہی میں اعتکاف کرتی تھیں۔ روایتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ ان کے لیے خصوصی خیمے لگا دیے جاتے تھے۔ لہٰذا مسجد ہی میں اعتکاف کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کی معاشرت نہیں تھی جس کے ہم اب عادی ہو گئے ہیں۔ اب خواتین سب کام کر سکتی ہیں ، مگر مسجد میں نہیں جا سکتیں، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین پانچوں نمازیں مسجد میں جا کر پڑھتی تھیں اور اعتکاف کے لیے بھی مسجد میں ان کے لیے اہتمام کیا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں بھی بہت سی مساجد میں یہ اہتمام کیا جاتا ہے؛ الگ جگہیں بنا دی جاتی ہیں اور خواتین مسجد میں جاتی ہیں۔
بعد کے زمانے میں علما کے ہاں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ وہ مسجد میں آئیں گی تو اس سے فتنے کا اندیشہ ہے، چنانچہ نماز کے معاملے میں بھی ان کی حوصلہ شکنی (discourage) کی گئی کہ وہ نماز کے لیے نہ آئیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خواتین کے لیے بعض جگہوں پر جمعہ اور عیدین کا اہتمام تو کر دیا جاتا ہے، مگر ان کے لیے پانچ وقت کی نماز کے لیے مسجد میں آنے کا تصور ہی نہیں رہا۔ ملائشیا میں خواتین کے لیے مسجد میں الگ جگہ بنی ہوئی ہے؛ وہ آتی ہیں اور جماعت میں شریک ہو کر نماز پڑھتی ہیں۔ بیت اللہ اور مسجد نبوی میں دیکھیں تو یہی صورت ہوتی ہے۔
لہٰذا خواتین کو مسجد ہی میں جا کر اعتکاف کرنا چاہیے۔ نماز کے لیے اگر وہ مسجد میں آئیں تو اچھی بات ہے۔ تاہم لوگوں نے خیال کیا ہے کہ اس سے فتنہ پیدا ہو جاتا ہے تو گویا مجبوری کے عالم میں گھر ہی کے ایک کونے کو مسجد قرار دے لیں ۔ گویا یہ ایک فقہی اجتہاد ہے، ورنہ اعتکاف کی اصل یہی ہے کہ وہ مساجد میں ہوتا ہے[70]۔
سوال: کیا اعتکاف فرض کفایہ ہے؟
جواب: اعتکاف کسی تعریف کے مطابق فرض کفایہ نہیں بنتا۔ آپ نے اگر ’فرض کفایہ‘ کی اصطلاح اختیار کرنی ہے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ کیا چیز ہے؟ کچھ معاملات وہ ہیں جن میں ہم بہ حیثیت فرد مخاطب ہیں کہ تم نے نماز پڑھنی ہے، تم نے روزہ رکھنا ہے، تو یہ وہ فرائض ہیں جو فرد کی حیثیت سے ہمیں دیے گئے ہیں اور فرد کی حیثیت سے ہم ان کو انجام دے سکتے ہیں۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے کو مخاطب کر کے دی گئی ہیں، مثلاً مسلمانوں کو اپنے ہاں ایک مسجد بنانی چاہیے یا تمھارا ایک بھائی اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے ، اس کی تجہیز و تکفین اور جنازہ پڑھنا چاہیے۔ یہاں مخاطب فرد نہیں، بلکہ معاشرہ ہے۔ چنانچہ وہ احکام جو معاشرے کو دیے جاتے ہیں، اس کام کو کرنے کے لیے جتنے لوگ د رکار ہیں، وہ کر دیں تو گویا وہ فریضہ ادا ہو جاتا ہے۔ اس کو فرض کفایہ کہا جاتا ہے۔
اعتکاف میں تو اس طرح کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، یعنی معاشرے کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اعتکاف کریں ، بلکہ فرد کو دیا گیا ہے۔ یہ نفل عبادت بھی فرد کے لیے ہے۔ جہاد و قتال، ہجرت، جنازہ پڑھنے اور مسجد بنانے کی ہدایت معاشرے کو دی گئی ہے۔اس طرح کی چیزیں فرض کفایہ ہیں۔ لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمیں یہ اطلاع ملے کہ ہمارے ایک بھائی کی میت پڑی ہوئی ہے اور کوئی اس کا جنازہ پڑھنے والا نہیں ہے تو ہم یہ کہیں کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے، اسے یہ ذمہ داری دوڑ کر پوری کرنی چاہیے یا آپ ایک بستی میں رہتے ہیں، وہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی جمعیت ہے تو وہاں مسجد نہ ہونے کی صورت میں یہ پوری بستی کی ذمہ داری ہے کہ وہاں نماز کی جگہ بنائیں۔ یہ فرض کفایہ ہے، جب کہ اعتکاف میں تو یہ زیر بحث ہی نہیں ہے[71]۔
سوال: کیا 27 ؍رمضان کی رات ہی شب قدر ہے؟
جواب: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا تو کافی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ یہ ہم نے ایک ایسی رات میں نازل کیا تھا جو فیصلوں اور قدر کی رات ہے۔ یہ رات بڑی غیرمعمولی ہے۔ آپ سوچیے کہ اگر کوئی واقعہ آپ کو چار پانچ سال پہلے پیش آیا ہو اور آپ کو بتایا جائے کہ وہ واقعہ جس دن پیش آیا تھا، اس دن کی یہ اہمیت تھی تو آپ اس کو یاد کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو پوری طرح یاد آ جائے کہ کون سا دن تھا، مثلاً آپ کو یاد آ گیا کہ منگل کا دن اور تاریخ تھی، مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یاد نہیں آتا اور آپ اندازہ کرتے ہیں کہ وہ کیا دن تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اندازہ کیا کہ مجھ پر کب قرآن نازل ہونا شروع ہوا تھا؛ آپ کا اندازہ یہ تھا کہ یہ رمضان کا مہینا ہے، پھر آپ کا اندازہ یہ تھا کہ یہ آخری عشرہ ہے، پھر جب مزید غور کیا تو آپ کو احساس ہوا کہ یہ غالباً کوئی طاق رات تھی، پھر جب طاق راتوں کے بارے میں اندازہ کیا تو آپ کو یہ خیال ہوا کہ شاید ستائیسویں کی رات تھی۔
چنانچہ ستائیسویں کی رات کا زیادہ ذکر آ گیا۔ اس لیے شب قدر کے ستائیسویں رات میں ہونے کے بارے میں یقینی طور پر کوئی بھی قائل نہیں ہے، یعنی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حقیقت میں وہ رات کون سی تھی۔ اندازہ کرنے میں چند باتیں یاد رہ گئی ہیں: ایک یہ کہ آخری عشرہ تھا، چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں عبادت کا بہت اہتمام کرتے تھے اور آخری عشرے ہی میں اعتکاف فرماتے تھے، اس کی وجہ یہ احساس ہے کہ وہ رات شاید اسی عشرے میں آتی ہے، شاید وہ طاق رات تھی اور شاید وہ ستائیسویں کی رات تھی۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی متعین رات یاد نہیں ، صرف یہ اندازہ ہے کہ ان میں سے کوئی رات ہو سکتی ہے۔ جن راتوں کا زیادہ اندازہ ہے، وہ طاق راتیں ہیں؛ طاق راتوں میں جس رات کا زیادہ اندازہ ہے ، وہ ستائیسویں کی رات ہے[72]۔
سوال: شبِ قدر کو متعین نہ کرنے میں کیا حکمت ہے؟
جواب: جب کوئی چیز متعین کر دی جاتی ہے تو ساری توجہ اسی پر مرتکز ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو متعین نہیں کیا۔ اس میں ذرا سا غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ بندے میں عبادت کا شوق اور اس کی تلاش کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ اسے متعین نہ کرنے کی وجہ سے آپ آخری عشرے کی دس کی دس راتوں میں اور طاق راتوں میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو گا اور اس کی عبادت کا ایک داعیہ پیدا ہو گا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ہوا۔ ان دونوں چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ملا دیا ہے، یعنی اطلاع بھی دے دی ہےاور اس اطلاع کو متعین بھی نہیں کیا ، جس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر پورے رمضان میں عبادات کے داعیات پیدا ہو جائیں گےتاکہ زیادہ سے زیادہ ان کے لیے مغفرت اور رحمت کے مواقع ہوں۔
اس طریقے سے آپ ایک ہی رات میں سارا اہتمام خاص کر دیتے ہیں، اس لیے کہ ہم تعین سے نہیں جانتے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پورے رمضان میں ہو اور ہو سکتا ہے کہ آخری عشرے میں ہو؛ آخری عشرے میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ لازماً اس میں آئی تھی، بلکہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ اس میں ہو۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آ گیا ہے کہ غالباً آخری عشرہ تھا تو اسی پر ارتکاز ہو گیا۔ ا س میں بھی یہ متعین نہیں کیا گیا کہ کون سی رات تھی؛ شاید طاق راتوں میں سے تھی۔ اس طریقے سے پانچ سات راتیں ایسی آ جاتی ہیں جن میں آپ عبادت بھی کرتے ہیں، اللہ کی طرف رجوع بھی کرتے ہیں اور مغفرت بھی چاہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو متعین نہ کرنے میں یہ بڑی حکمت ہے۔
اس رات کو اگر متعین کر دیا جاتا تو اس سےمزید بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے کہ یہاں پاکستان میں کب آئے گی اور عرب میں کب آئے گی، اس وجہ سے اس کو متعین ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ بالکل فطرت پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ آپ کو اس کی اطلاع دے دی گئی ہے ، لہٰذا ایک بندۂ مومن ہونے کی حیثیت سے آپ کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس کا ظہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردعمل سے ہو گیا۔
اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اسوہ کو سامنے رکھ کر عبادت بھی کرتے ہیں، اسے تلاش بھی کرتے ہیں اور یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ قریب بھی ہوں[73]۔
سوال: صدقۂ فطر کیا ہے اور کیا اسے عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے؟
جواب: صدقۂ فطر اسی طرح لازم ہے، جس طرح روزے رکھنا لازم ہے۔ یہ مال کی زکوٰۃ ہے جو آپ دیتے ہیں، اس وجہ سے ہمارے ہاں جو قدیم اصطلاح ہے، وہ ’زکوٰۃ الفطر‘ ہے، گویا یہ روزے کی زکوٰۃ ہے۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ روزے کے اندر کوتاہیاں بھی ہو جاتی ہیں، اس میں نشیب و فراز آ جاتے ہیں، طبیعت و کیفیات میں فرق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے گویا اس کے لیے ایک زکوٰۃ مقرر کر دی ہے۔
اس کو ’صدقۂ فطر‘ کہا جاتا ہے اور یہ لازم ہے۔ عام حالات میں ہم جو زکوٰۃ دیتے ہیں، اس کا تعلق آمدنی یا مال یا پیداوار سے ہے، صدقۂ فطر کا تعلق افراد سے ہے، یعنی یہ تو بچہ بھی ہو گا تو اس پر عائد ہو جائے گا۔ عید کے تہوار پر یہ آپ کے لیے پاکیزگی اور دوسروں کے لیے مدد کا ذریعہ ہے۔ یہ عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا چاہیے[74]۔
سوال: زکوٰۃ اور فطرانے میں کیا فرق ہے؟
جواب: ہمیں عمومی طور پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ تمھارے مال میں ایک حق ہے جو تمھیں ادا کرنا ہے۔ یہ ہم اپنی صواب دید اور مرضی سے ادا کرتے ہیں۔ یہ چیز ہماری عام زندگی میں داخل ہونی چاہیے۔ اس کے پس منظر میں جو فلسفہ ہے ، وہ یہ ہے کہ تمھاری ذاتی، کاروباری، حال اور مستقبل کی ضرورتوں سے زیادہ جو کچھ تمھارے پاس ہے، وہ اصل میں معاشرے کا حق ہے۔ تمھارے گردو پیش کے ماحول میں غریب، مسکین اور ضرورت مندوں کو یہ حق تمھیں ادا کرنا ہے۔ اس میں ایک حصہ لازم کیا گیا ہے اور جو لازم انفاق ہے، اس کی ایک صورت زکوٰۃ ہے۔ یہ ہر حال میں، ہر شخص پر اس کے مال، پیداوار اور مواشی میں بھی ہے۔ اسی کی ایک صورت ’صدقہ ٔ فطر‘ ہے۔
چونکہ اگر روزے اور رمضان کے حق میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہےتو اس کے ازالے کے لیے کچھ انفاق کیا جاتا ہے، وہ انفاق آپ پر لازم کر دیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اس قدر انفاق کرتے اور ایسے فیاض ہو جاتے تھے ، گویا آپ چلتی ہوئی ہوا کی طرح ہو جاتے تھے:
كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ. (بخاری، رقم۶)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور رمضان میں جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔‘‘
ہونا تو یہی چاہیے کہ رمضان میں آپ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں، لیکن ایک حصہ آپ پر لازم کر دیا گیا ہے، جسے ’ صدقۂ فطر ‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ قانون بھی بنا دیا گیا ہے کہ یہ خاندان کے ہر فرد پر لازم ہو گا، یعنی اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس مال ہے یا نہیں۔خاندان کے سربراہ پر یہ لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کے لحاظ سے یہ رقم ادا کرے[75] ۔
سوال: صدقۂ فطر کی شرح کیا ہے؟
جواب: اس کی شرح ایک پورے دن کا کھانا ہے۔ اب ہمارے ہاں جو انواع و اقسام کے کھانے بنتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ صورت نہیں تھی۔ اس وقت اناج کے لحاظ سے ہی ایک دن کے کھانے کا تعین ہوتا تھا تو آپ نے اس کے لیے ایک صاع مقرر کر دیا، جو کہ ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔ اس کی شرح میں تھوڑا بہت لوگوں کا اختلاف بھی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ جو تمھاری عام استطاعت ہے، اس کے لحاظ سے ادا کیا جائے۔ اس لیے اپنی استطاعت کا لحاظ کرنا چاہیے۔ اگر غریبانہ زندگی ہے تو آپ سستی ترین چیز کے لحاظ سے صدقۂ فطر دے دیں اور اگر اللہ نے آپ کو وافر نعمتیں دی ہیں تو بہتر طریقے سے دیں۔
یہ اصل میں ایک دن کا کھانا ہے اور آپ کو اپنے ایک دن کے کھانے کا حساب کر کے اس کے لحاظ سے صدقۂ فطر ادا کر دینا چاہیے۔ یہی اس کی مقدار ہے جو مقرر کر دی گئی ہے، اس وجہ سے اس میں ڈھائی فی صد یا مال کی متعین مقدار دینے کا سوال نہیں ہے۔ یہ ہر فرد پر عائد کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ جو بچہ آج پیدا ہوا ہے، اس کی طرف سے بھی اس کے والدین، اولیا یا سرپرست کے ذمے ہے۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاندان پر اس کے افراد کے لحاظ سے لازم کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس خاص تہوار پر یہ آپ کے لیے تطہیر اور پاکیزگی کا ذریعہ بنے اور دوسروں کے لیے مدد کا ذریعہ بن جائے[76]۔
سوال: کیا فطرانے کی رقم مدرسے یا مسجد کو دی جا سکتی ہے؟
جواب: فطرانے کی رقم مساجد اور مدارس کو دی جا سکتی ہے، بلکہ ہر اچھے کام کے لیے دی جا سکتی ہے، لیکن یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سب سے پہلے ہمیں انسانوں کو دیکھنا ہے۔ دیکھیے، زکوٰۃ کے مصارف بیان کیے گئے ہیں تو سب سے پہلے فقرا و مساکین ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ یہ غالباً کوئی چیریٹی ہے۔ یہ اصل میں آپ نے اجتماعی مقاصد کے لیے رقم دے دی ہے، جس کے مختلف مصارف ہوں گے۔ اس میں تنخواہیں بھی دی جائیں گی، اس میں سیاسی اخراجات بھی ہوں گے۔ آگے سارے کے سارے مصارف بیان ہو گئے ہیں۔ خلق اور خالق کی خدمت کے ہر کام کے لیے یہ رقم دی جا سکتی ہے، لیکن اس میں فقرا و مساکین کو مقدم کیا گیا ہے۔ ان کو ایک دن کے کھانے کی صورت میں دے دیں یا رقم دے دیں، مقصد یہ ہے کہ ان کو عید کے تہوار کی خوشیوں میں شریک کیا جا سکے، اس لیے اصل میں یہ انھی کا حق ہے۔
تاہم مسجد کے لیے یہ رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مسجد درحقیقت اللہ کی عبادت گاہ ہے۔ جب آپ مسجد بناتے ہیں تو اس کے لیے یہ فطرانے کی پاکیزہ رقم خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں[77]۔
سوال: بچوں پر روزہ فرض نہیں تو ان پر فطرانہ کیوں واجب ہے ؟
جواب: روزہ تو ہم پر فرض ہے۔ یہ فطرانہ ہم پورے خاندان کی طرف سے ادا کرتے ہیں۔ بہت سے معاملات ہیں جو ہم بچوں کی طرف سے کرتے ہیں؛ جب باقی معاملات بچوں کی طرف سے کرنے جائز ہیں تو ان کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے میں کیا مانع ہے؟ یہ ایک انفاق ہے جو پورے خاندان کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ یہ فطرانہ ان بچوں اور دیگر افراد پر لازم نہیں ہوا، بلکہ یہ خاندان کے اس فرد پر لازم ہے جو اپنے خاندان کے لوگوں کی طرف سے ادا کرتا ہے۔ خاندان میں جو کمانے والا فرد ہوتا ہے، وہی یہ فطرانہ ادا کرتا ہے[78]۔
سوال: ہمارے معاشرے میں رمضان کے اثرات کیوں نہیں پائے جاتے ؟
جواب: دین کا مقصد ہی انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ ہے۔ دین اصلاً یہی چاہتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو شرف عطا فرمایا ہے کہ وہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے؛ خیر کو اپنانے کے لیے آگے بڑھتا ہے، شر سے اجتناب کے لیے اس میں داعیات رکھے گئے ہیں۔ یہی کشمکش ہے جس میں اس کو زندگی بسر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جو ابتلا یا امتحان برپا کیا ہے ، وہ اصل میں خیر و شر میں امتیاز اور پھر اس میں خیر کو اختیار کرنے اور شر کو چھوڑنے کا امتحان ہے، لیکن اس معاملے میں، معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں نے شاید نہ دین کو سمجھا ہے اور نہ اس کے مقصد کو۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ خیر وشر کی کشمکش کی دنیا الگ ہے اور عبادات کی یہ دنیا الگ ہے۔ لہٰذا دنیا کی زندگی میں ہمیں جس امتحان میں ڈالا گیا ہے، وہ اصل میں اخلاقی وجود کی تطہیر، اس کے تزکیے اور اس کو پاکیزہ بنانے کا امتحان ہے۔ اگر یہی نہیں ہوا تو پھر یہ روزے جیسی ساری چیزیں بے کار ہو جائیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ آدمی نے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں تو لگا لیں، مگر اس نے جھوٹ بولنا، کم تولنا اور دھوکا دینا نہیں چھوڑا۔ یہ کوئی معمولی الم ناک صورت حال تو نہیں ہے کہ جیسے ہی رمضان کا مہینا آتا ہے، اشیا کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ دنیا کا عمومی تجربہ یہ ہے کہ باہر کے ملکوں میں کرسمس کے موقع پر قیمتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ہر دکان دار یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ ہمارا اجتماعی تہوار ہے؛ بہت سے لوگوں نے خریداری کرنی ہے تو میں اپنی منفعت کو کم کر دوں، لیکن ہمارے ہاں تو عمومی رویہ یہ ہے کہ جیسے ہی رمضان کی آمد شروع ہوتی ہے، قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر حکومت سبسڈی دیتی ہے، اپنی طرف سے کچھ مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے اور نگرانی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ نگرانی جو خدا کی طرف سے ہونی چاہیے تھی اور جس میں انسان کو اپنے پروردگار کو جواب دہ سمجھ کر اپنی تطہیر اور تزکیے پر متوجہ ہونا چاہیے تھا اور اگر عام دنوں میں کوئی غلطی ہوتی بھی ہے، اس دوران میں اس کو غلطی سے بچنا چاہیے تھا، اس کے عمومی اثرات نظر نہیں آتے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جتنی بھی عبادات کی نوعیت کی چیزیں ہیں ، مثلاً نماز، حج و عمرہ وغیرہ تو بالعموم ان کے فضائل تو بیان کیے جاتے ہیں جن کا تعلق آخرت میں اجر و ثواب سے ہے، دنیا کی زندگی میں اس کےکیا اثرات ہونے چاہییں اور انسان کے اخلاقی وجود پر اس کا کیا اثر ہونا چاہیے، یہ بالعموم ہماری مذہبی گفتگو میں زیر بحث نہیں آتا[79]۔
سوال: علما کے مابین اختلاف کے ہوتے ہوئے مسلمان ایک ہی دن عید کیسے منائیں؟
جواب: اس کا تعین کرنا علما کا کام نہیں، بلکہ سائنس دانوں کا کام ہے۔ جدید سائنس نے انسان کو اس قابل کر دیا ہے کہ اب وہ سیکنڈز کے حساب سے آپ کو بتا سکتی ہے کہ چاند کی پیدایش کب ہو گی۔ اگر آپ سائنس دانوں سے کہیں تو وہ آپ کو چاند کی پیدایش کے لحاظ سے قمری مہینوں کا کیلنڈر بنا کر دے دیتے ہیں، اس لیے علما کی طرف سے عید کے چاند کی تعیین کی اب ضرورت ختم ہو چکی ہے۔ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ہمارے ہاں آخر نمازوں کے اوقات بھی تو سورج کے لحاظ سے ہیں۔ سائنس دانوں نے ہمارے لیے گھڑی ایجاد کر دی ہے۔ اب ہم میں سے کتنے ہیں جو اس کے بجاے باہر جا کر سورج دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو ایک چھڑی گاڑنی پڑتی تھی تاکہ سایے کا اندازہ ہو جائے۔ بتانے کے لیے یہ کہنا پڑتا تھا کہ تمھارے قد کے برابر سایہ ہو جائے تو اس نماز کا وقت ہو جائے گا۔ غروب آفتاب کو بھی باہر نکل کر دیکھنا پڑتا تھا، اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں تھا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک ٹاٹ کا ٹکڑا مسجد کی دیوار پر ڈال دیا جاتا تھا تاکہ اس کے سایے سے جمعہ کے وقت کا اندازہ ہو جائے، تو اب بھی آپ یہی کرتے ہیں۔ یہ جو پاکستان کی مسجدوں میں نمازوں کے اوقات کا کیلنڈر آویزاں ہے، یہ انگریز بحریہ کا بنایا ہوا ہے۔ انھوں نے آپ کو گھڑی ایجاد کر کے دے دی، اب آپ اطمینان کے ساتھ اس کے ذریعے سے سحری کرتے اور غروب آفتاب کا اندازہ کر کے روزہ کھول لیتے ہیں۔ دیہات میں ہماری مائیں تاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ کرتی تھیں کہ سحری کا وقت ہوا ہے یا نہیں۔ چاند دیکھنا علما کا کام ہی نہیں ہے۔ چاند دیکھنا علم فلکیات کا موضوع ہے اور یہ سائنس دانوں کا کام ہے[80]۔
سوال: ماہ رمضان کے روزوں کے بعد عید الفطر کا مقصد کیا ہے؟
جواب: اس کے نام ’عید الفطر‘ ہی سے اس کا مقصد واضح ہے، یعنی بندے کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اس کی اطاعت کا مظاہر ہ کرے اور اطاعت کا مظاہرہ اس درجے میں جا کر کرے کہ جب ساری جبلتیں زور کر رہی ہوں، اس وقت بھی وہ اللہ کے حکم پر اپنے منہ اور جبلتوں پر تالا لگا کر رکھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس عبادت کو قبول فرمایا، یہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی اور مہینا پورا ہو گیا تو اب ایک تہوار مقرر کر دیا گیا تاکہ بندے اللہ کا شکر ادا کریں۔ چنانچہ قرآن مجید نے خود یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ تہوار کیوں مقرر کیا گیا ہے:
لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ. (الحج۲۲: ۳۷)
’’ تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پر تم اللہ کی بڑائی بیان کرو۔‘‘
یعنی قرآن جیسی کتاب دے دی، روزوں جیسی عبادت لازم کر دی اور اس سے گزرنے کی توفیق دی تو یہ ساری چیزیں شکرگزاری کا تقاضا کرتی ہیں کہ اللہ کی کبریائی بیان کی جائے اور اس کی تکبیر بلند کی جائے[81]۔
سوال: ماہ رمضان ایک تہذیبی روایت ہے یا دینی عبادت کا مہینا؟
جواب: انسان محض ایک عقلی مشین نہیں ہے، یعنی منطق کے ایک طریقے پر آپ صغریٰ کبریٰ قائم کر کےانسان کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کو جب آپ کسی چیز سے متعلق کریں گے، وہ اس کے معاشرتی ، سیاسی اور سماجی وجود کا حصہ بنے گی؛ یہ ہو نہیں سکتا کہ نہ بنے۔ مثال کے طور پر نماز کے لیے محلے میں ایک مسجد بنائی جاتی ہے، اس میں کسی کو امام مقرر کیا جاتا ہے، پانچ وقت ہم گھر سے نکل کر مسجد کی طرف جاتے ہیں اور سب لوگوں سے ملتے ہیں تو اس سے بھی ایک تہذیبی روایت وجود میں آتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ مسلمانوں کے محلے کی کسی مسجد میں دیکھیں تو چونکہ لوگ مغرب کی نماز میں تاخیر نہیں کر رہے ہوتے تو بارہا یہ بڑا خوب صورت منظر سامنے آتا ہے کہ آپ بھاگ رہے ہیں ، ایک دائیں سے اور ایک بائیں سے آ رہا ہے اور آپ جلدی جلدی مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے ایک مذہب یا دین کے ساتھ تعلق کا ظہور ہوتا ہے ۔ یہ ظہور مطلوب ہے اور ہونا چاہیے، اس لیے کہ جب یہ نہیں ہو گا تو پھر معاشرے کی سطح پر وہ ماحول نہیں بنے گا جو آپ کی نسلوں کو دین کی طرف متوجہ کرتا ہے اور جو گرد و پیش کی بہت سی تحریکوں کو اس کی طرف راغب کرتا ہے۔
انسان چونکہ اپنی نفسیات کے لحاظ سے ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ اس کے ہاں کوئی چیز بھی اگر آئے گی تو وہ فوری طور پر اس کی معاشرت، تہذیب اور ثقافت سے متعلق ہو جائے گی؛ متعلق ہوگی تو وہ اصل میں اس کی روایت بنتی ہے، روایت بنتی ہے تو ا س کا پورا وجود اس میں ایک خاص طرح کا اہتزاز محسوس کرتا ہے اور اس طریقے سے وہی چیز جو سادہ صورت میں کرنی مشکل تھی، وہ آسان بھی ہو جاتی ہے اور آیندہ نسلوں کے لیے اس میں بہت کچھ ترغیب کا اہتمام بھی ہو جاتا ہے۔ یہی صورت حال رمضان پیدا کر دیتا ہے۔ رمضان کا پورا مہینا ہے اور ایک ہی ہے جو مقرر کر دیا گیا ہے۔ یوں نہیں کیا گیا کہ لوگ جب بھی چاہیں اپنی اپنی سہولت کے مطابق تیس روزے رکھ لیں۔ ایک مہینے کا مقرر کرنا روزے کو بھی ایک انفرادی عبادت سے آگے بڑھا کر ایک اجتماعی عبادت بنا دیتا ہے، یعنی اب ساری کی ساری قوم روزے رکھ رہی ہے؛ لوگ سحری کے وقت اٹھ رہے ہیں، ہر گھر میں روشنی آ رہی ہے اور ایک دوسرے کی آوازیں سن رہے ہیں۔ ہمارے پرانے محلوں میں تو ایک سماں پیدا ہو جاتا تھا۔
لہٰذا یہ سب چیزیں آپ کے وجود اور نفسیات پر اثرانداز ہوتی ہیں، آپ کو مختلف قسم کے ذہنی انتشار سے نکالتی ہیں اور آپ کے بچوں کے لیے بھی ایک تہذیبی روایت پیدا کرتی ہیں۔ آپ سحری کا اہتمام کرتے ہیں، آپ مسجد میں جاتے ہیں اور مل کر روزہ افطار کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں انسان کی تہذیبی روایت بنتی ہیں اور بننی چاہییں۔ البتہ اس سے آگے بڑھ کر بعض لوگ اس میں بدعت پیدا کر لیتے ہیں۔ اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے، اسی لیے ہمیں یہ توجہ دلائی گئی ہے، بلکہ متنبہ کیا گیا ہے کہ دین میں اپنی طرف سے کوئی نئی چیز پیدا نہ کرو۔ دین میں احداث نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بہت تنبیہ کے ساتھ فرمایا ہے کہ اگر کوئی ایسا نیا کام کرو گے جو دین کی حیثیت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم گم راہی میں پڑ جاؤ گے۔
چنانچہ جو کچھ دین میں بتایا گیا ہے، وہ تو اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن نماز کے لیے اچھی مسجد بنانا، اس میں قالین اور صفیں بچھانا، اس میں حاضر ہونے کے لیے آداب مقرر کرنا، امام مقرر کرنا، محراب کا اہتمام کرنا اور مسجد کو ایک خصوصی حیثیت دینا، ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی چیز مقرر نہیں کی گئی، لیکن یہ خود ہی ہو گیا ہے۔
اسی طرح رمضان سے متعلق بھی بہت سی چیزیں روایت بن گئی ہیں تو وہ روایات جب تک بدعت کے دائرے میں داخل نہ ہوں، اس وقت تک وہ نہایت عزیز اور محبوب ہیں اور یہ پوری کی پوری انسانی شخصیت ، معاشرت اور اس کی تہذیب پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ لہٰذا رمضان اور روزہ، نماز اور اس کی جماعت، عیدین اور جمعہ ہماری تہذیبی روایت کو پیدا کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں[82]۔
سوال: رمضان میں لوگ روزہ اورعبادات کے باوجود گراں فروشی میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں؟
جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں دین کی تعلیم اسی طرح دی گئی ہے، یعنی دین کی تعلیم میں اصل مدعا کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ آپ دین جہاں سے بھی سیکھتے ہیں تو عام طور پر فقہی احکام کی صورت میں سکھایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ فرض ہے، یہ واجب ہے، یہ عبادت کرنی ہے، پانچ وقت کی نماز فرض ہے اور روزے رکھنے ہیں، وغیرہ۔ ان کی روح کیا ہے؟ خدا کی سچی معرفت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اس کا اخلاقی وجود کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کس مقصد کے لیے آئے ہیں؟ وہ نفس کو پاکیزہ بنانے اور اس کی تہذیب کے لیے آئے ہیں تو تہذیب نفس کیا ہے؟ یہ ہمارے ہاں کبھی موضوع نہیں بنتی، بلکہ خطبات و تقاریر اور مذہبی تصانیف میں یا تو فقہی احکام بیان کیے جا رہے ہوں گے یا فضائل بیان کیے جا رہے ہوں گے، مگر دین کی روح منتقل کرنے کے لیے ہمارے ہاں بہت کم اہتمام ہوتا ہے۔
دینیات کی نصابی کتب بھی اسی نوعیت کی ہیں۔ آپ کے سامنے دین کی حقیقت آ جائے، دین اپنی اصل منطق، اصل فلسفے اور اصل روح کے ساتھ نمایاں ہو جائے؛ جب تک آپ ایسا نہیں کریں گے تو یہی ہو گا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کو خدا کے ساتھ تعلق کی تعلیم دی گئی ہو، وہ ذخیرہ اندوزی کرے، وہ جھوٹ بولے، کسی کا مال کھا لے اور اس کے بعد یہ خیال کرے کہ میں اگر روزے رکھ لوں گا اور نماز پڑھ لوں گا تو یہ چیزیں معاف ہو جائیں گی۔ یہ بات لوگوں کو بتانی چاہیے کہ عبادات سے جو گناہ معاف ہوتے ہیں، وہ خدا سے متعلق گناہ ہوتے ہیں، بندوں سے متعلق گناہ معاف نہیں ہوں گے[83]۔
سوال: رمضان کے بعد لوگوں میں پرہیز گاری ختم کیوں ہو جاتی ہے اور اس کا حل کیا ہے؟
جواب: یہ انسان کی کم زوریوں میں سے ایک کم زوری ہے۔ تربیت کے اس مہینے میں فضا اور ماحول بن جاتا ہے۔ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شیاطینِ جن ہیں، ان کے ترغیبات دینے پر پابندی بھی لگا دی جاتی ہے(ترمذی، رقم ۶۸۲)۔ ہم جو کوتاہیوں یا گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں، اس کا اصل داعیہ تو ہمارے اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے نفس کے اندر ارادہ پیدا ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ ارادہ پیدا ہو جاتا ہے تو اگر وہ ارادۂ خیر ہے تو فرشتوں کی توفیق و تائید اس کو حاصل ہوتی ہے اور اگر وہ ارادۂ شر ہے تو شیاطینِ جن بھی وسوسے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان شیاطین کو پابند کر دیا جاتا ہے تو اب صرف نفس رہ جاتا ہے، یعنی ترغیب کے ذرائع کم ہو جاتے ہیں اور مجموعی ماحول بھی آپ پر اثرانداز ہوتا ہے، اس وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکی کر لیں۔
انسان کےساتھ یہ معاملہ بھی ہے کہ کسی چیز کو دو چار دن کے لیے کہیں تو وہ کر لے گا، لیکن زندگی بھر اس کو کرنا آسان کام نہیں ہوتا ۔ یہ ایک فطری چیز ہے، تاہم یہ روزے اس لیے ہیں کہ باقی پورا سال ہم اچھے انسان بن کر رہیں۔چونکہ یہ مہینا ایک تربیت کا مہینا ہے، اس لیے اس میں تو اس کا اہتمام ہو جائے گا، لیکن باقی دنوں میں بھی اس کی روشنی کیوں نہ پھیلے؟ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں، اصل میں اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم کیوں دیا ہے اور وہ ہمیں کسی تربیت سے کیوں گزارتا ہے؟ یہ زیر بحث نہیں آتا۔ ہمارے ہاں ہر چیز کے لیے ایک ہی تعبیر ہے کہ اس کا ثواب دس گنا یا ستر گنا ہو جائے گا؛ یہ تعبیر ہی غلط ہے۔ اللہ کے ہاں ثواب و اجر تو ملتا ہی ہے اور قرآن کے مطابق ستر گنا بھی ملتا ہے، لیکن سب سے پہلے آدمی کو یہ بتانا چاہیے کہ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟
چنانچہ لوگوں کو یہ بتائیے کہ روزے اس لیے ہیں کہ آپ میں تقویٰ پیدا ہو، آپ باقی گیارہ مہینے بھی اللہ کے حدود کی پابندی کرتے ہوئے گزاریں، آپ کے اندر اللہ کو جاننے، محبت کرنے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کے داعیات پیدا ہوں۔ یہ آپ کے لیے تربیت کا ایک موقع ہے، اس سے جو کچھ آپ نے حاصل کرنا ہے، اس کا ظہور آپ کی باقی زندگی میں بھی ہونا چاہیے۔ جب سے دنیا بنی ہے، انسان کی غلطیوں کا ایک ہی علاج دریافت ہوا ہے، اور وہ تعلیم و تربیت ہے۔ لہٰذا لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دینی چاہیے[84]۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
[1]- https://ghamidi.com/videos/what-is-fasting-and-what-is-its-purpose-1067
[2]- https://ghamidi.com/videos/how-did-fasting-begin-3391
[3]- https://ghamidi.com/videos/when-and-where-was-the-command-to-fast-given-to-the-messenger-of-allah-pbuh-5109
[4]- https://ghamidi.com/videos/how-should-the-blessed-days-of-ramadan-be-spent-2382
[5] ۔ القدر ۹۷: ۱-۵۔
[6] - https://ghamidi.com/videos/what-is-the-relationship-between-the-quran-and-ramadan-2998
[7] - https://ghamidi.com/videos/ramadan-and-the-law-of-forgiveness-6974
[8] - https://ghamidi.com/videos/is-it-permissible-to-participate-in-recreational-activities-in-addition-to-worshipping-during-ramadan-6330
[9]- https://ghamidi.com/videos/is-it-necessary-to-pray-immensely-in-ramadan-to-seek-forgiveness-6074
[10]- https://ghamidi.com/videos/what-is-the-responsibility-of-a-muslim-ruler-in-order-to-facilitate-the-people-in-the-month-of-ramadan-6332
[11]- https://ghamidi.com/videos/can-a-wife-complete-her-missed-fasts-without-her-husbands-permission-6324
[12]- https://ghamidi.com/videos/how-should-women-make-up-for-missed-fasts-due-to-menstruation-3052
[13]- https://ghamidi.com/videos/has-the-fidyah-for-those-who-are-unable-to-fast-been-revoked-5110
[14]- https://ghamidi.com/videos/would-someone-who-does-not-fast-due-to-illness-can-feed-the-needy-or-must-fast-at-some-time-later-6323
[15]- https://ghamidi.com/videos/can-pregnant-women-skip-ramadan-fasting-6329
[16]- https://ghamidi.com/videos/tasting-the-food-while-fasting-1068
[17]- https://ghamidi.com/videos/can-women-use-medication-to-postpone-their-periods-for-ramadhan-3025
[18]- https://ghamidi.com/videos/do-women-who-fast-with-primary-objective-to-diet-get-any-rewards-1932
[19]- https://ghamidi.com/videos/does-mistakenly-eating-or-drinking-while-fasting-break-the-fast-6328
[20]- https://ghamidi.com/videos/do-acts-such-as-lying-and-cheating-break-the-fast-1218
[21]- https://ghamidi.com/videos/does-smoking-cigarette-break-the-fast-3006
[22]- https://ghamidi.com/videos/instilling-medication-into-eyes-ears-or-nose-and-fasting-3020
[23]- https://ghamidi.com/videos/does-an-injection-vaccine-break-the-fast-4171
[24]- https://ghamidi.com/videos/rules-of-fasting-for-diabetic-persons-1085
[25]- https://ghamidi.com/videos/does-abusive-language-break-the-fast-3039
[26]- https://ghamidi.com/videos/which-acts-invalidate-the-fast-6211
[27]- https://ghamidi.com/videos/juristic-issues-related-to-fasting-6192
[28]- https://ghamidi.com/videos/is-it-deemed-sinful-for-someone-who-is-fasting-to-not-fulfill-his-duties-adequately-1915
[29]- https://ghamidi.com/videos/dealing-with-situation-of-argument-during-fasting-3027
[30]- https://ghamidi.com/videos/how-should-unethical-activities-be-avoided-while-fasting-3054
[31]- https://ghamidi.com/videos/is-it-a-shariah-ruling-to-not-fast-in-difficult-situations-6325
[32]- https://ghamidi.com/videos/can-fasts-missed-during-a-lifetime-be-made-up-for-1083
[33]- https://ghamidi.com/videos/how-to-recompense-for-the-fasts-left-in-youth-in-old-age-6213
[34]- https://ghamidi.com/videos/juristic-issues-related-to-fasting-part-2-6222
[35]- https://ghamidi.com/videos/are-fasts-of-those-people-acceptable-who-do-not-offer-prayers-1936
[36]- https://ghamidi.com/videos/is-it-okay-to-let-young-children-fast-6331
[37]- https://ghamidi.com/videos/is-it-permissible-to-celebrate-the-opening-of-a-childs-fast-1920
[38]- https://ghamidi.com/videos/what-is-meant-by-fasting-is-for-me-and-i-will-reward-it-5015
[39]- https://ghamidi.com/videos/is-fasting-the-only-way-to-attain-piety-1935
[40]- https://ghamidi.com/videos/is-there-a-reward-for-reciting-the-quran-without-understanding-it-in-ramadan-3053
[41]- https://ghamidi.com/videos/is-there-any-concession-for-those-who-do-heavy-manual-work-in-ramadan-3051
[42]- https://ghamidi.com/videos/is-it-permissible-to-brush-teeth-or-use-miswak-while-fasting-3030
[43]- https://ghamidi.com/videos/are-there-any-medical-benefits-of-fasting-1937
[44]- https://ghamidi.com/videos/what-is-the-status-of-fasts-kept-due-to-pressure-from-others-1919
[45]- https://ghamidi.com/videos/who-are-the-fasting-people-that-gain-nothing-but-hunger-and-thirst-1922
[46]- https://ghamidi.com/videos/how-to-determine-duration-of-fasts-in-places-with-extraordinarily-long-days-and-nights-3026
[47]- https://ghamidi.com/videos/can-a-fast-be-observed-without-eating-at-sehri-3021
[48]- https://ghamidi.com/videos/is-it-obligatory-to-eat-dates-at-sehri-and-iftar-3031
[49]- https://ghamidi.com/videos/recommended-prayers-to-be-recited-at-closing-sehr-and-opening-iftar-of-fasts-3023
[50]- https://ghamidi.com/videos/are-todays-iftar-parties-against-the-spirit-of-religion-1914
[51]- https://ghamidi.com/videos/some-important-questions-about-ramadan-3615
[52]- https://ghamidi.com/videos/the-reality-of-the-difference-in-determining-iftar-time-4316
[53]- https://ghamidi.com/videos/can-we-delay-breaking-the-fast-2043
[54] ۔ طٰہٰ ۲۰: ۱۴۔
[55]- https://ghamidi.com/videos/what-is-the-wisdom-behind-limiting-fasting-to-one-month-3016
[56]- https://ghamidi.com/videos/is-the-reward-of-performing-umrah-during-ramadan-equal-to-hajj-1929
[57] ۔ الشمس ۹۱: ۸۔
[58] ۔ الدہر ۷۶: ۳۔
[59] ۔ البلد ۹۰: ۱۰۔
[60]- https://ghamidi.com/videos/what-is-meant-by-satan-being-restrained-in-ramadan-1928
[61]- https://ghamidi.com/videos/what-is-the-reality-of-taraweeh-3011
[62]- https://ghamidi.com/videos/is-offering-taraweeh-prayers-at-home-permissible-3012
[63]- https://ghamidi.com/videos/some-important-questions-about-ramadan-3615
[64]- https://ghamidi.com/videos/the-reality-of-taraweeh-prayer-1215
[65] ۔ البقرہ ۲: ۱۸۷۔
[66]- https://ghamidi.com/videos/was-itikaf-worship-in-seclusion-practiced-by-previous-nations-as-well-3013
[67]- https://ghamidi.com/videos/what-is-itikaaf-what-are-its-etiquettes-3000
[68] ۔ بخاری، رقم۲۰۲۵- ۲۰۲۷۔ مسلم،رقم ۲۷۷۲، ۲۷۸۰۔
[69]- https://ghamidi.com/videos/zakah-itikaf-and-taraweeh-1665
[70]- https://ghamidi.com/videos/zakah-itikaf-and-taraweeh-1665
[71]- https://ghamidi.com/videos/is-itikaf-fard-al-kifayah-communal-obligation-on-muslims-1897
[72]- https://ghamidi.com/videos/is-27th-of-ramadhan-the-night-of-power-lailatulqadr-3008
[73]- https://ghamidi.com/videos/the-wisdom-behind-not-revealing-the-precise-date-of-night-of-destiny-lailatul-qadr-1962
[74]- https://ghamidi.com/videos/is-it-mandatory-to-pay-fitrana-before-eid-ul-fitr-2425
[75]- https://ghamidi.com/videos/what-is-the-difference-between-zakah-and-fitrana-1963
[76]- https://ghamidi.com/videos/sadaqatul-fitr-correct-amount-2861
[77]- https://ghamidi.com/videos/can-fitrana-charity-given-before-the-end-of-ramadhan-be-given-to-a-mosque-1965
[78]- https://ghamidi.com/videos/if-fasting-is-not-obligatory-on-children-then-why-is-adaqah-of-d-alfir-obligatory-for-them-6327
[79]- https://ghamidi.com/videos/why-ramadan-is-ineffective-in-our-society-1214
[80]- https://www.youtube.com/watch?v=8FEmmcEeKtI
[81]- https://ghamidi.com/videos/ramadhan-spring-season-of-performing-good-deeds-3046
[82]- https://ghamidi.com/videos/is-it-correct-to-establish-the-month-of-ramadan-as-a-cultural-tradition-5131
[83]- https://ghamidi.com/videos/ramadan-special-1-the-spirit-of-fasting-624
[84]- https://ghamidi.com/videos/why-do-people-become-impious-after-ramadan-2996