باب ۹
جماعت اسلامی کے تاریخی ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان میں ۷۰ارکان جماعت سے الگ ہوگئے تھے۔امین احسن کے احباب اورجماعتی دور کے رفقا نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان ارکان کو اکٹھا کریں اورایک نئی جماعت بنائیں ۔امین احسن کا خیال تھا کہ چونکہ یہ سب افراد کسی ایک نکتے پر متفق ہو کر جماعت سے الگ نہیں ہوئے،اس لیے ان کومجتمع کرنا ، مینڈ کو ں کی پنسیر ی باندھنے کے مترادف ہو گااور وہ کوئی کام نہیں کر پائیں گے۔تاہم امین احسن نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایسے افراد کے ساتھ فرداً فرداً رابطہ کیا جائے، اگران کے اندر ذہنی ہم آہنگی اور کسی پروگرام پراتفاق پایا جائے تو نظم قائم کرنے کا اقدام کیا جائے۔چنانچہ مولانا عبد الغفار حسن اورشیخ سلطان احمد صاحب نے ملک کا دورہ کر کے ان ارکان کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور اسی نتیجے پر پہنچے کہ سب کے ہاں جماعت سے الگ ہونے کے اسباب مختلف ہیں ۔اورہر شخص جماعت میں خرابی کی نشان دہی اپنے تجربے کی روشنی میں ذاتی راے کے مطابق کر رہا ہے ۔ یہ سب لوگ کسی متعین ہدف پر متفق نہیں ہوئے تھے۔چنانچہ فیصلہ ہواکہ فوری طور پر ان کے مابین جماعتی نظم قائم کرنا لاحاصل ہوگا ۔البتہ جتنے لوگ ہم خیال نظر آتے ہیں ،ان کا ایک اجتماع منعقد کر کے مجلس مشاورت قائم کردی جائے۔اس مجلس کا ایک اجتماع ۶-۹ ؍ ستمبر ۱۹۶۷ء کو رحیم یار خان میں ہوا ،جس میں آیندہ کام کے لیے ایک قراد داد منظورکی گئی اورایک ہیٔت اجتماعی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مجلس مشاورت کا تقرر ہوا ۔اس مجلس کے حسب ذیل سات ارکان تھے :
مولانا امین احسن اصلاحی ، مولانا عبدالغفار حسن ، مولانا عبدالحق جامعی ،سردار محمد اجمل خان لغاری ، ڈاکٹر نذیر احمد ، ڈاکٹر اسرار احمد اورشیخ سلطان احمد(معتمد)۔
مگر اس کے باوجود یہ تنظیم قائم نہ ہوسکی۔البتہ مجلس کے فیصلوں کی روشنی میں ڈاکٹر اسرار احمدنے اپنے گھرپر ہفتہ وار درس قرآن شروع کیا، جس میں امین احسن نے قرآن مجید کی آخری سورتوں کا درس دیا، مگر بعد میں امین احسن کو ڈاکٹر صاحب کے فکر سے اختلاف ہو گیا اور ان کے بعض رویوں سے کچھ شکایتیں پیدا ہوگئیں ۔ اس ضمن میں امین احسن کے چند مکاتیب بھی درج کیے جاتے ہیں ،جن سے ان کی شدت غم کا بھی اندازہ ہوتاہے:
ڈاکٹر عبد اللطیف خان کے نام لاہور سے ۱۷ ؍ ستمبر ۱۹۷۲ء کو لکھا:
’’بڑے غم کے سا تھ آپ کو اس سا نحے کی اطلا ع دیتا ہوں کہ میں نے ڈا کٹر اسرار احمد صاحب کے بعض خلاف ِشریعت اقدا ما ت کی وجہ سے ان سے اور رسا لہ میثا ق سے با لکل قطع تعلق کر لیا ہے۔ حا دثے کی تفصیلا ت سے آ پ کو دکھ ہو گا، اس وجہ سے ان کے ذکر سے گریز کر تا ہوں ۔میں نے بھی اور مجھ سے بہتر دوسرے احبا ب نے بھی ڈا کٹر صا حب کو بہت سمجھا نے کی کوشش کی لیکن افسوس ہے کہ کا میا بی نہیں ہو ئی۔ قدرتی طور پر اس سا نحہ کا میر ی صحت پر بہت بڑا اثر پڑا ہے ۔ دعا فر ما ئیے کہ یہ زندگی کا آخری سا نحہ ہو۔ اب اس قسم کے سا نحہ کے برداشت کر نے کی ہمت نہیں رہی ہے۔
میر ے درس کا سلسلہ الحمد اللہ جا ری ہے اور اب میں تفسیر کے لکھنے کا کا م بھی شر وع کر رہا ہوں ۔دعا فر مائیے کہ آخر دم تک یہ کا م جا ری رہے آپ کے گرامی نا مہ کا تشویش کے سا تھ انتظار رہے ۔براہ کرم جواب سے جلد مطمئن فر مائیے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۶۷)
حکیم شیخ سلطان احمد کے نام لاہور سے ۱۷ ؍ستمبر ۱۹۷۲ء کو لکھا:
’’اگر چہ معا ملہ زیر بحث میں اب مجھے کسی خیر کی امید نہیں ہے لیکن آپ اگر کسی خیر کی امید دیکھتے ہیں تو کو شش کر دیکھئے۔ جہا ں تک میرا تعلق ہے میں اب با لکل ما یو س ہو چکا ہوں اس وجہ سے میں نے کہلا دیا ہے کہ پر چے کے سرورق سے میر ا نا م نکا ل دیا جائے اور تفسیر کی اشا عت پر چے میں بند کر دی جا ئے ( پر چہ سے مراد ما ہنا مہ میثا ق ہے جو ڈا کٹر صا حب کی ادارت میں شا ئع ہو رہا تھا ۔مدیر) میر ا خیا ل ہے کہ میر ی طرف سے اظہارِ براء ت کے لیے یہ چیز کا فی ہو گی ۔ پبلک میں کو ئی اعلان کر کے میں اپنی رسوائی کی مزید تشہیر نہیں کر نا چا ہتا ۔ چنا نچہ ’’چٹا ن‘‘ وغیرہ مجھ سے انٹر ویو کے خواہش مند تھے لیکن صحت کی خرابی کا عذر کر کے میں نے بات ٹا ل دی ہے ۔ …میں اب قطعی معلو ما ت کی بنا پر اس نتیجہ تک پہنچ چکا ہوں کہ ڈا کٹر صاحب کو روپے کی ضرورت تھی وہ ان کو مل گیا ہے۔ آپ لو گوں کی اب ان کو مطلق ضرورت نہیں ۔ اس وجہ سے سلا متی اسی میں ہے کہ خا مو شی سے اس فتنہ سے الگ ہو جائیے ۔ ان کو کسی پہلو سے منہ لگا نا بھی آپ لو گوں کے شا یا نِ شا ن نہیں ہے بس جو حا دثہ پیش آنا تھا وہ پیش آچکا۔ اب صبر کے سوا کو ئی چا رہ نہیں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۶۷-۶۸)
مدیر ’’تدبر‘‘ خالد مسعود صاحب کے نام رحمان آباد سے ۲۰ ؍جولائی ۱۹۷۷ء کو لکھا:
’’آج یہ خط آپ کو اپنے اس ارادے سے آگا ہ کر نے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ میں ایک پمفلٹ " اسرار نا مہ" کے عنوان سے لکھنا چاہتا ہوں تا کہ اسرار صا حب نے میر ے وصل وفصل سے متعلق جو یوسف زلیخا لکھی ہے اس کا جا مع جواب ہو جائے اور روز روز کے سوال و جواب سے میر ی جا ن چھوٹے ۔اس میں چار پا نچ با ب ہوں گے:
پہلے با ب میں یہ بتا ؤں گا کہ میں نے کن توقعا ت پر اور کس طر ح ڈا کٹر صا حب کو اپنے قریب کیا تھا۔ دوسرے میں یہ بتا ؤں گا کہ میری طویل علالت کے زما نے میں ( یہ اشارہ ۱۹۷۲ء میں نسیان کے حملہ کی طرف ہے۔مدیر) ڈا کٹر صا حب نے یہ فر ض کر کے کہ اب میراآخری وقت ہے ، مجھے ہر پہلو سے با لکل بے دست و پا اور مفلو ج کر دینے کی کیا کیا سازشیں کیں اور ان کے کیا اثرات با ہمی تعلقا ت پر پڑے ۔
تیسرے میں یہ بتا ؤں گا کہ انھو ں نے ان مقا صد کے لیے ، جن سے میں شدید بیزار تھا ، میرے احتجا ج کے علی الرغم ، کن کن طر یقوں سے میرے نام کو استعما ل کیا اور لو گوں کو یہ تا ثردیا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں سب میر ی سر پر ستی میں ، میر ی ہدا یا ت کے تحت کر رہے ہیں ۔
چو تھے میں ان کی د عاوی اور شطحا ت کا جا ئز ہ لو ں گا اور یہ بتا ؤ ں گا کہ ان کے اصلی افق وہ چار نہیں ہیں جو انہوں نے بتا ئے ہیں بلکہ ان کاافقِ اعلیٰ قا دیا ن اور ربوہ ہے اور ایک نئی قادیانیت کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں علما ء کو توجہ دلا ؤں گا کہ وہ اس فتنہ سے آگا ہ رہیں اور اس کو سر نہ اٹھا نے دیں ۔
پا نچویں میں یہ بتا ؤں گا کہ اس پور ے دوِر و صل میں میں نے ان کو وصل کے کیا کیا آداب بتا ئے اور سکھا ئے اور انہوں نے کیا کیا کج ادائیاں کیں جو با لآخر فصل پر منتہٰی ہوئیں ۔
اس خا کے پر آپ اوردوسر ے رفقا ء غور کر لیں اور اپنے مشورے سے آگا ہ کریں ۔ اس میں ’’ میثا ق ‘‘وغیرہ سے حوالے نقل کر نے ہوں گے جو آپ کو جمع کر نے پڑیں گے اور یہ کا م آپ شروع کردیں ۔
یہ خط رازدارانہ نہیں ہے۔ آ پ منا سب سمجھیں تو پمفلٹ کے عنوانا ت کا اعلا ن بھی کر سکتے ہیں ۔
ڈا کٹر صا حب کا معا فی نا مہ ایک تمہید کے سا تھ’’ شمس الا سلا م‘‘ کو دے دیں ۔
( اس مو ضو ع پر پے درپے خطوط مو صو ل ہو نے پر یہ اندازہ ہو ا کہ میثا ق میں ڈا کٹر صاحب کے قلم سے نکلنے والے بعض مضا مین نے مو لا ناؒ کو بے حد پر یشان کیا ہے اور وہ شاید تفسیر کے کا م سے ہٹ کر ایک بے مصرف کا م میں الجھنے والے ہیں ۔ چنا نچہ راقم نے مشورہ دیا کہ مو لا نا اپنے کا م ہی سے سروکا ر رکھیں اور اسرار نا مہ کے لیے ہر گز فکر مند نہ ہوں ۔ ضرورت ہوئی تو یہ پمفلٹ لکھنے کا کا م کر لیا جائے گا ۔مدیر)‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۷۰-۷۱)