HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Muhammad Bilal

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تدریس اور تفسیر’’تدبرقرآن‘‘

باب ۸


تصنیف و تالیف 

جماعت اسلامی سے استعفیٰ دینے کے بعدامین احسن نے تفسیر قرآن لکھنے کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ اس کی اقساط فیصل آباد کے ایک رسالے ’’المنیر ‘‘ میں شائع ہونے لگیں ۔اسی برس امین احسن حج پر گئے اوراپنے مشاہدات حج ایک سفرنامہ کی صورت میں مرتب کیے ۔اس کی قسطیں بھی ’’المنیر‘‘ میں چھپتی رہیں ۔

جون ۱۹۵۹ء میں امین احسن نے اپنے رسالے ’’میثاق‘‘ کی اشاعت کا آغازکیا۔اب ان کی تحریریں اس میں اشاعت پذیر ہوئیں ۔ اس کے ابتدائی شماروں میں امین احسن نے مولانا مودودی کے نظریۂ حکمت عملی پر تنقیدی مضامین لکھے، جوان کی کتاب ’’مقالات اصلاحی ‘‘ میں شامل ہیں ۔

جماعت اسلامی اور مدرستہ الاصلاح  

 مد رستہ الاصلاح کو چھوڑ کر جماعت اسلامی میں شمولیت کو بہت سے افرادامین احسن کی بڑی غلطی قرار دیتے ہیں ۔جنا ب ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :

’’جب مولانا مودودی نے اپنے خیالات کی اشاعت اور اپنا حلقہ اثر بڑھانے کے لیے بعض جگہوں کا سفر کیا تو وہ سرائے میر بھی تشریف لائے اور بالآخر فکر حمید کے سب سے بڑے داعی و شارح بھی ان کے مکمل ہم نوا ہو گئے ۔ اور وہ وقت بھی آ پہنچا کہ استاد کا آستانہ چھوڑ کر پٹھان کوٹ ، جو اس زمانے میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا مرکز و مستقر تھا، جا پہنچے ۔ جب مدرستہ الاصلاح کے حدود سے وہ باہر نکل رہے ہوں گے تو کارکنان قضا و قدر نے یہ صدا ضرور بلند کی ہو گی کہ ’’تیری شان ان مشاغل سے بالاتر ہے‘‘ 
اے تماشا گاہ عالم روئے تو 
تو کجا بہر تماشا می روی۷؎ 
مگر ایسے جوش کے عالم میں ہوش کی باتوں پر کون کان دھرتا ہے ۔ جلد ہی انھوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد جماعت میں اپنی سب سے اہم اور نمایاں جگہ بنا لی۔ 
ترجمان القرآن پر نام تو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا ہوتا تھا لیکن عملاً وہی اس کے مدیر ہو گئے تھے۔ اسی لیے جب ملک تقسیم ہوا تو جماعت کا نظام سنبھالنے اور اس کی امارت و سربراہی کا بار اٹھانے کے لیے مولانا مودودی نے انھیں ہندوستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے بہرحال مدرستہ الاصلاح میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ لیکن تقسیم کے بعد ایسی قیامت بپا ہوئی اور فسادات میں آگ اتنی سخت بھڑک اٹھی کہ جو جہاں تھا وہیں دم بخود رہ گیا ۔ مولانا امین احسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی لاہور سے سرائے میر کے خرابے میں چراغ آرزو جلانے تشریف نہیں لا سکے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۹)    

تدریس اور حلقۂ تدبر قرآن 

 جنوری ۱۹۵۸ء محترم خالد مسعود اپنے ایک دوست محبوب سبحانی صاحب کے ساتھ امین احسن کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنے اوقات میں سے کچھ فارغ وقت ان کے لیے تدریس قرآن پرصرف کریں ۔امین احسن نے ان دونوں حضرات کو روزانہ نماز عصر کے بعدآنے کی ہدایت کی۔ دونوں حضرات روزانہ قرآن مجید لے کر آتے ،مگرنماز مغرب ہوجاتی ، ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہتیں ، تدریس قرآن کی نوبت نہ آ تی ۔ڈیڑھ ماہ یہی صورت حال رہی۔یہ درحقیقت ان دونوں حضرات کی آزمایش تھی۔ایک دن امین احسن بولے:

 ’’تم لوگ بڑے سخت جان ہو ۔میراخیال تھا کہ یہ نوجوا ن یونہی پڑھنے کی امنگ لے کر آئے ہیں ،چند روز میں جوش ختم ہو جائے گا۔میراپہلا تجربہ لوگوں کے ساتھ یہی تھا،لیکن اب میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ پڑھنے میں سنجیدہ ہیں ،لہٰذا کام شروع کرتے ہیں ۔‘‘

باقا عدہ تدریس شروع ہوئی۔تعلقات آگے بڑھے۔خالد مسعو دصاحب ’’میثاق‘‘کی تیاری میں ہاتھ بٹانے لگے۔تین برس کے بعد امین احسن کومحسوس ہوا کہ معمولی توجہ سے بہت فائدہ ہوا ہے اور یہ کہ جدید پڑھے لکھے افراد پر اگرمحنت کی جائے تواچھے نتائج نکل سکتے ہیں ۔امین احسن نے تجویز دی کہ اگر آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہوں توتدریس کو باقاعدہ حلقہ کی شکل دے دی جائے۔اگر ایسا ہو جائے تووہ عصر تا عشا کا وقت تدریس کو دینے کے لیے تیا ر ہیں ۔خالدمسعود اور محبوب سبحانی یہ دعوت لے کر نکلے ۔اٹھارہ بیس نوجوانون نے لبیک کہا ۔۱۹۶۱ء سے تدریس کا آغاز ہوا ۔ جلد ہی طالب علموں کا ایک حلقہ بن گیا، جو ۱۹۶۲ء میں ’’حلقۂ تدبر قرآن‘‘ کے نام سے منظم ہوگیا۔

اس ضمن میں ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :

’’جماعت سے علیحدگی کے بعدمولانا امین احسن صاحب نے حلقۂ تدبر قرآن قائم کیا جس کی اطلاع جب ان کے بعض قدیم کرم فرماؤں ، مولانا عبد الباری ندوی اور مولانا عبد الماجد دریا بادی وغیرہ کو ہوئی توانھوں نے اس پر بڑی مسرت ظاہر کی۔ اس کے زیر اہتمام انھوں نے بعض ذی استعداد طلبہ اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن مجید و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دینا شروع کیا ۔ اور اپنے خیالات و مقاصد کے اظہار و اشاعت کے لیے رسالہ ’’میثاق‘‘ جاری کیا۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء، ۹-۱۰)

عصر سے عشا تک روزانہ پڑھائی شروع ہوئی ۔ امین احسن طویل وقفوں پر مبنی تدریس کے قائل نہ تھے۔ان کا خیال تھا کہ ایسے دروس کے شرکامحض برکت کے حصول کے لیے آتے ہیں ۔ قرآن فہمی ان کا مقصد نہیں ہوتا ۔قرآن کا صحیح فہم دینے کے لیے ضروری ہے کہ درس باقاعدہ ہوں ۔ ایسے دروس میں شرکا کی تعداد بے معنی ہوتی ہے ۔ہمیں بھیڑ اکٹھی کرنے کے بجاے ان چند افراد کو تلاش کرناچاہیے جو دل لگا کر کتاب الٰہی کو سمجھنا چاہتے ہوں ۔ 

اس تدریس میں مدرستہ الاصلاح کا نصاب اختیار کیا گیا۔ بھارت سے اس مدرسہ کی ایک کتاب ’’اسباق النحو‘‘ نمونے کے طور پر آئی ہوئی تھی ۔تدریس کی ابتدا اسی سے ہوئی ۔کتا ب ایک تھی۔ فوٹو کاپی کی سہولت ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ جیسے تیسے سب ایک کتاب سے استفادہ کرتے تھے۔ بعض احباب نے ہاتھ سے لکھ کر اس کتاب کی نقل تیار کی۔اس کے بعد کہانیو ں کی ایک کتاب پڑھائی گئی۔ ان کہانیوں کا ترجمہ امام حمید الدین فراہی نے کیا تھا ۔پھر ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کی پڑھائی ہوئی۔ تدریس میں حکیمانہ تدریج اختیار کی گئی۔ کہانیوں کے بعد سنجیدہ ادب کی طرف رخ کیا گیا۔ اس کے بعد ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘ ، ’’حماسہ‘‘ اور عربی ادب پڑھایا گیا۔ اس تنوع کا مقصد یہ تھا کہ ہر طر ح کی چیزیں پڑھ لی جائیں ۔یہ تدریس مغرب تک ہوتی۔ مغرب کے بعد قرآن اورحدیث (صحیح مسلم)کا علمی درس دیا جاتا ۔قرآن اور مسلم کو مکمل طور پر پڑھایاگیا ۔

اس کے بعد خیال ہوا کہ فقہ نہیں پڑھی گئی ، اس سے بھی کچھ واقفیت ہونی چاہیے ۔ لہٰذا پھر ’’بدایۃ المجتہد‘‘ پڑھی گئی۔یہ تدریس جاری تھی کہ۱۹۶۵ء میں امین احسن کے بڑے بیٹے ابوصالح اصلاحی ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں انتقال کرگئے ۔امین احسن کے اوپراس حادثے کا غیر معمولی اثر ہوا ۔گھر کی مالی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر آ گیا ۔ اس کے علاوہ وہ ایک ذہنی بیماری میں مبتلا ہوگئے ۔حلقہ معطل ہو گیا اور ’’میثاق‘‘کا کام تلپٹ ہو گیا ۔ ان دنوں امین احسن کے جماعت اسلامی کے سابق ساتھی ڈاکٹر اسرار احمد لاہور میں منتقل ہوئے تھے اور وہ اپنے رسالے کا ڈیکلیریشن حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ چنانچہ ’’میثاق ‘‘ کی ادارت ڈاکٹر اسرار احمد کے سپرد کردی گئی ، (مولانا کی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ذہنی مناسبت نہیں تھی ۔وہ اس میں اپنی طرز کے مضامین شائع کرتے تھے ۔مولانا اس پر برہم ہوتے کہ یہ انھوں نے کیا شائع کردیا ہے۔اس طرح ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اختلافات سامنے آنے لگے)۔ 

B

حواشی :

 ۷؎ ’’اے وہ کہ جس کا چہرہ خود دنیا کے دیکھنے کی چیز ہے، تو تماشا کرنے کہاں کو چل دیا!‘‘