باب ۶
سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمدصاحب ،امین احسن کی مولانا مودودی کے ساتھ محبت اور بے تکلفی پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جہاں تک مولانا مودودی صاحب کے بارے میں اصلاحی صاحب کے تاثرات و جذبات کا تعلق ہے ان کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مارچ ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء کے تحت مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی صاحب سمیت جماعت کے پچاس ساٹھ نمایاں ارکان گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیے گئے ۔ مولانا مودودی ، مولانا اصلاحی، ملک نصر اللہ خان عزیز، چوہدری محمد اکبر سیالکوٹی، سید نقی علی اور میں (طفیل محمد) لاہور سنٹرل جیل کے دیوانی وارڈ میں نظر بند تھے ۔ وہیں مئی ۱۹۵۳ء میں مارشل لاء کے تحت فوجی عدالت میں مولانامودودی ، ملک نصر اللہ خان عزیز اور سید نقی علی صاحب پر مقدمہ چلا اور تین روز کی کارروائی کے بعد مولانا مودودی صاحب کو سزائے موت اور سات سال قید بامشقت اور سید نقی علی صاحب کو نو سال قید بامشقت اور ملک نصر اللہ خان عزیز صاحب کو تین سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ مولانا مودودی کو دیوانی گھر سے پھانسی کی کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ پھانسی کی کوٹھڑی میں ان کو پھانسی کے قیدیوں کا لباس پہنا دیا گیا اور ان کی قمیض ، پاچامہ اور جوتا اور ٹوپی وہاں سے ہمارے پاس دیوانی گھر میں بھجوا دیے گئے توان چیزوں کو پاتے ہی مولانا اصلاحی صاحب فرط جذبات میں مولانا مودودی صاحب کی ٹوپی اور یہ کپڑے کبھی آنکھوں سے لگاتے ، کبھی اپنے سر پر رکھتے اور کبھی سینے سے لگاتے ، زاروقطار روتے اور فرماتے جاتے کہ میں مودودی صاحب کو بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا ، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ خدا کا اس قدر مقبول اور مقرب بندہ ہے ۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ء، ۹۹-۱۰۰)
جنا ب جاوید احمدغامدی نے لکھا:
’’... مولانا مودودی سے انھیں اتفاق بھی رہا اور اختلاف بھی ہوا۔ اتفاق کے زمانے میں جب بعض علما نے ان کے علم کا استخفاف کرنا چاہا تو امین احسن کی شہادت ایک برہان قاطع بن کر سامنے آئی۔ بعد میں ازراہِ تفنن فرمایا کرتے تھے کہ بھائی، وہ میں نے مولویوں کے مقابلے میں ان کے علم کی شہادت دی تھی، اپنے مقابلے میں نہیں ۔ کم و بیش ۱۶سال وہ مولانا کے سب سے زیادہ قابل اعتماد ساتھی رہے۔ ان کے ساتھ ’’جماعت‘‘ کی علمی و فکری رہنمائی کا کام بھی کیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی بڑی استقامت کے ساتھ برداشت کیں ۔ بتاتے تھے کہ قرآن میں تجزیۂ مطالب اور پیروں کی تقسیم کا کام میں نے ملتان جیل میں مکمل کیا تھا۔۱۹۵۳ء میں مولانا کو موت کی سزا ہوئی تو ان کے جذبات بے پناہ تھے۔ اختلاف کے زمانے میں بھی، جب وہ انھیں اپنے مخصوص اسلوب میں ’’امیرالمومنین‘‘ کہتے اور ان پر تند و تیز لب و لہجے میں تنقید کر رہے ہوتے تھے، میں نے بارہا ان کے الفاظ کی تلاطم خیزیوں کے نیچے محبت کا ایک گہرا سمندر موجزن دیکھا ہے۔ انھیں افسوس تھا کہ اپنے جس دوست کے بارے میں وہ اتنی اونچی رائے رکھتے تھے، وہ کس دلدل میں اتر گیا ہے۔ ۱۹۷۵ء میں ، میں مولانا مودودی کے گھر کے بالکل سامنے مقیم تھا۔ وہ میرے ہاں تشریف لائے۔ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لیے صحن میں نکلے تو مجھ سے پوچھا: مولانا مودودی کا گھر یہی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں ۔ میں نے دیکھا کہ وہ بار بار دہرا رہے تھے:
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
۱۸ /جنوری ۱۹۵۸ء کو یہ آشنائی امین احسن کے ان الفاظ پر ختم ہوئی:
’’میں جانتا ہوں کہ آپ کی رفاقت سے محروم ہو کر میں کیا کچھ کھو رہا ہوں ، لیکن آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آپ نے مجھ جیسے خیر خواہ مخلص کے مشوروں کی قدر نہیں کی تو آپ کو ’’برے مشیروں ‘‘ کے مشورے ماننے پڑیں گے۔ میں دل سے متمنی تھا کہ مجھے آپ کی رفاقت حاصل رہے، لیکن آپ نے اپنے دونوں خطوں میں اس کی جو قیمت مانگی ہے، میں وہ ادا کرنے سے قاصر ہوں ۔‘‘
مولانا دنیا سے رخصت ہوئے تو بڑے تاسف کے ساتھ فرمایا: آج وہ شخص دنیا سے چلا گیا جس سے اتفاق میں بھی لذت تھی اور اختلاف میں بھی۔ جس دن یہ سانحہ پیش آیا وہ میرے گھر میں تشریف فرما تھے، مولانا کی بذلہ سنجی کا ذکر ہوا تو پٹھان کوٹ کے زمانۂ قیام کے بعض دل چسپ واقعات سنائے۔ انھی میں ایک یہ لطیفہ بھی تھا۔ کہنے لگے: میری شادی ہوئی، چودھری عبدالرحمن صاحب، میرے خسر مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں کسی وجہ سے اس روز عصر کی نماز میں حاضر نہیں ہو سکا۔ مولانا سے کسی نے پوچھا: امین احسن نظر نہیں آئے؟ انھوں نے برجستہ جواب دیا: بھائی آج صبح سے وہ ’ان الانسان لفی خسر‘ میں مبتلا ہیں ۔
بذلہ سنجی اور شوخی ِکلام میں امین احسن کا معاملہ بھی یہی تھا۔
قید کے زمانے میں مولانا مودودی کی بتیسی غالباً ٹوٹ گئی۔ امین احسن نہیں جانتے تھے کہ مولانا کے دانت مصنوعی ہیں ۔ کسی نے بتایا تو دانتوں کی ’’تعزیت‘‘ کے لیے مولانا کے پاس گئے۔ بظاہر بہت افسردگی کی کیفیت میں تھوڑی دیر کے لیے کوٹھڑی کے دروازے میں کھڑے ہوئے، پھر کہا: مولانا، افسوس ہے، مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۱۹-۲۱)
۲۳ / جنوری ۱۹۵۸ء کو مولانا موددوی کے نام امین احسن نے خط لکھا:
’’مجھے جما عت کی مو جو دہ پا لیسی، اس کے مو جو دہ نظام اور اس کے مو جو دہ دستور سے اتفاق نہیں ہے اور بد قسمتی سے آپ پر بھی آپ کے بعض اقداما ت کے سبب سے مجھے اعتما د با قی نہیں رہا ہے۔ جما عت کے کچھ مخلصین جو اصلا ح ِاحوال کی کو شش کر رہے تھے اب وہ بھی اپنی کوششوں میں نا کا م ہو کر مجھے اپنی ما یو سی کی اطلا ع دے چکے ہیں ۔اس وجہ سے نہا یت افسو س کے سا تھ اب میں جما عت کی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہو ں ۔
اس مو قع پر میں یہ ظا ہر کر نے میں اطمینا ن اور خو شی محسو س کر تا ہو ں کہ مجھے اس جما عت سے جو محبت رہی ہے ان شا ء اللہ بحیثیت ِمجموعی وہ اب بھی قا ئم رہے گی ۔اس جما عت کے اندر میرے بہترین احبا ب ہیں جن کے دینی جذبا ت وا حسا سا ت کی میرے دل میں بڑی قدرو عزت ہے۔
آپ سے مجھے کو ئی ذا تی رنجش یا شکا یت نہیں ہے اور اگر ہے تو میں اس کو صدقِ دل سے معا ف کر تا ہو ں ۔ چو دہ پندرہ سا ل کے تعلق کے دوران میں آپ کو مجھ سے بہت سی تکلیفیں پہنچی ہو ں گی میں ان سب کے لئے نہا یت ادب سے معا فی ما نگتا ہوں اور اپنے لئے دعا کی درخواست کر تا ہو ں ۔ مر کز یا جما عت کے کسی اور رفیق کے لئے میر ی کو ئی با ت وجہ شکا یت بنی ہو تو میں آپ کے واسطے سے ان سے بھی معا فی کی درخواست کر تا ہوں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء،۵۰)
ممتازصحافی اور کالم نگارعطاء الرحمن نے لکھا:
’’... یہ میرے مشا ہدے کی با ت ہے کہ ۶ ؍جنوری ۱۹۵۴ء کو جب جما عت اسلا می خلاف قانون قرار دے دی گئی اور ایو ب حکو مت نے مو لا نا رحمۃ اللہ علیہ کو گرفتار کر لیا تو اصلا حی صا حب پر بہت دیر تک رقت کا عا لم طا ری رہا ۔ مو لا نا مو دودی پر وہ سخت تنقید بھی کر تے، لیکن جب کبھی ان کی خو بیوں کا تذکرہ کر تے ، ان کے سا تھ گزرے ہو ئے اچھے لمحات کو یا د کرتے یا انھیں ’’قلم کا بادشاہ ‘‘ کہتے ہو ئے ان کی انشا کے محا سن بیا ن کر تے تو ان پر پر انے دوست اور رفیق کا ر کی محبت کا رنگ غا لب آجا تا ۔ حضرت مو لا نا مودودی کے انتقال پر ان کی جو کیفیت تھی، وہ بھی باوجود تمام تر اختلافات کے اس اخلا ص اور محبت کی غمازی کر تی تھی جو انھیں با نی جما عت اسلامی کے سا تھ تھی۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۴۳)
’’تدبر قرآن‘‘ کی تکمیل پر ریڈیو پاکستان نے ۲۳ ؍ مارچ ۱۹۸۲ء کو لاہور میں امین احسن کا انٹرویو لیا۔آپ نے جماعت اسلامی سے اپنے استعفیٰ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ:
’’... میں نے کھڑے کھڑے استعفا لکھا اور آخر میں یہ لکھ دیا کہ یہ استعفاواپس لینے کے لیے نہیں بھیجا جارہا۔اس کے بعد دوڑ دھوپ ہوئی۔مولانا مودودی بھی آئے تو میں نے ان سے کہا :مولانا میں نے آپ کو پہچان لیا اور آپ نے مجھے پہچان لیا۔ ’ھذا فراق بینی وبینک‘۔ اب ہم کبھی نہیں ملیں گے۔
سوال: اللہ میاں کے ہا ں تو ملیں گے ؟
جواب :ہا ں وہا ں تو خیر ملنا ہی ہے (ہنستے ہوئے)۔
سوال:کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ وہا ں بھی ملنے سے انکار کر دیں ؟
جواب: میری تو دعا ہے کہ اے میرے رب رفیق اعلیٰ کی معیت اور صحبت نصیب کر ۔ اگر مو لانا بھی اس میں شا مل ہو ں گے تو فبھا ۔‘‘(ماہنامہ اشراق ،جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۱۳۲)
اس کے باوجود امین احسن کو جماعت کے بعض حلقوں کی جانب سے دکھ پہنچایا گیا۔لاہور سے ۲۳/مئی ۱۹۵۹ء کو سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام خط میں انھوں نے لکھا:
’’مجھے جما عتی حلقوں کی طر ف سے بھی بعض خطوط مو صو ل ہوئے ہیں لیکن وہ زیا دہ تر گمنا م ہیں ۔ان میں میرے دلا ئل کی قوت کا تو اعتراف کیا گیا ہے لیکن سا تھ ہی مجھے اس جر م میں گالیاں دی گئی ہیں کہ میں نے اس مضمون میں مو لا نا مو دودی صا حب پر ذا تی حملے کئے ہیں چو نکہ یہ خطوط گمنا م تھے اس وجہ سے میں نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی ۔
مر کز کے لو گوں میں سے ایک صا حب نے اپنی اہلیہ کے ذریعہ سے با ر با ر پیغا م بھیج کر میری بیوی کو بلوا یا ۔ میر ی اہلیہ اپنی والدہ کی شدید علا لت کے با و جود محض اس خیا ل سے ان کے ہاں چلی گئی کہ شا ئد کسی خا نگی مشکل میں ان کی کسی مدد کی ضرورت ہو لیکن ان صا حب نے میر ی اہلیہ کے سا منے مجھے خو ب خو ب صلواتیں سنا ئیں ۔ مر کز کے بعض دوسرے حضرات کا بھی رویہ یہی ہے۔ مجھے اس رویہ پر افسوس تو ضرور ہوا لیکن کو ئی تعجب نہیں ہوا، اس لئے کہ میں اپنی ذا تی معلومات کی بناء پر ان لو گو ں سے اس سے بہتر اخلا ق کی کو ئی تو قع نہیں رکھتا تھا ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۶۵)
۱۷/ نومبر ۱۹۹۰ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں مولانا مودودی سے اپنے تعلقات کی نوعیت واضح کرتے ہوئے امین احسن نے بتایا کہ :
’’میرے اور مولانا مودودی صاحب کے تعلقات صد فی صد جماعتی اور علمی رہے ہیں ۔ ذاتی بالکل بھی نہیں ۔ یہاں تک کہ میں ان کے بچوں میں سے بھی کسی کو واجبی واجبی پہچانتا رہا ہوں ۔کچھ زیادہ نہیں ۔ بس جماعت کے معاملات تک اگر کبھی انھوں نے بلایا تو میں چلا گیا۔ اور یہ یاد نہیں کہ میں نے خود اپنے لیے کوئی بات کہنے کے لیے ان سے کہی ہو۔ چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی۔ کبھی وہ مشورے وشورے کے لیے بلاتے تھے تو چلا جاتا تھا۔‘‘