با ب ۵
قیام پاکستا ن کے بعد مولانا مودودی کی یہ راے بن گئی کہ مسلم لیگ کی ذمہ داری پاکستا ن بنانا تھا، مگر اس ملک کو چلانے کی وہ اہل نہیں ۔ایک اسلامی ریاست کو چلانے کے لیے جیسے افراد درکار ہیں ،وہ جماعت اسلامی ہی کے پاس ہیں ، اس لیے اقتدار جماعت کو ملنا چاہیے۔ پاکستانی عوام دل وجان سے نفاذ اسلام چاہتے ہیں ،چنانچہ جماعت کے حکومت میں آنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ۔جماعت کے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں امین احسن کی راے مختلف تھی۔وہ اسے قبل از وقت اور جماعت کے مقصد کے لیے سخت مضر سمجھتے تھے، مگر جماعت ان کی قائل نہ ہوئی۔ اس ضمن میں امین احسن نے ایک انٹرویو میں بتایا:
’’مولانا مودودی صاحب اورمیر ے درمیان ایک ذوق و فکر کا اختلاف شروع ہی سے رہا ہے، لیکن یہ کوئی ایسا اختلاف نہیں تھا کہ میں ان کے ساتھ تعاون نہ کر سکوں ۔ جماعت کی مجلس شوریٰ میں میری رائے بہت موثر تھی ۔ اس بنا پر میں ، صحیح یا غلط، یہ محسوس کرتا تھا کہ میں جماعت کی پالیسی کو بحیثیت مجموعی کسی غلط راہ پر جانے سے روک سکتا ہوں ۔ اس لیے اس ذوق و فکر کے اختلاف کے باوجود جماعت سے میرا جو تعلق قائم ہو گیا تھا میں نے اسے برقرار رکھنا چاہا۔
قیام پاکستان کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ مولانا مودودی صاحب میں کچھ ایسی تبدیلیاں ہو گئی ہیں جو بالآخر گمراہ کن نتائج تک منتہیٰ ہو سکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ جوجتھہ بندی قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اب جلد سے جلد اس جتھہ بندی کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ دوسری چیز یہ تھی کہ ان کے بعض معتقدین نے انھیں یہ باور کرا دیا کہ اب اس ملک کے عوام مسلم لیگی قیادت کو آپ کی قیادت سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ خیال واقعی مولانا کے اندر جڑ پکڑ گیا ہے اور وہ ایسا سمجھنے لگے ہیں ۔ تیسری چیز یہ تھی کہ ان کے بعض غالی عقیدت مندوں نے انھیں یہ باور کرا دیا کہ تحریکیں صرف اصول اور نظریات پر نہیں چلا کرتیں بلکہ اس کے لیے شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے ، اور شخصیت آپ سے آپ نہیں بنتی ، بنائی جاتی ہے ۔ اس لیے جب تک ہم آپ کے لیے وہ تمام لوازم اختیار نہیں کریں گے جو شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہیں تب تک یہ کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب پر ان کے ساتھیوں کا یہ جادو بھی کارگر ہو گیا تھا۔
میرے علم میں جب یہ باتیں آئیں تو مولانا سے مختلف ملاقاتوں میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ محض ایک وسوسہ ہے کہ اس ملک کے عوام آپ کی قیادت سے مسلم لیگ کی قیادت کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ یہ بہت دور کی چیز ہے ، اس کا فی الحال کوئی امکان نہیں ۔ میں نے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ تحریکیں شخصیت سے چلتی ہیں لیکن شخصیت مصنوعی طور پر نہیں بنائی جاتی بلکہ خدمت سے آپ سے آپ بنتی ہے ۔ آپ جو خدمت کر رہے ہیں یہی خدمت آپ کو بنائے گی اور اگر اس مقصد کے لیے مصنوعی طریقے اختیار کیے گئے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے لیے وہ تمام چیزیں اختیار کی جائیں گی جو موجودہ زمانے میں لیڈری کے لوازم و خصوصیات میں سمجھی جاتی ہیں اور جنھیں آپ حرام سمجھتے ہیں ۔
مولانا مودودی صاحب میری یہ باتیں حسب عادت نہایت توجہ سے سنتے اور مجھے اطمینان دلاتے کہ میں ایسی غلط فہمی میں نہیں ہوں ، مگر حقیقت میں وہی سب کچھ ہونے لگا جس کی طرف میں ان کو توجہ دلاتا رہا تھا۔ چنانچہ لیڈروں والے سارے لوازم اختیار کیے گئے ، ہر قدم پر تصویریں لی جانے لگیں ۔ جہاں جاتے وہاں پہلے سے اطلاع پہنچ جاتی کہ استقبال کیا جائے ، اسٹیشن پر لوگ آئیں اور خیر مقدم کے نعرے لگیں ۔ ان چیزوں سے میرا یہ احساس قوی ہو گیا کہ گاڑی اب اسی راستے پر چل نکلی ہے ۔ تاہم کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو مجھے مجبور کر دیتی کہ میں جماعت سے الگ ہو جاتا۔ میں اپنے آپ کو شوریٰ میں ایک موثر وجود سمجھتا تھا اور میرا خیال تھا کہ میں ان شاء اللہ جماعت کو بحیثیت مجموعی کسی غلط راستے پر جانے نہیں دوں گا ۔ بالآخر پنجاب کے پہلے الیکشن کا مرحلہ پیش آ گیا ۔
اس وقت میری اور میرے بعض ہم خیال دوستوں کی رائے یہ تھی کہ فی الوقت الیکشن میں حصہ لینا جماعت کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا ۔ لیکن چونکہ مولانا مودودی صاحب کا ذہن الیکشن لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہو چکا تھا اس لیے ہم شدت کے ساتھ اس کی مخالفت بھی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ الیکشن میں مولانا مودودی صاحب ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے میدان میں اتر گئے اور ان کے وہ ساتھی جو ایسے ہی کسی موقع کے انتظار میں تھے ، الیکشن میں پوری طرح سرگرم عمل ہو گئے۔ ۴؎ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن میں شریک ہو کر جماعت نے ان تمام اخلاقی و مذہبی اصولوں کو پامال کر دیا جن کا وہ اب تک اعلان کرتی رہی تھی ۔ بحیثیت ایک سیاسی جماعت وہ کوئی کامیابی نہ حاصل کر سکی ۔ بلکہ جتنے لوگ جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے تھے ان میں سے شاید کوئی صاحب بھی اپنی ضمانت واپس نہیں لے سکے۔
اخلاقی حیثیت سے جماعت نے جن سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا ان کی وجہ سے جماعت میں ایک شدید قسم کا بحران پیدا ہو گیا کہ ہم کس لیے اٹھے تھے ، ہمارے دعوے کیا تھے ، آج تک کیا اعلان کرتے رہے اور کس طرح ایک ہی آزمایش میں سب کچھ کھو کر رکھ دیا ۔ اس بحران کے نتیجہ میں جب ایک بددلی سی پیدا ہوئی تو مجلس شوریٰ نے غالباً ۱۹۵۶ ء کے اوائل میں چند ارکان پر مشتمل ایک جائزہ کمیٹی مقرر کی تھی جس کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ وہ تمام حالات کا جائزہ لے کر مفصل رپورٹ شوریٰ میں پیش کرے۔ لیکن امیر جماعت مولانا مودودی صاحب اس جائزہ کمیٹی کی تشکیل پر بہت برہم ہوئے اور انھوں نے دوسرے اعتراضات کے علاوہ یہ اعتراض بھی کیا کہ اس کمیٹی کو مرکزی تنظیم کے محتسب کی حیثیت دی گئی ہے حالانکہ اس میں بعض ارکان بہت ناپسندیدہ ہیں ۔ چنانچہ یہ کمیٹی مولانا مودودی صاحب کے مسلسل مطالبے کی بنا پر توڑ دی گئی ۔ پھر مجلس شوریٰ نے چار سینئر ارکان غازی عبد الجبار، شیخ سلطان احمد ، حکیم عبد الرحیم اشرف اور مولانا عبد الغفار حسن صاحب پر مشتمل ایک اور کمیٹی مقرر کی جس کے سپرد بھی یہی کام کیا گیا۔
اس جائزہ کمیٹی نے پورے ملک کا دورہ کیا، ہر جگہ ارکان جماعت کے بیانات لیے اور کئی مہینوں کی محنت شاقہ کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی۔ جب یہ رپورٹ مرتب ہو کر امیر جماعت کو ملی تو بدقسمتی سے امیر جماعت نے اسے اپنے خلاف ایک چارج شیٹ سمجھ لیا۔ تاہم جب شوریٰ میں یہ رپورٹ پیش ہوئی تو شوریٰ نے ، جس کے صدر مولانا مودودی صاحب تھے ، متفقہ طور پر جائزہ کمیٹی کے ارکان کی خدمات کو سراہا، ان کا شکریہ ادا کیا اور چار شقو ں پر مشتمل ایک قرار داد منظور کی جس میں یہ اعتراف کیا گیاکہ کچھ غلطیاں ہوئی ہیں لیکن وہ ایسی غلطیاں نہیں ہیں جن پر قابو نہ پایا جا سکے ، آیندہ احتیاط کی ضرورت ہے اس قرار داد کی ایک نہایت اہم شق یہ تھی کہ عام انتخابات کی سرگرمیوں سے فی الحال صرف نظر کر کے معاشرے کی اصلاح پر زیادہ زور دیا جائے کیونکہ اسلامی خطوط پر معاشرے کی اصلاح ہی بالاخر ملک میں صحیح سیاسی تبدیلی کا ذریعہ بن سکے گی ۔ اس قرار داد کو متفقہ طورپر منظور کر لینے کے بعد مجلس شوری کا اجلاس دعا و درود پڑھ کر ختم کر دیا گیا۔
اس قرار داد کو منظور کر لینے کے بعد میرے نزدیک مجلس شوریٰ نے اس بحران پر جو انتخابات میں حصہ لینے سے پیدا ہو گیا تھا ، قابو پا لیا تھا۔ لیکن مولانا مودودی صاحب نے اس قرار داد کو دل سے نہیں مانا ۔ نیز یہ خلش بھی ان کے دل سے نہیں نکلی کہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ ان کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے ۔ چنانچہ شوریٰ کے اجلاس کے ختم ہونے کے کچھ ہی دن بعد انھوں نے جائزہ کمیٹی کے چاروں ارکان کو ایک نوٹس بھیج دیا کہ چونکہ آپ حضرات ایک نادانستہ سازش کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے شوریٰ سے استعفیٰ دیں ورنہ میں آپ کے حلقے کے ارکان کو لکھوں گا کہ وہ آپ کو واپس بلا لیں ۔
میں گذشتہ کئی برسوں سے محسوس کر رہا تھا کہ مولانا مودودی صاحب شورائیت کو ، جو اسلامی نظام کی بنیادی خصوصت ہے ، جماعتی معاملات میں اہمیت نہیں دیتے لیکن اس واقعہ نے میرے اعتماد کو بالکل ہی متزلزل کر دیا ۔ کیونکہ مولانا مودودی صاحب کا یہ اقدام دستور جماعت ہی نہیں ، عدل و انصاف کے ابتدائی تقاضوں کے احترام سے بھی خالی تھا۔ چنانچہ میں نے اس صریح ناانصافی اور جماعتی مصالح کے لحاظ سے مہلک فیصلہ پر ان کی توجہ دلانے کی کوشش کی اور ان کے سامنے یہ واضح کیا کہ آپ کا یہ فیصلہ ہر پہلو سے غلط ہے ۔ اس لیے جن کو آپ کے احکام پہنچ گئے ہیں انھیں واپس لیجیے اور جن تک نہیں پہنچے انھیں روک دیجیے ورنہ یہ چیز بڑے حادثے پر منتہیٰ ہو گی ۔ مولانا مودودی صاحب مجھے تسلی دیتے رہے کہ اس پر غور کیا جائے گا لیکن عملاً وہ اسی پر مصر رہے ۔ تب میں نے ان کو ایک مفصل خط لکھا جس میں میں نے ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی کہ امیر جماعت کی حیثیت سے ان کا یہ اقدام دستور ہی کے نہیں عدل و انصاف کے بھی خلاف ہے ۔
میرا یہ خط ایک تاریخی خط ہے جو اس زمانے میں پریس میں بھی آ گیا تھا اور جسے پڑھ کر(شام کے) عمر بہا الامیری نے ، جو اس زمانے میں پاکستان کے سفیر ہوا کرتے تھے ، کہا تھا ’قد کتبت ھذا الکتاب کما یکتب القاضي قضاء ولکن فیہ بعض الخشونۃ‘(آپ نے خط ایسے لکھا ہے جیسے قاضی اپنا فیصلہ لکھتا ہے ، لیکن ذرا تلخ ہے) مولانا مودودی صاحب نے مجھے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اگلے روز نہایت عجیب و غریب انداز سے جماعت کی امارت سے مستعفی ہوگئی۔
کچھ عرصہ سے، مولانا مودودی صاحب نے شوریٰ کے اجلاسوں میں یہ طرز عمل اختیار کر رکھا تھا کہ جب کبھی وہ اپنے موقف کو دلائل کے ذریعے منوانے میں ناکام رہتے تو فوراً استعفیٰ کی دھمکی دے دیتے۔‘‘ ۵؎ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۵۱)
عبدالرشید عراقی لکھتے ہیں :
’’مولانا امین احسن اصلاحی کم گو،فعال،سنجیدہ مگر سرگرم اورنبض شناس تھے۔ان کی پیشانی کی شکنیں ہمہ وقت معنی خیز نتائج کی متلاشی ہوتی تھیں ۔وہ ۱۷ سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اور ہر نازک موقعہ پر جماعت کی عظمت ووقار کے لیے سینہ سپر رہے۔ان کی اصابت رائے کا یہ عالم تھا کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ارکان جماعت اسلامی ان کے مشوروں کی قدر کرتے تھے۔سنجیدگی کے ساتھ بے باکی اور صاف گوئی مولانا کاامتیاز تھا۔پروفیسرحکیم عنایت اللہ نسیم سوہدری مرحوم نے، جو جماعت اسلامی سے کئی سال تک وابستہ رہے اور ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے بعد جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے ،مجھ سے کئی بار اس بات کا تذکرہ کیا کہ :جب مولانا مودودی نے امارت سے اپنا استعفیٰ پیش کیا تو مولانا امین احسن اصلاحی ایک دم غصے میں آگئے اور مولانا مودودی سے فرمایا:’ہم آپ کو بھاگنے نہیں دیں گے ۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، کانٹوں کی مالا ہے۔ ہم آپ کو گریبان سے پکڑیں گے ۔اگر اس راہ پرآپ چل نہیں سکتے تھے تو جماعت کی بنیاد کیوں رکھی تھی؟‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل۱۹۹۸ء، ۸۹)
’’وہ اس سے پہلے شوریٰ کے اجلاسوں میں کئی بار استعفیٰ کی دھمکی دے چکے تھے اور اس کا مقصد شوریٰ کو مرعوب کرنا اور دیگر ارکان کو یہ تاثر دینا ہوتا تھا کہ اختلاف کرنے والے حضرات امیر جماعت کی دل شکنی کا باعث بن رہے ہیں ۔ چنانچہ اس دفعہ جب انھوں نے استعفیٰ دیا تو جماعت کی مجلس شوریٰ نے بالاتفاق یہ طے کیا کہ استعفیٰ کو نہایت خفیہ رکھا جائے ، لیکن مرکزی اسٹاف نے اسے نہایت دھوم دھام سے اخبارات میں شائع کرا دیا اور جگہ جگہ عام ارکان کو یہ تاثر بھی دیا گیا کہ درحقیقت میری کوئی گستاخی ہے جو جماعت کے لیے اس حادثے کا باعث بنی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت کے بیشتر حلقوں میں جائزہ کمیٹی کے ارکان اور ان سے ہمدردی رکھنے والے دیگر حضرات کے خلاف بہتان طرازیوں کی ایک مکروہ مہم شروع ہو گئی۔
اس استعفیٰ پر غور کرنے کے لیے مجلس شوری کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں چند ایسے ارکان جن کی رکنیتں اس عرصہ میں معطل کر دی گئی تھیں ،جو شریک نہیں تھے ۔ اس شوریٰ نے امیر جماعت پر غیرمشروط اعتماد کا اظہار بھی کیا اور امیر جماعت کو خوش کرنے کے لیے پالیسی میں بھی مداخلت کر دی جس کا اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔ میں اس شوریٰ میں شریک نہیں تھا چونکہ میں امیر جماعت پر شوریٰ کے غیر مشروط اظہار اعتماد کو ، امیر جماعت کے ان تمام فیصلوں کی توثیق سمجھتا تھا ، جو انھوں نے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف کیے اس لیے میں نے اس دوران میں جماعت سے استعفیٰ دے دیا۔ میرے استعفیٰ کے بعد چودھری غلام محمد صاحب جو اس وقت قائم مقام امیر بنائے گئے تھے مولانا باقر خان صاحب کے ساتھ مجھے ملے اور مجھے یہ یقین دلایا کہ اس شوریٰ کے اظہار اعتماد کا مطلب ہرگز ہرگز امیر جماعت کے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف اقدامات کی توثیق نہیں ہے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ دسمبر کی شوریٰ کی قرارداد اپنی جگہ قائم ہے ۔ نیز یہ کہ امیر جماعت جائزہ کمیٹی کے ارکان کو بھیجے گئے نوٹس کو نہ صرف واپس لیں گے بلکہ ان سے معافی بھی مانگیں گے ۔ ان حضرات کی ان یقین دہانیوں کے بعد میں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ حضرات ان وعدوں میں سے کسی بھی وعدے میں سچے ثابت نہیں ہوئے ۔
شوریٰ کی اس قرار داد کے بعد مولانا مودودی صاحب نے اپنے اس استعفیٰ کو جس میں کہا گیا تھا کہ یہ کسی بھی صورت میں واپس نہیں ہو گا ، صرف تین ہی دن کے بعد واپس لے لیا۔ لیکن جائزہ کمیٹی کے ارکان کے بارے میں وہ اپنے اسی فیصلے پر جمے رہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ چاروں اراکین شوریٰ الگ کیے گئے اور ان کے ساتھ ہی کئی دوسرے حضرات نے بھی بد دل ہو کر جماعت سے استعفیٰ دے دیا ۔ وہ شوریٰ ختم ہو گئی جو مولانا مودودی صاحب کے نقطۂ نظر سے اختلاف کر سکتی تھی ۔ صرف وہ لوگ رہ گئے جن کا خیال یہ تھا کہ دین لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، لیکن اس زمانے میں اسے مولانا مودودی صاحب ہی نے سمجھا ہے ۔
اگرچہ ایسی خوشامدی اور جی حضوری قسم کی شوریٰ سے کسی اختلاف کی توقع رکھنا عبث تھا پھر بھی مولانا مودودی صاحب نے کسی متوقع سرکشی سے بچنے کے لیے جماعت میں اسلامی شورائیت کے نظام کو بدل کر ایک آمرانہ اور ڈکٹیٹرانہ نظام نافذ کر دیا ۔ چنانچہ ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان میں انھوں نے مختلف طریقوں سے دستور میں ایسی ترامیم کرائیں جن کی رو سے شوریٰ کو عاملہ کی بجائے ایک مشاورتی کونسل کی حیثیت دے دی گئی ۔ چند ماہ بعد اس نئی شوری کا اجلاس کوٹ شیر سنگھ میں ہوا اور اس میں مولانا مودودی صاحب نے اپنے لیے ان اختیارات کا مطالبہ کیا جو حالت جنگ میں کسی فوج کے سپہ سالار کے حاصل ہوتے ہیں ۔ اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر انھیں یہ اختیارات نہ دئیے گئے تو وہ جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیں گے ۔ میں نے ان کی اس رائے پر تنقید کی تھی لیکن شوریٰ نے ان کے استعفیٰ کی دھمکی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ۔ میں شوریٰ کے اس اجلاس سے اٹھ کر چلا آیا اور بعد میں دستور میں وہ تمام ترامیم کر دی گئیں جن کے بعد جماعت کا جمہوری او ر شورائی نظام ایک آمرانہ اور ڈکٹیٹرانہ نظام میں بدل گیا ۔ ترمیم شدہ دستور کے مطابق چند ارکان پر مشتمل عاملہ بنائی گئی جسے بظاہر وسیع اختیارات دیے گئے لیکن عملاً یہ تمام اختیارات امیر جماعت کی ذات میں مرتکز کر دیے گئے کیونکہ اس دستور کے مطابق اب امیر جماعت عاملہ کی اکثریت کی رائے کے پابند نہیں تھے اور وہ ساری عاملہ یا عاملہ کے چندارکان کو جب چاہیں معزول کر سکتے تھے ۔
جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تو مجھ پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اب جماعت کا دستور نظام ، پالیسی ہر چیز بدل چکی ہے ۔ یہ جماعت اقامت دین کے لیے اٹھی تھی اور اس کے لیڈروں نے اسے اٹھا کر غلط راستے پر ڈال دیا ۔ ان کی انتہائی آرزو بس یہی تھی کہ کسی طرح اسمبلی کی چند سیٹوں پر قبضہ کر لیں ۔ شہادت حق اور اقامت دین کے نعرے کھوکھلے ہو چکے تھے ۔ میں نے اس کے اندر رہ کر اصلاح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوسکا ۔ میرے لیے یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ میں امیر جماعت کے ان اقدامات کو جو انھوں نے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف کیے ، خاموشی سے برداشت کر لیتا۔ اگر میں اس ظلم اور ناانصافی پر خاموش رہتا تو میرا ضمیر مردہ ہو جاتا اور میری روح خدا سے شرمندہ ہوتی ۔ اس دوران میں کچھ لوگوں نے مصالحت کی کوششیں کیں لیکن جب وہ بھی مایوس ہو گئے تو میں نے استعفیٰ دے دیا۔ اور آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ یہ استعفیٰ ۶؎ واپس لینے کے لیے نہیں ہے ۔ مولانا مودودی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنا استعفیٰ واپس لیں ۔ میں نے کہا : مولانا میں نے تو عرض کر دیا ہے کہ یہ استعفیٰ واپس لینے کے لیے نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کو اچھی طرح جان لیا اور آپ نے مجھے اچھی طرح جان لیا۔ اب ہم شاید کبھی بھی مجتمع نہیں ہو سکیں گے ۔ ’ھذا فراق بینی و بینک ‘۔ مولانا مودودی صاحب اٹھ کر چلے گئے اور جماعت سے میری علیحدگی ہو گئی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل۱۹۹۸ء، ۴۸- ۵۳)
اس کے بعد انٹرویو کرنے والے صاحب ڈاکٹر منصورالحمید نے سوال کیا کہ آپ کے استعفیٰ دینے کا فوری سبب کیا چیز بنی ؟امین احسن کا جواب تھا:
’’مولانامودودی صاحب نے ایک خط چودھری غلام محمد صاحب کو لکھا اور اس میں میرے متعلق یہ لکھا کہ میں نے جتنی ناز برداری مولانا اصلاحی کی کی ہے اتنی کسی اور کی نہیں کی ۔ لیکن کچھ عرصہ سے مولانا کا رویہ یہ ہے کہ وہ میرے خاص احباب پر برابر دل شکن فقرے کستے رہتے ہیں ۔ اس خط کو مجھے بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن مولانا مودودی صاحب نے اس کی ایک نقل مجھے بھی بھیج دی ۔ اسے پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ میں نے استعفیٰ دینے میں دیر لگائی ہے ، چنانچہ میں نے استعفیٰ لکھا اور اس خط کے جواب میں یہ بھی لکھا کہ اگر آپ نے ناز برداری ایسے شخص کی کی جو اس کا اہل نہیں تھا تو آپ اپنے آپ کو کوسئے، اور اگر وہ اس کا اہل تھا تو آپ نے کوئی احسان نہیں کیا۔ اس لیے اس ناز برداری کو جتلا کر مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں کہ میں اس کے بدلے میں ضمیر فروشی کروں گا۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۵۳)
یوں امین احسن کی جماعت کے ساتھ۱۷سالہ رفاقت کاخاتمہ ہوگیا۔ان کے نزدیک نئے دستور کے تحت جماعت میں پیری مریدی کا ایک نظام قائم ہوگیا تھا ۔امین احسن کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسی چیزوں سے انھیں کوئی دل چسپی نہ تھی ۔امین احسن کے شاگرد، خالد مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ اس ضمن میں وہ خود بتایا کرتے تھے:
’’مولانا مودودی اسلامی نظام کی بنیادی خصوصیت ــــــشورائیت ــــــ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اپنی آمریت قائم کرنے کے لیے انھوں نے دستور اور نظام جماعت کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔جائزہ کمیٹی کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر دستوری اقدام سے انھوں نے جماعت میں بحران پید ا کردیا اور جب اس کے خلاف آواز بلند کی گئی تو انھوں نے معترضین کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی پیش کردیا کہ نظریاتی حکمت اور ہوتی ہے ،عملی حکمت اور۔اسلام میں امیر کو دیکھنا پڑتا ہے کہ دین کے نفاذ میں اسے کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔اس کے لیے بعض اصولوں کو وہ قربان بھی کرسکتا ہے۔ ان تجربات سے گزرنے کے بعدمیں کس مقصد کے لیے جماعت میں پڑارہتا ؟میں نہ تو انقلاب قیادت کے نعرہ کو اسلامی انقلاب کا ذریعہ سمجھتا ہوں اور نہ ووٹ حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ کواصلاح معاشرہ کا واسطہ۔ جماعت کا موجودہ دستور میر ے نزدیک شورائی ہے نہ جمہوری۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مجھے امیر جماعت کے نہ عدل پر بھروسا ہے ،نہ ان کی تنہا بصیرت پر، نہ دستو ر جماعت کے ساتھ ان کی وفا داری پر۔لے دے کے صرف ایک چیز رہ جاتی ہے ،وہ یہ کہ اس جماعت میں بہت سے نیک دل اور خداترس مسلمان شامل ہیں ۔ جماعت کی یہ چیز میری نگا ہوں میں بڑی قابل قدر ہے ۔میں ان سب بھائیوں سے محبت کرتا اور ان کے لیے دعا ے خیر کرتا ہوں ، لیکن اس محبت اور دعا گوئی کے لیے میرا جماعت کے ساتھ بندھے رہنا کو ئی ضروری نہیں تھا۔یہ خدمت میں باہر رہ کر بھی انجام دیتا رہوں گا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اکتوبر ۱۹۹۷ء، ۱۱- ۱۲)
امین احسن کے استعفیٰ کے بعدمولانا مودودی نے انھیں یہ خط میں لکھا:
’’میر ی اس رائے کو آپ چاہیں تو غلط کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے خلاف دلائل دینے کی آپ کو پوری آزادی ہے ، حتیٰ کہ آپ کو یہ بھی اختیار ہے کہ اس کو جو بدتر سے بدتر معنی چاہیں پہنائیں ۔ مگر آپ یہ الزام مجھ پر نہیں لگا سکتے کہ ایک بدنیتی کی بلی مدتوں سے مجرم ضمیر کے تھیلے میں چھپائے پھرتا رہا تھا، اور پہلی مرتبہ اسے موقع تاک کر کوٹ شیر سنگھ میں باہر نکال لایا۔ میں اس رائے کو حق سمجھتا ہوں ، ہمیشہ اس کو ظاہر کیا ہے اور تشکیل ’’جماعت‘‘ کے بعد سے آج تک اس پر عملاً کام کرتا رہا ہوں ۔ آپ کو پورا حق ہے کہ اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں ۔ اس کی وجہ سے جماعت کو چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ جماعت میں رہتے ہوئے آپ مجلس شوریٰ کے ذہن کو اس سے مختلف جس رائے کے حق میں بھی ہموار کرنا چاہیں ، پوری آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری ۱۹۹۸ء، ۲۲)
امین احسن نے اس کے جواب میں لکھا:
’’آپ نے اپنی ’’بلی‘‘ کی تاریخ پیدایش ناحق بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ میں اس بات سے ناواقف نہیں ہوں کہ یہ بلی آپ کے تھیلے میں روزِ اول سے موجود ہے، لیکن آپ کویاد ہوگا کہ تقسیم سے پہلے الٰہ آباد کی شوریٰ کے اجلاس میں ، میں نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ یاد نہ ہو تو مذکورہ شوریٰ کی روداد پڑھ لیجیے۔ اس وقت تو یہ مر نہ سکی، لیکن میں اور جماعت کے دوسرے اہل نظر برابر اس کی فکر میں رہے اور شوریٰ میں اس کی موت و حیات کا مسئلہ بار بار چھڑتا رہا، یہاں تک کہ تقسیم کے بعد ہم نے جو دستور بنایا، اس میں اس کی موت کا آخری فیصلہ ہو گیا۔ واضح رہے کہ جب اس کے قتل کا فیصلہ ہوا تھا تو اس وقت شرع شریف، مصلحت زمانہ اور اسلامی جمہوریت، سب کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہوا تھا۔ اس کی تائید میں علما کے فیصلے بھی حاصل کیے گئے تھے اور اہل نظر کی رائیں بھی جمع کی گئی تھیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ آپ اپنے عمل سے وقتاً فوقتاً اس کو زندہ بھی کرتے رہے، لیکن ہمارے دستور نے اس کی زندگی تسلیم نہیں کی۔ اس سلسلہ میں جب کبھی آپ نے دستور کی مخالفت کی تو عموماً اپنے اقدامات میں بے بصیرتی کا ثبوت دیا جس سے جماعت کے اہل الرائے اس بارہ میں یک سو ہو گئے کہ یہ ’’بلی‘‘ مردہ ہی رہے تو اچھا ہے، لیکن آپ پر اس کی موت بڑی شاق تھی۔آپ اس کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لیے برابر بے چین رہے۔ اسی کے عشق میں آپ نے استعفا دیا۔ ماچھی گوٹھ میں آپ نے اس کے لیے رازداروں کو خلوت میں بلا کر سازش کی۔ پھر کوٹ شیر سنگھ میں اس پر مسیحائی کا آخری افسوں پڑھا اور یہ واقعی زندہ ہو گئی۔ اب آپ مجھے دعوت دیتے ہیں کہ میں پھر شوریٰ میں آؤں اور اس کے اندر رہ کر اس کو مارنے کی کوشش کروں تو میں اس سے معافی چاہتا ہوں ۔ ایک ’’بلی‘‘ برسوں کی محنت سے میں نے ماری، آپ نے وہ پھر زندہ کر دی اور اب آپ کی مجلس عاملہ نے اس کی رضاعت و پرورش کی ذمہ داری بھی اٹھا لی ۔ اب میں پھر اس کو مارنے میں لگوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ساری زندگی اس ’’گربہ کشی‘‘ ہی کی نذر کر دوں ۔ آخر یہ کون سا شریفانہ پیشہ ہے۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۲۲)
ڈاکٹر منصور الحمید کے انٹرویو میں امین احسن نے جماعت سے وابستگی اور علیحدگی کے معاملے کے کچھ اور پہلوؤں کو بھی بیان کیا ہے ۔انٹرویو کے ان حصوں کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں :
’’سوال:کیامولانامودودی صاحب کودستور کے تحت یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ جائزہ کمیٹی کے ارکان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر سکیں ؟
جواب : مولانا مودودی صاحب نے استعفیٰ کا مطالبہ دستور کے تحت نہیں کیا تھا بلکہ یہ ایک مطلق العنانہ حکم تھا۔ اور اس کی دلیل انھوں نے یہ دی تھی کہ چونکہ میں امیر جماعت ہوں اس لیے مجھ پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں جماعت کو کسی سازش کا شکار ہونے سے بچاؤں ۔ اور چونکہ یہ چاروں حضرات ایک نادانستہ سازش کے مرتکب ہوئے ہیں ، لہٰذا میں ان کو حکم دیتا ہوں کہ وہ مستعفی ہو جائیں ۔ یہ حکم وہ دستور کے تحت نہیں دے سکتے تھے ۔ میں نے اسی پر احتجاج کیا تھا کہ یہ حکم دستور ہی کے نہیں ، عدل و انصاف کے بھی خلاف ہے ۔ ان کے بعض سادہ لوح معتقدین یہ کہنے لگے کہ اگر امیر جماعت کسی سے مستعفی ہونے کے لیے کہیں تو مستعفی ہو جانا چاہیے ۔ میں نے کہا اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ آپ نے سازش کی ہے اس لیے مستعفی ہو جائیں تب تو یہ ایک جرم بنتا ہے ۔ پہلے جرم ثابت کرنا چاہیے پھر یہ حکم دینا چاہیے ۔ اصل میں شخصی آمریتوں کے دور میں جس طرح دستور بھی موجودہوتا ہے اور ایک بالاتر قانون بھی چل رہا ہوتا ہے جو آمریت کے ہر فعل کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے اسی طرح یہ قدم بھی دستور کے تحت نہیں بلکہ اسی بالاتر قانون کے تحت اٹھایا گیا تھا جسے دنیا کے ہر آمر اور ڈکٹیٹر نے اپنے مفاد کے لیے وضع کر رکھا ہے ۔
سوال : ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان میں کیا پالیسی طے ہوئی تھی ؟
جواب : دراصل مولانا مودودی صاحب نے اپنا استعفیٰ اس شرط پر واپس لیا تھا کہ وہ اس کو اجتماع ارکان میں رکھیں گے ۔ اس استعفیٰ کی وجہ سے ارکان پر شدید دباؤ تھا اور ان کی اکثریت کے ذہن مفلوج تھے ۔ اسی صورت حال میں مولانا مودودی صاحب جماعت کی پالیسی کے بارے میں ایک قرار داد استصواب کے لیے پیش کرنا چاہتے تھے۔ اجتماع عام سے پہلے شوریٰ کے اجلاس میں جب یہ قرار داد میرے سامنے آئی تو میں نے اس پر شدید تنقید کی جس پر شوریٰ کے اجلاس میں تعطل پیدا ہو گیا ۔ بالآخر چوبیس گھنٹوں کے بعد مولانا باقر خان صاحب میرے پاس قرار داد لے کر آئے اور کہا کہ امیر جماعت فرماتے ہیں کہ اگر تم اس میں کوئی لفظی ترمیم کرنا چاہتے ہو تو کردو ۔ اگرچہ کسی لفظی ترمیم سے میرا مدعا حاصل نہیں ہوتا تھا، تاہم محض اس خیال سے کہ جماعت میں انتشار نہ پیدا ہو ، میں نے اس قرار داد میں ذرا سی لفظی ترمیم کر کے اسے جماعت کے اصل مقصد کے قریب تر لانے کی کوشش کی اور بعد میں یہ کثرت رائے سے منظور ہو گئی ۔ اس قرار داد کے چار جزو تھے اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ جماعتی سرگرمیوں کے ان چاروں اجزا میں توازن رکھا جائے گا ۔ اس قرار داد کا بنیادی فلسفہ بھی یہی تھا کہ اصلاح معاشرہ ہی ملک میں صحیح سیاسی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ لیکن مولانا مودودی صاحب نے اس قرار داد پر وفاداری سے عمل نہیں کیا اور ان کی روش یہی رہی کہ جماعت کی تمام سرگرمیاں انتخابات کے لیے مخصوص رہیں ۔
سوال : کیا مولانا مودودی صاحب سے اختلاف رکھنے والے حضرات جماعت کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے خلاف تھے ؟
جواب : اختلاف رکھنے والے حضرات جماعت کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے خلاف نہیں تھے ۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ جماعت کبھی بھی سیاست میں حصہ نہ لے بلکہ ان کی خواہش یہ تھی ، اور یہی شوریٰ نے طے کیا تھا، کہ فی الحال سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی جائیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس بات کی اس وقت کوئی گنجایش بھی نہیں تھی ۔ جماعت کی طاقت اتنی نہیں تھی کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے میدان میں اتر جائے ۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ فی الحال سیاسی سرگرمیوں کو کم کر کے ، تعلیم ، تربیت اور تنظیم کے کام کو آگے بڑھایا جائے تاکہ جماعت کی قوت اتنی بڑھ جائے کہ یہ ملکی سیاست پر موثر طریقے سے اثر انداز ہو سکے ۔ پھر اگر ممکن ہو تو سیاست میں براہ راست حصہ بھی لیا جائے ۔ جماعت کے سیاست میں حصہ لینے پر کبھی بھی کسی کو اعتراض نہیں رہا۔ یہ تو محض مجرم بنانے کے لیے کہا جانے لگا کہ یہ حضرات اس کو تبلیغی جماعت بنانا چاہتے تھے ۔
سوال : جب آپ جماعت میں شامل ہوئے تو اس وقت جماعت کا نصب العین کیا تھا؟
جواب : اس وقت ، واقعہ یہ ہے کہ ہم انبیا کے طریقے پر اقامت دین کرنے کے لیے ہی اٹھے تھے ۔ اس وقت ہماری تحریروں میں ، تقریروں میں ، قول میں ، عمل میں ہرچیز میں واضح طور پر بیان کیا جاتا تھا کہ ہمارا طریقہ اور ہمارا کام انبیا کے طریقے پر اقامت دین ہے ۔ لیکن ملک تقسیم ہونے کے بعد مولانا مودودی صاحب میں بعض تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں اور مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ جو جتھہ بندی کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اب اس کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف ان کے اقدام اور ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان کے بعد ہر چیز نمایاں ہو گئی کہ اب وہ خالصۃً سیاسی پارٹی کی حیثیت سے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ انبیا کے طریقے پر اقامت دین کی بساط اب لپیٹ دی گئی ہے۔
سوال : کیا نصب العین میں انحراف کا اندازہ ، جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد ہوا تھا؟
جواب : جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد وہ چیزیں جو نصب العین میں انحراف کا سبب بن سکتی تھیں اور زیادہ نمایاں ہو گئی تھیں ، اس کی وجہ یہ تھی کہ الیکشن نے یہ واضح کر دیا کہ ہم جو وعدے کرتے تھے وہ یونہی لن ترانیاں تھیں اس لیے کہ الیکشن میں وہ تمام ہتھکنڈے جو ناجائز سمجھے جاتے تھے استعمال کیے گئے۔ اس وجہ سے جماعت پر پہلی بات یہ انکشاف ہوا کہ ہمارے دعوے کیا تھے اور ہم نے عمل کے میدان میں کیا کیا ہے ۔
سوال : جماعت میں ان رجحانات کی اصلاح کے لیے ، جو بالآخر اسے اپنے نصب العین سے ہٹانے کا سبب بنے ، آپ نے کیا کوششیں کیں ؟
جواب: جماعت میں نصب العین سے انحراف کو روکنے کے لیے ، واقعہ یہ ہے کہ میں سب سے موثر شخص تھا۔ چنانچہ جب بھی کوئی ایسی بات ہوئی جسے میں نے محسوس کیا کہ یہ امیر جماعت یا جماعت کے ارکان میں غلط رجحان پیدا کر سکتی ہے تو میں نے اس پر فوراً توجہ دلائی۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی جب جماعت کی دینی دعوت کو ایک دنیوی تحریک کی صورت دی جانے لگی اور بے تکلفی سے یہ لکھا جانے لگا کہ اسلام ایک تحریک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ایک لیڈر ہیں ، تو میں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور مولانا مودودی صاحب سے کہا تھا کہ یہ اصطلاحات نہ صرف عام آدمی کے ذہن کو خراب کرنے والی ہیں بلکہ دین کے وقار کو بھی بڑھانے کی بجائے گھٹانے کا باعث ہوں گی ۔ کیونکہ تحریکیں تو دنیا میں بہت سی ہیں اور ان میں کئی شیطانی تحریکیں بھی ہیں لیکن دین تو ایک ہی ہے ۔ اسی طرح لیڈر تو نجانے کتنے لوگ ہوئے ہیں لیکن خاتم الانبیاء تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس لیے یہ چیزیں دین کی دعوت کے بارے میں عام آدمی کے ذہن کو خراب کرنے کا باعث ہو سکتی ہیں ۔ مولانا مودودی صاحب کہتے رہے کہ میرے اور تمھارے نقطۂ نظر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن وہ اور ان کے ہم خیال ساتھی اسی طرح لکھتے رہے ۔ ان الفاظ کے کثرت استعمال سے چونکہ یہ اشتباہ پیدا ہوتا تھا کہ لوگوں کے ذہن دین کی دعوت کے بارے میں عام طرز کی دنیوی تحریکوں کی طرف منتقل نہ ہو جائیں اور وہ لائحۂ عمل کے لیے اسی نہج پر سوچنا نہ شروع کر دیں ـ اس لیے میں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس پر بہت توجہ دلائی کہ ہمارا اصل فرض اقامت دین اور شہادت حق کا ہے اور ہمیں اس چیز سے بے پروا ہوجانا چاہیے کہ ہماری جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جماعت میں یہ اصطلاحات درحقیقت میرے توجہ دلانے ہی سے زیادہ فروغ پائی ہیں ۔ اس زمانے میں میں نے خاص اسی لیے اپنی کتاب ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘ لکھی ۔اس میں میں نے یہ واضح کیا کہ شہادت حق اور اقامت دین کی جو اصطلاحات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں ان کا مفہوم کیا ہے اور اس شہادت حق کی دعوت کے لیے قرآن مجید نے عام دنیوی تحریکوں سے ہٹ کر جو راہ متعین کی ہے وہ کیا ہے ؟
اسی طرح جب میں نے یہ دیکھا کہ یہ فلسفہ بنا لیا گیا ہے کہ تحریکیں اصول سے نہیں بلکہ شخصیت سے چلتی ہیں اور جب تک شخصیت نہیں بنائی جائے گی تب تک یہ کام آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ تب میں نے مولانا سے کہا کہ اول تو دین کے تحریک ہونے کے ہی مخالف ہوں ، تاہم اگر یہ بات صحیح بھی ہو تو شخصیت اپنے عمل سے آپ سے آپ پیدا ہوتی ہے ، مصنوعی طریقے سے نہیں بنائی جاتی ، اور اگر مصنوعی طریقے سے بنائی گئی تو لیڈروں والے وہ تمام لوازم اختیار کرنے پڑیں گے جنھیں عام دنیا دار لیڈر اختیار کرتے ہیں اور جنھیں آپ حرام سمجھتے ہیں ۔ یہ چیزیں جماعت کی دینی دعوت کے مزاج کے سخت خلاف ہیں اور یہ رجحان صحیح نہیں ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب نے یہ چیز نہیں مانی بلکہ یہ قبول کر لیا کہ انھیں لیڈر ہی بننا ہے ۔ چنانچہ لیڈروں والے وہ تمام لوازم اختیار کیے گئے جنھیں وہ خود حرام قرار دے چکے تھے ۔ حرمت تصویر کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے ۔ انھوں نے تصویر کے حرا م ہو نے کا فتویٰ دیا تھا۔ اگرچہ میں ا س کو ناجائز نہیں سمجھتا ، لیکن انھوں نے فتویٰ دیا کہ تصویر کھنچوانا حرام ہے لیکن لیڈر بننے کے لیے بلاجھجھک تصویریں کھنچواتے رہے ۔
اسی طرح جماعت کے کسی رسالے میں کوئی مضمون نکلتا جس میں قابل اعتراض بات ہوتی اور مجھے توجہ دلائی جاتی تو میں صاحب مضمون کو بلا کر تنبیہ کرتا ۔ اگر باہر سے کوئی اطلاع آتی کہ فلاں رکن نے ایسی تقریر کی ہے اور ان خیالات کا اظہار کیا ہے تو میں ان سے بھی باز پرس کرتا ۔ اصلاح کے لیے یہی کچھ تھا جو میں کر سکتا تھا۔ بلکہ میری مسلسل تنقید اور اصلاح کی ان کوششوں سے تنگ آ کر مولانا مودودی صاحب کے بعض معتقدین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ میں شاید رشک اور رقابت کی آگ میں جل رہا ہوں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے زندگی بھر کسی چھوٹی سے چھوٹی ذمہ داری لینے کا شوق بھی نہیں رہا۔ البتہ جو ذمہ داری مجھے سونپ دی جاتی ہے میں پورے احساس ذمہ داری سے اسے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
سوال : کیا ایسی چیزیں شوریٰ میں بھی زیر بحث آتی تھیں ؟
جواب : جی ہاں ، شوریٰ میں ان پر بحث ہوتی تھی لیکن شوریٰ کی ان چیزوں پر تنقید زیادہ موثر نہیں ہوتی تھی کیونکہ ایسے حضرات کی تحریریں یا تقریریں جب بھی زیر بحث آتیں وہ احتیاط کا وعدہ کر لیتے ۔ جب شوریٰ ختم ہوتی تو وہی کچھ دوبارہ ہونے لگتا۔
سوال : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی اب اقامت دین کی تحریک نہیں رہی ؟
جواب : اب تو ہر شخص یہ محسوس کر سکتا ہے کہ جماعت اقامت دین کی تحریک تو کجا، ایک عام طرز کی مذہبی جماعت بھی نہیں ہے ۔ جس طرح سے نمائش اور پروپیگنڈے کے لیے مذہب کا نام استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح یہ جماعت بھی کرتی ہے ۔ بلکہ میرے ایک فقرے پر جو میں نے اس زمانے میں مولانا مودودی کو لکھا تھا ، بعض لوگوں کو اعتراض ہوا تھا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں نے صحیح کہا تھا کہ مولانا ہماری یہی حرکتیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ ہمیں مذہبی بہروپئے اور سیاسی چغد سمجھتے ہیں ۔ اس جماعت کا دین اور اخلاق جس درجہ برباد ہو چکا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگا لیجیے کہ اس کے قائد نے سالوں تک اخبارات میں اعلان کیا کہ وہ سیرت النبی لکھ رہا ہے اور اس کا امیر صفحات کی قید کے ساتھ اخبارات میں یہ بیان دیتا رہا کہ اتنے صفحات لکھے جا چکے ہیں ، چنانچہ اس مقصد کے لیے روپیہ بھی جمع کر لیا گیا ۔ لیکن ہوا یہ کہ چند لوگوں نے ان کی کتاب تفہیم القرآن سے سیرت مرتب کر کے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے شائع کر دی ۔ ظاہر ہے کسی اسلامی جماعت کا قائد ایسا نہیں کر سکتا ، صرف کتاب فروش لوگ ہی ایسا کر سکتے ہیں ۔
سوال :جماعت سے نکل جانے والوں پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انھوں نے کوئی جماعت کیوں نہیں بنائی ؟
جواب : یہ ایک احمقانہ خیال ہے کہ جماعت سے نکل جانے والوں کو ضرور ایک علیحدہ جماعت بنانی چاہیے تھی ۔جماعت بنا دینا اور اس کے نتیجہ میں ایک فتنہ اٹھا کھڑا کرنا کوئی سعادت دارین کمانا نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اس تجربے سے تمام لوگوں کو بڑا تنبہ ہوا کہ جماعت کو صحیح مقصد کے لیے چلانا کس قدر مشکل کام ہے ۔ بڑے ہمہمہ اور بڑے نیک ارادوں کے ساتھ یہ کام شروع کیا گیا تھا۔ بڑی اچھی صلاحیتیں بھی جمع ہو گئی تھیں لیکن مولانا مودودی صاحب نے جس طرح کھیل کو بگاڑا وہ آپ کے سامنے ہے ۔ اس تجربے کے بعد لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہم ایک شدید غلطی کر بیٹھے تھے ۔ چنانچہ اس کے بعد انھوں نے اپنے لیے ایسے مفید کام نکال لیے جن سے پوری امت کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ میں خود یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے جماعت سے الگ ہونے کے بعد دین کی اور اس امت کی جو خدمت کی ہے وہ میں جماعت میں رہ کر نہیں کر سکتاتھا۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی میری رائے یہ ہے کہ انھوں نے بہت سے تعلیمی ، مذہبی اور علمی کام کیے ہیں جن سے پوری امت کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔
جن لوگوں کو جماعتیں بنانے کا شوق تھا ان کا حال بھی آپ کے سامنے ہے ۔ یہ لوگ جماعتیں بناتے ہیں نیک مقاصد کے لیے لیکن پھر جلد ہی اس فتنے میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ جو جتھا بندی کر چکے ہیں اس کی قیمت وصول کی جائے ـ ۔ہمارے پیش نظر ایسا کوئی مقصد نہیں تھا اس لیے ہم نے اس خطرے کو مول نہیں لینا چاہا ۔ اپنی صلاحیتوں کی حد تک ہم نے پوری ملت کی خدمت کی ہے ۔ پوری ملت ہماری جماعت ہے ، ہم اس کے خادم ہیں ۔
سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کسی اسلامی طرز کی اجتماعیت سے وابستہ ہونا ، واجبات دینی میں سے ہے ۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟
جواب : یہ بات بالکل غلط ہے ۔ پوری امت مسلمہ ہماری جماعت ہے اور اس جماعت کی خدمت کرنا ہمارے فرائض و واجبات میں سے ہے ۔ آج تک اس ملت کے اندر جتنی جماعتیں بنی ہیں انھوں نے درحقیقت جسد ملت سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا ہے اور اپنی دوکان جسے وہ اپنی جماعت کہتے ہیں بنا لی ہے۔ پھر ملت سے بالکل بے پروا ہو کر اپنی اسی دوکان کو چلانا چاہتے ہیں ۔ مجھے جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے بعد یہ احساس ہوا کہ جماعت بنانا اور پھر اس کے ذریعہ سے ملت کی خدمت کرنا نہایت مشکل کام ہے اور ہر ایک کا یہ ظرف بھی نہیں ہے ۔ لوگ جماعتیں بناتے ہیں ، پھر ملت کی خدمت کے بجائے اپنی جماعت ہی کی خدمت مد نظر رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں ملت کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے اس کے لیے فتنہ بن جاتی ہیں ۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ یہ کام فائدہ مند نہیں بلکہ خطرناک اور مہلک ہے ۔ کسی جماعت کے کڑے ڈسپلن میں جکڑ کر اس کے مخصوص اغراض کے لیے استعمال ہونے سے بہتر ہے کہ آپ پوری ملت کو پیش نظر رکھ کر اس کی خدمت کریں ۔ اپنی صلاحیت کے مطابق جو بھی مذہبی ، سیاسی یا تعلیمی کام کیا جا سکتا ہے ، اسے کرنا چاہیے ۔ یہی ہمارا دینی فرض ہے اور بس اتنا ہی ہم پر واجب ہے ۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۵۵-۵۸، ۹۲)
یہاں یہ ضروری محسوس ہوتاہے کہ اس ضمن میں جماعت اسلامی کاموقف پیش کیا جائے۔ میاں طفیل محمد صاحب خالد مسعود صاحب کی جماعت پر بعض تنقیدات کاجواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جب۷۔۱۹۵۶ء میں مجلس شوریٰ کی قائم کردہ جائزہ کمیٹی اور اس کی کارروائیوں سے پیدا شدہ صورت حال سے تنگ آ کر مولانا مودودی صاحب نے امارت جماعت سے استعفیٰ دے دیا تو آئندہ وہ صرف ایک عام رکن جماعت کی حیثیت سے ہی کام کریں گے اور اس معاملے کو سلجھانے کے لیے ماچھی گوٹھ میں جماعت کے ارکان کا کل پاکستان اجتماع عام منعقد ہوا اور اس میں بھی مولانا مودودی نے اپنے اس موقف پر اصرار کیا تو مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اس قدر موثر اور زور دار تقریر کی اور اس میں مولانا مودودی صاحب کو جھنجوڑتے ہوئے فرمایا کہ ’’ آپ ہم لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے اب بھاگ کر کہاں جاتے ہیں ۔ ہم آپ کو ہرگز نہ چھوڑیں گے نہ بھاگنے دیں گے ۔ اپنی یہ ذمہ داری آپ کو سنبھالنی پڑے گی ‘‘ تو اجتماع کی فضا ہی بدل گئی۔ نو سو پینتیس (۹۳۵) حاضر ارکان جماعت میں سے صرف پندرہ (۱۵) مولانا مودودی سے غیر مطمئن رہ گئے اور انھوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور باقی نو سو بیس(۹۲۰) ارکان اور مولانا اصلاحی نے مولانا مودودی صاحب کو اپنا استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کر دیا اور اس طرح جماعت کا یہ بحران ختم ہو گیا۔
ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے بعد مجلس شوریٰ نے جماعت کے دستور میں جو ترامیم کیں وہ مولانا امین اصلاحی سمیت ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں شریک نو سو بیس ارکان کی بالاتفاق تجویز کردہ ہیں اور جماعت کا یہ دستور اس وقت کا دستور ہے ۔ اسے دیکھ کر آپ بتا دیجیے کہ اس میں امیر جماعت یا کسی دوسرے ذمہ دار جماعت کو آمرانہ اختیارات دینے والی دفعہ یا شق کون سی ہے ۔ امیر، مجلس شوریٰ اور ہر عہدے دار کے فرائض و اختیارات اس میں واضح طور پر ثبت ہیں ۔ امیر کو ارکان جماعت مجرد اکثریت سے منتخب کرتے ہیں ۔ اس کے فرائض اور اختیارات دستور میں درج ہیں ۔ا میر کو مجلس شوریٰ دو تہائی اکثریت سے معزول کر سکتی ہے ۔ جماعت کی پالیسی اور سارے اہم فیصلے مجلس شوریٰ طے کرتی ہے ۔ جماعت کی دعوت اس کے امیر کی طرف نہیں ، اس کے نصب العین اور کلیتہً اقامت دین کی طرف ہے۔ جماعت میں داخلہ اور اس سے اخراج کی شرائط واضح طور پر دستور میں ثبت ہیں ۔
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے جماعت اسلامی سے استعفیٰ ماچھی گوٹھ میں مولانا مودودی صاحب اور جماعت سے اختلاف کرنے والے لوگوں سے اتفاق کرتے ہوئے نہیں دیا بلکہ انھوں نے ان لوگوں کے خلاف مولانا مودودی صاحب کا ساتھ دیا اور استعفیٰ انھوں نے ماچھی گوٹھ کے ایک سال بعد جنوری ۱۹۵۸ء میں جائزہ کمیٹی کے چار ارکان کے خلاف مولانا مودودی صاحب کے تادیبی ایکشن سے اختلاف کرتے ہوئے دیا تھا۔ جماعت کے کسی دوسرے رکن نے ان کے اس اقدام میں ان کا ساتھ نہیں دیا حتیٰ کہ ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی ان کی تائید نہیں کی ۔ وہ اپنے آخری سانس تک جماعت کی رکن اور اس کی کارکن رہیں ۔
رہی یہ بات کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی ماچھی گوٹھ والی تقریر کو مرتب کر کے شائع نہیں کیا گیا تو اس بارے میں واضح ہو کہ ماچھی گوٹھ کی تقاریر ڈیڑھ دو گھنٹے سے چھ چھ سات سات گھنٹوں کی تھیں ۔ اس زمانے میں نہ ٹیپ ریکارڈر تھے اور نہ ہمارے پاس کوئی شارٹ ہینڈ نویس تھا۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کی تقریر جو ’’جماعت اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل‘‘ کے نام سے شائع شدہ موجودہ ہے ، اس کے سوا کوئی اور تقریر شائع نہیں ہوئی ۔ نہ جماعت کی طرف سے قلم بند کی جا سکی اور نہ شائع ہوئی ۔ مولانا مودودی صاحب کی یہ تقریر ان کی اپنی مرتب کردہ ہے ، کسی اور نے اسے مرتب نہیں کیا ۔ اگر مولانا اصلاحی صاحب اپنی تقریر قلم بند فرما دیتے تو اسے بھی شائع کیا جا سکتا تھا۔
رہی مولانا اصلاحی صاحب سے آپ کی منسوب کردہ یہ بات کہ مولانا مودودی صاحب شوریٰ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے تو اس بات کی گواہی تو مجلس شوری کا ہر رکن دے گا کہ مولانا مودودی صاحب کا تو یہ مستقل طریقہ تھا کہ وہ بعض اوقات کئی روز تک اس لیے بحث چلاتے کہ سب یا مجلس شوریٰ کی بڑی اکثریت ایک نقطۂ نظر پر متفق ہو جائے ۔ مولانا مودودی صاحب ہمیشہ مجلس شوریٰ میں اتفاق رائے (Consensus) سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
آپ نے اپنے اس مضمون میں یہ بھی فرمایا کہ ’’قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی صاحب کی سوچ میں بنیادی تبدیلی پیدا ہوئی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ کی ذمہ داری پاکستان بنانا تھا۔ اس کو چلانے کی اہلیت اس کے پاس نہیں ہے اور ایک اسلامی ریاست کو چلانے کے لیے مطلوبہ صفات کے حامل افراد جماعت اسلامی کے پاس ہیں ۔ لہٰذا اب اقتدار جماعت کو ملنا چاہیے ۔ پاکستان کے عوام دل و جان سے اسلام کے نفاذ کے خواہش مند ہیں ۔ لہٰذا جماعت کے برسراقتدار میں آنے میں اب کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ اسی لیے جماعت نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا بلکہ جماعت کے لوگوں نے آپس میں وزارتیں تقسیم کرنے کے منصوبے بھی بنانے شروع کر دیے ۔ محترم خالد مسعود صاحب ! یہ سب باتیں سراسر القاء شیطانی ہیں ۔ ایسی کوئی بات نہ کبھی مولانا مودودی صاحب کے دل و دماغ میں آئی اور نہ ان کے کسی ذی ہوش ساتھی کے دل و دماغ میں آئی۔ فروری ، مارچ ۱۹۴۷ء میں جب انڈین نیشنل کانگرس کی متحدہ قومیت اور مسلم لیگ کی مسلم قومیت کے مابین ٹکراؤ کے نتیجے میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی صورت واضح ہو کر سامنے آ گئی تو جماعت اسلامی نے ۱۶، ۱۷ اپریل ۱۹۴۷ء کو مغربی اور وسط ہند میں اپنی شاخوں کا اجتماع عام ٹونک میں اور ۲۶ ، ۲۷ اپریل ۱۹۴۷ء کو جنوبی ہند میں اپنی شاخوں کو اجتماع عام مدارس میں منعقد کر کے تقسیم ہند کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو مولانا مودودی صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ تقسیم کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو کن حالات سے سابقہ پیش آنے والا ہے اور یہ بھی وضاحت سے بتایا کہ اپنے اور اپنے دین کے تحفظ و بقا اور استحکام کے لیے انھیں کیا کیا اور کس طرح کرنا چاہیے (ملاحظہ ہو تحریک آزادی ہند اور مسلمان حصہ دوم صفحہ ۲۶۱ تا ۲۸۷) اور شمالی ہند (پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان) میں قائم جماعتوں کے ارکان کا اجتماع عام ۹ مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام میں پٹھانکوٹ میں منعقد کر کے انھیں بتایا کہ جماعت اسلامی کو پاکستانی علاقوں میں کیا کام کرنا ہے۔ اس بارے میں مولانا مودودی صاحب نے مسلمانوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا :
’’مسلمانوں سے میں صاف صاف کہتا ہوں کہ موجودہ زمانے کی بے دین قومی جمہوریت (سیکولر نیشنل ڈیموکریسی) تمھارے دین و ایمان کے قطعاً خلاف ہے ۔ تم اگر اس کے آگے سر تسلیم خم کرو گے تو قرآن سے پیٹھ پھیرو گے ۔ اس کے قیام و بقا میں حصہ لو گے تو اپنے رسول سے غداری کرو گے اور اس کا جھنڈا اٹھانے کے لیے اٹھو گے تو اپنے خدا کے خلاف علم بغاوت بلند کرو گے ۔ جس اسلام کے نام پر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو اس کی روح اس ناپاک نظام کی روح ، اس کے بنیادی اصول، اس کے بنیادی اصولوں سے اور اس کا ہر جز اس کے ہر جز سے برسرجنگ ہے ۔ اسلام اور یہ نظام ایک دوسرے سے کہیں بھی مصالحت نہیں کرتے ۔ جہاں یہ نظام برسراقتدار ہو گا وہاں اسلام نقش برآب رہے گا اور جہاں اسلام برسراقتدار ہو گا وہاں اس نظام کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی ۔ تم اگر واقعی اسی اسلام پر ایمان رکھتے ہو جسے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ جہاں بھی تم ہو اس قوم پرستانہ لادین جمہوریت کی مزاحمت کرو اور اس کے مقابلے میں خداپرستانہ انسانی خلافت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرو۔ خصوصیت کے ساتھ جہاں تم بحیثیت قوم برسراقتدار ہو وہاں تو تمھارے اپنے ہاتھوں سے اسلام کے اصلی نظام کے بجائے کافرانہ نظام بنے اور چلے تو حیف ہے تمھاری اس جھوٹی مسلمانی پر ۔ رہے غیر مسلم حضرات (یاد رہے کہ جماعت اسلامی اپنے اجتماعات عام میں ہندوؤں ، سکھوں او ر عیسائیوں کو بھی شرکت کی دعوت دیتی تھی تاکہ وہ اسلام کی باتیں سنیں اور جماعت کی دعوت کو سمجھیں ۔ چنانچہ اس اجتماع میں بھی ہندو مسلم کشیدگی کے باوجود ہندوؤں اور سکھوں کی کافی تعداد موجود تھی) تو ان سے میری خیر خواہانہ گزارش ہے کہ براہ کرم اصول کے معاملے میں ان تعصبات کے قفل اپنے دلوں پر نہ چڑھایے جو پچھلی تاریخ اور آج کی قومی کشمکش کی وجہ سے آپ کے اور ہمارے درمیان پیدا ہو گئے ہیں ۔ اصول کسی قوم کی آبائی جائیداد نہیں ہوتے ، نہ ان پر کسی قومیت کا ٹھپہ لگا ہو ا ہوتا ہے ۔ وہ اگر صحیح اور مفید ہیں تو سب انسانوں کے لیے صحیح اور مفید ہیں اور اگر غلط ہیں تو سب ہی کے لیے غلط ہیں ۔ آپ صحیح اصول اختیار کریں گے تو اپنا بھلا کریں گے۔ کسی پر کوئی احسان نہیں کریں گے ۔ غلط اصولوں کی پیروی کریں گے تو اپنا نقصان کریں گے کسی کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ ‘‘
تقسیم کے بعد پاکستان میں جماعت کے پروگرام کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی صاحب نے فرمایا کہ ’’اب یہ بات تقریباً طے ہے کہ ملک تقسیم ہو جائے ۔ ایک حصہ مسلمان اکثریت کے سپرد کیا جائے اور دوسرا حصہ غیر مسلم اکثریت کے زیر اثر ہو گا ۔ پہلے حصے میں ہم کوشش کریں گے کہ رائے عامہ کو ہموار کر کے اس دستور و قانون پر ریاست کی بنیاد رکھیں جسے ہم مسلمان خدائی دستور و قانون کہتے ہیں ـ غیر مسلم حضرات وہاں ہماری مخالفت کرنے کے بجائے ہمیں وہاں کام کرنے کے مواقع دیں اور دیکھیں کہ ایک بے دین قومی جمہوریت کے مقابلے میں خدا پرست جمہوری خلافت جو محمد کی لائی ہوئی ہدایت پر قائم ہو گی کہاں تک باشندگان پاکستان کے لیے اور کہاں تک تمام دنیا کے لیے رحمت و برکت ثابت ہوتی ہے۔ ‘‘
چنانچہ پاکستان آ کر اپنی ساری قوت اور وسائل جماعت اسلامی نے یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کے لیے وقف کر دی ۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں اسلامی نظام کے قیام اور اس سلسلے میں قدم اول کے طور پر قرار داد مقاصد کے لیے ملک گیر اور مارچ ۱۹۴۹ء میں قرار داد مقاصد پاس ہو جانے کے بعد اس کے مطابق اسلامی دستور کی تدوین کے لیے پے در پے مہمات برپا کیں جن کے نتیجے میں ۱۹۵۴ء کا دستور اس کے خاتمہ کے بعد ۱۹۵۶ء کا دستور ، اس کے مارشل لاء کی نذر ہو جانے کے بعد جنرل ایوب کے آمرانہ دستور کو پارلیمانی جمہوریہ بنوانے کے لیے اس کی منسوخی کے بعد ۱۹۷۳ء کا دستور بنوایا اور آخر کار اب ۱۹۸۵ء کے اسلامی جموریہ پاکستان کے دستور کی صورت میں ملک کا دستور ہے ۔ انتخابات میں حصہ بھی اسی جدوجہد کا حصہ رہا اس لیے کہ انتخابی جدوجہد رائے عامہ کو ہموار کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے ۔ اس کے دوران عوام ہر ایک کی بات کو توجہ سے سننے کے موڈ میں ہوتے ہیں ـ ۔ مولانا مودودی صاحب جیسا حکیم و مدبر رہنما تو درکنار جماعت اسلامی کا کوئی عام کارکن بھی کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوا کہ پاکستان کی حکومت اور اقتدار جماعت کی جھولی میں گرنے والے ہیں ۔ جماعت اسلامی انتخابات اور انتخابی جدوجہد کو اپنی بات عوام تک پہنچانے اور سمجھانے کا موسم بہار سمجھتی ہے اور اسمبلیوں میں نشستوں کو بھی اسی کام کے لیے استعمال کرتی ہے ۔ اپنے پیش نظر نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کا مستقل طریقہ کار اس کے دستور کی دفعہ ۵ ملاحظہ فرما لیجیے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۰۰-۱۰۴)
امین احسن کا مولانا مودودی سے جو اختلاف تھا،اس کو دوسری رائے رکھنے والے ارکان جماعت نے کس طرح لیا ، اس کا اندازہ اس اقتباس سے بھی ہوتاہے ۔جماعت اسلامی کے رکن قاضی رحمت اللہ ’’تذکرۂ مودودی‘‘ میں ’’تاثرات‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
’’جس زمانہ میں مولانا امین احسن اصلاحی گروپ کی وجہ سے جماعت کے اندر سخت قسم کا خلفشار برپا تھا اور مولانا کی ہدایت کے خلاف جائزہ کمیٹی کے ارکان نے مرکزی شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ جماعت کی اکثریت موجودہ پالیسی سے غیر مطمئن ہے ، مولانا مودودی نے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس وقت تحریک اسلامی کے بہی خواہ سخت اضطراب اور پریشانی کے عالم میں تھے ۔ مولانا کے امارت سے مستعفی ہو جانے کے بعد حالات اور سنگین صورت اختیار کر گئے تھے ۔ چنانچہ ایک رفیق نے سخت پریشانی کے عالم میں مولانا مغفور سے کہا کہ تاریخ اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سربراہ حکومت یا جماعت کے امیر نے محض چند افراد کی غوغا آرائی پراپنے منصب سے استعفا دے دیا ہو ۔ حتیٰ کہ حضرت عثمان ؓ نے شہادت تو قبول کر لی مگر خلافت سے مستعفی نہ ہوئے ! مولانا نے مسکراتے ہوئے برجستہ یہ فقرہ کہا : ’’اچھا تو آپ مجھے شہید کروانا چاہتے ہیں ؟‘‘
ماچھی گوٹھ کے پانچ روزہ اجتماع میں جماعتی پالیسی پر کھلے عام بحث کے بعد جب ارکان کو دوبارہ اپنی پسند کا امیر منتخب کرنے کا موقع دیا گیا تو مولانا کو ۹۸ فی صد ووٹ ملے ۔ صر ف۱۵ افراد نے متفرق حضرات کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کیا ۔ ارکان نے ایک زبردست اضطراب اور ذہنی کوفت سے نجات حاصل کی ۔ سیالکوٹ کے شیخ محمد فاضل صاحب مجھے ساتھ لے کر مولانا محترم کے پاس پہنچے اور بے تکلفی سے کہا کہ مولانا ہم نے آپ کو سو فی صد ووٹ دے کر کامیاب بنایا ہے ۔ اب لائیے ہمارا حق تو دیجیے ۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے فرمایا :
’’شیخ صاحب آپ لیٹ ہو گئے ۔ ہمارے ہاں تو ووٹر کا حق صرف اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر لیتا ہے ۔ اس کے بعد تو ووٹر کو کوئی نہیں پوچھتا ، خیر آپ اپنا مقصد بتائیں ۔‘‘
شیخ صاحب نے کہا مولانا ایک بہت بڑی کوفت سے ہم سب کو نجات ملی ہے ، میری درخواست ہے کہ آپ ایک دن کے لیے سیالکوٹ تشریف لائیں ، صرف پکنک کا پروگرام ہو گا ، کوئی جلسہ وغیرہ نہیں رکھا جائے گا ۔ مولانا نے ہاں کر دی ۔ ہم نے سیالکوٹ پہنچ کر مولانا محترم کو مقررہ تاریخ سے آگاہ کر دیا۔ پکنک کے موقع پر ہم ہیڈ مرالہ گئے ۔ بہت پرلطف موسم تھا اور مولانا کی ہمراہی میں یہ لطف دوبالا ہو گیا۔‘‘ (۴۷۲-۴۷۳)
۴؎ ۱۹۵۱ء میں جماعت نے پنجاب کے انتخابات میں حصہ لیا ۔ امین احسن نے نظم جماعت کی پیروی کی۔ انھیں ایک حلقے سے بطور امید وار کھڑا کیا گیا ۔
۵؎ اس رپورٹ کے بعض امور کو مولانامودودی نے اپنے خلاف چارج شیٹ قرار دیا ۔ انھیں احساس ہوا کہ کمیٹی کے بعض ارکان نے ان کے خلاف سازش کی ہے۔چنانچہ انھوں نے شوریٰ کی قرارداد پر برہمی کا اظہار کیا اور کمیٹی کے ارکان پر جتھہ بندی اوربلاک سازی کا الزام لگا کر ان سے استعفے طلب کر لیے۔ امین احسن کو یہ معلوم ہوا تو انھوں نے امیر جماعت کے اقدام کو دینی ، اخلاقی ، دستور ی ، غرض یہ کہ ہر لحاظ سے غلط قرار دیا۔
۶؎ ۱۹۵۷ء میں ضلع رحیم یار خان کے ایک مقام ماچھی گوٹھ پر یہ اجتماع منعقد ہوا اوردستورمیں یہ ترمیمات کر کے امیر جماعت کوبہت طاقت ور اور مجلس شوریٰ کو کمزور کردیا گیا۔اس موقع پر امین احسن نے یہ ترمیمات رکوانے کی کو شش میں ایک مفصل تقریر کی ، مگر جماعت نے ان کے اس نہایت اہم خطاب کو محفوظ نہیں کیا۔اس صورت حال میں امین احسن نے جماعت سے استعفیٰ دینے کا ارادہ کرلیا۔ جماعت کے خیر خواہوں نے مصالحت کی بہت کوششیں کیں ، شام کے سفیرعمربہاء الامیری نے بھی ان میں حصہ لیا،حتیٰ کہ ایک پنچائیت بھی قائم ہوئی،مگر سب کچھ بے نتیجہ رہا ۔ آخر کار جنوری ۱۹۵۸ء میں امین احسن جماعت سے حتمی طور پر الگ ہو گئے ۔