باب ۴
جب ’’الاصلاح‘‘ شائع ہورہا تھا، اس وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کانگریس پر سخت تنقید کررہے تھے اور متحدہ قومیت کے تصور کو غلط قرار دے رہے تھے ۔ ڈاکٹر منصور الحمید نے امین احسن کا انٹرویو لیا۔اس میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے کہا:
’’جب جماعت اسلامی قائم ہوئی تو واقعہ یہ ہے کہ میں ایک حادثے کے طور پر اس میں شامل ہو گیا ۔ یہ راز بہرحال مولانا مودودی مرحوم جانتے تھے اور اب بھی بعض چوٹی کے لوگ اس سے آگاہ ہیں ۔ اس حادثے کی تفصیل یہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب مرحوم ان دنوں بہتی گنگا میں نہا رہے تھے ۔ یعنی وہ متحدہ قومیت کے خلاف ، جسے مسلم لیگ نے ایک ایسی تحریک بنا دیا تھا کہ اس کی مخالفت کا کوئی امکان ہی نہیں تھا ، کانگریسی علما پر سخت تنقید کر رہے تھے ۔ چونکہ مودودی صاحب کے قلم میں زور بھی تھا اس لیے جب انھوں نے اس مسئلہ کو زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھا تو مجاہد و غازی بن گئے ۔ ‘‘ (سہ تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۴۶)
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی مسلم لیگ کے بارے میں یہ بھی لکھتے تھے کہ وہ ’کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا‘ (اللہ کے بندو، سب بھائی بھائی بن جاؤ) کی داعی ہے ۔ امین احسن نے اس پر لکھاکہ جہاں تک متحد ہ قومیت کے غلط ہونے کا تعلق ہے تو اس کے غلط ہونے میں کسی شبہ کی گنجایش نہیں ہے ،لیکن مسلم لیگ کی دعوت یہ نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ جو د عوت دے رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔‘‘اس جماعت کو لوگوں کے دین ، ایمان،عقائد ، اخلاق اور کردار سے کوئی بحث نہیں ۔اس کی دعوت ’کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا‘ کی اسلامی دعوت نہیں ہے، حالاں کہ کرنے کا اصل کام یہ ہے اور انبیا و صلحا کی دعوت ہمیشہ یہی رہی ہے۔
لہٰذامولانا مودودی اگر اسلام کے لیے بیداری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں لوگوں کو اسلام پر مجتمع ہونے کی دعوت دینی چاہیے۔امین احسن نے اپنے انٹر ویو میں کہا:
’’میں نے مولانا مودودی صاحب کو اس پر غور کرنے کی دعوت دی اور یہ لکھا کہ اگر دعوت دینی ہے تو اسلام کی دعوت دیجیے ، مسلم لیگ کی دعوت کو ’کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا‘ کی دعوت سمجھنا صریح غلطی ہے ۔ مولانا مودودی صاحب نے میرے موقف کو صحیح تسلیم کر لیا اور میرے اور ان کے درمیان صلح ہو گئی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۴۶)
اس کے بعد مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مدرستہ الاصلاح میں امین احسن سے ملاقات کی اورسوال کیا :
’’ اگر ’کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا‘ کی بنیاد پرکوئی جماعت قائم کی جائے تو کیا آپ اس میں شمولیت اختیار کریں گے ؟‘‘
امین احسن نے کہا :
’’مدرسہ میں میر ی ذمہ داریا ں بے حد اہم ہیں اور مجھے مولانافراہی کے ناتمام کاموں کی تکمیل کرنی ہے ،لہٰذا میں کسی دوسرے کام میں شریک تو نہیں ہوسکتا، البتہ ایسے کام کو مبارک سمجھتا ہوں ۔ یہ کام ہونا چاہیے ۔ آپ حضرات یہ کام کیجیے۔ ‘‘
منظور نعمانی نے اصرار کیا:
’’مولانا مودودی سے ایک ملاقات ضرور کریں ،کیو نکہ وہ ایک جماعت کی داغ بیل ڈال رہے ہیں ۔‘‘
امین احسن راضی نہ ہوئے ۔مولانامنظو ر نعمانی کا اصرار دباؤ کی صورت اختیار کرگیا۔ با لآخر وہ امین احسن کو لاہورلانے میں کامیاب ہوگئے۔ ملاقات ہوئی۔ بعدمیں مولانا نعمانی نے پوچھا:
’’آپ نے مولانا مودودی کو کیسا پایا ؟‘‘
امین احسن خاموش رہے ـــــ مولانا نعمانی نے تیسری بار پوچھاتو بولے:
’دع شأنہ ، یامولانا، لا فرق بینہ و بین پرویز‘ (مولانا ان کا قصہ چھوڑئیے۔ ان کے اور پرویز کے درمیان کوئی فرق نہیں )۔
اپنے انٹرویو میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے امین احسن نے کہا:
’’یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اس زمانے میں پرویز کے مضامیں مفید نکلتے تھے اور وہ ’’ترجمان القرآن‘‘ اور ’’الاصلاح‘‘ دونوں میں شائع ہوتے تھے ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ وہ بس پرویز کی طرح اچھے مضمون نگار ہیں ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اس پر مولانا منظور نعمانی صاحب کہنے لگے ۔ دیکھو! اب اسماعیل شہید اور سید احمد شہید جیسے لوگ نہیں ملیں گے ۔ اب تو کام چلاؤ آدمی چاہیے ۔ اس لیے اگر کوئی شخص اس کام کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو اس کا ساتھ دینا چاہیے ۔ میں نے کہا آپ حضرات ساتھ دیجیے اور کام بھی کیجیے ۔ میں کب کہتا ہوں کہ اسماعیل شہید اور سید صاحب جیسے لوگ نہ ملیں تو کام ہی نہ ہو ۔ میں نے کہا میں اس مسئلہ پر غور کروں گا لیکن آپ حضرات یہ کام کریں ، میں اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالوں گا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۴۶-۴۷)
امین احسن مولانا مودودی کی تحریک سے متاثر نہ ہوئے ،اس بات کو جناب ضیاء الدین اصلاحی نے بھی موضوع بنایا ہے ۔ لکھتے ہیں :
’’جس زمانے میں وہ مدرستہ الاصلاح سرائے میر میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور رہ کر مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کی ترتیب و اشاعت اور اپنی بعض کتابوں کی تحریر و تسوید میں مشغول تھے اسی زمانے میں ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے دعوتی و انقلابی مضامین اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی موثر اور دل نشیں متکلمانہ تحریروں کا غلغلہ بلند ہوا جن سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے علاوہ وہ علما بھی متاثر ہوئے جو وقت کے تقاضوں اور زمانے کے حالات سے کسی قدر باخبر تھے ۔ لیکن مولانا امین احسن نے شروع میں ان کا کوئی اثر قبول نہیں کیا کیونکہ ان پر اس وقت تک اپنے استاد مولانا عبد الرحمن نگرامی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر اثر ترک موالات، تحریک خلافت، مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی خیالات کا اثر تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود جس فکر کے حامل تھے اس کے اپنے خاص تقاضے اور مطالبے تھے ۔ اس کے ساتھ دوسرے افکار اور تحریکوں کا میل نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے غالباً وہ اس سے قریب نہیں ہو سکے ۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ پر ’’الاصلاح‘‘ کے کئی نمبروں میں تنقید لکھی ۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ئ، ۸-۹)
سید مودودی نے۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ جماعت اسلامی کا مرکزی دفتر دارالاسلام پٹھان کو ٹ (گورداس پور )میں قائم ہوا ۔امین احسن اس کے تاسیسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے ، مگرجب تاسیس میں شامل ارکان کے نام شائع ہوئے تو ان میں امین احسن کا نام بھی شامل تھا۔ یہ نام اصل میں مولانا منظور نعمانی نے اپنے اعتمادپر شائع کرادیا تھا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے امین احسن کو بلایااو رپوچھا کہ تم گئے نہیں تو تمھار ا نام کیسے آگیا؟امین احسن نے کہا :دراصل میں مولانا منظور نعمانی صاحب کی مروت میں آگیا۔ انھوں نے میر ے اعتماد پر نام ہی دے دیا ہے۔ اب تو یہ ٹھیک نہیں کہ میں اس کی تردید کروں ۔سید صاحب نے کہا:میں تردید کیے دیتا ہوں ۔ امین احسن نے اسے مروت کے خلاف سمجھااوران سے کہا کہ آپ کاہے کو تردید کرتے ہیں ۔کوئی دینی کام ہی ہو گا، کوئی غیر دینی کام تونہیں ہوگا ۔ اس طرح امین احسن نے منظور نعمانی کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائی۔
’’پٹھان کو ٹ کے ایک مخیر شخص چو د ھری نیاز علی ریٹائرڈ ایس ڈی او انہا ر نے اپنی ساٹھ ستر ایکڑ زمین خدمت دین کے لیے وقف کی، جس میں مسجد، عمارات اور دارالا قامہ بنوایا اور پروگرام بنایا کہ یہاں کچھ علما جمع ہو کر دین کا کام کریں ۔ نیاز صاحب نے علامہ اقبال سے مشورہ کیا توعلامہ نے سید مودودی کانام لیا کہ وہ اس کام کے لیے نہایت موزوں ہیں ۔ نیازصاحب اورعلامہ صاحب نے اس ضمن میں سید مودودی سے مراسلت کی۔ چنانچہ وہ ستمبر ۱۹۳۷ء کوحیدر آباد ،دکن سے پہلے پٹھان کوٹ اورو ہاں سے علامہ کے پاس لاہور آئے۔ان کے ساتھ بات چیت کی ،جس کے نتیجے میں انھوں نے پنجاب میں منتقل ہونے کافیصلہ کر لیا ۔ مارچ۱۹۳۸ء میں وہ پٹھان کوٹ آگئے۔ مگر شومئی قسمت اگلے ہی ماہ علامہ اقبال انتقال کرگئے۔پٹھان کوٹ کے قریب قصبۂ جمال کی یہ بستی، جسے اس کے بانی نے دارالاسلام کے نام سے آباد کیاتھا،نہر کے کنارے درختوں میں گھری ہوئی بالکل دیہاتی منظر پیش کرتی تھی۔ یہاں شہری سہولتوں کا نشان تک نہ تھا۔نہ بجلی نہ ذرائع آمدورفت۔ تاہم سید مودودی کے رسالے’’ ترجمان القرآن ‘‘میں اس کی تفصیلات اور لا ئحۂ عمل پڑھ کر بہت سے لوگوں نے یہاں آنے کی تمنا کی تھی،’’ترجمان القرآن‘‘ میں سید مودودی نے ایسے خطوں کے جواب میں جو کچھ لکھا، وہ ایک شاعر کے بقول یہ تھا:
یہ قدم قدم قیامت یہ سوادِ کوے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
لہٰذاپھر اس صبر آزما پروگرام پر صرف انھی لوگوں نے لبیک کہا جو محض گفتا ر کے غازی نہ تھے۔ دارالاسلام میں جب سید مودودی نے مسلم لیگ سے اختلاف شروع کیا توچو دھری نیازعلی نے اسے پسند نہ کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ سید مودودی فروری ۱۹۴۹ء میں وہاں سے لاہور آگئے اور اسلامیہ پارک میں مقیم ہو گئے۔
اپریل ۱۹۴۱ء کے’’ ترجمان القرآن‘‘ میں سید مودودی نے ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت ‘‘کے نام سے ایک مقالہ لکھا ،جس میں کہا کہ دنیا کو آیند ہ دور ظلمت سے بچانے اور اسلام کی نعمت سے بہرہ ور کرنے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ یہاں صحیح نظریہ موجود ہے، بلکہ صحیح نظریے کے ساتھ ایک صالح جماعت کی بھی ضرورت ہے ۔ اس مقالے میں انھوں نے برملا لکھا کہ ایسی جماعت کے افراد کو ایمانی اعتبار سے محکم او ر غیر متزلز ل اور عمل کے لحاظ سے قابل رشک اور نہایت بلند ہونا چاہیے۔اس لیے کہ انھیں موجودہ فاسد نظام تہذیب و تمدن اورسیاست کے خلاف عملاً بغاوت کرنی ہوگی اور اس راستے میں مالی ایثار سے لے کر قید و بند، بلکہ پھانسی کے پھندے کی توقع رکھنی ہوگی۔ اس اپیل کے نتیجے میں ۷۵ افراد کی مختصر تعداداسلامیہ پارک (چوبرجی) لاہور میں جمع ہوئی۔ ۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کوجماعت اسلامی کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ سید مودودی اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔کچھ عرصے کے بعد چو دھری نیاز نے اصرار کیا کہ مولانامودودی اوران کے ساتھی دوبارہ دارالاسلام چلے آئیں ۔چنانچہ ۱۵/ جون ۱۹۴۲ء کو جماعت اسلامی کا یہ مختصر قافلہ پٹھان کوٹ میں منتقل ہوگیا اورقیام پاکستان تک وہیں مقیم رہا۔پاکستان بننے کے بعد اس قافلے نے ہجرت کی اور لاہور آگئے ۔ شروع میں ایک کھلے میدان میں خیموں میں بھی رہے۔ پھر جماعت اسلامی نے اچھرہ کے ذیل دار پارک کی کوٹھی کرائے پر لی ، وہی دفتر بنا اور سید مودودی کی اقامت گاہ بھی۔‘‘ (قومی ڈائجسٹ، جنوری ۱۹۸۰ئ، ۴۳-۴۶)
اس کے ساتھ ہی جماعت کا نظام وسیع ہونے لگا۔ سید مودودی کے کاموں میں اضافہ ہو گیا۔ انھیں معاونت کی ضرورت محسوس ہوئی ۔نظر انتخاب امین احسن پر پڑی۔تقاضا شروع کردیا کہ امین احسن دارالاسلام منتقل ہو جائیں ۔ ان کا پٹھان کوٹ میں مستقل قیام ضروری ہے۔ مرکز کی تمام ذمہ داریاں تنہا میرے لیے سنبھالنا مشکل ہورہا ہے ۔امین احسن نے معذرت کی کہ میر ے لیے مدرسہ چھوڑنے کا کوئی ا مکان نہیں ہے،مجھے مولانا فراہی کے کاموں کو انجام دینا ہے، پچاس ہزار روپے صرف اس مقصد کے لیے میرے پاس جمع ہیں اور اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے، مگر سید مودودی اور مولانامنظور نعمانی کی طرف سے تقاضے، بلکہ دباؤکا سلسلہ جاری رہا ، اور اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ سید مودودی نے نہایت مدلل خطوط لکھنے شروع کر دیے ۔اد ھر مدرسہ میں امین احسن کے لیے ایک مشکل پیداہو چکی تھی ۔وہا ں انھیں بعض لوگوں کی رقابت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔امین احسن بڑی پیچیدہ صورت حال کا شکار ہوگئے ۔ایک طرف مدرسہ کی خدمت کا جذبہ تھا ، دوسر ی طرف رقابت کے مسائل اورتیسری طرف جماعت اسلامی کا شدید تقاضا۔امین احسن نے اس مسئلے کے حل کے لیے استخارہ کے ساتھ ساتھ دیوان حافظ سے فال نکالی ۔فال سے یہ شعر نکلا:
معرفت نیست دریں قوم خدایا سببی
تا برم گوہر خود را بہ خریدار دگر۳؎
۱۹۴۱ء میں امین احسن نے سید مودودی کی حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت پر لبیک کہا اور مدرستہ الاصلاح، دائرۂ حمیدیہ اور استاذ کے مسودات اور علمی کاموں کے لیے اپنے نام اس زمانے میں پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم چھوڑ کر دار الاسلام میں منتقل ہو گئے ۔اور یوں وہ جماعت میں کسی عقیدت یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ حادثے کے طورپر شامل ہوئے۔اس ضمن میں امین احسن نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا:
’’مولانامودودی مرحوم اور میرے درمیان ایک قدر مشترک بھی موجود تھی ۔ اور وہ یہ کہ تقلید و تقید سے میں بھی آزاد تھا اور تقلید اور تقید سے وہ بھی آزاد تھے ۔بعد میں جماعتی مصالح کے تحت انھوں نے نجانے کتنی بیڑیاں پہن لیں اور ان سب مسائل کے ایک ایک کر کے قائل ہو گئے جن کا ہم پٹھان کوٹ میں مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ لیکن اس زمانے میں میرے اور ان کے سوچنے کے انداز میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ دینی معاملات پر ہم دونوں ایک ہی طرز پر سوچتے تھے یعنی قرآن مجید پر اس طرح غور کیا جائے ، فقہ پر اس طرح سے غور ہونا چاہیے، علما کو اس راستہ پر لایا جائے اور لوگوں کو یوں تبدیل کیا جائے۔ ان تمام مسائل میں میرے اور ان کے سوچنے کا انداز تقریباً ایک ہی تھا۔تاہم اس قدرِ مشترک کے علاوہ میرے اور ان کے درمیان ایک نہایت گہرا ذوق اور فکر کا اختلاف بھی تھا۔ مولانا حمید الدین کی فکر سے نہ ان کو دلچسپی تھی نہ یہ کام ان کے بس کا تھا۔ تاہم یہ اختلاف ایسا نہیں تھا کہ میں ان سے تعاون نہ کر سکوں ۔ چنانچہ جماعت سے میرا جو تعلق قائم ہو گیا تھا میں نے اسے قائم رکھنا چاہا الا آں کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ میرے لیے اس تعلق کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ئ، ۴۷-۴۸)
’’بہرحال امین احسن نائب امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داری ادا کرنے لگے ۔اس کے علاوہ مرکزی شوریٰ میں ہمیشہ شامل رہے اور سید مودودی کی غیر حاضری میں امیر جماعت کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے ۔ضیاء الدین صاحب اصلاحی کہتے ہیں کہ ’’ترجمان القرآن‘‘پر نام تو مولانا مودودی کاچھپتا تھا،لیکن عملاً وہی اس کے مدیر ہو گئے تھے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۹)
ا س کے باوجود قرآن مجید پر غورو فکر اب بھی امین احسن کی تما م سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ خاص اوقات اس کے لیے وقف تھے ۔جماعتی معاملات میں بھی رہنمائی قرآن سے اخذ کرتے ۔’’دعوت دین اور اس کا طریق کار ‘‘کی تصنیف اس کی ایک مثال ہے ۔
جماعت کے قیام کے کچھ عرصہ بعد مولانا محمد منظو ر نعمانی اورمولانا ابوالحسن علی ندوی کوامیر جماعت کی شخصیت سے کچھ شکایتیں پیدا ہو گئیں ۔ان کے نزدیک جماعت کے مقاصد کے لحاظ سے امیر جماعت کو نہایت عبادت گزار اورمتقی ہونا چاہیے تاکہ اس کی ذات سے سلف صالحین کی یاد تازہ ہو جائے ،مگر مولانا مودودی ان کے معیار تقویٰ پر پورے نہیں اترتے تھے، اس لیے وہ جماعت سے الگ ہو گئے ۔اس معاملے میں انھوں نے امین احسن کو بھی اعتماد میں لیا تھا ،مگروہ ان کی توقع کے برخلاف جماعت ہی میں رہے ۔امین احسن نے انھیں کہا کہ آپ حضرات تقویٰ اور عزیمت کے جس مقام پر ہیں ،آپ کا امیر جماعت کی شخصیت پر اطمینان نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے، لیکن میں تو مولانا مودودی سے بھی گیا گزرا ہوں ، میں اس چیز کو جماعت سے علیحدگی کی بنیاد نہیں بنا سکتا ۔
اسی ضمن میں سلیم کیانی صاحب نے بتایا:
’’جب بعض لوگ معمولی اختلافات کی وجہ سے جماعت سے الگ ہوئے تومولانا اصلاحی نے تبصرہ کیاکہ میں ایسا سودائی نہیں ہوں کہ مودودی کی داڑھی کی لمبائی کے مسئلہ پر اسلام کا مستقبل خطرہ میں ڈال دوں ۔‘‘سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ئ، ۲۴)
مولانا منظور نعمانی، امین احسن کے عزیز دوست تھے ، مگرجب انھوں نے جماعت کے خلاف لکھاتو امین احسن نے اس تعلق کی پروا کیے بغیر ان کے خلاف مورچہ لگا لیا ۔ اسی طرح جب کسی جانب سے بھی جما عت کو ہدف بنا یا جاتا تو امین احسن اس کا بھر پور دفاع کرتے ۔ان کی اس دفاع پر مبنی تحریریں کتابی شکل میں ’’تنقیدات ‘‘ کے نام سے شائع ہو ئیں ۔
۱۹۴۷ء میں پٹھان کوٹ کی تحصیل بھارت میں شامل ہو گئی۔ جماعت اسلامی کے اکابراور مرکزی دفاتر دارالاسلام سے راولپنڈ ی اور پھر لاہور میں منتقل ہو گئے ۔لاہور میں آنے کے بعد شروع شروع میں وہ کھلے میدان میں خیموں میں رہے ۔ پھر جماعت اسلامی نے اچھرہ ذیل دار پارک میں ایک کوٹھی کرایے پر لے لی ۔ یہی کوٹھی جماعت اسلامی کا دفتر اورسید مودودی کی اقامت گاہ بنی ۔
قیام پاکستان کے ساتھ امین احسن نے ایک علمی منصوبے پر کام کیا ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے مقاصد، حقوق ، فرائض اور اوصاف جیسے مسائل پر مضامین لکھے ۔ پہلے یہ مضامین کتابچوں کے شکل میں شائع ہوئے، بعد ازاں ’’اسلامی ریاست‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔پنجاب یونیورسٹی کے ہال میں اسلامی دنیا کے علماکا اسلامک کلو کیم منعقد ہوا ، آپ نے اس میں اسی موضوع پر عربی میں اپنا مقالہ پیش کیا۔
امین احسن کوجماعت اسلامی کے لیڈر کی حیثیت سے ۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۸ء کو پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان کی قیام گاہ راولپنڈی سے گرفتار کر کے پہلے دو ہفتے اٹک جیل میں رکھا گیا اور وہاں سے ۲۲ ؍ اکتوبر کو نیو سنٹرل جیل ملتان میں منتقل کر دیا گیا، جہاں مولانا مودودی مرحوم اور میاں طفیل محمد صاحب بھی قید تھے ۔ جماعت کے یہ تینوں اکابر ۲۸ ؍مئی ۱۹۵۰ء کو اپنی رہائی تک ملتان ہی میں رہے ـ ۔ مولانا مرحوم نے اپنی کتاب ’’دعوت دین‘‘ اسی اسیری کے دوران میں مدون کی ۔ نیز ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ’’پاکستانی عورت دوراہے پر‘‘ کے ابواب تصنیف کیے (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ئ، ۴)۔
نیو سنٹرل جیل ملتا ن سے ۸ ؍دسمبر ۱۹۴۹ء کو اپنے بیٹے ابو صالح اصلاحی مرحوم کے نام خط میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’تم جب بھی مجھ سے ملنے آئے تم نے میری زیر تصنیف کتاب’’اسلامی ریاست‘‘ کا حال ضرور پوچھا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ لوگوں کو اس کی تکمیل کے لیے جلدی ہے۔ میری دلی خواہش بھی یہی تھی کہ کتاب جلد ہی تیار ہو جائے ، لیکن میرے ہاتھ کی تکلیف آج کل اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کام تقریباً رک سا گیا ہے۔ اب میں نے حکومت کو لکھوایا ہے کہ مجھے اردو ٹائپ رائٹر رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اگر ان حضرات نے اجازت دے دی تو خیر ورنہ سارا کام بند سمجھو۔ مکتبہ جماعت والوں کومطلع کردو کہ وہ کتاب کی تکمیل کے لیے جلدی نہ کریں ۔ البتہ کتاب کے جو ابو اب باہر موجود ہیں اگر ان کو شائع کرنا چاہیں تو شائع کر دیں مگر چونکہ وہ کتاب کے متفرق ابواب ہیں اس وجہ سے ان کی یکجا اشاعت مفید نہیں ہوگی بلکہ ان کو الگ الگ ترجمان سائزکے رسالوں کی صورت میں چھاپنا مناسب ہوگا۔
نیزان پرکتاب کے پیش نظر خاکہ کے لحاظ سے نمبر لگا دیے جائیں تاکہ بقیہ ابواب بھی رسائل ہی کی شکل میں چھپ سکیں اور بعد میں لوگ ان نمبروں کے لحاظ سے ان کو کتابی شکل میں ترتیب دے لیں ۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۳۸)
اسی زمانے میں حکومتی سر پرستی میں ایسے ادارے بننے لگے جو عورتوں کی آزادی اور ملک میں ثقافتی تبدیلی کے علم بردار تھے۔امین احسن نے ایسی باتوں کو خلاف شریعت اورمعاشر ے کے لیے تباہ کن سمجھا ۔ چنانچہ لوگوں کو اس کے مضر نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے ’’قرآن میں پردہ کے احکام‘‘، ’’پاکستانی عورت دوراہے پر ‘‘اور’’اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام‘‘ کتابیں لکھیں ۔ اسی طرح غیر اسلامی قانون سازی ہوئی تواس پر دین کی رو شنی میں تنقید کی ۔کراچی کے لا کالج میں لیکچرزکے ایک سلسلے میں اسلامی قانون کے مختلف پہلو ؤں کوواضح کیا ۔ یہ لیکچرز آپ کی کتاب ’’اسلامی قانون کی تدوین ‘‘ میں شامل ہیں ۔
۱۹۵۳ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک میں امین احسن کو ڈیڑھ سا ل کے لیے جیل میں قید کردیا گیا۔ اس دوران میں انھیں جماعتی مصروفیات سے فراغت میسر آئی تو انھوں نے اپنے ۳۰سالہ قرآنی فکر کومجتمع کیا ۔قرآن کی ہر سورت کا مرکزی مضمون متعین کیا ۔سورتوں کے مضامین کے لحاظ سے آیات کو مختلف پیروں میں تقسیم کیا۔گویااس اسیری میں ان کی تفسیر ’’تدبر قرآن ‘‘ پر اساسی کام ہوا۔
جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں :
’’... وہ لوگ جو ’’جماعت اسلامی‘‘ سے تعلق کے زمانے میں ، انھیں سنتے رہے ہیں ، آج بھی ان کی خطابت کو یاد کرتے ہیں ۔ بعض سننے والوں نے بتایا ہے کہ وہ خطابت کیا تھی، معلوم ہوتا تھا کہ دریا میں ہلکا ہلکا تلاطم آ گیا ہے، پہاڑوں میں کوئی چشمہ ابل رہا ہے، کوئی ندی ہے جو فرازِکوہ سے وادیوں میں اتر کر اب میدانوں کی طرف رواں دواں ہے۔ ان کی زبان سے جو لفظ بھی نکلتا، سیدھا دل میں اتر جاتا تھا۔ وہ پیغمبرانہ اذعان کے ساتھ بولتے اور عہد عتیق کے خطیبوں کی یاد تازہ کر دیتے تھے۔ ان کی زبان پر استدلال بولتا اور ایمان نازل ہوتا تھا۔... ایک نامور صحافی نے بتایا کہ ککری گرائونڈ کراچی میں وہ تقریر کر رہے تھے اور میں ان کی یہ تقریر لکھ رہا تھا۔ تقریر کے دوران میں ان کے منہ سے نکلا: ’’اسلام فرماتا ہے۔‘‘ وہ لمحے بھر کو رکے اور پھر یہ کہہ کر کہ اسے غلط نہ سمجھیے، فرمانے کا حق اگر ہے تو صرف اسلام ہی کو ہے، لفظ و معنی کا وہ بحر مواج پیدا کر دیا کہ میں دیکھتا رہا، سنتا رہا اور یہ بھول گیا کہ مجھے یہ سب کچھ لکھنا بھی ہے۔
دین کی دعوت وہ ہمیشہ اسی اذعان اور ایمان کی اسی حرارت کے ساتھ دیتے تھے۔ ‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ئ، ۲۳)
ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’جماعت اسلامی سے وابستہ ہو ئے تواس حلقہ کے سب سے بڑے مقرر وہی تھے ۔ وہ کئی کئی گھنٹوں تک بولتے، مگر تسلسل اور حسن بیان میں فرق نہ آتا ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۱۵)
۱۹۵۱ء میں امین احسن نے جماعت اسلامی کے امیدوار کی حیثیت سے صوبائی انتخابات میں حصہ لیا،مگر اس میں ناکام رہے ۔اس ضمن میں ان کے شاگرد محمود احمد لودھی نے لکھا:
’’اپنی ناکامی کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ مولانا مودودی کی حکمت نے خود انھیں تو انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے باز رکھا لیکن مجھے میری مخالفت اور بے دلی کے باوجود اس میں جھونک دیا۔ انتخابی سیاست اور اس کے مزعومہ ثمرات سے ان کو کوئی خاص دل بستگی نہ تھی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۹۷)
سلیم کیانی صاحب لکھتے ہیں :
’’شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ امین احسن کو سیاست سے طبعی مناسبت نہ تھی۔ جماعت میں انتہائی سرگرم ہونے کے باوجود سیاست نے انھیں مزہ نہ دیا۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ئ، ۲۵)
غامدی صاحب بتاتے ہیں :
’’... ۱۹۵۱ء کے انتخابات میں ’’جماعت اسلامی‘‘ نے انھیں الیکشن لڑنے کے لیے کھڑا کر دیا۔ وہ بتاتے تھے کہ میں نے بہت کہا کہ اس کام کے لیے مجھ سے زیادہ ناموزوں آدمی کسی ماں نے نہیں جنا، لیکن ’’امیرالمومنین‘‘ نہیں مانے۔ طوعاً و کرہاً میں راضی ہوا تو ایک دن مجھ سے کہا گیا: حلقہ میں تقریر بھی کرنا ہوگی۔ میں گیا تو اپنی تقریر کی ابتدا میں نے یہاں سے کی کہ خواتین و حضرات، مجھ پر خدا کی اور اس کے فرشتوں اور اہل ایمان، سب کی لعنت ہو، اگر میں آپ سے ووٹ مانگنے کے لیے آیا ہوں ۔ میں تو آپ کو یہ بتانے کے لیے آیا ہوں کہ ووٹر کی حیثیت سے آپ کے فرائض کیا ہیں ۔ اس کے بعد، ظاہر ہے کہ وہ مجھے اس الیکشن میں کسی تقریر کے لیے بلانے کی حماقت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ئ، ۲۴)
۳؎ ’’ان لوگوں کو پہچان نہیں ہے ۔ الٰہی، مدد کرکہ میں اپنا گوہر دوسرے خریدار کے سامنے پیش کروں ۔‘‘