HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Muhammad Bilal

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

دائرۂ حمیدیہ اور الاصلاح

باب ۳


۱۹۳۵ء میں امین احسن نے فراہی کی غیر مطبوعہ تصانیف کی ترتیب ،تدوین اوراشاعت کے لیے مدرستہ الاصلاح میں ایک ادارہ ’’دائرۂ حمیدیہ‘‘ قائم کیا ۔ (اس کے صدرفراہی کے معالج خاص ڈاکٹر حفیظ اللہ اور نائب صدر جناب ڈپٹی عبد الغنی انصاری انکم ٹیکس کمشنرساکن جیگہاں مقرر ہوئے۔علمی اور انتظامی امور کے لیے کوئی باقاعدہ عملہ نہیں رکھاگیا۔مدرسے کے لوگ ہی اعزازی طورپر ساری خدمات انجام دیتے تھے)(ذکر فراہی ۵۷۴۔ سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ،۱۶ )۔ 

اس کے زیر اہتمام جنوری ۱۹۳۶ء میں ایک اردوماہنامہ ’’الاصلاح ‘‘کا اجر ا ہوا۔فراہی کا کا م عربی زبان میں تھا۔’’الاصلاح ‘‘ میں اس کے اردو تراجم شائع کیے گئے۔مسودات کی ترتیب وتدوین کا کام اختر احسن اصلاحی کرتے اور اس کا ترجمہ اور رسالے کی ادارت امین احسن۔  

اس کے علاوہ اس رسالے میں امین احسن کی اپنی تحقیقات بھی شائع ہوئیں ، جو بعد میں ’’حقیقت شرک‘‘، ’’حقیقت تقویٰ‘‘ اور ’’توضیحات‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئیں ۔ اسی طرح فراہی کے تراجم ’’ مجموعۂ تفاسیر فراہی ‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ 

ڈاکٹر ظفرالاسلام انصاری لکھتے ہیں :

’’مجلہ ’’الاصلاح ‘‘ قرآنیات کے ساتھ مخصوص تھا، علمی اندازو بلند معیار اس کا امتیاز تھا۔ اس کی مدت اشاعت محض چار سال (۱۹۳۶- ۱۹۳۹ئ) تک محدود رہی لیکن اس مختصر مدت میں جو مضامین ، مقالات و تبصرے اس میں شائع ہوئے وہ معیار و مواد کے اعتبار سے دینی و علمی لٹریچر کا ایک قیمتی سرمایہ کہے جا سکتے ہیں ۔ اس کا اندازہ ۱۹۹۱ء میں ادارہ علوم القرآن (سر سید نگر، علی گڑھ) سے شائع شدہ کتاب ’’قرآنی مقالات‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے جو ’’الاصلاح‘‘ کے منتخب قرآنی مقالات کا مجموعہ ہے ۔ مزید برآں مولانا اصلاحی نے دائرۂ حمیدیہ کے تحت مولانا فراہی کی عربی مطبوعات : ’نظام القرآن و تاویل الفرقان بالفرقان‘(۱۳ سورتوں کی تفسیر کا مجموعہ) ،فاتحہ نظام القرآن، الامعان فی اقسام القرآن اور ’الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح‘ کو اردو میں منتقل کر کے اردو داں طبقہ کو قرآنیات کے ایک اہم ذخیرہ سے استفادہ کا موقع فراہم کیا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۱۷)   

’’الاصلاح ‘‘ کی اشاعت چار سا ل بعد۱۹۳۹ء کے آخر میں معطل ہو گئی۔ضیاء الدین اصلاحی اس بارے میں بتاتے ہیں :

’’دائرۂ حمیدیہ کی طرف سے ان کی ادارت میں ایک بلند پایہ علمی ماہنامہ ’’الاصلاح‘‘ بھی جاری ہوا ۔
 مگر ناقدری کی بنا پر یہ چار برس ہی میں بند ہو گیا۔ تاہم اس میں قرآنیات پر ایسے محققانہ مضامین شائع ہوئے کہ آج تک لب ساقی پر مکرر صدا جاری ہے :
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق‘‘(سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۸)   

امین احسن کی ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ اسی دورکی تصنیف ہے۔

’’الاصلاح‘‘میں شائع ہونے والے فراہی کے مسودات کے ترجموں میں کچھ تصرفات بھی کیے گئے۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اس ضمن میں لکھتے ہیں :

’’... امین احسن اصلاحی کے قلم سے مولانا فراہی کے مطبوعہ اجزائے تفسیر (عربی) کے اردو ترجموں کا سلسلہ اسی رسالے میں شروع کیا گیا۔ مصلحتاً ان ترجموں میں مولانا اصلاحی نے کچھ تصرفات بھی کیے ۔ کہیں کہیں عبارت حذف کر دی گئی جس پر نکتہ چینوں نے گرفت کی ۔ غالباً اس کے بعد ہی مولانا اصلاحی نے مجموعہ تفاسیر فراہی کے دیباچہ میں اس کے ذکر یا وضاحت کی ضرورت محسوس کی۔ لکھتے ہیں :
’’میں نے بھی ان کے ترجمہ میں دیانت داری کے خیال سے کچھ زیادہ تصرف نہیں کیا ہے ، صرف مقدمہ اور تفسیر سورہ فاتحہ سے بعض ایسے حصے ترجمہ میں حذف کر دیے ہیں جو بالکل ہی ناتمام یادداشتوں کی شکل میں تھے ’’الخ‘‘ واقعی دیانت داری کا تقاضا یہی ہے۔‘‘ (ذکر فراہی۵۷۴)

’’دائرۂ حمیدیہ‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی مزید لکھتے ہیں :

’’دائرۂ حمیدیہ نے مولانا فراہی کے مسودات میں سے بعض چیزیں شائع کیں اور یہ سلسلہ سست رفتاری سے کم و بیش جاری رہا ۔ دائرے کا اصل اور بنیادی مقصد یہی تھا۔ لیکن اس کے لیے نہ کارکن تھے۔ نہ سرمایہ ۔ مدرسہ سے وابستہ شاگردوں نے ہی بغیر کسی معاوضہ کے یہ فریضہ انجام دیا۔ ان شاگردوں میں اختر احسن اصلاحی اور امین احسن اصلاحی نمایاں ہیں ۔ ماہنامہ الاصلاح کے بعض شمارے بیچ سے غائب ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسالے کی جگہ فراہی کی کوئی کتاب بھیجی جاتی رہی ۔ ماہنامہ الاصلاح اور ماہنامہ ترجمان القرآن میں علمی معرکہ آرائی بھی ہوتی تھی۔ اور ان کے مابین رشتۂ مواخاۃ بھی قائم ہوا۔ اس وقت حوالہ سامنے نہیں ۔ لیکن اس روایت کی اصل کہیں موجود ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے یہ میرا سہو ہو۔ 
مولانا مودودی سرائے میر آئے ۔ مولانا اصلاحی جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شریک ہوئے۔وہ جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے جو پہلے دینی جمع سیاسی جماعت تھی پھر سیاسی جمع دینی جماعت میں مبدل ہوئی ۔ ان کی پہلی بیوی کا بہت پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ مولانا مودودی نے پٹھان کوٹ کے ایک رئیس خاندان میں ان کی دوسری شادی کراد ی ۔ برصغیر کی تقسیم کا واقعہ پیش آیا تو وہ پٹھان کوٹ میں تھے ۔ مولانا مودودی کی امارت میں قائم جماعت کے ساتھ وہ بھی پاکستان منتقل ہو گئے۔ 
مشن جس کے لیے فراہی نے سید سلیمان ندوی کے بقول امین احسن کو تیار کیا تھا اور جس کی حقانیت اور برتری کے وہ دل سے قائل تھے ، اس مشن کے لیے اس زمانے میں فراہی کے ایک عقیدت مند نے پچاس ہزار کی خطیر رقم کا عطیہ دیا تھا۔ اور وہ رقم اصلاحی صاحب کے نام ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کر دی گئی تھی ۔ اس وقت کے پچاس ہزار کی مالیت آج کے پچاس لاکھ کے برابر ہے ۔ وہ رقم ہمیشہ کے لیے ڈوب گئی۔ درد رکھنے والوں نے ہزار جتن کیے کہ مولانا کسی طرح ایک بار آ جائیں رقم نکلوانے کے لیے فقط ایک دستخط کرنا تھا۔ وہ رقم ان کی بے اعتنائی کی وجہ سے ضائع گئی۔ میرے پاس مذکورہ بالا پچاس ہزار سے متعلق دستاویز کی نقل فوٹو سٹیٹ کاپی اور ضروری معلومات موجود ہیں ۔ 
یہ بات سخت خلجان کا باعث بنتی ہے جب آدمی دیکھتا ہے کہ پچاس ہزار کی رقم سے کوئی کام نہ لیا گیا اور اسے یوں ہی ضائع کیا گیا۔ فراہی کے دو ارشد تلامذہ میں سے امین احسن اصلاحی کو بعض ایسی خوبیوں سے بہرہ وافر ملا تھا جو اختر احسن میں نہیں تھیں ۔ ان کے فراہی کے مدرسہ اور دائرہ کو چھوڑنے سے جو خلا پیدا ہوا وہ کسی طور پر نہ ہو سکتا۔ سرمایہ تو ڈاکٹر حفیظ اللہ کے گرانقدر عطیے نے فراہم کر دیا مگر افرادی قوت جو پہلے ہی کم تھی مولانا اصلاحی کی ہجرت سے اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس وقت کے ناظم حاجی رشیدالدین صاحب نے مولانا مودودی کو خط لکھا کہ وہ امین احسن کو سرائے میر واپس بھیج دیں ۔ انھوں نے مدرسہ اور دائرہ کے کام کی اہمیت کا حوالہ دیا ۔اور اس نقصان کی طرف توجہ دلائی جو اصلاحی صاحب کے ترک وطن کے باعث ان اداروں کو پہنچا۔ یہ بات مجھے بدرالدین اصلاحی نے بتائی اور میرے پاس حاجی رشید صاحب کے اس خط کی ایک دستی کاپی بھی موجود ہے ۔ اس کا جواب مولانا مودودی نے یہ دیا کہ دائرہ کو پچاس ہزار کی رقم سمیت پٹھان کوٹ منتقل کر دیا جائے ۔ کہتے ہیں مودودی صاحب کا یہ خط شائع ہو گیا ہے۔ میری نظر سے نہیں گزرا لیکن بدرالدین صاحب کی زبانی اس کے مندرجات معلوم کر کے مجھے افسوس ہوا ۔ مولانا مودودی کو صرف اپنی تحریک و تنظیم سے غرض تھی۔ فقط اتنی سی بات بھی ان کی علمی و دینی بصیرت کے متعلق کوئی اچھا تاثر نہیں پیدا کرتی ۔ 
بدر الدین اصلاحی نے مجھے بتایا کہ امین احسن اصلاحی کو خط لکھا گیا کہ فراہی کے مسودات کی اشاعت کی فکر کرنی چاہیے ۔ انھوں نے جواب میں یہ تجویز ارسال کی کہ مولانا فراہی کے مسودات کی اشاعت کا کوئی فائدہ نہ ہو گا ان کو سمجھے گا کون ۔ بہتر ہو گا کہ ان کے افکار کو سامنے رکھ کر اردو میں نئے سرے سے ایک تفسیر لکھ دی جائے ۔ ان کا خط پڑھ کر اختر احسن نے آہ سرد بھری اور حسرت و یاس کے عالم میں کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کہ دنیا فراہی کو بھی جانے ۔ میں نے اس خط کے بارے میں بدرالدین صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ محفوظ نہیں رہا ۔ ایک زمانے میں اصلاحی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مولانا فراہی کی مطبوعہ چیزوں کو چھاپنے کا آغاز کیا تو اصلاحی صاحب نے مجھ سے کہا کہ پہلے ہم ان چیزوں کو چھاپیں گے ۔ پھر ان سے جو آمدنی ہو گی اور سرمایہ جمع ہو گا ان کو خر چ کر کے مسودات کی طباعت کا سامان کریں گے ۔ میں یہ سن کر خوش ہوا اور میرے دل میں تحسین اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوئے ۔ 
سرائے میر کو چھوڑ کر پٹھان کوٹ آنے اور جماعت اسلامی جوائن کرنے کے بعد امین احسن صاحب نظم جماعت کے پابند ہو کر جماعتی سرگرمیوں میں لگ گئے ۔ اس زمانے میں لکھنے کا کام کم کیا اگر کوئی چیز لکھی تو اس کا تعلق جماعت سے جوڑنا زیادہ صحیح ہو گا۔ 
ایام اسیری کی فرصت میں مسلمان عورت دوراہے پر جیسی کتابیں لکھیں یا جماعت کے جلسوں اور اجتماعات میں کی گئی تقریروں پر مشتمل کتابیں شائع کیں ۔ تحریک و تنظیم کا مزاج اور مذاق بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ اس لیے اس سے ہٹ کر کسی چیز کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی ۔ مولانا مودودی کے درس قرآن کے ساتھ ان کا درس قرآن بھی ہوتا تھا اس میں وہ نظم قرآن وغیرہ کی باتیں کرتے تھے تو جماعت کے عام لوگ تو بے چارے کیا سمجھتے اور کیا کہتے ۔ اعیان و اکابر یہ کہتے کہ اصلاحی صاحب نظم کی جو باتیں کرتے ہیں وہ زیادہ تر کھینچا تانی ہوتی ہے ۔ ان کے مخاطب اپنی ذہنی اور علمی سطح کے لحاظ سے اس کے اہل نہیں تھے۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۵)
’’... سال گذشتہ، میں ہندوستان گیا تو مولانا بدر الدین حال ہی میں انتقال کر چکے تھے ۔ اختر احسن اصلاحی کی وفات کے بعد وہی دائرۂ حمیدیہ وغیرہ کے وارث و امین تھے ۔ ان کی وفات کے بعد وراثت اور جانشینی کا مسئلہ وہاں درپیش تھا۔ واپس آ کر میں نے اس کا ذکر اصلاحی صاحب سے کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ نے کچھ سوچا ہے ۔ انھوں نے خالد مسعود کا نام لیا ۔ گویا وہ نام زد خلیفہ ہیں ۔ لیکن چونکہ مولانا ابھی زندہ ہیں اس لیے بکس ابھی تک انھی کے کمرے میں ہے ۔ مولانا کی صحت جب زیادہ بگڑ گئی تو مجھے قرآن مجید کے ان دو نسخوں کا خیال آیا ۔ میں نے خالد مسعود سے پوچھا تو انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر نعمان صاحب سے دریافت کیا تو یہ جان کر اطمینان ہوا کہ و ہ نسخے محفوظ ہیں اور وہ بکس مولانا اصلاحی کے کمرے میں ان کی چارپائی کے نیچے ہے (تحریرستمبر۱۹۹۷ئ)۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۸۱)

’’الاصلاح‘‘ میں کام کرنے سے امین احسن کو جو فائدہ ہوا ، اس کاذکر انھوں ڈاکٹر شرف الدین صاحب سے مختلف مواقع پر کچھ یوں کیا:

’’مدرسے میں مولانا کی وفات کے بعد رسالہ اصلاح میں جو کچھ علمی کام کیا ہے وہ چھپ چکا ہے ۔ فکر فراہی پر میری تیاری کا زمانہ یہی ہے جب میں نے رسالہ نکالا اور ترجمے کیے ۔ مولانا کی تمام چیزیں اس زمانے میں پڑھ ڈالیں ۔ اشعار کی تلاش میں اختر اصلاحی مدد کرتے تھے ۔ وہ ادھر ادھر سے تلاش کر کے نکالتے تھے۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۸)

مترجم 

’’دائرۂ حمیدیہ ‘‘ اور ’’الاصلاح‘‘ کے لیے امین احسن نے فراہی کی کتابوں کے جو ترجمے کیے، وہ اس قدرعمدہ تھے کہ سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی جیسے انشا پرداز نے لکھا کہ کسی شخص کو اگر عربی زبان کی اعلیٰ علمی عبارتوں کے اردو میں منتقل کرنے کا سلیقہ سیکھنا ہو تو اسے یہ ترجمے دیکھنے چاہییں ۔ اسی ضمن میں جناب ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :

’’مولانا کے انتقال کے بعد ان کے افکار و تصانیف کی اشاعت کے لیے مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی سربراہی میں دائرۂ حمیدیہ قائم ہوا جس نے مولانا کی عربی تصانیف کے متون اور ان کے سلیس و شگفتہ اردو ترجمے شائع کیے ۔ یہ ترجمے مولانا اصلاحی نے اتنی خوبی اور قابلیت سے کیے ہیں کہ ان پر اصل کا دھوکہ ہوتا ہے ۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ئ،۸)

دارالاسلام جمال پور سے ۱۹/ جولائی ۱۹۴۷ء کو حکیم محمد مختار اصلاحی کے نام خط میں امین احسن نے اپنا ارادہ واضح کرتے ہوئے لکھا:

’’آج کل کچھ صحت خراب ہے۔ رمضان میں میرا ارادہ بھی راہوں ۲؎ ہی میں قیام کا ہے۔ اور رمضان کے بعد مستقلاً اعظم گڑھ منتقل ہو جانے کا ارادہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو وہیں سے جماعت کی خدمت اور دائرہ کی تجدید کا ارادہ ہے۔ (جماعت سے مراد جماعت اسلامی اور دائرہ سے مراد دائرہ حمید یہ ہے جو مولانا فراہیؒ کے افکار کی اشاعت کے لیے مولانا مرحوم نے مدرستہ الاصلاح میں ۱۹۳۵ میں قائم کیا تھا۔ ملکی تقسیم کے بعد کے حالات میں مولانا اس فیصلہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔مدیر)‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ئ، ۴۶) 

لیکن پاکستان آکر بھی امین احسن نے فراہی کی امانت کا حق ادا کر دیا۔زندگی کے آخری برسوں میں ایک موقع پر امین احسن نے کہا:

’’مولانا فراہی ایک سر مخفی تھے،میں نے انھیں آشکارا کیا ...۔ 
میں نے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر وہ کام کر دیا جس کے لیے ڈاکٹر حفیظ اللہ نے پچاس ہزار کا عطیہ دیا تھا۔ اب انھیں مجھ سے یہ شکایت نہیں ہوسکتی کہ میں نے کچھ نہ کیااورروز حشر مجھے ان سے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا...۔
یہ (اکیسویں ) فراہی صدی ہے۔ ‘‘(ذکر فراہی ۵۸۲)

B

حواشی :

 ۲؎ مولانا کا سسرالی گائوں جو اب بھارتی صوبہ پنجاب کے ضلع ہو شیارپور میں ہے۔