HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Muhammad Bilal

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

’’امینِ فراہی‘‘

با ب ۲


امام فراہی کا سانحۂ ارتحال نومبر ۱۹۳۰ء کو ہوا ۔ انتقا ل سے قبل متھرا کے ضلعی اسپتال وہ امین احسن کو یاد کرر ہے تھے۔امین احسن کو بلوایا گیا ۔ وہ آئے ۔ ابھی کمرے سے باہر ہی تھے کہ فراہی نے کہا:

’’امین آگئے۔‘‘ 

امین احسن کہتے تھے کہ انھوں نے میر انام اپنی زبان سے اس طرح ادا کیا کہ گویا نام نہیں لے رہے ، اس کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،اپنے علم وفکر کی امانت میر ے سپرد کررہے ہیں ۔‘‘ 

پھر اپنے ’’امین ‘‘کو اندر بلوایا ۔سینے سے لگایا ۔

فراہی کے اس اضطراب سے محسو س ہوتا ہے کہ جیسے وہ شدت کے ساتھ اس انتظار میں تھے کہ اپنی علمی’’امانت‘‘اپنے ’’امین ‘‘ کے حوالے کر کے دنیا سے رخصت ہوں ۔اور اس میں کیا شبہ ہے کہ امین احسن نے اس امانت کو صحیح معنوں میں اس کے مستحقین تک پہنچایا۔ اسی لیے جاوید احمد صاحب غامدی نے لکھا ہے:

’’... سقراط و فلاطون ، ابوحنیفہ اور ابویوسف، ابن تیمیہ اور ابن قیم ـ یہ جس طرح ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے ، فراہی و اصلاحی بھی ، اس دنیا میں ، اب ہمیشہ ایک ہی وجود کے دونام رہیں گے: 
چوں تمام افتد سراپا نازمی گردد نیاز
قیس را لیلیٰ ہمی نامنددرصحرای من‘‘
...وہ اپنے استادسے آگے نہیں بڑھے تو پیچھے بھی نہیں رہے ۔حمید الدین جس مقام پر پہنچے تھے ، ان کی ساری عمر اس کے اسرار و رموز کی وضاحت میں گزری ہے ...۔ 
...[امین احسن کے صحافت ترک کر کے فراہی سے قرآن پڑھنے کا فیصلہ کرنے کے بعد] مولانا سید سلیمان ندوی نے کسی کالج میں پروفیسری کے لیے ان کا نام تجویز کیا اور کالج کے ذمہ داروں سے ہامی بھر لی کہ وہ انھیں راضی کر لیں گے ۔ امین احسن کو بتایا گیا تو وہ چلچلاتی دھوپ میں پیدل چلتے ہوئے دارالمصنفین پہنچے اور سید صاحب سے عرض کیا : آپ نے اس فقیر کا نام تجویز کیا ، آپ کا شکریہ ۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں یہ پیشکش قبول نہ کر سکوں گا ۔ امام فراہی کو میں ان کی زندگی میں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا ۔ وہ بتاتے تھے کہ سید صاحب بالکل حیران رہ گئے۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک غریب طالب علم اتنی بڑی پیشکش اس طرح ٹھکرا دے گا ۔ بعد میں انھوں نے ندوہ میں تقریر کرتے ہوئے بڑے تاثر کے ساتھ اس واقعے کا ذکر کیا اور طلبہ سے کہا کہ دیکھو، طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ بہرحال ، میں یہ بات کہہ کر چلا آیا، لیکن مجھے اندیشہ رہا کہ استاذ امام ان دنوں اگر ’’دارالمصنفین‘‘ آئے تو ہو سکتا ہے کہ سید صاحب ان سے بات کریں اور وہ مجھے بھیج دینے کا وعدہ کر لیں ۔ ان کا چہرہ ایک عجیب احساس فخر سے تمتما اٹھتا تھا ، جب وہ بتاتے تھے کہ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ استاذ امام وہاں گئے بھی اور سید صاحب نے ان سے بات بھی کی ، لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا : آپ امین احسن کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں ۔ میں یہ ساری محنت آخر کس کے لیے کر رہا ہوں ؟‘‘ (ماہنامہ’’اشراق‘‘ جنوری /فروری۱۹۹۸ء ، ۹)

علامہ سید سلیمان ندوی اس ضمن میں لکھتے ہیں :

’’ اواخر عمر میں مرحوم (مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ) کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ وہ چند مستعد طلبہ کو اپنے مزاج کے مطابق تیار کریں ۔ چنانچہ کم از کم دو طالب علموں کی خاص طو ر سے انھوں نے دماغی تربیت کی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۷)

جناب ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :

’’مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے فخر و امتیازکے لیے یہ کافی ہے کہ انھیں مولانا فراہی کی جانشینی کا شرف حاصل ہوا۔ اور وہی ان کے سب سے ممتاز شاگرد کی حیثیت سے مشہور ہوئے جس کا حق بھی انھوں نے خاطر خواہ طور پر ادا کیا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ’’بعض مستعد طلبہ نے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے اس درس سے پورا فائدہ اٹھایا جن میں قابل ذکر مولوی امین احسن صاحب اصلاحی ہیں ۔ ہماری آیندہ توقعات ان سے بہت کچھ وابستہ ہیں ۔ 
اپنے استاد کا نام روشن کرنے اور ان کے افکار و نظریات کی اشاعت و ترجمانی کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ جب کسی جانب سے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ ان کی حمایت کے لیے سینہ سپر ہو جاتے۔ ان کے اس قسم کے مضامین ’’الاصلاح‘‘ اور ’’معارف‘‘ دونوں میں چھپے ہیں ۔ ایک زمانے میں ان کے استاد علامہ فراہی رحمۃ اللہ علیہ اور استاذ الاستاد علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف غوغاے تکفیر بپا ہوا تو وہی ان مظلوم ’’امامین ہمامین‘‘ کی مدافعت اور ان کی یادگار مدرستہ الاصلاح کو شر پسندوں سے بچانے کے لیے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے :
بیا ورید گر ایں جا بود سخن دانے
غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد‘‘ ۱؎
(سہ ماہی تدبر اپریل ۹۸، ۷-۸)
’’مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اواخر قرآن کی بعض مختصر سورتوں کی تفسیر لکھی تھی۔ باقی سورتوں کے متعلق کچھ نوٹ اور متفرق اشارات ہی لکھ سکے تھے ۔ ضرورت تھی اور عرصہ سے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے قدر دانوں کا اصرار بھی تھا کہ ان کے اصول و متعینہ خطوط کے مطابق مکمل قرآن مجید کی تفسیر لکھی جائے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام مولانا کے تلامذہ میں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ انھوں نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا جو واقعۃً ان کا بڑا کارنامہ اور ایں کاراز تو آید و مرداں چنیں کنند کے مصداق ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۱۰)

ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی (ڈاکٹر حفیظ اللہ ان کے ماموں ہیں ) لکھتے ہیں :

’’۱۹۵۸ میں مولانا اختر احسن اصلاحی کی وفات کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی نہ صرف فکر فراہی کے امین بلکہ اس کے سب سے بڑے شارح و ترجمان بھی رہے ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۱۶)

امین احسن کے شاگرد محترم سلیم کیانی لکھتے ہیں :

’’راقم ۱۹۶۳ء میں مولانا کے قائم کردہ حلقہ تدبر قرآن میں شامل ہوا تو اس وقت وہ عجلت میں دکھائی دیتے تھے ۔ انھیں یقین نہیں تھا کہ کام کرنے کی کتنی مہلت باقی رہ گئی ہے ۔ وہ اس بات سے فکر مند تھے کہ ان کے استاد امام نے جو امانت ان کے سپرد کی ہے کہیں وہ ہمیشہ کے لیے ضائع نہ ہو جائے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’میری باتیں غور سے سن لیا کرو۔ بعد میں جگالی کرنے اور غوروفکر کرنے کے لیے تمھارے پاس کافی وقت ہو گا۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل۱۹۹۸ئ، ۲۷)

’’تدبر قرآن‘‘ کے تعارف میں امین احسن لکھتے ہیں :

’’میری چالیس سال کی محنتوں کے نتائج کے ساتھ ساتھ ، اس میں میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی ۳۰، ۳۵ سال کی کوششوں کے ثمرات بھی ہیں ۔ مجھے بڑا فخر ہوتا اگر میں یہ دعویٰ کر سکتا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے ، سب استاذ مرحوم ہی کا افادہ ہے ، اس لیے کہ اصل حقیقت یہی ہے ، لیکن میں یہ دعویٰ کرنے میں صرف اس لیے احتیاط کرتا ہوں کہ مبادا میری کوئی غلطی ان کی طرف منسوب ہو جائے۔ مولانا ؒسے میرے استفادے کی شکل یہ نہیں رہی کہ ہر آیت سے متعلق یقین کے ساتھ ان کی رائے میرے علم میں آ گئی ہو ، بلکہ میں نے ان سے قرآن حکیم پر غور کرنے کے اصول سیکھے ہیں اور خود ان کی رہنمائی میں ، پورے پانچ سال ان اصولوں کا تجربہ کرنے میں بسر کیے ہیں ۔ پھر انھی اصولوں کو سامنے رکھ کر ، آج تک کام کرتا رہا ہوں ۔ اس اعتبار سے اگرچہ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ سب کچھ استاذؒ ہی کا فیض ہے ، لیکن اس میں چونکہ بلاواسطہ افادے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ افادے کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ، اس وجہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کا جو حصہ مستحکم اور مدلل نظر آئے ، اس کو استاذ مرحوم کا صدقہ سمجھئے اور جو بات کمزور یا غلط نظر آئے ، اس کو میری کم علمی پر محمول فرمائیے ۔‘‘ (۱/ ۴۱)

فراہی کی تقلید   

یہاں کسی کو غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ شاید امین احسن ،اپنے استاذ کے مقلد تھے۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اسی مقام پر اختصار کے ساتھ حقیقت واضح کردی جائے۔امین احسن’’تدبر قرآن‘‘ کے تعارف میں خود لکھتے ہیں :

’’قرآن سے باہر کی کسی چیز سے بھی کبھی میری کوئی خاص قلبی و ذہنی وابستگی نہیں ہوئی ۔ اگر ہوئی ہے تو قرآن ہی کے لیے اور قرآن ہی کے تحت ہوئی ہے ۔ اس کتاب کے پڑھنے والے محسوس کریں گے کہ جہاں کہیں مجھے اپنے استاذ سے بھی اختلاف ہوا ہے ، میں نے بے جھجک اس کا بھی اظہار کر دیا ہے۔‘‘ (۱/ ۴۲) ‘‘

امین احسن ،فراہی کے ساتھ اپنی شاگردی کو ہمیشہ اپنا سرمایۂ حیات قرار دیتے تھے ۔ جیسے ہی ان کے استاد کا ذکر ہوتا تو معلوم ہوتا خوش گوار یادوں کی بارات اتر آئی ہے ۔پھر وہ اپنی اس تدریس کے احوال کا ذکر بڑے ذوق وشوق کے سا تھ کرتے تھے۔جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں :

’’فراہی کا ذکرجب ان کی زبان پر آتا تو آنکھوں میں ایک عجیب چمک پیدا ہو جاتی تھی ۔ اس کلیم ذروۂ سیناے علم کی باتیں وہ گھنٹوں کرتے ، مگر سیر نہ ہوتے تھے ۔ بعض واقعات ایسے دل نواز اسلوب میں سناتے کہ معلوم ہوتا ، کسی دیوتا کا ذکر کر رہے ہیں ... ۔ 
فراہی کے آخری زمانے میں ہندوستان کے ایک بڑے عالم نے ان کی کسی تحریر پر کفر کا فتویٰ لگا دیا ۔ اس سے پورے علاقے میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔ مدرستہ الاصلاح کے طلبہ اور اساتذہ ، سب پریشان تھے ۔ میرے لیے بھی یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔ اسی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں فراہی کو ڈھونڈتا ہوا ، ان کے دارالمطالعہ کی طرف بھاگا۔ میں نے دیکھا ، استاذ امام سیڑھیوں پر کھڑے تھے ۔ دوڑ کر وہیں انھیں بتایا۔ میں خود جس پریشانی میں تھا، ان سے بھی ، اسی کے لحاظ سے ، کسی ردعمل کی توقع کر رہا تھا۔ وہ لمحہ بھر کے لیے زینے پر رکے ، پھر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے: اچھا، یہ جن عالم کا تم ذکر کر رہے ہو ، وہ تو مجھے نہیں جانتے ۔ میں ہکا بکا انھیں دیکھتا کھڑا رہ گیا۔ اس فتوے پر اس سے زیادہ بلیغ کوئی تبصرہ شاید کبھی نہ ہو سکے ۔ وہ بڑے والہانہ انداز میں کہتے : فراہی یہ تھے ۔ اس شان کا کوئی شخص اب تم کہاں سے پیدا کروگے؟‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۷)   

اس حقیقت کا اعتراف مولانا دریا بادی نے بھی کیا ۔ امین احسن نے ڈاکٹر شرف الدین کو بتایا:

’’مولوی عبدالماجد دریا بادی کہتے تھے کہ مولانا فراہی کے فکر کی ترجمانی کوئی اور کرتا ہے تو پڑھ کر وحشت ہوتی ہے ۔ ان کے افکار کی ترجمانی کا حق صرف مولانا امین احسن اصلاحی کو ہے۔ وہی اس کا حق ادا کرتے ہیں ۔ ایک مرتبہ مولوی صدر الدین اصلاحی نے کچھ لکھنا شروع کیا۔ ماجد صاحب نے اپنے صدق میں اس پر سخت نوٹ لکھا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کے بعد انھوں نے یہ سلسلہ بند کر دیا۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۸)

اور جب امین احسن نے تفسیر ’’تدبر قرآن ‘‘مکمل کر کے اس امانت کا حق اداکیاتو ان کے جذبات کاعالم کیاتھا؟ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں :

’’تفسیر لکھنے میں صرف ہونے والی مدت ، اپنی اور استاد کی مشترکہ مجموعی کاوش کے متعلق لکھتے ہیں : 
’’تفسیر تدبر قرآن پر میں نے اپنی زندگی کے پورے ۵۵ سال صرف کیے ہیں ـ جن میں ۲۳ سال صرف کتاب کی تحریر و تسوید کے نذر ہوئے ہیں ۔ اگر اس کے ساتھ وہ مدت بھی ملا دی جائے جو استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کے غورو تدبر پر صرف کی ہے اور جس کو میں نے اس کتاب میں سمونے کی کوشش کی ہے تو یہ کم و بیش ایک صدی کا قرآنی فکر ہے جو آپ کے سامنے تفسیر تدبر قرآن کی صورت میں آیا ہے ۔ اگرچہ میں اپنے فکر کو حضرت الاستاذ علیہ الرحمۃ کے فکر کے ساتھ ملانا بے ادبی خیال کرتا ہوں ، لیکن چونکہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے عمر بھر استاذ کے ُسر میں اپنا سرُ ملانے کی کوشش کی ہے اور میرا فکر ان کے فکر کے قدرتی نتیجہ ہی کے طور پر ظہور میں آیا ہے ، اس وجہ سے یہ جوڑ ملانے کی جسارت بھی کر رہا ہوں ، اگر یہ بے ادبی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمائے ... ۔ 
’’تدبر قرآن‘‘ کو فراہی مکتب فکر کی نمایندہ تفسیر کہا جاتا ہے ۔ تدبر قرآن لکھنے کے لیے امین احسن اصلاحی نے فراہی کی عربی تفسیر’’ نظام القرآن ‘‘کے مطبوعہ اجزا کے علاوہ تمام غیر مطبوعہ مسودات کی اصل کاپیاں دائرۂ حمیدیہ (انڈیا) سے منگوالیں ۔ قرآن مجید کے وہ نسخے منگوالیے جو مولانا فراہی کے زیر مطالعہ رہے اور جن پر ان کے حواشی اور نوٹس ہیں ۔ ان حواشی کی کیفیت یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کو الگ سے نقل کر رکھا ہے ۔ اس کے مطابق وہ تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل ہیں ۔ ان تمام چیزوں کو اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں استعمال کیا ۔ یہ تمام چیزیں دائرہ کی تحویل میں تھیں ۔ اور دائرہ کی ملکیت تھیں ۔ دائرہ کے قیام کا اولین مقصد ان غیر مطبوعہ باقیات کی حفاظت اور طباعت و اشاعت تھا۔ اس کام میں کوئی چاشنی نہ تھی ۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ تھا۔ اصلاحی صاحب کا کام مکمل ہو گیا تو یہ مسودات واپس گئے۔ مگر حواشی والے دونوں قرآن واپس کرنے سے امین احسن اصلاحی نے انکار کر دیا ۔ واپسی کی کارروائی چونکہ میرے ذریعہ ہوئے اس لیے مجھے ان باتوں کا براہ راست علم ہے ۔ فراہی کے ہاتھ کے عربی مسودات میں سے بھی کچھ چیزیں واپس نہیں گئیں ۔ قرآن کے نسخے تو اصلاحی صاحب کے پاس ہیں مگر مسودات کے گم شدہ حصوں کا کچھ پتا نہیں چلا۔ گم یا کم ہونے کا پتا ا س لیے چلا کہ مولانا بدر الدین نے اپنے ہاتھ سے ان کی نقلیں تیار کر کے رکھ لی تھیں ۔ بدر الدین اصلاحی کا بیان ہے کہ گم شدہ اوراق کے ترجمے ، مولانا اصلاحی کے شاگرد خاص خالد مسعود کے قلم سے شائع ہوتے رہے۔‘‘(ذکر فراہی ۵۷۹-۵۸۰)

B

حواشی :

 ۱؎ ’’آ ؤ، اے رگ جان، اگر یہاں کوئی سخن داں ہے تو اس غریب الوطن کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ ہے۔‘‘