باب۱۷
امین احسن نے اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں رسمی اور غیر رسمی انداز میں مختلف نامور شخصیات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس سے بھی امین احسن کی شخصیت کے مختلف پہلو نمایاں ہوتے ہیں ۔ چونکہ یہ ذکر رسمی اور غیر رسمی ،دونوں اسالیب میں ہوا، اس لیے بعض شخصیات کا ذکر باقاعدہ اور تفصیلی اور بعض شخصیات کا ذکر مختصر اور سرسری سا ہے۔ اس سرسری بیان سے بھی امین احسن کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ امین احسن کا برصغیر پاک وہند کی بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ ملنا جلنا رہا ،اس لیے ان شخصیات کے بارے میں ان کی آرا تاریخی اہمیت بھی رکھتی ہیں ۔
کتاب ’’سقراط‘‘ کے مصنف ڈاکٹر منصورالحمیدلکھتے ہیں :
’’۱۹۹۶ء کی گر میوں میں دما م (سعودی عرب) سے پا کستا ن گیا تو میں نے اپنی کتا ب ’’سقراط‘‘مو لا نا اصلا حی ؒ کی خدمت میں پیش کی ۔ مو لا نا ان دنوں اپنی بیما ری کے با عث پڑھنے سے تقریباً معذور تھے اور بمشکل چند صفحات الٹ پلٹ لیتے تھے لیکن سقراط کی شخصیت سے دلچسپی کی بنا ء پر انہوں نے میر ی کتاب کے پچا س سا ٹھ صفحا ت تک پڑھ ڈالے ۔ اس مو قع پر میں برابر ان کی خدمت میں حاضر ہو تا رہا۔ تین چار نشستوں میں مو لا نا ؒ کی گفتگو کا مو ضو ع سقراط ہی رہا۔ میں نے یہ گفتگو اس وقت ریکا رڈ کر لی اور اسے مر تب کر کے مضمو ن کی صورت میں ارسا ل کر رہا ہو ں ۔ یہ حتی الامکا ن مو لا نا مر حوم کے الفاظ ہی میں ہے:
’’مجھے جس طر ح قرآن مجید سے دل چسپی ہے، ایک زما نے میں اسی طر ح سقراط سے بھی دل چسپی رہی ہے ۔ گو میں نے دیگر فلا سفہ کو بھی پڑھا ہے لیکن سقراط کو نہا یت غور سے اور حرف بحرف پڑھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی با تیں عقل و فطرت کے مطا بق ہیں ۔ وہ انسا نی ذہن کے تقا ضوں کے مطا بق با ت کر تا ہے ۔ قدیم یو نا نی حکما ء میں سے ارسطو نہا یت پڑھا لکھاآدمی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ براہ راست انسا نی فطرت سے اسے کو ئی دل چسپی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ارسطو میں اپنے ذوق کی غذانہیں ملی جبکہ سقراط کی با تیں مجھے فطرت کے قریب محسوس ہو تی ہیں ۔ شا ید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ وہ مصنو عی طور پر پڑھا لکھا نہیں تھا ۔
میری دل چسپی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ان الجھنوں کو جو میرے ذہن میں ہو تی تھیں ، ایک نہا یت حکیما نہ سوال کی شکل میں سا منے لے آتا تھا ۔ اگر چہ اس کے جو جوا با ت نقل ہو ئے ہیں مجھے اس میں کمیا ں محسوس ہو تی ہیں لیکن مجھے ا س کے جوا با ت سے کم اور اس کے سو ا لا ت سے زیا دہ دل چسپی رہی ہے ۔ پھر وہ جس طرح جرح کرکے انسانی ذہن کواضطراب میں ڈال دیتاہے ،یہاں تک انسان غور کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے ۔یہ با ت قرآن مجید کے عین مطا بق ہے قرآن مجید بھی انسا ن کی غور و فکر کی صلا حیتوں ہی کو بیدار کر نا چا ہتا ہے ۔ یہ واقعہ ہے کہ سقرا ط کو پڑھنا ، میر ے لیے قرآن مجید سمجھنے میں بھی ممدو معا ون ثا بت ہو ا ہے ۔
فلسفہ کی تار یخ میں بیشتر فلا سفہ ناقل ہیں ۔ جو کچھ پہلے کہا گیا اسی کو تھوڑا سا بدل کر ذرا مختلف انداز میں بیا ن کر دیتے ہیں ۔ سقراط میں یہ خو بی ہے کہ وہ خلاق بھی ہے اور مو جد بھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکثر فلا سفہ انسا نی فطر ت سے براہ راست تعر ض نہیں کر تے جبکہ سقراط میں خا ص با ت یہ ہے کہ وہ انسا نی فطر ت کو براہ را ست چھیڑتا ہے ۔پے درپے سوالات سے ہما رے اندر کی الجھنوں کو اتنا واضح کر دیتا ہے کہ انسا ن خود سو چنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ تیسری با ت یہ کہ فلا سفہ معا شرہ سے ڈرتے بلکہ معا شرہ کے اسیر ہو تے ہیں ۔ سقراط نہ معا شرہ سے ڈرتا ہے نہ معا شرہ کا اسیر ہے۔ اس کی زندگی کسی با د شا ہ یا حکو مت سے وابستہ نہیں رہی ۔ اس کا سب سے الگ اپنا ہی ایک دائرہ ہے جس میں اسی جیسے کچھ لو گ ہیں ۔ اس لیے وہ محض مفکر ہی نہیں ایک لیڈر بھی ہے ۔
سقراط کی زندگی بے عیب ہے، اس کا اخلا ق نہا یت پا کیزہ ہے ، علم اس کی با توں سے بر ستا ہے ، اس لیے یہ کو ئی تعجب کی با ت نہیں کہ وہ نبی رہا ہو۔ انبیا ء جتنے بھی ہیں وہ سب کے سب قرآن مجید میں مذکورنہیں ہیں ۔ سقراط میں وہ اوصا ف پا ئے جا تے ہیں جو انبیا ء میں ہو تے ہیں ۔ ابنیا ء کا علم انسا نی فطرت کے مطا بق ہو تا ہے اور محسو س ہو تا ہے کہ براہ را ست ہے ۔ یہی حا ل سقراط کا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ سقراط کو پڑھنے کے ابتدائی دور ہی میں میر ی یہ رائے تھی کہ نبی ہو نے کے لیے جن اوصا ف کی ضرورت ہے وہ سب اس میں مو جو د ہیں پھر جس زما نے اور جس ملک میں وہ پیدا ہوا اس میں اسی طر ح کا آدمی نبی ہو سکتا تھا ۔
تا ریخ کی کسی قدیم شخصیت کو نبی ما ننا یا نہ ما ننا خدا کو ما ننے یا نہ ما ننے کے مترادف نہیں ہے۔ یہ کو ئی عقید ے اور ایما ن کا مسئلہ بھی نہیں ہے ۔ نبی پر خدا کی وحی آتی ہے اورمیر ا خیا ل ہے کہ سقراط کے ضمن میں اس کے شواہد پا ئے جا تے ہیں ۔ کم سے کم اتنی با ت تو طے ہے کہ سقراط بہر حا ل ہے پڑھے جا نے کی چیز۔ اس کے پا س علم بھی ہے ، اخلاق بھی ہے اور کردار بھی ۔ دنیا کو ایسے لو گو ں کی ضرورت ہے۔ ان کے بار ے میں کچھ لکھنا اور شا ئع کر نا درحقیقت دنیا پر احسان کر نا ہے۔‘‘ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۴۴)
اسی موضو ع پر ڈاکٹر زاہد منیر عامر امین احسن کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کی تفصیل بتاتے ہیں :
’’با ت سو فسطا ئیہ سے چل کر مو لا نا اصلا حی کے استا د گرامی اور سقراط پر آپہنچی ہے اس روز مو لا نا اصلا حی سے گفتگو میں بھی یہی ہوا ، البتہ پہلے سقراط پر با ت ہو ئی اور پھر مو لا نا فراہی پر ۔
مو لا نا نے یو نانی فلسفے کی تاریخ کے حوالے سے فرما یا کہ آغا ز کے تین فلسفیوں کو چھو ڑ کر باقی سب فلسفی یو نہی ہیں ۔یہ تین فلا سفر سقراط ، افلا طون اور ارسطو ہیں ۔ان میں بھی سقراط اصل فلسفی ہے، با قی دونوں اس کے سلسلے سے وابستہ ہیں اور تینوں کے خیا لا ت اسلا م سے کا مل مطابقت رکھتے ہیں ۔ مجھے اس با ت سے تعجب ہوا لیکن بعد ازاں سقراط سے متعلق اکثر ما خذ سے یہ معلوم ہو ا مثلاً ول ڈیو راں (Will Durant)نے The Story of Philosophyمیں بتا یا ہے کہ سقراط نہ صرف تو حید پر ست تھا بلکہ حیا ت بعد الموت کے عقید ے پر بھی ایما ن رکھتا تھا ۔ چند بر س قبل سقراط کے عنوان سے منصور الحمید صا حب کی کتا ب منظر عا م پر آئی تو اس میں یہ بحث اور زیا دہ وضا حت سے ابھر ی ، یہ کتا ب بہت محنت اور سلیقے سے لکھی گئی ہے۔ اگر چہ اس میں با ت کچھ بڑھ گئی ہے۔
سقراط کی تو حید پر ستی کی حد تک تو با ت قا بل تسلیم ہے لیکن افلا طون اور ارسطو کے حوالے سے اسلا می تعلیما ت سے کا مل مطا بقت کی با ت زیا دہ قا بل فہم نہیں تھی۔ اگرچہ افلا طون اور ارسطو بھی ذات با ری تعا لیٰ پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن ان کے بعض افکار اسلامی تعلیما ت سے ’’کامل مطابقت‘‘ نہیں رکھتے ۔
بہر حا ل یہ با ت اطمینا ن بخش ہے کہ ۱۹۹۱میں جب ’’فلسفے کے بنیا دی مسا ئل‘‘سے متعلق مو لا نا کی کتا ب شا ئع ہو ئی تو اس میں نہ صرف یہ کہ افلا طون اور ارسطوکے افکار کو اسلا می تعلیمات کے مطا بق قرار نہیں دیا گیا بلکہ مو لانا نے ’’افلا طون کے فلسفہ کی غلطی اور ’’ارسطو کے فلسفہ کی خامی‘‘کی نشان دہی بھی کی ۔
مو لا نا اصلا حی اپنی زندگی میں جس شخصیت سے سب سے زیا دہ متا ثر ہو ئے وہ ان کے استاد گرامی مو لا نا حمید الدین فراہی کی شخصیت تھی ۔ انہوں نے اپنے استاد گرامی کے طریقۂ تعلیم کو ’’سقرا طی طریقۂ تعلیم‘‘قرار دیا ہے۔ مولانا کے نزدیک ’’سقراطی طریقۂ تعلیم‘‘کیا ہے اس کی وضاحت انہوں نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کی تھی:
’’مو لا نا کا طریقۂ تعلیم ایسا نہیں تھا کہ پکا پکایاسا منے رکھ دیا جا ئے ۔ درحقیقت وہ طالب علم کی استعداد اور ذہا نت کو بیدار کر تے تھے ۔اس کے اندر سوالا ت پیدا کر تے تھے ۔ اگر وہ مسائل پرغور کر نے کی صلا حیت ظا ہر کر تا تو وہ کچھ رہنما ئی دیتے تھے ورنہ خامو ش ہو جا تے ۔ یہ ’’سقراطی طریقۂ تعلیم ہے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۶۱)
عبد الرزاق صاحب اپنی۲۸ ؍جنوری ۱۹۹۴ء کی ڈائری میں فلسفی ما رکس آریلیئس کے حوالے سے امین احسن کی راے بیان کرتے ہیں :
’’مو لا نا نے خا ص طور پر ما رکس آریلیئس کا نا م لیا اور کہا کہ میں فلسفہ میں اس کا مرید ہوں ۔ اس فلسفی سے مو لانا بڑے متا ثر نظر آرہے تھے۔ انھوں نے اپنے سا تھیوں کو نصیحت کی کہ اگر وہ اپنے آپ کو پہچاننا اور زندگی کی حقیقت کو جا ننا چا ہتے ہیں تو وہ مختلف حکما ء اور فلسفیوں کی کتا بو ں کو ضرور پڑھیں ان کو پڑھنے کے بعد آپ کو پتہ چلے گا کہ جس فلسفی کو حقیقت کا ادراک ہو گیا اس کو سب کچھ مل گیا ۔وہ روم اور ایران کی با دشا ہی کو اپنے قدموں تلے کچل دیتا ہے ۔ اس میں اتنی ہمت ہو تی ہے کہ وہ با دشا ہ کی کسی غلطی پر اسے پورے دربار کے سا منے ڈانٹ پلادیتا ہے ۔ ایسا شخص باد شا ہ کو بھی خا طر میں نہیں لا تا ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۷)
ڈاکٹر زاہدمنیر عامر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے مسئلۂ ارتقا اورڈارون کے بارے میں کہا:
’’کا ئنا ت ارتقا ء ہی کے ذریعے سے وجو دپذیر ہو ئی ہے۔ ارتقاء بجا ئے خود صحیح ہے لیکن ڈارون کی تو جیہ غلط ہے۔
انسان پہلے کیچڑہی میں تھا ۔ ایک خاص فارم سے اس نے ترقی کی، ارتقا ء ہوتے ہو تے وہ اس فارم میں آیا کہ وہ ایک انسان بن سکے ۔ اللہ نے ارادہ کیا اور اس چیز ( فارم) سے آدم وجود میں آئے اور ان کا جو ڑا پیدا کیا گیا ۔ سا ئنس والے ما نتے ہیں کہ حقیقت میں ایک ہی چیز تھی جس میں نر اور ما دہ دونوں کے جراثیم مو جو د تھے۔ لیکن یہ سب ایک مدبر ، حکیم اور خبیر نے کیا … آخر اس کی کیا توجیہ ہے کہ کیو نکر ایک چیز بنتی چلی گئی ۔ آپ سے آپ تو کچھ بھی نہیں ہوتا، ایک درخت کی شا خ بھی ایک خا ص سکیم کے تحت ظا ہر ہو تی ہے۔ ڈارون کی تقریر پر ہمیں اعتراض ہے اس میں جگہ جگہ معقولیت نہیں ہے۔ ( تا ہم ) جب ارتقائے آدم ہو گیا اور جب آدم وجود میں آگئے تو نسل اِنسانی وجو د پذیر ہو گئی ۔ اب وہ پہلا دور ختم ہو گیا۔ ایک فٹسٹ (Fittest)جب وجود میں آجائے تو دوسری چیز اس میں مدا خلت نہیں کر تی Survival of the Fittest (بقائے اصلح) کا یہی مطلب ہے کہ جب ایک Fittestو جود میں آجائے اپنے راستے پر چلے گا ۔
ہم ارتقا ء کے اصول کے بقائے اصلح Survival of the Fittestکے قائل ہیں ۔ یہ اصول ہے لیکن ڈارون کی توجیہ نہا یت احمقانہ ہے ۔ وہ ایک مصنف ہے ایک تقریر کر نے والا ہے اسے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۶۶)
اپریل ۱۹۳۸ء میں ’’بلبلِ نالاں ‘‘ کی روح ’’اجڑے گلستان‘‘سے پرواز کر گئی۔ اس المیہ نے امین احسن کو بے حد متاثر کیا۔ انھوں نے اس پر کچھ اس انداز سے لکھا کہ مولانا الطاف حسین حالی کے بارے میں بھی ان کے خیالات سے آگاہی حاصل ہوگئی :
’’یہ دور ہمارے عروج و اقبال کا دور نہیں ، بد بختی و ادبار کا دور ہے ۔ ہم پاتے کم ہیں کھوتے زیادہ ہیں ۔ اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاً تو پیدا نہیں ہوتے اور اگر دو چار پیدا ہوتے ہیں تو قبل اس کے کہ ان کے جانشین پیدا ہوں ، وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ کر چل دیتے ہیں ۔ اپنی قوم کے ان لوگوں کو گنیے جن کے دم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھر دیکھیے کہ ایک ایک کر کے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جا رہی ہے اور کوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھے۔ قوموں کے مرنے اور جینے کا ایک اصول ہے جو ہمارے موجودہ فلسفۂ قلت و کثرت سے بالکل مختلف ہے۔ ہم صرف سروں کو گننے کے عادی ہو رہے ہیں حالانکہ زندگی سروں سے نہیں بلکہ دماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔
غالباََ ۱۹۱۲ء یا ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے ۔ استاد مرحوم مولانا عبد الرحمٰن نگرامی ، طلبہ کی مجلس میں اقبال کا شکوہ پڑھ رہے تھے۔ میں اس مجلس میں موجود تھا۔ یہ پہلی مجلس ہے جس میں میں نے شعر کے اثر کو آنکھوں سے دیکھا ۔ آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک میرے دماغ میں شعر کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔ میں مجلس میں بیٹھا ہوا صاف سن رہا تھا کہ اقبال کے شعروں کی صدائے باز گشت در و دیوار سے بلند ہو رہی ہے اور آنکھوں سے علانیہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ آسمان سے کوئی چیز برس رہی ہے اور ساری زمین ہل رہی ہے ۔ میں نے آج تک کوئی مجلس اتنی پُر اثر نہیں دیکھی اور اس ایک مرتبہ کے علاوہ شاید کبھی میرے دل نے شاعر بننے کی آرزو نہیں کی ،لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی کیونکہ میں نے اقبال بننے کی آرزو کی تھی اور اقبال صرف ایک ہی ہوتا ہے۔…
شاید وکٹر ہیوگو نے کہا ہے ـزندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلہ کے لیے ہمیشہ مو ت کا انتظار کرتی ہے ۔ دنیا کے لیے ممکن ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہو ۔ لیکن اقبال کے لیے تاریخ نے اپنے اس کلیہ کو توڑ دیا۔ اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی، اب تاریخ کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کو محفوظ اور قلم بند کر لے۔…
مولانا حالی کی زبان بھی تیغ و سناں سے کم نہ تھی، ان کا تیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقاد کے ہر گوشہ کے لیے بے امان تھا۔ وقت کی سوسائٹی جن عناصر سے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کو چن کر حالی نے پکڑا اور قوم کی عدالت میں مجرم ٹھیرا کر ان کو بے دریغ سزا دے دی اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال و معتقدات کو ایک نئی راہ پر لگا دیا ۔ لیکن حالی کا کام آسان تھا۔ وہ قوم کو زمانہ کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کو
اور زمانہ اپنی تمام رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کے لیے آمادہ کار ہوچکا تھا۔ ان کو جو دیواریں ڈھانی تھیں و ہ خود متزلزل ہوچکی تھیں اور جو عمارت بنانی تھی اس کے لیے دست ِ غیب خود چونہ اور گارا مہیا کر رہا تھا۔ وہ خزاں کی بلبل ضرور تھے مگر موسم گل کی آمد آمدان کو شہ بھی دے رہی تھی۔…
اگر اقبال نہ پیدا ہوتے تو یقینا ہمارے کالجوں او ر یونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کو اس طرح مسخ کر ڈالتی کہ ان کے اندر دین و ملت کے لیے حمیت و غیرت کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا، وہ جس طرح ظاہر میں مسخ ہوگئے ہیں اس سے زیادہ ان کا باطن مسخ ہوجاتا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اقبال کو بھیجا جو معلوم نہیں کس طرح ظلمات کے ان توبر تو پردوں کو چاک کر کے ان کے دلوں میں بیٹھ گئے اور جب تک ان کی روحِ شعر اس کائنات کے اندر کار فرما ہے اس قوت تک ان شاء اللہ ان میں درد کی ایک کسک باقی رہے گی، اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھر پیدا ہونے لگیں ۔ماہنامہ الاصلاح،اعظم گڑھ، مئی ۱۹۳۸ئ۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۴۰۲-۴۰۶)
۸ ؍ جون ۱۹۹۰ء کی بات ہے۔امین احسن نے اپنی ہفتہ وار نشست میں اقبال پر بات کرتے ہوئے کہا:
’’اقبال بہت بڑے شاعر ہیں ، بہت اچھے شاعر ہیں ۔ انھوں نے شاعری کو عالمگیر بنادیا۔ ان کی شاعری کی زد سے کوئی چیز نہیں بچتی۔ جہاں چاہے چلے جائیں ۔ اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس لیے کہ شاعری کا ایک محدود مفہوم تھا۔ کوئی یار ہو، کوئی زلف ہو، سروقدہو، کچھ ہجر ہو، کچھ اس طرح کی چیزیں ۔ اقبال نے تو پورا جہان ہی بنا دیا۔ ہر چیز ان کے دائرے میں ہے۔ ہر جگہ نشانہ لگاتے ہیں ۔ اور یہ ہے کہ شاعری کا معیار گرنے نہیں پاتا۔ دوسرے یہ کہ ان کے اندر بڑائی ایک اور بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ شعر میں کچھ نہیں ہوتا، لیکن شکوئی الفاظ سے شعر ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض شعر بالکل غلط اور بے معنی ۔ لیکن وہ شکوئی الفاظ میں شعر بن گیا۔ ‘‘
ایک مرتبہ امین احسن سے یہ سوال دریافت کیا گیا کہ علامہ اقبال نے وحی کی نفی کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ وحی ایک وجدانی کیفیت ہوتی ہے، جب کہ اسلامی نظریہ یہ ہے کہ وحی فرشتوں کے ذریعے نازل ہوتی ہے۔ وضاحت فرمائیں ۔
امین احسن نے اس کا جواب کچھ انداز سے دیا کہ فارابی اور دیگر مسلم فلسفیوں کے بارے میں بھی ان کا نقطۂ نظر واضح ہوگیا۔علامہ اقبال کا کلام ، جب کبھی مجھے فرصت ہوتی ہے، میں پڑھتا ہوں ۔ جہاں تک میں ان سے واقف ہوں مجھے ان کی باتیں معقول معلوم ہوتی ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے کلام میں دین اور حکمت کی باتیں پائی جاتی ہیں ۔ اس کلام میں مجھے کہیں ایسی فضول بات نظر نہیں آئی، جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ باقی رہ گئے ان کے خطبات تو ان میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جو میرے نزدیک قابل اعتراض ہیں لیکن ان میں بھی یہ بات میں نے نہیں پڑھی۔ ہو سکتا ہے کسی نے غلط روایت کردی ہو یا کہیں علامہ صاحب نے فلاسفہ کا کوئی خیال نقل کیا ہو اور وہ خود ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو۔
آپ نے جو خیال نقل کیا ہے یہ فارابی نے پیش کیا ہے۔ فارابی کے نزدیک وحی اندر کی کیفیات کا ایک بخار ہوتا ہے۔ میں فارابی کو لغو قسم کا آدمی سمجھتا ہوں ۔ فارابی اور اس طرح کے دوسرے فلسفی صرف فلسفۂ یونان کے ناقل تھے۔ یہ قابل ذکر لوگ نہیں ہیں ۔ یہ اسلامی فلسفہ کو تو کیا سمجھتے ، یونانی فلسفہ کے بھی وہ کچھ غلط ناقل ہی ہیں ۔ یہی حال ہمارے متکلمین کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں فلسفہ کی بحثوں میں ان نام نہاد اسلامی فلاسفہ کا حوالہ نہیں دیا کرتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ،فروری ۱۹۸۹ء، ۴۵)
امین احسن مولانا محمدعلی جوہر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ماہنامہ ’’میثاق‘‘ میں ’’مولانا محمد علی رحمۃ، مدرستہ الاصلاح میں ‘‘کے زیر عنوان خود لکھتے ہیں :
’’ فاضل محترم مولانا رئیس احمد جعفری نے مجھ سے فرمایش کی ہے کہ مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق میں چند تاثرات قلم بند کر دوں ۔ میں اس فرمایش کی تعمیل کے لیے آمادہ تو ہو گیا ہوں لیکن یہ بات مضمون کے پہلے مرحلہ ہی میں واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے مولانا سے صرف نسبت غائبانہ عقیدت ہی کی حاصل ہے ، ان سے ملنے جلنے کے مواقع تو درکنار ان کو دور دور سے دیکھ لینے کی سعادت بھی شاید دو تین بار سے زیادہ مجھے حاصل نہیں ہوئی ہے۔ تحریک خلافت کے شباب کے زمانے میں ،سن ٹھیک طرح یاد نہیں (غالباً ۱۹۲۱ء یا ۱۹۲۲ء میں ) مولانا مدرستہ الاصلاح (سرائے میر ، اعظم گڑھ ، یو پی بھارت) کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے۔ میں اس وقت مدرستہ الاصلاح میں آخری درجوں کا طالب علم تھا۔ اس جلسہ میں مجھے یاد ہے کہ مولانا کا نام سن کر مدرستہ کے وسیع میدان میں بے پناہ خلقت جمع ہوئی ۔ مولانا کے ساتھ وقت کے بعض دوسرے اکابر و مشاہیر بھی تشریف لائے ، میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی کسی جلسہ میں کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے ، لیکن اس جلسہ میں وہ بھی شریک ہوئے ۔
بڑا عظیم اجتماع تھا ، میں نے اس سے پہلے اس سے بڑا اجتماع کوئی نہیں دیکھا تھا، جلسہ کھلے میدان میں تھا۔ ہوا نہایت تند چل رہی تھی ۔ اس زمانہ تک لاؤڈ سپیکر کا رواج نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے اندیشہ تھا کہ مولانا کی تقریر سنی نہ جا سکے گی جس سے جلسہ میں انتشار پیدا ہو جائے گا ۔ لیکن جب مولانا تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے رعب و دبدبہ نے ہر شخص کو اس طرح مرعوب و مسحور کر لیا کہ جو شخص جس جگہ کھڑا یا بیٹھا تھا وہیں پیکر تصویر بن کر رہ گیا…مولانا کی بلند اور پرشکوہ آواز کی تندی اور مجمع کی غیر معمولی وسعت کے باوجود ہر گوشہ میں پہنچنے لگی ۔ اور تقریر کے اثر کا عالم یہ ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک آنکھ بھی ایسی نہ تھی جو رو نہ رہی ہو۔ یہ مجمع بالکل دیہاتیوں کا تھا۔ اس میں پڑھے لکھے لوگ بہت تھوڑے سے تھے، ان دیہاتیوں کے لیے مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ جیسے شخص کی کسی تقریر کو سمجھنا کچھ آسان کام نہیں تھا۔ لیکن ان کی تقریر میں ایمان و یقین کی ایسی گرمی اور سوز ودرد کی ایسی گھلاوٹ تھی کہ اس سے متاثر ہونے کے لیے شاید اس کو زیادہ سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی ۔
اس موقع کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے ، جو قابل ذکر ہے ۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر جب ختم ہو گئی تو ہم نے دیکھا کہ مجمع کے ایک کنارے سے ایک بوڑھادیہاتی اٹھا اور مجمع کوچیرتا پھاڑتا سیدھا اسٹیج کی طرف چلا۔ اگرچہ اسٹیج تک پہنچنے میں اس کو سخت مزاحمتوں سے سابقہ پیش آیا لیکن وہ اپنی دھن کا ایسا پکا نکلا کہ اس نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ کر ہی دم لیا۔ اورپہنچتے ہی ان کی ڈاڑھی پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص لہجے میں بولا کہ :
’’محمد علی جو تو نے کیا وہ کسی سے نہ ہو سکا ۔‘‘ یہ کہہ کر جب وہ واپس مڑا تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
’’اس طرح کی داد بھی آپ کے سوا مجھے کسی اور سے نہیں ملی ۔‘‘
اس موقع پر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت کا ایک او رپہلو میرے سامنے اپنے استاذ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے تاثرات سے واضح ہوا۔ اس جلسہ میں تقریر کر کے ، مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ اعظم گڑھ شہر کے لیے روانہ ہو گئے جہاں شب میں ان کو ایک جلسۂ عام میں تقریر کرنی تھی ، وہ گئے تو ان کے ساتھ ’مدرستہ الاصلاح‘ کا سارا جلسہ بھی چلا گیا یہاں تک کہ خود مولانا فراہی بھی جو مدرسہ کے ناظم تھے ان کی تقریر میں شرکت کے لیے ان کے ساتھ چلے گئے ۔ انھوں نے چلتے وقت ہمیں یہ ہدایت کی کہ کچھ کٹے ہوئے کاغذ اور چند اچھی پنسلیں ان کے سامان میں رکھ دی جائیں تاکہ وہ اعظم گڑھ میں ہونے والی مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر نوٹ کر سکیں ۔ یہ معاملہ میرے لیے نہایت حیرت انگیز تھا ، میں اس بات سے تو واقف تھا کہ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کی تقریر سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا اس درجہ میں متاثر ہونا کہ وہ خود اس کے نوٹ کرنے کا اہتمام کریں میرے تصور سے مافوق تھا۔ مولانا نہ تو جذباتی آدمی تھے نہ کوئی سیاسی آدمی ۔ وہ ایک محقق ایک فلسفی اور ایک حکیم تھے ، وہ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا وعظ و تقریر کے جلسوں میں خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ، کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے لیکن مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر میں شریک ہونے کے لیے نہ صرف یہ کہ سفر کے لیے آمادہ ہوگئے بلکہ ان کی تقریر کے نوٹ لینے کے لیے یہ اہتمام فرمایا ۔ مولانا کے اس اہتمام نے میرے دل میں مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت بہت بڑھا دی ۔ میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد علی ایک عظیم سیاسی لیڈر ہی نہیں بلکہ وہ علمی و عقلی اعتبار سے بھی ایسا بلندپایہ آدمی ہیں کہ مولانا فراہی جیسے لوگ بھی ان کی تقریروں کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ ان کے نوٹ لیتے ہیں ۔
اس واقعہ کے دوسرے ہی دن مجھ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ مولانا محمد علی کی تقریر میں وہ کیا چیز تھی جس سے استاذ مرحوم اس درجہ متاثر ہوئے … دوسری صبح کو جب مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ پر واپس آئے تو منتظمین میں سے بعض نے ان سے دبی زبان سے یہ شکایت کی کہ مولانا محمد علی کے ساتھ ان کے چلے جانے کے سبب سے خود مدرسہ کا جلسہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ مولانا نے اس کا جواب یہ دیا کہ ’’جو کام کی باتیں تھیں ، وہ محمد علی نے اپنی تقریر میں کہہ دی تھیں ، اس کے بعد کسی اور تقریر کی اب کیا ضرورت باقی رہی تھی۔‘‘
مولانا نے یہ بات اس اعتماد اور یقین کے ساتھ فرمائی کہ ہر شخص پر یہ بات واضح ہو گئی کہ مولانا کو مدرسہ کے جلسہ کے درہم برہم ہو جانے کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے ، ان کے نزدیک سننے کی باتیں وہی تھیں جو مولانا محمد علی نے کہہ دی تھیں اور لوگوں نے وہ سن لی تھیں ، اس کے بعد جلسہ کا جاری رہنا ان کے نزدیک گویا اضاعت وقت کے حکم میں تھا۔ مولانا نے اس کے بعد متعدد بار مولانا محمد علی کی تقریر پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے یہ بھی کہا کہ :
’’محمد علی کی تقریر میں ایمان ہوتا ہے ۔‘‘
ایک مرتبہ بطور لطیفہ کے یہ بھی فرمایا کہ :
’’چونکہ محمدعلی بہت ذہین آدمی ہیں اس وجہ سے لوگوں کو قرآن کے نظم کی طرح ان کی تقریروں اور تحریروں کے نظم کو سمجھنے میں بھی بسا اوقات زحمت پیش آتی ہے ۔ ‘ ‘
پھر فرمایا کہ :
’’کچھ اسی قسم کا حال مولانا محمد علی قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی تقریروں اور تحریروں کا بھی ہے۔‘‘ (جولائی ۱۹۶۴ء)
ایک مرتبہ کراچی میں ایک رسالے نے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں نہایت توہین آمیز مضمون شائع کیا تو امین احسن نے لکھا:
’’مولانا آزاد میں جو بڑائیاں اور خوبیاں تھیں وہ یہ نہیں تھیں کہ وہ بہت بڑے باپ کے بیٹے یا کسی بہت بڑی درسگاہ سے نسبت رکھنے والے تھے بلکہ یہ ساری خوبیاں ان کی ذاتی خوبیاں تھیں اور وہ اتنی شاندار تھیں کہ ان کے بدتر سے بدتر حاسد بھی ان کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ مولانا آزاد نے دوسروں کی نسبت سے خود شرف حاصل نہیں کیا بلکہ اپنی نسبت سے دوسروں کو شرف بخشا۔…
ان کی طبیعت میں بڑی بلندی تھی اور اس بلندی کی وجہ سے وہ لوگوں کی حاسدا نہ باتوں کی کبھی پروا نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عظمت و شہرت عطا فرمادی تھی کہ ان کو اپنی شہرت و عظمت کی تعمیر کے لیے دوسروں کی شہرت پر حملہ کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی۔…مولانا آزاد کے بعض افکار و نظریات سے ہمیں بھی اختلاف ہوا ہے اور ہم نے اپنے اس اختلاف کا اپنی تحریروں میں اظہار بھی کیا ہے لیکن اس اختلاف کے باوجود ہماری نظروں میں ان کی عزت و عظمت کبھی کم نہیں ہوئی۔ ماہنامہ میثاق لاہور ۔اپریل ۱۹۶۰۔‘‘(مقالات اصلاحی ۱/ ۴۰۹-۴۱۰)
لاہور سے جناب شورش کاشمیری کے نام ۲۲؍ جنوری ۱۹۷۳ء کو امین احسن ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’مو لا نا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کے بعض مبا حث اتنے قیمتی ہیں کہ وہ دوسروں کے ہزاروں صفحات پر بھاری ہیں ۔میں نے بھی اپنی کتاب میں ان سے استفادہ کیا ہے اور ان کا حوالہ دیا ہے۔مثلاً ذوالقرنین کی بحث(اس وقت کتاب میں یہ حوالہ نہیں ہے۔مسودہ میں حاشیہ پر تھا۔ معلوم ہوتاہے کتابت سے رہ گیا۔مدیر) اورمتعدد مباحث نہایت قیمتی ہیں ۔ مجھے مو لا نا ؒ کے بعض نظریا ت سے اختلا ف ہے اور میں نے نا م لیے بغیر ان پر تنقید بھی کی ہے لیکن اس کے با و جو د میر ی نظر میں ان کی اور ان کی کتا ب کی بڑی عظمت ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ ء، ۲۶)
ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی ،امین احسن کے ساتھ مولانا حسین احمد مدنی اور قائد اعظم کے بارے میں ایک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’س۔ مو لانانجم الدین اصلا حی صا حب مجھے آپ کا ایک خط دکھا کر دیر تک آپ کا ذکر کر تے رہے اور آپ کے دیدار کے لئے روتے رہے؟
ج۔ ان سے میرا سلا م کہنا ، میرا بھی ان سے ایک خا ص تعلق ہے۔ ایک زما نے میں انہوں نے مجھ سے با ر ہا اپنی کتا ب پر کچھ لکھنے کو کہا لیکن میں لکھنے پر اس خیا ل سے آمادہ نہ ہوا کہ اس میں انھوں نے مو لا نا حسین احمد مدنی ؒ کی سیا ست اور تصوف سے بحث کی ہو گی ۔ مجھے ان کی سیاست سے اختلاف تو ہے ہی، تصوف کا میں سرے سے قا ئل ہی نہیں ہوں ۔ تصوف دین اسلا م کے متوازی ایک دین ہے۔ ایک مر تبہ جب مو لا نا حسین احمد مدنی ؒ مدرستہ الا صلا ح آئے تو میں انھیں رخصت کر نے کے لیے اسٹیشن تک گیا ۔ اس دوران سیا ست ہی مو ضو عِ بحث رہی۔ میں نے مو لا نا سے کہا کہ یہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے مسلما نوں پر اچھے اثرات نہیں پڑیں گے۔ اس کے جواب میں مو لا نا نے فر ما یا کہ تم مجھے پہلے انگریزوں کو بھگا لینے دو، اس کے بعد سا رے مسا ئل طے کروں گا ۔ لیکن میں نے مو لا نا سے کہا کہ آپ کو مسلم لیگ کی یہ مخالفت زیب نہیں دیتی۔ محمد علی جنا ح ایک صا حب ِبصیرت انسان ہیں ، ان کی خد مات مسلمانوں کے لئے بہت ہیں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۵)
۱۹؍ اگست ۱۹۸۹ء کی بات ہے۔امین احسن نے اپنی ہفتہ وار نشست میں اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’ مولانا حسین احمد صاحب ایثار پیشہ ہیں ، بہت قربانیاں کی ہیں ،ایک دفعہ میں نے ان کو مشورہ دیا زریں ۔ میں نے کہا مولانا جناح کا مقدمہ بہت مضبوط ہے۔ یہی الفاظ تھے میرے۔ وہ جس چیز کو اب لے کے اٹھے ہیں اس کی مضبوطی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اب آپ لوگوں کو مسلمانوں کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل پیش کرنا پڑے گا۔ اگر نہیں پیش کریں گے تو پھر وہ بہا لے جائیں گے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ امیر المومنین(مولانا مودودی) کی کیا ، کسی کی بھی جناح کو ضرورت نہیں تھی۔ میں نے یہ بھی کہا کہ مولانا مشکل ایک یہ ہے کہ دلیل تو پیدا کرتے ہیں جواہر لعل نہروصاحب، گاندھی، پٹیل صاحب، جناح کو تو دلیل کی کوئی ضرورت نہیں ، دلیل تو ان کے گھر ہی کی ہے اور وہ اپنے مقدمے کو بہت خوبی سے پیش کر رہے ہیں ۔ اور انھوں نے ہموار کر لیا ہے ۔ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ لوگوں کو بھاگ جانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مسلمانوں کے مسئلے کا کوئی حل پیش کرنا چاہیے تو مولانا کہنے لگے کہ انگریزوں کو جانے دو، ہم ان سے نمٹ لیں گے۔‘‘
عبد الرزاق صاحب اپنی ۲۴ ؍ستمبر ۱۹۹۳ء کی ڈائر ی میں لکھتے ہیں :
’’دوران گفتگو سرسید،اقبال اور قائد اعظم کا ذکر بھی ہوااور مولانا نے ان کے قومی کردار کی تعریف کی ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۶)
مئی ۱۹۶۴ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کا انتقال ہوا۔ اس موقع پر امین احسن نے ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہارکچھ اس طرح کیا کہ گاندھی کے بارے میں ان کی راے بھی سامنے آگئی۔ انھوں نے لکھا:
’’بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی موت ایک عظیم حادثہ ہے ۔ اگرچہ وہ خدا اور مذہب کے منکر تھے لیکن اپنی قوم اور اپنے وطن کے سچے پرستار تھے اور اس معاملے میں و ہ وفاداری اور پختہ زناری کی مثال قائم کر گئے۔ دنیا میں وزیر اعظم بہت گزرے ہیں اور بہت گزریں گے لیکن بھارت جیسے وسیع الاطراف اور مختلف الاقوام ملک میں ہر دل عزیزی کا جو مقام جواہر لال کو حاصل ہوا اس کی مثال مشکل سے مل سکے گی۔ یہ ماننا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے طویل دور حکومت میں اپنی قوم کے جسموں ہی پر نہیں بلکہ ان کے دلوں پر بھی حکومت کی ہے اور حکومت درحقیقت وہی ہے جو دلوں پر ہو!
پنڈت جی کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام اقتدار آئی ہے ہماری دلی آرزو ہے کہ وہ پنڈت جی کے نا تمام کاموں کو تکمیل تک پہنچا سکیں ۔پنڈت جی جمہوریت کے بڑے دلدادہ تھے اور اس میں شبہ نہیں کہ وہ اس کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔…
پنڈت جی سیکولرزم کے بھی بڑے دلدادہ رہے لیکن اس میں ان کو شدید ناکامی سے سابقہ پیش آیا۔ رجعت پسند عناصر نے اس سلسلے کی ان کی تمام مساعی کو ناکام بنا دیا اور پنڈت جی ان کے مقابل میں وہ زور نہ دکھا سکے جس کی ان سے امید تھی۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمیں ان سے بڑی مایوسی ہوئی، اس کے وجوہ سے بحث نہیں ۔ وجوہ جو کچھ بھی ہوں بہر حال ہم یہ تصور نہیں سکتے تھے کہ ان کے دور اقتدار میں مسلمانوں کا اس طرح شہر شہر میں قتل عام ہوگا جس طرح ہوا اور پنڈت جی اس کو اس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیں گے جس طرح انہوں نے برداشت کرلیا۔ ہمیں ان سے گاندھی جی کی جرأت کی امید تو نہیں تھی لیکن اس کمزوری کی بھی امید نہیں تھی جو ان سے ظاہر ہوئی۔ اگر وہ اپنے دور اقتدار میں صرف حکومت کے کارندوں اور اپنی پولیس ہی کو سیکولر ذہن کا بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوتے تو بھارت میں مسلمان خود اپنی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور اس طرح کے واقعات ہرگز نہ پیش آتے جن کو دیکھ کر بھارت کے مسلمان تو درکنار خود انسان کے مستقبل کی طرف سے مایوسی ہو جاتی ہے ۔ پنڈت جی کے جانشینوں سے ہمیں امید کہ وہ اس مسئلہ میں پنڈت جی کی نہیں بلکہ مہاتما گاندھی جی کی پیروی کریں گے اور سروے کر کے اپنے ملک کے ناموس کو وحشیوں اور درندوں سے بچانے کی کوشش کریں گے ۔ ہم ان لوگوں میں نہیں ہیں جو یہ رائے رکھتے ہوں کہ جو کام پنڈت جواہرالال نہرو سے نہ ہو سکا وہ لال بہاد ر شا ستری کیا کرسکیں گے۔ کرسکنے اور نہ کرسکنے کا سوال نہیں ہے۔ سوال صرف کرنے کے سچے اور پکے ارادے کا ہے۔ ہمیں تو اگر یہ نظر آجائے کہ بھارت میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کو انسانی اقدار گاندھی جی کی طرح عزیز ہیں تو ہمارے اطمینان کے لیے یہ بس ہے ۔ اس سے بحث نہیں کہ ان کی جان بازیوں کے نتائج کیا نکلتے ہیں ۔
کشمیر کے مسئلہ میں بھی پنڈت جی کی روش ہمارے لیے نہایت حیران کن رہی۔ اس مسئلہ میں انہوں نے حیرت انگیز پریشان خیالی بلکہ نہایت مایوس کن ضد کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ان کے اور ان کے ملک کے وقار کو بڑا نقصان پہنچا ۔ لیکن اب زندگی کے آخری ایام میں غالباً ان پر خاص اس معاملے میں جذباتیت کی جگہ حقیقت پسندی غالب آگئی تھی ۔ جس کی وجہ سے انہوں نے شیخ عبد اللہ کو رہا کر کے اس کے طے کرنے کی راہ کھولی۔ اگرچہ افسوس ہے کہ اب وہ اس دنیا پر نہیں رہے لیکن ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اس سے اس معاملے کے طے ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی بلکہ شاید اس کے لیے زیادہ سازگار فضا پیدا ہو گئی ہے ۔ خدا کرے ہمارا یہ اندازہ صحیح نکلے اور بھارت اور پاکستان کے لیڈر اور شیخ عبداللہ اس قضیے کو طے کرنے میں کامیاب ہوجائیں ! اسی قضیہ کے طے ہونے پر پاکستان اور بھارت کی دوستی کا انحصار ہے اور اسی دوستی پر دونوں کی ترقی کا دارومدار ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ صدر ایوب اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری دونوں اس دوستی کی قدرو قیمت سمجھتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ ان دونوں لیڈروں کے ذریعہ سے پاکستان اور بھارت کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوگا اور شیخ عبداللہ اس دور کے فاتح باب قرار پائیں گے! ماہنامہ میثاق لاہور۔جولائی ۱۹۶۴۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۴۲۸-۴۳۰)
ڈاکٹر زاہد منیر عامر عبید اللہ سندھی کے بارے میں امین احسن کے ساتھ اپنی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مو لا نا سندھی اپنے مخصوص زاویۂ نظر کے با عث اپنے طبقے کے دوسرے علما ئے کرام سے الگ الگ نظر آتے ہیں ۔ میں نے ان کے مسلک کی با بت مو لا نا اصلا حی کی رائے جا ننا چاہی تو مو لا نا نے پورے وثوق سے کہا :
’’مو لا نا عبید اللہ صا حب کا وہی مسلک تھا جو محققین ِما لکیہ وا حناف کا تھا۔ ‘‘ اس کے بعد گفتگو ذاتی روابط کی طرف چل نکلی ۔مو لا نا نے بتا یا کہ مو لا نا عبید اللہ صا حب میر ے استا د کے قریبی دوست تھے ۔ مجھے اتنا معلو م ہے کہ مو لا نا عبید اللہ صا حب کا ذکر وہ اپنے بہت محبو ب دوستوں میں کر تے تھے اس لیے میں بھی مو لا نا عبید اللہ صا حب کا بہت احترام کر تا تھا ۔
مو لا نا سندھی کے سوانح سے واقفیت رکھنے والے اصحاب جا نتے ہیں کہ وہ ۱۹۱۵م سے بطریق ہجر ت ہندوستا ن سے غیر حا ضر ہو چکے تھے یو ں کہ کا بل ، روس اور ترکی کی جلا وطنی کے بعد اگست ۱۹۲۷ میں حجا ز چلے گئے جہاں سے وہ مارچ ۱۹۳۹ میں واپس ہندوستا ن آئے۔
مو لا نا اصلا حی نے اپنے استاد گرامی کے سا تھ مو لا نا سندھی کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے بتا یا کہ جس زما نے میں مو لا نا سندھی مکہ میں تھے وہا ں سے ہر سا ل حج کی تکمیل پر ہندوستا ن آنے والوں کے ہا تھ وہ مو لا نا فراہی کے لیے تحا ئف وغیرہ بھیجا کر تے تھے۔ مو لا نا نے یہ بھی بتا یا کہ مو لا نا فراہی کے سا تھ میرا زما نہ تو ۱۹۲۵ م سے ۱۹۳۰ تک کا ہے (اور یہ سا را زما نہ مولانا سندھی کی جلا وطنی کا ہے ۔ اس لیے یقینی طور پر مو لا نا اصلا حی ، مو لا نا سندھی اور مولا نا فراہی کی کسی ملا قا ت کے شا ہد نہیں ہو سکتے ۔ مو لا نا سندھی ما رچ ۱۹۳۹ م میں وطن واپس آئے جبکہ مولانا فراہی نومبر ۱۹۳۰ م میں انتقال فر ما چکے تھے۔ تا ہم انھوں نے اپنے سا تھ مولانا سندھی کی ملاقاتوں کے احوال بیا ن کیے اور بتا یا کہ مو لا نا عبید اللہ صاحب میرے سا تھ بہت شفقت فرماتے تھے۔ مو لا نا فراہی کے بعد جب بھی مدرستہ الاصلا ح سرائے میر آتے تو میرے ہی کمرے میں ٹھہرتے تھے۔ علمی معا ملا ت میں بہت وسعت رکھتے تھے۔ ایک مر تبہ انھوں نے کوئی مضمون لکھا جس میں حدیث سے متعلق مو لا نا فراہی کے نقطۂ نظرکے حوالے سے کچھ اشتبا ہ پیدا ہو گیا ۔ مجھ سے سید سلیمان ندوی مر حوم نے حقیقت ِحا ل واضح کر نے کی فرمائش کی، چنا نچہ میں نے سید صا حب کی فر ما ئش پر معارف اعظم گڑھ میں ’’مو لا نا فراہی اور علم ِحدیث‘‘کے موضو ع پر مضمون لکھا۔
یہ مضمون کو ئی ۱۹۳۵ - ۱۹۳۶میں شا ئع ہو ا۔ مو لا نا عبید اللہ صا حب نے اس مضمون کا مطالعہ بھی کیا اور تذکرہ بھی اور مجھ سے انہوں نے کہا : مجھے افسوس ہے کہ میرے محبو ب دوست کے متعلق میرے مضمون سے غلط فہمی پیدا ہو ئی ۔تم نے اچھا کیا جو اسے صا ف کر دیا ۔
مو لا نا نے یہ الفاظ ادا کر نے کے بعد پورے تیقن سے کہا :یہ الفا ظ مولا نا عبید اللہ صاحب کے ہیں ۔
یہا ں اس با ت کا تذکرہ دلچسپی سے خا لی نہ ہو گا کہ مو لا نا سید سلیما ن ندوی مر حوم ، مولانا سندھی کے نا قدومجیب تھے۔ مو لا نا سندھی کی کتاب’’مو لانا عبید اللہ سندھی کی کتا ب ’’شاہ ولی اللہ اور ان کی سیا سی تحر یک ‘‘اور پر وفیسر سرور صاحب کی کتا ب ’’مو لا نا عبید اللہ سندھی حا لا تِ زندگی ، تعلیما ت ، سیا سی افکار ‘‘پر مسعود عا لم ندوی صا حب کی تنقید ا نھوں نے ہی معا رف میں شائع کی جس کی ’’تمہید ‘‘میں بحیثیت ِمدیر سید صا حب مر حو م نے لکھا کہ مو لا نا سندھی کو بہت سے خیا لا ت میں آزاد ہیں مگر مقلدیت کے با ب میں ان کا تشدد علیٰ حالہٖ قائم ہے ۔بعد ازاں جب یہ تنقید کتا بی صورت میں شا ئع ہو ئی تو اس پر سید صا حب مر حوم نے ایک مفصل مقدمہ بھی لکھا جس میں مو لا نا سندھی کے تصورِ وطن کو ہندی عصبیت اور شا ہ ولی اللہ صا حب کے حوالے سے ان کے خیا لا ت کو ابہا م واجما ل اور اجنبیت کامظہر قرار دیتے ہو ئے کڑی تنقید کی۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۶۲-۶۳)
ڈاکٹر شہزاد سلیم نے امین احسن کی صحبت سے بہت فیض پایا ہے ،وہ بتاتے ہیں :
’’آپ مو لا نا شبلی نعما نی کی شا عری سے بہت متا ثر تھے ۔ فر ما تے تھے کہ مجھے ایک زما نے میں شبلی کا بیشتر کلا م یاد تھا ۔ ان کی مشہور نظم ’’شہرآشوب ِ اسلا م ‘‘کے یہ اشعار ایک دن آپ بڑے پُر سوز لہجے میں سنا تے رہے:
حکو مت پر زوال آیا تو پھر نام و نشان کب تک
چراغ کشتۂ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک
قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے
فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک
مراکش جا چکا ، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض خستہ حال کب تک
۱۹۱۲ء میں مچھلی با زار کان پور کی مسجد کے ا نہدام پر مو لا نا شبلی کے کہے گئے یہ اشعار بھی ایک دن آپ کی زبا ن سے ہم نے بڑے درد بھر ے لہجے میں سنے:
عجب کیا ہے کہ جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جا نیں دی
کہ بچے ہیں سویرے ان کو سو جانے کی عادت ہے
شہیدانِ وفا کی خاک سے آتی ہیں آوازیں
کہ شبلی بمبئی میں رہ کہ محروم سعادت ہے
ایک مجلس میں آپ نے مو لا نا شبلی کے اس شعر کو ان کے بہتر ین فا رسی اشعار میں قراد دیا :
شبلی نامہ سیاہ را بجزائے عملش
پا پریدن و صدا خواست کہ سرمی باید
علا مہ اقبا ل کی شا عر ی کا ایک مر تبہ ذکرہو ا ، توان کے یہ اشعار ایسے اثر انگیز انداز میں پڑھے کہ سب شرکا ئے محفل سر دھننے لگے :
وہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوئی ہے بندۂ مومن کی اذان سے پیدا
اما م ابن تیمیہ کے با رے میں دوران درس میں ایک دن یہ کہنے لگے کہ اسلا می تا ریخ میں کم ہی ایسے لو گ پیدا ہوئے کہ جن کی قدیم آسما نی صحف پرا تنی نظر ہو جتنی اما م صا حب کی تھی۔
سرسید کی بہت سے آراسے ان کو اختلاف تھا ، مگر ان کے اخلاص اور قومی درد کے وہ بہت قائل تھے۔ با رہاان کی زبا ن سے سر سید کے با رے میں شبلی کے یہ اشعار ہم نے سنے:
وہ ریش دراز کی سپیدی
چھٹکی ہوئی چاندنی سحر کی
پیری سے کمر میں اک ذرا خم
توقیر کی صورت مجسم‘‘
(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۱۳۶- ۱۳۸)
۲۵ ؍ نومبر ۱۹۸۹ء کو امین احسن نے اپنی ہفتہ وار نشست میں اس حوالے سے مزید گفتگوکی :
’’مولانا شبلی بہرحال افکار کے پکے تھے غور کرنے والے۔ اگرچہ وہ اصل میں مورخ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ متعلم بھی تھے، ادیب بھی تھے، شاعر بھی تھے۔ بے نظیر آدمی تھے۔ ذہین لوگوں میں ایک بہت اچھی مثال تھے۔ میرے نزدیک غالب،حالی، شبلی اور اقبال شاعری میں یہ جو لوگ ہیں بہت چوٹی کے ہیں ۔’’ اور اسی موقع پر شبلی ،فراہی اور ابوالکلام کا تقابل کرتے ہوئے قیمتی معلومات فراہم کیں :
’’مولانا حمید الدین صاحب مولانا شبلی کے شاگرد رشید ہیں ۔ ابتدائی عربی کی تعلیم انھوں نے انہی سے حاصل کی تھی۔ یہی زبان تو اصل چیز تھی۔ باقی رہ گیا کہ مولانا شبلی اور مولانا حمیدالدین کے درمیان قدر مشترک کیا تھا۔ مولانا حمید الدین کے ہاں قرآن اصل چیز تھا اور شبلی کے ہاں تاریخ۔ دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ۔ دوسرے یہ ہے کہ مولانا شبلی بہرحال جو کچھ تھے وہ مورخ بھی تھے، عالم بھی تھے، شاعر بھی تھے، دین دار۔ مولانا حمید الدین بالکل متوحش، سخت، دین دار،پیدائشی دین دار جس کو کہتے ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ، لیکن نہایت ہی اعلیٰ درجے کے غور کرنے والے۔ ہر چیز کا فیصلہ قرآن کی کسوٹی پر کرتے تھے۔
شاعر وہ بھی تھے اور شاعر یہ بھی تھے۔ لیکن مولانا حمید الدین صاحب اپنی شاعری میں بھی بالکل نمایاں تھے ممتاز۔ یعنی شاعری میں بھی جو وہ خیالات ظاہر کرتے تھے، صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کا باطن جھلک رہا ہے۔ فارسی اور عربی زبان لکھتے تھے۔ لیکن شاعری کا انداز یہ ہوتا تھا کہ ہر شعر سے آپ سمجھ جائیں کہ مولانا فراہی کا شعر ہے۔
ابوالکلام جو ہیں مولانا شبلی کے شاگرد تھے۔ شاگرد اس معنی میں کہ صحبت یافتہ۔ ابوالکلام کسی سے پڑھتے نہیں تھے ۔ وہ تو پڑھاتے تھے۔ لیکن وہ بہت ذہین آدمی تھے۔ مولانا شبلی کی صحبت میں رہتے تھے ۔ ان کی صحبت میں فارسی کا ذوق، ادب کا ذوق اور لکھنے کا ذوق یہ واقعہ ہے کہ ان سے پیدا ہوا۔ لیکن ان کی اپنی فطری صلاحیتیں تھیں ۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہے وہ ان کا اپنا جوہرذاتی ہے۔ لیکن مولانا شبلی کے صحبت یافتہ ضرور تھے۔ اور ندوہ سے جو رسالہ نکلتا تھا ان کے سب ایڈیٹر بھی رہے لیکن اس کے بعد وہ دور بھی آیا ہے کہ جب وہ خود بتاتے تھے کہ کسی کے شاگرد نہیں رہے۔ اور اسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس کے بعد وہ سب سے کٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرے۔ مولانا شبلی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی صحبت میں بیٹھ کے ابوالکلام جیسا آدمی بنا۔ یہ بات بھی تھی کہ مولانا ابوالکلام جو ان کی صحبت میں رہے تو یہ دلیل تھی اس بات کی کہ مولانا شبلی بہت بڑے آدمی تھے۔ اس لیے کہ ابوالکلام کسی کی صحبت کو گوارا کرے، یہ ان سے بعید تھی۔ اس لیے کہ ان کے اندر فطری صلاحیتیں غیر معمولی تھیں ۔ غیر معمولی خطیب جس کو کہتے ہیں یعنی ابوالکلام صاحب جو ہیں متوسط درجے کے خطیب نہیں تھے۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں نے ان کی تقریر نہیں سنی۔ لیکن ان کی تقریر سننے کی مجھے ضرورت نہیں تھی۔ یہ واقعہ ہے کہ میں ان کی تحریروں کا عاشق زیادہ ہوں ۔‘‘
۱۹۶۳ء میں حسین شہید سہروردی کی وفات پر امین احسن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
’’ہمار ی قوم کے بڑے پختہ کار، ذہین اور جری لیڈر تھے۔ اس ملک میں جمہوریت کے نصب العین کے لیے جو کوشش انہوں نے کی اور جس عزم و ہمت کے ساتھ حمایت کی، جمہوریت کے قدر دان اس کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ہماری قوم میں صحیح معنوں میں عوامی لیڈر اب وہی اکیلے رہ گئے تھے ۔ اب اگرچہ حالات نے ان کو کچھ عرصہ سے عملًا ملکی معاملات سے بہت کچھ الگ کر دیا تھا تاہم اس علیحدگی میں بھی وہ بہتوں کے لیے مرجع امید و اعتماد تھے۔ ان کے اٹھ جانے کے بعد اب ہماری قوم میں ان کے درجے کا کوئی عوامی لیڈر باقی نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی لغزشوں سے درگذر فرمائے اور ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔ ماہنامہ میثاق لاہور، دسمبر ۱۹۶۳ئ۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۴۲۶)
۱۹۶۳ء میں مولوی تمیز الدین خان کے انتقال پر امین احسن نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیان کئے:
’’مولوی تمیز الدین خان صاحب مرحوم سے ہمیں شخصا ًملنے کا تو کبھی موقع نہیں ملا لیکن ان کے غیر معمولی او صاف کی وجہ سے ان کے لیے ہمارے دل میں ہمیشہ بڑا احترام رہا ۔ ہمارے ملک کے صف اول کے لیڈروں میں وہ واحد شخص تھے جو عملاً، قولاً، صورتاً ہر اعتبار سے مسلمان تھے۔ اپنے عقائد اور مسلک کے لحاظ سے بھی ہمیں جہاں تک علم ہے وہ نہایت صحیح العقیدہ، شرک و بدعت کے تمام شوائب سے بالکل پاک تھے۔ بڑوں میں ، خصوصاً چوٹی کے بڑوں میں ، ہماری مشرقی تہذیب و روایات کی نمائندگی تو بس سمجھیے کہ تنہا انہی کے دم سے تھی۔ پھر اس اسلامیت و مشرقیت کے ساتھ ساتھ وہ موجودہ زمانے کے دساتیر و قوانین کے رموز و نکات سمجھنے کے معاملہ میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ انہوں نے بحیثیت سپیکر جس قابلیت، جس وقار اور جس فرض شناسی کے ساتھ قومی اسمبلی کی راہنمائی کی ہے وہ ہماری پوری پارلیمانی تاریخ کی سب سے زیادہ روشن بات ہے ۔ ہماری قومی اسمبلی کا جو کچھ حال رہا ہے اور جو کچھ ہے ، ملکی معاملات سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اس سے بے خبر نہیں رہ سکتے یہ ؟صرف مولوی تمیز الدین خان صاحب مرحوم کا کمال تھا کہ انہوں نے کسی نہ کسی حد تک اس کا بھرم قائم رکھا ۔ ان کو پاکستان کے دونوں بازو ئوں میں جو غیر معمولی ہر دلعزیزی حاصل تھی اس میں بلا استثناء کوئی شخص بھی ان کا شریک وسہیم نہیں تھا۔ سیاست کے خارزار میں الجھنے رہنے کے باوجود انہوں نے ایک باہمہ و بے ہمہ زندگی کی ایک نہایت اعلیٰ مثال قائم کی ۔ صوبائی اور علاقائی تعصب کی وبا، جس میں ہمارے اہل سیاست اس وقت عام طورپر مبتلا ہیں ، مولوی صاحب مرحوم اس سے بالکل محفوظ تھے۔وہ قومی و ملکی معاملات کو ایک پاکستانی محب وطن کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے رواداری اور غیر جانبداری کی جو مثال انہوں نے قائم کی وہ ان کے جانشینوں کے لیے ایک روشن مثال ہے ۔ ماہنامہ میثاق لاہور،ستمبر ۱۹۶۳۔‘‘(مقالات اصلاحی ۲/ ۲۲۲)
۱۹۶۲ء میں حمید نظامی جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو امین احسن نے انھیں کچھ اس طرح یاد کیا:
’’حمید نظامی مرحوم تھے تو نئی تعلیم کے ثمرات میں سے، لیکن ان کا شمار ان لوگوں میں کیا جائے گا جو اس تعلیم کے برے اثرات سے محفوظ رہے اور جنہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے قوم و ملت کو بڑے فائدے پہنچائے ۔ ان کی صلاحیتیں تحریک پاکستان کے دور میں ابھریں اور اس شان سے ابھریں کہ دیکھتے دیکھتے وہ ایک اخبار نویس کی حیثیت سے پورے ملک کے ذہنوں اور دماغوں پر چھا گئے ۔ انہوں نے سنجیدہ اور بااصول اخبار نویسی کی ایک عمدہ مثال قائم کی اور اس طرح اردو صحافت کی آبرو اتنی بڑھائی کہ جو لوگ اردو اخبارات پڑھنا اپنے لیے کسر شان سمجھتے تھے وہ بھی اردو اخبار پڑھنے لگے۔ ان کی صحافتی زندگی ہر قسم کے نشیب و فراز سے گزری لیکن وہ اپنے اصولوں سے کبھی منحرف نہیں ہوئے۔ ایک زمانہ میں ان کے زور و اثر کا یہ عالم تھا کہ اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ وہ وزارت تو در کنا ر وزارت گری کے مقام تک پہنچ گئے تھے۔ پھر وہ دور آیا کہ ان کے اور ان کے اخبار کے لیے ہر لمحہ خطرہ ہی خطرہ نظر آتا تھا۔ لیکن ان کی سنجیدگی اور توازن اور ان کی جرأت میں کوئی فرق نہ اس حالت سے آیا نہ اس دوسرے حالت سے ! خود مارشل لاء کے دور میں بھی انہوں نے ملک کے حکمرانوں کو جس اخلاص اور جس جرأت کے ساتھ مشورے دیے ہیں اور جس صاف گوئی کے ساتھ قابل تنقید یں کی ہیں اس کی قدر اسلام اور جمہوریت کا ہر قدردان کرے گا اور ہمیشہ کرے گا ۔وہ اس معاملہ میں اسلام اور جمہوریت کے تمام مدعیوں پر بازی لے گئے اور نہایت شاندار بازی لے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان نیکیوں کو قبول فرمائے اور ہمارے ملک کی صحافت کو ان کا نعم البدل عطافرمائے! ماہنامہ میثاق لاہور،مارچ ۱۹۶۲۔‘‘(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۲۱)
تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمدالیاس کے بیٹے اور جانشیں اور امیر تبلیغ جماعت مولانا محمد یوسف کی ۱۹۶۵ء میں وفات ہوئی تو امین احسن نے حسب ذیل الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہارکیا:
’’مولانا مرحوم کو اپنے مقصد زندگی ، تبلیغ دین، سے جو سچا لگائو تھا اس کی مثال مشکل ہی سے مل سکے گی۔ وہ اس معاملے میں اپنے نامورباپ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے سچے جانشین تھے۔ وہ ایک لمحہ بھی اپنے اس مشن سے الگ ہو کر زندگی گزارنا گنا ہ سمجھتے تھے ۔ ان کی تقریروں کے فقرے فقرے سے ان کی طبیعت کا جوش اورعزم ابلتا تھا۔ ان کے وعظ و بیان میں ایسی تاثیر و تسخیر تھی کہ وہ عام آدمیوں کے اندر سے تبلیغ و دعوت کے لیے بے شمار بوڑھوں اور جوانوں کو کھینچ لیتے تھے جو جماعتیں بنا بنا کر اپنے خرچ اور اپنے اہتمام سے اللہ کا کلمہ پہنچانے کے لیے نہ صرف پاکستان و ہندوستان کے شہروں اور دیہاتوں میں بلکہ افریقہ، یورپ، امریکا ، آسٹریلیا ، چین جاپان تک نکل جاتے تھے ۔
رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کا جو سالانہ اجتماع ہوتا ہے ، میں اس میں ایک دوبار شریک ہوا ہوں ۔ اس کے لیے کسی پبلیسٹی کا اہتمام میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اخبارات میں نہ اس کے آغاز کی خبر آتی ہے نہ اختتام کی ۔ لیکن اس قسم کا کوئی اہتمام نہ ہونے کے باوجود ایک دیہات میں ہزاروں آدمی جمع ہوجاتے ہیں ، جن میں صرف ملک ہی کے ہر حصے کے نمائندے نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کے نمائندے اور وفود بھی ہوتے ہیں ۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اس میں صرف عوام ہی نہیں ہوتے بلکہ علماء طلبہ ، جدید تعلیم یافتہ ، تاجر، کاروباری ، ملازمت پیشہ، غرض ہر طبقے کے لوگ ہوتے ہیں اور ان سب کو ایک جنگل میں کھینچ کر جمع کر لینے والی ہستی صرف مولانا مرحوم کی پرکشش ہستی تھی۔ بس ان کا نام سن کر لوگ جمع ہو جاتے تھے اور ان کے وعظوں سے بہتوں کے اند ر تبلیغ دین کے لیے اتنی گرمی پیدا ہوجاتی تھی جو سال بھر ان کو متحرک رکھتی تھی ۔ ایسی بافیض ہستی کا اچانک ہمارے اندر سے یوں اٹھ جانا دینی نقطۂ نظر سے ایک عظیم سانحہ ہے۔ماہنامہ میثاق لاہور، اپریل ۱۹۶۵۔‘‘(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۱۶)
فروری ۱۹۶۲ء میں مولانا احمد علی لاہوری کی وفات ہوئی۔امین احسن نے اس موقع پر لکھا:
’’ان کی زندگی گوشہ نشینی کی زندگی نہیں تھی بلکہ جہاد اور عمل کی زندگی تھی۔ انہوں نے تعلیم و تدریس ، تصنیف وتالیف، وعظ و ارشاد ہر جہت سے اسلام کی خدمت کی اور وفات کے روز تک اسی خدمت میں مصروف رہے۔ حق کے معاملہ میں مداہنت اور مصلحت پرستی کے قائل نہیں تھے۔ اس وجہ سے جوانی اور بڑھاپے دونوں میں قید و بند کے مصائب سے دو چار ہوئے اور مومنانہ عزیمت کے ساتھ ان مصائب کے مقابلہ کی توفیق پائی ۔ ان کی زندگی فقر و درویشی کی زندگی تھی اور ، جہاں تک ہمیں علم ہے، انہوں نے اسی فقرو درویشی کی وراثت اپنے آل و اولاد کی طرف بھی منتقل فرمائی۔ ہمارے نزدیک کسی شخص کے عالم حقانی ہونے کی یہ ایک ایسی شہادت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے ہزاروں لاکھوں مسلمان تلمذ یا بیعت کی نسبت رکھتے تھے جن میں امیر و غریب سب ہی قسم کے لوگ تھے لیکن اس مرجعیت اور مقبولیت کے باوجود وہ اس دنیا سے جس شاندار استغنا ء کے ساتھ دامن جھاڑ کے اٹھے ہیں وہ کم ازکم اس دور دنیا پرستی میں بڑی چیز ہے ۔ بلکہ میں تو اس کو ایک بے مثال چیز قرار دیتا اگر اس وقت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ یاد نہ آگئے ہوتے جو ابھی کل ہی ہم سے رخصت ہوئے ہیں ۔ وہ بھی اپنے اندر سطوت تو فاتحوں کی رکھتے تھے لیکن زندگی انہوں نے قلندروں کی طرح گزاری اور اسی قلندرانہ شان کے ساتھ جان جان آفرین کے سپر د کی۔ماہنامہ میثاق لاہور،مارچ۱۹۶۲۔‘‘(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۱۹ )
دسمبر ۱۹۶۳ء میں مولانا سید دائود غزنوی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔مولانا کی رحلت پر امین احسن نے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا:
’’ مولانا سید داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ایک نامور خانوادۂ علمی و دینی کی نہایت شاندار روایات کے حامل تھے۔ ان کی شخصیت بڑی جاذب و پرکشش تھی۔ علماء کے طبقہ میں جو چند اشخاص دین اور دنیا دونوں پر نگا ہ رکھنے والے تھے، ان میں ان کو ایک امتیاز کا درجہ حاصل تھا۔ ان کے ظرف اور ان کی نگاہ دونوں میں بڑی وسعت تھی۔ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ وہ دل سے خواہاں رہے اور اس سلسلہ کی تمام مساعی میں ہر شخص کی نظر سب سے پہلے علماء کے طبقہ میں انہی کی طرف اٹھتی تھی۔ وہ شروع سے ایک عملی انسان تھے۔ اس وجہ سے مسلمانوں میں جو قومی و مذہبی تحریکیں اٹھیں ان میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ شریک ہوئے اور اس راہ میں جو مصیبتیں پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ جمعیت اہل حدیث کے لیے ان کی حیثیت روح رواں کی تھی ۔ اپنی بھاری بھر کم شخصیت سے انہوں نے ایک بہت بڑے خلا کو بھر رکھا تھا جو اب ان کی وفات کے بعد پھر بشکل خلا ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے، ان کے اعزہ کو صبر جمیل سے نوازے اور ہماری قوم کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے! ماہنامہ میثاق لاہور،دسمبر ۱۹۶۳۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۴۲۶)
شورش کا شمیری صاحب کو لاہور سے ۲۲ ؍ جنوری ۱۹۷۳ء کو امین احسن نے خط میں لکھا:
’’عنا یت نا مہ مو صو ل ہو ا ۔اس حسنِ ظن کر یما نہ کے لئے دل سے شکر گزار ہو ں ۔ اس دوران میں آپ کے خطر نا ک اقدام کے سبب سے بڑی الجھن رہی۔ با ر ہا دل چا ہا کہ عر یضہ لکھ کر اپنا فرضِ خیر خواہی ادا کر وں لیکن لیڈر لو گو ں کو خط لکھتے ہو ئے دل بہت ڈرتا ہے ۔ بہر حا ل بڑی خو شی ہو ئی کہ آپ نے اپنے مخا لفو ں کو خوش ہو نے کا مو قع نہیں دیا ۔ زندگی اللہ کی اما نت ہے۔آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ اس کو ہر داؤں پر لگا دیں ۔
……اس با ت سے بڑی خوشی ہو ئی کہ آپ قرآن کے مطا لعہ کی طر ف متو جہ ہو رہے ہیں ۔ اللہ تعا لیٰ اس ارادہ میں بر کت دے۔ آپ یہ کا م شر وع کر یں تو میں آپ کے لئے ہر نما ز میں دعا کر وں گا کہ اللہ تعا لیٰ آپ کی زبا ن اور آپ کے قلم کو اس خدمت میں لگا دے ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۲۶)
امین احسن صدر ایوب خان کے بارے میں اپنی راے کا اظہار کرتے ہوئے ایک اداریے میں لکھتے ہیں :
’’صدر ایوب خان مرحوم نے ایک مرتبہ گورنر ہائوس میں بلوایا تو ان کے چہرے بشرے سے بھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ حکمران ہیں ۔ان کی خاکساری اور تواضع میں بھی حکمرانی جھلکتی تھی اور میرے نزدیک یہ کوئی عیب کی بات نہیں بعض لوگوں میں مصنوعی تواضع بھی ہوتی ہے یعنی تواضع کا اظہار کرتے ہیں But with greater pride ۔جس طرح ایک فلسفی کسی بادشاہ کے دربار میں گئے تو نہایت قیمتی قالینوں پر اپنا میلا جوتا ر گڑنے لگے۔بادشاہ نے پوچھا ، بزرگوار، یہ کیا حرکت ہے ، انہوں نے جواب دیا: اس طرح میں تیرے غرور کو پامال کررہا ہوں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اکتوبر ۱۹۸۸ء، ۵)
۲۵؍ نومبر ۱۹۸۹ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں امین احسن نے صدر ایوب خان کی ظاہری شخصیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:
’’شخصیت کے اعتبار سے ان کا احترام اس لیے کرتا تھا کہ جب سربراہان مملکت کی تصویریں آتی تھیں تو میں دیکھ کرکے خوش ہوتا تھا ۔بڑا جلال، بڑی تمکنت تھی ان میں ۔ حکمران ہو تو ایسا ہو۔‘‘
پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم چودھری محمد علی کے بارے میں امین احسن ایک اداریے میں لکھتے ہیں :
’’مجھے حکمرانوں سے کبھی راہ ورسم نہیں رہی۔ البتہ اس ملک کے ایوانِ وزارت اور ایوانِ صدارت میں جو لوگ پہنچے ان میں چودھری محمد علی صاحب سے میرے بھی تعلقات تھے۔ وہ بہت فرشتہ آدمی تھے لیکن ان کے بارے میں وہی بات کہی جاسکتی ہے جو شاہ ولی اللہؒ نے حضرت علیؓ کے بارے میں لکھی ہے کہ جناب امیر ؓ خلیفہ راشد ضرور تھے لیکن آنجناب کی خلافت منعقد نہیں ہوئی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اکتوبر ۱۹۸۸ء، ۵)
لاہور سے ۱۶ ؍فروری ۱۹۶۷ء کو محمود احمد لودھی صاحب کے نام خط میں امین احسن نے مولانا عبدالماجد دریا با دی کے حوالے سے لکھا:
’’تفسیرکے متعلق ادھر بعض بزرگوں کی رائیں بھی مو صول ہوئی ہیں اور بغیر میر ی طرف سے کسی تحریک کے ان میں مو لا نا عبدالما جد دریا با دی کی رائے بھی ہے۔ مجھے ان سے اس تحسین کی تو قع نہیں تھی جو انہوں نے فرمائی ہے ۔ ان لوگوں کی ان رایوں کے بعد اب طبیعت تفسیر کے لئے بالکل یکسو ہو گئی ہے ۔ما جد میاں نے تو اس کو اسلاف کے کا مو ں کی صف میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ سعا دت تمہارے ہی لئے مخصوص تھی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۸)
اسی طرح ۲۲ ؍فروری ۱۹۸۲ء کو محمد احسن خان کے نام خط میں امین احسن نے لکھا:
’’ما جد صا حب کی کتا ب پڑھنے کا شو ق آپ نے پیدا کر دیا ۔ دیکھئے کہیں مل گئی تو پڑھنے کی کو شش کرو ں گا ۔ اس طر ح کی چیز یں آپ کے واسطہ سے مجھے ملتی تھیں ۔ اب یہاں کوئی ایسا نہیں ہے جو میر ی خاطر یہ اہتما م کرے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۲۹)
۳۱ ؍جولائی ۱۹۶۶ء کو لاہور سے محمود احمد لودھی صاحب کے نام خط میں امین احسن سید قطب اور اخوان کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’اخوان کے متعلق پہلے میر ی رائے اچھی تھی لیکن اب تو وہ شا ہ فیصل کے آلۂ کا ر ہیں ۔ رابطہ اسلا می وغیرہ کے پر دے میں ان کا کا م صرف جما ل عبد النا صر کے خلاف پرو پیگنڈا کر نا رہ گیا ہے۔ اور ظا ہر ہے کہ اس طر ح کی کسی جما عت کو کو ئی حکو مت بھی بر داشت نہیں کرسکتی۔ جنیوا میں ان کا مر کز سو فیصدی شاہ فیصل کے روپے سے چل رہا ہے ۔دین کی مدعی جماعتیں جب یہ کھیل کھیلنے لگتی ہیں تو ان کا انجام نہا یت خو ف نا ک ہو تا ہے۔ یہ نہ خیا ل فر ما ئیے کہ یہ جو کچھ میں عر ض کر رہا ہوں کسی بدگما نی پر مبنی ہے بلکہ اب تو سا رے حا لا ت ریکا رڈ پر آچکے ہیں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۱)
۲۹ ؍اگست ۱۹۶۶ء کو لاہور سے محمود احمد لودھی صاحب کے نام خط میں اسی ضمن میں مزیدلکھتے ہیں :
’’اخوان اور مصر کے با رے میں مجھے کچھ زیا دہ معلو ما ت نہیں ۔ یہاں جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کی نو عیت زیا دہ تر پرو پیگنڈے کی ہے ۔ مصر میں میں اخوان کی قوت اب بہر حا ل اتنی نہیں ہو سکتی کہ اس سے لڑنے کے لیے جما ل عبد النا صر خواہ مخواہ کا درد سر مو ل لیں ۔ البتہ با ہر کے اخوان کے سا تھ ان کا ربط ان کے لیے وجۂ بد گما نی اور با عث ِمصیبت ہو سکتا ہے مجھے اچھی طرح علم ہے کہ سعید رمضا ن اور شاہ فیصل کے زیر اثر اور ان کے روپے سے کا م کر رہے ۔ یہی لوگ مصر کے اخوان کے لیے وجۂ ابتلا بنے ہو ں گے۔ با ہر کے مما لک سے ادنیٰ ربط بلکہ اس کا وہم بھی بڑے خطرات کا با عث ہو سکتا ہے ، با لخصو ص جبکہ با ہم رقا بت ہو۔ حکو متیں اس طر ح کے معا ملا ت میں بڑی حسا س ہو تی ہیں ۔ ع
عشق است و ہزار بدگمانی!‘‘
(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۲)
محمود احمد لودھی صاحب کے نام ایک اور خط میں امین احسن نے لکھا:
’’بھا ئی ، آج اخبارات میں سید قطب اور ان کے سا تھیوں کو پھا نسی دیے جا نے کی خبر پڑھ کر جو صدمہ پہنچا ہے وہ الفا ظ میں بیا ن نہیں ہو سکتا ۔یہ حر کت صر ف وہی لو گ کر سکتے ہیں جن کے دل شیطا ن کی مٹھی میں ہو ں اور جو نہایت کمینے اور بزدل ہوں ۔ اللہ تعا لیٰ مصر کے مسلمان پر رحم کر ے جو پھر فر عون کے پنجے میں گر فتار ہو گئے ہیں ۔ اس اقدام ِشنیع کے لیے کو ئی ادنیٰ جو از بھی تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ جس دنیا پرایسے قسی القلب اور تنگ ظرف لو گ حکمران ہو ں اس میں جینے سے زیرِ زمین دفن ہو جا نا بہتر ہے۔ آج میرے اعصا ب پر نہایت برا اثر ہے اللہ کے سوااس ظلم کی فریا د کس سے کی جا سکتی ہے!‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۲)
سعودی عرب کے شاہ فیصل کو ۶۸ برس کی عمر میں ۲۵ ؍مارچ ۱۹۷۵ء کو ان کے بھتیجے نے شہید کر دیا تھا۔وہ مسلمان ممالک کے رہنماؤں میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ امین احسن نے جنرل ضیاء الحق کی وفات پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے شاہ فیصل کے بارے میں لکھا:
’’مسلمان حکمرانوں میں شاہ فیصل مرحوم کا ایک بین الملی مقام تھا۔ان کی پیشانی کی شکنیں ملت کے افکار کی شکنیں تھیں ۔وہ بڑے مدبراور مسلمان ممالک کے سرپنچ کی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اکتوبر ۱۹۸۸ء، ۸)
۹؍ اگست ۱۹۹۰ء کواپنی ہفتہ وار نشست میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے کہا:
’’ جہاں تک مقدمے کا تعلق تھا، میں اس میں بھٹو صاحب کا بہت حامی تھا ۔ مشتاق حسین سے بڑا دشمن اس ملک کا کوئی پیدا نہیں ہو گا۔ بدترین جج ہے یہ۔ اور ضیاء صاحب پر بھی غصے ہوتا تھا کہ آخر یہ دیکھتے ہیں ،جانتے بوجھتے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے بڑی افسوس ناک بات کیا ہے۔ اور مجھے پورا یقین تھا کہ اب ہمارے درمیان اور سندھ کے درمیان دشمنی کی مستقل بنیاد قائم ہو جائے گی۔ پھر جس کو ڈھانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس وجہ سے میں اس زمانے میں بہت تشویش میں مبتلا تھااور مجھے یاد ہے کہ میں دروازے سے نکل رہا تھا کہ کسی نے اطلاع کی کہ بھٹو صاحب کو جو آخری کارروائی ہوتی ہے وہ منظور نہیں ہوئی ، اب پھانسی کا فیصلہ ہو گیا۔ تو میرا ایسا حال ہوا کہ لڑکھڑا کے گر پڑوں گا۔‘‘
جنرل ضیاء الحق جب ایک ہوائی حادثے میں اچانک دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تو امین احسن نے ان پر حسب ذیل تفصیلی تحریر لکھی:
’’صدر مملکت جنر ل محمد ضیا ء الحق شہید رحمۃ اللہ علیہ اور افواجِ پاکستان کے چیدہ جرنیلوں اور افسروں کی بہاولپور کے قریب ہوائی حادثہ میں رحلت ہمارے لیے ایک عظیم قومی سانحہ ہے۔ یہ سب اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے ہوئے ایک اچانک موت سے دوچار ہوئے۔ اس خاص صورت حال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا مرتبہ عطا فرمایا۔ ان سب کے لئے تو یہ بہت بڑی سرفرازی ہے لیکن ہمارے ملک میں ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیسے بھرے گا۔اللہ تعالیٰ بہت بڑے شر سے بھی خیرپیدا کر دیتا ہے۔ اگر وہ ہمارے اوپر مہربان ہوجائے تو عجب نہیں کہ اس سانحہ سے بھی ہماری قوم کے لیے بہتری کے کچھ آثار پیدا ہو جائیں ۔
یوں تو ان تمام شہداء میں سے ایک ایک فرد ہماری قوم کے لیے نہایت قیمتی تھا لیکن صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کا اس حادثہ میں جاں بحق ہو جانا بو جوہ نہایت صدمہ کی بات ہے ۔ وہ گیارہ سال سے اس ملک کے حکمران تھے۔ ملکی معاملات ان کی گرفت میں تھے اوربعض بین الاقوامی معاملات کی وہ بذاتِ خود نگرانی کر رہے تھے۔ منظر سے ان کایک لخت ہٹ جانا ملک کو کئی پیچیدہ مسائل سے دو چار کر سکتا ہے۔ خدا کرے کہ ان کی رحلت کے باعث جو خلا پیدا ہوا ہے ہماری قوم اس کو پُر کرنے کی توفیق پائے۔
ضیاء صاحب کو قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع نہیں ملا بلکہ پہلے کبھی ان سے شنا سائی بھی نہیں رہی۔میں ان کی زندگی کے اسی دورسے واقف ہوں جب وہ اس ملک کے حکمرانِ مطلق تھے اور کوئی ان کے حکم کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ حکمران بھی وہ کسی چھوٹے ملک کے نہیں بلکہ ایک بڑے ملک کے تھے جو دنیا کے جغرافیے میں ایک بڑا مقام رکھتا ہے۔ دورِ حکمرانی بحیثیت انسان کسی آدمی کے امتحان کے لیے فی الحقیقت موزوں ہوتا ہے۔ ہما شماغریب لوگوں کے اندر انسانیت ، خاکساری اور تواضع ہو تو لوگ بجا طور پر اسے عصمت بی بی از بے چادری پر محمول کرتے ہیں ۔ معمولی لیڈروں کو میں نے دیکھا ہے کہ کچھ آدمی ان کے پیچھے چلنے والے اور ان کا کلمہ پڑھنے والے مل جائیں تو ان کی بھویں تن جاتی ہیں ، پیشانی پر شکن آجاتی ہے۔ چہرے پر عبوست طاری ہوجاتی ہے، چال میں کچھ تبختر آجاتا ہے ، گھر سے نکلتے ہیں تو نہ جانے کتنی بار آئینہ دیکھتے ہیں ۔نئے لوگوں سے ملنے کا امکان ہو تو بڑے رکھ رکھائو سے کام لیتے ہیں ۔اس کے برعکس ضیاء صاحب کو میں نے خو د بھی دیکھا ہے ،اس کے علاوہ لوگوں سے سن کر اور اخباروں میں ان کے واقعات پڑھ کر میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ ان کے اند بے مثال انسانیت تھی۔وہ نہایت بے تکلف انسان تھے جس سے ملتے بڑی تواضع ، بڑی ملنساری ، بڑی سادگی اورنہایت بے تکلفی سے ملتے۔ کوئی شخص ان سے با ت کرتے ہوئے ذرا بھی حجاب محسوس نہیں کرتاتھا۔وہ ہر بات حتیٰ کہ اعتراض کا جواب بھی مسکرا کر اور کھلکھلاتے ہوئے دیتے ۔ کسی طرف یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ ملک کے حکمران ہیں ۔میرا خیا ل تو یہ ہے کہ اگر ان کی آئینی مجبوریاں اور پروٹو کول اور سیکورٹی کے تقاضے نہ ہوتے تووہ قرونِ اولیٰ کے بادشاہوں کی طرح سڑکوں پر بھی پھرتے۔
پچھلے سال جب انہوں نے مجھ سے ملاقات کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی ۔ایک جنرل صاحب ان کا پیغام لے کر آئے تو میں نے ان سے کہاکہ میں کہیں آتا جاتا نہیں اور اگرصدر صاحب سے ملاقات ہو بھی گئی تو مجھ جیسے بہرے آدمی سے وہ بات کیا کریں گے۔
میرے اس کورے جواب کو محسوس کرنے کے بجائے انہوں نے پیغام بھیجا کہ اگر ضرورت ہو تو علاج کے لیے ڈاکٹر اور کان میں لگانے کے لیے آلۂ سماعت بھیج دیا جائے۔نیز ملاقات کے لیے میرے اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، صدر صاحب جب لاہور آئیں گے تو خود مل لیں گے۔ میں نے سمجھا کہ بات آئی گئی ہوچکی ہے۔ لیکن وہ نہیں بھولے تھے۔جب لاہور آئے تو مجھے ملنے کے لیے میرے مکان پر تشریف لائے ۔ان کے آنے میں تو بلاشبہ وہی شان شکوہ تھا جو موجودہ زمانے کا تقاضا ہے لیکن جب وہ گاڑی سے اترے تونہایت بے تکلفی سے ملے۔ میں نے صرف مصافحہ کرنا چاہا لیکن انہوں نے بڑی محبت سے سینے سے لگایا۔ گفتگو کے دوران بار بار اس بات کا اظہار فرماتے رہے کہ ایک عرصہ سے ملاقات کا شوق تھا،میں ہرگز کسی غرض کے لیے یہاں نہیں آیا۔میں نے کہا یہ غرض بھی تو ہوسکتی ہے کہ آپ ایک طالب علم کی عزت بڑھانا چاہتے ہوں ۔
جاتے ہوئے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا۔ میں نے کہاآپ جب بھی تشریف لائیں گے میری عزت ہی بڑھے گی، اس میں میرا تو کوئی نقصان نہیں ۔اس ملاقات کے بعد بالواسطہ خیریت دریافت کرتے رہے لیکن ملنے کا موقع نہیں ملا۔
ضیاء صاحب ،واقعہ یہ ہے کہ بادشاہ بھی تھے اور اس کے ساتھ ان کے اندر کمال درجہ انسانیت بھی تھی۔غریب اور بیوہ عورتیں ان تک پہنچ جاتیں ۔مظلوم لوگ ان تک رسائی حاصل کرلیتے۔راستہ چلتے ہوئے کوئی شخص درخواست لے کر کھڑا ہوا نظرآجاتاتو اپنی کار روک کر اس سے بات کرتے۔غریبوں کا دردان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ غریب خاندان سے آئے تھے۔کتنے لوگ ہیں جو غریب ہوتے ہیں لیکن انھیں غریبوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ضیاء صاحب بنفسہٖ شریف اور ہمدرد انسان تھے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اکتوبر ۱۹۸۸ء، ۳)
۲۸ ؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کی بات ہے۔اپنی ہفتہ وار نشست میں اسی جنرل ضیاء الحق کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن گویا ہوئے:
’’ اس ملک میں اعلیٰ قیادت کے مقام پر یہی ایک شخص ایسا آیا تھا کہ جو جری بھی تھا، علی الاعلان مسلمان تھا۔ علانیہ ،مخفی مسلمان تو بہت تھے۔ علی الاعلان مسلمان تھا۔ اور بہرحال ملک کی باگ اس کے ہاتھ میں دینے میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ بھی گمان ہی تھا کہ وہ اسلام ہی کی طرف لے جائیں گے۔ اور بڑے جری آدمی تھے۔ جری آدمیوں سے مجھے بہت دلچسپی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں بڑا کمزور آدمی ہوں ۔‘‘
اپنی ہفتہ وار نشست میں صوبہ سندھ کے حالات اور جنرل ضیاء الحق کے انتظام کے بارے میں بات چیت کر تے ہوئے امین احسن نے کہا:
’’ آپ کو یہ معلوم ہے کہ سندھ کا معاملہ بالکل خطرے میں تھا۔ سب مایوس ہو گئے تھے۔ ضیاء صاحب مرحوم نے بھی کہہ دیا تھاکہ کوئی حکومت بھی اس کو نہیں سنبھال سکتی۔ بلکہ میں تو اس کے بعد اتنا مایوس ہوا تھا کہ میں نے کہا کہ جب ہمارا شیر دل یہ کہہ رہا ہے جو راتوں رات الٹ پلٹ کر کے دنیا ادھر سے ادھر کر دیتا ہے پھر تو اس کے بعد کیا توقع ہے۔ لیکن واقعہ ہے کہ میں نے کئی آدمیوں سے پوچھا تو یہ معلوم ہوا کہ اس شیر دل نے سندھ میں ایسا انتظام کر دیا ہے کہ حیدر آباد میں بھی اور کراچی میں بھی اندرون سندھ میں ، پورے ملک میں سرحدوں پر بھی کہ لوگ کہتے ہیں کہ اب آسان نہیں ہے کوئی فساد کرنا۔ ڈاکوئوں کا بھی راستہ روک لیا ہے بالکل۔ سعید(بیٹا) کے لفظوں میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ میدان جنگ ہے۔ ہر جگہ مورچے بنا دیے۔ یہی ایک طریقہ ہو سکتا تھا۔۔ تو میں یہ کہتا ہوں کہ اس کا تو امکان ہو سکتا تھا۔ اگر وہ ہو جائے تو میرے نزدیک وہی علاج ہے۔ ‘‘
ابوسفیان اصلاحی ، جنرل ضیاء الحق کے بارے میں امین احسن کے ساتھ اپنی گفتگو کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ مولانا نے گفتگو کے درمیان بتایا کہ اسی جگہ صدر مرحوم ضیاء الحق تشریف لائے تھے اور انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ہم لوگوں کی خواہش ہے کہ آپ ہفتہ میں کسی ایک دن ٹی وی پر درس قرآن دیا کریں ۔ میں نے جواب دیا کہ میرے درس کے بعد رقص کا سلسلہ شروع ہو ، میں ایسا درس دینے سے قاصر ہوں ۔ ضیاء الحق صاحب کے مطالعہ میں ’’تدبر قرآن‘‘ مستقل رہاکرتی تھی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ ء، ۸۸)
لاہور سے ۸ ؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو حمید الرحمن صاحب کو امین احسن کوثر نیازی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’کو ثر صا حب کی کتا ب میر ی نظر سے نہیں گزری ہے اس وجہ سے اس کی با بت میں کچھ نہیں عر ض کر سکتا کہ اس میں میر ی طر ف جو با ت منسو ب کی گئی ہے وہ صحیح ہے یا غلط اور میرے لیے یہ محا کمہ بھی مشکل ہے کہ مو لا نا مو دودی صا حب حق پر ہیں یاکو ثر صا حب ۔میر ی وا قفیت اب ان دو نو ں ہی حضر ا ت سے محض بر ائے نا م ہے اورجس حد تک ہے وہ نہا یت ما یو س کن ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۶۶)
عبد الرزاق صاحب اپنی ۲۵؍ مارچ ۱۹۹۴ء ڈائری میں لکھتے ہیں :
’’مو لا نا نے کہا کہ انھیں کو ثر نیا زی صا حب کو وفا ت کا بڑا دکھ ہوا ہے۔ انہوں نے کو ثر نیازی کی تعریف کی اور کہا کہ کچھ معا ملا ت میں ہم میں اختلاف بھی رہے مگر میں نے اس سے تعلقات نہیں توڑے ۔ کو ثر نیا زی بھی جب مجھے ملتے ، ادب و احترام ہی سے ملتے تھے۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۸)
کوثر نیازی صاحب نے جماعت اسلامی سے کیا سیکھا؟ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا:
’’سیکھا میں نے ضرور ان سے ، مولانااصلاحی سے بہت سیکھا۔جب ہم جیل میں تھے ، سات آٹھ ماہ ، قرآن حکیم ان سے پڑھا، حجۃ البالغہ کا درس دیتے تھے۔حضرت مولانا اصلاحی صاحب۔ مولانا کے درس میں ، میں بالالتزام شریک رہا ، …یہی ہم سنتے تھے،پڑھتے ہیں کہ فلاں فلاں کے درس میں کوئی اتنے سال بیٹھاتویہ شاگردی کا ایک انداز ہے ۔‘‘(مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مرتب :احمد منیر، ۱۱۴)